الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

(مرتبہ محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 اپریل 2012ء میںمکرمہ ر۔امجد صاحبہ اپنے والد محترم مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب کا اختصار سے ذکرخیر کرتی ہیں۔

مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب دسمبر 1924ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ ابتدائی تعلیم شیخوپورہ سے حاصل کی اور 1942ء میں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ 1943ء میں جب محاذِ جنگ پر جانے کا حکم ملا تو روانگی سے پہلے ایک دن کی رخصت لے کر قادیان پہنچے۔ جلسہ سالانہ کے ایّام تھے۔ آپ کے پوچھنے پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ انفرادی ملاقاتیں نہیں ہوسکتیں۔ آپ نے بہت منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔ تب آپ دفتر سے الگ ایک کونے میں جاکر نصف گھنٹہ دعا کرتے رہے اور پھر دوبارہ سیکرٹری صاحب سے کہا کہ میں فوج سے بڑی مشکل سے چوبیس گھنٹے کی رخصت لے کر آیا ہوں … لیکن جواب وہی ملا کہ انفرادی ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس پر آپ خاموشی سے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں اوپر سے حضورؓ کا فون آگیاکہ جو ملاقاتی سیڑھیوں پر کھڑا ہے اُسے اوپر بھیج دو۔

یہ ملاقات واقعی ایک معجزہ تھا۔ آپ دو زانو ہو کر حضورؓ کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت روئے اور بصد مشکل یہ کہہ سکے کہ حضور میں محاذ پر جا رہا ہوں، میری سلامتی کی دعا کریں۔ حضورؓ کی دعا کی قبولیت کا اعجاز اُسی روز سے شروع ہوگیا۔ چنانچہ واپس آکر جب محاذ پر جا رہے تھے تو رستہ میں ہی علم ہوا کہ جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جب کلکتہ پہنچے تو جاپان نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور جنگ ختم ہوگئی۔

حضورؓ کی سلامتی کی دعا پھر ساری زندگی آپ کے ساتھ رہی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں جب سابق فوجیوں کو بلوایا گیا تو آپ بھی حاضر ہوگئے۔ لیکن دونوں مرتبہ یہی ہوا کہ محاذ کی طرف جاتے ہوئے جب رسالپور تک پہنچے تو جنگ ختم ہونے کا اعلان ہوگیا۔

1947ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر حفاظتِ مرکز کے لئے بھی حاضر ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں ڈیوٹی دینے کی سعادت پائی۔ 1949ء میں محمد آباد سٹیٹ (سندھ) میں بطور ٹریکٹر مکینک ملازمت مل گئی۔ وہاں حضرت مصلح موعودؓ کی تشریف آوری کے مواقع پر حضورؓ کو دبانے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ لیکن سانس کی تکلیف ہوجانے کے باعث ڈاکٹروں کے مشورے پر پھر پنجاب آنا پڑا۔ سندھ میں پانچ سال رہے۔

پھر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں سرکاری ملازمت مل گئی۔ کئی مقامات پر تعینات رہے۔ شدید مخالفت میں بھی آپ نے کبھی اپنے احمدی ہونے کو نہیں چھپایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حفاظت کی اور دشمن ناکام رہے۔ آپ کی عادت تھی کہ جب بھی وقت ملتا تو نوافل ادا کرتے۔ خدمت دین میں ہمیشہ سرگرم رہے۔ لیّہ میں 9سال تک سیکرٹری مال رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ آغازِ خلافت میں دو سال لیّہ کے علاقہ میں شکار کھیلنے تشریف لے جاتے رہے تو آپ کو بھی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ضلع مظفرگڑھ میں قائمقام قائد ضلع خدام الاحمدیہ اور قائمقام امیر ضلع کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کیں۔ 1970ء میں قائد آباد (ضلع سرگودھا) میں تبادلہ ہو گیا۔ یہاں سیکرٹری مال اور امام الصلوٰۃ کے فرائض ادا کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سرگودھا میں رہائش پذیر ہو ئے اور محترم مرزا عبدالحق صاحب کی صحبت میں وقت گزارا۔ جماعت کے مختلف شعبوں کے علاوہ زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 1998ء سے ربوہ میں رہائش اختیار کرلی اور یہاں بھی اپنے محلہ کے بارہ سال تک سیکرٹری تحریک جدید اور دو سال قائمقام صدر بھی رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب دَورِاوّل کے مجاہدین کے کھاتے ازسرنَو جاری کرنے کا ارشاد ورثاء فرمایا تو آپ نے پہلے اپنے بھائی محترم منشی محمد نذیر صاحب کا 1934ء تا 2034ء تک کا چندہ ادا کیا اور پھر دیگر احباب کو تلقین شروع کی۔ آپ خود بھی تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے آنے والی ہر تحریک میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ موصی بھی تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بے حد خیال رکھنے والے، منکسر المزاج، صلہ رحمی کرنے والے، ملنسار، مہمان نواز اور خلافت سے بے پناہ محبت کا جذبہ رکھنے والے تھے۔

