از افاضاتِ خلفائے احمدیت

مجلس سوال و جواب

مرتبہ منیر احمد شاہین۔مربی سلسلہ

دھرنا یا ہڑتال

آج کل وطنِ عزیز پاکستان میں مذہبی و سیاسی دونوں گروہوں کی طرف سےاور مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے دھرنا و ہڑتال کے کلچر نے بہت فروغ پایا ہے ۔ دھرنے یا ہڑتال کی اسلامی تعلیم میں کیا حیثیت ہے ؟ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کا بیان فرمودہ ایک خوبصورت جواب ایک مجلسِ عرفان سے سُنا اور دیکھا جو افادئہ ِ عام کے لئے تحریراً پیش ہے۔

محترم درشن سنگھ گِریوال صاحب جنرل سیکرٹری آف ورکرز یونین نے 8؍ دسمبر 1996ء کو لندن میں منعقدہ ایک مجلس سوال جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے دریافت کیا کہ

مزدور یا ورکرز جو ہڑتال وغیرہ کرتے ہیں کیا اسلام میں اسے جائز سمجھا جاتا ہے ؟

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا

جہاں تک اسلامی ممالک کا تعلق ہے یا عام علماء کا تعلق ہے ۔ اُن کے نزدیک اس سوال کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ لوگ بے شک کرتے پھریں اُن کو کوئی پرواہ نہیں ۔ خود بھی strikeکرتے ہیں ۔خود بھی دھرنے مارتے ہیں لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے جماعت کی رُو سے strike actionکی ضرورت نہیں ہے ۔

دو باتیں ہیں ۔ اوّل یہ کہ strike ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اپنے فرائض سے غافل ہے اور sensitivity حکومت کو ہونی چاہئے کہ وہ ضرورتوں کا نیچے اُتر کر دھیان رکھے اور اگر ضرورتیں جائز ہیں تو مطالبہ کے بغیر پوری کرے اور اگر جائز نہیں ہیں تو strike ہو یا کوئی چیز ہو حکومت اُس سے دَبنی نہیں چاہئے ۔ کیوں کہ اُصول کا تقاضا یہ ہے کہ غلط بات میں غلط دباؤ کے نیچے نہ آؤ ۔ اس لئے اسلامی تعلیم میں تو strikeکا موقع ہی کوئی نہیں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق قطعی شہادت ملتی ہے کہ خلافت کے دَوران آپ بعض دفعہ رات کواپنے غلام کو لے کر ایسے لباس میں چلتے تھے کہ عام چلنے پھرنے والے کو پتہ نہ چلے اور گہری رات ہونے پر نکلتے تھے ۔ چکر لگاتے تھے کہ کہیں کوئی تکلیف میں تو نہیں ؟ گھروں کے پاس سے گزرتے تھے ۔ اندر سے اگر کسی کی دردناک چیخ آتی ، کوئی تکلیف میں ہوتا توفوری اُس کے ازالہ کی خود کوشش کرتے۔ اب اس دَور میں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر سربراہ خود بڑے بڑے ملکوں کی گلیوں کے چکر لگائے لیکن خدا نے اُسی حد تک سہولت بھی تو دے دی ہے ۔ اب تو جاسوسی کا نظام اتنا ترقی کر گیا ہے کہ گھر بیٹھے Royal families کے اندر کی باتیں لوگ معلوم کر لیتے ہیں لیکن بد نیتی سے کرتے ہیں۔ لیکن اگر نیک نیتی سے عوامی ضرورتوں پر نگاہ رکھنے کے لئے جدید طریقے استعمال کئے جائیں اور پل پل کی خبر حاصل کی جائے تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اُصول وہی ہے کہ حکومت حسّاس ہو اُن لوگوں کے لئے جن لوگوں کے اوپر وہ نگران ہے ۔ اس لئے قرآنِ کریم میں حکومت کا جو تصور ہے وہ عام مولویوں یا دوسروں کے تصوّر سے بالکل مختلف پیش فرمایا ہے ۔ قرآنِ کریم فرماتا ہےوَاِذَاحَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء 59:) کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو کس چیز سے کرو ؟ شریعت سے ، قرآن سے؟ یا ویدوں سے؟ کوئی ذکر نہیں ہے۔ تو محض عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ کوئی مذہب کوئی اور نظام تمہارے پیشِ نظر نہ ہو۔ نہ party politics نہ کوئی اور محرکات بلکہ کامل justice ، absolute justice ۔اس کے سوا حکومت کا کوئی اور نظام نہیںہے جو قرآن کریم پیش کرے۔ اور اگر absolute justiceہو جائے تو پھر اور چاہئے ہی کچھ نہیں ۔

