قرآن کریم

تفسیر سورۃ القریش

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے
خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب

(قسط نمبر 2)

٭ ہاشم کے زمانہ میں شام اور یمن کی طرف تجارتی قافلے جاری کرنے کی سکیم بھی اسی الٰہی تدبیر کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ یمن میں اس وقت مسیحیت پھیلنی شروع ہو گئی تھی اور شام میں تو مسیحیت غالب آچکی تھی۔ شام سے بھاگ کر یہودی شمالی عرب میں آگئے تھے۔ اسی طرح وہ یمن میں بھی چلے گئے تھے۔ … یمن کا ایک حمیری بادشاہ جس نے بیس ہزار عیسائیوں کو زندہ جلا دیا تھا اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی ہو گیا تھا یا یہودیوں کی طرف مائل تھا۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہودی شام سے بھاگ کر یمن میں چلے گئے تھے اور یہی قومیں تھیں جنہوں نے آئندہ زمانہ میں اسلام سے ٹکّر لینی تھی۔ چنانچہ پہلے یمن کا واقعہ ہوا۔ یعنی ابرہہ وہاں سے آیا اور اس نے خانۂ کعبہ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد جب اسلام پھیلا تو شام کے عیسائیوں نے اسلام سے مقابلہ شروع کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت کے ماتحت یہود اور نصاریٰ کے حالات سے مکّہ والوں کو باخبر رکھنے کے لئے یہ شِتَاء و صَیْف کے سفر تجویز کرا دیئے۔ روزی کمانا اور چیز ہے مگر اس غرض کے لئے دو خاص ملکوں کو چن لینا اور چیز ہے۔ ورنہ ہاشم بن عبد مناف ان کو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ تجارتیں کیا کرو۔ مگر ان کا ایسی سکیم بنانا جس سے مکّہ والوں کا یمن اور شام سے تعلق پیدا ہو جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کا اس سورۃ کو اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ کے بعد رکھنا صاف بتاتاہے کہ یہ جو کچھ ہوا لٰہی سکیم کے ماتحت ہوا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ انہیں اس طریق پر کام کرنے کے نتیجہ میں روزی بھی مل جائے اور انہیں شام اور یمن کے حالات بھی معلوم ہوتے رہیں جن سے کسی زمانہ میں ان کی ٹکر ہونی تھی۔ چنانچہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں ان میں سے ایک کی ٹکّر اسلام کی بعثت سے پہلے ہوئی اور ایک کی ٹکّر رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد ہوئی۔

دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یمن اور شام میں عیسائی رہتے تھے اور عیسائیوں سے بڑی کثرت کے ساتھ انہیں ایسی خبریں مل سکتی تھیں جن میں آنے والے موعود کی خبر دی گئی تھی۔ اسی طرح یہود بھی ان مقامات پر رہتے تھے اور ان سے بھی آنے والے ظہور کے متعلق بہت سی خبریں معلوم ہو سکتی تھیں۔ پس ان دونوں سفروں سے مکّہ والوں کو یہودیوں اور مسیحیوں سے میل ملاپ کا موقعہ ملتا تھا اور پرانے وعدے اِس اَن پڑھ قوم کے دلوں میں تازہ ہوتے رہتے تھے اور اس طرح ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ خانۂ کعبہ سے تعلق رکھنے والے مامور کی طرف پھرتی تھی۔

یہ لازمی بات ہے کہ جن لوگوں کے کانوں میں متواتر اس قسم کی باتیں پڑتی رہیں ان پر ایک قسم کا رعب پڑ جاتا ہے اور وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کوئی بات ضرور ہے۔ چنانچہ جب وہ یہود اور نصاریٰ سے متواتر اس قسم کی باتیں سنتے تو وہ بھی یہ سمجھنے لگ جاتے کہ اب ضرور کسی نے آنا ہے اور اس طرح ان کی باتوں سے ان کے دلوں پر ایک چوٹ لگتی۔ ان کے کفر پر ایک کاری ضرب لگتی اور ان کی بے دینی کی دیوار میں شگاف پڑ جاتا۔ وہ جوں جوں سفر کرتے آنے والے ظہور کے متعلق متواتر یہود اور نصاریٰ سے پیشگوئیاں سنتے اور پھر وہ ان پیشگوئیوں کو مکّہ میں آکر بیان کرتے۔ اس طرح ساری قوم میں ایک حرکت سی پیدا ہو گئی اور ان میں بھی ایک نبی کی آمد کا احساس شروع ہو گیا۔ دوسری طرف اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب شام اور یمن میں مکّہ والے جاتے تو یہودی اور عیسائی بھی سمجھتے کہ ہمیں مکّہ والوں کی طرف سے خطرہ ہے ان کے مقابلہ کے لئے ہمیں ہوشیار ہو جانا چاہئے کیونکہ پیشگوئیاں سب عرب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

غرض شتاء و صیف کے ان سفروں میں ایک بہت بڑی غرض اللہ تعالیٰ نے یہ مخفی رکھی ہوئی تھی کہ مکّہ کے لوگ یہود و نصاریٰ سے بار بار ملیں اور آنے والے نبی کے متعلق ان سے پیشگوئیاں سنتے رہیں تاکہ جب اس نبی کا ظہور ہو اس پر ایمان لانا ان کے لئے آسان ہو۔ چنانچہ مدینہ کے لوگوں کو رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے کی توفیق محض یہود سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہی ملی۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن کریم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (البقرۃ90) یعنی آج یہودی محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کر رہے ہیں مگر پہلے یہی یہود عربوں کو بتایا کرتے تھے کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے جس کے ذریعہ ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہو گی۔ پس اس شمال و جنوب کے سفر کی وجہ سے مکّہ کے اَن پڑھ لوگ یہود و نصاریٰ کے علماء سے ملتے اور ان کی آراء سے جو وہ آخری نبی کے بارہ میں رکھتے تھے واقف رہتے۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ احادیث میں آتا ہے حضرت ابوطالب جب اپنے ساتھ رسول کریم ﷺ کو شام کے سفر پر لے گئے تو وہاں ایک پادری نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ اس بچے کی خاص نگرانی کرنا۔ اس میں ایسی علامات پائی جاتی ہیں شاید یہ بہت بڑا انسان ثابت ہو اور شاید عرب کے بارہ میں جو الہامی کلام ہے وہ اسی کے ذریعہ سے پورا ہو۔ اسی قسم کی باتیں مکّہ والے ان سفروں میں متواتر سنتے رہتے تھے اور انہیں باتوں کو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی تائید میں ابتدائی دور چلانے کا ایک ذریعہ بنانا چاہتا تھا۔