آپ فرمایا کرتے تھے کہ تمام زندگی خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ایسا سلوک رہا ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر چلاتا ہے۔ آپ نے ’’کاروان حیات‘‘ کے نام سے اپنے حالاتِ زندگی مرتّب کئے ہیں جن کے آخر میں یہ نصیحت کی ’’اے میرے عزیزو! خلیفہ وقت سے دلی وابستگی جاں نثاری ہر دکھ درد کا مداوا بن جاتی ہے۔ اے میرے پیارو! خلافت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا اسی میں تمہاری فلاح اور اسی میں تمہاری دین و دنیا کی بے پناہ دولت کا راز ہے‘‘۔

حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ بے حد شوق سے کرتے، انہیں بہت سنبھال کر رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے۔ آپ ایک بھرپور زندگی گزار کر 18ستمبر 2011ء کو نماز فجر ادا کرنے کے بعدبعمر 86 سال اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

…ژ…ژ…ژ…

محترم مظفر حسن صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 مئی2012ء میں مکرمہ ص۔حسن صاحبہ نے اپنے والد محترم مظفر حسن صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپ کے پڑدادا حضرت حاجی عبدالعظیم صاحبؓ نے احمدیت قبول کی تھی لیکن اُن کی اولاد میں سے کوئی بھی احمدی نہ ہوا۔

محترم مظفر حسن صاحب کے والد محمد مقبول صاحب چین میں کاروبار کرتے تھے اور لمبے عرصہ کے بعد چند ایّام کے لئے گھر آیا کرتے تھے۔ آپ 24مارچ 1920ء کو سیالکوٹ کے گاؤں کلاس والا میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل تین بھائی اور دس بہنیں تھیں۔ آپ کی پیدائش کے وقت گاؤں میں چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس نے آپ کو اور آپ کی والدہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نتیجۃً آپ کا ایک کان اور ایک آنکھ ضائع ہوگئے۔

آپ کے بچپن میں ہی آپ کے والد اپنی فیملی کو چین لے گئے جہاں سے چند سال کے بعد ہانگ کانگ منتقل ہوگئے۔ آپ نے میٹرک وہیں سے کیا تو پھر یہ فیملی مستقل طور پر سیالکوٹ میں آبسی جہاں آپ نے مَرے کالج سے اعلیٰ نمبروں میں F.Sc کیا اور پھر انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے دہلی چلے گئے۔ یہ اتفاق تھا کہ وہاں کرایہ کے جس مکان میں رہائش پذیر ہوئے، وہاں دیگر دوست احمدی تھے۔ اُن کی تبلیغ کے نتیجہ میں آپ نے 1943ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ والدین کو علم ہوا تو انہوں نے ناراض ہوکر قطع تعلق کرلیا اور خرچ دینا بند کردیا۔ اس لئے تیسرے سال میں آپ کو تعلیم ادھوری چھوڑکر مجبوراً ملازمت کرنی پڑی۔ لیکن تب بھی آپ اپنی تنخواہ کا نصف اپنی والدہ کو بھیجتے رہے۔

آپ کی شادی 1946ء میں رشتہ کے چچا کی بیٹی امۃاللہ صاحبہ سے ہوگئی۔ پاکستان بننے کے بعد آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں نیول ہیڈکوارٹر کے ایڈمنسٹریٹو سیکشن میں آپ کا تقرّر ہوا۔ اس دفتر میں دس گیارہ سال کام کیا لیکن رشوت نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہ ہوسکی۔ آخر دلبرداشتہ ہو کر یہ ملازمت 1958ء میں چھوڑ دی اور کویت چلے گئے۔ وہاں ایک نجی تجارتی کمپنی میں قریباً چالیس سال تک ملازمت کی۔ اس دوران آپ کی اہلیہ اپنے بچوں کے ہمراہ ربوہ میں رہائش پذیر رہیں۔ لمبا عرصہ الگ الگ رہتے ہوئے دونوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑی ہمت، صبر اور حوصلے سے بااحسن ادا کیں۔

محترم مظفر حسن صاحب حقوق اللہ اور حقوق العباد پوری جانفشانی اور توجہ سے ادا کرنے والے تھے۔ دورانِ ملازمت بھی ہر کام چھوڑ کر وقت پر نماز ادا کرتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں اپنا گھر بنایا تو پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرنے جاتے۔ تہجد کا بھی التزام کرتے اور لمبے لمبے سجدوں والے نوافل ادا کرتے۔ بہت دعا گو تھے۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرتے اور تفسیر کا مطالعہ ساری زندگی جاری رہا۔ رمضان کے بعد شوّال کے روزے بھی باقاعدگی سے رکھتے۔ صدقہ و خیرات کا خاص اہتمام کرتے۔ چندے آغاز میں ہی ادا کردیتے۔ کویت میں لمبا عرصہ سیکرٹری مال کے فرائض انجام دیئے اور ہر ماہ سب سے پہلی رسید اپنے چندوں کی کاٹتے۔ ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور جلد ادائیگی کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کرنے کی بھی سعادت عطا فرمائی۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے لیکن مخالفت کے باوجود سلسلہ سے مضبوطی سے منسلک رہے۔ 1966ء میں وصیت کرلی اور حصّہ جائیداد کی تمام ادائیگی مکمل کر کے سرٹیفکیٹ اپنی زندگی میں ہی حاصل کرلیا۔

