متفرق مضامین

احمدیوں پر ہونے والے مظالم(1982ء تا 2003ء )مختصر جائزہ

(نصیر احمد قمر)

قسط نمبر 2

وفاقی شرعی عدالت میں آرڈیننس 20کو چیلنج


پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے جو اسلام کو سیاسی عزائم کے لئے استعمال کر رہے تھے اور اس غرض کے لئے عدالتوں کے اختیارات پر بھی ضرب لگا رہے تھے ایک مارشل لاء ترمیم کے ذریعہ آئین تک کو بدل ڈالا تھا۔ آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تھی جس کا دائرۂ ِ اختیار یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ قرآن و سنت سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ملکی قانون کو قرآن و سنت کے پیمانے پرپرکھنے کے لئے وفاقی شرعی عدالت قائم کی جارہی ہے اور یہ گویا ’نفاذِ اسلام‘ کی طرف ایک قدم تھا۔ آئینی اور قانونی معاملات پر نظر رکھنے والوں پر یہ بات واضح تھی کہ ایک متوازی نظام قائم کر کے دراصل اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات محدود کرنا مقصود تھا۔

1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنی غیر قانونی آمریت کو سہارا دینے کے لئے مذہبی انتہاپسندوں کا سہارا لیا۔ اس سلسلہ میں 1984ء کا آرڈیننس XX جسے ’امتناعِ قادیانیت آرڈیننس ‘کہا گیا ہے، نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت مسجد کو مسجد کہنا اور اذان دینا قابلِ تعزیر جرائم ٹھہرائے گئےتھے۔ احمدیوں کے لئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے پر بھی قید کی سزا مقرر کی گئی تھی اور بعض القابات کا استعمال بھی احمدیوں کے لئے قابلِ تعزیر بنا دیا گیا تھا۔ اس قانون کے ذریعے احمدیوں کی مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگائی گئی تھی اور احمدیوں کے لئے روز مرہ کے سماجی تعلقات اور مذہبی فرائض کی بجا آوری قابلِ تعزیر ہو کر رہ گئی تھی۔ اس قانون کی زد براہِ راست ہر احمدی پر پڑتی تھی۔

وفاقی شرعی عدالت میں کوئی بھی شہری کسی بھی قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کر سکتا تھا کہ مذکورہ قانون قرآن و سنّت سے متصادم ہے۔ اور یہ پابندیاں جو اس قانون کے تحت عائد کی گئیں وہ واضح طور پر قرآن و سنت سے معارض تھیں۔ چنانچہ چند احمدیوں کی طرف سے انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ میں اس قانون کو آئین کے تحت بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی بناء پر چیلنج کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست گزاری۔ درخواست کی بنیاد یہی تھی کہ یہ آرڈیننس تعلیماتِ اسلامی کے منافی اور قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے وضع کردہ طریقِ کار کے مطابق ضروری تھا کہ ان آیاتِ قرآنی یا کتب کا حوالہ بھی دیا جائے جن پر استدلال قائم کیا گیا ہو۔ چنانچہ اس غرض کے لئے ڈیڑھ سو سے زائد حوالہ جات درخواست کے ساتھ شامل کئے گئے اور معیّن طور پر ہر پابندی کے بارے میں آیاتِ قرآنی اور سنت کے حوالے دیئے کہ کون سی پابندی، کون سی آیت یا سنّت سے متصادم ہے۔ ان حوالوں میں متقدّمین، متأخّرین اور عصرِ حاضر کے علماء کے حوالے شامل تھے۔ دورانِ بحث اصل کتب سے وہ حوالے عدالت میں پیش کئے گئے اور ان پر تفصیل سے بحث کی گئی، فریقین کی بحث کم و بیش چودہ دن جاری رہی۔

راقم الحروف (نصیر احمد قمر) بھی چودہ دن کی عدالتی کارروائی میں شامل رہا اور اس بات کا شاہد ہے کہ چودہ روز کی کارروائی تائیدات و نصرتِ الٰہی کا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر بتایا تھا کہ

’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔

اس پیشگوئی کو اس چودہ روزہ عدالتی کارروائی میں  بھی بڑی شان کے ساتھ بار بار پورا ہوتے دیکھا۔

احمدی درخواست گزاروں کی طرف سے شروع ہی میں یہ بات عدالت پر واضح کر دی گئی تھی کہ ہم آئینی ترمیم کو زیرِ بحث نہیں لانا چاہتے۔ یہ عدالت آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی مجاز نہیں ہے۔ ہم بھی اس بات کو زیرِ بحث نہیں لائیں گے۔ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے علی الرغم، میرا مذہب کچھ بھی ہو، آرڈیننس کی عائد کردہ پابندیوں کا جائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں لیا جانا چاہئے۔ اور جو درخواست داخل کی گئی ہے اسے ہم ایک مذہبی فریضہ کے طور پر ملک و ملّت کی خیر خواہی کے جذبہ سے ادا کر رہے ہیں۔ کیونکہ جو قانون قرآن و سنت کے منافی ہو اسے ملکی قانون کا حصہ نہیں ہونا چاہئے اور کالعدم قرار دے دینا چاہئے تا کہ قوم کسی معصیت کا شکار ہونے سےاور قرآن و سنّت کے خلاف تعزیری قوانین نافذ کرنے کے وبال سے بچ جائے۔ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ تعزیری قوانین اگر قرآن و سنت سے متصادم ہوں تو قوم ایک بہت بڑے انتشار کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ قرآن و سنت کے خلاف احکام کی اطاعت لازم نہیں۔

آغاز میں ہی عدالت کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ یہ ایک نہایت اہم اور تاریخی مقدمہ ہے اور اس مقدمہ کے فیصلہ سے پاکستان کی تاریخ پر بڑے گہرے اور دُوررس اثرات مرتب ہوںگے۔ اس مقدمے کے فیصلہ ہی سے وہ راہیں متعیّن ہوں گی جن پر آگے چل کر اس ملک میں  اسلامی قانون کا نظام نافذ ہو گا۔ اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کا کس حد تک احترام کیا جائے گا اور کس حد تک اسے پامال ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات بھی واضح ہو گی کہ آیا اقتدارِ وقت کو شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ آبادی کے کسی حصہ کے مذہبی معاملات میں بلا روک ٹوک دخل اندازی کرے۔ اور اس مقدمہ کے فیصلہ پر ہی اس بات کا انحصار ہو گا کہ مذہب، مذہبی اعتقادات اور تعبّدی امور میں سیاسی اقتدارِ وقت کی دخل اندازی شرعًا جائز ہے یا نہیں۔ اور اس مقدمہ کے فیصلہ کی روشنی میں ہی اس ملک عزیز کے دوسرے شہری اپنے مذہبی حقوق کے بارے میں اپنی امیدوں اور اپنے اندیشوں کا اس نظر سے جائزہ لیں گے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور عبادت بجا لانے میں آزاد ہیں یا نہیں۔

زیرِ بحث درخواست پر اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے

1۔ سب سے پہلے ازروئے قرآن و سنت اقتدارِ وقت کی قانون سازی کی حدود اور شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیا گیا۔

2۔ اس کے بعداس امر پر بحث کی گئی کہ قرآن فہمی کے اصول کیا ہیں اور قرآن و سنت کا مفہوم متعیّن کرنے کے لئے ہمیں کن اصولوں کی پابندی کرنی چاہئے۔

3۔ اس کے بعد یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذہبی آزادی کے بارہ میں روح اسلام کیا ہے؟ کیونکہ زیرِ نظر آرڈیننس مذہبی معاملات سے متعلق ہے اور اس کا اس نظر سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آیا وہ مذہبی آزادی کے اسلامی اصولوں سے متصاد م تو نہیں؟

