مضامین

حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام اور آپ کے آریہ مخالفین

(منظور احمد۔ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی۔ کراچی)

سوامی دیانند صاحب سرسوتی نے بمبئی ہندوستان میں 1875ء میں ہندؤوںکے اندر آریہ تحریک کی بنیاد رکھی تاکہ ویدوں کی تعلیم جسے موجودہ زمانے کے روشن دماغ ہندو بھی فرسودہ اور عملی طور پر ناقابل قبول سمجھتے تھے اس کی نئی توضیحات کر کے اسے سائنٹفک رنگ دیا جائے۔ (خواجہ غلام حسین پانی پتی 1932ء۔ سوامی دیانند اور ان کی تعلیمات صفحات 294-119)

ا ور ہندوؤںکے اندر پائے جانے والے جمود کو توڑ کر ان میں اجتماعی بیداری پیدا کی جائے۔ سوامی دیانند صاحب نے ہندؤوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے ستیارتھ پرکاش نامی جیسی رسوائے زمانہ کتاب لکھی جس میں اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر مکروہ قسم کے حملے کئے گئے۔ سوامی صاحب نے خود 1877ء میں پنجاب کا دورہ کیا۔ اسلام کے خلاف دھوآں دھار تقاریر کیں اور لاہور، امرتسر اور راولپنڈی وغیرہ جیسے شہروں میں آریہ سماج کی مضبوط شاخیں قائم ہو گئیں۔ یہ تحریک اگرچہ شروع تو بمبئی سے ہوئی تھی لیکن اس کو سب سے زیادہ کامیابی پنجاب میں نصیب ہوئی جہاں دیکھتے ہی دیکھتے اس کو لاکھوں پُر جوش حامی میسر آگئے۔ اسلام کے خلاف عیسائی مشنری تو سارے ہندوستان میں پہلے ہی سرگرم عمل تھے اب آریہ تحریک کے اس نئے حملے سے مسلمان چاروں طرف سے گھر گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آریہ تحریک کے لیڈروں کے درمیان علمی مقابلے کا آغاز ہوا۔

1- سوامی پنڈت دیانند سے ٹکراؤ

حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے آریہ تحریک سے علمی تصادم کی اوّلین صورت اس طرح پیدا ہوئی کہ پنڈت دیانند صاحب نے اخبار وکیل ہندوستان کے 7؍دسمبر 1877ء کے شمارے میں ارواح کے متعلق یہ عقیدہ شائع کیا کہ

’’ ارواح موجودہ بے انت ہیں اور اس کثرت سے ہیں کہ پرمیشر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں۔‘‘

(پنڈت دیانند 1877ء اخبار وکیل 7 دسمبر 1877ء)

حضرت مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کے متعلق اس توہین آمیز عقیدے کی تردید میں 9؍فروری 1878ء سے 9؍مارچ 1878ء تک اخبار سفیر ہند امرتسر میں مضامین لکھے اور ساتھ ہی سوامی دیانند اور ان کے پیروکاروں کو چیلنج دیا کہ اگر وہ لوگ یہ ثابت کردیں کہ ارواح بے اَنت ہیں اور پرمیشر کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو وہ ایسے آریہ کو پانچ سو روپیہ انعام دیں گے۔ انعامی چیلنج اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ آریہ سماج لاہور کے جنرل سیکرٹری، لالہ جیون داس نے سوامی دیانند کے بیان کردہ اس اعتقاد سے سرے سے انکار ہی کر دیا اور اعلان کیا کہ

’’یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے اگر کوئی ممبر آریہ سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہیے اور اس کو جواب دینا لازم ہے۔‘‘

(بحوالہ شیخ یعقوب علی عرفانی حیات النبی۔ جلد اوّل طبع دوم صفحہ 113)

حضرت مرزا صاحب نے سوامی دیانند کے بیان کردہ آریہ عقائد کی تردید میں جو مضامین لکھے ان کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ آریوں کے لئے خاموش رہنا ناممکن ہو گیا۔ چنانچہ آریہ سماج ، امرتسر کے سیکرٹری باوانارائن سنگھ نے اخبار آفتاب کی 18؍فروری 1878ء کی اشاعت میں حضرت مرزا صاحب کے جواب میں ایک طویل مضمون لکھا جس میں انعامی رقم کے تصفیے کے لئے بعض شرائط اور منصفین کا ایک پَینل تجویز کیا۔ اگرچہ حضرت مرزا صاحب نے باوا صاحب کی تجاویز کو منظور کر لیا لیکن اپنی طرف سے مختلف عذرات کے باعث باوا صاحب آریہ سماج کے عقائد پر مرزا صاحب سے بحث کیلئے تیار نہ ہوئے۔ اس سے آریہ سماج کی کافی سُبکی ہوئی۔

