قرآنِ کریم

تفسیر سورۃ القریش

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے

خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

٭ اس سورۃ شریف میں جو یہ حکم ہوا ہے کہ اس گھر کے ربّ کی عبادت کرو جس نے تم کو بھوک سے غنی کرنے کے لئے کھانا کھلایا۔ یہ آیت شریف حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام والبرکات کی اس دُعا کے مطابق ہے کہ میرے پروردگا اس شہر کو امن کی جگہ بنا۔ اس دعائے ابراہیمی ؑ کی قبولیت کے سبب قریش بڑے عیش و آرام میں زندگی بسر کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے گرد و نواح کی مخلوق ہلاکت میں پڑی ہوئی تھی۔ اسی مضمون کی طرف اﷲ تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں سورۃ نحل میں بھی اشارہ فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ایک گاؤں کی مثال بیان فرمائی ہے جس کے باشندے اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ ہر طرف سے اس کو رزق بافراغت پہنچتا تھا۔ پھر ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جس پر خدا نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب وارد کیا جو اُن کی اپنی بدعملیوں کا نتیجہ تھا۔

(ماخوذ از حقائق الفرقان)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سورۃ مکّی ہے۔

٭ اس سورۃ کے دو نام ہیں۔ اسے قریش بھی کہتے ہیں اور اس کا ایک نام حدیثوں میں لاِیْلٰف بھی آتا ہے۔ لاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ درحقیقت تین لفظ ہیں لیکن بعض لوگ جن کو پورے معنے نہیں آتے وہ غلطی سے لاِیْلٰف کو ایک اور قُرَیْش کو دوسرا لفظ سمجھ لیتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا ہے آخری پارہ کی سورتیں یکے بعد دیگرے اسلام کے ابتدائی اور آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ایک سورۃ اگر ابتدائے زمانۂ اسلام کے متعلق ہوتی ہے تو دوسری سورۃ آخری زمانۂ اسلام کے متعلق ہوتی ہے۔ یہ سورۃ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق ہے جیسا کہ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ والی سورۃ آخری زمانہ کے متعلق تھی۔

٭ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی سورۃ  میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح خداتعالیٰ نے کعبہ کی حفاظت کی اور یہ کہ آئندہ زمانہ میں بھی وہ کعبہ کی اسی طرح حفاظت فرمائے گا۔ آئندہ زمانہ کی بات تو ابھی دنیا نے دیکھی نہیں جب وقت آئے گا دنیا اس نظارہ کو بھی دیکھ لے گی۔ لیکن پہلا نشان مکّہ والے دیکھ چکے ہیں۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ اسی نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان نشان کو دیکھتے ہوئے پھر بھی مکّہ کے لوگ دنیا کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف کم توجہ کرتے ہیں حالانکہ اتنا بڑا نشان دیکھنے کے بعد انہیں یہ یقین ہو جانا چاہئے تھا کہ خانہ کعبہ سے تعلق رکھنے والوں اور اس کی سچی خدمت کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ خود حافظ و ناصر ہوتا ہے اور اس وجہ سے انہیں دنیا کی طرف کم توجہ کرنی چاہئے تھی مگر افسوس ہے کہ ان کی حالت اس کے برعکس ہے۔

٭ دوسرا تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں کعبہ کے دشمنوں کا انجام بتایا گیا تھا۔ اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ خانۂ کعبہ سے محبت رکھنے والوں کے انجام کا ذکر کرتا ہے۔ گویا ایک میں دشمنوں کا انجام بتایا اور دوسری میں دوستوں سے خواہ وہ گنہگار ہی تھے اپنےتعلق کا اظہار کیا اور ان پر اپنے احسان کا ذکر کیا۔

میں اوپر بتا چکا ہوں کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کوئی اتفاقی امر نہیں تھا اس امر کا مزید ثبوت ان دونوں سورتوں کا یکے بعد دیگرے آنا ہے۔ دنیا میں یہ ایک مُسلّمہ اصول ہے کہ جب کسی چیز کے دونوں پہلو بیان کر دیئے جائیں اور وہ دونوں پہلوؤں سے کامل نظر آتی ہو تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ وہ اتفاقی ہے۔ چونکہ اصحاب الفیل کے واقعہ پر یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ کیوں نہ اسے اتفاقی حادثہ قرار دے دیا جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ ایلٰاف کے ذریعہ اس اعتراض کو دُور کر دیا۔

پہلی سورۃ میں یہ بتایا گیا تھا کہ جس نے خانۂ کعبہ سے دشمنی کی اس سے ایسا ایسا سلوک ہوا۔ اب سورۂ ایلاف میں یہ بتاتا ہے کہ جس نے خانۂ کعبہ سے دوستی کی اس سے اس اس طرح سلوک ہوا۔ اگر خانۂ کعبہ سے دشمنی رکھنے والوں کی سخت ذلّت اور رسوائی ہوئی اور دوسری طرف خانۂ کعبہ سے دوستی رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو ہر شخص ان دونوں متقابل باتوں کو دیکھ کر سمجھ سکتاہے کہ یہ جو کچھ ہوا بالارادہ ہوا۔ اتفاقی امر نہیں تھا۔

٭ قریش دراصل نام ہے بنو نضر بن کنانہ کا ۔ جیسے خود رسول کریم ﷺ سے یہ مروی ہے۔ چنانچہ آپ سے جب سوال کیا گیا کہ قریش کن کو کہتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا اَلْقُرَیْشُ مِنْ وُّلْدِ النَّضْرِ۔ نضر کی جو اولاد ہے وہ قریشی کہلاتی ہے۔ اسی طرح احادیث میں آتاہے قَالَ ﷺ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰی کَنَانَۃً مِنْ بَنِیْ اِسْمٰعِیْل وَاصْطَفیٰ مِنْ کَنَانَۃَ قُرَیْشًا وَاصْطَفیٰ مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِم وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِی ہَاشِم (سراج منیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے کنانہ کو بنی اسمٰعیل میں سے فضیلت دی۔ کنانہ میں سے قریش قبیلہ کو فضیلت دی۔ قریش قبیلہ میں سے اللہ تعالیٰ نے بنو ہاشم کو فضیلت دی اور بنو ہاشم میں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے فضیلت دی۔ اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے قریش کو بنوکنانہ قرار دیا ہے۔ اور دوسری حدیث میں آتا ہے کہ مِنْ وُّلْدِ النَّضْرِ۔ دراصل کنانہ کے کئی بیٹے تھے۔ رسول کریم ﷺ نے یہ تشریح فرما دی کہ ان میں سے صرف نضر کی اولاد قریش کہلاتی ہے ساری اولاد نہیں۔

