قرآن کریم

تفسیر سورۃ الفیل

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے
خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب

( قسط نمبر 2)

٭ غرض اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفیل کو کفار کے اس اعتراض کے جواب میں بیان کیا ہے کہ اگلے جہان کے عذابوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں یہ بات عقل کے خلاف اور ناممکن نظر آتی ہے مگر ایسی ہی ناممکن بات اصحاب الفیل کی بربادی کی بھی تھی۔ ان کا حملہ ایسے رنگ میں ہوا اور ایسے حالات میں ہوا اور عربوں کا دفاع اتنا کمزور پڑ گیا اور انہوں نےا پنے آپ کو ابرہہ اور اس کے لشکر کے مقابلہ میں اتنا بیکس اور بے بس پایا کہ ہتھیار ڈال دیئے اور سمجھ لیا کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے سامانوں اور ذرائع سے دشمن کو تباہ کیا گیا کہ جس کی مثال دنیا میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتی۔ فرماتا ہے تم غور کرو اور سوچو کہ وہاں کیا بات تھی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو تباہ کیا۔ اس کا لشکر اس لئے تباہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ایک دعا کی تھی جس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس شہر کو امن والا بنائے گا اور اسے دشمنوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا۔ ابراہیمؑ کے وقت لوگ کہتے ہوں گے کہ جناب آپ نے یہ دعویٰ تو کر دیا ہے مگر اس کا ثبوت کیا ہے۔ یہ تو آئندہ زمانہ کے متعلق آپ ایک بات کہہ رہے ہیں اور اُس زمانہ میں نہ ہم زندہ ہوں گے ،نہ آپ نے زندہ رہنا ہے۔ پھر ایسی بات کا فائدہ کیا ہے ۔مگر جب وہ وقت آیا دیکھنے والوں نےد یکھ لیا کہ ابراہیمؑ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور ایک زبردست دشمن جو لشکرِ جرّار کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کو بچا لیااور اس طرح ایک ناممکن بات ممکن ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ پیشگوئی کی تھی اُس وقت مکّہ دنیا میں کوئی شہر نہیں تھا۔ محض اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کے لئے انہوں نے اپنی بیوی اور ایک چھوٹے بچے کو جو ابھی بالغ بھی نہیں ہوا تھا اس مقام پر آکر چھوڑ دیا۔ اُس وقت تک ابھی زمزم کا چشمہ بھی نہیں پھوٹا تھا۔ بالکل وادیٔ غیر ذی زرع کی سی حالت تھی ۔نہ اس میں پانی کا کوئی سامان تھا۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی خشک کھجوروں کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے پاس رکھ دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت وہ اپنی بیوی اور بچے کو وہاں چھوڑ کر واپس چل پڑے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بتایا نہیں کہ مَیں تمہیں یہاں اکیلے چھوڑ کر جا رہا ہوں کیونکہ انہیں خیال گزرا کہ ماں کی مامتا اپنے بچہ کی تکلیف کی وجہ سے شاید اس کی برداشت نہ کر سکے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام چلے تو آپ نے اس محبت کی وجہ سے جو طبعاً انسان کو اپنی بیوی اور بچے سے ہوتی ہے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد انہیں مُڑ کر دیکھنا شروع کر دیا۔ پہلے تو وہ اس رنگ میں باتیں کرتے رہے کہ بیوی کو یہ شبہ پیدا نہ ہوا کہ میَں انہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اور جب وہاں سے واپس چلے تو واپس لَوٹتے وقت بھی اس انداز میں واپس گئے جیسے کوئی ایندھن اکٹھا کرنے جاتا ہے یا پانی کا انتظام کرنے کے لئے جاتا ہے۔ مگر جب چل پڑے تو ان سے برداشت نہ ہو سکا اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر انہوںنے اپنی بیوی اور بچے کی طرف دیکھا اور پھر چلے اور چند قدم اٹھائے تو محبت نے غلبہ پایا اور انہوں نے اپنی بیوی اور بچے پر نظر ڈالی۔ حضرت ہاجرہؓ اپنے خاوند کی ان حرکات سے سمجھ گئیں کہ یہ جدائی عارضی نہیں بلکہ معلوم ہوتا ہے یہ مستقل طور پر جا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے چہرے پر رقّت کے آثار تھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ نے سمجھ لیا کہ بات کچھ اَور ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھیںاور حضرت ابراہیمؑ کے پاس گئیں اور کہا کہ کیا آپ ہم کو چھوڑے چلے جار ہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ رِقّت کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکے۔ ان کا گلا پکڑا گیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اپنا منہ پھیر لیا۔حضرت ہاجرہؓ کو یقین آ گیا کہ اب یہ ہم کو مستقل طور پر چھوڑے چلے جارہے ہیں۔ چونکہ حضرت ہاجرہؓ کا پہلے بھی اپنی سَوت کے ساتھ جھگڑا ہو چکا تھا اس لئے انہیں خیال آیا کہ شاید یہ اس کی وجہ سے نہ ہو۔ پھر خیال آیا کہ چونکہ حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اس لئے شاید اللہ تعالیٰ نے ہی ان کو اس بات کا حکم نہ دیا ہو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ءاَللہُ اَمَرَکَ۔ کیا خدا نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ایسا کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مگر غم کی وجہ سے ان سے بات نہیں کی گئی۔ حضرت ہاجرہؓ نے یہ سن کر کہا اگر خدا نے آپ کو یہ حکم دیا ہے تو خدا ہم کو چھوڑے گا نہیں۔ آپ بیشک چلے جائیں۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بیٹے کو وہاں چھوڑا ہے اُس وقت مکّہ کوئی شہر نہیں تھا۔ وہاں کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجوروں کی وہ انہیں دے کر واپس چلے گئے اور اس لئے گئے کہ خدا نے ان سے کہا تھا کہ تُو اپنے بیٹے کو ہماری راہ میں ذبح کر۔ میرا کامل یقین ہے اورمَیں نے متواتر یہ بات بیان کی ہے اور میَں سمجھتا ہوں کہ مَیں اسے قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رؤیا میں جو یہ دیکھا تھا کہ مَیں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں اس سے مراد ظاہری ذبح کرنا نہیں تھا بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ ایک وقت آپ کو حکم دیا جائے گا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل کو ایک ایسی وادیٔ غیر ذی زرع میں جا کر چھوڑ آئیں جہاں نہ پینےکے لئے پانی ہو اور نہ کھانے کے لئے غلّہ۔ ایک جنگل اور دہشتناک بیابان میں جہاں ہر وقت اس بات کا امکان تھا کہ بھیڑیا آئے اور انہیں کھا جائے۔ جہاں کھانے اور پینے کی کوئی چیز نہ تھی۔ جہاں رہائش کے لئے کوئی مکان نہیں تھا۔ جہاں سینکڑوں میل تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اسماعیل کو چھوڑنا قتل سے کسی طرح کم نہیں تھا بلکہ زیادہ ہی تھا۔ قتل کرتے وقت تو مقتول کی ایک منٹ میں جان نکل جاتی ہے مگر یہاں اس بات کا امکان تھا کہ وہ بھوکے اور پیاسے کئی کئی دن تک تڑپ تڑپ اور سِسَک سِسَک کر جان دیں۔ پس میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خواب دیکھی تھی اس میں اسی طرف اشارہ تھا کہ ایک دن تمہیں حکم دیا جائے گا کہ جاؤ اور اسماعیلؑ کو جنگل میں چھوڑ آؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ایک ایسی جگہ پر جس میں کشش کے کوئی سامان نہیں، جس میں کھانے پینے کے کوئی سامان نہیں، جس میں رہائش کا کوئی سامان نہیں اپنا گھر بنائے۔ اور پھر اس گھر کو ترقی دے کر ایک بستی کی شکل دے اور اس بستی میں ایک ایسی قوم پلتی چلی جائے جس میں اس کا آخری نبی دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہو۔ اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل کو چنا اور اس لئے چنا تا وہ خطّہ بیرونی دنیا کے تعّیش سے محفوظ رہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرب میں بُت پرستی بھی تھی۔ بے دینی بھی تھی۔ بے حیائی بھی تھی۔ اور وہ قوم شرک کے انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کا جوہر جیسے عرب میں قائم تھا ویسا دنیا میں اور کہیں قائم نہیں تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ مکّہ کے لوگ ایک جنگل میں پڑے ہوئے تھے اور دنیوی تعیّش کے سامانوں سے بہت دُور تھے۔ بیشک ان میں بعض دولتمند بھی تھے مگر دنیا کی دولت کے مقابلہ میں ان کی دولت ایسی ہی تھی جیسے کسی احمدی کے پاس اگر لاکھ دو لاکھ روپے ہوں تو وہ اپنے آپ کو بہت بڑا امیر سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ یورپ کے کئی کارخانہ دار ایسے ہیں جن کے ملازموں کے ملازموں کے پاس اس سے زیادہ دولت ہوتی ہے۔ مکّہ کی دولت بھی اس وقت کی معلومہ دنیا کی دولت کے مقابلہ میں بالکل حقیر تھی اور یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہوا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ مکّہ میں ایک ایسی قوم بسا دے جو دولتمند دنیا اور عیش والی دنیا سے الگ رہتے ہوئے انسانی جوہروں کو قائم رکھ سکے۔ چنانچہ محمد رسول اللہ ﷺ کی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ یہی تھا کہ آپؐ کو عرب قوم مل گئی جس نے قربانی اور ایثار کا وہ نمونہ دکھایا جس کی مثال دنیا کے پردہ پر نہیں مل سکتی۔ انہوں نے جس رنگ میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے اس کی مثال دنیا میں اَور کہیں نہیں ملتی۔ اس طرح وہ قوم اسلام کے پھیلنے اور اس کی اشاعت کا ایک ذریعہ بن گئی۔

