حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام اور آپ کے آریہ مخالفین
(منظور احمد۔ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی۔ کراچی)
قسط نمبر 2
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آریہ سماجی لیڈر پنڈت لیکھرام پشاوری کے مابین روحانی مقابلہ
پس منظر
انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں آریہ تحریک کی بنیاد پڑی اور ہندوؤں میں اس قدر تیزی سے مقبول ہوئی کہ جلد ہی سارے ہندوستان میں مستحکم ہو گئی۔ آریہ سماج کا مرکزی فلسفہ ہی اسلام اور بانیٔ اسلام پر بے سروپا اعتراضات ، غلیظ اور اہانت آمیز الزامات کا ملغوبہ تھا۔ اس زمانے میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراضات کی موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ برہمو سماج اور عیسائی مشنریوں کا سارا زور بھی اسلام کے خلاف صَرف ہو رہا تھا۔ اس وقت کے حالات کا تذکرہ تقریباً 90 سال بعد مولوی سیّد ابو الحسن صاحب ندوی ناظم دارالعلوم ندوہ نے ان الفاظ میں کیا۔
’’ عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ و دعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے … دوسری طرف آریہ سماجی مبلغ جوش و خروش سے اسلام کی تردید کر رہے تھے۔‘‘
(مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔ 1966ء۔ قادیانیت طبع دوم لاہور صفحہ 17,45)
’’مسلمانوں پر یاس و نامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا … عوام کی بڑی تعداد کسی مردِغیب کے ظہور اور کسی ملہم اور کسی مؤیّد من اﷲ کی آمد کی منتظر تھی۔ کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے۔‘‘ (مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔ 1966ء۔ قادیانیت طبع دوم لاہور صفحہ17,45)
اسلام کے خلاف عیسائیوں اور آریوں کے ظالمانہ حملے حضرت مرزا صاحب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہے تھے۔ آپ نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھا کہ
’’ اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طرح سے ارتداد و الحاد کا دروازہ کھُلا کیا اُس کی نظیر کسی دوسرے زمانے میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے۔ یہاں تک کہ وہ جو آلِ رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمنِ رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سُننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دِل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی و دِلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلّت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واﷲ ثم واﷲ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر دل کبھی نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کی کی گئی دُکھا‘‘ ۔ (مرزا غلام احمد قادیانی۔ 1893ء۔آئینہ کمالات اسلام۔ مطبع ریاض ہند امرتسر صفحات 29-30)
اسلام پر اس پُر آشوب دور میں جب قرآن اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر چاروں طرف سے حملے ہورہے تھے اور بقول مولوی ابو الحسن ندوی عوام پر یاس و نومیدی کا غلبہ تھا اور وہ کسی ملہم اور مؤیّد من اﷲ کے منتظر تھے ۔ وہ اسلام کا شیدائی دشمنان اسلام کے مقابلے کے لئے میدان میں آگیا جس کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔ مرزا صاحب نے اسلام کی صداقت کے ثبوت میں لٹریچر شائع کرنے اور عوام و خواص پر اسلا م کی خوبیوں کو واضح کرنے کا ایک زبردست سلسلہ شروع کیا۔ آپ نے اشاعت لٹریچر کی ابتداء اپنی کتاب براہین احمدیہ سے کی جس کی یکے بعد دیگر ے جلدیں شائع کی گئیں اور 1880ء سے شروع ہو کر 1908ء میں ختم ہوئیں۔ یہ کتاب کیا تھی کس اہمیت کی حامل تھی اس کی کس قدر پذیرائی ہوئی اس پر چند تبصرے ہم اس کتاب کے پہلے باب میںدرج کر آئے ہیں یہاں اس کو دہرانا مقصود نہیں صرف مرزا صاحب اور پنڈت لیکھرام صاحب کے مابین روحانی مقابلے کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے مولوی سیّد ابو الحسن ندوی صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے جو براہین احمدیہ کی تصنیف کے 86 سال بعد لکھا گیا۔
