متفرق مضامین

مجلس سوال و جواب

(منیر احمد شاہین۔مربی سلسلہ)

مسئلہ ختم نبوت

8 فروری 1987ءکو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ لندن میں منعقدہ ایک مجلس سوال و جواب میں ایک غیرازجماعت دوست نے یہ سوال کیا کہ ’’مولوی صاحبان سے یہ سُنا ہے کہ مرزاصاحب کوحضرت محمدرسول اللہ ﷺکے بعدآخری نبی کہاجاتا ہے۔ اِس بات کی وضاحت فرمائیں؟‘‘

حضور رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’یہ بات تو ہے ہی غلط کہ نعوذ باللہ من ذالک ہم حضرت مرزاصاحب کوآخری نبی کہتے ہیں۔ بالکل جھوٹ ہے۔ ہمارامسلک یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت کامقام نہیں ہے۔یہ ہے بنیادی مسلک۔ اِس پرغورہوجائے پھرباقی بات ساری سمجھ آجائے گی۔ہم کہتے ہیں کہ اِنسان کااِتفاقًازمانے کے لحاظ سے بعدمیں ہونا اَورآخری ہوناکوئی فضیلت کی وجہ نہیں۔ اَگریہ فضیلت کی وجہ ہوتوسب سے آخری اِنسان جودُنیامیں مَرے اُس کوسب سے زیادہ معزز ہونا چاہئے۔لیکن رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت اشرارالنّاس پہ آئے گی۔

( السنن الواردۃ فی الفتنۃ للدّانی: باب ماجاء أن السّاعۃ تقوم علٰی اشرارالنّاس۔ دلیل الفالحین للطرق ریاض الصالحین: مقدمۃ الشارح باب : باب الخوف)

سب سے زیادہ شریر لوگ ، بدمعاش اَورگندے لوگوں پرقیامت آئے گی وہ آخری ہوں گے۔ توآخری اِتفاقًا گندہ بھی ہو سکتا ہے اَوراِتّفاقاً اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخری ہونا فی ذاتہٖ کوئی خوبی کی بات نہیںہے۔ کلاس سے ایک آخری لڑکا نکلتا ہے اُس میں کیاخوبی ہے ؟

ہاں مضمون کے لحاظ سے آخری ہوجس کے بعداَورکوئی نہ آتا ہو۔ مرتبہ کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے آخری ہو تویہ ایک ایسی شاندار فضیلت ہے جس کادُنیامیں کوئی معقول آدمی اِنکارنہیں کرسکتا۔ تو دوسرے علماء سے ہماری بحث چلتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت ﷺ فضیلت کے مقام میں آخری ہیں توہم سوفیصدی متّفق ہیں۔ آنحضورؐکے بعدسوائے خدا کے کِسی کا مقام ہی کوئی نہیں۔ اللہ اَور محمد مصطفیٰ ﷺاَوراِنسانی مرتبے کے لحاظ سے اگراُونچائی کاتصوّر کریں توسب سے آخرپرحضورِاَکرم ﷺ دکھائی دیں گے۔ اَور اَگر اَولیّت کومرتبے کے لحاظ سے پہلے سمجھیں توسب سے اَوّل بھی آنحضرت ﷺدِکھائی دیں گے۔ چنانچہ جب اَوّل اَورآخررسولِ اَکرم ﷺکے لئے قرآن میں یاحدیث میں اِستعمال ہوتا ہے تو مرتبے میں اِستعمال ہوتا ہے نہ کہ زمانہ میں،کیونکہ زمانہ میں آپؐ اوّل نہیں تھے۔ اِس کے باوجود رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ اَبھی آدم اَپنی تخلیق کی مٹی میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ مَیں اُس وقت بھی خاتَم النّبیّین تھا۔

(مسند احمدبن حنبل ؒ: حدیث عرباض بن ساریہ :حدیث نمبر 16700 جلد4 صفحہ127۔ الطبعۃ الاولٰی : بیروت لبنان)

قرآنِ کریم آپ کو اوّل قرار دیتا ہے۔حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کے لئے بھی لفظ اوّل قرآنِ کریم اِستعمال فرماتا ہے۔ تو زمانہ کا اوّل توبالکل اِتّفاقی حادثات کی بات ہوتی ہے۔ مرتبے کا اوّل ہونا اصل مقام ہے۔ پس اَگرہمارا زور ہی اِس بات پرہے تومسیحِ موعود ؑ کوآخری کہہ کے ہم حاصل کیا کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہتے ہی یہ ہیں کہ اِتّفاقاً آخری ہونا حقیقت میں باعثِ فضیلت ہی نہیں ہے۔

دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ آخری جہاں جہاں فضیلت کے معنے رکھتا ہے وہاں وہاں ہم سو فیصدی رسول اللہﷺ کوآخری مانتے ہیں۔ مثلاًکتاب کاآخری ہونااِن معنوں میں کہ اِس کے بعد کوئی شریعت نازل نہیں ہونی۔ آنحضرت ﷺکا حرفِ آخر ہونا کہ آپ کاحکم قیامت تک نہیں ٹوٹے گا۔ حرفِ آخر ! اُردو میں اس کو کہتے ہیں۔ last word انگریزی میں کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ، کوئی authorityایسی نہ آسکے جواُس کے حکم کوتبدیل کردے۔ اُس کی شریعت آخر،اُس کاحکم آخر، اُس کی سُنّت آخر، اُس کادین آخر! اِن سارے معنوں میں آنحضرت ﷺکوآخری نبی اَورخاتم النّبیّین مانتے ہیں اوراس کے لئے عقلی دلائل رکھتے ہیں۔ تو ہم پر یہ جھوٹا الزام ہے۔ نعوذباللہ من ذٰلک۔ بالکل جھوٹا اِلزام ہے کہ ہم آنحضرت ﷺکوفضیلت کے مقام پرآخری نہیں مانتے۔

ہرعزّت اور فضیلت کے مقام پرہم آنحضرت ﷺ کوآخری مانتے ہیں۔ اوراِن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے بارباراپنے دعویٰ کی وضاحت فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں ہم نے توجو کچھ پایا ہے اُس سے پایاہے۔؎

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

کہ ہم نے توسب محمد رسول اللہ ﷺکے وسیلہ سے پایا ہے اور اے خدا! تُواِس بات کا گواہ ہے کہ اَپنی طرف سے نہ ہم کچھ لائے ، نہ ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہوئی اورجس نے حق یعنی خدا دکھایا ہے۔ وہ محبوبِ اَزلی یہی محمدمصطفی ﷺہیں۔اَوراِسی مضمون کاشعر ہے۔؎

اُس نُور پر فِدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے۔ مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

…اُس نُورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں۔ مَیں تومحمدمصطفی ﷺکے حُسنِ اَزل پر، اُس کے نُورپرفِدا ہوچکا ہوں اَوراُسی کاہوگیا ہوں۔ وہ ہے مَیں چیز کیا ہوںبس فیصلہ یہی ہے۔ وہی ہیں ، مَیں کچھ نہیں ہوں ، میرا وجود ہی کامل طورپر اُس کے اندرمٹ چکا ہے۔ یہ دعویٰ ہے جس کونعوذباللہ من ذلک مولوی گستاخی کادعویٰ اَوربرابر کی نبوّت کادعویٰ اَورمقابلے کادعویٰ بنا کرمسلمانوں کواِشتعال دِلاتے ہیں اوراِن بیچاروں کونہ اپنے دین کاپتہ نہ کسی اورکے دین کا پتہ۔ … تواَب اُن کوکیا پتہ لگے گاکہ اصل دین ہے کیا ؟ اِسلام کیا ہے؟اَحمدی کیا کہتے ہیں؟اپنا پتہ کوئی نہیں۔ ہم پرالزام لگاتے ہیں۔ خود تحقیق نہیں کرتے، مولوی سے سُن لیتے ہیںاورمان لیتے ہیں۔

خَاتَم کامعنٰی جواصل لفظ ہے قرآنِ کریم میں اُس کامعنٰی جماعت اَحمدیہ مختلف طریقے پر پرکھتی ہے۔ بتاتی ہے ان کو اوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ خاتَم کے ہر معنی پر جو ثابت شدہ ہے ہم یقین رکھتے ہیں اورآپ نہیں رکھتے۔ ہم تو مولویوں سے یہ مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ ہماری بات آپ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ پاکستان گورنمنٹ نے ساری کتابیں ضبط کرلی ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام کی بھی اوراِس مضمون پرجو کچھ لکھا جاتا ہے اُسے ضبط کرلیتے ہیں۔اگرہماری بات بودی تھی، جھوٹی تھی، کھوکھلی تھی توحکومت کو اپنے خرچ پرہماری باتیں لوگوں تک پہنچانی چاہئیں تھیں۔ وہ روکیں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ڈرتے ہیں۔ پتہ ہے یہ بات پہنچی تولوگ مان جائیں گے۔

ایک دفعہ ایک مولوی صاحب ربوہ تشریف لائے ، کئی دفعہ ایسا ہوا مگرایک دفعہ ایسا ہوا۔ پرانی بات ہے مَیںاُس وقت خلیفہ نہیں تھا۔ ایک عام اِنسان تھا، عام تواَب بھی ہوں مگرخداتعالیٰ نے اَبھی مجھے یہ ذمہ داری نہیں دی تھی۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھ سے ختمِ نبوّت پر بحث کرنے آئے ہیں۔ پہلے اُصول طے کرلیں، کہتے ہیں کرو۔ مَیں نے کہا مَیں اِس شرط پرمناظرہ کروں گاکہ ختمِ نبوّت پرمَیں کامل یقین رکھتا ہوں اورآپ نہیں رکھتے۔ تو وہ ہڑبڑااُٹھے کہ یہ اُلٹی بات، مَیں اِن کومجرم کرنے کے لئے آیا ہوں اَوریہ مجھے کہہ رہا ہے ، ملزم کررہا ہے کہ تم یقین نہیں رکھتے۔کہنے لگے کرومناظرہ !

مَیں نے کہا پہلے آپ مجھے بتائیں کہ وہ کون سا معنٰی ہے آپ کے نزدیک جس پرآپ سمجھتے ہیں کہ مَیں یقین نہیں رکھتا اَورآپ رکھتے ہیں۔کہنے لگے ’’سب نبیوں کوختم کرنے والا!‘‘ مَیں نے کہا پکّے ہوجائیں اچھی طرح اِس پہ۔پنجابی میں کہتے ہیں ناں پکّے پیریں ، کہنے لگے پکّے پیریں، اِس بات پہ پکّا ہوگیا۔ مَیں نے کہااَب بتائیں کس طرح نبیوں کوختم کیا؟سب کوکیا؟ کہنے لگے ہاں جی سب کوکیا۔ مَیں نے کہاحضرت عیسٰی ؑ اُن میں شامل تھے؟ تھوڑا ساڈرے۔ کہنے لگے ہاں شامل تھے۔

مَیں نے کہا ایک آدمی دوسرے کوکس طرح ختم کرتا ہے؟یاجسمانی طورپرقتل کرتا ہے یااُس کافیض ختم کرتاہے۔ ختم کا تیسراتوکوئی معنٰی نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ حضرت رسولِ کریم ﷺسے پہلے جتنے نبی گزرے تھے وہ اَپنی موت آپ مَر گئے تھے اورحضرت رسولِ کریم ﷺنے اُن کو خود توقتل نہیں کیا۔صرف ایک test case باقی تھایعنی حضرت مسیحؑ وہ اتّفاقاً زندہ رہ گئے تھے اورحضرت رسولِ کریم ﷺاُن کوختم کرنے سے پہلے جسمانی معنوں میں آپ ختم ہوگئے۔ یہ اِتناشیطانی عقیدہ ہے ، اِتنا ظالمانہ عقیدہ ہے کہ آپ کے ترجمہ کی رُو سے مسیحؑ خاتم ہیں نہ کہ حضرت محمدمصطفی ﷺ!