4۔ اس کے بعد آرڈیننس کی مختلف شقوں کا الگ الگ جائزہ لیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ یہ قانون کس طرح سے اسلامی اصولوں اور نصوص سے متعارض ہے اور اس ضمن میں اذان، لفظ مسجد، بعض اصطلاحات، حق تبلیغ اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے حق کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ

5۔ آیا شریعت اسلامیہ کی رُو سے کسی ایسے فعل کو قابلِ تعزیر بنایا جا سکتا ہے جو اپنی ذات میں معصیت نہ ہو اور جسے شریعتِ اسلامی گناہ، مکروہ یا مذموم قرار نہ دیتی ہو۔

یہ امر بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا کہ اس درخواست کے فیصلہ کرنے میں مندرجہ ذیل سوالات عدالت کے زیرِ غور آئیں گے جن پر عدالت کو کوئی فیصلہ دینا ہو گا۔

1۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کا اقرار اور اعلان کرے؟

2۔ کیا اسلام کسی غیرمسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے یا نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے؟

3۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے یا نہیں کہ وہ قرآن حکیم کو ایک اعلیٰ نظام حیات سمجھ کر اسے واجب الاطاعت تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے؟

4۔ اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے احکام پر عمل کرنا چاہے تو کیا اسے اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

5۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اس حق کی نفی قرآن کریم و سنّت میں کہاں ہے؟

6۔ ایسے شخص کے لئے اسلام کیا لائحہ عمل تجویز کرتا ہے جو گو عُرفًا مسلمان نہ ہو اور اسے قانونی حق نہ بھی ہو مگر دل و دماغ سے خدا کی وحدانیت، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقّانیت اور قرآن کی صداقت پر دل سے یقین رکھتا ہو۔

عدالت میں بڑی تفصیل کے ساتھ اور قوی اور مستند شواہد کے ساتھ اس آرڈیننس کے خلافِ قرآن و سنّت ہونے پر بحث کی گئی۔

وفاقی شرعی عدالت نے نہ تو اس بحث کی ریکارڈنگ کرنے کی سائلین کو اجازت دی اور نہ ہی اپنی طرف سے اس کی ریکارڈنگ مہیا کی۔ اور عدالت کی کارروائی کی اخبارات میں اشاعت بھی روک دی گئی۔ اور جیسا کہ پاکستان میں یہ ایک رویّہ بن گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائی میں تأثر تو یہ دیا جائے کہ جماعت کو ہر موقع دیا گیا مگر کارروائی یکطرفہ طور پر کروائی جائے۔ یہی کچھ وفاقی شرعی عدالت میں بھی ہوا۔ احمدی درخواست گزاروں کی طرف سے جو دلائل دیئے گئے اور جو حوالہ جات پیش کئے گئے اوران سے جو استنباط کئے گئے وہ تو عوام کے سامنے نہ آئے۔ عدالت کی طرف سے ان کے ردّ میں قرآن و سنّت سے کوئی دلیل بھی نہیں دی گئی اور یکطرفہ طور پر ایک مختصر حکم جاری کر دہ 12؍ اگست 1984ء کے ذریعہ اس درخواست کو خارج کردیا اور مفصّل حکم 28؍ اکتوبر 1984ء کو سنایا جو 244؍ صفحات پر مشتمل تھا جس میں یکطرفہ طور پر جماعت کے خلاف زہریلا مواد عدالت کے فیصلہ میں شامل کیا گیا۔

اس مقدمہ کی بعض تفصیلات اور عدالتی فیصلہ پر محاکمہ کے بارہ میں جاننے کے لئے مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ کی حسب ذیل کتب ملاحظہ ہوں

1۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ء وفاقی شرعی عدالت میں

(www.alislam.org/urdu/pdf/

Ordinance-XX-Shariat-Court.pdf)

2۔ Error at the Apix

(www.thepersecution.org/archive

erratapex/index.html)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے وفاقی شرعی عدالت کی دینی حیثیت اور شریعت کورٹ کے فیصلہ پر اپنے 17؍ اگست 1984ء اور 14؍ ستمبر 1984ء اور 02؍ نومبر 1984ء کے خطباتِ جمعہ میں سیر حاصل تبصرہ فرمایا۔ ان کا مطالعہ بھی قارئین کے لئے مفید اور دلچسپی کا موجب ہوگا۔

(نوٹ یہ تمام خطبات ’خطباتِ طاہر‘ کے نام سے مذکورہ تاریخوں کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ www.alislam.orgپر دستیاب ہیں۔)

جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے 26؍ اپریل 1984ء کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی طرف سے جاری ہونے والا نہایت ظالمانہ اور رُسوائے زمانہ آرڈیننس 20جماعت احمدیہ کی اساس اور مرکزیت پر ایک نہایت خوفناک اور شدید حملہ تھا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ احمدیت تو حقیقی اسلام کا ہی دوسرا نام ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو جماعت احمدیہ کے خلاف اس آرڈیننس کا اجراء اسلام کی بنیادوں پر حملے اور اسلام کے شجرۂ طیبہ کی جڑوں پر تبر چلانے کے مترادف تھا اَور ہے۔ (ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا اور اس آرڈیننس کو نفاذ اسلام کی مہم کے طور پر پیش کیاگیا)۔

جنرل ضیاء اور اس کے ہمنوا مُلّاؤں اور سیاستدانوں  کا خیال ہو گا کہ ان ظالمانہ قوانین سے مرعوب ہو کر احمدی اسلام سے اپنا تعلّق توڑ لیں گے۔ وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور حضر ت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار سے باز آ جائیں گے۔ وہ قرآن کریم کی تلاوت اور قرآنی احکامات کی اطاعت چھوڑ دیں گے۔ وہ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں ہونے والے مظالم کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور اسلامی تعلیمات پر عمل اور اسلامی اخلاق و اقدار سے عاری ہو جائیں گے۔ یا ان کی اپنے امام اور خلیفہ سے وابستگی کمزور پڑ جائے گی اور یُوں یہ جماعت منتشر ہو کر نابود ہو جائے گی۔ لیکن 26؍ اپریل 1984ء کے بعد کا ہر دن اور ہر لمحہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نہایت ظالمانہ قانون کی موجودگی میں اور ہر طرح کے حکومتی اور حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و تشدّد کے باوجود معاندین احمدیت کو اپنے تمام مذموم مقاصد اور بد ارادوں میں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اور خلافت حقّہ اسلامیہ کے زیرِسیادت افرادِ جماعت احمدیہ پاکستان نے اسلام اور ارکانِ اسلام کی عزت و توقیر اور شعائر اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے بڑی جرأت و بہادری اور بشاشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ ایسی قابلِ رشک قربانیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جنہوں نے اسلام کے دَورِ اوّل میں صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کر دی۔ اس ظالمانہ قانون کے حوالہ سے ہزارہا احمدیوں کو شدید ذہنی و جسمانی ، قلبی و روحانی اذیتیں دی گئیں۔ انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوّث کیا گیا۔ گلیوں میں گھسیٹا گیا، ان کے اموال لُوٹے گئے، گھروں کو جلایا گیا۔ ان کی مساجد سے اور ان کے گھروں سے کلمہ طیبہ کو نہایت بے دردی سے حکومتی کارندوں نے خود مٹایا۔ اور کبھی اس غرض سے عیسائیوں سے بھی مدد لی اور اپنی نگرانی و سرپرستی میں ان سے کلمہ طیّبہ کو مٹوایا۔ لیکن وہ احمدیوں کے دل سے خدا اور رسولؐ کی محبت کو نوچ نہیں سکے۔ احمدیوں نے کلمۂ شہادت کی عزت و عظمت کی حفاظت کے لئے کسی قربانی کے پیش کرنے میں ادنیٰ سا بھی تردّد نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے، اپنے خون سے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ انہوں نے اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِکا نمونہ دکھاتے ہوئے ظلم کے ہر وار پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرح زیادہ قوّت اور شدّت کے ساتھ توحید کی آواز بلند کی اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ؎

