متفرق مضامین

خورشید مثال شخص کل شام ……

(طاہر احمد بھٹی۔جرمنی)

(طاہر احمد بھٹی۔ جرمنی)

20؍جنوری 2018ءٓ

پرسوں حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کا انتقال ہوا۔ اور کل شام ……

خورشید مثال شخص کل شام مٹی کے سپرد کر دیا ہے۔۔۔!

ربوہ کی بہت سی خوش بختیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس بستی میں ایسے وجود ہر وقت موجود رہتے ہیں جن کے لئے نابغۂ روزگار کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایک ایسا ہی بے بدل اور قیمتی وجود تھے۔ برصغیر کی تہذیب اور رکھ رکھاؤ کے کچھ حصے ایسے ہیں جو اَب صرف کتابوں اور داستانوں میں ہی ملتے ہیں۔ حضرت میاں صاحب اُن نایاب گوشہ ہائے زندگی کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھے۔ پچھلی ڈیڑھ صدی پر محیط سول ایڈمنسٹریشن اور بیورو کریسی نے جب امام وقت کی بیعت کر لی تو حضرت مرزا عزیز احمد صاحب جیسا وجود ناظر اعلیٰ بنا اور خلافت کے سامنے اس صدی اور زمانے کو آدابِ اطاعت سکھاتے ہوئے نظارت علیاء کو خلافت کا دست و بازو بنا کر رخصت ہوئے۔ ہم نے ان کے تذکرے سنے اور تصویریں دیکھ رکھی ہیں۔ کچّے پکّے مکانوں اور خاک اُڑاتی ربوہ کی گلیوں میں ان کے وقار اور متانت کے نقشِ پا ثبت ہیں۔ جب ہم نے بعد از لڑکپن، صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں محض زیارت بزرگان کی لپک اور شوق میں جانا شروع کیا تو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو تمکنت اور وقار کی چلتی پھرتی تصویر کے طور پر دیکھا کئے۔ کوٹ جرسی کے پورے بٹن لگے ہوئے، ہر قدم جما کر دفتر کے برآمدے میں آتے جاتے دیکھا اور جب دل نے بہت زور مارا تو چِک اٹھا کے دفتر میں جا کے بھی زیارت کر لی۔ …. دعائیں لیں اور آگئے۔ اسی زمانے میں حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب دفتر امور عامہ میں تشریف فرما تھے اور ملک خالد مسعود صاحب ان دنوں ناظر امور عامہ تھے۔ عاجز نے دورانِ گفتگو ملک خالد مسعود صاحب سے عرض کیا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ناحق کی مشکلات سے بچائے۔ خاکسار اجازت لے کے رخصت ہو رہا تھا اور جب میاں خورشید احمد صاحب کی کرسی کے پیچھے سے بصد ادب گزر رہا تھا تو آپ نے پیچھے ہاتھ بڑھا کر خاکسار کو کلائی سے پکڑلیا۔ خاکسار اُن کے کلائی سے پکڑنے کا تو بیان کر سکتا ہے لیکن اس لَمس، شفقت اور اسلوبِ اپنائیت کو بیان کرنے کا مجھ میں سلیقہ بھی نہیں اور الفاظ بھی نہیں ہیں۔ فرمانے لگے، ’’اَن حقی، یا ناحق کی مصیبت سے بچنے کی دعا کروا رہے ہو، کیا حقی، یا برحق مصیبت کو جھیل سکتے ہو؟ … اس لئے دعا یہ کرو کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی مصیبت سے بچائے۔ انسان میں برحق مصیبت کو برداشت کرنے کی بھی کہاں ہمت ہے۔ ‘‘

یہ تھی راقم کی میاں صاحب سے پہلی ملاقات۔ اس کے بعد چند قدم بڑھ کے مصافحہ تو اکثر نصیب ہو جاتا تھا لیکن ۔……. اب تو وہ بھی کہاں۔ ربوہ میں پلے بڑھے اور بودو باش رکھنے والوں کو اس طرح کی ضیافتِ قلب و نظر تو ہمہ وقت ہی نصیب رہتی ہے لیکن جب جب کوئی ایسا وجود اٹھتا ہے تو اس وقت دل کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو اس کا اِدراک ہی نہیں ہوپاتا اور اگر کسی ایک آدھ کو کچھ احساس اور ادراک ہو بھی تو وہ اس کا اظہار ہی نہیں کر پاتا۔ دارلضیافت کے سامنے والی سڑکوں پہ خاکسار اور ضیاءالدین یوسفزئی چہل قدمی کر رہے تھے تو یوسفزئی صاحب مجھے کہتے ہیں کہ آپ یہاں کیوں رہتے ہیں؟ ربوہ اور احمدیوں کا تو پاکستان میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ عین اس لمحے ناظر اعلیٰ کی سفید کار گزری جس میں مرزا خورشید احمد صاحب دفتر سے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ اس بزرگ کی وجہ سے ہم بھی بیٹھے ہیں۔ اگر ربوہ اور ہمارا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے تو جماعت کا اتنا قیمتی وجود یہاں کیوں ہے۔ اگلے دن موصوف نے جا کر تحریک جدید اور صدر انجمن کے دفاتر دیکھے اور اسلام آباد واپسی کے سفر میں کہنے لگے، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ کے ربوہ میں تو …۔

جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

میاں صاحب کے صاحبزادوں اور بھتیجوں کے ساتھ سکول کالج کا ساتھ رہا۔ اللہ کے فضل سے کسی بھی طرح کے احساس برتری یا کمتری کی ہوا نہیں لگی۔ جیسی با وقار درویشی بڑوں کی ویسی ہی زمین پہ پاؤں لگائے رکھنے کا چلن ہمارے ہم جماعت صاحبزادگان کا تھا۔ مجھے مرزا نصیر احمد کا سکول میں کیکر کے نیچے کچی اور کھری زمین پر اکڑوں بیٹھنا … ۔اور اتنے صاف کپڑوں کے ساتھ بیٹھنا آج تک یاد ہے۔ دارالصدر کے کونے والی تین کوٹھیاں، ایک جیسے لکڑی کے گیٹ اور باہر کالے شیشوں والی سرخ کار …۔ اگر کہیں دروازہ کھٹکھٹا دیا اور اندر سے لڑکوں کی جگہ خود میاں صاحب آگئے …۔تو ایک لمحے میں …۔صرف پیغامبر بن جاتے اور پوچھ تاچھ کبھی نہیں کی۔ بعد کو ڈاکٹر مرزا ثمر احمد کو ملنے گیا … تین سال قبل ، تو میاں صاحب ان دنوں ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تھے۔ مرزا ثمر نے تواضع وغیرہ پہ اصرار کیا تو خاکسار نے ازراہ جہالت کہا کہ ، میں چلتا ہوں، بڑے میاں صاحب بھی گھر پہ ہی ہیں۔ ثمر کی بے قابو مسکراہٹ اور کہا کہ چپ کرکے مشروب پیو ۔ … یہ بڑے میاں صاحب نے ہی سکھایا ہے کہ گھر آئے کی تواضع کے بغیر نہیں جانے دینا۔

مسجد مبارک میں کبھی کبھار کسی جنازے وغیرہ کی وجہ سے اگر خود امامت کرواتے تو …. قراءت کی الحمد للہ کے ساتھ ہی دل مٹھی میں لے لیتے۔ اس کے بعد ایک آواز تلاوت کی کانوں کو آتی اور دوسری دل کو …. اور حالت وہ کہ بس۔ جس طرح ایک غیر از جماعت دوست نے عرصہ ہوا مسجد مبارک میں صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو نماز پڑھتے دیکھ کر کہا کہ ان کو تو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے کے لئے بھی دل گردہ چاہئے۔ تو حضرت میاں خورشید احمد صاحب کی قلبی قراءت کو سن کے سہارنے کے لئے بھی دل گردہ ہی چاہئے، جو خاکسار کے پاس تو کبھی بھی نہیں رہا۔

اردو اور انگریزی ادب اور شعرو سخن کی تفہیم پہ ان کے مقام اور مرتبے پہ کیا عرض کروں۔ … بس یوں کہ کل سے چوہدری محمد علی مضطر صاحب کی وہ مشہور و معروف نظم۔ …. ’جاگ اے شرمسار آدھی رات‘ سن رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔…… سوچ رہا ہوں اور سن رہا ہوں …. مَیں یہ اٹھاؤں جام کہ مَیں یہ اٹھاؤں جام۔ چوہدری صاحب مرحوم سے بھی سنی تھی اور بارہا سنی … پر یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ میاں صاحب کی آواز میں ان کا پینسٹھ سالہ وقف، ان کی پچاسی سالہ ذات …… ان کا کثیر مطالعہ، ان کا مستقل استغراق ……. ان کی پھوٹ بہنے والی خشیت الٰہی اور ان کی بارگاہ ایزدی میں رسائی اور اس رسائی سے پہلے کی کپکپی بول رہی ہے۔ اب اس نظم کو کوئی لوگوں میں بیٹھ کے کیسے سنے اور اس کی چوٹ کو کیا کھا کے سہے؟

کل ایک غیر از جماعت بڑے کالم نگار نے ایک احمدی بزرگ سے دیر تک میاں صاحب کے اوصاف حمیدہ پہ تعزیتی گفتگو کی اور ان کی علمی، انتظامی اور فکری صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ ….۔لیکن موصوف ایسا کوئی اظہار کسی پبلک فورم پر نہیں کر سکیں گے۔ ہم احمدی جو ہوئے۔….۔اور یہ پاکستان جو ہوا ….۔ اور حالات مخدوش جو ہوئے اور ۔ …. اس لئے شرفاء کے خیالات محبوس اور محدود جو ہوئے۔ لیکن ہمارے سینے کو تو میاں صاحب کی آواز نے بعد از وفات بھی یوں دھویا اور ایسا انشراح اتارا کہ خاکسار نے ان احمدی بزرگ دوست سے کہا کہ یہ اچھا ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ میاں صاحب کی آواز اس مفارقت کے وقت خود ہی ہمیں پُرسہ بھی دے رہی ہے۔ میاں صاحب کی یادوں اور محبتوں کی نذر یہ شعر۔۔۔کہ

وہ نہ تم بدلے نہ ہم طور ہمارے ہیں وہی

فاصلے بڑھ گئے، پر قرب تو سارے ہیں وہی

اللہ تعالیٰ ان کے اہل و عیال، اقرباء، اہل ربوہ اور ہم سب کا خود حامی و ناصر ہو اور ان کے حلم، علم اور عرفان کو ہماری معاشرت میں زندہ تر فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button