٭ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے تو حضرت اسمٰعیلؑ کو خانہ کعبہ میں اس لئے بٹھایا تھا کہ وہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کریں۔ لیکن حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد میں آگے یہ جوش دیرتک قائم نہ رہا۔ جیسے آج بعض سیّد چور بھی ملتے ہیں اور ڈاکو بھی ملتےہیں۔ کچھ نسل تک تو انہوں نے اِس وعدہ کو یاد رکھا لیکن اس کے بعد وہ اس وعدے کو بھول گئے اور حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد سارے عرب میں پھیل گئی۔ بلکہ عرب کے علاوہ شام تک بھی چلی گئی۔ آخر قربِ زمانۂ نبویؐ میں قصی بن حکیم بن نضر کے دل میں خیال آیا کہ ابراہیمی وعدہ کو تو ہم پورا نہیں کر رہے۔ ہمارے دادا نے تو یہ کہا تھا کہ تم یہاں رہو۔ اس گھر کی صفائی رکھو۔ خانۂ کعبہ کے حج اور طواف کے لئے جو لوگ آئیں ان کی خدمت کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنا وقت گزارو۔ مگر ہم اِدھر اُدھر بکھر گئے اور اس خدمت کو جو ہمارے دادا نے ہمارے سپرد کی تھی بھول گئے۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے پیدا ہوا کہ انہوں نے بنو نضر کے اندر یہ تحریک شروع کی کہ آؤ ہم لوگ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر مکّہ میں جابسیں اور خانہ کعبہ کی خدمت کریں۔ یہ مناسب نہیں کہ ہم دنیوی اغراض کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کو بھول جائیں اور جو نصیحت انہوں نے اپنی اولادکو کی تھی اس کی پروا نہ کریں۔ انہوں نے جب ہمارے سپرد یہ کام کیا تھا کہ ہم خانۂ کعبہ کی خدمت کریں تو ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم مکّہ میں چلے جائیں اور خانۂ کعبہ کی خدمت کریں۔ چنانچہ ان کی قوم نے ان کی بات مان لی اور وہ سب مکّہ میں اکٹھے ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نےکی۔ وہ باہر بڑی بڑی اچھی چراگاہوں میں رہتے تھے، وہ تجارتیں بھی کرتے تھے، وہ زمینداریاں بھی کرتے تھے۔ وہ اَور کئی قسم کے کاروبار میں بھی حصہ لیتے تھے مگر یکدم ساری قوم نے اپنی زمینیں چھوڑیں، گلّہ بانی چھوڑی، زمینداری چھوڑی، تجارت چھوڑی اور ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں جہاں آمدن کی کوئی صورت نہیں تھی آبیٹھے۔ میں سمجھتا ہوں اس قربانی کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی کہ ایک قوم کی قوم اپنے پیشے چھوڑ کر محض اس لئے ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں آبیٹھی کہ ان کے دادا ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم مکّہ میں رہو اور جو لوگ یہاں حج اور طواف اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آئیں ان کی خدمت کرو۔ یہ ایک بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نے کی۔

پس چونکہ یہ لوگ متفرق ہونے کے بعد پھر اپنے گھر بار چھوڑ کر مکّہ میں جمع ہو گئے تھے تاکہ ابراہیمی وعدہ کو پورا کریں اس لئے ان کا نام قُریش رکھا گیا۔ … قَرَشَ کے معنے جمع کرنے کے ہیں۔ پس قریش وہ قبیلہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے مکّہ میں جمع کیا گیا اور اسی لئے ان کا نام قریش ہوا۔ انہیں اس لئے قریش نہیں کہتے تھے کہ وہ باقی تمام قبائل عرب پر غالب تھے اور قرش کی طرح ان کو کھا جاتے تھے۔ قریش کو عربوں میں یہ شہرت اور عزت رسول کریم ﷺ کے قریب زمانہ میں حاصل ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہ لوگ مجاوروں کی طرح وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور قبائلِ عرب پر ان کو کوئی غلبہ حاصل نہیں تھا۔ پس قریش کے معنے ہیں وہ قبیلہ جو اردگرد سے اکٹھا کر کے قصی بن کلاب بن نضر نے مکّہ میں آبٹھایا تھا یا یوں کہو کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کچھ اولاد قریش کہلائی کیونکہ وہ اردگرد سے لا کر مکّہ میں بیت اللہ کی خدمت کے لئے لا بٹھائی گئی تھی۔

٭ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قُرَیْش تو تصغیر کا صیغہ ہے اور معنے یہ ہیںکہ مکّہ میں جمع ہو جانے والا ایک چھوٹا سا ٹکڑا یا ایک چھوٹا سا گروہ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آلِ اسماعیل کو ایک چھوٹا سا گروہ یا چھوٹا سا ٹکڑا کہا گیا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ حکم تو سارے بنو اسمٰعیل کو تھا کہ وہ مکّہ میں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور پرستش کریں اور جو لوگ حج اور طواف کے لئے آئیں ان کی خدمت کریں۔ مگر چونکہ بنوکنانہ میں سے صرف نضر بن کنانہ کی اولاد مکّہ میں آکر بسی اور چونکہ وہ سارے بنواسماعیل ؑ میں سے ایک چھوٹا سا گروہ تھا اس لئے وہ قریش کہلائے۔ یہ بتانے کے لئے کہ ہم تھوڑے سے آدمی ہیں جو اپنے داد اابراہیمؑ کی بات مان کر یہاں جمع ہوگئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور جو لوگ خانۂ کعبہ کے حج کے لئے آئیں ان کی خدمت کریں۔ اور شاید اس نام میں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ دوسرے قبائل کو بھی مکّہ میں جمع ہونے کی تحریک ہوتی رہے اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی باقی اولاد کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا رہے کہ جب ہم سے تھوڑے سے لوگ وہاں بس گئے ہیں اور انہوں نے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کر لیا ہے تو ہم بھی تو اولادِ ابراہیمؑ میں سے ہیں اگر ہم بھی وہاں جابسیں اور اپنے دادا کے حکم کو مان لیں تو اس میں حرج کیا ہے۔ پس شاید اس تصغیر میں ایک یہ بھی حکمت ہو کہ اس نام سے باقی بنواسمٰعیل کےد ل میں تحریک ہوتی رہے اور وہ بھی اپنے دادا ابراہیمؑ کی بات کو مانتے ہوئے خداتعالیٰ کے گھر کی خدمت کے لئے مکّہ میں آبسیں۔ پس ممکن ہے کہ اس نام سے انہوں نے دوسرے قبائل کے اندر تحریک کرنے کی ایک صورت پیدا کی ہو اور مکّہ میں ان کے جمع ہونے کےلئے ایک تحریک جاری کی ہو۔

