متفرق مضامین

تعمیرمساجد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشانات

(منصور احمد زاہد۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل ساؤتھ افریقہ)

(منصور احمد زاہد۔ مبلغ سلسلہ ساؤتھ افریقہ)

غانا کے مشرقی صوبہ کی جماعت Somanya میں تعمیر مسجد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بعض واقعات ہدیۂ قارئین ہیں

Somanya کی جماعت غانا میں Tema سے Akosombo ڈیم کے راستہ میں واقع ہے اور ڈیم کے قریب ہے۔ اس جماعت کا آغاز 1978ء میں ہوا اور ابتدائی احمدیوں میں سے احمد مارفُو صاحب اور حسن کاربو صاحب ہیں۔ بعد میں اَور لوگ بھی شامل ہوئے۔

2005ء میں خاکسار کی تقرری اس صوبہ میں ہوئی تو گاہے بگاہے اس علاقہ کا بھی دورہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ مکرم حسن کاربو صاحب نے جو کہ اس وقت سرکٹ پریذیڈنٹ ہیں، بتایا کہ انہوں نے ریویو آف ریلیجنز کا مطالعہ کرکے مقامی مربی مرحوم سعید صاحب کے ذریعہ بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئے۔ ایک اور احمدی نے بتایا کہ احمدی داعی الی اللہ اس قصبہ میں تبلیغ کر رہا تھا اور وہ بائبل سے عیسائیت کے عقائد کی تردید کر رہا تھا، مَیں نے اپنے زُعم میں سوچا کہ بائبل تو مجھے بھی آتی ہے اور اُس داعی الی اللہ کو چیلنج کردیا جس پر احمدی نے اُسے کہا کہ مَیں فلاں جگہ ٹھہرا ہوا ہوں، وہاں آ جانا، موضوع طے کرکے بات کرلیں گے۔

چنانچہ مَیں وہاں چلا گیا۔ موضوع طے کرکے گفتگو شروع ہوئی۔ مَیں جو بھی بات کرتا اور حوالہ دیتا، احمدی داعی الی اللہ اُسی بائبل سے میری بات کا حوالہ دیتا اور آخر مَیں لاجواب ہو جاتا۔ چنانچہ یہ سلسلہ چند دن چلا اور تمام موضوعات پر میرے پاس جتنے تیر تھے، چلائے اور آخر ترکش کو خالی پایا تب مجھے احساس ہوا کہ بائبل تو احمدی کی تائید کرتی ہے، لہٰذا مَیں نے بیعت کرلی۔

اسی جماعت کے مقامی صدر الحاجی سلیمان صاحب احمدی ہونے سے پہلے اپنے گاؤں میں امام تھے، جب انہیں تبلیغ کی گئی اور اُن پر حق روشن ہوا تو انہوں نے امامت کو خیرباد کہا اور اپنی زرعی زمین اور آموں کے باغ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب مَیں احمدی نہیں تھا تو اپنے آپ کو عالم سمجھتا تھا مگر جب احمدی ہوا تو ایسے لگا کہ میرا علم تو ایک احمدی بچے سے بھی کم ہے۔

اس مقامی جماعت نے مسجد کی تعمیر کے لئے زمین غالباً 1983ء میں خریدلی تھی اور اُس وقت کی ضرورت کے تحت اس پر ایک بڑا ہال جو کہ نماز اور جمعہ کے لئے استعمال ہوتا تھا اور دو چھوٹے کمرے تعمیر کئے۔ مگر مقامی جماعت میں اتنی توفیق نہ تھی کہ اپنے ذرائع سے مسجد تعمیر کرسکیں۔ اس سلسلہ میں خاکسار نے الحاج محمود ابوبکر صاحب سے جو کہ WA کے رہنے والے ہیں مگر اکراہ میں کنٹریکٹر کا کام کرتے ہیں، رابطہ کیا اور انہیں تحریک کی۔ چنانچہ انہوںنے وقتاً فوقتاً مالی قربانی کی جس کی وجہ سے سب سے پہلے بلاک بنوائے گئے اور پھر تعمیر کا کام شروع ہوا۔ مقامی احباب کی کمیٹی بنادی گئی جو کام کی نگرانی اور حساب کتاب سنبھالتی رہی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوبصورت مسجد تعمیر ہوگئی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

اس مسجد کی تعمیر میں کئی ایک رکاوٹیں بھی کھڑی ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دُور کردیا۔ چند واقعات احباب کے ازدیاد ایمان کے لئے پیش ہیں۔

یہ مسجد کا احاطہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اگلا حصّہ پہلے سے تعمیر شدہ ہے اور کسی کا گھر ہے۔ اُس پلاٹ کے ایک حصّہ سے ہمیں راستہ دیا گیا ہے تاکہ مسجد جایا جاسکے۔ جب مسجد کا کام شروع کروایا تو ہمسایوں نے رکاوٹ ڈالی اور سامان لے کر آنے جانے والے ٹرکوں کو روکا جس کے لئے ساتھ والے خالی پلاٹ سے سامان لے جایا جاتا رہا۔ جو عورت رکاوٹ پیدا کر رہی تھی اُنہی دنوں میں بیمار ہوئی اور اُس کی موت واقع ہوگئی۔ اس طرح پھر بعد میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی۔

تعمیر کا کام شروع ہوا تو بجلی کے محکمہ والے آگئے اور انہوں نے کام رکوا دیا کیونکہ بجلی کی تار پلاٹ میں سے گزرتی تھی جس کے لئے احباب جماعت نے انہیں درخواست کی کہ تار کو باآسانی ہٹایا جاسکتا ہے اور نئی سمت دے کر منتقل کیا جاسکتا ہے اور جو بھی خرچ آئے ہم ادا کریں گے مگر محکمہ والے راضی نہ ہوئے۔ چند دن کے بعد رات کو اُس علاقہ کی بجلی کی تاریں چوروں نے کاٹ لیں جس پر محکمہ والوں نے نئی تاریں ڈالتے وقت جماعت کی تجویز کے مطابق کردیا اور تعمیر کی اجازت دے دی۔

جس دوران مسجد تعمیر ہو رہی تھی۔ ایک ہمسایہ ریت چوری کرتا رہا اور پالے ہوئے سؤروں کے کمرہ میں گاہے بگاہے ڈالتا رہا۔ چنانچہ وہ بیمار ہوا اور اُس کی موت واقع ہوگئی۔ مکرم حسن کاربو صاحب نے بتایا کہ اُس نے اپنے عزیز واقف کاروں کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ مسجد کی ریت چوری کرتا رہا تھا۔

ہر چند کہ خانہ خدا کی تعمیر میں گاہے گاہے روکیں پیدا ہوتی رہیں مگر اللہ تعالیٰ بھی انہیں راستہ سے ہٹاتا چلا گیا۔ اس مسجد کا افتتاح 14 مئی 2016ء کو عمل میں آیا اور امیر و مشنری انچارج غانا الحاج نور محمد صالح صاحب نے افتتاح کیا۔ اس علاقہ میں داعیان الی اللہ کی کاوشوں سے مزید پھل بھی نصیب ہوئے۔ چنانچہ حال ہی میں اس علاقہ کو علیحدہ سرکٹ کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اب وہاں مقامی مربی متعیّن ہے۔

احباب کرام الحاجی محمود ابوبکر صاحب کو اپنی خاص دعا میں یاد رکھیں جن کی مالی قربانی سے مسجد کی تعمیر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور دیگر قربانی کرنے والوں کو اپنے فضلوں سے نوازے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button