جتنے احتجاج ہیں یہ justiceنہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لئے مَیں نے کہا تھا کہ حکومت کا فرض ہے ۔ اگر کسی سے justiceنہ کیا تو وہ حکومت جواب دِہ ہوگی ۔ یہ دوسری بات ہے جو اسلامی حکومت کو اگر وہ سچی اسلامی حکومت ہو تو ایسے حالات قائم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ عوام کو احتجاج کی ضرورت پیش نہ آئے کیوں کہ خدا تعالیٰ نے دوسرا تصور یہ پیش فرمایا ہے قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی کہ تم اپنے افعال کے جواب د ِہ ہو ۔اور آنحضرت ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ ہر گھر کا سربراہ اپنے زیرِ نظر خاندان کے معاملہ میں خدا کو جوابدِہ ہے۔ وہ مالک نہیں ہے۔ وہ امین ہے ۔ یہ اُس کے پاس امانتیں ہیں ۔ جس طرح ہر گڈریا بھیڑوں کے متعلق جوابدہ ہے جن کے مالک اور ہوں ۔ اُسی طرح ہر انسان اپنے نیچے اپنے ماتحت لوگوں کے متعلق جوابدہ ہے ۔ اس مضمون کو بڑھاتے ہوئے آپؐ حکومت کا بھی ذکر فرماتے ہیں کہ ہر سربراہ اپنی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔(صحیح بخاری  جلد اوّل  حدیث نمبر2306  قرض لینے اور قرض اَدا کرنے کا بیان)

تو جہاں یہ نظام قائم ہو وہاں strikeکا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اُلٹ قصہ ہے ۔ایسی حکومتیں تو اتنی ہردلعزیز ہو جایا کرتی ہیں کہ لوگ ان پر جان چھڑکتے ہیں ۔

کیا حضرت مرزاغلام احمدصاحب ہی وہ عیسٰی ؑ ہیںجنہوں نے دوبارہ نزول فرمانا تھا؟

8؍دسمبر 1996ء کو اسی مجلس سوال و جواب میں ایک غیر از جماعت دوست نے سوال کیا کہ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت ، جماعت احمدیہ کے علاوہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام کا دوبارہ نزول ہوگا ۔ وہ تشریف لائیں گے ۔ اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ غلام احمد مرحوم ہی عیسیٰ علیہ السّلام تھے ۔ اس سلسلہ میں آپ کوئی ٹھوس دلیل اِرشادفرمائیے ؟

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا

جماعت احمدیہ کا عقیدہ مجھے بیان کرنا چاہئے تھا۔ آپ نے کر دیا ۔ کہتے ہیں ، پنجابی میں مثل ہے’ گھروں مَیں آواں تے سُنیہے تُوں دَویں‘۔ آج آپ نے وہی بات کی ۔ جن الفاظ میں آپ نے بیان فرمایا ہے جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ نہیں ہے ۔ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریم رسول اللہ فوت ہو چکے ہیں ۔ اس لئے حضرت مرزاغلام احمد صاحب وہ ہو ہی نہیں سکتے، وہ عیسیٰ مسیح جو حضرت موسٰی ؑ کی اُمّت میں پیدا ہوئے تھے۔

لیکن جو شخص فوت ہو چکا ہو اگر اُس کا نام لے کر کسی اور پر اِطلاق کیا جائے تو ساری دنیا کی زبانوں میں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اُس کی خُوبُو پر، اُس کے اَخلاق پر، اُس سے ملتا جلتا کوئی انسان ہے نہ کہ خود وہ ۔

جیسے آپ کسی اچھا ڈرامہ لکھنے والے کوشیکسپیئر کہہ دیں ، کسی شاعر کو غالبؔ کہہ دیں اور اسی طرح رستمؔ نام بھی مشہور ہے ۔ آپ نے پنجاب میں یا ہندوستان میں سنا ہوگا گاماؔ پہلوان۔ اُس گاما کو رُستم کہتے تھے ۔ رُستمِ زمان ! ساری دنیا کا رُستم ۔ کوئی پوچھے اس کا نام تو گاما ہے۔ رُستم کہاں سے ہو گیا ؟ لیکن سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی طرزِ بیان ہے کہ ایک شخص جو اپنی بعض باتوں میں کسی اور سے مشابہ ہو جائے ۔ اتنا مشابہ ہو کہ اُس کی جو بنیادی صفت ہے وہ ایک ہو جائے تو پھر ایک آدمی کو دوسرے کا نام دے دیا جاتا ہے ۔

آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تو حاتم طائی ہے ! کیوں کہتے ہیں ؟ سخاوت اُس کا خاصہ ہے۔ رُستم کیوں کہتے ہیں ؟پہلوانی اور بہادری اور دلیری اُس کا خاصہ ہے ۔ Dramatist کی اپنی خصوصیات ہیں۔ رضیکہ یہ رُوح ہے جس کے پیشِ نظر ایک کانام دوسرے کو دیا جاتا ہے ۔

پس سب سے اہم مسئلہ جس کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا عیسیٰ علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فوت نہیں ہوئے ؟ اور کیا جیسا کہ آپ نے بیان کیا ہے لوگوں کے عقیدہ کے مطابق وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں یا نہیں ؟ آپ نے یہود کا بھی ذکر فرمایا اور مسلمانوں کا بھی اور عیسائیوں کا بھی ، اور سوال سے یہ ظاہر ہوا کہ گویا سب کا ایک ہی عقیدہ ہے ۔ یہ درست نہیں ہے !

(i)یہود کہتے ہیں پہلا مسیح جس نے آنا تھا وہ ابھی تک آیا ہی نہیں ۔ اُس نے کہاں جانا تھا ؟ (ii) عیسائی کہتے ہیں کہ آیا تھا اور صلیب پر مَر گیا او ر پھر مردوں سے جی اُٹھا اور بطور خدا کے بیٹے کے آئے گا ۔ نبی اللہ کے طور پر نہیں آئے گا ۔ ان عقائد میں بڑا فرق ہے ۔ (iii)مسلمان یہ کہتے ہیں کہ صلیب پر چڑھا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کسی یہودی کو اُس کی شکل دے کر حضرت مسیح کی جگہ صلیب پر چڑھا دیا اور فرشتوں نے حضرت عیسیٰ کو اُٹھا کر کسی سیارے میں پہنچا دیا ہے جو علماء کے نزدیک چوتھے آسمان میں کہیں واقع ہے اور دو ہزار سال ہونے کو آئے ابھی تک مسیح اُس قیدِ تنہائی میں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں کہ کب میری ضرورت ہوگی تو مجھے واپس لایا جائے گا۔

یہ ان غیر احمدی مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ اگر یہ عقیدہ درست ہے تو پھر وہی آئیں گے ۔ پھر مرزاغلام احمد ہوں یا کوئی اور ہو اُن کو تمثیلاً بھی مسیح کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

لیکن اگر وہ فوت ہو چکے ہیں جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے ۔ ہم قرآن اور سُنّت اور د وسرے دلائل سے ثابت کرتے ہیں توپھر وہ عیسیٰ جو مَر کے زمین میں دفن ہو چکے ہیں وہ آسمان سے نہیں اتر سکتے ۔ پھر ہر ایسے شخص کی طرح جس کا فوت ہونا یقینی ہواُس کا نام اگر کسی اور پر استعمال کیا جائے تو وہ ضرور تمثیلی نام ہے ۔ حقیقی اور اصلی نام نہیں ہے ۔ یہ اصل فرق ہے جو آپ کو پہلے سمجھنا چاہئے ۔

اس ضمن میں آپ کی توجہ حضرت مسیح علیہ السّلام کے ایک فیصلہ کی طرف کرواتا ہوں۔ جس کے متعلق ہم جھگڑ رہے ہیں وہ سب سے بڑا مجاز ہے کہ فیصلہ کرے ۔ حضرت مسیح سے پہلے بھی یہ خیال تھا کہ ایک شخص ایلیاؔ نامی جو نبی تھے وہ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے اور یہ باتOld Testamentمیں لکھی ہوئی ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ اُس کی پوری تاریخ ہے …(دیکھیں 2۔سلاطین باب 2آیت 11۔ (مرتّب)) بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اس کو تسلیم کیا ۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو جو صحیفوں میں لکھا ہے ؟ اُنہوں نے کہا بالکل انکار نہیں کرتا ۔ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ دوبارہ آسمان سے اُسی آتشی رتھ یعنی آگ برساتی ہوئی ایک رَتھ ہے پر بیٹھے ہوئے نیچے اُتریں گے اور جب وہ اُتریں گے تو وہ اعلان کریں گے کہ مسیح آنے والا ہے اس کو قبول کرلینا ۔

