ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
کیا خدا کی شان کے لائق ہے کہ تم سے وعدہ کرے کہ خلیفے تم میں سے پیدا کرے گا ان کی مانند جو پہلے گزرے پھر اپنے وعدہ کو بھول جائے اور عیسیٰ کو آسمان سے اتارے۔ خدا تعالیٰ تمہارے ان افتراؤں سے پاک اور برتر ہے۔ کیا سبب ہے کہ اس کی دوستی کا دم بھرتے ہو لیکن اس کا حکم نہیں مانتے اور طاعون تمہارے گھر کے قریب پہنچ گئی اور کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ سال میں اس کے سر پر کیا گزرے گا۔ پس کفر کو اس حد تک نہ پہنچاؤ اور خدا کی طرف آؤ کہ آخر اسی کے پاس جانا ہے۔
’’ اے عقل والو!امید نہ رکھنا کہ کوئی آسمان سے اترے گا اور جان لو کہ یہ وہی دن ہے جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا۔ اور خدا نے مومنوںسے وعدہ کیا تھا کہ ان کو موسیٰ کی شریعت کے خلیفوں کی مانند خلیفہ بنائے گا۔ یہاں سے واجب ہوا کہ آخری خلیفہ عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر آئے گا اور اسی اُمّت میں سے ہوگا اور تم قرآن پڑھتے ہو کیا نہیں سمجھتے۔ یہ خدا کا وعدہ تھا پس خدا کے وعدہ کو جھوٹوں کے وعدوں کی طرح نہ سمجھو اور خدا کا وعدہ کس طرح پورا ہو بغیر اس کے کہ مسیح تم میں سے ظاہر ہو۔ کیوں خدا کی آیتوں میں فکر اور تدبّر نہیں کرتے۔ کیا خدا کی شان کے لائق ہے کہ تم سے وعدہ کرے کہ خلیفے تم میں سے پیدا کرے گا ان کی مانند جو پہلے گزرے پھر اپنے وعدہ کو بھول جائے اور عیسیٰ کو آسمان سے اتارے۔ خدا تعالیٰ تمہارے ان افتراؤں سے پاک اور برتر ہے۔ کیوں مسیح موعود کے حق میں لڑتے ہو اور اس پر اصرار کرتے ہو کہ وہ وہی مسیح ابن مریم ہوگا حالانکہ تم خدا کی کتاب پڑھتے ہو پھر غافل ہو۔ اور خدا نے ہم میں اور تم میں فیصلہ کردیا ہے اور پرہیزگاروں کے لئے نشانوں کو کھول دیا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ مومنوں کی حمایت کرے اور صلیب کے فتنوں کو دفع کرے کیا تم پسند نہیں کرتے۔ اور خدا کی یہ عادت ہے کہ اپنے بندوں کو فتنوںکے طوفان کے وقت بھیجتاہے۔یہ بات عالموں سے پوچھ لو اگر شک ہے۔ کیا تم طمع رکھتے ہو کہ مسیح تمہارے گمان کے موافق آسمان سے اترے اور خدا کی سنّت پہلے اس سے گزر چکی کیا تم نہیں جانتے۔ ہرگز کوئی رسول اس طرح سے نہیں آیا جس طرح گمان کرنے والوں نے جانا۔ پس تم کس طرح توقع رکھتے ہو۔اور تم سے پہلے یہودیوں کا گمان تھا کہ ان کا مسیح نہ آئے گا جب تک کوئی پیغمبر آسمان سے نہ اترلے۔ خدا نے ان کے اس گمان کو سچا نہ کیا اس لئے ابن مریم کا انکار کیا اور اب بھی یہی کہتے ہیں۔ اور اسی طرح گمان کیاکہ مثیل موسیٰ بنی اسرائیل میں سے ہوگا مگر جس وقت وہ موعود بنی اسماعیل میں سے پیدا ہوا اس کو نہ مانا اور اب تک نہیں مانتے۔ خدا کی عادتوں میں سے یہ ایک عادت ہے کہ پیشگوئی کے بعض اجزاکو ظاہر کر دیتا ہے اور بعض کو مخفی رکھتا ہے۔ پس جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوتے ہیں مخفی حصہ کو اپنے انکار کے لئے سند پکڑتے ہیں اور جو حصّہ ظاہر ہوا اس سے منہ پھیرتے ہیں اور فکر نہیں کرتے کہ شاید وہ امتحان ہو ان کے لئے۔ اور اس جیسے بہت سے واقعات گزرے لیکن نہیں پڑھتے۔ اے عقل والو ! قرآن کی راہ کے سوا اور کوئی راہ اختیار مت کرو اور یہ نہ کہو کہ عیسیٰ آسمان سے اترے گا۔ باز آجاؤ یہی تمہارے حق میں اچھا ہے۔ اے مسلمانو! تم نے تو وہ عقیدہ اختیار کیا ہے جس کی مثال نبیوں میں نہیں اور ہم نے وہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ رسولوں اور برگزیدوں میں اس کی نظیریں بے شمار ہیں۔پس ان دونوں فریقوں میں سے امن کا حق دار اور صدق وصفاکے نزدیک کونسا ہے۔ اور اس سے پہلے کوئی نبی آسمان سے نازل نہیں ہواتم کس طرح انتظار کرتے ہو۔ یہود بھی تمہارے جیسا اعتقاد رکھتے تھے کہ الیاس مسیح سے پہلے آسمان سے نازل ہوگا اور اس عقیدہ پر اصرار کرتے تھے اور جس وقت مسیح آیا اس کی تکذیب کی اور کہا اس کو کس طرح قبول کریں کیونکہ ابھی الیاس نہیں اترا اور ضرورہے کہ سچا مسیح الیاس کے نزول کے بعد نازل ہو اور ہم اس کے منتظرہیں۔ پس عیسٰی نے ان کا گمان ردّ کیا اور کہا کہ حضرت یحییٰ جو میرے سے پہلے بھیجا گیا ہے وہی الیاس ہے اگر قبول کرو۔ پس نہ قبول کیا اور حضرت عیسیٰ کا انکار کیا۔ پس خدا ان پر غضبناک ہوا اور ان پر لعنت بھیجی اور ان کے کفر پر طاعون ان پر بھیجا۔ باوجود اس کے پھر تم نے یہود کے عقیدہ کی پیروی کی کہ مسیح آسمان سے اترے گا۔ کیا یہودیوں نے تم کو وصیت کی یا دل اور آنکھ ان جیسے ہوگئے۔ تمہاری اور ان کی ایک خواہش ہوگئی اور قریب ہے کہ تم کو بھی وہی سزا ملے جو ان کو ملی۔ پس خدا سے ڈرو اور مغضوب علیہم قوم کی راہ نہ چلو ورنہ تم پر عذاب ہوگا۔ اور تم سورۂ فاتحہ کو پڑھتے ہوکیا تم نہیں جانتے کہ خدا نے ان یہودیوں کا نام مغضوب علیہم رکھا اور سورۃ فاتحہ میں تم کو اس بات سے ڈرایا کہ تم ان جیسے ہوجاؤ۔ اور تم کو یاد دلایا کہ وہ طاعون سے ہلاک کئے گئے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم خدا کے حکموں کو بھول گئے اور اس سے نہیں ڈرتے۔ خدا تعالیٰ کی کلام میں غور نہیں کرتے کہ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ فرمایا غَیْرِالْیَھُوْد نہیں فرمایا کیونکہ اس میںاشارہ اس عذاب کی طرف ہے جواُن کو پہنچا اور جو تمہیں پہنچے گا اگر تم باز نہ آئے۔ پس کیا ممکن ہے کہ تم بچے رہو۔ اور یہ بڑی اطلاع ہے اور اس کے نشان ظاہر ہوگئے اور اس میں ان کے لئے نشان ہے جو فکر کرتے ہیں۔ اور خدا یہودیوں پر اس بات سے غصہ ہوا جب انہوں نے کہا کہ ہمارا موعود آسمان سے نازل ہوگا پھر اس کے بعد مسیح نازل ہوگا۔ پس خدا نے عیسٰی کی زبانی فرمایا کہ یہ باطل پرست قوم ہے۔ اب تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اسی بات کے امیدوار ہو جسے خدا نے اس سے پہلے باطل قرار دیا اور ثابت ہے کہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں کاٹا جاتا اور یہ کہ دوسروں سے عبرت پکڑتا ہے تا ملامت کا نشانہ نہ بنے۔ کیا تم اس مشابہت کو اپنی زبان سے اور نزول کے عقیدہ پر غُلو کرنے سے کامل کرتے ہو اور تم جانتے ہو کہ مسیح نے اس رائے کے خلاف کیا ہے۔ پس کیا سبب ہے کہ اس کی دوستی کا دم بھرتے ہو لیکن اس کا حکم نہیں مانتے۔ اور طاعون تمہارے گھر کے قریب پہنچ گئی اور کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ سال میں اس کے سر پر کیا گزرے گا۔ پس کفر کو اس حد تک نہ پہنچاؤ اور خدا کی طرف آؤ کہ آخر اسی کے پاس جانا ہے‘‘۔
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 100تا105۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ(