قرآنِ کریم

تفسیر سورۃ الفیل

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے
خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب

(قسط نمبر 3۔ آخری)

٭ رحیم کے معنے ہیں وہ جو بار بار نتائج پیدا کرتا ہے۔ جب رحمانیت کے سامانوں سے انسان فائدہ اٹھالیتا ہے تو رحیم خدا اس کے بار بار نتائج پیدا کرتا ہے۔ مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے روٹی کھانے کا یہی نتیجہ نہیں ہوتا کہ پیٹ بھر جاتا ہےبلکہ اس کے نتیجہ میں خون پیدا ہوتا ہے جو مہینوں اور سالوں انسانی جسم میں کام کرتا ہے۔ اسی خون سے اس کے دماغ کو طاقت ملتی ہے اس کی نظر کو طاقت ملتی ہے۔ اس کے ذہن کو طاقت ملتی ہے۔ اس کے کانوں کو طاقت ملتی ہے جو مہینوں اور سالوں اس کے کام آتی ہے۔ پھر اسی میںسے نطفہ پیدا ہوتا ہے جس سے اس کی نسل پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس نسل سے اگلی نسل اور اگلی نسل سے اور اگلی نسل پیدا ہوتی ہے۔ گویا ایک ایک فعل تواتر سے نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہ رحیمیت ہے۔ اگر دنیا میں صرف یہی سلسلہ ہوتا کہ جب کوئی شخص کام کرتا تو اسی وقت اس کا ایک نتیجہ پیدا ہو جاتا تو ہم اس کو بدلہ تو کہہ سکتے تھے جیسے مزدور مزدوری کرتا ہے تو اپنی اُجرت لے لیتا ہے مگر ہم اسے رحیمیت نہیں کہہ سکتے تھے۔ رحیمیت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے پنشن ہوتی ہے۔ لوگ ملازمت کرتے ہیں تو انہیں اس کا بھی ایک بدلہ مل رہا ہوتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ان کے کھاتے میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ آئندہ اس کام کا متواتر نتیجہ پیدا ہو گا ۔چنانچہ اگر کوئی دس یا پندرہ سال ملازمت کرتا ہے تو وہ تنخواہ کے 10/1 حصہ کی پنشن کا حقدار ہو جاتا ہے۔ بیس سال گزر جائیںتو 3/1 پنشن کا حقدار ہو جاتا ہے۔ پچیس سال گزر جائیں اور وہ ڈاکٹری سارٹیفیکیٹ بھی پیش کر دے تو اسے نصف پنشن مل جاتی ہے اور اگر تیس سال گزر جائیں تو بغیر ڈاکٹر سارٹیفکیٹ کے ہی وہ پوری پنشن کا حقدار بن جاتا ہے۔ یہ چیز ہے جو رحیمیت کے مشابہ ہے یعنی کام کا بدلہ نقد ہی نہیں ملا بلکہ آئندہ کے لئے اَور نیک نتائج کی بنیاد بھی ساتھ ہی رکھ دی گئی۔

٭ پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی رحیمیت اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت میں فرق کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان بدلہ دیتا ہے تو یہ سمجھ کر دیتا ہے کہ اس شخص نے کچھ سالوں کے بعد مر جانا ہے اگر اسے پتہ لگ جائے کہ اس شخص نے کبھی نہیں مرنا تو وہ کبھی اسے پنشن نہ دے۔ مگر چونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس نے ضرور چند سالوں کے اندر اندر مر جانا ہے اس لئے وہ پنشن دے دیتا ہے۔ لیکن خدا کو نہ صرف یہ پتہ ہے کہ انسان نہیں مرے گا بلکہ وہ خود کہتا ہے کہ مَیں انسان کو ماروں گا نہیں بلکہ اسے ابدی زندگی دوں گا۔ گویا یہی نہیں کہ وہ اتفاقی طور پر اس حادثہ کو برداشت کر لیتا ہے بلکہ وہ انسان کے زندہ رہنے اور اس کی دائمی حیات کے خود سامان مہیا کرتا ہے ۔اس لئے خدا کی رحیمیت کی شان اَور ہے اور انسان کی رحیمیت کی شان اَور ہے۔