غرض قُصَیّ بن کلاب کی تحریک پر یہ لوگ آئے اورمکّہ میں بس گئے۔ مگر ابتدا میں عرب کی توجہ حج کی طرف اتنی نہیں تھی کہ وہ مکّہ میں کثرت سے آتے جاتے اور خانۂ کعبہ کی برکات سے مستفیض ہوتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ قوم جو اپنے دادا کی ہدایت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی پیشگوئیوں کے باوجود خانۂ کعبہ کو چھوڑ کر چلی گئی۔ اگر حاجی کثرت سے مکّہ میں آتے ہوتے تو ان لوگوں کے رزق کے سامان پیدا ہوتےرہتے اور ان کو مکّہ چھوڑنے کی مجبوری پیش نہ آتی۔ پس آلِ اسمٰعیل کا مکّہ کو چھوڑ کر دوسرے عرب علاقوں میں پھیل جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس وقت تک خانۂ کعبہ کے حج کا رواج عرب میں کم تھا اور بہت تھوڑے لوگ حج کے لئے آتے تھے…۔

پس اگر بنو اسمٰعیل نے مکّہ چھوڑا تو یقیناً اس کے معنے یہ تھے کہ اس زمانہ میں بہت ہی کم لوگ حج کیا کرتے تھے اور ان کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اس لئے یہ لوگ مکّہ سے نکلے اور تمام عرب میں پھیل گئے۔ جب قصی بن کلاب کی تحریک پر یہ لوگ مکّہ میں جا بسے تو یہی دقّت ان کو پیش آئی۔ وہ بس تو گئے مگر چونکہ حاجی بہت کم آتے تھے اور یہ لوگ وہیں رہتے تھے باہر کہیں آتے جاتے نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سخت تنگی اور عُسر کی حالت میں مبتلا ہو گئے اور ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہ رہی بلکہ بعض لوگوں کی تو فاقہ تک نوبت پہنچ گئی اور ان کے لئے اپنی عزت اور زندگی کا قائم رکھنا مشکل ہوگیا۔ مگر پھر بھی قریش کو داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے ان تمام صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور اپنی زبان پر وہ ایک لمحہ کے لئے بھی حرفِ شکایت نہ لائے۔ اول تو ان کی یہی بہت بڑی قربانی تھی کہ انہوں نےاپنے کام کاج چھوڑے، پیشوں کو ترک کیا، تجارتوں کو نظرانداز کیا، زمینداریوں سے منہ موڑا اور ایک وادیٔ غیرذی زرع میں جہاں روزی کا کوئی سامان نہ تھا، اہل وعیال کو لے کر رہنا شروع کر دیا۔ مگر پھر بھی کوئی کہہ سکتا تھا کہ قریش کا مکّہ میں بسنا کوئی ایسی قربانی نہیں جس کی تعریف کی جا سکے کیونکہ مکّہ کی عزت لوگوں میں بہت پھیلی ہوئی تھی اور لوگ وہاں حج کے لئے آتے جاتے تھے۔ اس لئے ممکن ہے وہ دولت یا عزت کی خواہش کی وجہ سے مکّہ میں جا کر بس گئے ہوں۔ سو چونکہ یہ اعتراض پیدا ہو سکتا تھا اس لئے خداتعالیٰ نے ان کی عزت ظاہر کرنے کے لئے پھر دوسری دفعہ ان کو قربانی کا موقع دیا۔ مکّہ میں بسنے کی وجہ سے ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہ رہی۔ حج کی طرف عربوں کو بہت کم توجہ تھی۔ نتیجہ یہ ہو اکہ فاقوں کی وجہ سے جانوں کےا ِتلاف تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ لوگ کافر بھی تھے، مشرک بھی تھے، بے دین بھی تھے اور ان میں سینکڑوں قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں لیکن اس قوم میں بعض غیرمعمولی خوبیاں بھی تھیں۔ مکّہ کے لوگوں میں سے جب کسی خاندان کے پاس کھانے پینے کا سامان بالکل ختم ہو جاتا اور اس کی حالت غیر ہو جاتی۔ وہ دوست بھی جو ان کی حالت سے آگاہ ہوتے مدد سے لاچار ہوتے کیونکہ وہ خود بھی غریب ہی ہوتے تھے تو وہ فاقہ کش لوگ قُصَیّ پر اعتراض شروع کر دیتے تھے کہ اس نے ہمیں غلط تعلیم دی تھی۔ ہم مکّہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم نے بیوقوفی کی کہ ایسی جگہ آبسے جہاں روٹی کا کوئی سامان نہیں تھا بلکہ وہ خاندان اسی وقت اپنا خیمہ اٹھا کر مکّہ سے ذرا باہر چلا جاتا (مکانوں کا رواج عرب میں بہت کم تھا بلکہ اب تک بھی بادیہ کے لوگ خیموں میں رہتے ہیں) اور مکّہ سے دو تین میل پرے اپنا خیمہ لگا لیتا اور اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں لے جاتا تا کہ اس کے رشتہ داروں، دوستوں اور محلّہ والوں کو اس کی اس بُری اور خراب حالت کا پتہ نہ لگے۔ اور وہیں وہ سب کے سب بھوکے مر جاتے۔

