الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

(مرتبہ محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16اپریل 2012ء میں مکرمہ ف۔فاروق صاحبہ کے قلم سے اُن کے پڑدادا حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ کے حالات زندگی شامل اشاعت ہیں۔ قبل ازیں 23مئی 2008ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی آپؓ کا ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔

حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ نے 1898ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ 1903ء میں آپ نے دوبارہ اپنے والد حضرت میاں امام الدین صاحبؓ اور دو بھائیوں حضرت میاں نور محمد صاحبؓ اور حضرت میاں محمد اسحٰق صاحبؓ کے ساتھ قادیان جاکر بیعت کی جس کا ذکر اخبار البدر 3جولائی 1903ء میں ہوا۔

حضرت میاں امام الدین صاحبؓ قریباً 1840ء میں پیدا ہوئے۔ پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد کے رہائشی تھے۔ 1904ء میں آپ کی وفات ہوئی اور پیر کوٹ کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ آپ بدرسوم اور بدعات کے سخت مخالف تھے۔ اپنے علاقہ میں بڑے باعزت، پُروقار اور دیانت دار بزرگ مشہور تھے۔ لوگ اپنی امانتیں اکثر آپ کے پاس رکھواتے تھے۔ بے حد جفاکش اور محنتی تھے۔ بیعت کرنے کے بعد جلد ہی آپ کی وفات ہوگئی تھی۔

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ سے روایت ہے کہ مَیں ایک مرتبہ پیرکوٹ گیا، بھرپور جوان اور طاقتور تھا۔ مَیں نے علاقہ کے نوجوانوں سے کلائی پکڑنے کا مقابلہ کیا۔ ایک ایک کر کے سارے نوجوان یہ مقابلہ ہارتے گئے۔ ایک خاموش طبع نوجوان یہ سارا منظر چپ کرکے دیکھتے رہے انہوں نے محسوس کیا کہ علاقہ کی عزت کا سوال ہے۔ چنانچہ وہ اٹھے اور میرے ساتھ کلائی پکڑنے کا مقابلہ کیا۔ مَیں ان سے اپنی کلائی نہ چھڑواسکا۔ یہ نوجوان حضرت میاں امام الدین صاحبؓ تھے۔

حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ قریباً 1889ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طورپر آپ ناخواندہ تھے۔ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کے خسر حضرت مولوی جلال الدین صاحب سے قرآن کریم ناظرہ پڑھا اور چند الفاظ اردو کے سیکھے۔ بعد میں اس استعداد کو اتنا بڑھا لیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ رواں کرنے لگ گئے۔ اسی مطالعہ کی برکت سے بہت اچھی اور لمبی تقریریں بھی کرلیتے اور عیسائی پادریوں سے بے دھڑک مناظرہ کر لیتے۔ نمازوں کے بے حد پابند اور تہجد گزار تھے۔ خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور الحاح سے اپنی مناجات کو پیش کرتے۔

حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ کاشتکاری کرتے تھے۔ اکثر نفل ادا کر کے کھیتوں میں جاتے۔ اپنی اولاد کو بھی عبادت اور دعا کی تلقین کرتے اور ان کی نیک تربیت کی۔ آپ کے ایک بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میاں جی نے مجھے کھیتوں میں ہل چلانے کے لئے بھیجا اور تاکید کی کہ کام شروع کرنے سے قبل نفل ضرور ادا کر لینا۔ مَیں نے نفل ادا کئے بغیر کام شروع کیا تو ہل ٹوٹ گیا۔ یوں ذکر الٰہی کی برکت میرے دل میں جاگزیں ہوئی۔

حضرت میاں صاحبؓ کے پاس صرف چار پانچ ایکڑ زمین تھی لیکن ذکرالٰہی کی برکت سے اسی پر تین خاندانوں کی گزر بسر ہوتی تھی۔ باقی کاشتکار آپؓ کی اچھی فصل دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔ آپؓ بہت پُرحکمت اور دانا تھے۔ کسی میں کوئی برائی دیکھ کر منع کرنے کی بجائے فلسفہ کے رنگ میں اُس بری بات کے نقصانات بیان کرتے۔