مَیں نے کہا اب آپ یہ سوچئے کہ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ ……۔ آپ کاایک بیٹا آپ کے سامنے پیدا ہوتا ہے ، آپ کے سامنے فوت ہوجاتا ہے اَورآپ اُس سے چالیس سال بعدفوت ہوتے ہیں توآپ بعد میں فوت ہوئے ہیں یا وہ بعد میں فوت ہوا ہے؟ پہلے بھی آپ اَوربعد میں بھی آپ۔ یہ ہے خاتمیّت!آپ کابیٹا آپ کے سامنے پیدا ہواچند دن رہ کے مَرگیا وہ کہاں سے خاتم بن گیا؟ توحضرت رسولِ کریم ﷺکے متعلق آپ کا یہ گستاخانہ عقیدہ ہےکہ نام اُن کاخاتم تھالیکن تھے مسیحؑ خاتم! کیونکہ ایک وقت میں یہ دونبی زندہ تھے۔ایک ختم ہوگیا،جسمانی معنٰی جولے رہے ہیں، اَوردوسراختم نہیں ہوا۔ وہ جاری ہے۔ وہ بہت بعد میں جاکے ختم ہوگا۔ توخاتم وہ ہوگا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کووفات پاتے دیکھ لیانہ کہ وہ جوپہلے مَرگیا۔

دوسرامعنٰی ہے فیض کا۔ فیض بند کردیا۔ مَیں نے کہاآپ بتایئے کہ جب اُمّتِ محمدیہ ﷺ موت کے کنارے پہ پہنچ جائے گی۔ جان کنی کی حالت میں ہوگی۔ جب اُس کے بچنے نہ بچنے کی باتیں ہورہی ہوں گی۔ اُس وقت کون آکے بچائے گا اس کو؟مسیح ؑآسمان سے آئے گااَوربچائے گاکہ نہیں؟کہنے لگے ہاں۔مَیں نے کہا پھر اُس کا فیض کہاں ختم ہوا؟ اُس نے تو اُمّتِ محمدیہ میں اپنافیض جاری کردیا۔ محمد مصطفی ﷺکی اُمّت اُس کے زیرِاِحسان آگئی۔ اگر نہ وہ بچاتاتواُمّت ختم تھی۔ تومحسنِ اعظم کون ہوا؟فیض رَساں کون ہوا اور کس نے فیض قبول کیا؟ جس کی اُمّت کوبچانے والا باہرسے آیا وہ توہمیشہ کے لئے اُس کے زیرِاِحسان آگیا۔ اِتناظلم !بجائے اِس کے کہ فیض ختم کرتے اُس کے فیض کے نیچے آپ آگئے نعوذباللہ من ذلک۔اَب بتایئے آپ خاتم مانتے ہیں یامَیں خاتم مانتا ہوں؟