مَیں سمجھتا ہوں یہ اس قسم کی قربانی ہے کہ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو وہ فوراً کسی دوسری جگہ جا کر اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوسروں سے سوال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور صبر اور برداشت کی قوت کو بالکل کھو بیٹھتے ہیں۔

٭ وہ لوگ مشرک تھے لیکن ان میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمّت بننے کی قابلیت خداتعالیٰ پیدا کر رہا تھا۔ یہ کتنی بڑی قربانی ہے کہ وہ مکّہ سے کچھ فاصلہ پر خیمے لگا لیتے اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہیں بھوک سے تڑ پ تڑپ کر مرجاتے مگر مکّہ کو نہ چھوڑتے تھے اور نہ دوسرے لوگوں سے سوال کرتے۔ اس سے ایک طرف تو ان کے اس جوش کا پتہ لگتا ہے جو اُن کے دلوں میں خانۂ کعبہ کی خدمت کے متعلق تھا اور دوسری طرف ان کی قناعت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگوں پر بار نہیں بنتے تھے۔ کسی سے کچھ مانگتے نہیں تھے۔ الگ تھلگ ایک خیمہ میں پڑے رہتے اور وہیں سب کے سب مر جاتے۔

٭ مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت جو اس امر کی مدّعی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی نازل کی ہوئی تعلیم پر ایمان رکھتی اور اس کے نور کی حامل ہے اس کے افراد کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد اور آپ کے خاص اَتباع کی اولاد کو مَیں اُن کے اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ دین کے لئے قربانی اورا یثار کا وہ مادہ ابھی تک ان میں پیدا نہیں ہوا جو احمدیت میں داخل ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد ان میں پایا جانا چاہئے تھا۔ ان کا قدم نہایت سست ہے اور ان کے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ ابھی بہت کم ہے۔ یقیناً اس معیار کے ساتھ ہم کبھی بھی دنیا پر غالب نہیں آسکتے۔ جب تک ہم میں سے ہر شخص یہ نہیں سمجھ لیتا کہ وہ غرض جس کے لئے وہ اس سلسلہ میں شامل ہوا ہے اور وہ مقصد جس کے لئے اس نے بیعت کی ہے وہ دوسری تمام اغراض اور دوسرے تمام مقاصد پر مقدم ہے اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنےا یمان کا کوئی اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد کے لئے تو ایسے کام کرنا جن سے دین کی خدمت میں روک پیدا ہو قطعی طور پر ناجائز ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ویسا ہی دنیادار شخص ہے جیسے کوئی اَور۔ لیکن دوسروں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے اندریہ مادہ ہونا چاہئے کہ جب دین کی طرف سے انہیں آواز آئے وہ اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر فوراً چلے آئیں اور اپنے آپ کو دینی خدمات میں مشغول کر دیں۔ اب اگر وہ دنیا کا کام کرتے ہیں تو اس لئے کہ ابھی دین کو ان کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن اگر ضرورت پیش آجائے تو پھر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ بیعت کے وقت انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ اس دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کے آخر کوئی معنے تو ہونے چاہئیں۔ اس کے تم کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ معنے کر لو۔ آخر کسی نہ کسی چیز کو تمہیں بہرحال اپنے کاموں پر مقدم رکھنا پڑے گا۔ اگر اس عہد میں تم مال شامل کرو تو تمہیں مال پر دین کو مقدم رکھنا پڑے گا۔ اگر جان شامل کرو تو تمہیں جان پر دین کو مقدم رکھنا پڑے گا۔ اگر خدمت شامل کرو تو تمہیں ہر قسم کی خدمت پر دین کو مقدم رکھنا پڑے گا۔ بہرحال کوئی نہ کوئی مفہوم تمہیں اس اقرار کا تسلیم کرنا پڑے گا اور جب یہ اقرار ہر احمدی نے کیا ہے تو ہماری جماعت کے افراد کو سوچنا چاہئے کہ اس اقرار کے بعد وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے احمدی موجود ہیں جو سو میںسے 51 روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔ مقدم کے معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ مَیں اَور کاموں پر اس کام کو ترجیح دیتا ہوں۔ اگر انہیں سو روپیہ اپنے اخراجات کے لئے ملتا ہے اور وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام کاموں پر دین کو مقدّم سمجھتے ہیں تو اس کا ثبوت اسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ سو میں سے 51 روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔مگر کیا وہ ایسا کرتے ہیں؟ کیا وہ دن رات کے 24 گھنٹوں میں سے تیرہ گھنٹے دین کے کاموں پر صَرف کرتے ہیں؟ یا قربانی اور ایثار کے لحاظ سےوہ اپنے بیوی بچوں اور دوسری چیزوں پر دین کو مقدم کرتے ہیں؟ یا وطن کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدم سمجھتے ہیں؟ یا جان کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدم سمجھتے ہیں؟ آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہئے جس کے لحاظ سے وہ کہہ سکتے ہوں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم کررہے ہیں۔

٭ اگر ہر احمدی اس نقطۂ نگاہ سے غور کرے اور اسے اپنے اندر ایک بات بھی ایسی نظر نہ آئے جس میں وہ دین کو دنیا پر مقدم کر رہا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض منافقت کی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہوں مگر عمل یہ ہے کہ وہ کسی ایک چیز کے لحاظ سے بھی دین کو دنیا پر مقدم نہیں کرتا۔ آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہئے جس کے متعلق وہ کہہ سکے کہ مَیں فلاں چیز کے لحاظ سے دین کو دنیا پر مقدم کر رہا ہوں۔ اور اس عہد کا کوئی نہ کوئی مفہوم تو ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عہد ہم سے صرف اتنا تقاضا نہیں کرتا کہ ہم کسی ایک پہلو میں دین کو دنیا پر مقدم کریں بلکہ ہر بات میں اور اپنے ہر کام میں ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے ہر کام میں دین کو دنیا پر مقدم نہیں کر سکتا اسے کم از کم یہ تو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کسی ایک کام میں ہی دین کو دنیاپر مقدم رکھے تاکہ وہ کہہ سکے کہ میں اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ کوشش خواہ وہ مال کے لحاظ سے کرے، خواہ تجارت کے لحاظ سے کرے، خواہ پیشہ کے لحاظ سے کرے، خواہ وطن کی محبت کے لحاظ سے کرے، خواہ ملازمت کے لحاظ سے کرے، خواہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے تعلقات کے لحاظ سے کرے، خواہ عبادت کے لحاظ سے کرے، خواہ قربانی اور ایثار کے لحاظ سے کرے، بہرحال کوئی ایک چیز تو ایسی ہونی چاہئے جسے وہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہو اور کہہ سکتا ہو کہ جن کاموں کا مجھے موقع ملا ہے ان میں مَیں نے دین کو دنیا پر مقدم کر لیا ہے اور جو باقی کام ہیں ان میں بھی مَیں پوری طرح تیار ہوں کہ اس عہد کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروں۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا دعویٰ ٔ ایمان محض ایک منافقانہ فعل ہے جو اس کے کسی کام نہیں آسکتا۔