پس یہ دونوں سفر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کے ماتحت تھے۔ ورنہ وہ قوم جس میں الہام نہیں پایا جاتا تھا، جس کے پاس کوئی شریعت نہیں تھی، جو متمدن علاقوں سے دُور رہنے والی تھی اس کے لئے یہ کتنی مشکل بات تھی کہ وہ محمد ؐرسول اللہ کے دعویٰ کو سن کر آپ پر ایمان لے آتی۔ مگر ان سفروں کےنتیجہ میں جب وہ لوگ متواتر یہودیوں اور عیسائیوں سے اس قسم کی باتیں سنتے تو ان کا اپنا عقیدہ کمزور ہو جاتا اور وہ سمجھتے کہ شاید کچھ بات ہو اور شاید کوئی آنےوالا ہم میں آہی جائے۔ پس یہ دونوں سفر اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی حکمت کے ماتحت تھے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی حالت پرتعجب کرو کہ کس طرح یہ قوم جو مکّہ میں آبسی تھی جوبھوکی مر جاتی تھی مگر مکّہ سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتی تھی اب باقاعدہ جس طرح نماز فرض ہوتی ہے، سردی آتی ہے تو یمن کی طرف چل پڑتے ہیں۔ گرمی آتی ہے تو شام کی طرف چل پڑتے ہیں۔ یہ سفروں کی محبت ان کےد لوں میں آخر کس نے پیدا کی ہے۔ صرف ہم نے پیدا کی ہے۔ اگر یہ مکّہ میں بیٹھے رہتے تو ان کو کچھ بھی پتہ نہ چلتا کہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق کیا کیا پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں۔ مگر اب ان کے دلوں میں ان سفروں کی ایسی محبت پیدا کر دی گئی ہے کہ یہ نہایت باقاعدگی کے ساتھ گرمیوں میں شام کا اور سردیوں میں یمن کا سفر کرتے ہیں۔ یمن میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں سے اس قسم کی باتیں سنتے ہیں کہ ایک نبی آنےوالا ہے اور شاید وہ عرب سے ہی پیدا ہو۔ شام میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں سے سنتے ہیں کہ ایک نبی آنے والا ہے اور شاید وہ عرب سے ہی پیدا ہو۔ اس طرح ان کے کانوں کو ہم نے ان پیشگوئیوں سے آشنا رکھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ظہور کے متعلق تھیں تاکہ آپ کے دعویٰ کو سنتے ہی وہ یکدم انکار نہ کر دیں اور واقعہ میں مکّہ والوں کو کلامِ الٰہی سے جتنا بُعد تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ کتنا مشکل تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی آواز سن کر آپ پر ایمان لا سکتے۔ یہ انہی پیشگوئیوں کے سننے کا نتیجہ تھا کہ جب رسول کریم ﷺنے یہ دعویٰ فرمایا تو مکّہ میں سے ہی کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو گئے جو فوراً آپ پر ایمان لے آئے…۔

٭ پس مکّہ والوں کے یمن اور شام کے سفر درحقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے لئے بطور ارہاص تھے اور اس ذریعہ سے وہ محمد رسول اللہ ﷺپر ایمان لانے کے لئے تیار کئے جا رہےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ کے معاً بعد خداتعالیٰ نے سورۂ اِیْلَاف کو رکھا ہے۔
لاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ

٭ مختلف محذوفات کی وجہ سے جو لام سے پہلے نکالے گئے ہیں اور ایلاف کے مختلف معنوں کی وجہ سے اس آیت کے کئی معنے ہوں گے جو قریباً ایک دوسرے سےتعلق رکھنے والے ہوں گے۔

پہلا مطلب اس کا یہ ہوا کہ ہم نے قریش کے دل میں سردی گرمی کے دونوں سفروں کی محبت پیدا کرنے کے لئے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر دیا اور انہیں بھوسے کی طرح اڑا دیا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہےکہ خدا تعالیٰ ان دونوں سفروں کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ ان معنوں کے رو سے خدا تعالیٰ کا زور دونوں سفروں کے قیام پر ہے۔ یعنی دونوں سفروں کا قیام الٰہی سکیموں کا ایک حصہ تھا۔ اور چونکہ الٰہی حکمت چاہتی تھی کہ یہ دونوں سفر قائم رہیں اس لئے اس نے ابرہہ کے لشکر تباہ کر دیا۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ’اسی لئے‘تباہ کیا۔ بلکہ ’اس لئے‘ کے معنے ہیں۔ اور ’اس لئے‘ اور ’اسی لئے‘ میں فرق ہوتا ہے۔ ’اسی لئے‘ کے معنے ہوتے ہیں کہ یہی اصل مقصد تھا۔ مگر ’اس لئے‘ کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مختلف وجوہ میں سے یہ بھی ایک وجہ تھی۔ جیسا کہ میںپہلے بیان کر چکا ہوں اس تباہی کے کئی اسباب تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا۔ پس یہاں ہم ’’اس لئے‘‘ کہیں گے نہ کہ ’اسی لئے‘۔

میں نے بتایا ہےکہ ان کے سردی گرمی کے سفروں کے قیام کی بڑی وجہ یہ تھی کہ رسول کریمﷺ کے آنے کی پیشگوئیاں یہودیوں اور عیسائیوں میں تو محفوظ تھیں لیکن حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئیاں مکّہ میں محفوظ نہیں تھیں۔ مکّہ والے امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ان پیشگوئیوں کا اکثر حصہ بھول چکے تھے۔ اس لئے ضروری تھا کہ ان کو وہ پیشگوئیاں دوسری قوموں کے ذریعہ سے یاد کروائی جائیں۔