’’براہین احمدیہ کی تصنیف 1879ء سے شروع ہوتی ہے‘‘ ۔ (مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔ 1966ء۔ قادیانیت طبع دوم لاہور صفحہ 46)
’’ کتاب کا مرکزی مضمون اور جوہریہ ہے۔ کہ الہام کا سلسلہ نہ منقطع ہوا ہے اور نہ اس کو منقطع ہونا چاہئے یہی الہام دعویٰ کی صحت اور مذہب اور عقیدے کی صداقت کی سب سے زیادہ طاقتور دلیل ہے جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کامل کرے گا اس کو علم ظاہر و علم باطن سے سرفراز کیا جائے گا جو انبیا علیہ السلام کو اصالتاً عطا ہوا تھا اور اس کو علم یقینی اور قطعی حاصل ہو گا۔‘‘ (مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔ 1966ء۔ قادیانیت طبع دوم لاہور صفحہ53)
’’ ہندوستان کے بہت سے علمی اور دینی حلقوں میں اس کتاب کا پُر جوش استقبال کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب بہت صحیح وقت پر شائع ہوئی تھی … اس کتاب کی کامیابی اور اس کی تاثیر کا اک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں دوسرے مذاہب کو چیلنج کیا گیا تھا اورکتاب جواب دہی کی بجائے حملہ آور انداز میں لکھی گئی تھی۔‘‘ (مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔قادیانیت۔ طبع دوم۔لاہور صفحہ 59)
’’ براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیر معمولی تموج پیدا کر دیا۔ مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین احمدیہ کا ایک مجدد ذی شان کے طور پر خیر مقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی۔‘‘ (مولوی سیّد ابوالحسن ندوی۔قادیانیت۔ طبع دوم۔لاہور صفحہ 61)
حضرت مرزا صاحب کی طرف سے
انعامی چیلنج
پہلا چیلنج
حضرت مرزا صاحب نے اپنی تصنیف براہین احمدیہ (1880ء) میں نہ صرف اسلام کی صداقت کے زبردست دلائل پیش کر کے اسلامیان ہند کے سر فخر سے بلند کردیئے تھے بلکہ ساتھ ہی آپ نے ایک انعامی اشتہار ، انگریزی اور اردو میں شائع کر کے ہندوستان کے سلاطین وزراء ، پادری صاحبان اور پنڈتوں کے پاس بھیجا اور ان سب کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وہ اس کتاب میں پیش کردہ اسلام کی صداقت کے دلائل کے مقابلے میں اسی تعداد یا اس سے کم اپنے مذہب کی صداقت میں پیش کریں گے تو وہ یعنی مرزا صاحب اپنی دس ہزار روپے کی مالیتی جائداد بلاعذر اس کے حوالے کر دیں گے۔ اس چیلنج کی مختصر روداد پہلے باب میں آچکی ہے۔
دوسرا چیلنج
جب پہلے چیلنج کے جواب میں کوئی مقابلے پہ نہ آیا تو مرزا صاحب نے 1885ء میں ایک اور انعامی چیلنج اشہار کی شکل میں شائع کرایا اور اسے مختلف مذاہب کی سر کردہ شخصیات کو روانہ کیا۔ اس میں مرزا صاحب نے لکھا کہ
’’ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اﷲ محفوظ اور قابل عمل ہے صرف قرآن ہے … آپ کو اس دین کی حقانیت یا اِن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب حق بن کر قادیان میں تشریف لائیں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کریں لیکن اس شرط نیت سے (جو طالب حق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ (قادیان میں) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے … اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا۔ اس دو سو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 20-21)
پنڈت لیکھرام کی مقابلے پر آمادگی
جب اخبارات میں مرزا صاحب کا دوسرا انعامی چیلنج چھپا اور ایک سال تک دوسو روپے ماہوار کی ادائیگی کا چرچا ہوا تو پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری صدر آریہ سماج پشاور مرزا صاحب کے مقابلے کے لئے قادیان جا پہنچے۔ پنڈت صاحب برہمن ذات کے ہندو تھے۔ ان کے والد کا نام تارا سنگھ تھا۔ آپ 1856ء میں بمقام سیّد پور تحصیل چکوال ضلع جہلم پنجاب (حال پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ 1876ء سے 1884ء تک پنڈت صاحب نے محکمہ پولیس صوبہ سرحد میں ملازمت کی۔ سارجنٹ نقشہ نویس کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پنڈت صاحب آریہ سماج پشاور کے صدر بن گئے۔
ابتدا میں حضرت مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام صاحب کو نظر انداز کیا۔ آپ کا اصرار تھا کہ
