افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ یو کے سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍ جولائی 2004ء

اللہ تعالیٰ نے تو اپنے مہدی اور مسیح موعود کی جماعت کو اس دور میں نمونے بنا کر پیش کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے اس جماعت کے ساتھ وہی منسوب ہوں گے جن کی تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور جو اس کوشش میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں۔

یہ نہ سمجھ لو کہ ہم نے نمازیں پڑھ لیں، روزے رکھ لئے، اجلاسوں میں، جلسوں میں، اجتماعوں میں شامل ہو گئے، ڈیوٹیاں دے دیں اور جماعت کا تھوڑا سا کام کر لیا تو ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا لانے والے ہو گئے۔ نہیں۔ بلکہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی کامل اطاعت کرو۔ اس کے کامل اطاعت گزار بننے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو دو۔ جب اس طرز پر اپنے عمل دکھا رہے ہوں گے تو تب ہی آپ تقویٰ پر چلنے والے سمجھے جائیں گے۔

صبر اور صلوٰۃ سے کام لینے، بدظنی، تجسّس اور غیبت سے بچنے، باہمی جھگڑوں سے احتراز اور صلح و صفائی کے ساتھ رہنے، ایک دوسرے کی جان، مال اور عزتوں کی حفاظت کرنے، فخر و تکبر اور غرور سے بچنے، عہدوں کو پورا کرنے، قول سدید کو اختیار کرنے اور جھوٹ سے اجتناب وغیرہ معاشرتی امور سے متعلق قرآن مجید و احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نہایت اہم نصائح۔

بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ہر نصیحت پر جو جماعت کو کی جاتی ہے اس کو اپنے پر لاگو کرنے کے بجائے یہی کہتے ہیں کہ دیکھو جی بڑا اچھا خطبہ تھا یا بڑی اچھی بات کی۔ فلاں کو اس کے مطابق اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اور اپنی طرف سے آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ اپنی برائیوں کو دیکھ نہیں رہے ہوتے۔ تو یہ بھی تقویٰ سے ہٹی ہوئی باتیں ہیں۔

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر30؍جولائی2004ء بروز جمعۃ المبارکسیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسلام آباد(ٹلفورڈ) میں افتتاحی خطاب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اِتّقاء ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

اس شعر کا جب پہلا مصرعہ آپ نے کہا تو دوسرا مصرع اس طرح الہام ہوا کہ ’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘ ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 48۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اے مسیح موعود کی جماعت تم جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی تو یاد رکھو تمہارے یہ دعوے تبھی سچے ثابت ہو سکتے ہیں جب تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو کیونکہ اگر تقویٰ نہیں تو تمہارے یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ جس دعویٰ کا تم اظہار کر رہے ہو کہ ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اس کی بنیاد ہی نہیں ہے۔ تقویٰ کے بغیر تو تمہارا یہ درخت بغیر جڑوں کے ہے، ایسا درخت ہے جس کی جڑوں کو بیماریوں نے کھوکھلا کر دیا ہے اور نقصان پہنچایا ہے اور ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی اس کو زمین پر گرا سکتا ہے۔ کیونکہ جن درختوں کی جڑیں کمزور ہوں جب ذرا سی تیز ہوا چلتی ہے تو بظاہر بڑے بڑے مضبوط تناور درخت نظر آتے ہیں لیکن زمین پر آپڑتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو اپنے مہدی اور مسیح موعود کی جماعت کو اس دور میں نمونے بنا کر پیش کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے اس جماعت کے ساتھ وہی منسوب ہوں گے جن کی تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور جو اس کوشش میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ ہمیں اس بارے میں تفصیلی احکامات فرمائے ہیں اور اکثریت ایسے احکامات کی ہے جو معاشرے میں ایک دوسرے کے جذبات کے خیال رکھنے اور حسن سلوک کے بارے میں ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھ لو کہ ہم نے نمازیں پڑھ لیں، روزے رکھ لئے، اجلاسوں میں، جلسوں میں، اجتماعوں میں شامل ہو گئے، ڈیوٹیاں دے دیں اور جماعت کا تھوڑا سا کام کر لیا تو ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا لانے والے ہو گئے۔ فرمایا نہیں۔ بلکہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی کامل اطاعت کرو۔ اس کے کامل اطاعت گزار بننے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو دو۔ جب اس طرز پر اپنے عمل دکھا رہے ہوں گے تو تب ہی آپ تقویٰ پر چلنے والے سمجھے جائیں گے۔ تبھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ میرے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تبھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ تمہارے تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہیں اور تبھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ تم ان راستوں پر چل کر جو میری طرف لانے کے راستے ہیں، ان احکامات پر عمل کر کے جو میری طرف سے دئیے گئے ہیں تم اپنی زندگی سنوارنے کی کوشش کر رہے ہو اور اس مسیح موعود کی جماعت میں رہنے کے حقدار ہو۔

فرماتا ہے کہ وَاِنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(الانعام154:)کہ یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو اور مختلف راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس رستہ سے ہٹا دیں گی۔ یہ ہے وہ جس کی وہ تمہیں تاکیدی نصیحت کرتا ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

تو جیسا کہ فرمایا کہ کیونکہ شیطان یا اس کے چیلے ہر وقت بہکاتے رہتے ہیں اس لئے میری پناہ میں رہتے ہوئے، میری مدد مانگتے ہوئے، میری عبادت بجا لاؤ اور معاشرے میں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کے جو مَیں نے راستے بتائے ہیں ان پر سختی سے عمل کرو۔ ورنہ لالچ، حرص، ہوس تمہارے دل میں پید اکر کے شیطان تمہیں ورغلانے کی کوشش کرے گا۔

اس سے پہلی آیت میں بھی یہی حکم ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس کی عبادت کرو اور معاشرے کے حق ادا کرو۔ انصاف کرو۔ ماپ تول پورا کرو۔ ہمیشہ حق اور انصاف کی بات کرو۔ یتیموں کا مال نہ کھاؤ وغیرہ۔ تو بہرحال فرمایا کہ یہ میرے راستے ہیں ان پر چل کر ہی مجھ تک پہنچ سکتے ہو اس لئے ہمیشہ کوشش کرو کہ ان پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم اس طرح کرو گے تو نہ صرف یہ کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہو گے بلکہ اپنے ماحول کو بھی خوشگوار بنا رہے ہو گے بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی فائدہ حاصل کر رہے ہو گے۔

اب مَیں چند ایسے احکامات جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ذریعہ بنتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ فرمایا کہ مستقل مزاجی سے میرے آگے جھکے رہو گے تو میری رضا کو حاصل کرنے والے ہو گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃ۔وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخَاشِعِیْنَ (البقرۃ46:)کہ صبر اور نماز کے ساتھ دعا کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔ تو یہاں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہو گے اور اس سے مدد مانگتے رہو گے، اس کے عبادت گزار بندے بنو گے تو پھر ہی اس کی رضا حاصل کرنے والے کہلا سکتے ہو۔ لیکن یاد رکھو ان نیکیوں کو اختیار کرنے کے لئے جن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہے اور معاشرے میں رہن سہن کے حق بھی ہیں تمہیں آزمائشوں سے بھی گزرنا ہو گا۔ معاشرے کی بعض لالچیں تمہیں نیکیاں کرنے سے روکے بھی رکھیں گی یا روکنے کی ترغیب دیں گی، لالچ دیں گی۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور اللہ کے معاملہ میں بھی اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی عاجزی دکھاتے ہوئے چلتے رہے تو پھر تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کسی کا تمہارے ساتھ بدسلوکی کرنا تمہارے صبر کی حالت کو بے صبری کی حالت میںنہ بدل دے۔ تو یاد رکھو کہ اگر اس سوچ کے ساتھ زندگی گزارو گے تو جو نیکی بھی تم کرو گے چاہے وہ کسی بھی قسم کی نیکی ہو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور اجر دے گا اور شرط وہی ہے کہ نیت نیک ہونی چاہئے۔

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ اس کا ہر کام نیکی ہے اور یہ سوائے مومن کے کسی اَور کے لئے نہیں۔ اگر اسے آسائش پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کی نیکی ہو جاتی ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کی نیکی شمار ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد باب المؤمن امرہ کلہ خیر حدیث 7500)

پس خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہےکہ جو اس کا تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں ان کو بغیر انعام کے نہیں چھوڑتا۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی نا پسندیدہ امر پر صبر میں یقیناً خیر کثیر پائی جاتی ہے۔ اور اللہ کی مدد و نصرت صبر کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور آسائش دکھ کے ساتھ اور یُسر عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد اوّل صفحہ 784 حدیث 2804 مسند عبد اللہ بن عباسؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس کس کی خواہش نہیں ہوتی کہ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت حاصل ہو۔ احمدی تو خاص طور پر تڑپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر نظر کئے رکھتا ہے۔ تو فرمایا کہ بہت سارے معاملات تمہارے ساتھ دنیا میں ایسے ہو جاتے ہیںجن کی تمہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ جب معاشرے کی طرف سے ایسی تکلیف کی حالت وارد کی جائے تو یاد رکھو کہ اگر تم نے صبر دکھایا تو اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال ہو گی اور یہ صبر ہی ہے جو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کو تمہارے قریب لانے والا ہو گا۔

