متفرق مضامین

ہتے ہیں یورپ کے ناداں …….

(سید میر محمود احمد ناصر)

سید میر محمود احمد ناصر

یورپ کے نادان کہتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں بلکہ محمّد (رسول اللہ ﷺ) کی اپنی تصنیف ہے جو آپؐ نے اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی عظمت اور اپنے ذاتی علم کے نتیجہ میں لکھی ہے ۔

یہ نادان اتنا نہیں سوچتے کہ جو شخص اپنے ذاتی فائدہ کے لئے کوئی کتاب لکھتا ہے تو وہ اس میں اپنی خوبیاں، اپنے کمالات، اپنے حسن، اپنے احسان، اپنے کارنامے، اپنی برکات کا بیان کرتا ہے ۔ با ر بار اپنا نام اچھالتا ہے مگر اگر سرسری نظر سے بھی قرآن پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں اصل اور حقیقی ذکرہے تو خدا کی ہستی کا، خوبیاں بیان ہیں تو خدا کی، کارناموں کا ذکر ہے تو خدا کے کارناموں کا ، عبادت کا حکم ہے تو خدا کی عبادت کا ، جو آیت بھی پڑھیں جو حصہ بھی تلاوت کریں اللہ کی صفات حسنہ کا ذکر ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا تذکرہ ہوگا ، باقی سب مضامین اس بنیادی مضمون کے ذیل میں آجائیں تو آجائیں اصل ذکر خدا کا ہے اس کی وحدانیت کا، اس کے ازلی ابدی ہونے کا، اس کا تمام کائنات کے خالق ہونے کا، مالک ہونے کا، اس کی رحمانیت کا، اس کی رحیمیت کا، اس کی مالکیت کا ۔ اگر قرآن کسی انسان کی تصنیف ہوتا جو اس نے اپنے فائدہ کے لئے، اپنی عظمت کے لئے، اپنا رعب جمانے کے لئے ، دوسروں کو اپنا ماتحت بنانے کے لئے لکھی ہوتی تو وہ اپنا نام اس میں بار بار لاتا مگر سارا قران پڑھ جائیے صرف چار مرتبہ محمّد(ﷺ) کا لفظ ملے گا ۔ جبکہ اللہ کا لفظ قرآن میں کم ازکم ڈھائی ہزار (2500) دفعہ ہے اور اس کی صفات کا تذکرہ ہے ہر سورۃ ، ہر رکوع ، ہر صفحہ لبریز ہے ۔

بے وقوف کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو تصنیف کیادنیوی فائدہ اٹھانے کے لئے ۔آئیے پہلے تو ہم ان چار مقامات کو دیکھتے ہیں جہاں آپﷺ کا اسم مبارک ہے ، سورۃ آل عمران میں لکھا ہے

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ (سورۃآل عمران 145)ذرا غور سے دوبارہ اس آیت کو پڑھیے کیا اس آیت میں کسی دنیوی مفاد کے حصول کی کوشش کی جھلک ہے یا کسی دنیوی عظمت کے حصول کی خواہش نظر آتی ہے۔ یہاں تو یہ مضمون ہے آپﷺ کلیتہً بشر ہیں، یسوع ناصری کے متبعین کی طرح ان کو خدا نہ بنالینا وہ بشر ہیں اور رسول ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرح ہمیشہ سے زندہ نہیں۔ وہ فوت بھی ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ قتل بھی ہو سکتے ہیں۔ بشریت ان میں پائی جاتی ہے ۔

دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ (سورۃالاحزاب41) کہ محمّد(ﷺ)تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں (جسمانی طور پر آپؐ کی نرینہ اولاد تھی) مگر آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کی مہر ہیں ۔ اس آیت میں آپؐ کو جو عظیم مقام اور رتبہ دیا گیا وہ کسی دنیوی مفاد ،دنیوی عظمت ،دنیوی مال و دولت کے حصول سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ سراسر روحانی مقام ہے ۔ الزام لگایا جاتا ہے آپؐ نے مادی فوائد کے لئے قرآن تصنیف کیا ۔قرآن کہہ رہا ہے کہ آپؐ کو بڑی عمر کی نرینہ اولاد حاصل نہیں مگر روحانی اولاد مومنوں اور نبیوں کی صورت میں حاصل ہے ۔