بہرحال خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت اور اپنی اولاد کو وہاں بساتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی طاقت اور قوت حاصل نہیں تھی ۔اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ خبر دی کہ خدا ایک نبی کو میری اولاد میں مبعوث کرے گا جو دنیا کے لئے مرجع ہو جائے گا اور جب انہوں نے دعا کی کہ الٰہی دنیا کے چاروں طرف سے لوگ یہاں آئیں اور حج کریں اور عبادت اور ذکر الٰہی میں اپنا وقت گزاریں اور تیرا نام بلند کریں اور تسبیح و تحمید کریں تو کیا ا نہیں طاقت حاصل تھی کہ وہ لوگوں کو کھینچ لاتے؟ وہ تو خود اپنی بیوی اور بچے کو وہاں مرنے کے لئے چھوڑ گئے تھے انہوں نے کسی اَور کو کیا لانا تھا؟ مگر پھر خدا نے مکّہ کی آبادی کے کیسے سامان کئے اور ان کی دعا کو کس حیرت انگیز رنگ میں پورا فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب واپس چلے گئے تو چند دنوں کے بعد پانی ختم ہو گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے تڑپنے لگے ۔ماں سے اپنے بچہ کی حالت دیکھی نہ گئی تو انہوں نے صفا و مروہ پر چڑھ کر دیکھنا چاہا کہ شاید اِدھر اُدھر کوئی آدمی نظر پڑ جائے اور وہ ان کے لئے پانی کا انتظام کر دے یا پانی کا کچھ پتہ دے۔ مگر وہاں آدمی کہاں؟ آخر جب بہت بیتاب ہو گئیں تو انہیں کسی کی آواز سنائی دی۔ اس پر انہوں نے بلند آواز سے کہا اے خدا کے بندے تُو جو کوئی بھی ہے مَیں تجھے قسم دیتی ہوں کہ ا گر تجھے پانی کا پتہ ہے تو مجھے بتا کیونکہ میرا بچہ پیاسا مر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اس آواز دینے والے نے کہا۔ ہاجرہ !مَیں خدا کا فرشتہ ہوں۔ جا اور دیکھ کہ خد انے اسماعیلؑ کے قدموں کے نیچے پانی کا ایک چشمہ پھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ واقعہ میں زمین میں سےا یک چشمہ پھوٹ رہا ہے۔ یہی چشمہ زمزم کہلاتا ہے ۔اور اسی تبرّک کی وجہ سے لوگ اس کا پانی دُور دُور لے جاتے ہیں بلکہ بعض لوگ وہاں اپنا کفن لے جاتے اور زمزم کے پانی سے گیلا کر کے لے آتے ہیں۔ پھر جُرہم قبیلہ وہاں سے گزرا۔ اس قبیلہ کے آدمی چونکہ اسی راستہ سے یمن میں تجارت کے لئے جاتے تھے اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے ان میں سے بعض مر جاتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں پانی موجود ہے تو انہوں نے خواہش کی کہ یہاں ایک درمیانی پڑاؤ بنا لیا جائے ۔چنانچہ جُرہم قبیلہ کا رئیس حضرت ہاجرہؓ کے پاس آیا اور اس نے درخواست کی کہ ہمیں یہاں بسنے کی اجازت دی جائے ہم آپ کی رعایا بن کر رہیں گے۔ حضرت ہاجرہؓ نے اس کی اس درخواست کو منظور فرما لیا اور اس طرح وہ ایک درمیانی پڑاؤ بن گیا جہاں جُرہم قبیلہ کے اور بھی کئی لوگ رہنے لگ گئے۔ رفتہ رفتہ اس پڑاؤ نے ایک گاؤں کی شکل اختیار کر لی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسی قبیلہ کی ایک لڑکی سے شادی کر لی۔ بھلا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس جنگل میں جہاں سینکڑوں میل تک آبادی نہ تھی کہاں سے بیوی لانی تھی۔ خد انے ہی یہ سامان کیا کہ وہاں جُرہم قبیلہ کا ایک گاؤں بسا دیا۔ اس طرح ان کو بیوی بھی مل گئی اور ان کی اولاد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکّہ آباد کیا تھا اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ مکّہ کسی دن شہر بن جائے گا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ لوگ یہاں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنا وقت گزاریں گے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شہر ہمیشہ محفوظ رہے گا اور اللہ اسے امن والا بنائے گا۔ اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ تمام باتیں ناممکن تھیں ۔کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مکّہ شہر بنے گا۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مکّہ محفوظ رہے گا۔ مگر اصحاب الفیل کے حملہ کے وقت وہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ مکّہ ایک شہر بنے گا اور شہر بھی ایسا جو دشمن کے حملہ سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کر کے دکھا دیا۔