ایک روایت میں آتا ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ، تُو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ تُو اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں پہچان، اللہ تعالیٰ تجھے تنگدستی میں پہچانے گا۔ اور سمجھ لے کہ جو تجھ سے چوک گیا اور تجھ تک نہیں پہنچا وہ تیرے نصیب میں نہیں۔ اور جو تجھے مل گیا ہے وہ تجھے ملے بغیر رہ نہیں سکتا تھا کیونکہ تقدیر کا لکھا یوں ہی تھا۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور خوشی بے چینی کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ہر تنگی کے بعد یُسر اور آسانی ہے۔
(مستدرک للحاکم جلد 6 صفحہ 2259-2260 کتاب معرفۃ الصحابہؓ حدیث 6304 مطبوعہ نزار مصطفی الباز مکۃ 2000ء)

پس احمدیوں کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہیں اور اس سے مدد مانگتے رہیں اور کسی قسم کی پریشانی کے اظہار کی ضرورت نہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے مدد مانگیں اور اسی کی مدد چاہیں۔ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں خبر دے دی ہے کہ اللہ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور صبر کرنے والوں کے حالات بدلیں گے اور ضرور بدلیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ بشرطیکہ صبر کے ساتھ تم نیکیاں بھی بجا لاتے رہو اور اپنے بھائیوں کے حق بھی ادا کرتے رہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’دنیا میں دو قسم کے دکھ ہوتے ہیں۔ بعض دکھ اس قسم کے ہو تے ہیں کہ ان میں تسلّی دی جاتی ہے اور صبر کی توفیق ملتی ہے۔ فر شتے سکینت کے ساتھ اترتے ہیں۔ اس قسم کے دکھ نبیوں اور راستبازوں کو بھی ملتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلاء آتے ہیں۔ جیسا کہ اس نے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ(البقرۃ156:) میں فرمایا ہے ۔ ان کے دکھوں کا انجام راحت ہو تا ہے اور درمیان میں بھی تکلیف نہیں ہوتی کیو نکہ خدا کی طرف سے صبر اور سکینت ان کو دی جاتی ہے۔ مگر دوسری قسم دکھ کی وہ ہے جس میں یہی نہیں کہ دکھ ہوتا ہے بلکہ اس میں صبر و ثبات کھو یا جاتا ہے۔ اس میں نہ انسان مرتا ہے، نہ جیتا ہے اور سخت مصیبت اور بَلا میں ہوتا ہے۔ یہ شامت ِاعمال کا نتیجہ ہو تا ہے۔ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ مَآاَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍفَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ (الشّوریٰ31:) اور اس قسم کے دکھوں سے بچنے کا یہی طریق اور علاج ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 393۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو ہر وقت ہر احمدی کو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا چاہئے۔ جو اس کی عبادت کے طریقے ہیں وہ اختیار کرنے چاہئیں۔ اس کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا چاہئے۔ اور اپنی نسلوں میں بھی یہ چیز رائج کرنی چاہئے۔

اب میں حقوق العباد کی طرف آ رہا ہوں۔ ایک بہت بڑی بیماری جو معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ جو دو بھائیوں میں لڑائیوں کا باعث بھی بن جاتی ہے اور بعض دفعہ اس کی وجہ سے بھائیوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بھی بنا دیتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان میں اگر یہ پیدا ہو جائے تو چھوٹی چھوٹی باتوںپر گھر ُاجڑنے لگ جاتے ہیں اور یہ بیماری بدظنّی کی بیماری ہے۔ اور جب بدظنّی پیدا ہوتی ہے تو پھر ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر اس کی وجہ سے جائز اور ناجائز ذرائع جو بھی اختیار کئے جائیں تجسّس کی وجہ سے، حالات معلوم کرنے کی وجہ سے وہ پھر کئے جاتے ہیں۔ اور پھر ماحول میں ایسا فساد پیدا ہو جاتا ہے کہ جو کسی شریف آدمی کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں سے بڑی کراہت کا اظہار فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ متقی کا یہ شیوہ نہیں ہے۔ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ ۔وَاتَّقُوا اللہَ ۔اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(الحجرات13:)کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
تو یہ فرمایا کہ بدظنی، تجسّس اور غیبت سے بچو۔ اللہ سے ڈرو۔ اب بھی وقت ہے کہ اللہ کے حضور جھکو۔ اگر یہ حرکتیں کر چکے ہو تو استغفار کرو ۔اُس سے اُس کا رحم مانگو۔ اور آئندہ بچنے کے لئے بھی استغفار بڑا ضروری ہے ورنہ تمہاری حالت ویسی ہی ہو گی جو ایک مردار کھانے والے کی حالت ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اپنے بھائی کے خلاف تجسّس نہ کرو۔ اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو۔ حسد نہ کرو۔ دشمنی نہ رکھو۔ بے رخی نہ برتو۔ جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ اُسے رُسوا نہیں کرتا۔ اُسے حقیر نہیں جانتا۔ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ؐنے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظن … الخ حدیث 6536)،(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم ظلم المسلم… الخ حدیث 6541) یعنی مقام تقویٰ یا تقویٰ کا سب سے بڑا جو مقام ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنا دل ٹٹولنا چاہئے۔