٭ دوسرے معنے اس کے یہ بنیں گے کہ اس امر پر تعجب کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قریش کو سردی گرمی کے سفر پر تیار کر دیا۔ یعنی ان لوگوں کے دلوں میں سفر کی محبت پیدا کر دی۔ ان معنوں کے رو سے ایک دوسرے معنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔بے شک ان معنوں سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان کو سردی گرمی کے سفر پر تیار کر دیا اور اس طرح یہ محمدی دین کی طرف مائل ہو گئے۔ مگر ایک اور حکمت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ہاشم نے کہا تھا کہ اگر تم سفروں کے لئے نہ نکلے تو تم بھوکے مرو گے اور دوسری قوموں میں ذلیل ہو جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس سردی گرمی کے سفرکی دراصل ہم نے تدبیر کی تھی۔ اگر یہ سفر نہ ہوتا تو ان میں ایمان تو تھا ہی نہیں صرف قومی رسم و رواج کی وجہ سے وہ وہاں ٹھہرئے ہوئے تھے۔ ممکن تھا کہ اگر وہ اسی طرح ایک لمبے عرصہ تک بھوکے مرتے چلے جاتے تو تنگ آکر وہ مکّہ چھوڑ دیتے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں مکّہ میں رکھنے کے لئے یہ تدبیر سجھا دی ورنہ دنیا کی تاریخ پر اگر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہزارہا قومیں دنیا میں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنی معاشی ضرورت کے لئے جگہیں بدلی ہیں۔

٭ غرض کچھ لوگ مکّہ والوں میں سے سفروں پر جاتے تھے اور کمائی کر کے لاتے تھے اور باقی لوگ مکّہ میں رہتے۔ مکّہ میں رہنے والوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قافلہ والوں کے کام میں بھی برکت پیدا کر دیتا اور اس طرح ان کا بھی گزارہ ہو جاتا اور مکّہ والے بھی پلتے رہتے۔ بہرحال مکّہ والوں کا اکثر حصہ وہیں مکّہ میں رہتا تھا۔ صرف ایک حصہ تجارت کرتا اور وہ جو کچھ کما کر لاتاوہ مکّہ والوں میں بانٹ دیتا۔ یہ چیز کوئی معمولی چیز نہیں۔ دنیا میں اس کی کتنی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اگر یہ محض ایک انسانی تدبیر تھی تو دیکھنا یہ چاہئے کہ دنیا میں اور کہاں کہاں اس طریق پر عمل ہوتا ہے۔ یقیناً دنیا کی اور کسی قوم نے وہ مثال قائم نہیں کی جو مکّہ کے یہ لوگ قائم کر چکے ہیں۔

٭ ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو جب وقف کی تحریک کی جاتی ہے تو ان میں سے کتنے نکلتے ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ والی جماعت ہم ہی ہیں، دعویٰ یہ ہے کہ ہم محمدؐ رسول اللہ کی بعثت ثانیہ کی جماعت ہیں۔ مگر ان میں سے کتنے دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔ دوسروں کے کام کو دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے اَور چیز ہے۔ اور حقیقت کو مدنظر رکھنا اَور بات ہے۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ مکّہ والوں نے جو کچھ کیا وہ ایک معمولی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج بھی اس مثال پر کتنے لوگ عمل کر سکتے ہیں یا کتنے لوگ عمل کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کام کرنا اَور چیز ہے اور یہ کہہ دینا کہ ایسا کام تو ہر شخص کر سکتا ہے اَور بات ہے۔ اگر یہ ایسی ہی آسان بات ہے تو دنیا میں اور کسی نے وہ کیوں نہ کر لیا جو مکّہ والوں نے کیا تھا۔ کیا دنیا کے پردہ پر آج کوئی شہر، کوئی قصبہ اور کوئی بستی ایسی ہے جس میں یہ طریق رائج ہو کہ چند لوگ روزی کما کر لاتے ہوں اور پھر شہر والوں کو کھِلا دیتے ہوں اور ان سے کہتے ہوں کہ تم اطمینان سے یہاں بیٹھے رہو ہم کمائیں گے اور تمہیں کھلائیں گے۔ ہم نے تو دیکھا ہے احمدیوں میں سے بھی بعض ایسے بے حیا اور بے شرم ہو تے ہیں کہ وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ مبلغوں کا کیا ہے وہ تو پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ ان بے حیاؤں سے کوئی پوچھے کہ تم بغیر پیسے کے کام نہ کرو۔ وہ پیسے لے کر کام نہ کریں۔ تو دین کا کام کون کرے۔ پھر تو دین کا خانہ ہی خالی ہو جائے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح تم کما سکتے تھے۔ اسی طرح وہ بھی کما سکتے تھے۔ یہ کہنا کہ غربت کی وجہ سے وہ پڑھ نہیں سکتے تھے یا دنیا میں ترقی نہیں کر سکتے تھے بالکل جاہلانہ بات ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے باپ بہت ہی معمولی آدمی تھے۔ ٹوپیاں بنایا کرتے تھے مگر ان کا ایک بیٹا انجینئر ہو گیا اور دوسرا علاّمہ کہلانے لگا۔ اسی طرح سیّد احمد صاحب کیا تھے؟ ایک بہت ہی غریب آدمی کے لڑکے تھے مگر ترقی کر کے کہیں کے کہیں جا پہنچے ۔ پس یہ کہنا کہ وہ دنیا میں ترقی نہیں کر سکتے تھے اس لئے دین کی طرف چلے گئے، بالکل غلط ہے۔ دنیا میں مثالیں موجود ہیں کہ بڑے بڑے غریب لوگوں کی اولادیں بڑے بڑے اعلیٰ مقام تک جاپہنچیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے دین میں اپنی قابلیت ثابت کر دی ہے تو اسی طرح وہ دنیوی کاموں میں بھی اپنی قابلیت ظاہر کر سکتا تھا مگر اس نے یہی چاہا کہ وہ خدا کا کام کرے اور دنیا کے کام کو نظرانداز کر دے۔ اصل بات یہ ہے کہ محض اس حسد اور غصہ کی وجہ سے کہ لوگ ہمیں یہ کیوں طعن کرتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت نہیں کرتے۔ بعض لوگ اس قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں کہ مبلغوں کا کیا ہے وہ بھی تو نوکری کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ انتہا درجہ کی بے شرمی کی بات ہے۔ پس یہ کہنا کہ مکّہ والوں نے اگر ایسا کیا تو اپنی حالت کو درست کرنے کے لئے کیا۔ اس میں قربانی کی کونسی بات ہے محض واقعات پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا ہر شخص کر سکتاہے تو سوال یہ ہے کہ باقی قومیں ایسا کیوں نہیں کر لیتیں اور وہ کیوں خاموش ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اس خوبی کو مکّہ والوں کی طرف منسوب کریں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ نیک جماعت تھی کیونکہ باوجود اس کے کہ وہ کافر تھے، باجود اس کے کہ وہ بے دین تھے انہوں نے وہ کچھ کیا جو کئی مسلمانوں نے نہیں کیا۔ انہوں نے وہ کچھ کیا جو کئی احمدیوں نے بھی نہیں کیا۔ اس رنگ کی قربانی میں احمدی یقیناً مکّہ والوں کے برابر نہیں۔ اور اگر اس قربانی میں وہ صحابہ سے بھی بڑھے ہوئے تھے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے والوں سے بھی بڑھے ہوئے تھے تو ہم سوائےاس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ ایک نشان تھا جو خدا نےدکھایا۔ ایک آسمانی تدبیر تھی جس کو خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا۔ مکّہ والوں کی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ ایسا کر سکتے۔ یہ خدا کانشان تھا اور اسی خدا کی قدرت کا یہ کرشمہ تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کو مکّہ میں مبعوث کرنا چاہتا تھا اور یہی بات خدا تعالیٰ اس جگہ کہہ رہا ہے کہ مکّہ والوں نے باوجود اس کے کہ وہ بے دین تھے، باوجود اس کے کہ وہ مشرک تھے، باوجود اس کے کہ وہ روحانیت سے عاری تھے، وہ فعل کیا جو آج تک دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکی۔ پس وہ فعل مکّہ والوں نے نہیں کیا، وہ فعل ہم نے ان سے کروایا۔ وہ صرف ہمارے تصرف اور اثر کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہم اس کی وجہ قومی کیریکٹر قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ قومی کیریکٹر کے ہوتے ہوئے بھی بھوک پیاس کی تکلیف پر لوگ اِدھر ُادھر بھاگ جایا کرتے ہیں۔ اسے ہم صرف خدا تعالیٰ کا تصرف اور خداتعالیٰ کی تدبیر ہی کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ چونکہ مکّہ والوں کا کام ان کا اپنا کام نہ تھا خداتعالیٰ کا کام تھا اس لئے ہم اس کی نقل اتارنے کی کوشش نہ کریں۔ جس حد تک اس قربانی کی مثال ہم پیش کر سکیں ہمیں پیش کرنی چاہئے۔ جب تک ہم ایسا نہ کریں ہم دنیا میں کوئی بڑا انقلاب پیدا نہیں کر سکیں گے۔ صحابہؓ نے بے شک دنیا میں انقلاب پیدا کیا لیکن وہ انقلاب ایسی ہی قربانی کی مثال قائم کرنے کی کوشش سے پیدا کیا۔ اگر وہ بالکل اس معیار پر پورے اترتے جو مکّہ والوں میں معجزہ کے طو رپر اور ظہور محمدی کے پیش خیمہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے دکھایا تھا تو یقیناً صحابہؓ اپنی ترقی کے معیار کو اَور بھی اونچا لے جاتے۔ وہ اسلام کی بنیادوں کو اَور مضبوط کر دیتے۔ وہ کفر کی تباہی کو اَور بھی مکمل کر دیتے۔