٭ مگر سوال یہ ہے کہ اصحاب الفیل کو اُس وقت تک کس نے حملہ کرنے سے روکے رکھا تھا؟ آخر کونسی طاقت تھی جو اس عرصۂ دراز میں مکّہ کی محافظ رہی ۔حضرت ابراہیم ؑ اور اصحاب الفیل کے واقعہ کے درمیان کوئی 28 سو سال کا فرق تھا۔ یا بعض روایتوں کے لحاظ سے 22 سو سال کا فرق تھا۔ دو ہزار دو سو یا دو ہزار آٹھ سو سال تک مکّہ پر کوئی حملہ نہیں کرتا۔ دو ہزار دو سو سال تک مکّہ کے گرانے کی خواہش کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوتی۔ دو ہزار دو سو سال تک خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کا جوش کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ نہ کسی یہودی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ نہ کسی عیسائی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ نہ کسی اور حکومت کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں ثمود کی حکومت آئی، عاد کی حکومت آئی۔ یہ بڑی بڑی حکومتیں تھیں اور ان کی طاقت بہت زیادہ تھی مگر کسی کو یہ خیال پیدا نہ ہو اکہ وہ خانۂ کعبہ پر حملہ کرے۔ لیکن اِدھر ربیع الاول میں محمد رسول اللہ ﷺ پیدا ہوتے ہیں اور اُدھر دو ماہ پہلے ابرہہ حملہ کر دیتا ہے۔ اور اُس وقت خدا یہ نشان ظاہر کرتا ہے کہ وہ ابرہہ اور اس کے لشکر کو تباہ کر دیتا ہے۔ اتنی مدّت تک کسی کو خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے کا خیال نہ آنا اور اُس وقت آنا جب محمد رسول اللہ ﷺ پیدا ہونے والے تھے بتاتا ہے کہ یہ شیطان کی طرف سے اُس وقت آخری حملہ تھا تاکہ پیشتر اس کے کہ اس انسان کا ظہور ہو جو دعائے ابراہیمی کے ماتحت پیدا ہونے والا تھا یہ جگہ ہی مٹا دی جائے اور ابراہیمی پیشگوئی کا دنیا میں ظہور نہ ہو۔ بہرحال اس پیشگوئی کا پورا ہونا اور ایسے حالات میں پورا ہونا جو بالکل مخالف تھے اور ایسے وقت میں پورا ہونا جب محمد رسول اللہ ﷺ پیدا ہونے والے تھے بتاتا ہے کہ اس پیشگوئی کی ایک کڑی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں تھی اور اسی نے مخالف حالات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کیا۔ دعا ئے ابراہیمی میں صاف طور پر یہ الفاظ آتے ہیں کہ الٰہی تُو میری اولاد میں سےا یک ایسا انسان مبعوث کر جو دنیا کو ہدایت دینے والا ہو اور ساتھ ہی یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خانۂ کعبہ کو محفوظ رکھے۔ یہ دونوں دعائیں اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت کے ماتحت ایک ہی وقت میں پوری ہوتی ہیں۔ محرّم میں خانۂ کعبہ کو برباد کرنے والا دشمن اٹھتا ہے۔ اور ربیع الاول میں وہ شخص پیدا ہو جاتا ہے جو کہتا ہے کہ میَں دعائے ابراہیمی کا مصداق ہوں  ۔مگر 22 سو سال تک نہ کسی نے خانۂ کعبہ پر حملہ کیا اور نہ کسی نے یہ کہا کہ میَں دعائے ابراہیمی کا مصداق ہوں۔ کیا یہ سب کچھ اتفاق ہے؟ محمد رسول اللہ ﷺ کے دعویٰ کو تم اتفاق کہہ لو مگر کیا ابرہہ کے حملہ کو بھی کوئی اتفاق کہہ سکتا ہے؟ یقیناً اگر تعصّب سے کام نہ لیا جائے تونہ محمد رسول اللہ ﷺ کے دعویٰ کو اتفاق کہا جا سکتا ہے اور نہ ابرہہ کے حملہ کو اتفاق کہا جا سکتا ہے ۔بلکہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے ازلی فیصلہ کے مطابق ہوا۔ پیشگوئی کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔ حالات قطعی طور پر مخالف تھے۔ اور کوئی انسان محض اپنی عقل سے قیاس کر کے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی۔ مگر ناممکن حالات کو ممکن بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پورا کر دیا۔اگر اس دنیا میں ایسے نظارے نظر آسکتے ہیں تو کیا اُس خدا کی بتائی ہوئی وہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہو سکتیں جو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر اِن پیشگوئیوں کا پورا ہونا ممکن ہے تو اگلے جہان سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کا پورا ہونا کیوں ممکن نہیں۔