٭ بہرحال بسم اللہ حال پر، رحمٰن ماضی پر اور رحیم کا لفظ مستقبل پر دلالت کرتا ہے اور یہ تینوں الفاظ بتاتے ہیں کہ تمام کے تمام کاموں میں تقدیر الٰہی انسان کے ساتھ وابستہ ہے۔ بسم اللہ میں چھوٹی سی تدبیر شامل ہے ۔یعنی انسان کہتا ہے مَیں خدائی مدد سے یہ کام شروع کرتا ہوں۔ گویا ارادہ انسان کا اپنا ہوتا ہے۔ اگر میرا ارادہ کسی کام کے متعلق نہ ہو تو مَیں یہ کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ مَیں خدا کی مدد سے فلاں کام شروع کرتا ہوں۔ بہرحال اس میں کچھ بندے کا بھی دخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد رحمانیت کا دائرہ ہے جو خالص خدا سے تعلق رکھتا ہے۔ اور رحیمیت میں تھوڑا سا کام بندہ کرتاہے اورغیرمنتہی نتیجہ خد اپیدا کرتا ہے۔ گویا تدبیر اور تقدیر دونوں سے مل کر یہ دنیا چلتی ہے۔ اور بسم اللہ ہم کو بتاتی ہے کہ تقدیر اور تدبیر آپس میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ ان کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ آگے انسان کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے اس کے کام بڑے اور چھوٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایمان کامل میں تقدیر کا پہلو غالب ہوتا ہے اور تدبیر کا پہلو کمزور ہوتا ہے جیسے رحمانیت خالص خدا کی تھی۔ اسی طرح جو انسان خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اس کی زندگی کے کاموں میں بھی تقدیر زیادہ اور تدبیر کم نظر آتی ہے۔ وہ بیشک تدبیر بھی کرتاہے مگر اس کے نتائج اس کی تدبیر سے بہت زیادہ پیدا ہوتے ہیں 

٭ حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ دہریہ سے دہریہ بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر سے باہر نہیں ہوتا۔ ایک دہریہ کی زبان پر بھی میٹھا رکھ دو تو باوجود اس کے کہ وہ خدا کو گالیاں دیتا ہو گا مگر خدا کو گالیاں دینے والی زبان بھی اس میٹھے کو میٹھا ہی چکھے گی ۔غرض تقدیر ہر ایک شخص کے کام کے ساتھ کام کر رہی ہوتی ہے مگر تدبیر کا پہلو غالب ہوتا ہے اور تقدیر کا پہلو کمزور ہوتاہے سوائے اہل اللہ کے کہ ان کا حساب اس کے الٹ ہوتا ہے۔ ان دو کےعلاوہ جو درمیانی درجہ کا مومن ہوتا ہے خواہ وہ کلامِ الٰہی کو ماننے والا ہو یا نہ ماننے والا ہو جیسے عیسائی کہ وہ بھی اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں کیونکہ وہ عیسائی مذہب کو تسلیم کرتے ہیں حالانکہ وہ اسلام پر ایمان نہیں لائے۔ اسی طرح یہودی بھی اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں کیونکہ وہ یہودی مذہب کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہندو بھی اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں کیونکہ وہ ہندو مذہب کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے خواہ وہ کلام الٰہی کو ماننے والے ہوں یا نہ ہوں دونوں چیزوں کا امتزاج ہوتا ہے اور تقدیر اور تدبیر ان کے لئے ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ دعائیں بھی کرتے ہیں خواہ وہ سچے مذہب پر نہ ہوں جیسے عیسائی اور یہودی اور ہندو سب دعاؤں سے کام لیتے ہیں اور تدبیر سے بھی کام لیتے ہیں۔ گویا تقدیر اور تدبیر کا ایک لطیف امتزاج ان دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ غرض مومنِ کامل جو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے اس کے کاموں میں تقدیر کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ اور جو شخص خدا تعالیٰ سے دُور چلا جاتا ہے اس کے کاموں میں تدبیر کا پہلو غالب ہوتاہے اور جو درمیانی درجہ کا آدمی ہوتا ہے اس کے کاموں میں تقدیر اور تدبیر دونوں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔

یہ مضمون ہے جس کو بسم اللہ ظاہر کرتی ہے اور چونکہ ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ آتی ہے۔ اس لئے جب انسان بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو وہ اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ جو کچھ آگے مضمون بیان ہو رہا ہے اس سے میں اپنے ایمان اور عرفان کے لحاظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ اگر وہ اعلیٰ درجے کا ایمان رکھنے والا ہے تو وہ اس سے ایسا فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ سورۃ اس کے لئے ویسی ہی بن جاتی ہے جیسے محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے نازل ہوئی تھی۔ اور اگر وہ دشمنی کرتا ہے تو کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاتا۔ ساری کی ساری سورۃ بیکار اور رائیگاں چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے حق میں ضائع ہو جاتی ہے۔ اور اگروہ درمیانی درجہ کا مومن ہو تو سورۃ کا مضمون صرف ایک حد تک اسے فائدہ بخشتا ہے ،پورا فائدہ نہیں دیتا۔

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ

(اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی (استعمال کرنے) والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

٭ اَلَمْ تَرَ اصل میں اَلَمْ تَریٰ ہے۔ لَمْ جب فعل مضارع پر آتا ہے تو اگر اس کے آخرمیں یاء ہو تو وہ گر جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اَلَمْ تَریٰ کی بجائے صرف اَلَمْ تَرَ رہ گیا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کیا تُو نے دیکھا نہیں۔