کہنے لگے نہیں ،نہیں اِس کا ایک اَورمطلب بھی ہے۔ مطلب ذراسُنیں کیسا عجیب ہے۔ کہتے ہیں بعض دفعہ لوگ ایک ذلیل سے آدمی سے بھی فائدے اُٹھالیتے ہیں، اُس پراِحسان کرتے ہیں۔ بادشاہ کسی سے خدمت قبول کرلیتے ہیں اَوراُن کااِحسان ہوتا ہے۔ تو حضرت محمدمصطفیٰ ﷺتوبادشا ہ ہیں۔ مسیحؑ سے خدمت قبول کرلی اُس پہ اِحسان کرکے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب فرضی باتوں سے بات نہیں بنے گی۔ذراغورسے اِس مضمون کوپھر سوچیں۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا عظیم الشان بادشا ہ ہو۔ اَگروہ کسی شکار میں کسی جگہ گھوم کر بھوکا مَررہا ہو توکوئی اَدنیٰ سے اَدنیٰ آدمی روٹی کاایک ٹکڑا دے کر اُس کی جان بچاتا ہے تووہ محسن بن جاتا ہے اَورہمیشہ کے لئے وہ بادشاہ اُس کے ممنونِ احسان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ جومانگومَیں دیتا ہوں۔ بعض کہانیوں میں کہتے ہیںکہ میں آدھی سلطنت میں شریک کرلیتا ہوں۔ وقت پڑنے پرجو خدمت کرتا ہے وہاں خدمت لینے والازیرِاحسان ہوتا ہے نہ کہ خدمت کرنے والا۔ وہ خدمت اَورہے کہ بادشاہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اورآپ ایک سبزپتہ بھی لے کے چلے جائیں توبادشاہ قبول کرتا ہے۔ یہ تونہیں کہ اُس کواِس کافائدہ پہنچا ہے۔ وہ احسان کے طورپر خدمت قبول کرتا ہے۔ لیکن آپ یہ مضمون نہیں بیان کر رہے۔ آپ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اَگرمسیحؑ نازل نہ ہو تواُمّتِ محمدیہ ختم ہوجائے گی ، ہلاک ہوجائے گی اوراس کوبچانے والااُمّت میں سے ایک بھی شخص نہیں۔ مہدیؔ آچکا ہے پھربھی نہیں بچی۔ پھربھی مسیح کی ضرور ت ہے۔ اَورجب تک وہ غیرقوم کانبی نہ آئے اُس وقت تک یہ اُمّت نہیں بچتی۔ آپ کہتے ہیں یہ اِحسان ہوگیا۔اُس پراِحسان ہوگیا۔ یہ تو بالکل ویسی بات ہے جیسے ہمارے قادیان میں ایک بیچارہ پاگل ہوتا تھا۔ اُس کوایک شخص ماررہاتھا۔ میرے ایک کزن ہیں میاں منصوراحمدصاحب جو آج کل ربوہ میں ہیں۔ اُنہوںنے دیکھاتواُس آدمی کو پکڑ کر دھکا دے کرپیچھے کیا۔ وہ بڑے مضبوط تھے۔ فٹ بالر بھی تھے، اچھے پہلوان آدمی تھے۔اُنہوںنے کہا تم پاگل ہوگئے، اِس پاگل کو ماررہے ہو۔ تویہ پاگل میاں بولے کہ ناں ناںناں اُوپرسے مجھے پڑرہی تھیں۔اَندرسے اِس کو پڑرہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن (مولویوں) کو بھی یہ پتہ نہیں لگا کہ پڑ کس کو رہی ہیں؟ یہ جوعقیدہ ہے ، یہ اُمّتِ محمدیہ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کرنے والا عقیدہ ہے۔ اَورخاتم مسیحؑ کومانتا ہے جس کاآخری فیض دُنیانے دیکھا۔
اَب زمانے کے لحاظ سے بھی دیکھیں ! اگر وہ پرانا مسیحؑ آگیا تو کوئی مؤرّخ کیا لکھے گا؟ کہ آخری رسول جس نے بنی نوع اِنسان کوعظیم الشّان فیض پہنچایاتھاوہ کون تھا؟مسیح ابنِ مریمؑ ۔ وہ آیااوراُمّت کے دن پھرے اوراُمّتِ محمدیہ کو ساری دُنیا پر غالب کرگیا ، فیضِ عظیم عطاکرگیا۔اِس لئے خاتم توپھروہی بنتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ لازماً مرچکے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت ہرنبی مَرچکاتھا۔ اِس لئے آپؐ خاتمِ کُل تھے۔