پھر فرمایا کہ ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو اور نہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم ظلم المسلم… الخ حدیث 6541 تا 6543) اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو۔ دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو۔ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔

(صحیح البخاری کتاب الأدب باب یایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن … الخ حدیث 6066)،(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم ظلم المسلم… الخ حدیث 6541)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ہاں آپس میں جو ایک فرقہ میں ہوں تو لڑائی جھگڑے کی زیادہ تر بنیاد بدظنی ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ دوزخ میں دوتہائی آدمی بدظنی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن مَیں لوگوں سے پوچھوں گا کہ اگر تم مجھ پر بدظنی نہ کرتے تو یہ کیوں ہوتا۔ حقیقت میں اگر لوگ خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرتے تو اس کے احکام پر کیوں نہ چلتے۔ ‘‘

تو یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہی ہے کہ زبان سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ نیکیاں کریں گے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر بدظنی کی وجہ سے ہی پھر نبیوں کی نافرمانی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ اگر لوگ خداتعالیٰ پر بدظنی نہ کرتے تو اس کے احکام پر کیوں نہ چلتے۔’’ انہوں نے خدا تعالیٰ پر بدظنی کی اور کفر اختیار کیا اور بعض تو خدا تعالیٰ کے وجود تک کے منکر ہو گئے۔ تمام فسادوں اور لڑائیوں کی وجہ یہی بدظنی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 446۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

مَیں چند باتوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ پھر جو اگلی ایک اہم بات ہے اور معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لئے ہے اور ایک بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ معاشرے کا امن جو ہے اگر وہ نہ ہو تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ہر اس معاشرے کو ایک امن پسند معاشرہ نہیں کہا جا سکتا جہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی نہ ہو رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے اور امن پسند معاشرہ اگر تم چاہتے ہو تو اگر دو گروہوں میں دو بھائیوں میں لڑائی ہو رہی ہو تو صلح کروانے کی کوشش کرو۔ اور خاص طور پر دو مسلمان بھائیوں میں اگر لڑائی دیکھو تو فوراً صلح کرواؤ نہ کہ کسی کا فریق بن جاؤ۔ اگر تم فریق بن جاؤ اور اس کوشش میں نہیں لگے رہتے کہ دو ناراض مومنوں کی صلح کرواؤ تو پھر اللہ تعالیٰ سے رحم کی امید بھی نہ رکھو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو تقویٰ اختیار کرنے والوں پر ہی رحم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات11:) کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ تو فرمایا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ بھائی کی طرح ہیں اس لئے قطع نظر اس کے کہ کوئی کس خاندان کا ہے یا کس برادری سے تعلق رکھتا ہے یا کس قوم کا ہے وہ مسلمان ہے، احمدی ہے، اللہ اور رسول پر ایمان لانے والا ہے تو وہ تمہارا بھائی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپس میں دو بھائیوں کی لڑائیاں دیکھو، اگر تمہارے علم میں آئے کہ دو بھائی لڑے ہوئے ہیں تو فوراً صلح کرواؤ ۔اور جب تم صلح کروانے والے ہو گے تو ظاہر ہے پھر تمہارے سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ خود بھی اپنے ماحول میں بھی، اپنے روزمرہ کے معاملات میں بھی صلح پسندی اختیار کرو گے۔ اگر ہر کوئی اس تعلیم پر عمل کرنا شروع کر دے، اگر ہر احمدی اس پر عمل کرے تو احمدی معاشرے میں جو بعض ہمیں چھوٹی چھوٹی چپقلشیں، لڑائیاں، ناراضگیاں نظر آتی ہیں وہ سب ختم ہو جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا رحم چاہتے ہو تو یہ تقویٰ کا راستہ ہے اس پر عمل کرو اور آپس میں صلح کرو۔

حضرت اُمّ کلثوم بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے میں لگا رہتا ہے اور بات کو اچھے معنے پہناتا ہے یا بھلے اور نیکی کی بات کہتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الصلح باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس حدیث 2692)