یہاں دیکھنے سے دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور بصیرت کی راہ سے دیکھنا مراد ہے۔ آنکھوں سے دیکھنا مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ رسول کریم ﷺ کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ کتنا پہلے کا ہے؟ اس بارہ میں اختلاف ہے ۔ صحیح روایت جس کے قرائن بعض دوسری تاریخوں سے بھی ملتے ہیں یہ ہے کہ درحقیقت یہ اسی سال کا واقعہ ہے جس سال میں رسول کریم ﷺ پیدا ہوئے تھے۔ جو تاریخی شہادتیں  کثرت سے مل جاتی ہیں اور جن کے قرائن دوسری تاریخوں یا دوسرے ملکوں کی تاریخوں سے بھی ملتےہیں وہ اسی کی تائید کرتی ہیں۔ یہ واقعہ محّرم میں ہوا تھا جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور رسول کریم ﷺ کی پیدائش اسی سال ربیع الاول میں ہوئی ہے۔

پس جبکہ رسول کریم ﷺ کی پیدائش سے یہ واقعہ پہلے ہوا ہے خواہ تیس دن پہلے ہوا ہو خواہ تیس سال بہرحال رسول کریم ﷺ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں  دیکھا۔ اس لئے تر سے رؤیت قلبی ہی مراد لی جائے گی۔ رؤیت عینی نہیں۔ پس اَلَمْ تَرَ کے لفظی معنے یہ ہوئے کہ کیا تجھے معلوم نہیں۔ اس فقرہ کے عام طور پر دو معنے ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ ہم دوسرے شخص سے پوچھتے ہیں کہ آیا فلاں بات اسے معلوم ہے یا نہیں؟ دوسرے معنے اس قسم کے فقرہ کے یہ ہوتے ہیں کہ تمہیں یہ بات خوب معلوم ہے۔ گویا بظاہر نفی کے الفاظ ہوتے ہیں مگر معنے مثبت ہی کے ہیں بلکہ مثبت پر زور دینے کے ہوتے ہیں۔ اردو میں بھی کہتے ہیں تمہیں معلوم نہیں مَیں ایسا کر سکتا ہوں۔ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مَیں ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ گویا اس قسم کا فقرہ بجائے اس کے کہ شک کا اظہار کرے یقین اور وثوق پر دلالت کرتا ہے۔ اگر ایسا فقرہ کہنے والا کوئی انسان ہو تو کسی کو شبہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیا اس نے شک کے معنوں میں استعمال کیا ہے یا وثوق کے معنوں میں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق ہم یہ نہیں خیال کر سکتے کہ نعوذ باللہ اس کے قول کا یہ مطلب ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ تم کو فلاں واقعہ کا علم ہے یا نہیں۔ تم ہی بتاؤ کہ تمہیں اس کا علم ہے یا نہیں۔ پس یہ فقرہ شک کے معنوں میں خداتعالیٰ کے متعلق استعمال ہی نہیں  ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں اور جب وہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں تو اس کی طرف وہ معنے کبھی منسوب نہیں ہو سکتے جن میں شک و شبہ پایا جاتا ہو۔ پس اس آیت کے وہی معنے مراد لینے ہوں گے جو یقین اور قطعیت پر دلالت کرتے ہیں۔

پس اَلَمْ تَرَ کے لفظی معنے گو یہی ہیں کہ کیا تمہیں معلوم نہیں۔ مگر درحقیقت اس کا مفہوم اس جگہ یہ ہے کہ تم خوب اچھی طرح سے جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہو اور تم سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے۔

٭ اَلَمْ تَرَ کے متعلق ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی مخاطب تو ساری دنیا ہے۔ آیا اَلَمْ تَرَ میں بھی ساری دنیا مخاطب ہے یا محمد رسول اللہ ﷺ مخاطب ہیں یا دشمنانِ اسلام مخاطب ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو قرآن کریم ساری دنیا کے لئے ہے خواہ بعض آیات میں  براہ راست محمد رسول اللہ ﷺ ہی کیوں نہ مخاطب ہوں ۔مگر اس سورۃ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں خطاب براہ راست محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ہے اور پھر آپؐ کے توسط سے باقی دنیا مخاطب ہے۔چنانچہ آگے ہی فرماتا ہے۔کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ تیرے رب نے کس طرح کیا۔ یُوں تو خدا تعالیٰ سب کا ربّ ہے مگر جب ایک ایسے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے جو عرب اور خصوصاً رسول کریم ﷺ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے تو رَبُّکَ کے الفاظ سے یہی سمجھا جائے گا کہ اس میں خطاب خصوصیت سے رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس سے ہی کیا گیا ہے۔

غرض اس آیت میں ت اور ک یہ دو ضمائر خطاب کی ہیں۔ پس تَرَ اور رَبُّکَ یہ دو الفاظ جو اس جگہ آئے ہیں بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کا تعلق خصوصیت سے رسول کریمﷺ کے ساتھ ہے اور اس سورۃ میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا اصل اور اہم تعلق محمد رسول اللہ ﷺ سے ہی ہے۔ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے اس کا خاص تعلق نہ ہوتا تو رَبُّکَ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔

٭ جب خدا نے کہا کہ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ ۔تیرے خدا نے اس سے کس طرح کا سلوک کیا ۔تو اس کے معنے درحقیقت یہی ہیں کہ ہم نے اس وقت جو کچھ کیا تھا محض تیرے لئے کیا تھا۔ ورنہ اگر یہ مفہوم نہ لیا جائے تو اصحاب الفیل کے واقعہ کا علم رکھنے میں محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا خصوصیت ہے ۔عرب کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے بلکہ خود رسول کریم ﷺ کے وقت تک ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اصحاب الفیل کا واقعہ دیکھا تھا۔ ایسی صورت میں اَلَمْ تَرَ کہنے کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے۔ وہ واقعہ جو اَور ہزاروں لوگوں کو معلوم تھا اور جس کو دیکھنے والے بھی کئی زندہ موجود تھے۔ اسی واقعہ کا اگر رسول کریم ﷺ کو بھی علم ہو گیا تو اس میں آپؐ کی خصوصیت کیا رہی؟ آپؐ کی خصوصیت اُسی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ اس واقعہ کا آپؐ سے کوئی خاص تعلق ہو۔

٭ پھر اس آیت میں اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ کے الفاظ ہیں۔ یعنی تیرے رب نے کس طرح کیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ اَلَمْ تَرَ مَا فَعَلَ رَبُّکَ تجھے معلوم نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا۔ ’کس طرح کیا ‘اور’ کیا کیا‘ میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر صرف یہ بیان کرنا مقصود ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل سے کیا کیا تو کَیْفَ کا لفظ اللہ تعالیٰ اس جگہ استعمال نہ کرتا ۔مگر اس نے کَیْفَ کا لفظ استعمال کیا ہے جو بتاتا ہے کہ یہاںیہ بیان کرنا مقصود نہیں کہ اصحاب الفیل سے کیا ہوا۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہےکہ اصحاب الفیل سے جو کچھ ہوا کس طرح ہوا۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ کلام کے مفہوم میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔

٭ کَیْفَ کے لفظ نے مضمون کو ایسی خوبی بخش دی ہے جو اس کی شان کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ تمہیں معلوم ہے کہ ان سے کس طرح کیا۔ یہاں کمیت پر زور دینا مقصود نہیں۔یہ مراد نہیں کہ دس مرے تھے یا سو۔ ہاتھی مرے تھے یا کتّے۔ افسر مرے تھے یا ماتحت۔ بلکہ ان غیر معمولی حالات کی طرف اشارہ مقصود ہے جن میں ان کی ہلاکت واقعہ ہوئی۔ خواہ ایک ہی شخص مرا ہو مگر وہ مرا اس طرح کہ دنیا کہتی تھی کہ وہ نہیں مرے گا مگر پھر بھی وہ مر گیا۔ پس یہاں کمیت کا بتانا مقصود نہیں بلکہ کیفیت کا بتانا مقصود ہے۔ یعنی غیرمعمولی حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کر دیئے گئے۔ جن حالات کو انسانی عقل سمجھ ہی نہیں سکتی تھی۔ مگر مفسّر ین کا بڑا زور اس امر پر ہوتا ہے کہ ان کے سر پر پتھر پڑے اور پاخانہ کی جگہ سے نکل گئے۔ یا یہ کہ ان میں سے کوئی ایک بھی بچ کر واپس نہ جا سکا۔ حالانکہ قرآن اس پر زور ہی نہیں دے رہا۔ قرآن تو کہتا ہے کہ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ کیا تم نے دیکھا اور غور کیا کہ تمہارے رب نے کیسے غیرمعمولی حالات میں اصحاب الفیل کو تباہ کیا۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ان میں بڑی موت واقعہ ہوئی۔ بڑی موت تو بعض دفعہ جہاز کے ڈوبنے سے بھی ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ جس امر پر زور دینا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تم میرا ہاتھ دیکھو اور اس امر پر غور کرو کہ جو کچھ کیا تھا مَیں نے کیا تھا۔ کسی انسانی ہاتھ کا اس میں دخل نہیں تھا۔ پس حقیقت اور واقعات پر زور دینا اس جگہ مطلوب نہیں بلکہ اس کے نادر اور مخفی الاسباب ہونے پر زور دینا مقصود ہے۔ یہ سوال نہیں کہ ابرہہ اور اس کا لشکر سب کا سب مر گئے یا کچھ بچ بھی گئے۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح مرے۔ جو بھی مرے ان کے مرنے میں کسی انسانی تدبیر کا دخل نہیں تھا بلکہ محض ہمارے پیدا کردہ حالات کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہوا۔ پس یہاں خدا اپنے فعل کو پیش کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ ابرہہ پر کیسی تباہی آئی۔ بلکہ یہ بتاتا ہے کہ اس پر کیسے تباہی آئی۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے ابرہہ کو ان حالات میں مارا جبکہ دنیا اس کے مارے جانے کا خیال بھی نہ کر سکتی تھی۔ پس خداتعالیٰ اس جگہ اپنے فعل پر زور دے رہا ہے اور اس پر زور دے رہا ہے کہ اس نے یہ فعل محض محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر کیا۔