٭غرض اللہ تعالیٰ نے ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کے ساتھ اس سورۃ کو جوڑ کر اس اعتراض کو ردّ کیا ہے جو کفار کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ اگلے جہان کے متعلق جو خبریں دی گئی ہیں وہ ہم کس طرح مان لیں۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ دعائے ابراہیمی کونسی ممکن تھی۔ اسماعیل کا موت سےبچ جانا کونسا ممکن تھا۔ خانۂ کعبہ کا بن جانا اور سارے عرب کی توجہ کا اس کی طرف پھر جانا کونسا ممکن تھا۔ 28 سو سال کے بعد ایک جرار لشکر کے دل میں خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے اور اسے گرا دینے کا احساس پیدا ہونا کونسا ممکن تھا۔ اس دشمن کا تباہ ہونا کونسا ممکن تھا اور پھر اس دشمن کی تباہی کے عین دو ماہ بعد اس شخص کا پیدا ہوجانا جس کی خاطر خانۂ کعبہ کو بسایا گیا تھا کونسا ممکن تھا۔ اگر یہ ساری ناممکن باتیں ممکن ہو گئی ہیں تو اگلے جہان کی باتوں پر تم کیا اعتراض کرتے ہو۔ جس خدا نے یہ باتیں پوری کی ہیں وہی اگلے جہان کی باتوں کو بھی پورا کردے گا۔

غرض قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ اس دنیا کی خبروں اور اگلے جہان کی خبروں کو ملا کر بیان کرتا ہے ۔ اسی طرح جزا و سزا اور تبشیر و انذار کی خبروں کو بھی ملا کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ قریب الفہم ہو جائیں مثلاً اگلے جہان کی دوزخ اور اگلے جہان کی جنت کی حقیقت انسانی سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ اِس جہان سے تعلق رکھنے والی انذاری خبروں اور بشارتوں کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔ جب وہ اِس جہان سے تعلق رکھنےو الی خبروں کو پورا ہوتے دیکھ لیتا ہے تو اس کے دل میں خود بخود یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ جب یہ ناممکن باتیں ممکن ہو گئی ہیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھنے والی خبریں بھی ضروری پوری ہو کر رہیں گی۔

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔

(مَیں) اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنےو الا (اور بار بار رحم رکنے والا ہے (شروع کرتا ہو)۔

٭ بسم اللہ کی آیت تمام سورتوں میں مشترک ہے جو ہر سورۃ سے پہلے آتی ہے۔ میری تحقیق کے مطابق بسم اللہ مضامینِ سورۃ کھولنے کی کنجی ہے اور اس میں ایسے گُر بتائے گئے ہیں جن سے اگلی سورۃ کے مضامین خود بخود کھل جاتے ہیں۔ بڑی چیز جو بسم اللہ کے ذریعہ ظاہر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوتی ہے جو غیر معمولی ہوتی ہے ۔مثلاً یا وہ غیرمعمولی ہوتی ہے عقیدہ کے لحاظ سے ۔یعنی دنیا کے عقائد کچھ اور ہوتے ہیں اور قرآن کریم کوئی اور عقیدہ پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کہہ دیتی ہے کہ یہ غلط ہے۔ یا وہ غیر معمولی ہوتی ہے آئندہ واقعات کے لحاظ سے۔ یعنی اس میںایسی پیشگوئی ہوتی ہے جو حیرت انگیز ہوتی ہے ۔یا وہ غیرمعمولی ہوتی ہے پرانے اخبار کے لحاظ سے۔ یعنی تاریخ کچھ اور کہتی ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ صحیح نہیں اصل واقعہ یوں ہے ۔یا غیرمعمولی ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ دنیوی قانونِ قدرت جو لوگوں نے سمجھ رکھا ہوتا ہے اس کے خلاف ہوتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہ بات سائنس کے خلاف کہہ دی ہے۔ بہرحال کوئی نہ کوئی غیر معمولی بات اس میں آجاتی ہے۔