’’ ہمارا مقابلہ عوام الناس سے نہیں بلکہ ہر قوم کے چیدہ اور منتخب اور صاحب عزت لوگوں سے ہے۔‘‘
(پنڈت لیکھرام 1885ء۔ کلّیات آریہ مسافر صفحہ411)
’’تم کسی قوم کے مقتدا اور پیشوا نہیں کہ جن کا ہدایت پانا ایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہو۔‘‘ (پنڈت لیکھرام 1885ء۔ کلّیات آریہ مسافر صفحہ408)
پنڈت صاحب کے مسلسل اصرار پر مرزا صاحب نے اس روحانی مقابلے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا کہ پنڈت لیکھرام صاحب آریہ سماج قادیان، لاہور ، پشاور، امرتسر اور لدھیانہ کی حلفی تصدیق پیش کرے کہ وہ پنڈت صاحب کو اپنا مقتدا اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسی کوئی تصدیق پیش نہ کر سکا۔ لیکن اپنے قادیان میں قیام کے دوران مرزا صاحب سے مسلسل خط و کتابت کے ذریعے بحث و تکرار کرتا رہا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کا مذاق اڑاتا رہا یہاں تک کہ وہ 11؍دسمبر 1885ء کو قادیان سے روانہ ہو گیا اور جاتے وقت مرزا صاحب کو ایک خط میں لکھا کہ
’’ اچھا آسمانی نشان تو دکھاویں۔ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں تافیصلہ ہو‘‘۔ (پنڈت لیکھرام 1885ء بحوالہ استفتاء صفحہ 7)
پنڈت صاحب کی طرف سے دعوت مباہلہ
اس دوران پنڈت صاحب اپنی تصانیف کلیات آریہ مسافر اور تکذیب براہین کی وجہ سے اچھی خاصی شہرت پا چکے تھے اور اسلام کی تضحیک اور استہزا میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ گویا سچے دل سے یقین رکھتے تھے کہ اسلام نعوذُ باﷲ ایک جھوٹا مذہب ہے اور مرزا غلام احمد کا چیلنج بے قدر وقیمت ہے۔ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو گندی گالیاں دیتا اور قرآن کا مذاق اُڑاتا۔ اُس کی تصنیف کلیات آریہ مسافر میں اس قسم کی تحریروں کے نمونے بکثرت ملتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں اور مرزا غلام احمد صاحب سے مقابلے کے اعلان سے پنڈت لیکھرام آریہ سماج کے لیڈر بن گئے تھے اور بالآخر پنڈت لیکھرام صاحب نے اپنی کتاب خبطِ احمدیہ میں مرزا صاحب کو مندرجہ ذیل الفاظ میں براہِ راست دعوت مباہلہ دے دی۔
’’ میں … پنڈت لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ صاحب شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ و رسالہ ہذا اقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیابلکہ ان کے بُطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہذا میں شائع کیا … میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وید ہی سب سے کامل گیان کے پُستک ہیں … آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ۵-۶ ہزار سال سے آئے ہیں اور توریت، زبور، انجیل اور قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں … اِن کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی، اصلی الہام کے بدنام کرنے والی تحریریں خیال کرتا ہوں … اس کی سچائی کی دلیل سوائے طمع یا نادانی یا تلوار کے ان کے پاس کوئی نہیں… اور جس طرح میں اور راستی کے خلاف باتوں کو غلط سمجھتا ہوں ایسا ہی قرآن اور اس کے اصولوں اور تعلیموں کو جو وید کے مخالف ہیں ان کو غلط اور جھوٹا جانتا ہوں لیکن میرا دوسرا فریق مرزا غلام احمد ہے۔ وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے اور جس طرح میں قرآن وغیرہ کو پڑھ کر غلط سمجھتا ہوں ایسے ہی وہ اُمی محض سنسکرت اور ناگری سے محروم مطلق بغیر پڑھنے یا دیکھنے ویدوں کے ویدوں کو غلط سمجھتا ہے۔ اے پرمیشر! ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور سے عزت نہیں پاسکتا۔
راقم ۔ آپ کا ازلی بندہ۔ لیکھرام شرما سبھاسدآریہ
ضلع پشاور حال آڈیٹر آریہ گزٹ فیروز پور پنجاب‘‘
(پنڈت لیکھرام 1886ء خطبہ احمدیہ صفحہ 244۔247)
اعلان مباہلہ کے بعد کے واقعات کی مختصر روداد