نمبر دو۔ ہم مانتے ہیں کہ ہرنبی کافیض بھی ختم ہوچکا تھا صرف ایک نبی کافیض جاری تھاجو محمد مصطفی ﷺ کافیض تھااورقرآنِ کریم کی دوسری آیت خاتمیت کے اِس مضمون کوخود بیان کررہی ہے اورشک سے بالا بیان کررہی ہے۔ اس کے بعد آپ کے پاس ہم پرالزام رکھنے کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ وہ ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللہ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا (النساء70:)۔ یہ ختمِ نبوّت کا اعلان کرنے والے جو مولوی ہیں یہ آیت بتاتے ہی نہیں آپ کو۔ یہ چھپاکررکھ لیتے ہیں۔اُن کوپتہ ہے کہ یہ سامنے آئی توختمِ نبوّت کامضمون کھل جائے گا۔ہماراسارادھوکہ فریب ختم ہوجائے گا۔اِس آیت میں وہ اِعلان ہے جو مَیں نے اَبھی بیان کیا ہے۔

اِس آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے ایک اَوربات بھی سمجھ لیں۔ وہ بھی مَیں نے مولوی صاحب سے کی اَورہمیشہ کرتا ہوں کہ خاتَم کواگراِسم فاعل کے طورپرلیں ، دوسروں کوختم کرنے والا ،توخودکشی کرنے والاتونہیں ناں بنے گا۔ تمام نبیوں کوختم کرنے والااگراپنے آپ کوبھی ختم کرلے پھرتوقصّہ ہی ختم ہوگیا۔ پھرتوتعریف کی بات ہی نہ رہی۔ قاتل دوسرے کومقتول بناتا ہے۔ ضارب دوسرے کو مضروب بناتا ہے۔ مارنے والادوسرے کو مارتا ہے۔ جو اپنے آپ کومارنے لگ جائے وہ تو پھر پاگل پن کا مضمون شروع ہوجاتا ہے۔وہ توتعریف کا مضمون ہی نہیں رہتا۔وہ آیت جو مَیں نے اَب پڑھی ہے اُس میں وہ جواب ہے۔

وہ آیت بیان فرماتی ہےمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ جوکوئی بھی اَللہ کی اَوراِس رسول کی یعنی محمدمصطفیٰ ﷺکی اِطاعت کرے۔ …۔ یہ نہیں فرمایا مَنْ یُّطِعِ الرُّسُلَ۔ فرمایا جوکوئی بھی محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت، اَللہ کے بعداِس رسول کی اطاعت کرے گا۔ اُس سے کیا ہوگا ؟ اَب آپ سوچئے، کیا ہونا چاہئے؟ کوئی جرم کیا ہے اس نے ؟ سزاملنی چاہئے؟ کیا جواب ہے ؟ نہیں ، اِنعام ملنا چاہئے۔ جوشخص بھی اَللہ کی اطاعت کرے ، محمدمصطفیٰ ﷺکی اطاعت کرے۔ آگے اِنعاموں کا اور انوار کا دروازہ کھل جانا چاہئے۔

اِس سے پہلے ایک اورسوال بھی اُٹھادیتا ہوں اُس پربھی پہلے سادہ دل سے ، صاف دِل سے غورکرلیجئے۔ پہلے بھی تولوگ اللہ کی اورنبیوں کی اطاعت کیا کرتے تھےاُن کوبھی اِنعام ملا کرتے تھے۔سب کوملتے تھے۔اب جب اَللہ کہہ رہا ہے کہ جواللہ اَور اِس نبی کی اطاعت کرے گااُس کے بعد کیا یہ اعلان ہوگا کہ اُس کوپہلوں سے کم انعام ملیں گے یاکم از کم اُتنے ملیں گے۔ اگرکہیں گے کہ کم انعام ملیں گے توپتہ چلے گاکہ سب نبیوں سے کمترنبی آیا ہے نعوذباللہ من ذٰلک۔پہلے تمام نبیوں کی پیروی خدا کی پیروی کے بعدہرقسم کے اِنعامات کاوارث کردیتی تھی۔ مگرقرآن یہ اِعلان کررہا ہے کہ اِس نبی کی پیروی سارے اِنعام نہیں دے گی، کچھ رکھ لے گی اورکچھ دے گی۔توکیاثابت ہوگا؟اعلیٰ نبی آیا ہے یانعوذباللہ من ذالک کمترنبی آیا ہے؟

