از افاضاتِ خلفائے احمدیت

مجلس سوال و جواب

مرتبہ منیر احمد شاہین۔مربی سلسلہ

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کن معنوں میں نبی ہیں؟

30مارچ 1986ء کو لندن میں منعقدہ ایک مجلس سوال و جواب میں ایک غیرازجماعت نے سوال کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ کیا آپ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو واقعی نبی سمجھتے ہیں؟ اور آپ اس معاملہ میں مطمئن ہیں؟

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا

’’مَیں حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو بالکل اُن معنوں میں نبی سمجھتا ہوں جن معنوں میں آنحضرت ﷺنے آنے والے مسیح کے لئے لفظ

نَبِیُّ اللہاِستعمال فرمایا۔ ایک جواب میرا غورسے سُن لیجئے مَیں بعینہٖ اُن معنوں میں نبی سمجھتا ہوں جن معنوں میں حضرت اَقدس محمدمصطفی ﷺنے جن پرآیتِ

خاتم النَّبِیِّیۡن نازل ہوئی تھی آنے والے مسیح کے متعلق، گذرے ہوئے کے متعلق نہیں ، آنے والے مسیح کے متعلق لفظِ نَبِیُّ اللہ اِستعمال فرمایا اَور ایک مسلم ؔ کی حدیث میں چارمرتبہ یہ لفظ (نَبِیُّ اللہ) آپ نے اِستعمال فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکرالدّجال وصفتہ ومامعہ)۔

مَیں اُن معنوں میں آپؑ کونبی سمجھتا ہوں جن معنوں میں اِمام مہدیؔ کامفہوم قرآنِ کریم میں ملتا ہے اَورجن معنوں میں اِمام مہدیؔ کی پیشگوئی آنحضرت ﷺنے بیان فرمائی ہے۔ اِمام مہدیؔ کااَگرمقام حضورِاَکرم ﷺکے تابع نبی کانہیں تھاتوحضرت مرزاؔصاحب کابھی ہرگز وہ مقام نہیں ہے۔ لیکن اَگرحضرت اِمام مہدیؔ کامقام اُمّتی نبی کامقام ہے اَوراَگرمسیحِ محمدی کامقام اُمّتی نبی کامقام ہے توحضرت مرزاؔ صاحب کامقام بھی اُمّتی نبی ہی کامقام ہے۔

یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص مسیح ہونے کادعویٰ کرے اَوروہ سچّا ہواَپنے دعوے میں اَورکہے کہ مَیں مسیح توہوں لیکن نبی نہیں ہوں۔کیونکہ مسلمؔ کی حدیث اُس پر مخالفانہ گواہی دے گی کہ اَے دعویٰ کرنے والے تُو مسیح کیسے ہوگیا؟ محمدرسولِ کریم ﷺجن پرآیتِ خاتم النَّبِیِّیۡننازل ہوتی ہے ۔ وہ تومسیح کے سچّا ہونے کی یہ علامت بیان فرماتے ہیں کہ وہ نَبِیُّ اللہ ہوگا۔ اَگرتُو وہ مسیح ہے جو نَبِیُّ اللہ نہیں، توجاجھوٹے ہمیں تجھ سے کوئی واسطہ نہیں پھرتو یہ جواب ہوگا اس کا، اَگرکوئی شخص اِمام مہدیؔ ہونے کادعویٰ کرے اَورساتھ یہ دعویٰ بھی کرے کہ مجھے خداؔ نے بذریعہ وحی اِمامؔ نہیں بنایامَیں خود بَن گیا ہوں توآپ کواُس کے دعویٰ کی کوڑی کی بھی پرواہ ہوگی یانہیں ہوگی؟ اَپنے دِل میں سوچیں بجائے اِس کے کہ دِلچسپ بات بنانے کی خاطر اَحمدیّت پراِعتراض کریں ۔ پہلے اَپنے عقیدے کو تو واضح کرلیں۔