آپؓ بہت نڈر اور پُرجوش داعی الیٰ اللہ تھے۔ دُوردُور کے علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے۔ ایک مرتبہ مخالفین نے آپؓ کو اس قدر مارا کہ آپ بیہوش ہو گئے وہ آپ کو ایک تالاب کے کنارے پھینک کر چلے گئے۔ جب آپؓ کو ہوش آیا تو واپس اپنے گاؤں آنے کی بجائے دوبارہ انہی مخالفین کی طرف تبلیغ کرنے کے لئے چل دیئے اور ذرا خوف محسوس نہ کیا۔ آپ صاحبِ کشف و الہام تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات ہوئی تو آپؓ تک ابھی یہ خبر نہ پہنچی تھی کہ آپ نے اہل خانہ کو بتایا کہ رات کو دعا کرتے ہوئے میری زبان پر یہ الفاظ نازل ہوئے کہ ’’یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ‘‘۔ اور ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ داؤد سے مراد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہی منظر دیکھ رہا ہوں کہ خلافت کا انتخاب ہورہا ہے اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ بن رہے ہیں۔

یہ ایک حیرت انگیز واقعہ اس لئے بھی ہے کیونکہ مذکورہ بالا الہام حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو بھی ہوا تھا۔

پیرکوٹ کے ایک رہائشی ملک عطاء اللہ نے احمدیہ مسجد کے سامنے اپنا گھر تعمیر کروانے کی غرض سے کچّی اینٹیں اتروائیں۔ جب آپؓ نماز کے لئے تشریف لائے تو اُن سے کہا کہ عطاء اللہ! مَیں نے خواب میں یہاں پکّے مکان تعمیر شدہ دیکھے ہیں اور تم نے کچّی اینٹیں اتروائی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میاں جی! میری تو اتنی استطاعت ہی نہیں۔ بہرحال وہ بتاتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ایسے سامان مہیا فرمائے کہ میرا مکان پکّی اینٹوں اور سیمنٹ سے تعمیر ہوا۔ یوں خد اتعالیٰ نے آپؓ کی خواب کو سچ کردکھایا۔

حضرت میاں صاحبؓ کے بیٹے مکرم محمد عبداللہ صاحب پیر کوٹی واقف زندگی ایک مقدمہ میں دیگر واقفین زندگی کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ وہاں ایک غیر از جماعت منشی نے آپؓ سے اپنے لئے اولاد نرینہ کی دعا کی درخواست کروائی۔ چنانچہ آپؓ کی دعا نے شرفِ قبولیت پایا اور اُس منشی کو اولاد نرینہ عطا فرمائی۔

اسی طرح آپ کے چھوٹے بیٹے مکرم مولوی سلطان احمد صاحب پیرکوٹی جب مدرسہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے تو امتحان میں ایک لازمی مضمون کا پرچہ ایسا ہوا کہ کامیابی کی کوئی امید نہ رہی اور اس لازمی مضمون میں ناکامی کا نتیجہ سارے امتحان میں فیل ہو جانا تھا۔ چنانچہ وہ مایوس ہوکر آپؓ کے پاس آئے اور بتایا کہ مَیں کل کا پرچہ دینے نہیں جاؤں گا اور ساتھ ہی اس کی وجہ بتائی۔ آپؓ نے ان سے کہا کہ میں دعا کروں گا تم پرچہ دینے ضرور جانا۔ پھر آپؓ نے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں شروع کر دیں۔ جب نتیجہ نکلا تو اُن کے اُس پرچہ میں 52 نمبر تھے جبکہ دراصل اُن کے حاصل کردہ نمبر 25 تھے اور پرچے میں وہ فیل تھے۔ لیکن ممتحن نے نمبروں کا ٹوٹل کرنے میں غلطی کی تھی اور یوں آپ امتحان میں کامیاب قرار پائے تھے۔

بچوں کی تربیت کی غرض سے آپؓ نے ایک مکان قادیان میں بھی خریدا۔ آپ بے حد متوکّل انسان تھے۔ خداتعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی آپؓ پر تھی۔ لیکن کبھی بھی اپنی مشکلات کا کسی سے ذکر نہ کرتے بلکہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آستانے پر جھکے اور اس رحیم و کریم خدا نے بھی کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا ۔

