متفرق مضامین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روزے سے محبت

(امۃ الباری ناصر)

(امۃالباری ناصر)

روزہ اطاعتِ الٰہی کی ایک مشق ہے۔ اپنی ضروریات، خواہشات، توجہات کو رضائے الٰہی کے ماتحت کرنے کے لئے نفس کا مجاہدہ ہے ۔ قربانی کا حوصلہ ہے۔ گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے ڈھال ہے۔نفس کی پاکیزگی کے لئے ہمہ وقت تسبیح، تحمید، ذکر الٰہی، نوافل، نماز، تہجد اور تلاوتِ قرآن کی ترغیب ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ، صدقہ وخیرات کا تعامل ہے ۔ شر سے حفاظت اور خیر کے حصول کی ضمانت ہے۔ اور کھانے میں اعتدال اور کمی سے روحانیت اور ملائک جیسی خصوصیات کا تعارف ہے۔ کماحقّہٗ روزے رکھنا بفضل الٰہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے۔

سید المرسلین ﷺ روحانیت کی ہر راہ کے رہبرِ کامل ہیں۔ آپؐ پر تزکیہ نفس کے لئے جو بھی احکام الٰہی نازل ہوتے پہلے آپؐ خود ا س پر تمام تر باریکیوں کے ساتھ عمل فرماتے۔ آپ ؐ کا اسوۂ حسنہ اصولی اور عملی تعلیم کا کامل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا

’’ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے اپنی سنت کے ذریعے اس کے قیام کا طریق بتادیا ہے۔ پس جو شخص حالتِ ایمان میں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا اور قیام کرے گا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جیسے اس کی والدہ نے اسے جنم دیا تھا‘‘۔

( سنن نسائی کتاب الصوم حدیث نمبر 2180)

آ پؐ کو اس عبادت سے اس قدر شغف تھا کہ خاص اہتمام سے کثرت سے روزے رکھتے ۔نبوت کے بعد مکّہ میں جبکہ ابھی روزے کی فرضیت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپ ؐ کئی مہینوں تک مسلسل روزے رکھتے رہے۔ روزے رکھتے تو لگتا اب کبھی ناغہ نہیں کریں گے۔ پھر روزہ چھوڑ دیتے تو لگتا کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔

( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر 1073)

فرضیت کے بعد رمضان کے علاوہ شعبان کے مہینے میں بھی اکثر روزے رکھتے۔

(بخاری کتاب الصوم 1834)

مہینے کے نصف اوّل میں اکثر روزے رکھتے اور مہینے میں تین دن معمولاََ روزہ رکھتے۔ بالعموم مہینے کے پہلے سوموار اور پھر اگلے دونوں جمعرات کے دن روزہ رکھتے۔

( مسلم کتاب الصیام حدیث نمبر 1972)

آپ ﷺ فرماتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔

( ترمذی باب الصیام )

اس کے علاوہ محرّم کے دس اور شوال کے چھ روزے بھی رکھتے۔ روزے اس طرح بھی رکھتے کہ گھر تشریف لاتے اگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو روزہ کی نیت کرلیتے۔

( ترمذی باب الصیام )

آنحضرت ﷺ روزہ رکھنا اس قدر پسند فرماتے تھے کہ بعض اوقات بغیر سحری کھائے روزے کی نیت فرمالیتے اور کئی دن تک یہی تسلسل رہتا مگر دوسروں کو اس طرح وِصال کے روزے رکھنے کی ازراہ شفقت اجازت نہ دیتے۔ اس کی جو وجہ بیان فرمائی وہ آپؐ کے اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کا بہت حسین اظہار ہے آپؐ نے فرمایا

’’میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں۔ میں رات ایسی حالت میں گزارتا ہوںکہ میرے لئے ایک کھلانے والا ہوتا ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا ہوتا ہے جو مجھے پلاتا ہے۔‘ ‘

(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر1963)

روزوں میں معمولات کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ

’’ نبی ﷺ نیکی میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ اور رمضان میں بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ جب حضرت جبرئیل ؑ آپؐ سے ملتے اور حضرت جبرئیل ؑ رمضان کی ہر رات آپؐ سے ملاقات کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا نبی ﷺ قرآن کا دور کرتے۔ جب حضرت جبرئیل ؑ آپؐ سے ملتے تو آپ ؐ نیکی میں تازہ چلنے والی ہوا سے بھی تیز ہوتے‘‘۔

(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر ۱۹۰۲ )

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’رمضان کے مہینے میں آپؐ کثرت سے قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے ۔ حضرت جبرئیل کے ساتھ ہر ماہ قرآن کریم کی دہرائی فرماتے وفات سے قبل آخری رمضان میں آپؐ نے دو بار قرآنِ کریم دہرایا‘‘-

( بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام )

روزہ رکھنے کے شوق اور اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ غیرمعمولی صحت، ہمت و طاقت اور برداشت کے باوجود رضائے الٰہی میں جب روزہ چھوڑنے کا حکم ہوتا تو اس پر عمل فرماتے یہ سمجھانے کے لئے کہ ثواب اطاعت میں ہے آپؐ سفرمیں روزہ نہ رکھتے سب کے سامنے کچھ کھانے پینے سے اطاعت کا عملی درس دیتے ۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے تو آپؐ نے روزہ رکھا یہاں تا کہ آپ ؐ عسفان پہنچے تو پھر پانی منگوایا اور آپؐ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں۔ پھر آپؐ نے روزہ کھول دیا اور اسی حالتِ افطار میں مکہ پہنچ گئے۔ اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا…۔‘‘