تیسری جگہ آپؐ کا اسم مبارک محمّد ؐ اس آیت میں ہے وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ (سورۃ محمّد3) کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمد ؐ پر اتارا گیا ہے ۔

اس آیت میں بھی کسی دنیوی خواہش ، دنیوی مال و متاع اور حکومت کے حصول کا ذکر نہیں بلکہ یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ بعض سابقہ مذاہب مثلاً عیسائیت وغیرہ کی طرح تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہ بنا لینا اور اس کلام کو آپؐ کا کلام قرار دے کر آپﷺ کو یسوع کی طرح خدا نہ کہنے لگ جانا یہ کلام نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ آپؐ کا کلام نہیں بلکہ آپؐ پر اتارا گیا خدا کا کلام ہے ۔

چوتھی جگہ فرماتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا (سورۃالفتح30) یعنی محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں وہ انکار کرنے والوں (جو حملہ کرتے ہیں ) کے مقابلہ میں آہنی دیوار اور آپس میں رحم کرنے والے ہیں ۔ ان لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں ۔

یہ آیت بھی بتا رہی ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کا مقصود و مراد اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا ہے۔ کوئی دنیوی غرض ، کوئی مالی فتح نہیں ۔ آپﷺ کے صحابہ جو آپؐ کے ساتھ تھے مال کے لئے نہیں ، خدا کی رضا مندی کے لئے رکوع کرتے سجدہ کرتے نظر آتے ۔

اب دیکھئے جو شخص اپنے دنیوی اور روحانی فوائد کی خاطر کتاب لکھتا ہے تووہ اپنے نام کو ، اپنے کام کو اس غرض کے لئے استعمال کرتا ہے مگر قرآن شریف انسان کا کلام نہیں خدا کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آپؐ کے روحانی کمالات کے ساتھ کرتا ہے نہ کہ کسی دنیوی دولت اور ظاہری عظمت کے لئے۔

یورپ کے یہ نادان لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپؐ نے قرآن شریف کی تصنیف نعوذ باللہ مادی اغراض کے لئے کی۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے آپﷺ کا بابرکت نام محمّدﷺ صرف چار 4دفعہ قرآن شریف میں ہے اور چاروں مقامات پر کوئی دنیوی فوائد کا حصول اس نام کے ذکر سے متصور نہیں ۔ قرآن شریف میں اگر آپؐ کا نام نامی چار دفعہ مذکور ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام 136 دفعہ آیا ہے۔ اب یہ الزام لگانے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے یورپ کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خود قرآن لکھا ،اپنے فائدہ کے لئے ، اپنی عظمت قائم کرنے کے لئے ، اپنا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لئے۔ مگر اس میں اپنا نام تو صرف چار دفعہ لکھا اور اس قوم یعنی یہود کے نبی کا نام 136 دفعہ لکھا کیونکہ آنحضرتﷺ قرآن لکھ کر اپنی عظمت اور اپنا فائدہ چاہتے تھے؟ کیا کوئی صاحب عقل اس بات کو مان سکتا ہے؟ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اپنی عظمت کے اظہار کے لئے لکھنے والا اپنے شدید دشمنوں کے بزرگ کی عظمت کا اظہار کرے اور 136دفعہ اپنی کتاب میں اس کا نام لکھے اور اپنا نام صرف چار 4دفعہ لکھے۔ اور صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام تک محدود نہیں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام قرآن شریف میں 69 دفعہ آتا ہے اور عیسیٰ نام حضرت مسیح ناصری ؑ کا ذکر قرآن شریف میں 25مرتبہ آتا ہے اور ان سب کا ذکر تعریف کے رنگ میں ہے جب کہ خود بائبل میں ان بزرگوں کا ذکر بعض مقامات پر اچھے رنگ میں نہیں ۔

کیا اب بھی آپ یہ کہیں گے کہ قرآن خدا کا کلام نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی اپنی تحریر ہے جو آپؐ نے نعوذ باللہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے لکھی تھی۔اپنی عظمت قائم کرنے کے لئے تحریر کی تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button