آپ کی نسل میں بہت سے افراد وقف زندگی اور وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ آپؓ کے سب سے بڑے بیٹے میاں محمد اسماعیل صاحب پیر کوٹی بہت نیک اور متقی انسان تھے۔ نمازوں کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ کثرت سے تلاوت قرآن کریم اور مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود کرتے۔ بڑھاپے میں ضعف کے باوجود مسجد میں جاکر نمازیں ادا کرتے۔ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ دوسرے بیٹے مولوی محمد عبداللہ صاحب پیرکوٹی (واقف زندگی) تھے۔ آپ بھی نہایت متقی اور عبادت گزار تھے۔ تمام زندگی جماعتی خدمات میں گزری۔ آپ بھی بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ آپ کے تیسرے بیٹے مولوی سلطان احمد پیرکوٹی بھی بفضلِ خدا واقف زندگی تھے۔ تمام زندگی دین کی خدمت میں گزاری۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکے زودنویس رہے۔ نائب ایڈیٹر الفضل بھی رہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بھی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ کی وفات 7نومبر 1972 ء کو ربوہ میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بوجہ موصی ہونے کے تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی۔

…ژ…ژ…ژ…

مکرم ناصر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 مئی 2012ء کی ایک خبر کے مطابق دیرینہ خادم سلسلہ مکرم ناصر احمد صاحب ابن مکرم میاں چراغ دین صاحب سابق محاسب و افسر پراویڈنٹ فنڈ مورخہ 13 مئی 2012ء کو بعمر 74 سال طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ آپ 2008 ء سے کمر کے مہرے میں تکلیف کی وجہ سے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو جانے کے باعث صاحب فراش تھے۔ بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

مرحوم کے خاندان کا تعلق سیکھواں ضلع گورداسپور انڈیا سے ہے۔ اگرچہ آپ کے دادا حضرت میاں الٰہی بخش صاحب سیکھوانیؓ کا ذکر جلسہ سالانہ 1892ء میں شاملین کی فہرست میں 204 نمبر پر ’’میاں الٰہیا چوکیدار سیکھواں ضلع گورداسپورہ‘‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ فہرست حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شامل اشاعت ہے۔ تاہم مرحوم کے والد مکرم میاں چراغ دین صاحب نے 1908ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق پائی اور بعدازاں سیکھواں سے قادیان منتقل ہوگئے۔

مکرم ناصر احمد صاحب 9؍اگست 1938ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی اور پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک پاس کیا۔ آپ نے BA تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کو 16 جون 1956ء سے صدرانجمن احمدیہ ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے کئی شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی تقرری سے 1973ء تک دفتر خزانہ میں بطور کارکن کام کرتے رہے۔ پھر دفتر وصیت میں بطور اسسٹنٹ سیکرٹری مجلس کارپرداز کام کیا۔ 1990ء میں ان کا تقرر بطور نائب آڈیٹر ہوا اور پھر 1993ء سے 2008ء تک بطور محاسب و افسر پراویڈنٹ فنڈ خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ لمبا عرصہ تک بطور ناظم تنقیح حسابات دفتر جلسہ سالانہ بھی خدمت بجالائے۔ گویا نصف صدی سے زائد عرصہ تک خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ 2000ء میں مرحوم کو بطور نمائندہ صدر انجمن احمدیہ جلسہ سالانہ یُوکے اور جرمنی میں شمولیت کا بھی موقع ملا۔

مرحوم بہت سی خوبیوں اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ آپ بہت ہی منکسرالمزاج، ہنس مکھ طبیعت، خوش مزاج، وفاشعار اور بے لوث خدمات بجالانے والے تھے۔ بہت مہمان نواز اپنے ماتحتوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بڑے پیار، محبت و شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ دوسروں کے کام آتے اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو شخص تھے۔ مالی قربانی میں ہمیشہ آگے رہتے۔ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کی تشخیص کرواکر حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا۔ آپ کی یادداشت اور حافظہ بہت اعلیٰ تھا۔ متعدّد بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔ خلافت کے ساتھ مرحوم کا بے پناہ محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔ اسی طرح اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ بہت پیار، محبت اور شفقت کا سلوک تھا۔مرحوم کی شادی 1971ء میں مکرمہ صفیہ سبحان صاحبہ بنت مکرم منشی سبحان علی صاحب آف گورداسپور انڈیا کے ساتھ ہوئی جن کے بطن سے خداتعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا۔


…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button