حقوق العباد میں مثالی نمونہ تھے۔ عقیدہ میں فرق کے باوجود اپنے والدین اور بھائی بہنوں کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ والدین کو حج کروایا، بہنوں کی شادیاں کیں اور آخری دَم تک فرائض ادا کرتے رہے۔ وفاشعار شوہر تھے، بیوی کے تمام تر حقوق خوش دلی سے ادا کرتے تھے۔

اپنی اولاد سے بہت پیار کرتے اور دُور رہتے ہوئے بھی اُن کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا۔ ہر بچے سے فرداً فرداً خط و کتابت تھی، تعلیمی ریکارڈ پوچھتے اور آئندہ کے لئے ہدایات دیتے۔ سال میں ایک ماہ کی رخصت پر جب گھر آتے تو ذاتی دلچسپی لے کر پڑھاتے۔ بہترین کھلونے اور معلوماتی رسائل منگواکر دیتے۔ سب بچوں کو بہترین تعلیم دلوائی۔

آپ ہر ایک سے پُر خلوص محبت کرنے والے اور بے غرض کام آنے والے تھے۔ دُور و نزدیک کے تمام رشتہ داروں کی خیر خبر رکھتے اور بوقتِ ضرورت خاموشی سے مدد کرتے رہتے۔ کسی کی طرف سے زیادتی ہوتی تو بھی ناراضگی کے اظہار کی بجائے ایسا رویہ ہوتا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ بلند حوصلہ اور قوت برداشت رکھنے والے تھے۔ دوستوں کے ساتھ بھی انتہائی محبت اور خلوص کا تعلق تھا۔

بہت دعاگو تھے۔ کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو بے چین ہوکر اُس کے لئے دعا کرتے۔ دعا کے لئے کہنے والے بھول جاتے لیکن آپ تہجد میں باقاعدگی سے دعا جاری رکھتے۔ غرباء کا بہت خیال رکھتے۔ ان کی ضروریات پر نظر رکھتے اور مدد کر تے رہتے۔ عید کے موقع پر اُن کے گھروں میں جاکر تحائف دیتے۔ رمضان میں ہمسایوں کو افطاری بھجواتے اور عید پر اُن کو ملنے کے لئے بھی جاتے۔

آپ بہت مہمان نواز اور خاطر مدارات کرنے والے تھے۔ گھر میں کسی بھی حیثیت کا مہمان آتا تو بڑھ کر گلے لگاتے، حال احوال پوچھتے اور صحت و سلامتی کی دعا دیتے۔ مہمانوں کی تواضع کے لئے خود اٹھ کر اشیاء خورونوش لاکر پیش کرتے۔ جب دونوں کانوں کی سماعت سے محروم ہوگئے تب بھی مہمان کے اکرام میں ساتھ بیٹھے رہتے۔

امانت اور دیانت کا یہ عالم تھا کہ غیر ملکی کاروباری کمپنی میں ملازمت کے دوران مالک لاکھوں ڈالر کا کام آپ کے حوالے کردیتے تھے۔ اپنے بچوں کے علاوہ ملک سے باہر رہائش پذیر رشتہ داروں کے بنکوں کے حساب کتاب بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ ہر ایک کی فائل مکمل ہوتی اور ہر ایک کو اس کے حساب کی کاپی بھجوا دیتے۔

اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے۔ کبھی ملازمین یا بچوں سے کسی کام کے لئے نہیں کہا۔ دینی امور میں پیش پیش رہتے۔ کویت میں چالیس سال تک سیکرٹری مال رہے۔ لاہور میں اپنے محلہ کے گیسٹ ہاؤس کا تمام حساب کتاب ایک عرصہ تک سنبھالے رکھا۔

آپ میں قوت برداشت بہت تھی۔ اپنی کسی تکلیف یا بیماری کا احساس دوسروں کو نہ ہونے دیتے۔ 1997ء میں دل کا بائی پاس ہوا لیکن کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہ کیا۔ شگفتہ مزاجی اور مزاح آپ کی شخصیت کا اہم عنصر تھا۔ ادب اور شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور دوسروں سے سن کر بھی محظوظ ہوتے۔ الغرض محبت، خلوص، وفا، دعا اور عجزوانکسار کا مجموعہ تھے۔ اپنی وفات سے گیارہ سال پہلے اپنی اہلیہ کی وفات کا صدمہ بڑے صبر اور حوصلہ سے برداشت کیا۔

31جنوری 2007ء کو آپ کی وفات ہوئی۔

…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button