تم قریش کے اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ باوجود اس کے کہ یہ لوگ سچے دین کے حامل نہیں تھے، باوجود اس کے کہ یہ لوگ بُت پرستے تھے، باوجود اس کے کہ یہ لوگ بے دین تھے۔ انہوں نے کتنی عظیم الشان قربانی کی۔ یہ لوگ اپنی قوم پر بوجھ نہیں بنے۔ انہوں نے کہا ہم خدا کے لئے آئے تھے۔ ہماری قوم کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری خدمت کرے۔ وہ خیمہ اٹھا کر مکّہ سے باہر چلے جاتے۔ باپ کے سامنے اس کا بیٹا مرتا، ماں کے سامنے اس کی بیٹی مرتی، بیوی کے سامنے اس کا خاوند مرتا، بچوں کے سامنے ان کا باپ مرتا، دوست کے سامنے دوست اور رشتہ دار کے سامنے رشتہ دار مرتا مگر کیا مجال کہ ان کی زبان پر کوئی شکایت آتی۔ کیا مجال کہ وہ اس جگہ کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے۔ اتنی بڑی مصیبت دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے اس جگہ کو نہیں چھوڑا۔ وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے۔ وہ کسی نشان کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے، وہ کسی تازہ تعلیم پر ایمان لا کر وہاں نہیں آئے تھے۔ دو ہزار سال پہلے ان کے دادا ابراہیمؑ نے ایک بات کہی تھی اور وہ اپنے دادا کے وعدہ کے مطابق اس سرزمین میں آبسے۔ ان پر فاقے آئے مگر انہوں نے اس جگہ کو نہ چھوڑا۔ انہوں نے سالہا سال غربت اور تنگی اور اِفلاس میں اپنی زندگی کے دن بسر کئے۔ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ان کے پاس گزارہ کا کوئی سامان نہیں تھا۔ مگر انہوں نے کہا ہم اس مقام کو اب نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم مٹ جائیں گے ہم ایک ایک کر کے فنا ہو جائیں گے۔ مگر ہم مکّہ کو چھوڑ کر کہیں باہر نہیں جائیں گے۔ یہ اتنی عظیم الشان قربانی ہے کہ یقیناً اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

بہرحال اسی طرح مکّہ میں ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ہاشم بن عبد مناف جو رسول کریم ﷺ کے پڑدادا تھے ان کا وقت آگیا۔ جب انہوں نے یہ حال دیکھا تو سمجھا کہ اس طرح تو قوم فنا ہو جائے گی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور ان میں تقریر کی کہ جو طریق تم نے ایجاد کیا ہے یہ اپنی ذات میں تہوّر کے لحاظ سے تو بڑا اچھا ہے مگر اس طرح وہ کام پورا نہیں ہو گا جس کے لئے تم لوگ مکّہ میں آئے ہو۔ اگر یہی طریق جاری رہا اور تم میں سے اکثر مر گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مکّہ خالی ہو جائے گا۔ بے شک جوش و خروش اور عزم کی پختگی کے لحاظ سے یہ کام ایسا شاندار ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر عقل کے لحاظ سے یہ اچھا نہیں۔ کوئی ایسی تدبیر ہونی چاہئے کہ ہم سب لوگ مکّہ میں بھی رہیں اور اس قسم کی موت بھی ہم میں واقعہ نہ ہو۔