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو رکھا ہے۔ یعنی میَں اللہ کا نام لے کر شروع کرتا ہوں جو بغیر کسی محنت اور کوشش کے اور بغیر کسی استحقاق کے سامان مہیا کرتا ہے۔ پھر وہ ایسا خدا ہے کہ جب کوئی شخص اس کے پیدا کردہ سامانوں سے کام لیتا ہے تو وہ اس کی کوشش کا بہتر سے بہتر بدلہ دیتا ہے۔ جیسے دنیا میں بعض دفعہ بڑے آدمی کو گواہی کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ سے پہلے اپنے آپ کو بطور گواہ پیش کیا ہے۔

٭ قرآن کریم میں چونکہ غیرمعمولی مطالب آتے ہیں اس لئے ہر سورۃ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ رکھ دی ہے، یہ بتانے کے لئے کہ تم کہو گے کہ یہ تو غیرمعمولی باتیں ہیں ہم کیسے مان لیں کہ اس طرح ہو کر رہے گا۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان خبروں کا بتانے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ہم جو زمین و آسمان کے مالک ہیں یہ خبر دے رہے ہیں اس لئے ان خبروں کی سچائی پر تمہیں بہرحال ایمان رکھنا چاہئے۔ یہی حکمت ہے جس کی بنا پر ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم کو اگر اس میں کوئی غیرمعمولی یا ناممکن بات نظر آئے یا آئندہ کے متعلق کوئی پیشگوئی ہو جس کا پورا ہونا بظاہر مشکل نظر آتا ہو تو تم اس کو غلط مت سمجھو ۔اس لئے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے جو قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ دنیا کی اور الہامی کتب میں سے ہر کتاب الٰہی ہونے کا تو دعویٰ کرتی ہے مگر وہ کتاب کے ہر ٹکڑے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرار نہیں دیتی۔ عیسائی خود اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے کہ انجیل میں فلاں فلاں بات غلط ہے اور پھر کہتا ہے کہ انجیل خدا کی کتاب ہے ۔اور جب اس سے پوچھا جائے کہ یہ کیا۔ ایک طرف تو تم انجیل کی بعض باتوں کو غلط قرار دیتے ہو اور دوسری طرف اسے الٰہی کتاب کہتے ہو؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ انجیل صرف اپنی مجموعی حیثیت میں خدا کی کتاب ہے۔ یہ نہیں کہ اس کا ہر ٹکڑہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی طرح یہودی اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے کہ بائبل کی فلاں فلاں بات غلط ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ بائبل خدا کی کتاب ہے۔ اور جب اُس سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں ایسا متضاد دعویٰ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ بائبل بحیثیت مجموعی خدا کی طرف سے ہے ۔یہ نہیں کہ اس کا ہر ٹکڑہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس نے ہر ٹکڑا سے پہلے بسم اللہ نازل کر کے یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ اس کا ہر ٹکڑہ میری طرف سے ہے۔ یہ بھی میری طرف سے ہے اور وہ بھی میری طرف سے ہے۔ تا کوئی شخص بائبل یا انجیل کی طرح یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں ٹکڑہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ نعوذباللہ انسانوں نے اس میں ملا دیا ہے ۔