اس کے کچھ دن بعد آریہ سماج امرتسر کے ایک اور معزز ممبر پنڈت کھڑک سنگھ قادیان تشریف لائے اور مرزا صاحب سے مسئلہ تناسخ اور مقابلہ ویدو قرآن کے موضوع پر مناظرہ کیا۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کے پہلے ہی مضمون کے بعد جو مسئلہ تناسخ کے خلاف تھا پنڈت صاحب نے مزید مناظرہ جاری رکھنا مناسب نہ سمجھا اور وہ قادیان سے واپس چلے گئے۔ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ پنڈت صاحب ویدوں سے کلیۃً بدظن ہو گئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وید علوم الٰہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے۔ نیز یہ کہ ویدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے متعلق آریوں کا دعویٰ باطل ہے۔

(مرزا غلام احمد صاحب قادیانی 1923ء۔ شحنۂ حق طبع اوّل صفحہ 24)

پنڈت صاحب کا آریہ تحریک کے متعلق رویّہ حضرت مرزا صاحب کے مقابلے میں آریہ سماج کو تیسرا دھچکا تھا۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے باوا نارائن سنگھ اور پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے بحث سے احتراز کے بعد دوسرے آریہ سماجی لیڈروں کی طرف رجوع کیا اور سوامی دیانند صاحب، منشی جیون داس صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، منشی بختاور سنگھ صاحب، ایڈیٹر آریہ درپن، بابو سادا پرشاد صاحب، منشی لالہ شرمپت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان اور منشی اِندر مَن صاحب مراد آبادی کے نام ایک کھلا چیلنج اخبار ہندو باندھو میں شائع کرادیا اور ان حضرات کی طرف سے چیلنج کے جوابات کے موازنہ کے لئے عیسائی پادری رجب علی صاحب اور پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری صاحب ایڈیٹر رسالہ ہندو باندھو کو بطور منصف تجویز کیا۔ اب بظاہر آریہ سماج کے لیڈروں کے لئے کوئی راہ فرار نہ تھی ان کے لئے مرزا صاحب کے چیلنج کا جواب دینا ضروری ہو گیا۔

1- لالہ شرمپت صاحب کا بیان اور پنڈت شیونرائن کا تبصرہ

آریہ سماج کے دیگر لیڈروں میں سے تو کوئی مقابل پر نہ آیا لیکن لالہ شرمپت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان نے ہمت کی اور حضرت مرزاصاحب اور باوا نارائن سنگھ کے درمیان گزشتہ بحث کی بنیاد پر ایک مضمون لکھا اور اسے حضرت مرزا صاحب کے انعامی چیلنج کے جواب میں چھاپنے کے لئے رسالہ ہندو باندھو کو بھیج دیا۔ یہ ہمت تو انہوں نے کر لی لیکن یہ انہیں بہت مہنگی پڑی۔ اس لئے کہ پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری صاحب نے حسب وعدہ لالہ شرمپت صاحب کا مضمون اپنے رسالہ میں تو شائع کر دیا لیکن انہوں نے بطور منصف اس مضمون پر جو ادارتی تبصرہ کیا اس سے لالہ شرمپت صاحب کی ذاتی لیاقت کا بھی بھانڈا پھوٹا اور اہل علم کی نظر میں آریہ سماج کی وقعت بھی گر گئی۔ پنڈت شیونرائن کے تبصرے کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

’’باوجود اس کے کہ ہم نے مرزاصاحب کے مضمون کا پہلا حصہ اپنے اپریل کے رسالے میں ختم کر دیا تھا اور یہ یقین کیا تھا کہ اثبات دعویٰ کے لئے جس قدر دلائل وہ اس مضمون میں رقم کر چکے ہیں بخوبی کافی ہیں مگر انہوں نے اسی پرا کتفا نہیں کیا اور ایک دوسرا حصہ اور تیار کر کے ہمارے پاس چھپنے کے لئے بھیج دیا۔ اس حصہ کو ہم نے ہنوز رسالہ میں درج نہیں کیا۔ بایں خیال کہ جو دلائل مرزا صاحب پہلے حصے میں مشتہر کر چکے ہیں اگر انہیں کے ردّ کے لئے اہل آریہ تیارنہیں ہیں تو پھر مضمون مذکورہ کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ طُول دینا بالفعل کچھ ضرور نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اُمید بالکل خالی نہیں گئی۔ لالہ شرمپت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں ایک مضمون اثبات تناسخ پر ہمارے پاس برادر ہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں۔ کس حیثیت کا وہ مضمون ہے اور اس کا نفس مضمون کس سانچہ کا ڈھلا ہوا ہے اور اس کی طرزِعبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا ناموافق ہے اس کا فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔ ہاں چند کلمے بطریق ہدایت دوستانہ لالہ صاحب نیز ان کے ہم خیال صاحبوں کے لئے یہاں پر درج کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔

اوّل۔ ہر ایک کام کے لئے اس کے موافق انسان میں ایک خاص مادہ ہونا ضروری ہے۔ اصول مناظرہ یا بحث بھی اس قاعدہ سے خالی نہیں۔ پس پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہنے یا لکھنے کی جرأت کریں۔ ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے تئیں اصول مذکورہ کی صفت سے متصف بنا لیں اور یہ کوئی آسان بات نہیں ۔ برسوں کی تعلیم اور خاص قسم کی تربیت سے یہ ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ ملکہ نہیں تو پھر بولنا کون نہیں جانتا حیوانات بھی ضد سے آواز برآمد کرسکتے ہیں۔

دوئم۔ کسی اخبار یا رسالہ میں جس کے ہزاروں پڑھنے والے ہوتے ہیں جب کوئی مضمون چھپوانا منظور ہو تو اس میں بالخصوص اصول مذکورہ کے مدّ نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ بے سرو پا بکواس کے ساتھ کاغذ کو سیاہ کرکے ناظرین کے خیالات کو بگاڑنا، ان کی طبیعت کو منتشر کرنا اور خواہ مخواہ ان کی تضیع اوقات کرنا نہ صرف راقم مضمون کے لئے بے جا ہے بلکہ ایڈیٹر کے لئے بھی (جو اندراج مضامین کے لئے پورا پورا ذمہ دار ہے) یہ امر نا واجب ہے۔

اب دیکھنا چاہئے کہ لالہ شرمپت صاحب نے کہاں تک ان اصولوں کی پابندی کی ہے۔ اوّل جو مضمون مرزا صاحب کا ابطال تناسخ پر ہمارے رسالے میں مشتہر ہوا ہے لالہ صاحب نے اس کا جواب مطلق نہیں دیا۔‘‘

(بحوالہ شیخ یعقوب علی عرفانی۔ حیات احمد صفحات 226-221)

پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری صاحب نے تبصرے کے آخر میں لکھا کہ اگر لالہ صاحبان اپنے عقیدے سے تائب ہونے کے لئے تیار نہیں تو مرزاصاحب کی بیان کردہ وجوہ ابطال تناسخ کو ہی اصول مناظرہ اور منطق سے غلط ثابت کر دکھائیں

’’ورنہ مفت کی بے سروپا اور بے ڈھنگی بکواس کا سلسلہ قائم رکھنا عقلمندوں کے نزدیک ایک حرکت لغو شمار کی جاتی ہے۔‘‘

(بحوالہ شیخ یعقوب علی عرفانی۔ حیات احمد صفحات 226-221)

جب سے مرزا غلام احمد صاحب اور آریہ سماج کے لیڈروں کے درمیان ویدک دھرم کے عقائد کی سچائی کے بارے میں پبلک مباحثات کا سلسلہ شروع ہوا تھا پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری صاحب کا یہ تبصرہ آریہ دھرم پر ایک تباہ کن ضرب تھی اور آریہ سماج کے خلاف حضرت مرزا صاحب کی چوتھی فتح تھی۔

2- سوامی دیانند کی آریہ عقائد میں ترمیم

اسلام اور آریہ سماج کے درمیان اس علمی مباحثے کو جاری ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے جس میں آریہ سماج کے لیڈروں کو مسلسل زک پہنچ رہی تھی۔ حضرت مرزا غلا م احمد صاحب نے چونکہ علمی مضامین کو اخبارات میں چھپوانے اور ان کے رَدّ کے لئے انعامی چیلنجوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا اس لئے آریہ سماجیوں کے لئے خاموش رہنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس دوران سوامی دیا نند کو نام لے کر بھی بار بار مقابلے کی دعوت دی جا چکی تھی لیکن ان سے کچھ جواب نہیں بن پڑ رہا تھا یہاں تک کہ سوامی صاحب مجبور ہو گئے کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے سامنے اپنے عقائد میں ترمیم کریں۔ بلاشبہ ان کی طرف سے اپنی غلطی کا کھلا اعتراف اسلام اور آریہ سماج کی جنگ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی ایک اور واضح فتح تھی۔ پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری نے اپنے اخبار میں سوامی دیانند کے ویدک دھرم کے عقائد سے اس انحراف پر زور دار تبصرہ کیا۔ اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

’’ ان کے مقلد یقین کرکے اور وید کو خدا کا کلام مان کر اندھا دھند جو کچھ سوامی صاحب کے منہ سے سن لیتے ہیں خواہ وہ کیسا ہی علم و عقل کے مخالف ہو مگر اس کے پیرو ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ چند ماہ سے بعض آریہ سماج کے لائق ممبروں اور ہمارے رسالہ کے مضمون نگار صاحب کے درمیان کچھ مباحثہ جاری ہے اس سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں۔ سوامی صاحب کے مقلد باوجود خدا کے قائل ہونے کے سوامی جی کی ہدایات کے موافق یا یوں کہو کہ وید کے احکام کے موافق اپنا یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ ارواح بے اَنت یعنی لا انتہا ہیں اور خدا ان کا پیدا کرنے والا نہیں اور جب سے خدا ہے تب سے ارواح بھی ہیں یعنی وہ اَنادی ہیں اور نیز خدا کو ارواح کی تعداد کا علم نہیں ہے ماسوائے کسی روح کو نجات ابدی حاصل نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ تناسخ یعنی اواگون کے سلسلہ میں مبتلا رہتی ہے … مگر اب ہمارے مضمون نگار مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لاچار سوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں۔‘‘

(پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری۔ اخبار برادر ہند۔ جولائی 1878ء بحوالہ حیات النبی۔ شیخ یعقوب علی عرفانی جلد اوّل صفحات 118-114)

3- مہاشہ دیودت کا تبصرہ

مہاشہ دیودت صاحب ایک آریہ سماجی لیڈر تھے۔ انہوں نے آریہ تحریک کی کارکردگی پر ایک ’’آریہ سماج اور پرچار کے سادھنا‘‘ نامی کتاب تحریر کی۔ اس میں انہوں نے کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا کہ مرزا صاحب کے بیان کردہ اسلام کے اصول صحیح اور آریہ تحریک کے عقائد بقول پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری لغو اور بے ہودہ تھے تاہم انہوں نے بعض عذرات کی شرط کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ مرزا صاحب کے شائع کردہ لٹریچر سے آریہ سماجی لیڈر مسلمانوں میں خاطر خواہ نفوذ پذیر نہیں ہو سکے وہ لکھتے ہیں کہ

’’اجمیر سے چل کر سوامی دیانند چاند پور پہنچے اور مسلمانوں سے زبردست مناظرہ کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی عبدالمنصور صاحب پیش ہوئے اور ان کی مدد کے لئے بہت سے مولوی موجود تھے لیکن سوامی جی مہاراج کے ساتھ صرف منشی بختاور سنگھ اور منشی اِندرمن مراد آبادی تھے۔ سوامی جی نے اعتراضات کی اس قدر بھرمار کی کہ مولوی ان کا کوئی جواب نہ دے سکے اور میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ مولوی نور اﷲ کئی مسلمانوں سمیت آریہ ہو گئے۔ آریہ ویروں نے جگہ جگہ شُدھی سبھا قائم کر کے مسلمانوں میں پرچار کرنا شروع کر دیا۔ اگر آریہ سماجی دوست اس پوتر کام کو جاری رکھتے تومسلمانوں کا کثیر حصہ ویدک دھرم کی شرن میں آجاتا لیکن آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو موقع مل گیا۔ اس نے آریہ سماج کے خلاف سفیر ہند امرتسر میں مضامین کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر دیا اور اس میں سوامی دیانند جی مہاراج کو بھی چیلنج کردیا۔ چونکہ سوامی دیانند جی مہاراج اُن دِنوں راجستھان کا دورہ کر رہے تھے اس لئے انہوں نے منشی بختاور سنگھ اور منشی اندر من مراد آبادی سے کہا کہ وہ ان کا چیلنج منظور کر لیں لیکن افسوس کہ انہیں ایام میں بعض وجوہ کی بنا پر سوامی جی نے اندر من مراد آبادی کو آریہ سماج سے نکال دیا اس لئے یہ مناظرہ نہ ہو سکا۔ مرزا غلام احمد نے اس در گھٹنا سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور آریوں کے خلاف ایسا زہریلا لٹریچر لکھا کہ جس نے مسلمانوں کے دلوں میں آریہ دھرم کے متعلق سخت نفرت پیدا کر دی۔‘‘