(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر 1948)

حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں

’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت ﷺ کمر ہمت کس لیتے۔ بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے خود بھی عبادت کرتے اہلِ بیت کو بھی جگاتے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور آپؐ کا یہی معمول وفات تک رہا‘‘۔

(بخاری کتاب الصلوٰۃ التراویح حدیث 1884)

اس سراج منیر سے روشن ہونے والے بدرِ کامل حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہد ئ معہود علیہ السلام نے قرآنی احکام اور سنتِ رسول ﷺ کو سب سے زیادہ سمجھا اور اسلام کے دور آخریں میں اسلام کا،مرور زمانہ سے در آنے والے رطب و یابس سے مبرّا، اصلی حسین چہرہ خود عمل کرکے دکھایا۔ قرب الٰہی کی راہوں کے متلاشی روزوں کی عبادت کی قبولیت سے خوب واقف تھے۔ فرماتے ہیں

’’یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلّیٔ قلب کرتا ہے۔تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امّارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلّیٔ قلب سے مراد یہ ہے کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے ‘‘ ۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 561-562)

آپؑ نے وہ نقوشِ قدم پا لئے تھے جو سیدھے یار کے کوچے میں لے جاتے ہیں۔ارشاد فرمایا

’’آنحضرت ﷺرمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیال سے فارغ ہوکر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کرکے تبتّل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے‘‘۔

(تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ 20-21)

وہی مسلسل روزے رکھنے کا انداز، کھانے پینے کے خیال سے فارغ، ہمہ تن درگہ مولا کریم و رحیم پر جھکے ہوئے۔

مکرم مولانا دوست محمد صاحب مورخِ احمدیت تحریر کرتے ہیں

’’جوانی کے عالم میں ایک دفعہ مسلسل آٹھ نَو ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ خوراک کو اس قدر کم کردیاکہ دن رات میں چند تولہ سے زیادہ نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا کے فضل سے اپنے نفس پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ اگر کبھی فاقہ کرنا پڑے تو قبل اس کے کہ مجھے ذرا بھی اضطراب ہو ایک موٹا تازہ شخص اپنی جان کھو بیٹھے ۔بڑھا پے میں بھی جب کہ صحت کی خرابی اور عمر کے طبعی تقاضے اورکام کے بھاری بوجھ نے گویا جسمانی طاقتوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ روزے کے ساتھ خاص محبت تھی۔اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے اور دن کے دوران میں ضعف سے مغلوب ہوکر جبکہ قریباََ غشی کی سی حالت ہونے لگتی تھی خدائی حکم کے ماتحت روزہ چھوڑ دیتے تھے مگر جب دوسرا دن آتا تو پھر روزہ رکھ لیتے‘‘-

( تاریخ احمدیت جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 384)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس طرح کا مجاہدہ بتوفیقِ الٰہی بھرپور ہمت سے کرسکے مگر عام طور پر اس طرح کے مجاہدوں سے منع فرماتے۔ حضرت میر محمد اسماعیلؓ تحریر فرماتے ہیں

’’آپ ؑ نے اوائل عمر میںگوشۂ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقع پر متواتر چھ ماہ تک روزے منشائے الٰہی سے رکھے اور خوراک آپ کی صرف نصف روٹی یاکم روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی۔اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دے دیا کرتے تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو۔ مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپؑ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے‘‘۔

( مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ صفحہ544 )

حضرت اُمّ المومنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم ؓ روایت فرماتی ہیں

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانے میں مجھے معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا ۔۔۔آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے خصوصاََ شوال کے چھ ر وزے آپ التزام سے رکھتے تھے اور جب آپ کو کسی خاص مقصد سے دعا کرنی ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔ہاں مگر آخری دوتین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 14)

روزوں سے اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوئی آپؑ فرماتے ہیں

’’ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں اور یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان تک جاتے تھے یا میرے قلب سے ۔لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا ‘‘۔

( ملفوظات جلد 2 صفحہ 562)

’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جائوں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔یہ مبارک دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں‘‘۔

( الحکم 24 فروری 1901ء صفحہ 14)

شعائر اسلام کی پابندی کرانے کے لئے آپؑ بہت موثر انداز میں تلقین فرماتے۔ ایک مسافر جو قریباََ عصر کے وقت قادیان پہنچے تھے حضور اقدس ؑ نے روزہ کھول دینے کا ارشاد فرمایا مگر ان کی ہچکچاہٹ دیکھ کر آپؑ نے فرمایا

’’آپ سینہ زوری سے خداتعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیںبلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہئے‘‘۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 97)

آپؑ کی تحریروں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت، تاکید، آداب، مسائل، اجروثواب کے بارے میں ہر جہت سے تعلیم موجود ہے۔دعا ہے کہ ہم اس بابرکت عبادت کو اپنے محبوبوں کے انداز میں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں ۔ آمین اللھم آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button