الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

(مرتبہ محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

پیشگوئی مصلح موعود کا سابقہ نوشتوں میں ذکر

دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب تواتر کے ساتھ ایک موعود اقوام عالم کی بعثت کی خبر دیتے آئے ہیں اور اس کے متعلق بہت ساری علامات اور نشانیاں بھی بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک علامت اس موعود اقوام عالم کے ہاں عظیم الشّان صفات کے حامل ایک بیٹے کی ولادت بھی ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17فروری 2012ء (مصلح موعود نمبر) میں مکرم لقمان احمد شاد صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں گزشتہ نوشتوں میں درج پیشگوئیوں سے ایسے دلچسپ اقتباسات پیش کئے گئے ہیں جن میں سیّدنا حضرت مصلح موعودؓکی پیدائش اور ترقیات کا ذکر کیا گیا ہے۔

٭ آنحضرت ﷺ کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ دنیامیں تشریف لائیں گے اور شادی کریں گے اور ان کو اولاد دی جائے گی۔ (مشکوٰۃ مجتبائی باب نزول عیسیٰ بن مریم)

صاف ظاہر ہے کہ محض شادی کرنا اور اولاد کا ہونا کسی مامور من اللہ کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بلکہ حدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس موعود کے ہاں غیرمعمولی صفات کی حامل اولاد کا ہونا مقدّر تھا جو اس کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان بننا تھا۔

٭ یہودی مذہب کی معروف کتاب طالمود میں لکھا ہے


It is also said that he shall die, and his kingdom descend to his son grandson

(طالمود ازجوزف بارکلے باب پنجم صفحہ 37 مطبوعہ لندن 1878ء)

ترجمہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ (یعنی مسیح) جب وفات پاجائے گا تو اس کی (روحانی) سلطنت اس کے فرزند اور پوتے کو ملے گی۔

اس پیشگوئی سے پتہ چلتا ہے کہ آنے والے مسیح آخرالزماں کے ہاں پیدا ہونے والے موعود بیٹے کے متعلق خبر سب سے پہلے بنی اسرائیل پر منکشف ہوئی۔

٭ ایران کے قدیم زرتشتی مذہب کے صحیفہ ’’دساتیر‘‘ میں مجدّد ساسان اوّل کی تحریر کردہ پیشگوئی پائی جاتی ہے جو اصل میں پہلوی زبان میں تھی اور بعد میں زرتشتی اصحاب نے اسے فارسی زبان میں نقل کیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ

پھر شریعت عربی پر ہزار سال گزر جائیں گے تو تفرقوں اور اختلافات سے دین ایسا ہو جائے گا کہ اگر اسے خود شارع (نبیؐ) کے سامنے بھی پیش کیا جائے تو وہ بھی اسے پہچان نہ سکے گا …اور ان کے اندر اختلافات و انشقاق پیدا ہوجائے گا اور روز بروز اختلاف اور باہمی دشمنی میں وہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو تمہیں خوشخبری ہو کہ اگر زمانے سے صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو تیرے لوگوں (فارسی الاصل) میں سے ایک شخص کو کھڑا کر دوں گا۔ جو تیری گمشدہ عزت و آبرو واپس لائے گا اور اسے دوبارہ قائم کرے گا۔ مَیں تیری نسل سے پیغمبری و پیشوائی نہیں اٹھاؤں گا‘‘۔

اس پیشگوئی کے آخری فقرہ کہ ’’پیغمبری و پیشوائی از فرزندان تو برانگیزم‘‘ میں یہ اشارہ ہے کہ موعودِ آخر زماں کی اولاد میں سے کوئی اس کا جانشین ہوگا۔

٭ بزرگان سلف کے بعض بزرگان و اولیاء نے بھی آنے والے موعود کے ہاں ایک غیرمعمولی صفات کے حامل فرزند کے تولّد کی خبر دی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کی ایک روایت میں بھی اس پیشگوئی کا ذکر موجود ہے کہ

پھر عیسیٰ ایک عورت سے شادی کریں گے اور اس کے بطن سے ایک عظیم بیٹا پیدا ہوگا۔

(معجم احادیث الامام المہدی)