(مہاشہ دیودت۔ آریہ سماج اور پرچار کے سادھنا صفحہ 12)

اگرچہ مہاشہ دیودت نے آریہ سماج کی ناکامی اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی کامیابی کی وجہ آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کو قرار دیا ہے لیکن رسالہ برادر ہند کی جولائی 1878ء اور رسالہ جیون دھر کی 15؍ جولائی 1886ء کے شماروں سے پتہ چلتا ہے (رسالہ جیون دھر۔ 15جولائی 1886ء)کہ مرزا صاحب کے زبردست علمی مضامین نے نہ صرف عام پڑھے لکھے آریوں بلکہ ان کے لیڈروں کے ویدک دھرم پر اعتقادات کو بھی متزلزل کر دیا تھا اور خود سوامی دیانند صاحب بھی مرزاصاحب کے زبر دست اعتراضات کے باعث بار بار اپنے عقائد کی توجیہات بدلتے رہتے تھے۔ جسے بعض روشن خیال ہندو ان کی متلوّن مزاجی کا نام دیتے تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ آریہ سماج کے اندرونی اختلافات بھی مرزا صاحب کے زبر دست علمی اور منطقی دلائل کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری کے مطابق مرزا صاحب کے دلائل کے سامنے تو آریہ عقائد محض ’’بے ہودہ اور لغو‘‘ نظر آتے تھے اور ان کو تسلیم کرنا ’’آفتاب نیمروز کی روشنی میں اندھوں کی طرح حرکت‘‘ کرنے کے مترادف تھا۔

(اخبار برادرہند جولائی 1878ء)

II- حضرت مرزا صاحب اور آریہ سماجی لیڈر ماسٹر مُرلی دھرکے درمیان مباحثہ

اوپر بیان کردہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے مدلّل مضامین سے آریہ سماجی لیڈر عملی طور پر کمزور پڑ رہے تھے اور پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری کے تبصروں سے آریہ سماج کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی لیکن اکثر آریوں کو مرزا صاحب کی وسعت مطالعہ اور عقلی اور نقلی دلائل کی صلاحیت کا ابھی ذاتی تجربہ نہ تھا۔ اسی کشمکش کے دوران مرزا صاحب اور ایک آریہ سماجی لیڈر ماسٹر مُرلی دھر کے درمیان مباحثے کی صورت نکل آئی۔ حضرت مرزاصاحب 22؍جنوری سے 17؍ مارچ 1886ء تک ہندوستان کے ایک شہر ہوشیارپور میں بغرض چلّہ کشی مقیم رہے اور چالیس روز تک آپ عوام النّاس اور اعزّہ و اقربا سے علیحدہ رہ کر پورا وقت اِنہماک کے ساتھ عبادت الٰہی میں گزارتے رہے۔ مارچ کے اوائل میں چلّے کے اختتام پر ہوشیار پور کے ماسٹر مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر جو آریہ سماج کے ایک مقتدر رہنما تھے مرزا صاحب کے پاس تشریف لائے اور درخواست کی کہ وہ مرزا صاحب سے اسلامی تعلیمات پر چند سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔ یہی ملاقات مرزا صاحب اور ماسٹر مرلی دھر صاحب کے درمیان مباحثے کا سبب بنی۔ اس مباحثے کو مرزا صاحب نے بعد میں ستمبر 1886ء میں ’سرمہ چشم آریہ‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی کر دیا تاکہ عوام الناس بھی اس مباحثے کی رو داد کو پڑھ سکیں۔ مباحثے کے لئے مرزا صاحب اور ماسٹر صاحب کے درمیان باہمی رضا مندی سے یہ طے ہوا کہ ایک نشست میں ماسٹر مرلی دھر صاحب اسلام پر اپنے سوالات پیش کریں گے اور مرزا غلام احمد صاحب ان کے جوابات دیں گے اور دوسری نشست میں مرزا غلام احمد صاحب آریہ سماج کے مسلّمہ عقائد پر سوالات کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے۔ یہ بھی طے ہوا کہ بحث کا خاتمہ جواب الجواب کے جواب سے ہو گا۔ مباحثے کی دو نشستوں کے لئے گیارہ مارچ 1886ء کی شب اور 14؍مارچ 1886ء کا دن قرار پایا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرف سے بہت سے معزز شہری جن میں وکیل، ڈاکٹر ، سرکاری افسران اور رؤسا بھی شامل تھے۔ دور و نزدیک سے اپنے کام کا حرج کر کے مرزا صاحب کی فرودگاہ پر جہاں یہ مباحثہ ہونا قرار پایا تھا تشریف لائے تاکہ اسلام اور آریہ سماج کے حق میں دیئے جانے والے دلائل کو اپنے کانوں سے سُن سکیں۔

