از افاضاتِ خلفائے احمدیت

اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ کشتی۔ جماعت احمدیہ

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍مئی 1983ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ تشہد وتعوذ کے بعدسورۃ ہود کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی

وَأُوحِیَ إِلَی نُوحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُؤْمِنَ مِن قَوْمِکَ إِلَّا مَن قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُونَ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِیْ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا إِنَّہُمْ مُّغْرَقُونَ-

(سورۃہود38-37)

اور پھر فرمایا

میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا بھی ذکر کیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا گویا آپ نے اپنی قوم کے لئے بالآخر بددعا کی اور اپنے رب سے عرض کی کہ اے خدا! ان کافروں میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے اور دنیا کو ان سے اور ان کی ناپاک پیدا ہونے والی نسلوں سے ہمیشہ کے لئے پاک کردے۔ ساتھ ہی میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی یہ دعا دراصل بددعا نہیں تھی بلکہ منشاء الٰہی کے مطابق آپ کو پہلے سے خبر دے دی گئی تھی کہ اب اس قوم میں کوئی بھی ہدایت پانے والا موجود نہیں ہے اور چونکہ انسانی زندگی کے مقصد کے خلاف ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کو کلیۃً بھلا کر ہمیشہ کے لئے اس سے کٹ جائے اور اس کی آئندہ نسلیں بھی ناپاک پیدا ہوں، اس لئے ان لوگوں کے لئے دعا کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی۔

وہ آیات جن سے میں نے استدلال کیا تھا ان کی میں نے اس وقت تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ اب تیری قوم میں سے کوئی تجھ پر ایمان نہیں لائے گا سوائے اس کے جو پہلے ایمان لاچکا ہے۔ پس اب تُو ان پر کسی قسم کا افسوس نہ کر، حسرت نہ کر۔ جو اُن کی تقدیر تھی وہ لکھی جا چکی ہے۔

یہ جو میں نے کہا دراصل ہر نبی اپنی قوم کے لئے دعا کرنا چاہتا ہے اور کسی حالت میں بھی بددعا نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے معاً بعد خداتعالیٰ فرماتا ہےوَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْکہ اے نوح! ہم جانتے ہیں کہ اس خبر کے بعد بھی تیرا دل بے قرار ہوگا اور تو اپنی قوم کے لئے دعا کرنا چاہے گا مگر ہم تجھے اس کی اجازت نہیں دیتے۔ وَلاَ تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاہمیں اس قوم کے متعلق کچھ نہ کہہ، اس کے متعلق ہم سے ہر گز کوئی بات نہ کر جنہوں نے ظلم کیا ہے۔ إِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ کیونکہ ان کی یہ تقدیر کہ یہ غرق کئے جائیں گے لکھی گئی ہے، آخری ہو چکی ہے۔

اگر آپ ان آیات کا غور سے مطالعہ کریں تو ان میں اور بھی بہت سے گہرے سبق ملتے ہیں۔ فرمایاوَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا یہاں ایک ایسی کشتی کا ذکر ہے جس کے متعلق دو باتیں اس کو تمام دنیا میں بننے والی کشتیوں سے نمایاں اور ممتاز کر دیتی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا ہماری نگاہ کے سامنے، ہماری نظر کے سامنے یہ کشتی بنا۔ ایک مالک کو جو چیز بہت پیاری ہو وہ اسے اپنے سامنے بنواتا ہے لیکن نسبتاً کم پیاری یا ایسی چیزیں جن کی اس کو خاص پرواہ نہیں ہوتی ان کی نگرانی ملازموں کے سپرد کردیتا ہے اور بعض دوسروں کو بھی اس بارہ میں تاکید کردیتا ہے۔ لیکن جس چیز سے اس کو غیر معمولی پیار ہو اور وہ پسند نہ کرے کہ اس کی بناوٹ میں ذرا سی بھی کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف ہو جائے اس کو بنوانے کے لئے وہ خود کھڑا ہوتاہے۔ بعض دفعہ بڑے بڑے قیمتی اوقات والے لوگ بھی مسلسل کھڑے ہو کر بعض چیزوں کو اپنے سامنے بنواتے ہیں۔ مثلاً جب تعلیم الاسلام کالج بنایا جانے لگا تو چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ(اس وقت تو آپ خلیفۃ المسیح نہیں تھے) کو تعلیم سے بڑا پیار تھا اور کالج سے بڑا پیار تھا اس لئے دن رات سردی ہوتی یا گرمی، موسم کیسا بھی خراب ہوتا آپ اپنا سارا زائد وقت اس کی تعمیر کی نگرانی پر لگایا کرتے۔ خود چھت پر کھڑے ہو کر اپنے سامنے مزدوروں کو ہدایات دیتے کہ فلاں کمی پوری کرو، فلاں نقص پیدا ہورہا ہے اس کو ٹھیک کرو۔ الغرض آپ نے کالج کی تعمیر پر بڑی محنت کی تھی۔ پس یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ جس چیز سے انسان کو زیادہ پیار ہو اور جس کو وہ اہمیت دے اس پر وہ مسلسل نظر رکھتا ہے۔ اس لئے یہ ایک عجیب کشتی تھی کہ اس جیسی کشتی نہ کبھی پہلے بنی، نہ کبھی بعد میں ظاہری صورت میں بنائی گئی اس لئے کہ فرمایا وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا اے نوح! ہم اس کشتی کے اوپر مسلسل نگاہ رکھیں گے۔