غالباً ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا ہو گا کہ اس طریق کو جاری رہنے دیا گیا تو دوسری قوموں پر اس کا بُرا اثر پڑے گا اور وہ کہیں گی یہ لوگ خدا کے لئے مکّہ میں بیٹھے ہوئے تھے مگر بھوکے مر گئے۔ پس اس طرح خدا کا احترام کم ہو جائے گا اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ خداتعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے آپ کو اس طرح رکھنا چاہئے کہ ہمارا عزاز دنیا میں قائم ہو اور دوسرے عرب قبائل سے ہماری حالت اچھی ہو۔ مکّہ والوں نے ہاشم کی بات سن کرکہا آپ جو تدبیر بتائیں ہم اسے ماننے کے لئے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا میری تجویز تو یہ ہے کہ ہم لوگ رہیں تو مکّہ میں ہی مگر اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لئے تجارت شروع کر دیں۔ یوں بھی اپنی ذاتی اغراض کے لئے ہم بعض دفعہ سفر کر لیتے ہیں۔ اگر آئندہ ہم بعض سفر محض تجارت کی خاطر کریں تو اس سے ہماری گری ہوئی حالت بہت کچھ سدھر جائے گی اور ہماری پریشانی دُور ہو جائے گی۔ زراعت کی تجویز آپ نے اس لئے نہ کی کہ مکّہ میں زراعت کی کوئی صورت نہیں تھی۔ دوکانداری کی تجویز آپ نے اس لئے نہ کی کہ دوکاندار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ رات دن دوکان پر بیٹھا رہے۔ آپ نے سمجھا کہ اگر لوگوں نے دوکانداری شروع کر دی تو خدمت کعبہ کا وہ موقع جو اَب انہیں مل رہا ہے اس سے وہ محروم ہو جائیں گے۔ چنانچہ آپ نے یہ تجویز کی کہ قوم کا روپیہ لے کر ہر سال دو سفر کئے جائیں۔ ایک سفر سردی کے موسم میں کیا جائے جو یمن کی طرف ہو اور ایک سفر گرمی کے موسم میں کیا جائے جو شام کی طرف ہو۔ شام بوجہ سرد مقام ہونے کے گرمی کے سفر کے لئے موزوں تھا اور یمن بوجہ گرم مقام ہونے کے سردی کے سفر کے لئے موزوں تھا۔ آپ نے تجویز کیا کہ ہر سال اہل مکّہ کے نمائندہ قافلے یہ دو سفر محض تجارت کی غرض سے کیا کریں اور تجارت بھی قوم کے لئے کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم بن عبد مناف نے دنیا میں یا کم سے کم عرب میں سب سے پہلے کمپنی سسٹم جاری کیا ہے۔ یوں تو تاجر دنیا میں ہمیشہ تجارت کیا ہی کرتے ہیں۔ زید تجارت کی غرض سے باہر جاتا اور سودا لے کر آجاتا ہے تو پھر اسے زیادہ مہنگے داموں پر وہ وفروخت کر دیتا ہے۔ مگر یہ کہ سفر کسی فرد کا نہ ہو بلکہ قومی طور پر تمام قبیلہ کا مشترکہ سرمایہ لے کر سفر کیا جائے اس کی ابتداکم سے کم عرب میں ہاشم بن عبد مناف سے ہی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا بہت اچھا ہمیں منظور ہے۔ چنانچہ قافلے جانے لگے۔ جب بھی کوئی قافلہ جاتا تو ہر شخص دس بیس پچاس یا سو روپیہ جتنا دینا چاہتا قافلہ والوں کے سپرد کر دیتا۔ پھر ان میں سے ایک کو رئیس بنا دیا جاتا۔ اور باقی لوگ اہلِ مکّہ کی طرف سے نمائندہ بن کر اس سفر پر روانہ ہو جاتے۔ امرا جن کی حالت کچھ اچھی تھی وہ بعض دفعہ تجارت کی غرض سے اپنے غلام بھی ان سفروں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ ان کا طریقِ تجارت یہ تھا کہ وہ مکّہ سے روانہ ہوتے وقت ایسی چیزیں اپنے ساتھ لے لیتے تھے جو اُن کی نظروں میں متبرک ہوتی تھیں اور جہاں جہاں عرب قبائل میںسے گزرتے وہاں مکّہ کے تبرّکات انہیں دیتے جاتے۔ مثلاً آبِ زمزم کے کچھ مشکیزے بھر کر اپنے ساتھ رکھ لیتے۔ چونکہ عرب قبائل کو خانۂ کعبہ سے بہت عقیدت تھی اس لئے جب انہیں گھر بیٹھے آبِ زمزم میسر آجاتا یا اسی طرح کی بعض اور چیزیں مل جاتیں تو وہ بہت خوش ہوتے اور قریش کو نہایت ادب اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے۔ اسی طرح اَور بھی کئی چیزیں وہ اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے۔ مثلاً مکّہ میں لوہارے کا کام اچھا ہوتا ہے وہ لوہے کی تیار شدہ چیزیں لے لیتے۔ اسی طرح کھجوریں اپنے ساتھ رکھ لیتے اور یہ سب چیزیں رستہ میں فروخت کرتے جاتے۔ پھر جہاں عرب قبائل میں ٹھہرتے اور دیکھتے کہ وہاں کوئی چیز ایسی ہے جو شام میں اچھے داموں پر فروخت کی جا سکتی ہے تو وہ ان قبائل سے ایسی چیزیں خود خرید لیتے اور شام میں جا کر فروخت کر دیتے۔ پھر جب شام سے آتے تو وہاں سے دو قسم کا مال خرید لیتے۔ کچھ تو مکّہ والوں کے لئے اور کچھ راستہ میں آنے والے عرب قبائل میں فروخت کرنے کے لئے۔ اس طرح ان کو نفع بھی حاصل ہوتا اور شام اور دوسرے عرب علاقوں کا مال بھی مکّہ میں آجاتا۔ اسی طرح سردیوں میں وہ یمن کا سفر کیا کرتے تھے۔ مکّہ اور یمن کے درمیان بھی بڑا لمبا فاصلہ تھا اور اس راستہ پر بھی مختلف عرب قبائل آباد تھے۔ اس سفر میں بھی وہ تمام لوگوں کو مکّہ کے تحائف دیتے اور ان سے عمدہ عمدہ چیزیں خریدتے ہوئے یمن پہنچ جاتے اور یمن میں تمام مال فروخت کرکے وہاں کی مصنوعات اور غلّہ وغیرہ کچھ مکّہ والوں کے لئے اور کچھ رستہ کے عرب قبائل میں فروخت کرنے کےلئے لے آتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند سال میں ہی مکّہ کی دولت سارے عرب سے زیادہ ہو گئی۔

ان کا یہ بھی طریق تھا کہ جب قافلہ واپس آتا تو ہر آدمی جس کا اس تجارت میں حصہ ہوتا تھا وہ اپناآدھا حصہ غرباء کے لئے نکال دیتا تھا۔ مثلاً ایک شخص کو دو سو روپیہ نفع حاصل ہوا تو سو روپیہ وہ خود رکھ لیتا تھا اور سو روپیہ قومی فنڈ میں دےد یتا تھا۔ اس طرح غرباء کے گزارہ کے لئے ایک کافی رقم نکل آتی تھی۔ فرض کرو ایک دفعہ قافلہ گیا اور اسے ایک لاکھ روپیہ نفع حاصل ہوا تو پچاس ہزار روپیہ اسی وقت غرباء میں تقسیم کرنے کے لئے علیحدہ کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح ایک قلیل مدت میں غرباء کی حالت بھی بہت بہتر ہو گئی۔ چنانچہ ایک عرب شاعر مکّہ والوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مکّہ کے لوگ ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مالک ہیں کہ وہ اپنا آدھا مال غرباء میں بانٹ دیتے ہیں اور اس طرح ان کے غریب بھی امیرکے برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ایک مبالغہ ہے کیونکہ سارے مکّہ میں زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس مالدار ہوں گے اور سارے شہر کی آبادی پندرہ بیس ہزار ہو گی۔ وہ اپنا نصف نصف مال تقسیم بھی کریں تو بہت تھوڑا روپیہ لوگوں کو مل سکتا تھا۔ لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان سفروں کے نتیجہ میں ان کی حالت اچھی ہو گئی اور وہ موت جو محض فاقوں کی وجہ سے ان پر آرہی تھی اس سے انہوں نے نجات حاصل کر لی۔ اس کے بعد قریش اس طریق پر برابر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام آگیا اور مکّہ والے باقی سارے عرب سے زیادہ امیر ہو گئے اور دوسروں سے زیادہ معزز بھی ہو گئے۔