پس اس صور ت میں محمد رسول اللہ ﷺ کے احترام کا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر اپنی قدرت دکھانے کا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو دشمن کے حملہ سے بچانے کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے۔ خانۂ کعبہ کی حفاظت یا اس کا بچنا ایک ضمنی چیز ہے ۔

خانۂ کعبہ کی حفاظت اصل مقصود نہیں تھی بلکہ اصل مقصود محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت تھی۔ چنانچہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ تو نے دیکھا تیرے رب نے کس طرح معاملہ کیا۔ اس میں رَبُّکَ کا لفظ صاف طور پر بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس واقعہ سے خانۂ کعبہ کو بچانا اتنا مطلوب نہ تھا جتنا تیری ذات کو بچانا مقصود تھا۔

اس آیت میں ایک طرف کَیْفَ فَعَلَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس میں کسی بندے کا ہاتھ نہیں تھا۔ پھر رَبُّکَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ ہم نے یہ نشان کس کے لئے ظاہر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ بیشک مکّہ والوں کی بھی خاطر ہو گئی۔ بیشک خانۂ کعبہ کا بھی اعزاز ہو گیا۔ مگریہ ایک ضمنی بات تھی۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے تو یہ نشان محض تیرے لئے دکھایا تھا اور تُو ہی ہمارا اصل مقصود تھا۔ پس درحقیقت یہ نشان محمد رسول اللہﷺ کی ذات کے لئے تھا ۔اَور کسی کے لئے نہیں تھا۔

مکّہ کے لوگ بھی اس معجزہ کے تو قائل تھے مگر وہ اس امر کے قائل نہ تھے کہ یہ معجزہ کسی اور کے لئے ظاہر ہوا ہے۔ وہ اتنا تو سمجھتے تھے کہ دعائے ابرہیمی کے پورا ہونے کا یہ ایک ثبوت ہے مگر یہ کہ احترامِ محمدی میں ایسا ہو اہے اس کو وہ نہیں مانتے تھے۔ اگر مانتے تو مسلمان کیوں نہ ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اے احمقو! تم اسے اب بھی نہیں مانتے۔ حالانکہ ہم نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے لئے یہ معجزہ دکھا دیا تھا اور جب ہم نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے لئے یہ معجزہ دکھا دیا تھا اور جب ہم نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے لئے اپنے معجزات ظاہر کرنے شروع کر دیئے تھے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم اب بھی اس کی زندگی کے آخری ایام تک اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتے چلے جائیں گے۔

٭ اَصْحَابُ الْفِیْلِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ صرف ابرہہ اور اس کا لشکر تباہ نہیں ہوا بلکہ ان کی وہ پچھلی طاقت جو یمن میں تھی وہ بھی تباہ ہو گئی اور اس تباہی کا اتنا اثر پڑا کہ عیسائیوں کے قُویٰ بالکل ڈھیلے ہو گئے ۔ اس تباہی میں اللہ تعالیٰ کی جو بہت بڑی حکمت کام کر رہی تھی وہ یہ ہے کہ ایک بھاری حکومت کے کسی لشکر کا تباہ ہو جانا خطرہ کو کم نہیں کرتا بلکہ اور بھی بڑھا دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہی نہیں بلکہ اس قوت کو ہی کچل دیا جو اس کے پیچھے کام کر رہی تھی۔

اصحاب الفیل سے نجاشی کی حکومت مراد ہے۔ ہاتھی عرب میں نہیں ہوتا تھا بلکہ حبشہ سے آتا تھا۔ پس اصحاب الفیل سے مراد بھی حبشہ کی حکومت ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے اصحاب الفیل سے کیا کیا اور کس طرح ہم نے حبشہ کی حکومت کو ہی عرب سے مٹا دیا۔ گویا ہم نے صرف ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہی شکست نہیں دی بلکہ عرب سے حبشہ کی حکومت ہی مٹا دی تاکہ اس کی طرف سے بار بار حملہ کا خطرہ نہ رہے۔