ہماری جماعت کے افراد کو بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ اِس وقت کیا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ جب وہ غیروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھو ہماری جماعت کتنی قربانی کر رہی ہے۔ کس طرح نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں غیر کی طرف سے انہیں عزت مل رہی ہوتی ہے۔ مگر جب اندر بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں ان مولویوں کا کیا ہے، یہ تو پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ مکّہ والوں نے کیا اگر ساری جماعت قربانی کے اس نقطہ تک پہنچ جائے تو دنیا میں حیرت انگیز طو رپر ہماری تبلیغ کا سلسلہ وسیع ہو جائے…۔

مکّہ والے بھی آخر اپنی آمد کا نصف قومی کاموں کے لئے دے دیا کرتے تھے۔ وہ کافر تھے، وہ بے ایمان تھے، وہ مشرک تھے۔ مگر وہ سب کے سب اپنی آمد کا نصف اس لئے نکال دیا کرتے تھے تاکہ وہ غربا میں تقسیم کیا جائے اور مکّہ آباد رہے۔ ان کے دلوں میں ایمان نہیں تھا ان کے پاس قرآن نہیں تھا، ان کے سامنے قومی ترقی کا کوئی مقصود نہیں تھا، ان کے سامنے کوئی اعلیٰ درجے کا آئیڈیل نہیں تھا۔ محض اتنی بات تھی کہ قُصَیّ نے ہم کو کہا ہے کہ ہمارے دادا ابراہیمؑ نے یہ کہا ہے کہ مکّہ میں رہو اس لئے ہم یہاں رہنے کے لئے آگئے ہیں۔ یہ کتنا چھوٹا سا آئیڈیل ہے۔ اس کے مقابلہ میں تمہارا آئیڈیل کیا ہے۔ تمہارا آئیڈیل یہ ہے کہ تم نے دنیا فتح کرنی ہے۔ تم نے دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت قائم کرنی ہے۔ تم نے دنیا میں خدا کی بادشاہت قائم کرنی ہے۔ وہ اپنے چھوٹے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنا نصف مال لا کر دے دیتے تھے۔ ان میں سے ہر شخص اپنی آمد کا آدھا حصہ نکال کر کہتا کہ یہ آدھا حصہ غریبوں کے لئے ہے تاکہ مکّہ آباد رہے اور وہ اسے چھوڑ کر اِدھر اُدھر نہ جائیں۔ …اگر جماعت مکّہ والوں کی قربانی کے برابر قربانی کرنے لگ جائے، اس سے نصف بھی کرنے لگ جائے، اس سے چوتھا حصہ بھی کرنے لگ جائے تو کتنا عظیم الشان کام ہو سکتا ہے۔ کتنی تبلیغ وسیع ہوسکتی ہے۔