ان مذکورہ بالا واقعات سے دو باتیں نکلتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بنو اسمٰعیل وعدۂ ابراہیمی کی پابندی کرتے ہوئے مکّہ میں بیٹھ نہیں رہے بلکہ شروع میں ہی وہ مکّہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر پھیل گئے تھے۔ قُصَیّ بن کلاب نے تحریک کر کے دوبارہ انہیں مکّہ میں بسایا۔ پس جو لوگ ان کے کہنے پر مکّہ میں آبسے ان کو قریش کہا جانے لگا۔ یعنی وہ لوگ جو پہلے بکھرے ہوئے تھے مگر پھر قصی کی تحریک پر دوبارہ مکّہ میں جمع ہوئے۔

دوسری بات ان واقعات سے یہ نکلتی ہے کہ مکّہ میں بسنے کی وجہ سے یہ لوگ غریب ہو گئے تھے۔ ہاشم جو رسول کریم ﷺ کے پڑدادا تھے انہوں نے تحریک کی کہ یہ لوگ شام اور یمن کا سفر کیا کریں تاکہ ان کی حالت اچھی ہو۔

٭ اگر ہم عربوں کی ایک نسل کی عمر 30 سال فرض کر لیں تو یہ تحریک رسول کریم ﷺ کی پیدائش سے کوئی سوا دو سو سال پہلے شروع ہوئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے درمیان کوئی 22۔23 سو سال کا فرق تھا۔… اس میں سے یہ سوا دو سو سال نکال دیں تو باقی دو ہزار سال رہ گئے۔ یہ دو ہزار سال کا زمانہ ایسا تھا جس میں قوم اپنا فرض بھولی رہی۔ دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جوں جوں اوپر کی نسل کی طرف جائیں ماں باپ کی یاد اولاد کے دلوں میں زیادہ قائم ہوتی ہے اور جوں جوں نیچے کی طرف آئیں یہ یاد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ کا قرب جس نسل کو حاصل تھا اسے قدرتاً وہ وعدے زیادہ یاد ہونے چاہئے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام سے ہوئے۔ کیونکہ دنیا میں طریق یہی ہے کہ باپ کو بیٹا زیادہ یاد رکھتا ہے۔ پوتا اس کی یاد کو کم کر دیتا ہے اور پڑپوتا اس کی یاد کو اور بھی کم کر دیتا ہے یہاں تک کہ چار پانچ پشت میں تو اولاد اپنے دادا پڑدادا کو بالکل ہی بھول جاتی ہے۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جائے تو انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ چنانچہ تمام بڑی بڑی قوموں کو دیکھ لو سب میں یہی کیفیت نظر آئے گی۔ مثلاً رسول کریم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد نے جو ابتدا میں قربانیاں کیں وہ کتنی حیرت انگیز ہیں۔ مگر اب سادات کو دیکھ لو ان کی کیا حالت ہے۔ ان میں سے اکثر ایسے ملیں گے جو اسلام سے کوسوں دُور ہیں حالانکہ وہ رسول کریم ﷺ کی بیٹی کی اولاد ہیں۔

٭ غرض طبعی طریق کو اگر مدّنظر رکھا جائے تو شروع زمانہ میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا اثر ان کی قوم پر زیادہ ہونا چاہئےتھا اور دو ہزار سال کے بعد تو ایسی جاہل اور اَن پڑھ قوم میں سے ان کا ذکر بالکل مٹ جانا چاہئے تھا۔ مگر ہو ایہ کہ عین دو ہزار سال کے بعد پھر ان میں ایک تحریک پیدا ہوئی اور وہ اپنے دادا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مکّہ میں آبسے۔وہ بھوکے بھی رہے، وہ ننگے بھی رہے، وہ تکلیفیں بھی برداشت کرتے رہے مگر انہوں  نے مکّہ کو نہ چھوڑا۔

٭ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا اتفاق تھا جس نے دو ہزار سال کے بعد قوم میں خانۂ کعبہ کے گرد بسنے کا پھر احساس پیدا کر دیا۔ علم النفس کے ماتحت اگر ہم غور کریں تو دو ہزار سال کے بعد یہ ذکر قوم میں سے بالکل مٹ جانا چاہئے تھا۔ مگر ہوا یہ کہ دو ہزار سال کے بعد یکدم ان میں ایک شخص پیدا ہوا اور اس نے کہا کہ ہم کو پھر مکّہ میں جمع ہو جانا چاہئے اور اولادِ اسمٰعیل میں سےا یک قبیلہ باوجود ہر قسم کے مخالفانہ حالات کے مکّہ میں بیٹھ جاتا ہے اور خانہ کعبہ کی خدمت اور مکّہ کی حفاظت کا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور پھر یہ لوگ اس کام کو اتنی محبت اور اتنے پیار سے سر انجام دیتے ہیں کہ وہ بھوکے مرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہیں۔ ان کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں مرتی ہیں۔ مگر وہ مکّہ کو چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ اتنا شدید احساس دو ہزار سال گزرنے کے بعد ان لوگوں میں کیوں پیدا ہوا؟ اور پھر اسی قبیلہ کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا ہوا جس میںسے محمد رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونا تھا۔