وَوَحْیِنَادوسری بات یہ بیان فرمائی کہ اے نوح! ہم نے تجھے جو ہدایت کی ہے اور جو کاریگری ہم نے تجھے سکھائی ہے اس کے مطابق یہ کشتی بنا۔ یہ کاریگری حضرت نوحؑ نے کسی اور سے تو نہیں سیکھی تھی۔ کشتی بنانا تو آپ جانتے ہی نہیں تھے۔ پس ایک ایک کیل جو ٹھونکا گیا اور ایک ایک میخ جو لگائی گئی اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس کو اس طرح رکھو اور اس طرح لگاؤ۔ الغرض یہ کشتی مسلسل اللہ تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے اور اس کی وحی کے تابع بنائی جارہی تھی۔

اس سے ایک یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم الشان اور مقدس کشتی جو اپنی نوع میں بے نظیر اور بے مثل ہو، بعید نہیں کہ اس کا نشان آج کہیں مل جائے۔ نسبتاً ادنیٰ ادنیٰ چیزیں بھی زمانے نے محفوظ رکھی ہیں۔ مٹی کے ڈھیر میں دبی ہوئی Fossilized شکلوں میں مختلف قوموں کی تاریخیں ملتی ہیں اور لکڑی کے بہت پرانے کام بھی ملتے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ چونکہ کشتی لکڑی کی تھی اس لئے ضرور ضائع ہوگئی ہوگی، یہ بھی درست نہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے پرانے زمانوں کی لکڑی کی بنی ہوئی چیزیں بھی اب دستیاب ہو چکی ہیں۔ چنانچہ یہ خیال بہت سے مفکرین اور محققین کو بھی آچکا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی تلاش مختلف جگہوں پر ہوتی رہی ہے۔ کوہ ارارؔات پر بھی اور بعض دوسری جگہوں پر بھی وقتاًفوقتاً بعض Expeditions یعنی مہمات اس کشتی کی تلاش میں بھیجی گئی ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی ان کا جغرافیہ بائبل پر مبنی تھا اور قرآن کریم جو جغرافیہ بیان کرتا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو بائبل بیان کرتی ہے، اس لئے طبعی بات ہے کہ ان کی ساری کوششیںناکام ہونی تھیں اور اب تک ناکام رہی ہیں۔ بعیدنہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی احمدی مہم کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ نقشے اور جغرافیے کے مطابق اس کشتی کو تلاش کرے اور وہ دستیاب ہوجائے۔ اگر یہ کشتی دستیاب ہو تو یہ ایک بے نظیر کشتی ہوگی۔ لیکن یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔

مَیں ایک اور کشتی کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانی چاہتا ہوں۔ یہ کشتی بھی خدا کی آنکھوں کے سامنے بنائی گئی اور خدا تعالیٰ کی ہدایات کے تابع تشکیل دی گئی۔ وہ کشتی آپ ہیں یعنی جماعت احمدیہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ تُو ایک کشتی تیار کر۔ وہ کشتی کیا ہے؟ وہی جماعت احمدیہ جس میں شامل ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دیتا ہے کہ تمام دنیا کی ہلاکتوں سے تم محفوظ کئے جاؤ گے۔ پس حضرت نوح علیہ السلام کی ظاہری لکڑی کی کشتی کی بھی بڑی قدروقیمت ہے اور اس کو تلاش کرنے والے بھی یقیناً بڑے خوش قسمت ہوں گے لیکن بہت زیادہ قیمتی ہے وہ کشتی جو حضرت نوحؑ کی قوم کو نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قوم کو عطا ہوئی جو پہلے ایک تعلیم کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر اس تعلیم نے ایک جماعت کا روپ دھار لیا اور ایک جماعت کی شکل میں آج وہ دنیا میں موجود ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس کشتی کے نمونے بن رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جتنے اعلیٰ کاریگر نے کوئی چیز بنائی ہو اتنا ہی زیادہ ظلم ہوتا ہے اس میں دخل اندازی کرنا اور اس کی شکل کو بگاڑنا۔ کیونکہ ایک کامل تصویر کو اگر ایک ادنیٰ نقاش چھیڑے گا تو اس میں کوئی خوبصورتی پیدا نہیں کرسکے گا بلکہ بد صورتی پیدا کرے گا۔ ایک کامل صناع کی پیداوار میں اگر کوئی اناڑی دخل دے گا تو سوائے اس کے کہ اس کی اچھی بھلی صورت کو بگاڑ دے اور کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا۔

پس یہ کشتی یعنی جماعت احمدیہ وہ مقدس کشتی ہے جس کے خدوخال خود اللہ تعالیٰ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے وحی کے مطابق تشکیل دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس نظام کو ڈھالنے میں اپنی طرف سے ایک ذرہ بھی دخل نہیں دیا۔ آپ کی اپنی سوچ کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں۔ کشتی نوحؑ کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا، اللہ تعالیٰ بہت کھلے اور واضح طور پر فرماتا ہے کہ اس کی تمام تفاصیل ہم نے بتائیں اور اسے اپنی نگرانی میں بنوایا۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ تعلیم جس نے جماعت احمدیہ کی شکل میں تجسم اختیار کیا، کشتی نوحؑ ہے اور یقینا یہ کشتی نوحؑ ہے تو اس کا ہر پہلو، اس کا ہر ذرہ اور اس کی ہر نوک پلک اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع بنی ہے۔ اس لئے خوبصورت جماعت کے خدوخال کو زندہ اور جاری رکھیں۔ اگر تابعین نے یا تبع تابعین نے ان نقوش میں فرق ڈال دیا اور تبدیلیاں پیدا کردیں تو پہلے بھی اگرچہ جماعتیں یہ ظلم کرتی چلی آئی ہیں لیکن یہ بہت بڑا ظلم ہوگا کہ ایسی جماعت جس کو اللہ تعالیٰ نے کشتی نوحؑ سے تشبیہ دی ہو اور نہایت ہی پیار کے ساتھ اس کا ذکر قرآن کریم میں محفوظ فرمایا ہو، وہ دیکھتے دیکھتے دو تین نسلوں میں ہی اس کشتی کے نقوش بگاڑ دے۔

دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ جتنے بڑے طوفان ہوں اتنی زیادہ احتیاط کے ساتھ کشتیاں بنائی جاتی ہیں اور بہت بڑے بڑے ماہر صنّاع اپنی ساری کوششیںاور اپنا سارا علم اس بات میں صَرف کردیتے ہیں کہ یہ کشتی یا یہ جہاز ہر قسم کے امکانی خطرے کا مقابلہ کرسکے۔ چنانچہ جنگ عظیم ثانی میں بھی ایسے جہاز بنائے گئے اور ان کے بارے میں بڑے بڑے دعاوی بھی کئے گئے۔ مثلاً انگلستان نے ایک ایسا جہاز بنایا جس کے متعلق یہ دعویٰ تھا کہ یہ ہر قسم کے امکانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے لیکن جب وہ سمندر میں اتارا گیا تو پہلی دفعہ ہی ایسے طوفان سے اس کا سامنا ہوا کہ وہ پھر واپس نہیں آسکا حالانکہ اس زمانے کی سب سے Advanced ٹیکنالوجی اس کے پیچھے تھی اور دنیا کے چوٹی کے جہاز بنانے والوں نے اپنی قوتیں اس پر صرف کی تھیں۔ انسان تو نااہل ہوتا ہے۔ وہ اپنی لاعلمی کے نتیجے میں، اپنی جہالت میں بعض دفعہ بڑے دعاوی کردیتا ہے لیکن عملاً ان دعاوی کو سچا ثابت نہیں کردکھاتا۔