٭ خلاصہ کلام یہ کہ دنیا کی تاریخوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ صدیوں تک ایک قوم کے افراد اپنے لئے تمام ترقی کے راستوں کو روک کر اس گھر کو آباد رکھنے کے لئے جسے وہ خدا کا گھر سمجھتے ہیں کمائیں آپ اور کھلائیں دوسروں کو۔ انفرادی مثالیں تو مل جاتی ہیں مگر قومی طو رپر اور متواتر ایک لمبے عرصہ تک اس قسم کی حیرت انگیز قربانی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ا ورجب تک اس قسم کی مثال پیش نہیں کی جائے گی اس وقت تک دنیا کی الجھنوں کا حل بھی پیدا نہیں ہو گا۔

٭ یہاں یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ ایلاف کیوں اتاری؟ قریش نے تو جو کچھ کرنا تھا کر لیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں قریش کی تعریف کرنے کے تو یہ معنے تھے کہ ان کو اَور بھی مغرور کر دیا جائے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ دیکھا ہمیں کافر کافر کہتے تھے مگر ہم نے کتنی قربانی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا؟اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ تم بھی قربانی کا یہ نمونہ پیش کرو۔

٭ قریش کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو توجہ دلائے کہ کسی زمانہ میں ایک کافر اور مشرک قوم مکّہ میں آکر بسی اور اس نے مکّہ کو بسانے کے لئے ایسی حیرت انگیز قربانی کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ بے شک ان میں یہ خوبی خداتعالیٰ کے تصرف سے پیدا ہوئی مگر تمہارے ساتھ بھی تو اس کا فضل ہے۔ تمہیں بھی اس قربانی کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اسلام کے لئے ایسی ہی قربانی پیش کرنی چاہئے اور ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہئے جیسے ان لوگوں نے دکھایا۔

٭ پس لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِوالی آیات یہی سبق دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں کہ خدا اب بھی اصحاب الفیل کا واقعہ دکھانے کے لئے تیار ہے مگر تم بھی تو قریش والا نمونہ دکھاؤ۔ اصحاب الفیل والا نشان کن لوگوں کے لئے ظاہر کیا گیا تھا ان لوگوں کے لئے جنہوں نے سوا دو سو سال تک وہ قربانی کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ انہوں نے اپنی جانیں دے دیں مگر مکّہ نہ چھوڑا۔ وہ بھوک سے نڈھال ہو کر جب موت کے قریب پہنچ جاتے تو اپنا خیمہ اٹھاتے اور مکّہ سے باہر چلے جاتے۔ ان کے سامنے ان کے بیوی بچے مر جاتے، ان کے سامنے ان کے بھائی مر جاتے، ان کے سامنے ان کی بہنیں مر جاتیں، ان کے سامنے ان کے دوست اور رشتہ دار مر جاتے مگر وہ کسی سے کچھ مانگتے نہیں تھے۔ وہ اس تکلیف کی وجہ سے مکّہ کو چھوڑتے بھی نہیں تھے۔ وہ ایک ایک کر کے مر گئے،مٹ گئے اور فنا ہو گئے مگر انہوں نے مکّہ کو نہ چھوڑا۔ تم بھی یہ قربانی کرو تو خدا تمہارے لئے بھی اصحاب الفیل والا نشان دکھا دے گا بلکہ وہ تو غیرمومن تھے ان کے لئے دیر کے بعد نشان ظاہر ہوا۔ تم مومن ہو تمہارے لئے یہ نشان جلد ظاہر ہو جائے گا۔ مگر پہلے قربانی کی مثال تو ہونی چاہئے۔ پھر تمہارا بھی حق ہو گا کہ تم خدا سے کہو کہ ہم نے اپنی قربانی تو پیش کر دی ہے اب تُو بھی ہماری تائید میں اپنا نشان دکھا۔ لیکن اپنا فرض ادا نہ کرنا اور خداتعالیٰ سے کہنا کہ وہ وعدہ پورا کرے یہ کوئی دیانتداری نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے اور یقیناً وہ سب سے زیادہ سچا ہے مگر وہ تبھی نشان دکھاتا ہے جب اس کے مقابلہ میں بندہ بھی قربانی پیش کرتا ہے…۔جب تک یہ احساس قائم نہ ہو جائے او رپھر اس احساس کو دوسروں کے اندر قائم نہ کیا جائے اُس وقت تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔

٭ خلیفہ آخر کیا کر سکتا ہے۔ دو یا چار یا پانچ لاکھ یا دس لاکھ آدمیوں کو سمجھانے کے لئے ایک ایک کے گھر پر تو نہیں جا سکتا۔ اس کا طریق تو یہی ہے کہ لوگ سنیں اور آگے پہنچائیں، وہ سنیں اور آگے پہنچائیں۔ جب تک وہی آگ ان کے دلوں میں بھی نہ لگ جائے، وہی تڑپ ان کے دلوں میں بھی پیدا نہ ہو جائے جو خلیفۂ وقت کے دل میں لگی ہوئی ہو اور جب تک ایک ایک احمدی دوسرے کو پکڑ کر یہ نہ کہے کہ تم میں فلاں غلطی ہے اس کی اصلاح کرو اس وقت تک یہ کام ہو ہی کس طرح سکتا ہے۔ دیکھو رسول کریم ﷺ نے بھی اپنی وفات کے قریب جب حجۃالوداع میں لوگوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی تو اس آخری وصیت میں آپ نے یہی کہا کہ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائِبَ۔ میں نے بات کہہ دی ہے مگر میری بات سب لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ میری بات اسی طرح دوسرے لوگوں تک پہنچ سکتی ہے کہ جو شخص مجھ سے کوئی بات سنے وہ آگے پہنچائے۔ وہ اگلا شخص پھر آگے پہنچائے۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہی قومی ترقی کا گُر ہے اسی سے قومیں زندہ ہوتی ہیں اسی سے وہ دنیا میں فتحیاب ہوتی ہیں۔

٭ تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہوں گے کہ قریش کے دل میں جو سردی گرمی کے سفروں کی محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے جس کی وجہ سے ان کو بافراغت رزق ملتا ہے اور متمدن اقوام سے ان کو تعلق پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے اس نعمت کو یاد کر کے انہیں خداتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور خانۂ کعبہ کے رب کی عبادت کرنی چاہئے۔