آپ کے نزدیک اِمام مہدیؔ کا کیا مقام ہے؟ مَیں جانتا ہوں اَوراَگرآپ اَپنے دِلوں کوٹٹولیں گے ، اَپنے علماء سے پوچھیں گے تواِس نتیجہ کے سواآپ نکال ہی نہیں سکتے کہ اِمام مہدیؔ اُمّتی نبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اُس میں وہ دو شرطیں پائی جاتی ہیںجوہرنبی کا لازمہ ہیں۔ جونبی سے باہر مِل ہی نہیں سکتیںاَورآپ کااِیمان ہے کہ اِمام مہدیؔ میں وہ دو شرطیں پائی جاتی ہیں۔نبی کی کیا شرط ہے؟اللہ اُس کوکھڑا کرے اَپنی وحی سے اُس کواِمام بنا دے زمانہ کا،یہ پہلی شرط ہے نبوّت کی ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اُس کے اِنکارکی اِجازت نہیں دیتا۔ خدا تعالیٰ اُس پراِیمان لانا ضروری قرار دیتا ہے۔ یہ دو شرطیں نبوّت کے اَندرقدرِ مشترک ہیں کہ نہیں ؟یہ بتایئے؟اَگر نہیں بتانا سوچ لیجئے اَپنے دِل میں،اَ ب بتایئے اِمام مہدیؔ اِن دوشرطوں میں سے کِس کے بغیرہوگا؟کیا اِمام مہدیؔ اَپنے خیال سے کھڑا ہوجائے گا؟کیااِمام مہدیـؔ کاقوم اِنتخاب کرے گی؟کیاخداؔ اُس کو مقرر کرے گاکہ نہیں کرے گا؟ اَگراُس پروحیٔ اِمامت ہوئی، خداؔ نے مقرر فرما دیا تواَگلا سوال خود ہی حل ہوجاتا ہے۔ جس کوخدا کھڑا کرے وہ چاہے اَدنیٰ ہو، اعلیٰ ہو۔اُس کے اِنکارکی اِجازت ہی نہیں دیتا کِسی بندے کواَورساری اُمّت کے علماء آج بھی اِس بات پرمتفق ہیں۔

آپ کِسی فرقہ کے عالم سے جاکرپوچھ لیجئے وہ آپ کوبتائے گاکہ اِمام مہدیؔ میں یہ دو شرطیں لازمی ہیں ۔ خدا بنائے گا وَرنہ بندے کے بنائے ہوئے اِمام کے مُنہ پرکوئی تھوکتا بھی نہیں۔ خداؔ بنائے گااَوراُس کی بیعت کرنا، اُس کاقبول کرنا ضروری ہوگااُمّت کے لئے۔ اَگر کوئی عالم یہ نہ مانے تووہ حدیثؔ اُس کودِکھا دیجئے کہ جس میں آنحضرت ﷺ کاحکم ہے کہ جب اِمام مہدیؔ نازل ہوتوبرف کے پہاڑوں پرسے بھی گذرکے جانا پڑے ، تم اُس تک پہنچو۔ (مستدرک حاکم جزو رابع کتاب الفتن والملاحم باب خروج المھدی صفحہ464)۔ ایک اِرشاد یہ ہے کہ اُس کی بیعت کرو، دوسرااِرشاد یہ ہے کہ اُس کومیرا سلام ؔپہنچائو۔ (مسنداحمدبن حنبل جلد2 صفحہ 298 نیز الدّرالمنثور از امام جلال الدین سیوطی جلد2 صفحہ245)۔ یہ دونوں حدیثیں موجود ہیں ۔ اَب آپ بتایئے کہ جس کومحمدرسولِ کریم ﷺفرماتے ہیں کہ جب اِمام مہدیؔ ظاہرہوتوبرف کے تودوں پرسے بھی گھٹنوں کے بَل جانا پڑے ، تم نے جاکراُس کی بیعت کرنی ہے۔ کیا اُس پراِیمان لاناضروری ہے کہ نہیں؟ اَگرضروری ہے اَور آپ سب کادِل گواہی دے رہا ہے کہ ضروری ہے توبتایئے قرآنِ کریم میں نبیوں کے سوا کسی پراِیمان لانا ضروری قرار دیا ہے ؟ اللہ ، رسولؐ، ملائکہ ، کتب، یومِ آخرت اَورنبی ، اِس کے سوا کسی institution پر اِیمان لانا ضروری نہیں قرار دیا۔ اَور اِمام مہدیؔ پراِیمان لانے کی ضرورت پر سارے علماء متفق ہیں ۔توکان کوآپ پیچھے سے پکڑ لیں، دائیں طرف سے پکڑ لیں ۔ بات کہنے کی جرأت نہ ہویہ الگ مسائل ہیں۔تقویٰ کاتقاضا یہ ہے کہ اَپنے عقیدہ کومعلوم کریں کہ اِمام مہدیؔکے متعلق آپ کاکیا عقیدہ ہے؟عقیدہ کے لحاظ سے آپ اُس میں نبوّت مان رہے ہیں یانہیں مان رہے؟ شریعت کے لحاظ سے نہیں وہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ سوفیصدی شریعتِ محمدمصطفیٰ ﷺکا تابع اَورغلام، سوفیصدی حضرت محمد رسولِ کریم ﷺکے فرمان کاتابع اَورغلام یہ شرطیں آپ کے عقیدہ میں ہمارے عقیدہ میں دونوں مشترک ہیں۔ اِس میں اِعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔لیکن اِمام مہدیؔ کے متعلق جوجزء آپ نے قائم کئے ہوئے ہیں وہ اجزائے نبوّت ہیں۔اِس کامزید ثبوت اَگرآپ نے دیکھنا ہوتوقرآنِ کریم مَیں نے عرض کیا تھاکہ قرآنِ کریم میں لفظ اِمام مہدی موجود ہے۔اَورجو اہلِ قرآن کہتے ہیں کہ یہ اِصطلاح بعد کی بنی ہوئی ہے ہم نہیں مانتے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہو۔ اُن کے لئے یہeffective جواب ہے ۔