اس مباحثے کی پہلی نشست گیارہ مارچ 1886ء کی رات کو ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے اپنا مشہور اعتراض معجزئہ شق القمر کے بارے میں پیش کیا۔ جب مرزا صاحب نے اس کا جواب لکھا تو اس پر ماسٹر مرلی دھر صاحب نے جواب الجواب لکھا۔ جب معاہدے کے مطابق جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا اور مرزا صاحب اسے لکھنے لگے تو ماسٹر صاحب اُٹھ کر جانے کے لئے تیار ہوئے اور رات بڑی چلے جانے کا عذر پیش کیا۔ مرزا صاحب نے گزارش کی کہ رات کا سب پر برابر اثر ہے اور نیز یہ کہ معاہدے کی خلاف ورزی مناسب نہیں۔ اکثر حاضرین نے بھی ماسٹر صاحب کو سمجھایا کہ ابھی رات کچھ ایسی زیادہ نہیں ہوئی۔ میاں شتروگن صاحب پسر کلاں راجہ رو ورسین صاحب والئی ریاست کپور تھلہ جو مباحثہ میں موجود تھے نے کئی بار ماسٹر مرلی دھر صاحب سے التجا کی کہ آپ جواب الجواب لکھنے دیں ہم بخوشی بیٹھیں گے۔ ہم لوگوں کو کوئی تکلیف نہیںبلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے۔ایسا ہی کئی دوسرے ہندو معززین نے بھی عرض کی مگر ماسٹر صاحب نے کچھ ایسی مصلحت سوچی کہ کسی کی بات کو نہ مانا اور اُٹھ کر چلے گئے۔

دوسری نشست 14؍مارچ 1886ء کو دن کے وقت شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار کے مکان پر ہوئی۔ معاہدے کی رو سے اس دن مرزا غلام احمد صاحب کو آریہ سماج کے عقائد پر اپنے سوالات پیش کرنے تھے لیکن ماسٹر مرلی دھر صاحب نے گیارہ مارچ والی بحث میں پیش کئے گئے ایک حوالے پر بحث شروع کر دی اور اعلان کر دیا کہ اگر مرزا صاحب یہ حوالہ ستیارتھ پرکاش کتاب سے نکال کر دکھادیں تو اسی سے سچے اور جھوٹے میں فرق ہو جائے گا۔ بہرحال مرزا صاحب کے اس وعدے پر یہ بحث ختم ہوئی کہ مرزا صاحب بحث کی رو داد چھپواتے وقت پورا حوالہ درج کر دیں گے اور وہ حوالہ جس پر ماسٹر صاحب کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ ستیارتھ پرکاش میں نہیں اور یہی سچے اور جھوٹے کی تمیز کے لئے کافی ہے یہ تھا۔

’’ روحیں اوس وغیرہ پر پھیلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

(چنانچہ بعد میں مرزا صاحب نے جب اس مباحثہ کی رو داد سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع کی تو لکھ دیا کہ یہ عبارت ستیارتھ پرکاش آٹھواں سمولاس صفحہ 263 پر درج ہے)۔