ایک معمولی غور سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ قدرت کی ایک انگلی تھی جس نے قوم کو اشارہ کیا کہ جس بات کے لئے تمہارے باپ دادا نے اس مکّہ کو آباد کیا تھا اس کا وقت اب بالکل قریب آرہا ہے۔ جاؤ اور مکّہ میں رہو۔ ورنہ یہ اتفاق کس طرح ہو سکتا ہے کہ دو ہزار سال اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد ایک بڑی قوم کا صرف وہی ٹکڑا مکّہ میں جمع ہوتاجس میں سے آنے والے موعود نے پیدا ہونا تھا۔ دشمن کہہ سکتاہے کہ محمد رسول اللہ ﷺنے نعوذباللہ جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ اس جھوٹے کی آمد سے پہلے تمام قوم چاروں طرف سے اکٹھی ہو کر مکّہ میں آجاتی ہے اور اس لئے آتی ہے کہ ہمارے دادا ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ تم اس مقام پر رہو اور اسے آباد رکھو کہ یہ عالمگیر مذہب کا مرکز بننے والا ہے۔یہ عظیم الشان تغیر جو یکدم بنو اسمٰعیل میں پیدا ہو ااور جس نے ان میں تہلکہ ڈال دیا بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وعدہ کےمطابق ہوا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (البقرۃ 130) اےمیرے ربّ! ان مکّہ والوں میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو۔ وہ انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیری کتاب کا علم ان کو دے۔ حکمت کی باتیں ان کو سکھائے۔ اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے۔ اس دعائے ابراہیمی سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ رسول مکّہ میں آئے گا اور مکّہ کے رہنے والوں سے سب سے پہلے کلام کرے گا۔ اگر مکّہ آباد نہ ہوتا تو وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا کی دعا کس طرح پوری ہوتی اور وہ کون سے لوگ تھے جن میں یہ رسول مبعوث ہوتا۔ اسی طرح ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ وہ انہیں کتاب اور حکمت سکھائے۔ اگر مکّہ آباد نہ ہوتا تو وہ کون لوگ تھے جن کو کتاب اور حکمت سکھائی جاتی۔ پھرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ وہ رسول ان کو پاک کرے۔ا گر وہاں کوئی آدمی ہی نہ ہوتا تو اس رسول نے پاک کن کو کرنا تھا۔ اگر مکّہ آباد نہ ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ چار دعائیں کی تھیں ان میں سےا یک بھی پوری نہ ہو سکتی۔ پس یہ اتفاق نہیں تھا بلکہ جو کچھ ہوا الٰہی سکیم اور اس کے منشاء کے مطابق ہوا۔ دشمن کہہ سکتا ہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ نے نعوذ باللہ جھوٹا دعویٰ کر دیا مگر اس امر کو کون اتفاق کہہ سکتا ہے کہ دو ہزار سال تک ایک قوم اِدھر اُدھر بھٹکتی پھرتی ہے۔ وہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی تمام پیشگوئیوں کو فراموش کر دیتی ہے مگر جب زمانۂ محمدی قریب آتا ہے تو یکدم اس قوم میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہے ہم سے یہ کیا بے وقوفی ہوئی کہ ہم اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ ہمارے دادا نے تو ہم سے کہا تھا کہ مکّہ میں رہو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ہمارے دادا نے تو کہا تھا کہ تمہاری تمام ترقی مکّہ میں رہنے سے وابستہ ہے۔ مگر ہم کہیں کے کہیں پھرتے رہے۔ اور وہ پھر مکّہ میں آکر بس جاتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ مکّہ میں کوئی کارخانہ کھل گیا تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہاں تجارتیں اچھی ہوتی تھیں۔ اس لئے نہیں کہ وہاں زراعت اچھی تھی۔ بلکہ صرف اس لئے کہ ابراہیمؑ نے انہیں ایک بات کہی تھی اور وہ اس پر عمل کرنے کے لئے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ پس یہ اتفاق نہیں بلکہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے ازلی فیصلہ کے مطابق ہوا۔

٭ پھر میرے نزدیک با لکل ممکن ہے کہ اس اجتماع میں یہودی اور نصرانی روایات کا بھی دخل ہو کیونکہ قوم کو دوبارہ سمجھانے والے قصّی تھے جن کے تعلقات نصاریٰ اور یہود سے تھے۔ تعجب نہیں کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں میں یہ چرچے شروع ہوئے ہوں کہ نبی مختون کی آمد کا وقت قریب ہے اور یہود و نصاریٰ کے علماء سے انہوں نے سنا ہو کہ موعود نبی عرب میں ظاہر ہونے والا ہے تو اپنی قومی روایات کو ملا کر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ اگر موعود نبی عرب میں آیا تو پھر مکّہ میں ہی آئے گا…اور ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ خدا تو ہمارے گھر میں نبوت کا چشمہ پھوڑنےوالا ہے اور ہم اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے اپنی قوم کو یہ نصیحت کی ہو کہ آؤ اور مکّہ میں اکٹھے ہو جاؤ تا کہ آنے والے ظہور سے فائدہ اٹھا سکو۔

٭ مَیں نے اوپر کہا تھا کہ خدا کی انگلی نے انہیں اشارہ کیا اور وہ مکّہ میں جمع ہو گئے۔لیکن اب میں کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے یہود اور نصاریٰ سے آنے والے نبی کی باتیں سنیں اور جب انہیں معلوم ہو اکہ عرب میں ایک نبی آنے والا ہے تو اپنی قومی روایات اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدے ملا کر انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہو کہ وہ نبی مکّہ میں پیدا ہونے والا ہے۔ بظاہر ان دونوں میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن درحقیقت کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے کہ اگر انہوں نے یہود اور نصاریٰ سے سن کر ایسا کیا تب بھی یہو داور نصاریٰ نے جو کچھ بتایا وہ خدائی پیشگوئیاں تھیں اور خدائی پیشگوئیاں بھی قدرت کی انگلی ہوتی ہیں جو بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتی ہیں۔ اور اگر انہوں نے ان پیشگوئیوں کو نہیں سنا تب بھی یہ خدا ئی انگلی اور اس کی قدرت کا ایک زبردست ہاتھ تھا کہ جس بات کا انہیں دو ہزار سال تک خیال نہ آیا وہ نبی عرب کے ظہور سے سوا دو سو سال پہلے انہیں یاد آگئی اور ایسی یاد آئی کہ ہزاروں تکالیف کے باوجود وہ مکّہ میں آکر بس گئے۔ پس اگر وہ یہود و نصاریٰ کی باتیں سن کر آئے تب بھی اور اگر وہ خود بخود آئے تب بھی، جو کچھ ہوا قدرت کے اشارہ کے ماتحت ہوا اور اس طرح اپنی قوم کو وہاں جمع کر کے وہ خدائی تدبیر کا آلۂ کار بن گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button