متفرق مضامین

تعلق باللہ کیسے بڑھایا جا سکتا ہے ؟

(جمیل احمد بٹ)

(جمیل احمد بٹ)

اللہ تعالیٰ سے تعلق انسانی سرشت میں داخل ہے۔ اسی سبب اپنی پیدائش سے بھی قبل اس نے یہ اقرار کیاکہ اللہ اس کا رب ہے ۔ یہ مکا لمہ قرآن کریم میں یوں مرقوم ہےاَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلیٰ، شَہِدْنَا (الاعراف173:)یعنی کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں ۔

یہ تعلق محبت کا ہےحضرت مصلح موعو د رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’ لفظ تعلق عَلَق سے ہے جس کے ایک معنی محبت بھی ہوتے ہیں پس آیت خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(العلق03:)کہ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے‘۔

(تعلق باللہ از حضرت مصلح موعودؓ۔ انوارالعلوم جلد23 صفحہ نمبر157)

تعلق باللہ سب سے بڑا فرضحضرت مصلح موعو د رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ

’’حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ملنا اور اس سے تعلق کا پیدا ہو جانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے۔اور اگر خدا مل سکتا ہے تو پھر اس میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتاہے کہ اس سے تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیں‘‘۔(تعلق باللہ از حضرت مصلح موعودؓ۔ انوارالعلوم جلد23 صفحہ نمبر 126)

اللہ تعالیٰ سے محبت کے اس تعلق کو بڑھانے کے دس ممکنہ ذرائع درج ذیل ہیں۔

1۔ اللہ پر ایمان اور معرفت

حسنِ باری تعالیٰ اور اس کی احسانی صفات کا علم اللہ پر ایمان اور اس کی معرفت کو بڑھاتا ہے۔ اور نتیجتاً محبت کو بھی۔ کہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں۔ ایک حسن جس کے مشاہدہ سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے اوردوسرے احسان ۔ا للہ کے حسن و احسان کے اس ادراک کے لئے کھلی آنکھوں اور بیدار ذہن کے ساتھ ان بے شمار نعمتوں پر توجہ اور غور و فکر کرنا نقطۂ آغاز ہے جو اللہ نے انسانی زندگی کی پیدائش ، اس کے برقرار رکھنے، سہل کرنے اور انجام کار اس کی نجات کے لئے عطا کی ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خودفرمایا ہے کہ وَ اِنْ تَعُدُّوْانِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا(ابراہیم35:) ترجمہ اوراگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو کبھی ان کا شمار نہ کر سکو گے۔

اللہ تعالیٰ کے محیط ِ کل حسن و احسان کا بڑھتا ہوا یہ ادراک بتدریج دلوں میں اللہ کی محبت بڑھانے کا ابتدائی ذریعہ ہے۔

2۔ ذکر ِ الٰہی

محبت بالطبع محبوب کے ذکر کی متقاضی ہے۔ ذکر ِ الٰہی کی طرف راغب رکھنے کے لئے اللہ فرماتا ہے کہ

فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ(البقرۃ153:)ترجمہ پس میرا ذکر کیا کرو مَیں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔

اللہ کا ذکر عبادتِ الٰہی کا مضمون ہے ۔ یہی انسان کی پیدائش کی غرض ہے ۔ جیسا کہ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات57:)ترجمہ اور میں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔

اُسوۂ رسولﷺمیں اٹھنے، بیٹھنے ، سونے، جاگنے، کھانے پینے غرضیکہ انسانی زندگی کی ہر حرکت اور سکون اورسرگرمی کے مواقع پر دعاؤں کے ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذکر ِ الٰہی ایک ہمہ وقت شغل ہے۔ ان کے ساتھ نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض اوردیگر عبادات اور قربانیاں اس کے مزید ذرائع ہیں ۔ ہر موقعہ پر اللہ کا ذکر اور نمازوں کی اس کے تقاضوں کے مطابق ہر روز ادائیگی انسان کو تعلق باللہ کی طرف متوجہ رکھتی ہے اور اس کو اس درجہ تک لے جانے میں ممدہے کہ جب اس کا دل مسجد سے اٹک جاتا ہے ۔

یہ ذکر الٰہی اللہ سے تعلق کو بڑھانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے ۔

3۔ نوافل

نوافل مقر ر کردہ خدمت میں زیادتی ہے ۔ یعنی فرض نماز ، روزہ اور مالی قربانی سے زائد کرنا ۔یہ زائد خدمت محبت ِ الٰہی کو پانے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حدیث ِقدسی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا

’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے…میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ مَیں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں…مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے او اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو مَیں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ کسی (چیز) سے میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو مَیں اسے پناہ دیتا ہوں ‘۔ (بخاری کتاب الرقاق)

پس نمازِ تہجد کی باقاعدہ ہر روز ادائیگی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں جن دو رکعات نفل روزانہ اور ہر پیر یا جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے اور جن دعاؤں کو بار بار دہرانے کی نصیحت فرمائی ہے ان پرتواتر سے عمل اور اسی طرح زائد مالی قربانی نوافل ہیں۔ اورتعلق باللہ کو بڑھانے کا ذریعہ ۔

4۔ مجاہدہ

مجاہدہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرۃ4:)ترجمہ اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیاہے اس میں سے (خدا کی راہ ) میں خرچ کرتے ہیں ۔

اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں میں جان ، مال ، عقل ، علم ، فہم ، ہنر غرضیکہ سب طاقتیں شامل ہیں ۔ ان سب کو دینی ضرورتوں اور اس کے بندوں کے فائدہ لئے خرچ کرنے کا یہ حکم جانی اورمالی قربانی اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم ہے۔

جان و مال کی قربانی الٰہی جماعتوں کا شعار رہا ہے۔ ان کے ایمان کی مضبوطی اور حق کے پھیلاؤ کے لئے ان سے قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے ۔ اس بارے میں یہ سنت اللہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ (البقرۃ156)ترجمہ اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے۔

بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی، ان کی خدمت لوگوں کے کام آنا اور ان کی خاطر اپنا وقت اور مال دینا اور تکلیف اٹھانا بعض اوقات دینی فرائض کی بجا آوری پر بھی بھاری ہو جاتا ہے۔

غرضیکہ اپنی تمام موجود صلاحیتوں، اموال اور نعماء کو دینی اغراض اور اہل دنیا کی ضروریات کے لئے بھی خرچ کرنا اللہ سے تعلق کی راہیں کھولتا ہے ۔

5۔ صحبتِ صالحین

انسان طبعاً نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو اور زیادہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اچھوں کی صحبت اختیار کرنے کا یہ حکم فرمایا ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (توبہ119:)(ترجمہ از حضرت مسیح موعودؑ) تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو راستباز ہیں ۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ نمبر422 )قرب کا اثر ایک عام مشاہدہ کی بات ہے۔ وہ مٹّی بھی خوشبو دینے لگتی ہے جس پر گلاب کے پھول کھلتے ہیں۔آنحضور ﷺ کی درج ذیل حدیث میں بھی اسی کا اظہار ہے

’برے ہم نشین اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار اور لوہار کی مثال ہے ۔ عطار کے پاس اگرتو بیٹھا ہو گا تو یا وہ تجھے تحفہ دے گا ۔یا تو اس سے خوشبودار چیز مول لے گا۔ ورنہ کم سے کم خوشبو تو تجھے پہنچے ہی گی۔اور لوہار کے پاس بیٹھنے کی صورت میںتیرے کپڑے جلیں گے ۔ورنہ دھوئیں کی بو توتجھے دکھ دے گی ہی‘۔(صحیح بخاری بحوالہ پیارے رسولؐ کی پیاری باتیں از حضرت میرمحمد اسحا ق صاحب صفحہ 51پبلشر انجمن ترقی اسلام سکندر آباد دکن )

احمدیو ں کی آپس کی دوستیاں، جماعتی پروگراموں اور اجتماعات میں شرکت اسی غرض سے ضروری ہے۔ اب توMTAکے ذریعہ دنیا میں موجود سب سے راستباز وجود کے ساتھ بھی وقت گزارنا ممکن ہو گیا ہے ۔ پس ایم ٹی اے کے ساتھ وقت گزارنا اور اس کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے روحانی مائدہ کا زیادہ سے زیادہ حصول تعلق باللہ بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔

اس حکم میں بد صحبت سے اجتناب بھی شامل ہے ۔ یعنی دنیوی اور دینی ہر دو لحاظ سے بدوں سے دوستی نہ رکھی جائے۔ وہیں اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود گند کو بھی بد صحبت شمار کر کے اس سے دور رہا جائے اور پورے طور پر بچا جائے ۔