ان معنوں کے رُو سے اس مضمون کی طرف اشارہ سمجھا جائے گا کہ تمہارے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے یہ تمہاری وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ خانۂ کعبہ کی خدمت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کیونکہ جب کسی کام کا ایک نتیجہ بیان کر دیا جائے تو درحقیقت وہی نتیجہ اس کام کا اصل باعث ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آقا اپنے نوکر کو تنخواہ دیتا ہے۔ اگر کسی وقت وہ نوکر اس کی نافرمانی کرتا ہے تو آقا اس سے کہتاہے ہم تمہیں تنخواہ دیتے ہیں تم کو چاہئے کہ ہماری فرمانبرداری کرو۔ اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتےہیں کہ ہم تمہیں اس لئے تنخواہ دیتے ہیں کہ تم ہماری فرمانبرداری کرو۔ اسی طرح لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا نتیجہ یہاں فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ نکالا گیا ہے۔ یعنی ہم نے اِیْلَاف کیا اور اس کے اچھے سے اچھے نتائج پیدا کئے۔ پس چاہئے کہ وہ ربّ البیت کی عبادت کریں۔ یہاں ’’پس‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ پہلا انعام ،پہلا اکرام اور پہلا احترام اسی غرض سے تھا کہ وہ رَبُّ الْبَیْت کے ساتھ تعلق رکھیں۔ پس اگر فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ کو لِایْلٰفٍ کے ساتھ لگایا جائے جیسا کہ بہت سے نحوی یہی سمجھتے ہیں۔ تو اس صورت میں اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تمہارے ساتھ یہ سلوک اس لئے کیا جاتا ہے کہ تم خدا کے گھر کو آباد رکھو اور اس کا ذکر کیا کرو۔ اس طرح ان پر واضح کیا گیا ہے کہ تم اپنے متعلق یہ خیال نہ کر لینا کہ یہ سلوک تمہاری کسی نیکی یا تمہاری کسی خوبی کی وجہ سے ہے۔ جیسے یہود میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ وہ خدا کے محبوب اور پیارے ہیں اس لئے ان سے نیک سلوک کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ انہیں صرف چند دن سزا ملے گی۔ بعض کا یہ خیال تھا کہ ان کو صرف چالیس دن تک سزا ملے گی اور بعض کا یہ خیال تھا کہ انہیں بارہ دن سزا ملے گی۔ پھر بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ انہیں صرف سات دن سزا ملے گی اور بعض خیال کرتے تھے کہ یہودی جب دوزخ کے پاس لے جائے جائیں گے تو وہ خدا سے کہیں گے کہ اس تعلق کو یاد کر جو تجھے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے تھا۔ اس پر خدا انہیں فوراً واپس لوٹا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اسی قسم کا خیال عربوں میں بھی پیدا ہو سکتا تھا کہ چونکہ ہم ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ پس اس آیت میں اس کا ازالہ کیا گیا ہے۔

٭ درحقیقت ہر قوم جب بداعمالی کی طرف راغب ہوتی ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتی ہے تو وہ چاہتی ہے کہ کسی ٹوٹکہ کے ذریعہ سے ہی نجات حاصل کر لے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لِإِيْلَافِ قُرَيْشٍ ۔ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ۔ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ (قريش 2-4)ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان پر جو احسان کیا ہے یہ خانۂ کعبہ کی وجہ سے کیا ہے۔ ان کی ذات کی وجہ سے نہیں کیا۔ ابراہیم کی نسل ہونے کی وجہ سے ہم ان پر یہ فضل نہیں کر رہے تھے بلکہ اس لئے کر رہے تھے کہ اگر انہیں کھانے پینے کو بافراغت مل جائے گا توہ خدا کا ذکر کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے اوقات بسر کریں گے تاکہ آنے والے موعود پر ایمان لانے کے لئے تیار ہوتے رہیں۔

پس لِاِیْلٰفِ کا تعلق اگر فَلْیَعْبُدُوْا سے سمجھا جائے تو اس امر پر زور ثابت ہو گا کہ قومی برتری کوئی چیز نہیں۔ ان کا یہ خیال کہ یہ سب کچھ ہماری خاطر ہو رہا ہے بالکل غلط ہے۔ یہ خانۂ کعبہ کی خاطر، خانۂ کعبہ کے نبی کی خاطر اور ذکرِ الٰہی کو قائم رکھنے کی خاطر ہو رہا ہے۔

٭ ہم دیکھتے ہیں کہ اور قومیں تو الگ رہیں آج مسلمان بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بڑے آدمی پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تو اس کی سنّت ہے کہ وہ اس فضل کا سلسلہ اس کی اولاد کے لئے بھی جاری کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ہم خدا کے خاص محبوب ہیں۔ اور خد اکے محبوب کے وہ یہ معنے لیتے ہیں کہ جیسے عاشق کہتے ہیں ہمیں مار لو، پیٹ لو، دکھ دے لو ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ اسی طرح وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خود ہم خدا کو گالیاں دے لیں، خواہ ہم بے دینی کریں، خواہ ہم اس پر سو سو اعتراض کریں، خواہ ہم اس کو برا بھلا کہیں، خواہ ہم اس کے کسی حکم کو نہ مانیں، اللہ تعالیٰ ہمارا عاشق ہے وہ ہمیں چھوڑ نہیں سکتا۔ چنانچہ مختلف شکلوں اور صورتوں میں لوگوں نے یہ عقیدہ قائم کیا ہوا ہے۔