لیکن جو کشتی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہو اس کے متعلق یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایسا طوفان بھی آئے گا جو اس کشتی کو غرق کرسکے۔ پس اگر آپ اس کشتی کے خدوخال کی حفاظت کریں گے تو یہ خود آپ کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ کتنی بڑی بڑی تحریکیں آپ کو مٹانے کے لئے چلی ہیں اور کس طرح ان کی لہریں آپ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں اور ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا اور کس شان کے ساتھ مسیح موعود ؑ کے ہاتھوں کی بنی ہوئی یہ کشتی اسی طرح لہروں کے اوپر غلبے کے ساتھ تیرتی چلی گئی۔

پس اگر آپ نے اس مقدس صنّاع کی بنائی ہوئی ترکیبوں میں اپنے دماغ کی بیہودہ اور لغوترکیبوں کو دخل نہ دینے دیا، اگر آپ نے بڑی حفاظت اور پیار کے ساتھ اور جاں سوزی کے ساتھ اس کے ادنیٰ سے ادنیٰ نقوش کی بھی حفاظت کی تو یہ چند معمولی تحریکیں کیا چیز ہیں اگر وہ طوفان بھی اٹھے جسے عالمی طوفان نوحؑ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، اگر ایسی لہریں بھی بلند ہوں جو پہاڑوں کو غرق کردیں اور دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو تباہ کردیں تو میں آپ کو قرآن کریم کی تعلیم کی رُو سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کی روشنی میں یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ وہ کشتی ہے جس کا دنیا کا کوئی طوفان بھی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔ یہ لازماً غالب آئے گی اور پہاڑوں کی بلندیوں پر بلند ہوگی۔ طوفان تھمیں گے تو یہ نیچے اترے گی لیکن ایسا کوئی طوفان نہیں جو اس کشتی کو ڈبونے کے لئے پیدا کیا گیا ہو۔ لیکن شرط یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہے، اسے انسانی ہاتھوں سے ناپاک اور گندہ نہ کریں۔

آیت وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا کا دوسرا پہلو جو خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے وَلاَ تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا إِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ- کہ اے نوح! ظالم لوگوں کے متعلق مجھ سے خطاب نہ کر۔ حالانکہ دوسرے انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم کے لئے دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منع فرمایا، نہ ہی حضرت لوط علیہ السلام کو۔ دعا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہا کہ اب اس بات کو چھوڑ دو لیکن یہ اور طرح کا منع کرنا ہے۔ یہ تو فرمایا کہ ہم تمہیں خبر دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے کی اجازت نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تو یہاں تک فرمایا یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ (ہود75:) کہ وہ ہمارے ساتھ جھگڑرہا تھا۔ اب یہ جھگڑنا بڑے پیار کا اظہار ہے۔ یہ مراد نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ناپسند نہیں کرتا اور پھر بھی وہ اصرار کررہے تھے کہ خدا قوم لوط کو بچا لے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اشارۃً یا کنایۃً بھی اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو دعا سے منع نہیں فرمایاکیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا کی نگاہ میں جو مقام تھا اس کی وجہ سے یہ ناممکن تھا کہ آپؑ خدا کی طرف سے اشارہ پانے کے بعد کسی قسم کی گفتگو فرماتے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محبت اور پیار کے ساتھ مجادلے کا موقع دینا ایک بہت بڑی بات ہے۔ چنانچہ آپؑ نے قوم لوطؑ کو ہلاکت سے بچانے کے سلسلہ میں خوب زور لگایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی زور لگانے دیا کہ یہ دلیلیں بھی نکالو، وہ دلیلیں بھی نکالو۔ اس قوم کو بچانے کے لئے جو بھی جواز تمہارے ذہن میں آسکتا ہے وہ پیش کرلو اور ہم تمہیں بتاتے چلے جائیں گے کہ یہ جواز بھی درست نہیں، وہ جواز بھی درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابراہیم! اس قوم کو بچانے کی اگر ایک بھی وجہ جواز ہوتی تو ہم اسے بچا لیتے۔ پھر منع بھی کیسے پیار سے فرمایا یَا إِبْرَاہِیْمُ أَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا إِنَّہُ قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّکَ (ہود77:) کہ اے ابراہیم! اب بس کر، جانے بھی دے، چھوڑ اس قصے کو ، اللہ کا حکم تو آبھی چکا ہے۔ سرپہ آکھڑا ہے جس کو ٹالنے کی تو کوشش کررہا ہے۔ اب دیر ہو چکی ہے، اب وقت نہیں رہا کیونکہ ہماری تقدیر ظاہر ہو گئی ہے۔ کیسا عظیم الشان پیار کا اظہار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اور آپؑ کی دعاؤں کو بھی کتنے پیار سے ردّ کیا ہے۔ ساتھ ہی إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ أَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ (ہود76:) کہہ کر آپؑ کی تعریف بھی کردی اور آپؑ کی بڑی ہی دلجوئی فرمائی۔