جو تپتی ریت پہ بھونا گیا ہو مثل بلالؓ

اُسی کا حق ہے اذاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ

جنرل ضیاء کا یہ ظالمانہ آرڈیننس احمدیوں کا مسجدوں سے تعلق بھی نہیں توڑ سکا۔ اگرچہ احمدیوں کی متعدد مساجد کو منہدم بھی کیا گیا۔ کئی مساجد کو مقفّل کر دیا گیااور انہیں مسجدوں سے روکنے اور عبادت سے باز رکھنے کے لئے مختلف ظالمانہ اقدامات بھی کئے گئے مگر اس پہلو سے بھی معاندین کی کوششوں کا نتیجہ ان کی خواہشات کے بالکل برعکس نکلا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس آرڈیننس کے چند ہفتوں بعد اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ مئی 1984ء میں فرمایا

’’ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ ان باتوں کے اُلٹ نتائج ظاہر کئے ہیں جو ہمارے خلاف دشمنوں نے مکر اور تدبیریں کیں۔ احمدیت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ دشمن کے ارادوں کے وہ نتائج ظاہر ہوئے ہوں اور ان کی تدابیر کے وہ نتائج برآمد ہوئے ہوں جو مقصد تھا ان کاکہ ہم یہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا … انہوں نے جب بھی جماعت احمدیہ کے مال لُوٹے ہیں جماعت کے اموال میں برکت ہوئی۔ جب مسجدوں کو منہدم کیاہماری مسجدوں میں برکت ہوئی ۔ ہمارے نفوس ذبح کئے ہمارے نفوس میں برکت ہوئی۔ جب قرآن کریم جلائے احمدیوں کے پکڑ کر، حالانکہ وہی قرآن تھا جو محمد مصطفی ﷺ کا قرآن تھا تو قرآن کی اشاعت میں بے شمار برکت ہوئی۔ جب انہوں نے تبلیغ پر پابندیاں لگائیں تو تبلیغ میں برکت ہوئی۔ تو آپ دیکھ لیں کہ جب 1974 ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ یہ غیر مسلم ہے تو اس سے پہلے یہ علما اس بات کو کھول چکے تھے کہ واقعہ یہ ہے کہ لوگ بھولے پن میں دھوکے میں آکر احمد ی ہو رہے ہیں۔ جب تک ان پر مسلمان کا لیبل لگا ہوا ہے وہ ہوتے رہیں گے ۔ جب مسلمان کا لیبل ہٹا دیں گے تو پھر دیکھنا کہ کس طرح لوگ رُک جاتے ہیں ،کسی کو جرأت نہیں ہوگی کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ غیر مسلم کا بورڈ آگے لگا ہوا ہواور پھر حد کراس کرکے پار اتر کر وہ غیر مسلموںمیں شامل ہو جائیں۔ لیکن ان کی ہرتدبیر کا خدا نے ہمیشہ اُلٹ نتیجہ نکالا اور 74ء کے بعد اتنی تیز رفتاری پیدا ہوگئی تبلیغ میں کہ ان کی عقلیں گم ہوگئیں۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔ جتنی بڑی دیوار بناتے ہیں اتنی بڑی بڑی چھلانگیں لگا کر لوگ پار اترنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جتنا کریہہ المنظر بورڈ آویزاں کرتے ہیں اتنا ہی ذوق اور شوق اور محبت کے ساتھ لوگ ان کی طرف دوڑ ے چلے جا رہے ہیں ۔یہی واقعہ تھا۔ یہ گواہی ہے آج جو کچھ ہو رہا ہے اس حق میں کہ جو مَیں کہہ رہا ہوں وہ سو فیصدی درست بات ہے۔ ان کو سمجھ آگئی کہ ہماری ہر تدبیر الٹ ہوگئی ہے۔ ہرتدبیر ناکام ہوگئی ہے۔ اس لئے اب آگے بڑھو اوراورروکیں کھڑی کرو۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہمارا خدا ہر روک کو توڑنا جانتا ہے۔ جتنی روکیں تم کھڑی کرو گے اتنی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اَور لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے اور یہی ہو کر رہے گا …‘‘ ۔

(خطباتِ طاہر جلد 3؍ صفحہ 258-259)

اسی طرح آپ نے فرمایا

’’عبادت کوروکنے کی انہوں نے کوششںکی ہے… تمام دنیا میں ہراحمدی اپنی عبادت کے معیار کو بلند کردے۔ یعنی اپنے عجز کو، عجز کے معیار کو ایسا بلند کرے کہ خدا کے حضور اَور زیادہ جھک جائے ، اس کی روح سجدہ ریز رہے خدا کے حضور اور وہ اپنی زندگی کو عبادت میں ملا جلا دے ایسے گویاکہ اس کی زندگی عبادت بن گئی ہو۔ عبادت والوں کو خدا کبھی ضائع نہیں کیا کرتا اورعبادت سے روکنے والوں کو کبھی خدا نے پنپنے نہیںدیا… وہ کہتے ہیں کہ ہم عبادت سے روکیں گے تو ہم عبادت میں پہلے سے بڑھ جائیں گے یہی جواب ہونا چاہئے… ہمارا رد عمل تو وہی ہوگا جو الٰہی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے … ایک مذہبی جماعت کا اوّل ردِّ عمل یہ ہوتا ہے کہ جب خدا سے دُور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اَور خدا کے قریب ہوجاتی ہیں۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 3؍ صفحہ 260)

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احمدیوں کا مسجدوں کے ساتھ رابطہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اپنے پیارے امام کی شب و روز کی توجہات اور آپ کے پُر معارف خطابات اور بابرکت رہنمائی اور دعاؤں کے نتیجہ میں احمدیوں کا نمازوں کے قیام اور عبادات اور دعاؤں میں شغف پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ ان کی عبادتوں کا معیار ظاہری لحاظ سے بھی بلند ہوا اور باطنی لحاظ سے بھی وہ تعلق باللہ میں زیادہ مستحکم ہوتے چلے گئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا

’’ نمازوں سے روکنے کی طرف انہوں نے توجہ کی تو اس قدرایک طوفان آگیا ہے روحانیت کا کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ چھوٹے چھوٹے بچے خط لکھتے ہیں اوررو رو کر وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے آنسوئوں سے یہ خط لکھ رہے ہیں کہ خدا کی قسم ہمیں ایک نئی روحانیت عطا ہوگئی۔ ہم تہجدوں میں اٹھنے لگے۔ ہماری عبادتوں کی کیفیت بد ل گئی ہے۔ اس جماعت کو کون مارسکتا ہے جس کے مقابل پرہر تدبیر خدا نے الٹادی ہو؟عبادتوں پرحملہ کیا تو جن بچوں کے متعلق آپ تصوّر بھی نہیں کرسکتے تھے وہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے آج وہ تہجد میں اٹھ کر روتے ہیں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں اور نمازوں کا لطف حاصل ہوگیا ہے ان کو۔ تو یہ تو بہرحال خداکی ایک ایسی تقدیر ہے جو نہیں بدل سکتی۔ ساری کائنات مل کر زور لگالے اس تقدیر کو کوئی نہیں بدل سکے گی۔ جتنی یہ مخالفتوں میں زیادہ بڑھیں گے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہراس سمت میں برکت دے گا جس سمت میں یہ روکنے کی کوششں کریں گے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 3؍ صفحہ 259)