پنڈت لیکھرام کی طرف سے اعلان مباہلہ چھپنے کے ساتھ ہی پنڈت صاحب اور حضرت مرزا صاحب کے درمیان تعلق باﷲ کو ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا جس کے دوران حضرت مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے درمیان بیانات اور جوابی بیانات کا دفتر کھُل گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کے متعلق خدا سے ملنے والے الہامات اور دوسرے اعلانات اخبارات میں شائع کروانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ اس غیر معمولی مقابلے کی طرف جس میں باہمی تحریری رضا مندی سے اسلام اور آریہ مذہب کی سچائی کا فیصلہ ہونا تھا سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں اور دنیا بھر کے مذہبی حلقوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ ہم اختصار کے ساتھ باری باری حضرت مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے بیانات اور جواب نیچے درج کر رہے ہیں۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب
حضرت مرزا صاحب نے 20؍فروری 1886ء کو ایک الہامی پیشگوئی شائع کی جس میں اپنی کامیابی اور مخالفین کی ناکامی کا عمومی تذکرہ تھا اور اسی دن ایک اشتہار شائع کیا جس میں پنڈت لیکھرام صاحب وغیرہ سے ان کے بارے میں انذاری خبر شائع کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت مرزا صاحب کی طویل پیشگوئی کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں
’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا … فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے … تا دین اسلام کا شرف اور کلام اﷲ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا اُنہیں جو خدا کے وجود پرایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ایک کھُلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔‘‘ (تذکرہ۔ الشرکۃالاسلامیہ ربوہ۔ صفحہ 136 تا 138)
اس کے ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں تمام موافقین و مخالفین بشمول پنڈت لیکھرام صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ عنقریب ایک رسالہ تحریر کرنے والے ہیں جس میں پنڈت لکھرام اور پنڈت اندر من مراد آباد ی کی قضا و قدر کے متعلق کچھ لکھنے والے ہیں تاکہ اگر انہیں اعتراض ہو تو ایسی کوئی تحریر شائع نہ کی جائے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے تاہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں۔ اس لئے ہم با نکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع (جیسے خبر موت، فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پاویں تو اس بندہ نا چیز کو معذور تصور فرماویں۔ بالخصوص وہ صاحب … جیسے منشی اندرمن صاحب مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضاو قدر کے متعلق غالباً اس رسالے میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہو گا … اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گذرے تو وہ … دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دلآزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مُطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے۔‘‘ (اشتہار 20؍فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 98)
پنڈت لیکھرام صاحب
پنڈت صاحب نے مرزا صاحب کی 20؍فروری 1886ء والی پیشگوئی جو عام طور پر پسر موعود والی پیشگوئی کہلاتی ہے اور کافی طویل ہے اس کے جواب میں اپنی طرف سے ایک پیشگوئی 18؍مارچ 1886ء کو شائع کی جس میں مرزا صاحب کی پیشگوئی کے بہت سے حصوں کی قطعی تردید کا الہامی بنیاد پر دعویٰ کیا۔ ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے مرزا صاحب کی پیشگوئی کے کچھ فقرے اور پنڈت صاحب کی جوابی پیشگوئی کے تقابلی فقرے درج کر رہے ہیں تاکہ قارئین آج اس پیشگوئی کی بنیاد پر 132 سال گذرنے کے بعد جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق کرسکیں۔
مرزا غلام احمد صاحب کے اشتہار کے جواب میں جس میں مرزا صاحب نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام سے ان کے متعلق قضا و قدر کی پیشگوئی شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی پنڈت صاحب نے 25؍اپریل 1886ء کو ایک اشتہار چھاپا اور اس پر کچھ مزید ریمارکس اپنی تصنیف کلیات آریہ مسافر میں دیئے ان میں کچھ درج ذیل ہیں۔
1- ’’ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں میرے حق میں جو چاہو شائع کرو میری طرف سے اجازت ہے اور میں کچھ خوف نہیں کرتا۔‘‘ (بحوالہ استفتاء تصنیف حضرت مرزا غلام احمد صاحب۔ صفحہ 9)