اس یقین دہانی کے بعد جب بحث بمشکل دوبارہ شروع ہوئی تو مرزاصاحب نے اپنا تحریری اعتراض پیش کیا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ ہی وہ کسی کو خواہ کیسا ہی راستباز اور سچا پرستار ہو ابدی نجات بخشے گا خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت دونوں کے منافی ہے۔ جب مرزا صاحب کا اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر مرلی دھر صاحب وقتی طور پر کچھ گھبرا گئے اور عذر کرنے لگے کہ یہ سوال ایک نہیں دو ہیں لیکن بہت سمجھانے کے بعد کہ سوال ایک ہی ہے جس کے دو جُز ہیں ماسٹر صاحب کافی غصے میں جواب لکھنے کے لئے تیار ہوئے۔ تین گھنٹے کے بعد ماسٹر صاحب نے سوال کے ایک حصے کا جواب لکھ کر سُنایا اور دوسرے حصے کے متعلق فرمایا کہ اس کا جواب وہ اپنے مکان پر جا کر لکھیں گے اور بعد میں بھجوا دیں گے۔ مرزا صاحب نے گھر جاکر جواب لکھنے اور بھجوانے کی تجویز کو قبول نہ کیا۔ اور اصرار کیا کہ معاہدے کے مطابق جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے روبرو تحریر کریں۔ اگر گھر بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس جلسہ بحث کی کیا ضرورت تھی؟ جب ماسٹر صاحب کسی طرح بھی راضی نہ ہوئے تو مرزا صاحب نے کہا۔اچھا جو کچھ لکھا ہے وہی دے دیں تاکہ ہم اس کا جواب الجواب لکھیں۔ اس کے جواب میں ماسٹر صاحب نے کہا کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے اب ہم بیٹھ نہیں سکتے۔ جب وہ جانے لگے تو مرزا صاحب نے ماسٹر صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا کہ جو معاہدہ باہم طے پاچکا تھا اسے توڑ دیا۔ نہ آپ نے خود ہمارے سوال کا پورا جواب لکھا۔ اور نہ ہمیں جواب الجواب لکھنے کا موقعہ دیا۔ اب ہم اپنے جواب الجواب کو بھی کتاب شائع کرتے وقت شامل کر دیں گے۔ یہ بات سُنتے ہی ماسٹر صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور مجلس سے نکل گئے۔ حالانکہ اس اجلاس میں سامعین کی تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ صدہا مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ مکان کا صحن حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جن میںکئی وکلا ، روساء اور سرکاری افسران شامل تھے۔

اگرچہ قارئین کو یہ باور کرنا مشکل نہ ہو گا کہ بحث کے لئے تیار ہونے سے قبل ماسٹر مرلی دھر کو مرزا صاحب کی صلاحیتوں اور اسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ پہلے ہی دن جب انہوں نے مرزا صاحب کی مدلل تحریر کو پڑھا تو بعد میں راہِ فرار اختیار کرنے کی خاطر بار بار طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے رہے یہاں تک کہ اُسے ادھورا چھوڑ کر چل دئے۔ جسے بعد میں مرزا صاحب نے سرمہ چشم آریہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ جہاں تک مرزا صاحب کی طرف سے پیش کردہ حوالے کو ستیارتھ پرکاش سے دکھانے کا ماسٹر مرلی دھرکی طرف سے مطالبہ اور اُسے سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق کا ذریعہ بنانے کا تعلق ہے اس حوالے کو مرزا صاحب نے اپنی کتاب سرمہ چشم آریہ کے صفحہ 74-73 پر مکمل درج کیااور لکھا کہ

’’ یہ پنڈت صاحب کی عبارت ہے۔ جو ہم نے ستیارتھ پرکاش سے نکال کر اس جگہ لکھی ہے۔ اب ہم ماسٹر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ کیوں صاحب ابھی سچ اور جھوٹ کی ترقی ہوئی یا نہیں۔ اس وقت آپ فرمائیں تو سہی کہ آپ کے دل کا کیا حال ہے۔ کیا وہ آپ کا قول سچ نکلا کہ مضمون مذکورہ بالا ستیارتھ پرکاش میں کسی جگہ نہیں۔ افسوس اس روز ناحق آپ نے ہمارے اوقات کو ضائع کیا اور اپنی علمی حیثیت کا پردہ پھاڑا اور آج آپ ہی جھوٹے نکلے۔ ہر کہ صادقاں آویخت آبروئے خود ریخت۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2۔ صفحہ 75-74 حاشیہ)

مرزا غلام احمد صاحب نے صرف ماسٹر مرلی دھر صاحب کے مباحثے میں ناکامی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی روداد کو سرمہ چشم آریہ کی کتابی شکل میں شائع کیا بلکہ تمام آریہ صاحبان کو چیلنج دے دیا کہ وہ اس کتاب میں درج شدہ دلائل کا رد کر کے دکھادیں تو مرزا صاحب ایسے مصنف کے سامنے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کریں گے بلکہ اپنی طرف سے پانچ سو روپیہ انعام بھی دیں گے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ

’’ یہ کتاب یعنی سرمہ چشم آریہ بتقریب مباحثہ لالہ مرلی دھرصاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور جو عقائد باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے اس دعویٰ اور یقین کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا ردّ نہیں کر سکتا کیونکہ سچ کے مقابلہ میں جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادات کو جو اس کتاب میں ردّ کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی وید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشرکرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو ایشرکی قسم ہے کہ اس کتاب کاردّ لکھ کر دکھاوے اور پانچ سو روپے انعام پاوے ۔ یہ پانچ سو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو پادری یا برہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا…‘‘