6۔ ویسا بننا جن سے اللہ محبت کرتا ہے

قرآنِ کریم میںاللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے ۔

تعلق باللہ بڑھانے کے لئے ان جیسا بننا یقیناً ایک مفید ذریعہ ہے ۔ قرآن کریم میں علی الترتیب ایسے درج ذیل گروہوں کا ذکر ہے

توّابین (البقرۃ232:) ،متطھّرِین( البقرۃ223:)، متقین(آلِ عمران77:)، صابرین (آلِ عمران147:) ، محسنین(آلِ عمران149:)،متوکّلین(آلِ عمران160:) مقسطین (مائدۃ43:) اور اتباع رسول کرنے والے۔ ان سب سے اللہ محبت کرتا ہے۔

ان ناموں کی کسی قدر وضاحت درج ذیل ہے

توّ ا بین یہ گناہ پر ندامت کرنے والے اور اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ

’توّابین سے مراد وہ لوگ ہیں جو باطنی پاکیزگی کے لئے کوشش کرتے ہیں‘۔(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ338 نیا ایڈیشن)

’جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرماوے،نہیں مارتا۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ (بقرۃ 223)میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب بے کس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے محبت اور پیار کرتا ہے اور اسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے‘۔

( ملفوظات جلد اوّل صفحہ2 نیا ایڈیشن)

متطہّرین اللہ کی خاطر ظاہری پاکیزگی اختیار کرنے والے کہ یہ باطنی طہارت کی راہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

’متطہرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہری اور جسمانی پاکیزگی کے لئے جد و جہدکرتے رہتے ہیں‘۔

(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14 صفحہ338 نیا ایڈیشن)

’متطہّروہ ہوتے ہیںکہ وہ مجاہدات اور ریاضات کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل میں ایک کِیٹ سے لگی رہتی ہے کہ کسی طرح ان آلائشوں سے پاک ہو جاویںاور نفس ِامّارہ کے جذبات پر ہر طرح سے غالب آ کر زکی النفس بن جاویں‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ409۔410نیا ایڈیشن)’پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔اس لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو غسل کرو۔ہر نماز میں وضوکرو۔جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگا لو‘۔(رسالہ انذار بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 705نیا ایڈیشن)

متقین تقویٰ اختیار کرنے والے۔ اللہ سے ڈرنے والے۔یہ وہ خوف ہے جو اپنے پیاروں کی ناراضگی کا ہوتا ہے۔ اور جس کی بنیاد محبت ہوتی ہے۔ متقی اللہ کے لئے اچھے کام کرتے اور بُرے کام اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچتے ہیں۔ مخفی امور میں بھی رضائے الٰہی کو مقدم کرتے ہیں اور ہر معاملہ میں اللہ کو ڈھال بناتے ہیں۔

تقویٰ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت توجہ دلائی ہے ۔ بطور مثال چند ارشادات درج ذیل ہیں

’ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے ۔اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن ِ حصین ہے‘۔(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ342 نیا ایڈیشن)

’ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتّی الوسع رعایت رکھے‘۔

(براہین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ210 )

’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف ِ حقوق، ریاء ،عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکّا ہو تو اخلاق ِ رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق ِ فاضلہ میں ترقی کرے‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ680ایڈیشن جدید نظارت اشاعت ربوہ)

آپ کے منظوم کلام میں سے ایک شعر اور مصرع

’ہر اک نیکی کی جڑھ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے‘

’وہ دُورہیںخداسےجو تقویٰ سے دور ہیں‘

(بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین بحوالہ درّ ِ ثمین)

صابرین قبولیتِ حق کے سبب مخالفین کے ہاتھوںدکھ، تکلیف اور حق تلفیاں، مضبوطی ٔ ایمان کے لئے تقدیر ِ ِ الٰہی کے تحت ابتلا، قضا و قدر کے ہاتھوں آزمائش اور قانون ِ قدرت کے نتیجہ میں نقصان اور قریبیوں سے بچھڑنا،ان سب مواقع پر دلی بشاشت سے صبر کرنے والے اس زمرہ میں آتے ہیں۔

صبر کے ذریعہ محبت ِ الٰہی پانے کا مضمون حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے

’جب انسان محض حق جوئی کے لئے تھکا نہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور مجاہدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس پر ہدایت کی راہ کھول دیتا ہے‘۔

( ملفوظات جلد اول صفحہ 461نیا ایڈیشن)