2- ’’ حضرت کو اس نیاز مند اور منشی اندر من صاحب کی وفات و حیات ، شادی و غمی کی نسبت الہام ہوئے ہیں مگر نہیں بتلاتے جب تک ہم ان کو اجازت نہ دیویں۔ منشی اندر من صاحب کا حال مجھے نہیں معلوم مگر میں نے اُن کو تحریری اجازت نامہ ارسال کر دیا جس پر اب تک کوئی انکشاف نہیں ہوا کہ خیر الماکرین سے مرزا صاحب کو کیا الہام ہوتا ہے۔‘‘ (کلّیات آریہ مسافر بار اوّل صفحہ 415-416)
3- پنڈت صاحب مزید لکھتے ہیں کہ
’’ آپ میں ہر گز یہ قدرت نہیں کہ کسی کے بارے میں صریح خبربقید تاریخ ووقت لکھ سکیں۔‘‘ (کلّیات آریہ مسافر بار اوّل صفحہ494)
4- پنڈت صاحب مرزا صاحب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ’’اگر خدا سے الہام ہوتا تو کیا وہ تاریخ اور وقت بتانے میں قادر نہ تھا‘‘ (کلّیات آریہ مسافر بار اوّل صفحہ499)
حضرت مرزا غلام احمد صاحب
بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ وہ پسر موعود 22؍جنوری 1889ء کو پیدا ہوا۔ اس کا نام پیشگوئی کے مطابق مرزا بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا۔ 25 سال کی عمر میں جماعت احمدیہ کا خلیفہ منتخب ہوا۔ 56 سال تک خلافت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے کے بعد بالآخر 77 برس کی عمر میں فوت ہوا۔ اپنی ذہانت ، فہم، روحانیت کے باعث زمین کے کناروں تک شہرت پائی۔ اُس کے عہد میں جماعت احمدیہ نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کا ایک ایک لفظ سچا ثابت ہوا اور پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کا ہر لفظ جھوٹا نکلا۔ ذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ …
ہم چونکہ لیکھرام کے انجام پر بحث کر رہے ہیں اس لئے اس پیشگوئی کو یہیں چھوڑتے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب کے باقی آریہ ساتھی سالہا سال تک مرزا صاحب کے الہامی الفاظ کو سچ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے اِسے ثابت کرنے کے لئے مزید شہادتوں کی حاجت نہیں۔
اب ہم اُن پیشگوئیوں کی طرف آتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام صاحب کے بارے خدا سے خبر پاکر پنڈت صاحب کی اجازت سے بیان کرنی شروع کیں۔ یہ الہامی خبریں پہلے بیان کردہ عمومی فتح کی خبر اور مجرموں کی سزا کی خبر کے بعد آہستہ آہستہ پنڈت لیکھرام کے بارے میں معین وقت اور معین قسم کی سزا کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور حضرت مرزا صاحب اس سزا کے بارے میں مسلسل یقین اور تحدّی کے ساتھ اس سزا کے قطعی اور بیّن ہونے کا اعادہ کرتے جاتے ہیں۔
پہلا الہام
حضرت مرزا صاحب نے 20؍فروری 1893ء کو ایک اشتہار کے ذریعے پنڈت لیکھرام صاحب کے بارے میں اپنے الہام شائع کئے ۔ پہلا الہام ایک شعر پر مشتمل تھا۔
’’اَلا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برّان محمدؐ‘‘
(اشتہار 20؍فروری 1893ء شامل کتاب آئینہ کمالات اسلام)
دوسرا الہام
دوسرا الہام ایک عربی فقرہ تھا۔ اشتہار میں ساتھ ہی اس کی وضاحت تھی۔
’’ عِجلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خوارٌ۔ لہٗ نصبٌ وَّ عذابٌ ‘ ‘
(ترجمہ) اور وضاحت۔
’’ یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے اُن گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اورر نج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا۔‘‘ (اشتہار 20؍فروری 1893ء شامل کتاب آئینہ کمالات اسلام)
تیسرا الہام
اِسی 20؍فروری 1893ء کے اشتہار میں درج ایک اور الہامی خبر کو حضرت مرزاصاحب اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو لیکھرام کے عذاب کے وقت کا تعیّن کرتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ
’’آج 20؍فروری 1893ء روز دوشنبہ ہے۔ اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو 20؍فروری 1893ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میںکی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘
حضرت مرزا صاحب کی طرف سے متذکرہ بالا اشتہار میں شائع شدہ پیشگوئیوں کے بارے میں اپنی 25؍مارچ 1893ء کی اشاعت میں اخبار انیس چند میرٹھ نے کچھ شکوک و شبہات کا اظہار کیا لیکن حضرت مرزا صاحب نے پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب برکات الدُعا میں لکھا کہ