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بڑے زُود رنج ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے معنے نکالتے ہیں جو کہنے والےکا مطلب ہی نہیں ہوتا، مراد ہی نہیں ہوتی۔ تو فرمایا کہ اگر تم سچے کہلانا چاہتے ہو تو ان عادتوں کو چھوڑ دواور نیکی کی باتوں کو پھیلاؤ اور جھگڑے کی باتوں کو ختم کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’چاہئے کہ ہر صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں۔ بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے۔ تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے۔ کیا تم اس کو دھوکہ دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ۔ اگر ایک ذرّہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی‘‘۔ (یعنی برائیوں کے جو اندھیرے ہیں وہ تمہارے دلوں میں نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر ایک ذرہ بھی برائی ہے تو تمہاری ساری روشنی ختم ہو جائے گی)’’ اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا رِیا ہے یا خود پسندی ہے یا کَسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے۔ اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں۔ وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اِن باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور مَیں نے بیان کیں۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)

پھر ایک بیماری جو تقویٰ سے دور لے جانے والی ہے وہ فخر ہے اور جب کسی میں فخر پیدا ہوتا ہے تو پھر تکبر کی طرف لے جاتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ دوسرے میرے سے کمتر ہیں ان کو میری عزت و احترام کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں تو جس کے کچھ حالات بہتر ہو جائیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ذرا سے حالات بہتر ہوئے اور فوراً تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور فخر پیدا ہو جاتا ہے۔ عموماً احمدی معاشرے میں تو نہیں ہے لیکن ہمارے ملکوں میںدوسرے معاشرے میں عموماً یہ چیزیںدیکھنے میں آتی ہیں۔ تو یہ بھی احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اِلَّا ماشآءَ اللہ اکثریت ان چیزوں سے بچی ہوئی ہے اور ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اس سے بچتے رہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس سے بچے رہو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والوں میں ہو گے۔ اور یہ جو تمہاری پیسے کی یا دولت کی بڑائی ہے یہ کوئی بڑائی نہیں ہے بلکہ اگر تمہارے اندر نیکیاں ہیں اور وہ نیکیاں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، دنیا دکھاوے کے لئے نہیں تو وہی تمہارے لئے اصل بڑائی ہے۔ اس لئے فرماتا ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ(الحجرات14:)کہ بلا شبہ تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔

تو فرمایا کہ تمہاری بڑائی تمہارے پیسے یا تمہارے رتبے یا تمہارے خاندان میں نہیں ہے۔ تم میں سے معزز وہ ہے جو متقی ہے۔ اگر انسان میں یہ احساس ہو تو ہر وقت اس کے ذہن میں یہ رہے کہ اس کی حیثیت نہیں ہے۔ اب دیکھیں جو ہماری کائنات ہے اس میں زمین کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر پوری کائنات کا نقشہ کہیں بنا ہوا ہو تو باریک ترین سوئی جو ہوتی ہے اس کا جو سرا ہے اس کے برابر بھی یہ زمین نظر نہیں آتی اور اس زمین میں جہاں اربوں کی آبادی ہے ایک انسان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ لیکن جب فخر پیدا ہوتا ہے اور تکبر پیدا ہوتا ہے تو گردن یوں اکڑ جاتی ہے جیسے وہ شخص جس میں تکبر ہے وہی سب کچھ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے جامہ میں ہی رہو ۔اپنے دائرے کے اندر ہی رہو۔ کیونکہ کائنات تو علیحدہ رہی تم تو اس زمین میں بھی میری پیدا کی ہوئی چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ فرمایا وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(بنی اسرائیل38:)کہ زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ تم تو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتے ہو۔

پھر فرمایا وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (لقمان19:)کہ نخوت سے انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ چلو اللہ کسی تکبر کرنے والے اور اس طرح فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

تو ایک احمدی مسلمان کی تو شان ہی اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ عاجزی عاجزی اور صرف عاجزی ہی ہے۔ وہی ایک احمدی کا طُرّۂ امتیاز ہونا چاہئے اور اسی کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس کے دل میں ذرّہ بھر بھی تکبر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو اور وہ خوبصورت لگے۔ آپ نے فرمایا یہ تکبر نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے، لوگوں کو ذلیل سمجھے، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث 265)
تو سچی بات کو جھٹلانا اس سے دنیا میں بڑے بڑے فساد پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پھر انسان جو ہے اللہ تعالیٰ کی باتوں کا بھی انکار کرنے لگ جاتا ہے۔ دین کی باتوں کو بھی ادنیٰ خیال کرتا ہے۔ اور جو حق کا انکار کرنے والے ہوں وہ پھر انسانیت کے جو نعرے لگا رہے ہوتے ہیں وہ بھی کھوکھلے نعرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھی ایسے شخص کا ذاتی مقابلہ دوسرے شخص سے ہو گا تو دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے۔ پھر ایسے لوگ گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو ظاہر ہے پھر ایسا شخص تقویٰ کے قریب بھی نہیں رہ سکتا۔ تو فخر جو ہے اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی چیزوں کا اظہار جو ہے وہ برا نہیں ہے لیکن اس کے پیچھے جو نیّت ہے وہ بری ہے۔

حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث تکرار ہو گئی۔ دوزخ نے کہا مجھ میں بڑے بڑے جابر اور متکبر داخل ہوتے ہیں۔ اور جنت کہنے لگی مجھ میں کمزور اور مسکین داخل ہوتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ سے فرمایا کہ تُو میرے عذاب کی مظہر ہے۔ جسے میں چاہتا ہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتا ہوں۔ اور جنت سے کہا تُو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر میں چاہوں تیرے ذریعہ رحم کرتا ہوں۔ اورتم دونوں میں سے ہر ایک کو اس کا بھرپور حصہ ملتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر باب قولہ وتقول ھل من مزید حدیث 4850)

تو یہ ہے آخری جگہ جانے کی متکبر اور فخر کرنے والے لوگوں کی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے۔

حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ آگ میں داخل نہ ہو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب البراءۃ من الکبر والتواضع حدیث 4173)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمے کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو ان تمام باتوں کو یاد رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسَل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسَل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا ہلاک نہ ہو جاؤ اور تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکواور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو۔اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402-403)

پھر ایک معاشرے کی برائی ہے جس نے عام طور پر معاشرے میں ایک فساد پیدا کیا ہوا ہے جس کا ذہنی سوچ کے ساتھ بھی تعلق ہے اور وہ وعدہ خلافی ہے۔ وعدہ کرتے ہیں پورا نہیں کرتے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ پہلے ہی سوچ لیا ہوتا ہے کہ ہم جس چیز کا وعدہ کر رہے ہیں اس کو پور انہیں کرنا۔ معاہدہ کرتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور یہ برائی عام روزمرہ کے معاملات میں لین دین میں بھی ہے اور آج کل معاشرے میں ہر جگہ یہ نظر آتی ہے اور اس کی وجہ سے اکثر جھگڑوں کی بنیاد پڑ رہی ہوتی ہے۔
پھر دینی عہدوں کو پورا نہ کرنے کے معاملات ہیں۔ تو اگر ہر کوئی اپنا جائزہ لے اور شرائط بیعت کو پڑھے تو خودبخود محاسبہ ہو جاتا ہے۔ خود بخود پتہ لگ جاتا ہے کہ ہم کس حد تک ان باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔ بہت سی شرطوں کو بہت سے معاہدوں کو جان بوجھ کر توڑ رہے ہوتے ہیں یا غیر محسوس طور پر توڑ رہے ہوتے ہیں۔ عہدوں کی پابندی کرنا تو اصل میں ان بنیادی باتوں میں شامل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ عطا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(آل عمران77:)کہ ہاں کیوں نہیں! جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ یعنی جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ جب کوئی عہد کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب کسی سے جھگڑا ہو جائے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق حدیث 34)

تو نفاق کی حالت جو ہے وہ بڑی خطرناک حالت ہے۔ کسی کو ویسے اگر منافق کہہ دیں تو دیکھیں آپ کو مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ برائیاں اگر تمہارے میں پائی جاتی ہیں جس میں عہدوں کو توڑنا بھی ہے یہ بڑی خطرناک برائی ہے۔ جس میں یہ پائی گئی اس میں نفاق پایا گیا تو کس قدر سخت انذار ہے۔ اس لئے احمدیوں کو چاہئے کہ اپنے عہدوں کی ضرور پابندی کیا کریں اور آپس کے جو بھی معاہدے اور عہد ہیں ان کو نبھائیں۔ اس میں مختلف عہد ہیں۔ آپ کے شادی بیاہ کے تعلقات ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ نکاح کا ایک عہد ہے اس کو پورا کریں۔ کاروباری عہد ہیں ان کو پورا کریں۔ جماعت میں شامل ہونے کا عہد بیعت ہے اس کو پورا کریں۔ تو بے شمار ایسی باتیں ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو پتہ لگے گا کہ روزانہ آدمی کئی باتیں ایسی کر دیتا ہے جو اصل میں عہد ہی ہو رہے ہوتے ہیں، وعدے ہو رہے ہوتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے‘‘۔(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210)یعنی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام عہد پورے کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بھی عہد پورے کرو اور مخلوق کے بھی عہد پورے کرو۔ اور کوشش کرو کہ اس کے جو باریک سے باریک پہلو ہیں ان پر بھی عمل ہو رہا ہو۔ اگر ایک احمدی شرائط بیعت پر عمل شروع کر دے تو اللہ اور بندوں سے کئے ہوئے تمام عہدوں اور حقوق کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر آپ غور سے دس شرائط بیعت پڑھیں تو پتہ لگے گا کہ اس میں خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہیں۔