اب یہود نے حضرت عیسیٰ ؑسے سوال کیا یا یہود کا یہ سوال حضرت عیسٰی ؑ تک پہنچایا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ ایلیا تو اُترا نہیں اور آپ کہاں سے آ گئے ؟ توحضرت مسیح نے اس پیشگوئی کا انکار نہیں فرمایا ۔ فرمایا یوحنّاؔ بپتسما دینے والے کہلاتے ہیں یہ وہی ایلیا ہیں جنہوں نے آسمان سے آنا تھا چاہو تو قبول کرو ۔ چاہو تو نہ قبول کرو۔ (دیکھیںمتی باب 17 آیات 10تا13۔ (مرتّب))

اب آپ یہ بتائیے اگر مسیح کا یہ فیصلہ درست ہے تو حضرت ایلیا دراصل حضرت یحیٰی ؑ کی صورت میں اُترے ہیں اور حضرت یحیٰی ؑ کو اس صورت میں سچّا ماننا ہمارا فرض ہے ۔ باوجود اس کے کہ وہ اُن لوگوں کے سامنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے ماں باپ کے نام اور تھے ۔ حضرت ایلیا کا اپنا نام اور ، اور ماں باپ کے نام اور ! باوجود اس کے کہ اُنہوں نے آسمان سے اُترنا تھا پھر بھی حضرت عیسٰی ؑنے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ یحیٰی ؑ ہی وہ ایلیا ہے جس نے آسمان سے اُترنا تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ سچّا ہے یا جھوٹا ہے ؟ اگر سچّا ہے تو حضرت مسیح پہ اس کا اِطلاق کیوں نہ ہوگا ؟اتنی سی بات ، سمجھنے کی بات ہے ! اس لئے بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کے مَیں کثرت سے اور تفصیل کے ساتھ جواب دے چکا ہوں ۔ اس سوال میں اور بہت سے پہلو ہیں مثلًا وفاتِ مسیح کا مسئلہ ، صلیب پر چڑھائے جانے والا واقعہ جیسا کہ مسلمان بیان کرتے ہیں ۔

مَیں نے جو ایلیا والا حوالہ دیا تھا وہ سلاطین جسے Kingsکہتے ہیں اس میں 2سلاطین باب 2 آیت 11 میں درج ہے ۔ اتنی مسلّمہ بات ہے کہ عام علماء بھی انکار نہیں کرتے ۔…

وفاتِ مسیح کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر حضرت عیسٰی ؑ باقی انبیاء کی طرح طبعی وفات پا چکے ہیں لیکن صلیب پر نہیں جس کاقرآن نے انکار کیا ہے ۔ تو پھر وہ تو اب کبھی نہیں اُترتے ۔جو دفن ہوگئے جن کی رُوح خدا کے حضور حاضر ہوگئی اُن کی واپسی کا جو عقیدہ لئے بیٹھے ہیں وہ خود مَر جائیں گے مگر کوئی اُن کو زندہ کرنے والا نہیں آئے گا۔ اور وہ فوت ہو چکے ہیں جیسا کہ ہم نے کہا ہے۔ تو پھر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیاں لازماً کسی اُمّتی کے حق میں پوری ہونی چاہئیں ۔ جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اُمّت میں اُسی طرح پیدا ہوگا جیسے عیسیٰ علیہ السّلام حضرت موسٰی ؑ کی اُمّت میں پیدا ہوئے تھے ۔ جس طرح حضرت یحیٰی ؑ حضرت موسٰی ؑ کی اُمّت میں پیدا ہوئے تھے اور وہی تاریخ دوہرائی جائے گی ۔ ایک انسان پیدا ہوتا ہے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں وہی ہوں جو پہلا تھا اور لوگ انکار کر دیتے ہیں۔ ہنسی مذاق کرتے ہوئے رُخ پھیر لیتے ہیں۔ تو یہ بنیادی عقائد ہیں جو ہمارے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ ان کی تفصیل سے متعلق اگر آپ کو دلچسپی ہو نیز اگر اس مجلس سوال و جواب کے آخر پر وقت ہوا تو پھر مَیں اس مسئلہ پر واپس آ جاؤں گا ۔ لیکن ہم آپ کو بہت سا کتابی لٹریچر دے سکتے ہیں جس میں بڑی وضاحت سے یہ باتیں مذکور ہیں اور میری اپنی ویڈیوز اور آڈیوز ایسی ہی مجالس کی موجود ہیں جن میںمَیں نے بہت تفصیل سے ہر پہلو کو چھیڑا ہے ۔ مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ جب آپ سُنیں گے تو آپ کا دل مطمئن ہو جائے گا ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button