اب دیکھئے یہ آیت کیااعلان کرتی ہے۔ پھرمضمون کھل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ۔ اب صرف یہی لوگ ہوں گے جواِنعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔ دوسروں کافیض بند۔ اِس کاجاری۔ اورانعام پانے والے گروہ میں اب صرف یہی لوگ شمار ہوں گے جو محمدمصطفیٰﷺکی پیروی کریں گے۔

اب تشریح رہ جاتی ہے باقی کہ کون سے اِنعام؟ سارے اِنعام یاچنداِنعام؟ پیروی سے ملنے والے اِنعام کیا ہیں؟ فرمایا مِنَ النَّبِیّٖنَ نبیوں میں سے، وَالصِّدِّیْقِیْنَ اور صدیقوں میں سے، وَالشُّھَدَآءِ اور شہیدوں میں سے، وَالصَّالِحِیْنَ اورصالحین میں سے، وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ یہ رفاقت ہے جوسب سے حسین رفاقت ہے۔ اُمّتِ محمدیہ ایسے لوگوں میں شمار کی جائے جہاں نبوّت کے اِنعام بھی مل رہے ہوں، صدیقیت کے بھی مل رہے ہوں،شہادت کے بھی مل رہے ہوں، صالحیت کے بھی مل رہے ہوں۔ یہ ہے شان! اِس آیت نے یہ اعلان کیا ہے۔ اورعلماء کہتے ہیں نہیں ! اُن سے پوچھیں توکہتے ہیں ، یہ اعلان ہے کہ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ جوشخص بھی اللہ اوراِس رسول کی اطاعت کرے گااُسے وہ سارے اِنعام نہیں ملیں گے جوپہلے نبیوں کی اطاعت سے ملا کرتے تھے۔پہلے نبیوں کی اطاعت سے نبوّت مل جایا کرتی تھی۔ اِس نبی کی اطاعت کی فہرست سے ہم نے نبوّت کاٹ دی ہے۔ صرف صدّیق، شہید اور صالح بنانے والانبی آیا اور اِس کی اُمّت میں اب کبھی نبوّت قائم نہیں ہوگی۔ یہ اعلان کررہی ہے؟ اگریہ اعلان سچا ہے توپھرمرتبہ اُونچا ہوگایاکم ہوگا؟ پہلے نبی درنبی آتے رہے۔ اب صرف کمترردرجہ دینے والا نبی آیا ہے۔ نعوذباللہ من ذالک۔اِتناگستاخانہ تصوّر ہے اورقرآن کی آیت اِس تصوّر کوجھٹلارہی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اگراُمّتی نبی بھی بند ہے ، توجہاں اُمّتیوں کاذکرکیا ہے وہاں سب سے پہلے فہرست میں نبیوں کا ذکر کیوں کردیا؟ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ انعام پانے والے لوگوں میں یہ لوگ ہیں۔ اوراِنعام پانے والے کون ہیں؟ فہرست کیاشمارکی؟ مِنَ النَّبِیّٖنَ پہلے نبیوں کانام رکھا۔اِس لئے جماعت احمدیہ کاعقیدہ ہی سچی اطاعت کاعقیدہ ہے۔ سچے عشقِ محمد مصطفیٰ کاعقیدہ ہے اورخالصۃً قرآنِ کریم پرمبنی ہے۔ ایک اَدنیٰ بھی فساد اِس عقیدہ میں نہیں ہے اورجویہ بیان کرتے ہیںاُن میں ذراچھان بین کرکے آگے بڑھیں آپ کوفساد نظرآجائے گا۔گستاخی نظرآجائے گی۔ ‘‘

(مجلسِ عرفان منعقدہ مؤرخہ 8 فروری 1987ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button