محسنین ا حسان کرنے والے ۔ یہ خدمتِ خلق کا میدان ہے ۔ ضرورت منداور حاجت مند کو اللہ نے اپنے سے قریب جانا ہے ایک حدیثِ قُدسی کے مطابق بھوکے کو کھانا نہ کھلانا، ننگے کو کپڑے نہ پہنانا ، ضرورتمند کی حاجت پوری نہ کرنے کو اللہ نے خود اپنے آپ کو نہ کھلانا ، نہ پہنانا ، اور خود کی حاجت روائی نہ کرنا فرمایا ہے ۔

حدیث ِ مبارکہاَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہ کے تحت تمام مخلوق کو اللہ کی عیال جاننا ،پھر اس عیال کی محبت ،قربانی اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ خیر خواہی کرنا ، ان کے کام آنا اور جو کچھ اللہ نے ہمیں دیا ہے اس میں سے ان کے لئے خرچ کرنا اور آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ان کی ہدایت کے لئے بے چین رہ کر کوشش کرنا سب احسان میں داخل ہے ۔

متوکّلین اللہ پر توکل کرنے والے ۔ ہر طرح پوری تدبیر کے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا توکل ہے ۔ اس میں اسباب رعایت کی ترتیب ہے یعنی پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھناپھر خدا پر توکل کر کے اسے چھوڑ نا۔ یہ اپنی کوشش کو کافی نہ سمجھنے اور نتیجہ ہر حال میں اللہ کے ہاتھ میں ہونے کا درس ہے ۔ یہ سوچ اللہ کے قریب کرنے والی ہے۔ توکل کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ

’توکّل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیںان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر دعاؤں میں لگ جاؤکہ خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر۔صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیںجو ان اسباب کو بھی برباد و تہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ان کی دست برد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزلِ مقصود پر پہنچا‘۔(الحکم 24 مارچ 1903ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 188نیا ایڈیشن)

مقسطین انصاف کرنے والے۔ ہرحال میں انصاف سے کام لینا ۔ خواہ فیصلہ اپنے دوست اور عزیز کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ اخلاق کا اعلیٰ معیار ہے کہ انصاف کے معاملہ میں اپنے پرائے میں کوئی فرق نہ کیا جائے ۔یہ اللہ کے قریب کرنے والا ہے ۔

اِتّباع ِ رسول کرنے والے ان چند گروہوںکے علیحدہ ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی خوش خبری ان سب لوگوں کو بھی دی ہے جو آں حضرت ﷺ کی اتباع کریں ۔ جیسا کہ فرمایا اِنْ کُنْتُمْ تُحِبَّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ(آل عمران32:)ترجمہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔

آنحضرتﷺ تعلق بااللہ کے انتہائی مقام تک پہنچے ۔اس لئے آپ ﷺ کی کامل پیروی اور اپنے ہر فعل ، قول ، حرکت اور سکون میں آپ ﷺ کے نمونہ کے مطابق کرنا اللہ کے تعلق کا ایک یقینی ذریعہ ہے ۔

7۔ ایسا نہ بننا جن سے اللہ محبت نہیں کرتا

قرآنِ کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جن سے اللہ محبت نہیں کرتا ۔ جب ہم اللہ سے تعلق کو بڑھانا چاہتے ہیں تو یہ لازم ٹھہرتا ہے کہ ہم ان سب باتوں سے مکمل احتراز کریں جن کے کرنے والوں سے اللہ محبت نہیں کرتا۔ ان لوگوں میں یہ شامل ہیں

مُخْتَالًا(النساء37:): متکبر جو اپنی شان بڑی سمجھیں اور اس پر تکبر کر کے دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھیں ۔

فَخُوْرَا(النساء37:) بے جا فخر کرنے والے جو اللہ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو اپنا ذاتی وصف سمجھ کر اس پر بے جا فخر کریں ۔

الْمُفْسِدِیْنَ(المائدۃ65:)جو زمین پر فساد کرتے ہیں اور ناانصافی سے حق تلفی ۔

الْمُعْتَدِیْنَ(المائدۃ88:)حد سے گزرنے والے۔ جو خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود و قیود کو توڑیں۔ خواہ افراط سے خواہ تفریط سے ۔

الْمُسْرِفِیْنَ(الانعام142:)فضول خرچ کرنے والے۔ ضرورت سے زیادہ لینا ، زیادہ کھا لینا ، ضائع کردینااہل و عیال کی پرواہ کئے بغیر خیرات کر دینا سب اس میں شامل ہے ۔

خَوَّانٍ(حج39:):جو اپنے میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو ۔