حضور رحمہ اللہ نے 30؍ اپریل 1984ء کو پاکستان سے لندن پہنچے پر جو پہلا خطاب افرادِ جماعت سے فرمایا اس میں اس آرڈیننس کے پس منظر اور معاندین احمدیت کے بد ارادوں اور پاکستان کے احمدیوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا

’’کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت ہوئی ہو اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کمزور ہوئی ہو۔ اور اتنی ذلیل اور کمینی اور اتنی ظالمانہ مخالفت آج تک کبھی نہیں ہوئی۔ اس لئے لازمًا خدا کی تقدیر نے اسے بہانہ بنانا ہے اپنے فضلوں کا۔ اور ایسے فضل فرمائے گا کہ آپ کے تصوّر میں بھی نہیں آ سکتے۔‘‘

اسی طرح آپ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 1984ء میں فرمایا

’’ دشمن تو ہمیں مارنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ہمیں کچھ اَور نظر آرہا ہے۔ بالکل الٹ نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ زیادہ قوت، زیادہ شان کے ساتھ جماعت آگے بڑھ رہی ہے… مَیں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہمیشہ دشمن کو اس کی مخالفت اس کی توقع سے بہت زیادہ مہنگی پڑی ہے یہ مخالفت، اتنی مہنگی پڑے گی، اتنی مہنگی پڑے گی کہ نسلیں ان کی پچھتائیں گی جو دشمن رہیں گی۔ اور آپ کی نسلیں دعائیں دیں گی ایک وقت آکر ان لوگوں کو جن کی بے حیائی کے نتیجہ میں اللہ نے اتنے فضل ہمارے اوپر فرمائے ہیں ۔ایک یہ بھی طریق ہوتا ہے جواب کا کہ ہم دعا دیتے ہیں ظالم تجھے کہ تیرے ظلم کے نتیجہ میں اتنے فضل خدا نے ہم پرنازل فرمادئیے ۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 3؍ صفحہ292-293)

مخالفین کا خیال تھا کہ یہ جماعت اس ظالمانہ قانون کے سامنے جھک جائے گی اور اسلام سے اپنا ناطہ توڑ لے گی لیکن خدا نے ہر پہلو سے جماعت احمدیہ کو برکت عطا فرمائی اور سرفراز فرمایا۔ جبکہ وہ ملک جہاں یہ ظالمانہ آرڈیننس جاری کیا گیا وہ دینی، دنیاوی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی ہر لحاظ سے دن بدن تنزّلی اور انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اور وہ شخص جس نے یہ ظالمانہ آرڈیننس جاری کیا تھا آج کے دانشور اس کا نہایت ذلّت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اسے ملک میں رائج تمام برائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ خود اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی تقدیر جس رنگ میں ظاہر ہوئی اور وہ عبرت کا نشان بنا، اس کا بھی کسی قدر ذکر کتاب میں اگلے صفحات میں آئے گا۔

الغرض جب سے جنرل ضیاء نے پاکستان میں  اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کاٹنے والا یہ ظالمانہ آرڈیننس جاری کیا ہے اس ملک کو ہر طرف سے بلائیں آکے گھیرتی چلی گئیں۔ اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ ستمبر 1991ء میں فرمایا تھا

’’کوئی انسانی زندگی کا ایسا پہلو نہیں ہے جس میں امن رہ گیا ہو۔ کوئی انسانی تعلقات کا دائرہ نہیں ہے جو گندہ نہ ہو چکا ہو۔ ہر وہ شہری جو پاکستان میں کسی پہلو سے زندگی بسر کر رہا ہے، اس کے کوئی نہ کوئی حقوق کسی اَور نے سلب کئے ہوئے ہیں۔ اگر کسی شخص نے نہیں کیے تو حکومت نے سلب کیے ہیں۔ حکومت نے نہیں کیے تو کسی قوم نے کر لئے ہیں۔ کسی نہ کسی پہلو سے ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ آزادی سے سانس نہیں لے رہا۔ مجبور اور بے اختیار ہے اور بے بس ہے اور ظلم اتنا پھیل گیا ہے، اتنا گہرائی میں جا چکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ معصوم بچیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی۔ اغوا ہو رہے ہیں…چوری، اُچکّا پن، ڈاکے، بددیانتی، عدالتوں میں جھوٹ، کوئی ایک سلسلہ بھی پاکستانی زندگی کا ایسا نہیں رہا جہاں اسلام جاری و ساری دکھائی دیتا ہو۔ اور کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی علامات ظاہر ہوتی چلی جا رہی ہیں…_ بدیوں اور معاصی اور بے اطمینانی اور بد امنی کا ایک سیلاب ہے جس میں ساری قوم غرق ہوئی پڑی ہے اور ان کو یہ علم نہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ ستمبر 1991ء)

جماعت احمدیہ کے افراد پرمقدّمات کی ایک جھلک

پاکستان میں آرڈیننس20 کے اجراء کے بعد افرادِ جماعت احمدیہ پر مختلف نوعیت کے ہزاروں مقدّمات درج کروائے گئے۔ مقدّمات میں احمدیوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ بیشتر مقدمات ایسے ہیں جو گنتی کے چند بدبخت مولویوں کی شکایت پر پولیس نے درج کئے۔ مثلًا کسی مولوی نے جماعت احمدیہ کی مسجد پر کلمہ طیّبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ تحریر شدہ دیکھا تو جھٹ پولیس میں شکایت کی کہ کلمہ کو دیکھ کر اس کے مذہبی جذبات مجروح ہو گئے ہیں۔ یا کسی احمدی کے سینہ پر کلمہ طیّبہ کا بیج سجا دیکھا یا ہاتھ میں اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی دیکھی یا منہ سے ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘ یا درود شریف سُنا یا قرآنی آیات کی تلاوت اس کے کان میں پڑی تو فورًا ان کی رگِ شرارت پھڑکی اور انہوں نے تھانے کا رُخ کیا کہ احمدی نے ان حرکات سے خود کو مسلمان ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

یُوں بھی ہوا کہ ان بدبختوں نے جماعت کے اخبار روزنامہ الفضل یا دیگر احمدی جرائد پر کوئی قرآنی آیت تحریر شدہ دیکھی یا ان میں درج حدیث شریف پڑھی یا کسی وفات یافتہ شخص کے ساتھ ’’مرحوم‘‘ یا ’’مرحومہ‘‘ کا لفظ لکھا ہوا دیکھا یا پھر کسی احمدی کی چٹھی کے اوپر ’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘ کے الفاظ پڑھے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور طیش میں آ گئے کہ احمدی اللہ کا نام کیوں لے رہا ہے۔ اسلامی اصطلاحیں کیوں استعمال کر رہا ہے اور ان کے خلاف تھانہ میں رپٹ درج کروا کے ہی دَم لیا۔

پھر ایسا بھی ہوا کہ کسی احمدی کو حوالات میں بند کرادیا گیا۔ تھانہ میں علاقہ کے بڑے مولوی پہنچے اور دباؤ ڈالا کہ اس شخص سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ عدالتوں کا گھیراؤ کیا کہ احمدیوں کی ضمانت نہیں ہونے دی جائے گی وگرنہ وہ علاقہ میں امن کا مسئلہ کھڑا کردیں گے۔ جیل میں بند دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجائی گئیں۔ آوازے کسے گئے۔ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف شدید دشنام طرازی سے کام لیا گیا اور۔ اپنی دانست میں اسلام کی عظیم خدمت سرانجام دی گئی۔