٭ اس سورۃ میں درحقیقت آخری زمانہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اور مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے عیسائی دنیا نے آپ کے دین کو روکنے اور اس کی ترقی کے امکانات کو مسدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ جب وہ علامات انہیں نظر آئیں جن سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ نبی عربیؐ دنیا میں پیدا ہونے والا ہے تو انہوں نے خانۂ کعبہ کا رخ کیا تاکہ عرب جس نقطۂ مرکزی پر جمع ہوسکتے ہوں اسے توڑ دیا جائے اور وہ موعود جس کا عرب میں شدت کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا اس کے راستہ میں روکیں پیدا ہو جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کے احترام اور آپ کے اعزاز میں خانۂ کعبہ کو گرنے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ پھر ایک زمانہ میں عیسائی دنیا محمد رسول اللہ ﷺ کی طاقت اور آپ کی قوت کو مٹانے کی کوشش کرے گی اور تسلّی دیتا ہے کہ تمہیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جس خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ کے پیدا ہونے سے بھی پہلے آپ کا ادب اور احترام کیا تھا اس خدا کے متعلق کون یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ وہ آپؐ کی پیدائش کے بعد، آپ کے دعویٔ نبوت کے بعد، آپ کی بے مثال اور حیرت انگیز قربانیوں کے بعد، آپ ؐ کی خدا تعالیٰ سے بے انتہا محبت کے اظہار کے بعد، آپ ؐکی اعلیٰ درجے کی نیک اور پاک جماعت دنیا میں قائم ہو جانے کےبعد، آپؐ کی کامل اور ہرقسم کے نقائص سے منزہ شریعت لوگوں کے سامنے پیش ہو جانے کے بعد، آپؐ کے دین اور مذہب کے تمام دنیا میں پھیل جانے کے بعد، اب اس ہتک کو برداشت کر لے گا کہ اسے تباہ ہونے دے اور دشمن کو اس کے بد ارادوں میں کامیاب کر دے۔ کوئی عقلمند جو ذرا بھی ان واقعات پر نگاہ رکھنےو الا ہو وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان رکھتے ہوئے ایک لحظہ کے لئے بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ اس مقابلہ میں عیسائیت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ یقیناً ایک مسلمان کے لئے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ ٹکّر جو اسلام اور عیسائیت میں ہونے والی ہے اس کا وہی کچھ نتیجہ نکلے گا جو ابرہہ کے وقت میں نکلا جبکہ وہ خانۂ کعبہ سے ٹکر لینے کے لئے آیا۔ لیکن افسوس کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کریم موجود ہے۔ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ والی سورۃ موجود ہے اور وہ اسے ہر روز دیکھتے اور پڑھتے ہیں انہیں اس بات پر یقین نہیں کہ اس لڑائی میں آخر اسلام فتحیاب ہو گا اور عیسائیت ہارے گی۔ یقین سے میری مراد صرف منہ کی لاف و گزاف نہیں بلکہ وہ معقول یقین مراد ہے جس کے ساتھ انسان کا عمل شامل ہوتا ہے۔ بے شک جہاں تک زبان کے دعووں کا سوال ہے ہر مسلمان کہتا ہے کہ اسلام جیتے گا۔ لیکن جہاں تک اسلام کی فتح اور کامیابی پر یقین کا سوال ہے ننانوے فیصدی مسلمان یہ یقین نہیں رکھتے کہ اس لڑائی میں اسلام جیتے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ

شخصے پائے من بوسید ومن گفتم کہ سنگِ اسود منم (تذکرہ صفحہ35)

ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے کہا ہاں ہاں سنگِ اَسود مَیں ہی ہوں۔ درحقیقت ہر زمانہ کا مامور اس کی جماعت کے لئے سنگِ اَسود کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ لوگ اسے چومنے اور اس کے اردگرد اکٹھے رہتے ہیں اور اس طرح دین کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ پس اس زمانہ میں دین کی تقویت صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وابستہ ہے اور اس زمانہ میں روحانی سنگِ اسود آپ ہی ہیں گو جسمانی سنگِ اسود وہی ہے جو خانۂ کعبہ میں موجود ہے۔ اسی طرح یہ سورۃ الفیل بھی آپ پر الہاماً نازل ہوئی ہے ۔پھر جس طرح اصحاب الفیل کے پہلے حملہ میں اصل مقصد رسول کریم ﷺ کو تباہ کرنا تھا اسی طرح اب جو احمدیت پر حملہ ہو اہے وہ اسی لئے ہوا ہے کہ ہندو بھی جانتا ہے اور سکھ بھی جانتا ہے اور مسیحی بھی جانتا ہے کہ اگر اسلام نے غلبہ پایا تو احمدیت کے ذریعہ ہی غلبہ پائے گا۔ پس اب بھی اس کا اصل مقصد رسول کریم ﷺ کو تباہ کرنا ہے کیونکہ مسیح موعود کا کام اپنا وجود منوانا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺکا وجود منوانا ہے۔ آپ خود فرماتے ہیں