’’سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا۔ اُسی طور سے کیا۔ میرا اس میں دخل نہیں۔ ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہو گی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے۔ اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے۔ میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلا شبہ ایک مکر اور فریب ہو گا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں۔ ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں بلا شبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
(برکات الدعا صفحہ 2 تا3۔ طبع اوّل)
حضرت مرزا صاحب اس عبارت میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
’’اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اس قدر ہے کہ میں نے صرف یا وہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیش گوئی ہے وہ بھی تو ویسا کر سکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے۔ لیکھرام کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ تیس برس ہو گی اور وہ جوان، قوی ہیکل، عمدہ صحت کا آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھر باوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اور کون سی خدا تعالیٰ کی طرف سے … اگر یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اُسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہو گا اور دِلوں کو ہلا دے گا اور اگر اُس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہو گی اور اگر میں اُس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہو گا۔‘‘
(برکات الدعا صفحہ 3 تا4۔ طبع اوّل)
چوتھا الہام (کشف)
پنڈت لیکھرام صاحب کے بارے میں چوتھا الہام مرزا صاحب نے اپنی کتاب برکات ا لدُعا میں اِن الفاظ میں شائع کیا کہ
’’آج جو 2؍اپریل 1893ء مطابق 14؍ماہ رمضان 1310ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھاکہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں۔ اِتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پر خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے۔ گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دِلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے … تب میں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام … کی سزادہی کے لئے مامور کیا گیا ہے… اور یہ یک شنبہ کا دن اور 4 بجے صبح کا وقت تھا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذٰلک‘‘
(برکات الدعا صفحہ41)
پنڈت لیکھرام صاحب پر الٰہی عذاب کے ورد ہونے کی قطعیت پر ہر قسم کے شک و شُبہ کو ختم کرنے کے لئے مرزا صاحب نے 20؍فروری 1893ء کو اشتہار ’’لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی‘‘ میں یہاں تک لکھ دیا کہ
’’ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اُس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نِکلا تو ہر ایک سزا بھگتنے کے لئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسی ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے … اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب اُن کے وکیل سے ٹل جائے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 373)
پانچواں الہام
اس روحانی مباہلے کے بارے میں مزید واضح کرنے والی خبر وہ عربی اشعار کے دو الہامی مصرعے تھے جنہیں مرزا صاحب نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں شائع کیا جو یہ تھے۔
’’واِنّی انا الرحمن ناصِرُ حِزْ بِہٖ‘‘
ترجمہ اور میں ہی رحمن اپنی جماعت کی مدد کرنے والا اور جو شخص میرے گروہ میں سے ہو اسے غلبہ اور نصرت دی جائے گی۔
سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَبٗ
(کرامات الصادقین صفحہ 54)
ترجمہ میرے رب نے مجھے بشارت دی اور بشارت دے کر کہا کہ تو عنقریب عید کے دن کو پہچان لے گا اور عید اس سے قریب تر ہو گی۔
اس طرح حضرت مرزا صاحب کے الہامی مصرعوں سے اس بات کا تعین ہو گیا کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے دن کا عید کے دن سے قریبی تعلق ہو گا۔
(باقی آئندہ)