گویا بسم اللہ نے قرآن کریم کے ہر ٹکڑے پر مہر لگادی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ کہ اگر کوئی ایک ٹکڑہ بھی غلط نکلے تو یہ کتاب خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔ بائبل پر ایمان رکھنے والا کہہ دیتا ہے کہ بائبل کا جو حصہ پورا ہو رہا ہے یہ خدا کی طرف سے ہے اور جو حصہ پورا نہیں ہو رہا یہ انسانوں کی طرف سے ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ اگر اس کتاب کا کوئی ایک ٹکڑہ بھی پورا نہیں ہوتا تو تم سمجھ لو کہ ساری کی ساری کتاب خدا کی طرف سے نہیں۔ غرض  بسم اللہ نے قرآن کریم کے ہرٹکڑے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ڈال دی ہے اور بار بار وہ اس ذمہ داری کا اظہار کرتا ہے۔ بے شک بائبل بھی خدا تعالیٰ کی کتاب ہے مگرا س کے باوجود بائبل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں ایسے حصے ہیں جو انسانوں نے اپنے ہاتھ سے اس میں ملا دیئے ہیں۔ اسی طرح انجیل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے مگر اس کے باوجود اس میں ایسے ٹکڑے بھی ہیں جن کے متعلق عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں۔ یہی مشکل قرآن کریم کے متعلق بھی پیش آسکتی تھی۔ اگر ایک دفعہ ہی قرآن کریم میں بسم اللہ آتی تو ہو سکتا تھا کہ بعض مسلمان اپنی بے ایمانی میں یہ کہہ دیتے کہ فلاں ٹکڑہ خدا کی طرف سے نہیں بعض انسانوں نے اس میں ملا دیا ہے۔ اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر ٹکڑہ سے پہلے بسم اللہ نازل کر دی ہے اور اس طرح بتایا ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بائبل کی اگر ایک آیت غلط ثابت ہو جائے تو یہودی یہ نہیں مانے گا کہ ساری بائبل غلط ہے ۔انجیل کی اگر ایک آیت غلط ثابت ہو جائے تو عیسائی یہ نہیں مانے گا کہ ساری انجیل غلط ہے۔ لیکن قرآن کریم یہ کہتا ہےکہ ہم دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایک ٹکڑہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی بڑی سے بڑی سورۃ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر کوئی ایک ٹکڑہ بھی غلط ثابت ہو جائے تو سمجھ لو کہ سارا قرآن غلط ہے خدا نے اسے نازل نہیں کیا۔ یہ کتنا عظیم الشان دعویٰ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی الہامی کتاب نہیں ٹھہر سکتی۔ دنیا میں لوگ اپنی ذمہ داریاں کم کیا کرتے ہیں مگر قرآن کریم نے بار بار بسم اللہ نازل کر کے اپنی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا لیا ہے۔ اگر ایک دفعہ بسم اللہ آتی تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ کچھ ٹکڑے ایسے بھی ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوں۔ مگر ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کوئی ٹکڑہ بھی ایسا نہیں جس کی صداقت کی ذمہ داری ہم نہ لیتے ہوں۔ اس لئے کسی ایک ٹکڑے کا غلط ہونا درحقیقت سارے قرآن کا غلط ہونا ہے۔ مگر کوئی ایک ٹکڑہ بھی ایسا ثابت نہیں کیا جا سکتا جو غلط ہو اور جس کی صداقت دنیا پر واضح نہ کی جا سکتی ہو۔ غرض یہ آیت قرآن کریم کے مشترک مضامین کی کنجی اور اس کے ہر ٹکڑہ کے خدا کی طرف سے نازل ہونے کی ایک بیّن دلیل ہے۔