پھر آپ فرماتے ہیں:’’کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ ممکن نہیں کہ خدا اُن کو رُسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدااُن کا۔ وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19,20)

عموماً جو لوگ معاہدوں کی پابندی نہیں کرتے وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو جھوٹ بولنے والے بھی ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنے کو بھی کوئی گناہ نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ عہدوں کو توڑنے والے اور جھوٹ بولنے والے ایک جگہ رکھ دئیے جائیں گے۔ یعنی ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی نیک عمل کرنے والے لوگوں کو اور اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرنے والے لوگوںکی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ ورنہ ہم اس شخص کو کس طرح نیک کہہ سکتے ہیں جو معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کے لئے غلط بیانی سے کام لے رہا ہو۔ ایسی باتیں کر رہا ہوجو معاشرے میں غلط فہمیاں پھیلانے کا باعث بنیں اور واضح ہو کہ کسی میں جتنی بھی برائیاں ہوں اگر انسان جھوٹ بولنے والا نہیں اور جھوٹ سے بچنے والا ہے اور سچ بولنے والا ہے، قول سدید کہنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا کر دیتا ہے کہ جس سے اس کی تمام برائیاں دور ہو جاتی ہیں۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ تمہاری صرف ایک برائی دُور ہو اور باقی برائیاں چھوڑنا تمہارے لئے مشکل ہے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور ہمیشہ صاف اور سچی بات کرو۔ چنانچہ اس بات پر آہستہ آہستہ اس کی تمام برائیاں دور ہو گئیں۔(تفسیر کبیر از امام رازی جزء 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ آیت 119 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں ہمیں کیا فرماتا ہے۔ فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۔ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(الاحزاب71:-72) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقینا اس نے ایک بڑی کامیابی کو پا لیا۔

تو سچ بولنے والوں کی ایک یہ خاصیّت بتائی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت اور اطاعت کا دعویٰ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو سچ بولنے والے ہیں ورنہ تمہارے یہ سب دعوے زبانی اور کھوکھلے دعوے ہیں۔ اور کبھی یہ خیال نہ کرو کہ جھوٹ بول کر تم کامیابی حاصل کر سکتے ہو۔ بلکہ جو فوز عظیم ہے جو بڑی کامیابی ہے وہ سچائی میں ہی ہے۔ پس اپنے آپ کو ٹٹولو اور ہلکے سے ہلکا جھوٹ بھی جو ہے باریک سے باریک جھوٹ کا شائبہ بھی ایک احمدی کے دل میں نہیں ہونا چاہئے، دماغ میں نہیں ہونا چاہئے، باتوں میں نہیں ہونا چاہئے، عمل میں نہیں ہونا چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میںکیا ارشاد ہے ؟ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا مَیں تم کو کبائر میں سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ تین ہیں۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ ہمیں ان سے آگاہ فرمائیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار دینا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔اُس وقت آپ سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا کہ غور سے سنو۔ تیسری بات جھوٹی بات کرنا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الشہادات باب ما قیل فی شہادۃ الزور حدیث 2654)

تو دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ کے خلاف کتنا جوش تھا۔ اس لئے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے بھی دور لے جانے والی چیز ہے اور بندوں کے حقوق کو پامال کرنے والی بھی، ان کے حقوق غصب کرنے والی چیز بھی یہ جھوٹ ہی ہے۔

پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے۔ تمہیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بنتا ہے اور فسق و فجور سیدھا آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذّاب یعنی جھوٹا لکھا جاتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب قول اللہ تعالیٰ یایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین … الخ حدیث 6094)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :’’صدّیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے۔ اور ہر قسم کے رِجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دُور بھاگتا ہے اور عہد کرلیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔ جھوٹی گواہی نہ دوں گا۔ اور نہ جذبۂ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹا کلام کروں گا۔ نہ لغو طور پر، نہ کسب خیر اور نہ دفع شر کے لئے۔ یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا۔ جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا اِیَّاکَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور اس کا وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 365-366۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مذاق میں غلط بات کہہ دی تھی تو یہ سب لغویات ہیں۔ یہ بھی جھوٹ میں شمار ہوتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ جی فلاں غلط بات کہی تا کہ فلاں فائدہ کسی کا ہو رہا تھا وہ ہو جائے۔ تو فرمایا کہ یہ چیز جو ہے کہ غلط بیانی سے اگر کسی کا بھلا ہوتا ہے یا برائی دور ہوتی ہے تو تب بھی غلط بیانی اور جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔فرمایا کہ اگر اس طرح جھوٹ کو ترک نہیں کرتے تو پھر نماز میں جو پانچ وقت نمازیں پڑھنے والے ہیں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ صرف منہ کی باتیں ہو جائیں گی۔ اس دعا کا تمہارے دل کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا۔