قرآنِ کریم فرماتا ہے اَنبیاء کاذکرکرکے ، ایک جگہ نہیں ایک جگہ سے زائد جگہ ، قرآنِ کریم فرماتا ہے اَنبیاء کے نام لے لے کر۔ وَجَعَلْنٰھُمْ أَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا(الانبیاء74:)یہ وہ سارے لوگ ہیں لوط ؑ، نوح ؑ ، عیسٰی ؑ اَورموسٰی ؑ اَوراِبراہیم ؑ ، سب کے نام لے لے کرفرماتا ہے کہ اِن کے متعلق دو چیزیں ہم نے کیں۔نمبر1 ۔ جَعَلْنٰھُمْ أَئِمَّۃً۔ أَئِمَّۃً اِمام کی جمع ہے ۔ اِمام کی جمع أَئِمَّہ ہے ۔ أئمہ کرام کہتے ہیں جس طرح۔ توایک خدانے یہ وضاحت کی کہ نبیوں کوہم اِمام بناتے ہیں ۔ دوسری وضاحت یہ فرمائی یَھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا۔ وہ اَپنی طرف سے ہدایت نہیں دیتے ۔ ہم سے پہلے ہدایت پاتے ہیں اَور پھر ہدایت دیتے ہیں ۔جوخود ہدایت دے اُس کوکیا کہتے ہیں؟ہادیؔ، عربی گرائمر کا لفظ ہے واقف آدمی فورًا سمجھ سکتا ہے۔ قاتلؔ جس طرح کہتے ہیں یہ اِسمِ فاعل ہے۔ اَور جو ہدایت پائے پہلے کسی سے، پھرجاری کرے اُس پہ اِسمِ مفعول صادق آتا ہے اَوراُس کومہدؔی کہتے ہیں۔ توقرآنِ کریم نے نبیوں کی تعریف یہ فرمائی ایک جگہ،کہ جتنے اَنبیاء تھے اُن میں دوشرطیں پائی جاتی تھیں۔ ایک وہ ایسے اِمام تھے جنہیں ہم نے بنایاتھا،لوگوں نے نہیں چُناتھا۔دوسرا یہ کہ وہ ہادیؔنہیں تھے مہدیؔ تھے۔ ہم سے ہدایت پاکرپھرلوگوں میں بات کرتے تھے ۔ ہماری ہدایت کے بغیرنہیں کرتے تھے۔تویہ قرآنی اِصطلاح ہے۔ اَورایک جگہ نہیں تین جگہ قرآنِ کریم میں یہی آیت مختلف مضمونوں میں نازل ہوئی ۔ اَورہمیشہ نبیوں کے متعلق آئی۔

پس مسئلہ حل کرنا چاہئے۔ فساد کوبے وجہ لمبا نہیں کرنا چاہئے۔اِ س بات پرہم خداتعالیٰ کے ہرمقدّس نام کی قسم کھا کریہ بیان دینے کے لئے تیارہیں کہ حضرت اِمام مہدی کاجومقام ہے اُس سے ایک سوئی کے برابر بھی ہم مرزاؔ صاحب کا مقام اُونچا نہیں سمجھتے اَورایک سوئی کے برابربھی نیچا نہیں سمجھتے۔یہ بحث ہم سے کرلیں کہ اِمام مہدی کامقام کیا ہوگا۔ہمارے اِمام مہدیؔ کانہیں ،آپ کااِمام آنے والا ہوگااُس کا ہی مقام طے کرلیں ۔اَگرآپ تقویٰ سے طے کریں گے تو اِس کے سوانتیجہ نکلتا ہی نہیں کہ اُمّتی نبی ہوگا۔اِمام ہوگا۔ خدا بنائے گا۔دُنیا کواُس کے اِنکارکی اِجازت نہیں ہوگی ۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button