اُدھر جب نماز کا وقت آیا اور احمدی نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کپڑا بچھا کر قِبلہ رُو ہو کر نماز ادا کرنا شروع کر دی تو یہ دیکھ کر مولویوں نے ایک بار پھر اُودھم مچایا۔ پولیس کے سپاہیوں کے پیچھے دوڑے، ان کو خوب صلوٰتیں  سنائیںکہ غضب خدا کا یہ شخص تمہاری تحویل میں  ہے اور قبلہ رُو ہو کر نماز ادا کر رہا ہےاور تم اس کو بالکل منع نہیں کررہے۔

پولیس کے سپاہیوں نے احمدی کو دھمکیاں دیں۔ ہم تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرو گے تو جبڑے توڑ دیں گے۔تمہاری گُدّی سے زبان کھینچ لیں گے۔ جیل کی سلاخوں میں سے بازوؤں کو پکڑا اور مروڑااور دھمکایا کہ خبردار! آئندہ ایسی حرکت کی تو سخت سزا دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر احمدی کا رشتہ نہ خدا تعالیٰ سے ٹوٹا اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ ہوا یہ کہ بیچارے پر ایک اور مقدمہ درج کر دیا گیا کہ جیل میں بھی نماز پڑھ کر خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے۔ ایک موقعہ پر تو ایک احمدی نوجوان کے گلے میں مفلر ڈال کر اتنا مروڑا گیا کہ اس نے خیال کیا کہ زندگی کے آخری مراحل آپہنچے ہیں۔ اس کا جرم یہ تھا کہ کلمہ پڑھ رہا تھا۔ ایک اور نوجوان کو پولیس کے سپاہیوں نے زمین پر الٹا لٹادیا اور اس کی پیٹھ پر چڑھ کر ناچنے لگے۔ یہ سزا اس لئے دی گئی کہ اس نے کلمہ کے بیج کو سینے سے لگائے رکھا تھا۔ صد آفرین اس نوجوان کی ہمت پر کہ اس کرب میں بھی زبان سے کلمہ کا وِرد جاری رہا۔ بالآخر سپاہی تھک کر نیچے اتر آئے اور کہا کہ ابھی تک اس ’کافر‘ کی زبان سے کلمہ جاری ہے۔ سمجھ نہیں آتا اس کا کیا علاج کریں؟ کلمہ کی خاطر احمدی نوجوانوں کو درخت سے باندھ کر الٹا لٹکایا گیا۔ تپتی دھوپ میں ریت کے اوپر بٹھایا گیا۔ چیونٹیوں کے بِل پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا۔ احمدی نوجوانوں نے خدا کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا۔ پاکستان میں  شاذ  ہی کوئی احمدی خاندان ہو گا جس کا کوئی نہ کوئی عزیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی محبت میں ایذا نہ پاچکا ہو۔ اور اب تو کلمہ کے ساتھ احمدیوں کی محبت کے قصے پاکستان کی گلیوں میں عام ہیں۔

ایک محفل میں کلمہ بَیج کے سلسلہ میں احمدیوں کی گرفتاریوں پر بات ہو رہی تھی۔ محفل میں چند غیر احمدی بھی موجود تھے۔ احمدی نے کہا دوستو! آج ہمیں مبارکباد دو کہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ فی زمانہ کلمہ سے محبت کرنے والے اگر کچھ لوگ موجود ہیں تو وہ صرف احمدی ہی ہیں۔ یہ باتیں سن کر ایک غیر احمدی بولا ہر گز نہیں۔ ہمیں بھی کلمہ سے کچھ کم محبت نہیں۔اس پر اُس احمدی نوجون نے کہا اگر ایسا ہے تو یہ لو کلمہ طیّبہ کا بَیج اور کالر پر لگا کر ذرا باہر سڑک پر نکل کر تو دکھاؤ۔ دیکھیں بھلا تمہیں کلمہ سے کتنا پیار ہے۔ دوسرا کہنے لگا نہیں نہیں ایسا نہ کرو بھائی! کیوں اس کو پٹوانے کا ارادہ ہے۔ باہر نکلتے ہی بے چارا دھر لیا جائے گا کہ ’’قادیانی ‘‘ کلمہ کا بَیج لگائے پھرتا ہے۔ پہلے مار مار کر اس کا بھُرکَس نکال دیں گے۔ بعد میں اس کی بات سنیں گے۔

مقدمات کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ گنتی کے چند بد بخت مولوی ہیں جنہوں نے یہ شیطانی کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کہ احمدیوں پر مقدمات کئے جاویں۔ ان میںنام نہاد مجلس ختمِ نبوّت کے مولوی پیش پیش ہیں۔ پنجاب میں مولوی اللہ یار ارشدؔ اور خدا بخش وغیرہ ہیں۔ سندھ میں ایک چھوٹے سے قصبہ ٹنڈو آدم کا رہنے والا ایک مولوی احمد میاں حمادی ہے جو وہاں کی جامع مسجد کا خطیب ہے اور چونکہ مسجد محکمہ اوقاف کے زیرِ نگرانی ہے اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مولوی حمادی گورنمنٹ کاتنخواہ یافتہ ہے۔ اس بدبخت مولوی نے بھی احمدیت کی مخالفت کو اپنا پیشہ بنائے رکھا اور نہ صرف سندھ کی جماعت احمدیہ کے افراد پر بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ سے نکلنے والے اخبارات و رسائل الفضل، خالد، مصباح، تحریکِ جدید، تشحیذ الاذہان وغیرہ کے مدیران، پرنٹر، مینیجرز اور پبلشر صاحبان پر کئی ایک مقدّمات ٹنڈو آدم میں کئے تا کہ ان بزرگان کو دُور دراز کا سفر طَے کر کے مقدمہ کی پیشی کے لئے سندھ جانا پڑے۔

مولویوں کے قائم کردہ ان مقدّمات کے علاوہ بہت سے مقدّمات ایسے ہیں جنہیں حکومت کے نمائندگان، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر صاحبان نے ہوم سیکرٹری کی ہدایت پر بعض احمدیوں کے خلاف قائم کیا ۔

جماعت کے خلاف مختلف مقدّمات اور ایف آئی آر پر مشتمل ایک کتاب ’ایف آئی آر‘ کے نام سے شائع کی جا چکی ہے۔ تاریخی شواہد پر مشتمل یہ ایک نہایت اہم دستاویز ہے جس سے غیر احمدی مُلّاؤں کی کلمہ دشمنی، اسلام دشمنی، جھوٹ اور تکذیب و افتراء اور فتنہ انگیزی اور شرارت پر مشتمل کارروائیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح معصوم احمدیوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوّث کر کے کس قسم کی قلبی وذہنی اور عملی اذیتیں دی گئیں۔ لیکن انہوں نے راہِ مولیٰ میں یہ سب ظلم و ستم نہایت صبر و شکر اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے برداشت کیا۔

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد

خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ، مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظراعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ، مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ پاکستان) مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور بہت سے دیگر سرکردہ عہدیداران جماعت کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے۔ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کو بھی اس وقت جب آپ بطور ناظرِ اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان خدمات بجالارہے تھے سراسر جھوٹے مقدمہ میں  ملوّث کر کے حوالات میں رکھا گیا اور عہدِ خلافتِ رابعہ میں آپ کو اسیرِ راہِ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اسی طرح مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (مرحوم) اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب (مرحوم) کو بھی زیرِ حراست رکھا گیا اور انہیں اور کئی دیگر معزز عہدیداران جماعت کو راہِ مولا میں اسیری کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان میں سے کئی ایک ضعیف و بیمار اور عمر رسیدہ تھے۔ مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاتھا

صادق آں باشد کہ ایّامِ بلا

می گزارَد بامحبّت باوفا

گر قضا را عاشقے گردَد اسیر

بوسد آں زنجیر را کز آشنا

سب نے اپنے مولا کی محبت میں اسیری کو خندہ پیشانی اور اولوالعزمی سے قبول کر کے اپنے ایمانوں کی صداقت اور خدا تعالیٰ سے محبت اور وفا پر عملی گواہی دی۔

جماعتی اخبار اور رسائل کے مدیران اور پبلشرز، پرنٹرز اور مضمون نگاروں کے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔

بہت سے احمدیوں کے خلاف قرآن کریم کی توہین اور گستاخی ٔ رسولؐ کا نہایت ہی گھناؤنا اور سراسر جھوٹ اور افترا پر مبنی الزام لگا کر مقدمات بنائے گئے اور انہیں  جیلوں میں ڈالا گیا۔

9؍ اگست 1987ء کو مولوی احمدی میاں حمادی ساکن ٹنڈو آدم نے ایک تحریری درخواست کے ذریعہ حکّام سے شکایت کی کہ احمدیوں نے خدام الاحمدیہ سپورٹس ریلی کے موقعہ پر لاؤڈ سپیکر پر درودشریف پڑھا اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی ہے۔ اس لئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے۔

سانگھڑ سندھ کے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ زیرِ دفعہ 295/C اور 298/C درج کیا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گھر کی دیوار پر اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھا ہوا تھا۔

18؍ اپریل 1988ء کو جھنگ کے ایک احمدی کی دکان پر علاقہ مجسٹریٹ نے چھاپہ مارا اور ان کے خلاف دکان کے شوکیس کے شیشہ پر کلمہ طیّبہ کا سٹیکر لگانے کے جرم میں زیر دفعہ 295/B مقدمہ درج کر دیا۔اس مقدمہ میں مجسٹریٹ خود مدّعی تھا۔

ایک مقدمہ میں ایک احمدی کا جرم یہ قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کا ٹائم ٹیبل شائع کیا اور اس پر کلمہ طیّبہ اورمسجد نبوی کی تصویر کے علاوہ روزہ رکھنے اور کھولنے کی دعائیں بھی شائع کیں۔

ایک احمدی دوست بس پر سوار ہوئے۔ بس میں سوار چار نوجوانوں نے ان کے ہاتھ پر کلمہ طیّبہ والی انگوٹھی دیکھ کر ان سے پوچھا کہ تم قادیانی ہو؟ انہوں نے بتایا کہ وہ احمدی ہیں۔ نوجوانوں نے انہیں کہا کہ انگوٹھی اتار دو کیونکہ غیر مسلم کلمہ طیبہ والی انگوٹھی نہیں پہن سکتا۔ان کے انکار پر نوجوانوں نے زبردستی انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی۔چنیوٹ تک یونہی تکرار ہوتی رہی۔ وہاں نوجوانوں نے اس احمدی کو بس سے اتار لیا۔ جی بھر کر گالیاں دیں اور مارتے ہوئے تھانہ کی طرف لے گئے۔پولیس افسران نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ ربوہ کا کیس ہے لہٰذا اس احمدی کو دوبارہ ربوہ لایا گیا جہاں تھانہ میں ان کے خلاف کلمہ طیبہ کی انگوٹھی پہننے اور تبلیغ کرنے کے جرم میں زیرِ دفعہ 298/Bاور 298/C مقدمہ درج کیا گیا۔

ایک مقدمہ میں غیر احمدی مولوی کی طرف سے یہ جرم بیان کیا گیا کہ ’’29؍ دسمبر 1988ء کے الفضل میں اسلامی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ ایک مرتدہ کافرہ کے لئے دعائے مغفرت اور ’مرحومہ‘ کا لفظ لکھا گیا ہے۔ ان الفاظ سے قادیانیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے اور جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘

جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشنِ تشکّر کے موقع پر ایک مقدمہ بعض احمدی نوجوانوں کے خلاف اس جرم کی بِنا پر قائم کیا گیا کہ وہ آدھے بازوؤں والی سیاہ بُنیانیں / ٹی شرٹس جن پر 100 Years of Truth لکھا ہوا تھا پہنے ہوئے تھے، مرزا غلام احمد کی جَے کے نعرے لگا رہے تھے اور آتش بازی چلا کر جشن کا اظہار کر رہے تھے۔

ایک احراری مولوی کی درخواست پر 18؍ دسمبر 1989ء کو زیر دفعہ 298/C تھانہ ربوہ میں تیرہ سرکردہ احمدی احباب کے خلاف ایک مقدمہ کا اندراج کیا گیا جس میں شکایت کی گئی کہ ربوہ میں احمدی مساجد اور رہائشی مکانات پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات تحریر کی گئی ہیں۔اس مقدمہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی معزز افراد اور سلسلہ کے عمائدین کو نامزد کیا گیا۔

ایس ایچ او تھانہ ربوہ کی طرف سے ایک مقدمہ تمام احمدی اہالیان ربوہ کے خلاف جن کی آبادی کم و بیش پچاس ہزار ہے مورخہ 15؍ دسمبر 1989ء کو زیرِ دفعہ 298/C تعزیراتِ پاکستان درج کیا گیا۔ تھانیدار نے پرچہ درج کرتے ہوئے لکھا

’’بروئے اطلاعات و خط و کتابت عالمی مجلس تحفّظِ ختمِ نبوّت و مبلغین احرار و معزّزین علاقہ کے توسّط سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علاقہ تھانہ ربوہ کے مختلف مقامات پر بسنے والے مرزائی جنہیں آئینِ پاکستان کی ترمیم 1974ء کی رُو سے غیر مسلم اقلّیت قرار دیا گیا ہوا ہے اور امتناع قادیانی آرڈیننس 1984ء کی رُو سے قادیانی مذہب کی ہر قسم کی تبلیغ تحریرًا تقریرًا۔ اشارۃً بلا واسطہ و بالواسطہ اور اسلامی و قرآنی اصطلاحات کے استعمال سے روکا گیا۔ لیکن مرزائیوں نے اس پابندی کے باوجود اپنی قبروں، عمارات، دفاتر جماعت احمدیہ، عبادت گاہوں، کاروباری مراکز وغیرہ پر کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات تحریر کی ہوئی ہیں۔ مزید یہ کہ وہ آئے دن مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو قادیانیت کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں جن میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو ’السلام علیکم‘ کہہ دینا اور اذان فجر کے اوقات میں ٹولیوں کی صورت میں بآوازِ بلند شہر میں کلمہ طیّبہ پڑھنا اور دیگر ہمچوں قسم کی اسلامی حرکات کا اعادہ کرتے ہیں۔‘‘

ایک مقدّمہ اس بِنا پر پر قائم کیا گیا کہ مجلس اطفال الاحمدیہ کی آل ربوہ صنعتی نمائش منعقدہ ایوانِ محمود ربوہ بروز یکم، دو ، تین اکتوبر 1990ء کے لئے جاری کردہ داخلہ ٹکٹ پر ’مسلم‘ ، ’کلمہ طیبہ‘ اور قرآنِ کریم کی آیت لکھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ اس کی درخواست پر منتظمین نمائش پر زیرِ دفعہ 298/C تھانہ ربوہ میں مقدمہ درج کیا گیا۔

جن احمدیوں پر مقدمات بنائے گئے ان میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، بڑی عمر کے ضعیف اور معمّرافراد بھی تھے اور نوجوان اور بچے بھی۔

مئی 1992ء میں ننکانہ صاحب کے ایک احمدی ناصر احمد صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے جو دعوتی کارڈ شائع کیا اس پر ’بِسْمِ اللہَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، اِنْشَاءَ اللہُ اور نکاح مسنونہ ‘کے الفاظ درج تھے۔ اس پر ان کے اور جن دیگر بارہ احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ان میں ایک شاہ رُخ سکندر صرف نو (9)ماہ کا بچہ تھا۔