پھر آپ فرماتے ہیں :’’میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہوکہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دُور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)

پس آئیں آج ہم میں سے ہر ایک یہ کوشش کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے والے ہوں گے اور اپنی اس بیماری کی جڑ کو نکال دیں گے۔ جس جس میں بھی جھوٹ ہے ہر کوئی اپنا محاسبہ خود کر سکتاہے،اپنا جائزہ لے سکتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ایسی جھوٹ کی بیماری ہر ایک میں پائی جاتی ہے، جو کسی نہ کسی رنگ میں اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہےفَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج31:)دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیںہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتاہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دُور نہیں ہوتا۔ مُدّت تک ریاضت کریں تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 350۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

چنانچہ دیکھ لیں اپنے ماحول کا بھی جائزہ لے لیں بلکہ خود بھی بہتوں کو یہ تجربہ ہوا ہو گا جس طرح کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ جس کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ جھوٹ بولتا ہے تو بیچارہ اگر کبھی سچ بھی بول دے تو اس پر بھی یقین نہیںآتا۔ تو اسی طرح کا ایک لطیفہ ہے۔ لطیفہ کیا بلکہ ایک واقعہ ہے کہ کسی نے کسی شخص کے متعلق کوئی بات کی تو دوسرا شخص جس سے بات کی گئی تھی اس نے کہا کہ میں اس کو جا کے بتاتا ہوں کہ تم نے اس کے بارے میں یہ بات کی ہے۔ تو بات کرنے والے نے کہا کہ جا کے بتا دو، مَیں تو انکار کردوں گا کہ میں نے یہ بات کی نہیں۔ اور تمہارے متعلق یہ عام مشہور ہے کہ تم جھوٹ بولنے والے ہو۔ اس لئے لوگ یہی کہیں گے تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو۔ تو پھر یہی حالت ہو جاتی ہے جھوٹ بولنے والوں کی۔ کوئی اعتبار نہیں رہتا۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں۔ مگر مَیں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اﷲ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اُٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔ اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ سزا اُن کی بعض اَور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اَور جھوٹ کی ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزاپالیتے ہیں۔‘‘ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 479-480)

تو یہ چند بنیادی باتیں تھیں جو معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا اور جن سے ہمیشہ ایک مومن کو بچتے رہنا چاہئے۔

اس کے علاوہ بھی اَور بہت ساری باتیں ہیں، بہت سارے احکامات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف تمہارے دلوں میں ہے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا چاہتے ہو تو میری عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی بھی اصلاح کرو۔ میری مخلوق کے بھی حق ادا کرو اور اس کوشش میں رہو کہ کسی بھی رنگ میں تمہارے سے اللہ کی مخلوق کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اگر یہ باتیں پیدا کر لو گے تو پھر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہیں۔

بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ہر نصیحت پر جو جماعت کو کی جاتی ہے اس کو اپنے پر لاگو کرنے کے بجائے یہی کہتے ہیں کہ دیکھو جی بڑا اچھا خطبہ تھا یا بڑی اچھی بات کی۔ فلاں کو اس کے مطابق اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اور اپنی طرف سے آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ اپنی برائیوں کو دیکھ نہیں رہے ہوتے۔ تو یہ بھی تقویٰ سے ہٹی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لئے اپنے آپ کو بھی بچانے کے لئے اور اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کرنے کے لئے یہ دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے کرتے رہنا چاہئے تا کہ سیدھے راستے پر چلیں اور اپنی نسلوں کو بھی سیدھے راستے پر رکھیں کہ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان75:) کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ تو اصل میں تو پہلے اپنی حالت کوہمیں سنوارنا ہو گا۔ خود متقی بننا ہو گا تبھی ہم متقیوںکے امام بننے کے حقدار کہلا سکتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ مَیں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوے میں کذّاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متّقیانہ زندگی بنا دے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں‘‘۔(ملفوظات جلد 2 صفحہ 371۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو اسلام کی تعلیم کا اصل حسن ہمیں دکھایا ہے اس پر عمل کرنے والے ہوں اور جلسے کے ان دنوں میں حقیقتاً اپنی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔

اب دعا کر لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button