وہ ہے ۔مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

لیکن جس طرح گزشتہ زمانہ میں خانۂ کعبہ کو گرانے میں ابرہہ اور اس کا لشکر ناکام رہا تھا اسی طرح ہم جانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور قوتیں مل کر بھی اگر اس سلسلہ کو جسے خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ کا دین قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے مٹانا چاہیں تو وہ ساری طاقتیں مل کر بھی اس سلسلہ کو مٹا نہیں سکتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آسمان کی فوجیں ہماری تائید میں اتریں گی اور اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ کا نظارہ دنیا متواتر دیکھتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہی شخص جس کو مسلمانوں نے اپنی نادانی سے ٹھکرا دیا ہے اسی کے ہاتھوں سے اسلام دنیا میں دوبارہ قائم ہو گا اور معترضین ہمارے سامنے نہایت شرمندگی کے ساتھ وہی کچھ کہتے آئیں گے جو یوسفؑ کے بھائیوں نے اس سے کہا ۔اور ہماری طرف سے بھی انہیں یہی کہا جائے گا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ غیر دنیا، کافر دنیا، بے دین دنیا جس کا مقابلہ ہماری جماعت کر رہی ہے وہ تو جانتی ہے کہ احمدیت کی اشاعت میں ہی عیسائیت کی موت ہے لیکن مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت میں نعوذباللہ اسلام کی تباہی ہے۔

اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيْلٍ ۔وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ ۔ تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيْلٍ۔ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُوْلٍ (الفيل 3-6)

کیا (ان کو حملہ سے قبل ہلاک کر کے) ان کے منصوبہ کو باطل نہیں کر دیا اور (پھر) ان (کی لاشوں) پر جُھنڈ کے جُھنڈ پرندے بھیجے (جو) ان (کےگوشت) کو سخت قسم کے پتھروں پر مارتے (اور نوچتے) تھے اس طرح اس نے انہیں غلّہ کے بیرونی چھلکے کی طرح کر دیا جس کے اندر کا دانہ کھایا گیا ہو۔

اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيْلٍ

٭ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے عیسائیوں کا منصوبہ صرف اس وقت باطل نہیں کیا جب وہ خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے۔ بلکہ اس نے بعد میں بھی ایک لمبے عرصہ تک ان کےتمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور ان کی قوت کو کچل دیا تا محمد رسول اللہ ﷺ کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع ملے اور آپؐ کی ترقی کے راستہ میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ چنانچہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک مغلوب رہے۔ مگر پھر قرآن کریم کی ہی پیشگوئیوں کے مطابق دوبارہ عیسائیوں کو غلبہ حاصل ہوا۔ اور اب الٰہی فیصلہ ہے کہ وہ مسیحیت کو دوسری شکست انشاء اللہ ہمارے ہاتھ سے دے گا۔

وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ ۔

٭ ابابیل جمع ہے جس کا مفرد کوئی نہیں لیکن بعض کے نزدیک اس کا مفرد ابّول ہے۔ ابابیل کے متعلق عوام الناس یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ ابابیل وہی پرندہ مراد ہے جسے اردو زبان میں بھی ابابیل کہتے ہیں۔ مگر یہ درست نہیں۔ جس پرندے کو ہم ابابیل کہتے ہیں عربی زبان میں اسے ابابیل نہیں بلکہ خفاش کہتے ہیں۔ پس اس جگہ ابابیل سے کوئی خاص پرندہ مراد نہیں بلکہ اس کے معنے فِرَق یعنی جماعتوں کے ہیں۔ اور طَيْرًا اَبَابِيْلَ سے مراد یہ ہے کہ ’’جماعت در جماعت‘‘ اور ’’گروہ در گروہ‘‘ پرندے آئے۔ یہ لفظ انسانوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور حیوانوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور پرندوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر گروہ در گروہ گھوڑے کسی جگہ کھڑے ہوں تو ان کے متعلق بھی ابابیل کا لفظ استعمال کر لیا جائے گا۔چنانچہ عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ جَاءَ تْ الخَیْلُ اَبَابِیْلَ جس کے معنے جَمَاعَاتِ مِنْ ھٰھُنَا وَ ھٰھُنَا کے ہیں ۔یعنی جماعت در جماعت اور گروہ در گروہ گھوڑے آئے کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے۔ اسی طرح اگر انسانوں کا کوئی بہت بڑا لشکر جمع ہو تو اسے بھی ابابیل کہہ دیں گے اور مراد یہ ہو گی کہ بٹالین کے بعد بٹالین اور فوج کے بعد فوج آتی چلی گئی۔

پھر اس کے ایک معنے ’’جماعاتِ عظام‘‘ کے بھی ہوتے ہیں یعنی بڑی بڑی جماعتیں۔ اور ابابیل کے معنے اَقَاطِیْعَ تَتْبَعُ بَعْضُھَا بَعْضاً کے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی بڑے بڑے ٹکڑے جو ایک دوسرے کے بعد متواتر آتے چلے جائیں۔ پس اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ کے یہ معنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف پرندے بھیجے جماعت در جماعت۔ کچھ یہاں سے کچھ وہاں سے۔ وہ بڑے بڑے ٹکڑوں میں بار باری آتے تھے اور گروہ در گروہ تھے۔ اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ چیچک سے اس لشکر میں سخت موت پڑی اور لاشیں میدان میں چھوڑ کر باقی لوگ بھاگ گئے اور چاروں طرف سے گدھ اور چیل آکر وہاں جمع ہو گئے تا ان کی لاشوں سے نوچ نوچ کر گوشت کھائیں۔

تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيْلٍ۔

٭ سِجِّيْلٍچکنی مٹی کے ڈلے کی طرح کے پتھر کو کہتے ہیں ۔ پس سِجِّیل کے معنے ہیں ایسا پتھر جو کئی پتھر کے ٹکڑوں اور مٹی کی تہوں سےبنا ہوا ہو یا پکی ہوئی مٹی کا پتھر جسے پنجابی زبان میں کھنگر کہتے ہیں۔

تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيْلٍ۔کے معنے عام محاورہ کے مطابق تو یہ ہیں کہ ان پر سِجِّيْلمارتے تھے۔ لیکن اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اُن کو سِجِّيْلپر مارتے تھے۔ اور چونکہ مردار خور پرندوں کا یہ عام قاعدہ ہے کہ وہ مردہ کا گوشت لے کر پتھر پر بیٹھ جاتے ہیں اور گوشت کو بار بار پتھر پر مارتے جاتے اور کھاتے جاتے ہیں ،نہ معلوم اسے نرم کرتے ہیں یا اس کی صفائی کرتے ہیں۔ بہرحال چیلوں اور گدھوں کا یہ عام قاعدہ ہے کہ وہ گوشت کو کھاتے ہوئے پتھر پر مارتے جاتے ہیں۔ اس لئے یہی درست ہے کہ باء کے معنے اس جگہ ’پر‘ کے لئے جائیں خصوصاً جبکہ یہ ثابت ہے کہ یہ لوگ چیچک سے مرے تھے اور ان کی لاشیں تمام میدان میں پھیل گئی تھیں۔ پس آیت کا یہ مطلب ہے کہ مردار خور پرندے وہاں جمع ہو گئے اور انہوں نے ان کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اور پتھروں پر مار مار کر کھانی شروع کر دیں۔

باء کے معنے جو اس جگہ علیٰ کے کئے گئے ہیں یہ لغت سے بھی ثابت ہیں اور استعمالِ قرآن سے بھی ثابت ہیں۔

٭ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس تباہی کا نقشہ کھینچا ہے جو اصحاب الفیل پر آئی۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ چیلیں اور گدھ اور کوّے اور دوسرے مُردار خور جانور جب کوئی بوٹی کھاتے ہیں تو کس طرح کھاتے ہیں۔ وہ مردار کی بوٹی توڑ کر ایک طرف جا بیٹھتے ہیں اور پتھر پر بیٹھ کر کبھی اسے ایک طرف سے مارتے ہیں کبھی دوسری طرف سے۔ اور اس طرح بار بار اس کو پتھر پر مارنے کے بعد کھاتے ہیں۔ یہی کیفیت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںظاہر کی ہے اور بتایا ہے کہ جب ہم نے چیچک سے ان کو مار دیا تو چونکہ وہ ہزاروں ہزار تھے اس لئے مردوں کے ڈھیروں پر گروہ در گروہ اور جماعت در جماعت چیلیں اور گدھ اور کوّے اور دوسرے مردار خور جانور اکٹھے ہو گئے۔ اور وہ بڑے بڑے جرنیل اور کرنیل جن کے اردگرد ہروقت پہرے رہتے تھے اور جو بڑی بڑی اعلیٰ وردیاں پہن کر اَکڑ اَکڑ کر چلتے تھے ان کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اور پتھروں پر مار مار کر کھانے لگے۔

٭ اس کے بعد کیا ہو ا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُوْلٍ ۔اس نے انہیں دانہ کھائے ہوئے سٹے کی طرح کر دیا۔ جس طرح اندر سے گندم کو کیڑا کھا جائے اور اوپر کا صرف چھلکا باقی رہ جائے۔ اسی طرح ان کی کیفیت ہو گئی۔ ان کا گوشت سب گدھیں اور چیلیں اور کوّے کھا گئے اورباقی صرف ہڈیاں رہ گئیں یا چمڑا اور سر کے بال رہ گئے۔

یہ وہ واقعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایااور جو تمام آیات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ افسوس ہے کہ مفسّر ین نے بجائے اس کے کہ حقیقت پر غور کرتے ایسے ایسے لاطائل اور بے بنیاد اور لغو قصے اس کے متعلق اپنی تفسیروں میں بھر دیئے ہیں کہ جن کو پڑھ کر انسان کی اپنی عقل بھی حیران ہوتی ہے اور دشمن کو بھی اسلام پر ہنسی اڑانے کا موقع ملتا ہے۔


(ماخوذ از تفسیرِ کبیر زیر سورۃ الفیل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button