اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کیسے نوازتا ہے!
(عبداللہ عدیل۔ جرمنی)
2010ء کے اوائل کا ذکر ہے خاکسار کے والد محترم پولینڈ مشن میںجماعتی خدمات بجا لا رہے تھے۔ ایک دن فون کر کے میں نے حال احوال دریافت کیا۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے اگر گنجائٔش نکال سکو تو ایک کم قیمت کی گاڑی خرید کرکچھ عرصہ کے لیے دے جاؤ۔ مشن کے تحت لٹریچر تقسیم اور تبلیغی مساعی کے لیے بسوں کے ذریعہ غیر ضروری وقت بہت زیادہ لگ جاتا ہے اور مشن اس پوزیشن میں نہیںکہ فی الحال گاڑی لے سکے۔ نہ جانے ان کی اس بات نے دل پر کیوں گہرا اثر چھوڑا۔ گھر آ کر اہلیہ سے دریافت کیا کہ کیا کچھ رقم مہیا ہو سکتی ہے۔ کافی تگ ودَو اور ہر قسم کی بچتیں اکھٹی کرنے کے بعد پندرہ سو یورو نکل آئے۔ خاکسار نے فوراً ایک سیکنڈہینڈ اوپل کار خریدی اور اس میں گھریلو ضرورت کی چند اشیاء رکھیں اور گاڑی پولینڈ مشن میں چھوڑ آیا۔ والد محترم نے اس پھرتی دکھلانے پر بڑی حیرانی کا اظہار کیا۔ تاہم دل کی گہرائیوں سے بہت دعائیں بھی دیں۔
چند دن بعد خاکسار کے مالی حالات ایک دم خراب ہوگئے اور مزید آمد پیدا کرنے کے لیے خاکسار نے دن کے کام کے ساتھ رات کو ٹیکسی چلانے کا فیصلہ کر لیا۔جس شہر میں خاکسار کی رہائش ہے وہاں ٹیکسیوں کی ایک بڑی کمپنی کو اس وقت ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ خاکسار کمپنی کے مالک سے ملازمت کے سلسلہ میں ملا ۔ وہ اچھی طرح ملا لیکن خاکسار کے غیر ملکی پس منظر کی وجہ سے اس نے ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ اَور جگہوں پر بھی کوشش کی لیکن غیر ملکی ہونا مسئلہ بنا رہا۔حالات نا مساعد ہو جانے کی وجہ سے خاکسار بہت رنجیدہ اور غمگین رہنے لگ گیا۔ نمازوں اور نوافل میں دعا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک قسم کی لڑائی شروع ہوگئی۔خاکسار اس لڑائی میں صرف یہ نقطہ اٹھاتا کہ اے خدا تُو تو اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ خاکسار نے تو اپنی جمع پونجی ایک ایسی گاڑی کی خرید پر لگا دی جس نے محض تیرے مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کی تشہیر کرنی ہے اور بجائے اس کے کہ میرے مالی حالات ٹھیک ہوتے یہ تو مزید خراب ہو گئے ہیں۔
چند دن یہ لڑائی جاری رہی او ر پھر اچانک خاکسار کو ایک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی کرائے کی کار چلا نا شروع کردوں۔ کسی دوست سے مشورہ کیا اور ادھار مانگا۔ اس دوست نے دوہزار یورو ادھار تو دے دیا لیکن ساتھ ہی کہنے لگا اس رقم میں جو گاڑی تم لا کر چلا ؤگے اس میں بیٹھے گا کون۔ جبکہ شہر میں ہر کوئی نئی مرسڈیز گاڑیوں کے ساتھ یہ کام کر تا ہے۔ خاکسار نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکّل کرتے ہوئے اس دو ہزار کی گاڑی سے اپنا کام شروع کردیا۔ گزشتہ پانچ برس کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا نوازا کہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ خاکسار اِس وقت محض اللہ تعالیٰ کے فضل، رحم اور کرم کے نتیجہ میں اپنے علاقہ میں ٹیکسیوں کی سب سے بڑی کمپنی کا مالک ہے۔ درجن بھر سے زائد نئی مرسڈیز گاڑیاں اس کمپنی کی ملکیت ہیں اور چالیس کے لگ بھگ افراد اس کمپنی میں کام کرتے ہیں جس میں نصف سے زائد جرمن ہیں۔ اب جب بھی اپنے حالات پر غور کرتا ہوں تو یہ بات صاف سمجھ آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی نیکی اور خاص کر اس کی راہ میں خرچ کیے گیے اموال کا صلہ بہت زیادہ بڑھا کر لازماً دیتا ہے۔ تاہم اس کے لیے صبر، دعا اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو بھی صبر، استقامت کے ساتھ اس کے در پر دھونی رما کر بیٹھ جائے تو وہ پھر کبھی اس کے دَر سے نا مراد نہیں لَوٹتا