(سرمہ چشم آریہ۔ اشتہار انعامی پانسو روپیہ ٹائٹل آخر صفحات 323-321)

اس قسم کے علمی مباحثوں میں خاص طور پر جن میں دو مذاہب کی مبادیات زیر بحث ہوں صرف غیر جانبدار اصحابِ علم کی رائے ہی اہم سمجھی جاتی ہے اگرچہ مباحثے کے وقت موجود حاضرین کی ایک بھاری تعداد ماسٹر مرلی دھر صاحب کے رویے کو شکست کی صورت تعبیر کر رہی تھی جس سے ویدوں کی حقانیت پر زد پڑ رہی تھی لیکن مرزا صاحب نے اسے من و عن شائع کر کے ہمیشہ کے لئے غیر متعصب قارئین کے لئے محفوظ کر دیا۔ ہم نیچے تین ایسے تبصرے درج کر رہے ہیں جو اس لحاظ سے غیر جانبدار ہیں کہ ان میں سے ایک عیسائی اخبار کا اس کتاب یعنی سرمہ چشم آریہ پر تبصرہ ہے اور دوسرے دو ایسے مسلمان عالموں کے تبصرے ہیں جو ساری عمر مرزا صاحب کے شدید مخالفین میں شامل رہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

1- تبصرہ مشہور اہلِ حدیث عالم

مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ

’’اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجوہات سے معجزہ شق القمر ثابت کیا ہے اور اس کے مقابلے میں آریہ سماج کی کتاب (وید) اور اس کی تعلیمات و عقائد (تناسخ وغیرہ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے۔ ہم بجائے تحریر ریویو اس کتاب کے بعض مطلب … اصل عبارت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ وہ مطالب بحکم ’’مشک آں است کہ خود ببوئد نہ کہ عطار بگوئد‘‘ خود شہادت دیںگے کہ وہ کتاب کیسی ہے اور ہمارے ریویو لکھنے کی حاجت باقی نہ رہنے دیں گے … اور حمیت و حمائت اسلام تو اس میں ہے کہ ایک ایک مسلمان اس کتاب کے دس دس بیس بیس نسخے خرید کر ہندو مسلمانوں میں تقسیم کرے۔‘‘

(مولوی محمد حسین بٹالوی ۔1886ء اخبار اشاعۃالسنۃ جلد 9 نمبر6-5 صفحات 158-145)

2- تبصرہ مولوی سیّد ابو الحسن ندوی صاحب

’’مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات انبیا کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے۔ محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انسانی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور اس کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں۔ وہ بار بار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدود و مختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب اور عقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے او ر اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں اس لئے کہ عقل غیرمحیط ہے۔‘‘

(سیّدابوالحسن ندوی۔ قادیانیت۔ صفحہ 63-62

3- تبصرہ مشہور عیسائی اخبار نور افشاں

’’ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کرتے ہوئے اسے پاش پاش کر دیا ہے۔ کتاب کے فیصلہ کن دلائل کاردّ کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔‘‘

(اخبار نورافشاں 1887۔ اشاعت 6 جنوری 1887ء)

قارئین گزشتہ صفحات پر حضرت مرزا صاحب کے مقابلے میں لالہ شرمپت صاحب کے مضامین پر پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری کا تبصرہ اور دوسرے واقعات پڑھ آئے ہیں اب ماسٹر مُرلی دھر صاحب کے ساتھ مباحثے کا احوال بھی پڑھ لیا اور مرزا صاحب کی طرف سے اس مباحثے پر مبنی کتاب سرمہ چشم آریہ پر مشہور عیسائی اخبار نور افشاں کا تبصرہ اور مرزا صاحب کے دو مشہور مسلمان مخالفین کے تبصرے بھی پڑھ لئے۔ آریہ سماج کو جو ہزیمت حضرت مرزا صاحب کے ہاتھوں اُٹھانی پڑ رہی تھی وہ ناقابلِ برداشت تھی اور بالآخر ان میں سے ایک صاحب پنڈت لیکھرام پشاوری مرزا صاحب کے ساتھ روحانی مقابلے کے لئے تیار ہو گئے جس کی روداد کافی طویل مگر دلچسپ اور عبرت انگیز ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button