٭ اسی طرح ’’بحارالانوار‘‘ میں ایک پیشگوئی درج ہے جس کا ترجمہ ہے کہ

ایک آہنی مرد خروج کرے گا جو سیاہ جھنڈوں کو سرخ جھنڈوں میں تبدیل کر دے گا اور محرمات کو جائز قرار دے گا اور دودھ پلانے والی عورت کو معلقہ چھوڑ دے گا اور وہ کوفہ کو تباہ کرنے والی قوم سے تعلق رکھنے والا ہوگا۔ اس وقت خدا کے نبی امام مہدی کا بیٹا ظہور کرے گا۔

یہاں مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے ایک سوشلسٹ انقلاب کا ذکر ہے۔

٭ حضرت سید عبدالقادرجیلانیؒ نے بھی کشف کے ذریعے خدا سے اطلاع پا کر آنے والے مہدی کے فرزندِ عظیم کی خبر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ

’’ایک دن حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒکسی جنگل میں مراقبہ فرمائے ہوئے بیٹھے تھے کہ ناگہاں آسمان سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے تمام عالم نورانی ہوگیا۔ یہ نور ساعۃً فٓساعۃً بڑھتا گیا اور روشن ہو گیا۔ اس سے امت مرحومہ کے اوّلین و آخرین اولیاء نے روشنی حاصل کی۔ حضرت نے تامّل فرمایا کہ اس مثال میں کسی صاحب کمال کا وجود باجود مشاہدہ کرایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس نور کا صاحب تمام اُمّت کے اولیاء اولین و آخرین سے افضل تر ہے۔ پانسو سال بعد ظہور فرما کر ہمارے پیغمبرؐ کے دین کی تجدید کرے گا۔ جو اس کی صحبت سے فیضیاب ہو گا وہ سعادت مند ہو گا اس کے فرزند اور خلیفہ بارگاہ احدیت کے صدر نشینوں میں سے ہیں‘‘۔ (حدیقہ محمودیہ)

٭ اُمّت مسلمہ کے مشہور صاحبِ کشف و الہام حضرت نعمت اللہ ولیؒ کا ایک شہرۂ آفاق الہامی قصیدہ جس میں آنے والے امام مہدی کے ظہور کی خبریں دی گئی ہیں۔ حضرت سیّد اسماعیل شہیدؒ کی کتاب ’اربعین فی احوال المہدیین‘ میں درج ہے کہ اس قصیدے میں حضرت نعمت اللہ ولیؒ نے فرمایا ہے کہ اس قصیدہ کی بنیاد خدائے علیم و خبیر کے خالص الہام پر ہے اور اسی قصیدہ میں آپؒ نے مسیح و مہدی کے ہاں ایک ایسے فرزند کے تولّد ہونے کی خبر دی ہے جو عظیم صفات کا حامل ہوگا۔ چنانچہ آپ ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ جب مسیح موعود کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا۔ یعنی وہ اپنے باپ کے رنگ میں رنگین ہوگا اور وہی صفات اپنے اندر رکھے گا۔

٭ پانچویں صدی ہجری کے ایک شامی بزرگ حضرت امام یحییٰ بن عقبؒ نے خداتعالیٰ سے اطلاع پا کر واشگاف الفاظ میں مصلح موعود کے نام تک کی خبر دے دی۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں

مسیح موعود کے بعد ان کا جانشین محمود ظاہر ہوگا جو ملک شام کو بلاقتال یعنی مادی جنگ کے بغیر فتح کرے گا۔

٭ اسی طرح سلسلہ سہروردیہ کے مشہور بزرگ سید صدرالدینؒ نے بھی ایک نظم میں اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے کہ جب دین کا تاج محمود احمد کے سر پر پہنچایا جائے گا تو اس وقت ہر طرف مزدور نظر آئیں گے۔(مزدوروں کی حکومت یعنی سوشلزم کی طرف اشارہ ہے)

٭ اس کے علاوہ کئی باکمال بزرگوں نے اس مصلح موعود کے ظہور کی خبر دی جن میں مولوی جلال الدینؒ اور حضرت محی الدین ابن عربیؒ نے اس آنے والے مصلح موعود کو کشفی آنکھ سے دیکھا اور خبر دی۔

اگرچہ مصلح موعود کی پیشگوئی اصولی شکل میں پہلے سے کتابوں میں درج تھی مگر اسے تفصیلات کے اعتبار سے اور کھول کر خداتعالیٰ نے پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کو اطلاع دی اور آپ پر اس عظیم الشان مصلح موعود کی جملہ صفات منکشف فرمائیں۔ جنہیں آپ نے 20 فروری 1886ء کے ایک اشتہار میں درج فرمایا۔

