یادِ رفتگاں

مکرم چوہدری صادق علی ہُندل صاحب (مرحوم)

(بلال ناصر۔ مبلغ سلسلہ باماکو۔ مالی)

خاکسار کے والد محترم چوہدری صادق علی ہندل صاحب ولد چوہدری ضیاء اللہ خان بہلولپور ضلع سیالکوٹ کی ایک ذیلدار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم قلعہ سوبھاسنگھ سے حاصل کی۔ اس کے بعد پسرور میں داخلہ لے لیا اور اعلیٰ نمبروں میں میٹرک پاس کیا۔ آپ اپنے سکول کے ذہین طلباء میں شمار کئے جاتے تھے۔ اور اپنی ذہانت کی وجہ سے اپنے پورے گاؤں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
آپ بتاتے تھے کہ جب مَیں سات سال کا تھا تو میرے والد صاحب جو کہ نمازوں کے متعلق بڑا سخت رویّہ رکھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے پوچھا کہ صادق علی! تم نے آج نماز پڑھی ہے تو مَیں نے جواب دیا کہ آج نماز نہیں پڑھی۔ انہوں نے اس کا اتنا بُرا منایا کہ کئی دن تک مجھ سے بات نہیں کی۔ مَیں نے اس بات کو دل میں بٹھایا اور اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ آج کے بعد مَیں اپنی پوری زندگی نماز اور تلاوت قرآن کو نہیں چھوڑوں گا اور وہ مرتے دم تک اس بات پر قائم رہے۔

اُن کے خاندان میں اُن کے بزرگ چوہدری عنایت اللہ خان اور چوہدری عبداللہ خان صاحب نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔ آپ کے بقول ساری رات تمام گاؤں کے ساتھ چوہدری عنایت اللہ خاں صاحب سے احمدیت کے متعلق بحث جاری رہتی اور مَیں بھی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ میری عمر اُس وقت پندرہ سال تھی۔ ایک دن چوہدری عنایت اللہ صاحب نے کہا کہ صادق علی! تم تو بڑے سمجھدار ہو تمہیں کیوں سمجھ نہیں آرہی۔ کہتے ہیں کہ اُسی روز مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے احمدیت کی سچائی کے متعلق بتایا گیا۔ مَیں کچھ دن سوچتا رہا اور پھر مجھے خواب میں دوبارہ وہی بات بتائی گئی۔ پھر مَیں نے احمدیت قبول کرلی۔ آپ اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کے بقول احمدیت کے بعد مجھے بہت زیادہ دلی سکون ملا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے برٹش آرمی کو جوائن کیا اور جنگ عظیم دوم میں مختلف ملکوں میں رہے۔ آپ کو آپ کے انگریز آفیسر بہت پسند کرتے تھے۔ وہ آپ کی ایمانداری اور ذہانت کے بہت معترف تھے۔ جب انگریز ہندوستان سے جانے لگے تو آپ کے انگریز آفیسرز نے بہت زور لگایا کہ آپ ان کے ساتھ برطانیہ چلیں کیونکہ اس ملک میں تمہاری قدر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن آپ نے یہ آفر نہ مانی۔ نظر کی کمزوری کی وجہ سے آپ نے فوج کو چھوڑ کر کیبنٹ ڈویژن میں نوکری کرلی۔ پہلے آپ کراچی میں رہے اور بعد میں لاہور تبدیلی کروالی۔ آپ جب لاہور شفٹ ہوتے تو اُس وقت آپ کے رشتہ داروں میں کوئی بھی لاہور میں نہیں رہتا تھا۔ جب آپ نے اپنا گھر لیا تو اس کے بعد قریبی اور دُور کے کافی رشتہ دار آپ کے پاس آگئے۔ محدود آمدن کے باوجود کبھی بھی آپ نے کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا اور تمام مہمانوں کی بھرپور خدمت کرتے۔ کبھی کسی کو بوجھ نہ سمجھا۔ جو مہمان کسی نہ کسی کام کے لئے لاہور آتے آپ اُن کے ساتھ بھی جاتے اور اُن کے کام بھی کرواتے۔ اپنے تمام بچوں کو بھی صبر اور برداشت کا کہتے اور اُن کو ہمیشہ مہمان نوازی کا درس دیتے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مہمان کافی تعداد میں آتےتو بچوں کو کہتے آپ لوگ چارپائیاں چھوڑدیں اور نیچے فرش پر سو جائیں اور خود بھی فرش پر سو جاتے۔ کئی مہمان ہفتوں یا مہینوں کے لئے آتے لیکن کبھی اُن کی مہمان داری میں فرق نہ آنے دیا۔ تمام احباب اور رشتہ دار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی کسی کے کام آنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔

اپنے بچوں کی دینی اور جماعتی حالتوں پر بڑی گہری نظر رکھتے۔ تمام بچوں کو باری باری پوچھتے کہ آپ نے تمام نمازیں پڑھی ہیں کہ نہیں؟۔ اگر کسی نے نماز نہ پڑھی ہوتی تو بہت زیادہ ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کرتے۔ آپ دفتر سے سیدھا جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد جاتے۔ وہاں تمام بھائیوں کو چیک کرتے اور اگر کوئی نہ ہوتا تو گھر آکر سخت سرزنش کرتے۔ ایک دفعہ ہم گھر میں سب دوپہر کو سوئے ہوئے تھے کہ دروازہ کھٹکا۔ بھائی نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک شخص ہاتھ میں کافی زیادہ چیزیں پکڑے کھڑا ہے۔ اُس نے پوچھا کہ چوہدری صاحب گھر میں ہیں؟ اُسے بتایا گیا کہ وہ تو دفتر میں ہیں۔ تو اُس نے کہا کہ یہ چیزیں لے لو جب وہ آئیں تو اُن کو میرا بتانا۔ جب آپ گھر آئے تو والدہ نے اُن کو بتایا کہ فلاں شخص آیا تھا اور یہ چیزیں دے کر چلا گیا ہے۔ والدہ نے اُن چیزوں کو ہمیں ہاتھ بھی نہ لگانے دیا۔ آپ نے چیزیں دیکھیں اور ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ نے یہ چیزیں کیوں لی ہیں۔ پھر اُسی وقت بھائی کو کہا کہ یہ چیزیں اُس کو واپس کرکے آؤ۔ اس وقت چار بجے بعد دوپہر کا وقت تھا اور گرمی بھی بہت زیادہ تھی اور وہ شخص سمن آباد سے کافی دُور ساندہ میں رہتا تھا۔ بھائی کو کہا کہ ابھی جاؤ اور اس کو یہ واپس کرکے آؤ۔ اصل میں اُس شخص کی آپ کے پاس فراڈ کی انکوائری چل رہی تھی اور اُس نے رشوت دینے کی کوشش کی تھی۔

آپ تمام بچوں کا چندہ خود باقاعدگی سے دیتے اور جب رسیدیں کٹواتے تو ہمیں پاس بٹھاکر دکھاتے کہ آپ لوگوں نے بھی اسی طرح ہمیشہ جماعتی چندہ جات میں باقاعدگی رکھنی ہے۔ تمام بچوں سے بھی جماعتی چندہ جات اور تحریکات کی ادائیگی کا پوچھتے اور خود اس کا حساب دیکھتے۔ اسی طرح تمام بچوں کو جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کرتے اور اس کی نگرانی بھی کرتے اور سینیئر عہدیداروں سے اُن کے متعلق پوچھتے۔

آپ 28 مئی 2010ء کو میرے ساتھ بیت النور ماڈل ٹاؤن میں موجود تھے۔ آپ اُن لوگوں میں سے تھے جو خود بھی بہت حوصلے میں تھے اور دیگر افراد کو بھی صبر اور حوصلہ دیتے رہے۔

آپ کو خلافت احمدیہ سے بہت زیادہ عشق تھا۔ تمام بچوں کو خلیفہ وقت کی اطاعت کا درس دیتے۔ حضور کے تمام خطبات کو باقاعدگی سے سنتے اور تمام اہل خانہ کو بھی چیک کرتے کہ وہ خطبہ کے وقت موجود ہیں کہ نہیں۔ اپنی تمام زندگی نماز تہجد اور دیگر نمازوں میں باقاعدگی رکھی۔ اسی طرح قرآن کریم اور تفسیر کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کرتے۔ تمام لوگ آپ کی سچائی اور صاف گوئی کے معترف تھے۔ آپ کی محبت اور مہمان داری کی لوگ ہمیشہ تعریف کرتے۔ آپ کی وفات 6 فروری 2018ء کو ہوئی۔ اگلے دن 7 فروری کو آپ کی نماز جنازہ آپ کے گھر واقع کینال ویو ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ہوئی جس میں کثیر تعداد میں احباب جماعت نے شرکت فرمائی۔ بعد میں ہانڈوگجراں میں تدفین کی گئی۔

قارئین سے ہمارے والد صاحب مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی ساری اولاد کو ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button