اس کے برعکس حضرت نوح علیہ السلام کو اجازت ہی نہیں ملی کہ وہ اپنی قوم کے متعلق کوئی ذکر بھی کرسکیں۔ اس میں کیا حکمت تھی؟ اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کو بہت ہی گہرا اور بہت ہی عظیم الشان سبق نظر آئے گا۔ ایک ایسا سبق جو انسانیت کے مقام کو بہت بلند اور ارفع کر دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم کے لئے دعا کررہے تھے اس کا آپؑ سے کوئی بھی رشتہ نہیں تھا۔ آپؑ کی اولاد میں سے کوئی ایک فرد بھی اس قوم میں شامل نہیں تھا جس کے لئے آپؑ بے قرار تھے، جس کو بچانے کے لئے آپؑ ترساں و لرزاں تھے اور عاجزانہ دعائیں کررہے تھے۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے جس قوم کے لئے دعا کرنی تھی اس میں ان کے بیٹے نے بھی شامل ہونا تھا۔ اس لئے اس لطیف بات میں یہ بھی ایک انذار کا پہلو تھا کہ نوحؑ کو اس لئے منع کیا جا رہا ہے کہ انبیاء کی شان کے خلاف ہے کہ ان کے ترحم میں نفس کی ادنیٰ سی ملونی بھی شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے لئے بھی دعائیں کرنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن چونکہ نبی کا اپنا بیٹا شامل ہوگیا ہے اس لئے فرمایا کہ اب تیرا یہ مقام نہیں رہا کہ تو اس کے لئے دعا کرے۔ اب اگر تو دعا کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ کہنے والا یہ کہے اور سوچنے والا آئندہ یہ سوچے کہ نوحؑ نے اس لئے دعا کی تھی کہ آپؑ کا اپنا بیٹا بھی شامل تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نوح! میں تجھ پر یہ داغ نہیں لگنے دینا چاہتا۔ تمام انبیاء کو دعا کی اجازت دوں گا لیکن تجھے یہ اجازت نہیں دوں گا کیوںکہ تیرے اپنے خون کا حصہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہے جن پر عذاب آنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا حضرت نوح علیہ السلام کو دعا سے منع فرمانا جس غرض سے تھا اس کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللّہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسٰہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ وَہِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادیٰ نُوحٌ ابْنَہُ وَکَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یَا بُنَیَّ ارْکَب مَّعَنَا وَلاَ تَکُن مَّعَ الْکَافِرِیْنَ- قَالَ سَاْوِیْ إِلَی جَبَلٍ یَعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاء قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔ وَقِیْلَ یَا أَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیَا سَمَآءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیْلَ بُعْداً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ وَنَادیٰ نُوحٌ رَّبَّہُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِیْ مِنْ أَہْلِیْ وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ۔ قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّیْ أَعِظُکَ أَنْ تَکُونَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ۔ (ہود42-47:)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح نے کہا کہ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو فرمایا کہ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ بِسْمِ اللّہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسٰہَایہ کہتے ہوئے کہ اللہ ہی کے سپرد ہے، اسی کے نام کے ساتھ اس کا جاری ہونا اور اس کا بلند ہونا۔ إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔میرا رب تو بہت بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور یہ ایسی کشتی تھی جو پہاڑوں کی طرح بلند موجوں پر سوار تھی اور وہ موجیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔ اچانک نوحؑ نے کیا دیکھا کہ اس کا بیٹا ایک ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں قریب تھا کہ موجیں اس کو جالیتیں۔ آپ نے اسے دیکھ کر بے قراری سے آواز دی اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں سے نہ ہو۔ نوحؑ کے بیٹے نے جواب دیا میں تو پہاڑ پر پناہ لے لوں گا۔ یہ طوفان کیا چیز ہے۔ ایک سے ایک بلند پہاڑ میرے سامنے ہے۔ جوں جوں موجیں بڑھتی چلی جائیں گی میں بھی بلند تر ہوتا جاؤں گا۔ معلوم ہوتا ہے وہ ایسا علاقہ تھا جس کے اردگرد پہاڑ بھی تھے اور ایک کے بعد دوسری بلند چوٹی تھی۔ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت نسبتاً نچلی جگہ پہ تھے۔ بہر حال جب حضرت نوحؑ نے بیٹے کو پکارا تو اس نے جواب دیا یہاں تو پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ میں ایک کے بعد دوسرے پہاڑ کی طرف رجوع کرتا چلا جاؤں گا۔ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ إِلَّا مَن رَّحِمَ -حضرت نوحؑ نے جواب دیا۔ اے میرے بیٹے !آج اللہ کے عذاب سے کوئی پناہ نہیں۔ اگر ہے تو اس کشتی میں ہے۔ اس کے سوا آج رُوئے زمین پر کوئی جگہ نہیں جو کسی انسان کو خدا کے فیصلے سے بچا سکے۔ اور ابھی آپؑ یہ جواب دے ہی رہے تھے کہ ایک ایسی موج اٹھی جس نے آپؑ کے بیٹے کو نظر سے غائب کردیا اور پھر اس کو دوبارہ نہیں دیکھا گیاکیونکہ وہ غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا۔ پس یہ واقعہ ہونے والا تھا جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو خطاب کرنے سے منع فرمادیا۔

اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت تک حضرت نوحؑ نے کلام نہیں کیا جب تک کہ یہ سارا طوفان گزر نہیں گیا۔ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ادھر یہ واقعہ ہوا ادھر حضرت نوحؑ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اے خدا! تو نے اس کو ہلاک کر دیا حالانکہ یہ تو میرا بیٹا تھا لیکن یہ بات ہر گز درست نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے وَقِیْلَ یَا أَرْضُ ابْلَعِیْ مَآء؟ کِ وَیَا سَمَآءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیْلَ بُعْداً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔کہ خدا نے زمین کو حکم دیا کہ وہ اپنا پانی جذب کرلے اور آسمان کو فرمایا کہ وہ تھم جائے۔ پھر پانی نیچے ہوا اور اس کے بعد کشتی پہاڑ کی چوٹی پر جا لگی۔ اس کے بعد حضرت نوحؑ کے خدا سے کلام کا ذکر ہے۔

معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے میں حضرت نوحؑ کو اپنے بیٹے کے مرنے کا دکھ ضرور تھا لیکن اس کی موت کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس تعجب کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا کہ تیرے اہل کو میں نجات بخشوں گا پھر یہ کیا واقعہ ہوگیا؟ پس دراصل یہ دکھ نہیں تھا کہ میرا بیٹا کیوں ہلاک ہوا بلکہ یہ دکھ تھا کہ میری پیشگوئی کیوں پوری نہیں ہوئی۔ خدا کا کلام جو مجھ سے ہوا تھا میں نے اس کو سمجھنے میں غلطی کی ہے یا یہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو واضح خبر دی تھی کہ میں تیری اولاد کو بچا لوں گا اور میرا بیٹا تو میری اولاد تھی پھر وہ میری نظروں کے سامنے دیکھتے دیکھتے کیوں ہلاک ہو گیا۔ لیکن یہ عرض اس وقت کی جب یہ سارا معاملہ گزر گیا۔ ورنہ اس وقت تو انبیاء کی شان کے خلاف ہے کہ اشارۃً یا کنایۃً بھی ایسا کلام منہ پر لائیں جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے کلام پر کسی معنی میں بھی کوئی حرف آئے۔

پس حضرت نوح علیہ السلام نے بڑی خاموشی اور صبر کے ساتھ بیٹے کی ہلاکت کو برداشت کیا اور کوئی لفظ منہ پر نہیں لائے اور جب پوچھا ہے تو یہ نہیں کہا کہ بیٹا کیوں مرا ہے اس کو تو زندہ رہنا چاہئے تھا بلکہ یہ عرض کی کہ اے خدا! وہ تو میری اولاد تھی۔ وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّاور تیرا وعدہ بھی سچا ہے۔ پھر یہ کیا معمہ ہوگیا اور یہ کیا واقعہ ہوگیا کہ تیرے وعدے کے باوجود بیٹا ہلاک ہو گیا؟ اس لئے اس طرز بیان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔ بڑی ہی عاجزی کا اظہار ہے کہ میری انسانی عقل، میری بشری نظر اس معمے کو حل نہیں کرسکتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ معمہ کھولا اور فرمایا یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ کہ اے نوحؑ! وہ تیرا بیٹا کس طرح ہوگیا، وہ تیرے اہل بیت میں سے نہیں تھااس لئے کہ اس کے عمل گندے تھے۔