٭ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی ایک بہن تھیں جو کسی پیر کی مرید تھیں۔ وہ ایک دفعہ آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے اس سے کہا بہن تمہیں نماز کی طرف توجہ نہیں تم آخر خدا کو کیا جواب دو گی؟ اس نے کہا میں نے جس پیر کی بیعت کی ہوئی ہے اس نے مجھے کہہ دیا ہے کہ چونکہ تم نے میری بیعت کر لی ہے اس لئے اب تمہیں سب کچھ معاف ہے۔ آپ نے اپنی بہن سے کہا۔ بہن اپنے پیر صاحب سے پوچھنا کہ خدا کا حکم کس طرح معاف ہو گیا۔ نماز کا حکم تو خد انے دیا ہےا ور وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا۔ آپ کی بیعت کرنے سے یہ حکم کس طرح معاف ہو گیا؟ اس نے کہا بہت اچھا جب مَیں جاؤں گی تو یہ بات ان سے ضرور دریافت کروں گی۔ کچھ مدت کے بعد وہ پھر آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ کہ تم نے اپنے پیر صاحب سے وہ بات دریافت کی تھی؟ اس نے کہا ہاں۔ مَیں اپنے پیر صاحب کے پاس گئی تھی اور ان سے مَیں نے یہ بات دریافت کی تو وہ کہنے لگے تُو نور دین سے ملنے گئی تھی؟ معلوم ہوتا ہے یہ شرارت تجھے نور دین نے ہی سکھائی ہے۔ میں نے کہا کسی نے سکھائی ہو، آپ یہ بتائیں کہ اس کا جواب کیا ہے؟ انہوں نے کہا قیامت کے دن جس وقت خدا تم سے پوچھے گا کہ تم نمازیں کیوں نہیں پڑھا کرتی تھیں تو تم کہہ دینا کہ میرا جواب پیر صاحب سے لیجئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میری بیعت کر لینے سے اب تمام ذمہ واری مجھ پر آپڑی ہے، تمہیں نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر خدا کے فرشتے تم کو چھوڑ دیں گے اور وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ میں نے کہا پیر صاحب پھر آپ کا کیا بنے گا؟ اتنے لوگوں کے گناہ آپ کے ذمہ لگ جائیں گے؟اس پر وہ کہنے لگے جس وقت خدا ہم سے حساب لینا چاہے گا تو ہم لال لال آنکھیں نکال کر اس سے کہیں گے کہ کربلا میں ہمارے دادا امام حسینؓ کی شہادت کچھ کم تھی کہ اب ہم کو بھی دِق کیا جاتا ہے۔ اس پر خدا اپنی آنکھیں نیچی کر لے گا اور ہم بھی فوراً جنت میں چلے جائیں گے۔

دیکھو مسلمانوں کی حالت گرتے گرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ حالانکہ اور لوگ تو الگ رہے خدا کے نبی اور رسول بھی جن سے تعلق رکھنے کی بناء پر ہم اپنے آپ کو افضل سمجھتے ہیں ،دن اور رات کام کیا کرتے تھے۔ بلکہ نبیوں اور رسولوں کو رہنے دو ہمارا خدا بھی ہر وقت کام کرتا ہے۔ آخر خدا کو ہم ربّ العالمین کہتے ہیں یا نہیں۔ اور رب العالمین کے کیا معنے ہوتے ہیں؟ یہی کہ وہ ہمیں روٹیاں کھلاتا ہے، ہمارے جانور پالتا ہے، ہمارے بچے پالتا ہے، سمندر کے نیچے رہنے والی مچھلیوں کو پالتا ہے، پرندے پالتا ہے۔ اسی طرح اور تمام جانداروں کو پالتا ہے۔ پھر جب ہم کہتے ہیں خدا نے زمین و آسمان بنایا تو اس کے کیا معنے ہوتے ہیں؟ یہی معنے ہوتے ہیں کہ ہمارا خدا انجینئرنگ کا کام بھی کرتا ہے، ہسبنڈری کا کام بھی کرتا ہے، زراعت کا کام بھی کرتا ہے۔ پھر جب ہم کہتے ہیں اس نے کیمیاوی ترکیبوں سے اس اس طرح چیزیں بنائیں تو اس کے کیا معنے ہوتے ہیں؟ یہی معنے ہوتے ہیں کہ ہمارا خدا صنّاع بھی ہے اور ہمارا خدا سائنسدان بھی ہے۔ غرض وہ تمام پیشے جو ہم اختیار کرتے ہیں سارے کے سارے خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ خدا بھی بیٹھ جائے اور وہ کچھ نہ کرے حالانکہ اگر نکما پن ہی اصل چیز ہے تو سب سے زیادہ نکما رہنے کا حق خدا تعالیٰ کو ہونا چاہئے۔ آخر جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے، کیا اس کا یہ حق نہیں کہ وہ اتنا بڑا کام کرنے کے بعد کچھ آرام بھی کر لے۔ پس اگر آرام کرنا ہی بڑا کام ہے تو سب سے زیادہ نکمّا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو ہونا چاہئے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی کام کرتا ہے، اس کے رسول بھی کام کرتے ہیں، اس کے خلیفے بھی کام کرتے ہیں اور اس کے مومن بندے بھی کام کرتے ہیں۔ پھر یہ کیا کہ ایک زمانہ میں انبیاء کی جماعتیں یہ کہنے لگ جاتی ہیں کہ ہمیں اب کام کرنے کی ضرورت نہیں، ہماری ذمہ واریاں کسی اور نے اٹھا لی ہیں۔ دراصل یہ قومی تنزّل کی علامتیں ہیں اور اس وقت بھی مسلمانوں میں عمل کا ترک ان کے اسی قومی تنزل کا ثبوت ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بوجھ کوئی اور اٹھالے۔ مسیح ؑ آجائے اور ان کے گھر مال و دولت سے بھر دے۔ خود انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ گویا خدا اور اس کے رسول کا بس یہی کام ہے کہ وہ ڈاکوؤں کی طرح دوسروں کا مال لوٹ کر مسلمانوں کے حوالے کر دیں اور ان کی بہو بیٹیاں اغوا کر کے مسلمان نوجوانوں کو دیتے چلے جائیں تاکہ وہ عیّاشیاں کریں۔ یہ کتنی بڑی بد عملی ہے جو غلط اعتقادات کی وجہ سے بعض  مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور کیا ایسی قوم دنیا میں کوئی بھی ترقی کر سکتی ہے؟