٭ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں اسلامی عقیدہ کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس دنیا میں ہے وہ خدا کا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے خدا کرتا ہے۔ کوئی چیز خداتعالیٰ کے اختیار سے باہر نہیں اور کسی بات میں خدا تعالیٰ کسی دوسرے کی امداد کا محتاج نہیں۔ ہر چیز جو ماسوی اللہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ اسی کو عربی زبان میں توکّل کہتے ہیں۔ یعنی اس عقیدہ کے مطابق انسانی عمل کا نام اسلامی اصطلاح میں توکّل ہے۔ پس بسم اللہ الرحمن الرحیم میں توکّل علی اللہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم خدا سے مدد مانگتے ہوئے، ایسے خدا سے مدد مانگتے ہوئے جس نے سب کے سب سامان بغیر کسی محنت اور کوشش اور تدبیر کے مہیا کر کے دیئے ہیں اور جو ان سامانوں سے کام لینے پر پھر اچھے سے اچھا اور ہمیشہ اور بار بار نتیجہ خیز بدلہ دیتا ہے اس کام کو شروع کرتے ہیں ۔یہ مختصراً ترجمہ ہےبسم اللہ الرحمٰن ا لرحیم کا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اس کی تفسیر کی جائے تو اسی پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ گویا اس چھوٹی سی آیت میں یہ پیش کیا گیا ہے کہ حال خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ کیونکہ جب انسان کہتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مَیں خدا سے مدد مانگتا ہوں۔ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ زمانہ جس میں مَیں ہوں اور کام کرنا چاہتا ہوں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اگر حال خدا تعالیٰ کے اختیا رمیں نہیں تو وہ مدد کس سے مانگتا ہے۔ مدد اسی سے مانگی جاتی ہے جس کے قبضہ و تصرف میں حال کا زمانہ ہو۔ پس اگر میں کام کرتے ہوئے خد اتعالیٰ سے مدد مانگتا ہوں تو درحقیقت مَیں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں خداتعالیٰ کو طاقت حاصل ہے ۔پھر الرَّحمٰن کا لفظ آتا ہے۔ یعنی مَیں اس سے مدد مانگتا ہوںجو رحمٰن ہے۔ رحمٰن کے معنے ہیں بغیر کوشش محنت اور خدمت کے ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا۔ گویا رحمانیت کے ماتحت وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو بغیر کسی محنت اور کوشش کے انسانوں کو ملتی ہیں۔ رحمانیت میں آسمان کی پیدائش بھی شامل ہے رحمانیت میں زمین کی پیدائش بھی شامل ہے۔ رحمانیت میں پانی بھی شامل ہے۔ رحمانیت میں ہوا بھی شامل ہے۔ رحمانیت میں انسان کا اپنا جسم بھی شامل ہے۔ رحمانیت میں اس کے تمام قویٰ مثلاً ناک کان اور آنکھیں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ رحمانیت میں حیوانات بھی شامل ہیں۔ رحمانیت میں جمادات بھی شامل ہیں۔ رحمانیت میں چاند اور ستارے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ غرض جو کچھ بھی اس دنیا میں پایا جاتا ہے جس کے بنانے میں ہم نے محنت نہیں کی وہ رحمانیت کا نتیجہ ہے اور ہر چیز جس کےبنانے میں ہم نے ہاتھ ہلایا ہے وہ رحیمیت ہے۔ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں۔ یا تو ایسی چیزیں ہیں جن کےبنانے میں انسان نے حصہ نہیں لیا۔ یا ایسی چیزیں ہیں جن کے بنانے میں انسان نے حصہ لیا ہے۔ وہ چیزیںجن کے بنانے میں انسان نے حصہ نہیں لیا وہ رحمانیت کی صفت کے ماتحت آتی ہیں۔ ان کے لئے کیوں رحمانیت کا لفظ بولا گیا ہے؟ کیوں نہیں کہا گیا کہ کچھ چیزیں خد انے بنائی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن میں بندوں کی محنت اوران کی کوشش کا دخل ہے۔ کیوں خدا نے یہ نہیں کہا اور لفظ ِ رحمٰن سے اس مفہوم کو ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ لفظ بولے جاتے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو خد انے پیدا کی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بندوں نے بنائی ہیں تو ان الفاظ سے یہ نتیجہ تو نکلتا کہ ان پیدا کی ہوئی اشیاء میں سے کچھ چیزیں خدا کی بھی ہیں مگر یہ نتیجہ نہ نکلتا کہ جو چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ سوال بہرحال باقی رہ جاتا کہ وہ چیزیں جو خدا نے بنائی ہیں وہ کسی فائدہ کے لئے ہیں یا ان میں سے کچھ بے فائدہ بھی ہیں۔ مگر رحمانیت کے لفظ نے بتا دیا کہ وہ سب کی سب ہمارے فائدہ کے لئے ہیں۔ رحم کا لفظ کسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ یونہی نہیں بولا جاتا۔ مثلاً اگر سورج چمک رہا ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا رحم کر رہا ہے۔ کیونکہ رحم میں دو باتوں کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اوّل دوسرے کے فائدہ کا کام کرنا۔ دوم اس نیّت سے کرنا کہ دوسرے کو فائدہ پہنچے۔ فرض کرو کوئی شخص جا رہا ہے اور اس کی جیب سے اتفاقاً ایک پیسہ گر گیا ہے۔ کسی اور نے اٹھا لیا ہے۔ اب اسے فائدہ تو پہنچ گیا مگر کیا کوئی شخص اس وجہ سے کہ اس کے پیسہ سے دوسرے نے فائدہ اٹھا لیا ہے یہ کہے گا کہ وہ بڑے رحم کرنے والے انسان ہیں۔ پس رحم کے معنوں میں صرف یہی بات شامل نہیں ہوتی کہ دوسرے کو فائدہ پہنچے بلکہ اس میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی نیّت بھی ہو۔ پس رحمٰن کا لفظ بول کر بعض زائد امور بیان کئے گئے ہیں جو اس لفظ کے بغیر ادا نہیں ہو سکتے تھے۔ یعنی یہی نہیں کہا گیا کہ خدا نے ایسی چیزیں پیدا کی ہیں جن کے پیدا کرنے میں انسان کا دخل نہیں۔ بلکہ خدا نے ان چیزوں کو پیدا ہی انسان کے فائدہ کے لئے کیا ہے اور اس نیّت سے پیدا کیا ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائے۔ رَحِیْم فَعِیل کے وزن پر ہے اور یہ وزن تواتر اور لمبے زمانہ کی طرف اشارہ کرتاہے اور رحمٰن فَعْلان کے وزن پر ہے اور وسعت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button