چنانچہ ہمیشہ کے لئے اہل بیت کی تعریف فرمادی۔ فرمایا کوئی ظاہری رشتہ اور ظاہری خون کا تعلق کسی کو نہیں بچا سکے گا۔ ادنیٰ لوگوں کو بھی نہیں بچا سکے گا کیونکہ زیادہ سے زیادہ اظہار محبت اور پیار اللہ تعالیٰ نبی سے کرسکتا ہے۔ پس نبی کا ظاہری خون بھی اس کی ایسی اولاد کو نہیں بچا سکا جس نے اس خون کی قدر نہیں کی، اس کے پیغام کی حفاظت نہیں کی اور اپنے اعمال صالحہ میں نبی کے اعمال صالحہ کو جاری نہیں کیا اس لئے جو روحانی طور پر کاٹا گیا وہ جسمانی طور پر بھی کاٹا گیا۔

یہ ایک اور سبق ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کشتی نوح میں حفاظت کی خوشخبری تو ضرور ہے، اہل خاندان کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو خاندان سے ظاہری تعلق تو نہیں رکھتے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے اس کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ ضمانت اس وقت تک ہے جب تک اعمال صالحہ موجود رہیں گے۔ جب بھی اعمال صالحہ میں کمزوری واقع ہوئی تو وہ خدا جس نے حضرت نوحؑ کے بیٹے کو ہلاکت سے نہیں بچایا وہ آئندہ بھی کبھی نہیں بچائے گا ورنہ وہ ہمیشہ کے لئے غیر منصف خدا سمجھا جائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کے زمانے میں تو خدا نے نبی کے ظاہری بیٹے کو بچانے سے انکار کردیا لیکن بعد کے کسی زمانے میں ظاہری اولاد کی قدر کرتے ہوئے اسے اس لئے بچا لیا کہ کسی پیارے کی اولاد ہے۔ کیا قیامت کے دن حضرت نوحؑ یہ سوال نہیں کرسکیں گے کہ اے خدا! مجھے بھی تو تُو نے ہی نبی بنایا تھا مجھ سے بھی تو تُو نے ہی پیار کا اظہار کیا تھا ایسا پیار کہ میری خاطر ساری دنیا کو ہلاک کردیا اور کوئی پرواہ نہیں کی، تو میرے بیٹے کو کیوں معاف نہیں کیا۔ جبکہ بعد میں آنے والوں کے بیٹوں کو معاف کیا گیا۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے انصاف پر یہ ایک ایسا الزام ہے جو کبھی نہیں لگایا جاسکتا۔

اس لئے جہاں امن کا مقام ہے وہاں خوف کا بھی مقام ہے۔ جہاں خوشخبری سے ہمارے دل بلیوں اچھل رہے ہیں کہ تمام دنیا کے طوفان مل کر بھی ہمیں ہلاک نہیںکرسکیں گے وہاں یہ خوف بھی دامن گیر رہنا چاہئے اور تقویٰ کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے۔ خدا نہ کرے ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہوں جو بظاہر اس کشتی میں سوار ہوں لیکن حقیقت میں اس کشتی سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو۔ جو بظاہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل ہوں اور جماعت کی طرف منسوب ہو رہے ہوں لیکن جب طوفان آئیں تو وہ ان کو الگ کردیں اور کھوٹے اور کھرے میں ایسی تمیز ہو جائے کہ اس وقت معلوم ہو کہ کون احمدی تھا اور کون احمدی نہیں تھا۔ خدا ایسا وقت نہ لائے کہ ہم میں سے کچھ، ہمارے پیاروں میں سے کچھ، ہمارے قریبیوں میں سے کچھ ایسے طوفان میں غرق کئے جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ کامل وفا کے ساتھ، پوری احتیاط کے ساتھ، پورے تقویٰ کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ، حق کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اس کشتی کی حفاظت کرتے چلے جائیں، جو آج تمام دنیا کو بچانے کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ ‘‘

(خطبات طاہر جلد2 صفحہ 269 تا 279)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button