چنانچہ مندرجہ بالا پیشگوئیوں اور ان میں مذکور شرائط کے عین مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو خداتعالیٰ نے 12 جنوری 1889ء کو ایک عظیم الشان بیٹے سے نوازا جس کا نام پیشگوئیوں اور الہام الٰہی کی بنا پر مرزا بشیرالدین محمود احمد رکھا گیا جو حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد آپ کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے اور تقریباً باون (52)سال مسند خلافت احمدیہ پر متمکن رہے۔ آپ نے 1944ء کو خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مصلح موعود ہوں جس کی خبر گزشتہ نوشتوں میں کی گئی ہے۔ گزشتہ نوشتوں اور پیشگوئی مصلح موعود میں بیان فرمودہ تمام صفات بکمال آپ کے وجود میں پوری ہوئیں جن کے مطالعہ سے کوئی انسان حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

…ژ…ژ…ژ…


نماز کی لذت اور محبت


روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16اپریل 2012ء میں قیادت تربیت مجلس انصاراللہ پاکستان کا مُرسلہ ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے جس میں خلفائے احمدیت کے حوالہ سے نماز کی لذّت اور محبت کا تذکرہ، چند دلنشیں روح پرور واقعات کے حوالہ سے، کیا گیا ہے۔ ان واقعات میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے

٭ 1910ء میں گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو جو چوٹ آئی تھی۔ گو بظاہر تو عرصہ چھ ماہ کے بعد اس سے آرام آگیا تھا مگر وہ تکلیف بکلّی رفع نہیں ہوئی تھی۔ آنکھ کے قریب ناسور باقی رہ گیا تھا جس کے باعث تھوڑا سا کام کرنے سے بھی بعض اوقات آپ تھکاوٹ اور ضعف محسوس کرنے لگتے تھے۔ اخبار ’’بدر‘‘ لکھتا ہے

’’یکم اپریل 1913ء کی شام مسجد اقصیٰ میں اچانک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کودرس دیتے ہوئے ضعف جسمی ہوگیا۔بیٹھ گئے پھر لیٹ گئے ۔ ہاتھ پائوںسرد ہوگئے۔ چلنے کی قوّت نہ رہی، چارپائی پر اٹھا کر لائے۔ مگر راستہ میں جب مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو فرمایامجھے گھر نہ لے جائو مسجد میں لے جائوبمشکل تمام مسجد کی چھت پر پہنچ کر نماز مغرب پڑھی۔ کچھ دوائیں مقوّی استعمال کی گئیںباوجود اس تکلیف کے، بعد نماز مغرب ایک رکوع کا درس دیا۔پھر چارپائی پر ا ٹھا کر گھر پر لائے، رات کو افاقہ ہوا صبح کو پھر درس دیا اور بیماروں کو دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ یکم اپریل سے اوّل شب میں کثرت پیشاب کے سبب یہ دورہ ہوا تھا‘‘۔

٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاو لؓ نماز میں لذّت کے حوالہ سے فرماتے ہیں

’’ ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اسے لذّت نہیں ملتی تو اس کو سوچنا چاہئے کہ یہ بھی خدا کا فضل ہے کہ میں نے نمازتو پڑھ لی۔ دوسرا اس سے اعلیٰ ہے وہ نماز سمجھ کر پڑھتا ہے۔ مگر دنیاوی خیالات نماز میں بھی اس کاپیچھا نہیں چھوڑتے ۔ اس کو بھی خوش ہونا چاہئے کہ سمجھ کرتو نماز پڑھنی نصیب ہوئی۔ تیسرا لذّت بھی پاتا ہے اس کو بھی خوش ہونا چاہئے۔ اس طرح انسان ترقی کر سکتا ہے، شکر کرنے سے بھی ترقی ہوتی ہے۔ اگر پہلے ہی نماز کو اس خیال سے کہ لذّت نہیں ملتی، کوئی چھوڑ دے، تو وہ کیا ترقی کرے گا۔‘‘

٭ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اپنی عمر کے گیارہویں سال میں کئے گئے ایک عہد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں

1900ء میں جب میری عمر گیارہ سال کی تھی خداتعالیٰ پر میرا سماعی ایمان علمی ایمان میں تبدیل ہوگیا۔ اور ایک دن مَیں نے ضحی کے وقت حضرت مسیح موعودؑ کا جبّہ پہنا، اپنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کر دی۔ اورمیں اس میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔ اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی ۔

…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button