مقدمہ ساہیوال

26؍اکتوبر 1984ء کوساہیوال کی احمدیہ مسجد میں صبح نمازکے بعد بعض مولویوں نے اور ان کے مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء نے مل کر ہلّہ بول دیا اور اپنے ساتھ وہ برش اورپینٹ وغیرہ لے کر آئے تاکہ مسجد سے جہاں جہاں کلمہ شہادۃ لکھا ہوا ہے اُس کو مٹا دیں ۔ چنانچہ باہر کی دیواروں پراور باہر کے دروازے پر تو وہ مٹا نے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب مسجد کاجو اندر کادروازہ ہے اس پر سے کلمہ مٹانے لگے تو چند نوجوانوں نے جو و ہاں اُس وقت موجود تھے مزاحمت کی اور یہ کہا کہ کسی قیمت پر بھی خواہ ہماری جان جائے ہم تمہیں اپنی مسجد سے کلمہ شہادۃ نہیںمٹانے دیں گے ۔ چو نکہ حملہ آوروںکی تعداد بہت زیادہ تھی ایک نوجوان کو توانہوں نے وہیں پکڑ لیااور باقیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے مسجد پر حملہ کر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی ۔ اس وقت وہاں ایک احمدی نوجوان نے بندوق سے دو فضائی فائر کئے تا کہ حملہ آور ڈر کے بھاگ جائیں اور ڈرکرکچھ دیر کے لئے وہ بھا گ کر باہرنکل گئے لیکن پھروہ دوبارہ ہلّہ بول کے اندرگئے۔اُس وقت اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر یا اس اعلیٰ مقصد کے لئے کہ کسی قیمت پر بھی وہ مسجد احمدیہ سے کلمہ شہادۃ کو نہیں مٹنے دیں گے، اسی نوجوان نے دو فائر کئے اور اس کے نتیجے میں دو حملہ آور وہیں زخمی ہو کر گر گئے اور وہیں انہوں نے جان دے دی اور باقی بھاگ گئے ۔بعد ازاںپولیس نے جوملزم گرفتار کئے جن پہ الزام بتایاگیا وہ سات تھے لیکن مقدمہ گیارہ کے خلاف درج کیا گیا۔عملاً فائرکرنے والا صر ف ایک نوجوان تھا اور باقی تین کی طرف سے حملہ آوروں کو کسی قسم کی کوئی گزند نہیں پہنچی۔ اس کے علاوہ جن افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیاان میں سے بعض موقع پر موجود ہی نہیں تھے ۔ یوں خلافِ واقعہ جھوٹے طور پر معصوم احمدیوں کو بھی اس مقدمہ میں ملوّث کیا گیا۔ان میں سے ایک جماعت کے مربی سلسلہ محمدالیاس منیر صاحب تھے جو مسجد سے ملحقہ اپنے گھر میں تھے۔ ان کو جب بندوق کے چلنے کی آواز آئی تو وہ نیچے آئے اس وقت ان کو پہلی دفعہ معلوم ہو اکہ کیا واقعہ ہواہے۔ اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ساہیوال میں موجود نہیں تھے۔ مگر ان علماء نے جانتے ہوئے کہ سارا جھوٹ ہے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کا نام پرچے میں درج کروایا جن کا کوئی دُورکا بھی تعلق نہیں تھابلکہ سارا سراسر الف سے ی تک پوری کی پوری جھوٹی کہانی بنائی ۔ چونکہ دو احمدی جن کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے قتل میں حصہ لیا ہے وہ وکیل تھے اور بار کونسل کے ممبر اور ہر دلعزیز ممبر تھے۔ اس لئے ان مولویوں کے جھوٹ سے پردہ فاش کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا کہ بار کونسل نے ایک بڑا شدید Resolution پاس کیا اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ دو احمدی جو ہماری کونسل کےممبر ہیں ان کے متعلق تو ہم قطعی طورپر جانتے ہیں کہ ان کا دُورکا بھی اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس لئے ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا نام خارج کیا جائے۔

اُس علاقے میںیہ جھوٹ اتنا مشہور ہو ا کہ بہت سے چوٹی کے شریف وکلاء جو Criminal Cases کے ماہر ین تھے انہوں نے علماء کے مقدمہ کی پیروی سے کلّیۃً انکار کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ اتنا جھوٹا مقدمہ، ایسا ظالمانہ الزام کہ معصوم لوگ جن کا کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں ان کوتم شامل کررہے ہو اور پھر ساری کہانیاں الف سے ی تک جھوٹی ہیں۔ کلمہ مٹانے جارہے ہو اور بیان یہ دے رہے ہو کہ ہم یہ سننے گئے تھے کہ مسجد میں اذان تو نہیں ہورہی اور یہ سننے کے لئے اس وقت گئے تھے جبکہ نمازیں بھی ختم ہو چکی تھیں اور نمازی اپنے اپنے گھروں کو بھی جاچکے تھے۔ اوریہ کہنا کہ ہم اندر گئے بھی نہیں۔ہم تو صرف کھڑے سن رہے تھے، اس پر فلاں فلاں شخص نے اس طرح فائرنگ کی اور اس طرح حملہ کر کے ہمیںقتل کیا اور پھر گھسیٹ کر اندر لے گئے۔تو ایک طرف علماء دین کی یہ جرأت اور بے باکی تھی کہ خدا اور محمدمصطفیﷺ کے نام کی قسمیں کھا کر اور قرآن اُٹھا اُٹھا کر کلّیۃً بے بنیاد واقعات کی شہادت دے رہے تھے اور دوسری طرف وہ جن کو دنیا دارکہا جاتا ہے یعنی عام وکلاء اپنی روزی کمانے والے جن کاظاہری طور پردین سے تعلق نہیں ہے، وہ حیا محسوس کر رہے تھے کہ اس مقدمے میں فیس لے کر بھی کسی طرح ملوّث ہو جائیں۔

وہ سات افراد جن کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک لمبا عرصہ تک بہت شدید تکلیفیں پہنچائی گئیںلیکن اللہ کے فضل سے وہ لوگ ثابت قدم رہے۔

اس مقدمے کا جو فیصلہ سنایا گیا اُس کی رُو سے دو احمدیوں رانا نعیم الدین صاحب اور محمد الیاس منیر صاحب کو موت کی سزا سنائی گئی اور باقی کوعمر قید پچیس پچیس سال قید بامشقت ۔یہ مقدمہ تو شروع سے آخر تک جھوٹ ہی جھوٹ تھا، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی تو ثیق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے خود کی اور اخباروں میں فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کر وایا کہ وہ اس قتل کے ذمہ دار احمدیوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ وہ پہلو ہے جو اس لحاظ سے تعجب انگیز ہےکہ دنیابھر میں مقدمات ہوتے ہیں، قتل ہو جاتے ہیں۔ واقعۃً سچے مقدمات میں سزائیں ملتی ہیںمگر ملکوں کے صدر کبھی اپنے نام کوان باتوں میں ملوّث نہیںکیا کرتے۔ عدلیہ کی کارروائی ہوتی ہے سچی ہو یا جھوٹی ہو لیکن ایک ملک کا صدر فخر سے یہ اعلان کرے کہ یہ جو قتل ہونے والے ہیں اس کا فیصلہ میں نے کیا ہے ۔یہ بات نہ صرف عموماً تعجب انگیز ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ فیصلہ کرنے والے کی دہریت سے پردہ اٹھاتی ہے ۔دنیا کے نام پر مظالم کرنے والے بعض دفعہ خدا کے قائل بھی ہوتے ہیںتو غفلت کی حالت میں ظلم کرجایا کرتے ہیں۔ مگر ایک شخص جو خدا کے نام پرظلم کررہا ہواور معصوم انسان کے متعلق قتل کا فیصلہ کررہا ہو۔ یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ اس کو خدا پر ایمان ہو یا اس بات پر یقین ہو کہ وہ قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس ظالمانہ فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا

’’ قرآن سے یہ ہمیں پتہ چلتاہے کہ ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ بعض ظالموںکو ظلم کا موقع بھی مل جاتا رہا ہے لیکن خدا کی پکڑ ضرور ظاہر ہوئی ہے اُن کے متعلق۔ آہستہ آئی ہویا دیر سے آئی ہو۔ خدا کی پکڑ نے ایسے صاحب جبروت لوگوں کو جو اپنے آپ کو صاحب جبروت سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو بے طاقت اور بے اختیار جانتے تھے یا اس کے وجود ہی کے قائل نہیں تھے اُن کے اس طرح نام ونشان دنیا سے مٹا دئیے کہ عزت کا ہر پہلو اُن کے ناموں سے مٹ گیااور ذلّت کے سارے پہلو اُن کے ناموں کے ساتھ لگے ہوئے ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گئے۔ رہتی دنیا تک رحمتوں کی بجائے لعنتوں سے یاد کرنے کے لئے وہ نا م باقی رکھے گئے۔

اس لئے ہم تو اس خدا کو جانتے ہیں، اُس صاحب جبروت کو جانتے ہیں۔ کسی اور خدا کی خدا ئی کے قائل نہیں۔ اس لئے احمدیوںکا سر ان ظالمانہ سزائوں کے نتیجے میں جھکے گا نہیں بلکہ اَور بلند ہوگا اَور بلند ہو گا یہاں تک کہ خدا کی غیر ت یہ فیصلہ کرے گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ سربلندی احمدی کے سرکونصیب ہوگی کیونکہ یہی وہ سر ہے جو خدا کے حضور سب سے زیادہ عاجزانہ طور پرجھکنے والا سرہے ۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ فروری 1986ء ۔خطباتِ طاہر جلد 12صفحہ 162)

آپؒ نے فرمایا

’’ ہم نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ان کو یہ توفیق بخشے گا کہ نہیں کہ اپنے ظالمانہ فیصلے پرعمل پیرا ہو سکیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں جو بھی تدبیریں رکھی ہیں ان تدبیروںسے بھی ہم کام لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے اور تقدیروں کے رخ بدلنے کے لئے جو دعا کے ہتھیار ہمیںعطا کیے ہیںہم ان دعائوں سے بھی کام لیتے رہیں گے کیونکہ دعائوں کے ذریعہ تقدیریں بھی ٹل جا یاکرتی ہیں لیکن اس کے باوجود خدا کی مرضی بہر حال غالب رہے گی۔ اگر خدا نے کسی قوم کو شہادت کی سعادت عطا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم اس کی ہر رضا پر راضی رہیںگے۔‘‘

آپؒ نے اسی خطبہ میں فرمایا

’’خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار رہنے والو ں کو کبھی موت مار نہیں سکی ،کبھی کوئی دشمن ان پر فتح یاب نہیںہوسکا۔ اپنی دعائوں میں التزام اختیار کروکیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام لکھتے ہیں۔

’’جو مانگتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے۔ اسی لئے مَیں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں دیکھو کہ بعض خر گدا ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہیں ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے۔ جب یہ اَڑ کر دعا کرتا ہے یعنی بندہ تو پالیتا ہے۔ کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں۔‘‘ (الحکم جلد 8 مارچ1906ء)‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ فروری 1986ء ۔خطباتِ طاہر جلد 12صفحہ 169-170)

حضور رحمہ اللہ نے ان اسیرانِ راہِ مولا کے دکھ کو اس طرح اپنے اوپر لیا کہ آپ اکثر اپنے خطبات و خطابات میں ان کی رہائی کے لئے احبابِ جماعت کو نہایت دلسوزی سے دعاؤں کی تحریک فرماتے۔ آپ کس طرح ان کی آزادی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتے رہے، اس کا اندازہ آپ کے ان خطوط سے بھی ہوتا ہے جو آپؒ نے ان اسیران اور ان کے اہلِ خانہ و عزیزوں کو خود اپنے ہاتھ سے تحریر فرمائے۔

اس مقدمہ ساہیوال اور اسیرانِ راہِ مولیٰ کے کرب انگیز حالات کی تفصیل جاننے کے لئے ملاحظہ ہو مکرم الیاس منیر صاحب کی خود نوشت کتاب ’حکایتِ دار و رَسن‘۔

حضور رحمہ اللہ نے اپنی ایک نظم میں اسیرانِ راہِ  مولا کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا

ہیں کس کے بَدَن دیس میں پابندِ سلاسِل

پَردیس میں اِک روح گَرِفتارِ بلا ہے

کیا تم کو خبر ہے رَہِ مولا کے اَسیرو!

تُم سے مجھے اِک رشتۂ جاں سب سے سوا ہے

آجاتے ہو کرتے ہو مُلاقات شب و روز

یہ سلسلۂ رَبطِ بَہم صُبح و مَسا ہے

اَے تنگیٔ زِنداں کے سَتائے ہوئے مہمان

وَا چشم ہے، دِل بَاز، درِ سینہ کھُلا ہے

تم نے مِری جلوَت میں نئے رنگ بھرے ہیں

تم نے مِری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے

تم چاندنی راتوں میں مِرے پاس رہے ہو

تم سے ہی مری نقرئی صُبحوں میں ضِیا ہے

کِس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج

کیا روزِ قیامت ہے! کہ اِک حَشر بپا ہے

یادوں کے مُسافِر ہو تمنّاؤں کے پیکر

بھر دیتے ہو دِل ، پھر بھی وہی ایک خَلا ہے

سینے سے لگالینے کی حسرت نہیں مٹتی

پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حَد سے سوا ہے

یا رَبّ یہ گدا تیرے ہی دَر کا ہے سوالی

جو دَان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے

گُم گشتہ اَسیرانِ رَہِ مولا کی خاطر

مدت سے فقیر ایک دُعا مانگ رہا ہے

جس رَہ میں وہ کھوئے گئے اُس رہ پہ گدا ایک

کشکول لئے چلتا ہے لب پہ یہ صَدا ہے

خیرات کر اَب اِن کی رہائی مرے آقا!

کشکول میں بھر دے جو مِرے دِل میں بھرا ہے

میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے

میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے

آپ ؒ کم و بیش مسلسل دس سال تک اسی کرب میں مبتلا رہے۔ بالآخر آپؒ کی دعائیں اس شان سے ٪بارگاہِ ربّ العزت میں قبولیت کے شرف سے بازیاب ہوئیں کہ وہ ظالم حکمران جو اِن اسیران کو پھانسی پر لٹکانا چاہتا تھا وہ خود خدا تعالیٰ کی گرفت میں آیا اور ایک فضائی حادثہ میں اس عبرتناک طور پر ہلاک ہوا کہ اس کا تمام جسم جل کر خاکستر ہو گیا۔ اور ملک میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ پہلے ان اسیران کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی اور پھر بالآخر 20؍ مارچ 1994ء کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔ بعد میں یہ اسیرانِ راہِ مولیٰ لندن آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح نے انہیں اپنے سینے سے لگایا۔

اسیرانِ راہِ مولیٰ ساہیوال کی یہ رہائی اور ان کی موت کے خواہاں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت اور رسوائی اس دَور کے زبردست نشانوں میں سے نشان تھے جو خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی صداقت اور اس کے مؤیّد من اللہ ہونے پر گواہ ہیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button