حالانکہ جہاں حقیقی محبت ہو وہاں کام زیادہ کیا جاتا ہے اور عام حالات سے زیادہ قربانی پیش کی جاتی ہے۔ مشرک لوگ اپنے جھوٹے معبودوں کے لئے کتنے پاپڑ پیلتے ہیں اور طرح طرح کی تکالیف اٹھا کر انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تو جہاں حقیقی محبت ہوتی ہے وہاں انسان کا م زیادہ کرتا ہے ۔کام کو چھوڑ نہیں دیا کرتا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ لِإِيْلَافِ قُرَيْشٍ ۔ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ۔ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَاٰمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ ۔ (قريش 2-5)کی آیت میں بیان فرماتا ہے ۔ یعنی مکّہ کے قریش اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان پر مہربانی کی، ان کے لئے امن قائم کیا، ان کی بھوک کو دور کیا اور ان کے لئے ہر قسم کے خطرات کو دنیا سے ہٹا دیا تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ ربّ البیت کی عبادت بھی کرتے۔ مگر ایک طرف تو یہ مانتے ہیں کہ خدا نے ان کے خوف کو دُور کیا، خدا نے ان کی بھوک کو دُور کرنے کے سامان مہیا کئے مگر دوسری طرف یہ اتنے نکمّے ہو گئے ہیں کہ ہماری عبادت تک نہیں کرتے۔ ہم نے ان کے دلوں میں جو اِیلاف کیا اور اس کے نتیجہ میں رِحْلَۃَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفکو قائم کیا۔ ان کے سفر نفع مند ہو گئے اور ان کی بھوکیں دُور ہو گئیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟ آخر ہماری کوئی غرض تھی، کوئی مقصد تھا، کوئی وجہ تھی جس کی بناء پر ان سے یہ سلوک کیا گیا تھا۔ اور وہ وجہ یہی تھی کہ وہ اس گھر کو آباد رکھیں۔ پس چاہئے کہ جبکہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے تو یہ بھی اپنا حق ادا کریں اور عبادتِ الٰہی میں اپنا وقت گزاریں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سفر بھی لوگوں کے دلوں میں حج کا شوق پیدا کرنے اور انہیں خانۂ کعبہ کی طرف متوجہ کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔ جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں اہلِ عرب کو شروع میں حج کی طرف کوئی زیادہ توجہ نہیں تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سفروں کو انہیں حج کی طرف متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا۔ جب یہ لوگ ان کے گھروں میں جاتے اور ذکر کرتے کہ ہم مکّہ سے آئے ہیں جہاں خانۂ کعبہ ہے اور جس کا اس طرح حج کیا جاتاہے اور جس سے بڑی بڑی برکتیں حاصل ہوتی ہیں تو تمام عرب میں پراپیگنڈا ہو جاتا اور وہ لوگ جو حج سے غافل تھے ان کے دلوں میں بھی حج کرنے کی تحریک پیدا ہو جاتی۔ اس طرح ان کو روزی بھی مل جاتی اور حج بھی لوگوں میں زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتا چلا جاتا ۔

٭ چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ تعجب ہے مکّہ والوں نے اپنے نفسوں پر سردی اور گرمی کے سفر واجب کر چھوڑے ہیں اور بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ معنے بھی بعض مفسّرین نے کئے ہیں۔ یعنی تعجب ہے کہ یہ رِحْلَۃَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْف تو کرتے ہیں مگر عبادت نہیں کرتے۔ انہیں چاہئے کہ یہ ان سفروں کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنا وقت گزاریں۔

مگر جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں یہ معنے درست معلوم نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ ساری تاریخ اور خود عبارت کی بناوٹ بتا رہی ہے کہ یہاں ان کے اس فعل کو بُرا نہیں کہا گیا بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور جب ان کے اس فعل کو اچھا قرار دیا گیا ہے تو اس آیت کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ وہ سفر کیوں کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ سفر چھوڑ دیں اور بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ پس یہ معنے لفظاً اور نحواً تو درست ہیں مگر یہاں  چسپاں  نہیں  ہوتے۔ دوسرے وہ یہ سفر اس لئے کرتے تھے کہ روٹی کماکر لائیں اورپھر مکّہ والوں میں بانٹیں تاکہ وہ مکّہ میں ہی رہیں، تلاشِ معاش میں مکّہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر نہ چلے جائیں۔ اب ان معنوں کو درست تسلیم کرنے کا تو یہ مطب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ تم باہر جاؤ اور مکّہ والوں کو کھلاؤ۔ مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ معنے عقل کے خلاف ہیں۔ اس لئے اس آیت کا ہرگز یہ مفہوم نہیں۔ ان سفروں کی ضرورت تو انہیں موت اور ہلاکت کی وجہ سے پیش آئی تھی۔ اگر بلاضرورت مکّہ والے سفر کرتے تو اعتراض کی بات تھی مگر جبکہ ایک اعلیٰ مقصد کے لئے انہوں نے یہ سفر اختیار کئے تھے تو اس آیت کے یہ معنے کرنا کہ وہ سفر کیوں کر رہے ہیں ان سفروں کو چھوڑیں اور بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں کسی طرح بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔

ہاں یوں یہ معنے درست ہو سکتے ہیں کہ ا ن معنوں کو زمانۂ نبوی سے مخصوص قرار دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ پہلے تو یہ سفر جائز تھے مگر اب تو مکّہ والوں کو یہ سب کام چھوڑ کر صداقتِ محمدیت پر غور کرنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں لگ جانا چاہئے۔ اگر یہ معنے کئے جائیں تو یقیناً درست ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد یہ سفر خودبخود بند ہو گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کو اتنا مقبول کر دیا کہ مکّہ والوں کو باہر جانے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ وہیں بیٹھے بٹھائے اللہ تعالیٰ ان کو رزق دے دیتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے چونکہ تجلّی کامل نہیں ہوئی تھی اس لئے مکّہ والوں کو ان سفروں کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد تجلّی الٰہی کامل طور پر ظاہر ہو گئی اس لئے اب یہ ضرورت نہیں تھی کہ مکّہ والے سفر کریں۔ اگر ہم اس آیت کے یہ محدود معنے کر لیں تو پھر کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ ہم کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سفروں کو کُلّیۃً برا نہیں کہا بلکہ مکّہ والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ظہو رکے بعد اب ان سفروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہیں چاہئے کہ ان سفروں کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنا وقت گزارو۔ ان معنوں کے رُو سے یہ کفّار پر ایک ضرب کاری اور مسلمانوں کی عظیم الشان تعریف ہے۔ آخر مومن بھی تو مکّہ کے ہی رہنے والے تھے اور ان کی ضروریات بھی ویسی ہی تھیں لیکن وہ تو ایمان لاتے ہی سب کچھ چھوڑ کرتبلیغ حق اور خدمت دین میں لگ گئے اور جب وہ ایسا کر سکتے تھے تو مکّہ کے اور لوگ ایسا کیوں نہیں کر سکتے تھے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button