کَفُوْرٍ(حج39:):نا شکرا جو نا شکر گزار ہو۔ یہ احسان فراموشی ہے جو نا پسندیدہ ہے کیوں کہ حکم یہی ہے کہ

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم8:)ترجمہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو مَیں ضرور تمہیں بڑھائوں گا ۔

الْفَرِحِیْنَ(قصص77:) اِترانے والا جو عارضی لذات اور چھوٹی کامیابیوں پر شیخی بگھارے اور اترائے ۔

الظّٰلِمِیْنَ(شوریٰ142:) ظالم جو ابتداً زیادتی کرتے ہیں یا وہ جو بدلہ لینے میں زیادتی کرتے ہیں اور جوش انتقام میں خود ظالم ہو جاتے ہیں ۔

8۔ استقامت

تعلق باللہ کی منزل استقامت کو چاہتی ہے ۔ راہ کی مشکلات اور آزمائشوں پر ثابت قدم رہنا پیچھے نہ ہٹنابلکہ ہر چہ باداباد کہہ کر گردن رکھ دینا اور قضاء و قدر کے آگے دَم نہ مارنا ہی وہ استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے ایسا کرنے والوں پر قرآنِ کریم نے فرشتے اترنے کی نوید دی ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ(حٰم السجدۃ41:)یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے ، پھر استقامت اختیار کی اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں۔یہ تعلق باللہ بڑھانے کا ایک یقینی ذریعہ ہے ۔

9۔ یقین

یہ یقین کہ تعلق بااللہ میں بڑھنا ایک ممکن بات ہے۔ انسان کو جدوجہد پر اکساتا ہے اور ان کوشش کرنے والوں کو اللہ راہ دکھا تا ہے ۔ جیسا کہ فرمایاوَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (عنکبوت70:)ترجمہ از حضرت مسیح موعود ؑ اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیںگے۔(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ نمبر 419 ایڈیشن2008ء) جیساکہ اصول ہےکہ جویندہ یابندہ۔یعنی جو ڈھونڈتاہےسوپاتاہے۔اس بارے میں آنحضرت ﷺ نے یہ خبر دی ہے 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ…جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں …اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف ایک ہاتھ جائوں گا ۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دو ہاتھ جائوں گا ، اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آئوں گا۔ (ترمذی ابواب الدعوات)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ خوش خبری بھی دی ہے ـ’ تمہیں خوش خبری ہو کہ قُرب کا میدان خالی ہے ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔وہ لوگ جوپورے زور سے اس دروازہ سے داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خداسے خاص انعام پاویں‘۔ (الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ نمبر 308۔309 ایڈیشن2008ء)

10۔دعا

تعلق بااللہ میں بڑھنے کا وہ آخری ذریعہ جس کا اس وقت ذکر کرنا ہے وہ دعا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قبولیتِ دعا کی بشارت دی ہے جیسا کہ فرمایا وَ قَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن61:)ترجمہ تم دعا کرو مَیں قبول کرو ں گا۔

دعا کی طرف بار بار رغبت دلائی گئی ہے کیوں کہ خدا کو پانا خدا کی مدد کے ساتھ ممکن ہے ۔ خود آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ جواللہ سے تعلق میں تمام مخلوق سے آگے تھے ۔ دعائیں کرتے تھے ۔ایسی دو دعائیں یہ ہیں۔

i۔اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یَّنْفَعُنِیْ حُبَّہٗ عِنْدَکَ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِّیْ فِیْمَا تُحِبُّ، وَ مَا زَوَیْتَ عَنِّیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِّیْ فِیْمَا تُحِبُّ(ترمذی کتاب الدعوات)ترجمہ اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت بھی جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے ۔ اے اللہ ! میری محبوب چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جو پیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطاکر دے ۔

ii۔ترجمہ’اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان کی محبت جو تجھ سے محبت کرتے ہیں۔اور اس عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔اے میرے خدا ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان، اپنے مال، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو جائے‘۔(ترمذی کتاب الدعوات)

حرف ِ آخرانسانی زندگی کا حاصل یہی ہے کہ دل میں موجود اللہ سے تعلق کی چنگاری کو ہوا دے کر اس درجہ کو پہنچایا جائے کہ اس کا سب کچھ اللہ کا ہو جائے اور دل کی پنہانیوں سے یہ صدا بلند ہو کہ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ (الانعام163:)ترجمہ یقیناً میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے ۔

اللہ کرے کہ ہم سب تعلق باللہ میں اس درجہ بڑھنے والے ہو جائیں۔آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button