قرآنِ کریم

تفسیر سورۃ الفیل

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے
خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںایک سورت بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورت ہے اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ یہ سورت اس حالت کی ہے کہ جب سَرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپؐ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤیّد و ناصر ہوں۔ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا۔ یعنی ان کا مکر اُلٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے۔ ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی۔ سِجِّیْل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے۔ یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو اُلٹا کر دیتا ہے۔ کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کردیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی۔ جب کبھی اصحاب الفیل پیدا ہوگا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوںکو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے۔

پادریوں …کی چھاتی پر اسلام ہی پتھر ہے ورنہ باقی تمام مذاہب ان کے نزدیک نامرد ہیں۔ ہندو بھی عیسائی ہو کر اسلام کے ہی ردّ میں کتابیں لکھتے ہیں ۔ رام چندر اور ٹھاکر داس نے اسلام کی تردید میں اپنا سارا زور لگا کر کتابیں لکھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان کا کانشنس کہتا ہے کہ ان کی ہلاکت اسلام ہی سے ہے ۔ طبعی طور پر خوف ان کا ہی پڑتا ہے جن کے ذریعہ ہلاکت ہوتی ہے۔ ایک مرغی کا بچہ بلّی کو دیکھتے ہی چِلّانے لگتا ہے۔ اسی طرح پر مختلف مذاہب کے پَیرو عموماً اور پادری خصوصاً جو اسلام کی تردید میں زور لگا رہے ہیں یہ اسی لئے ہے کہ ان کو یقین ہے، اندر ہی اندر ان کا دل ان کو بتاتا ہے کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو مِلَلِ باطلہ کو پِیس ڈالے گا۔

اِس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیاگیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں۔ اسلام غریب ہے۔ اور اصحاب الفیل زور میں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے ۔ چڑیوں سے وہی کام لے گا۔ ہماری جماعت ان کے مقابلہ میں کیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ان کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے ۔ لیکن ہم اصحاب الفیل کا سا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلّی کی آیات نازل فرمائی ہیں۔

مجھے بھی یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کر کے رہے گی ہاں اس پر وہی یقین رکھتے ہیں جن کو قرآن سے محبت ہے۔ اگر قرآن سے محبت نہیں ،اسلام سے اُلفت نہیں وہ ان باتوںکی کب پرواہ کر سکتا ہے۔

٭ تُو نے دیکھ لیا یعنی تُو ضرور دیکھے گا کہ اصحاب الفیل یعنی وہ جو بڑے حملے والے ہیںاورجو آئے دن تیرے پر حملہ کرتے ہیں اور جیسا کہ اصحاب الفیل نے خانہ کعبہ کو نابود کرنا چاہا تھا وہ تجھے نابود کرنا چاہتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا؟ یعنی ان کا وہی انجام ہوگا جو اصحاب الفیل کا ہوا۔

(ماخو ذاز تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ الفیل)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

٭ اَلَمْ تَرَ کے معنی اَلَمْ تَعْلَمْ کے ہیں۔ کیونکہ اصحاب فیل کا واقعہ متواتر بیان سے ایسا معتبرو مشہود تھا کہ رُؤیَت اور علم کا حکم رکھتا تھا۔ جس سال اصحاب فیل تباہ ہوئے، اُسی سال پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ آپؐ کی ولادت5؍ اپریل 571ء کو ہوئی۔

آپؐ کی ولادت با سعادت کے لئے اصحاب الفیل کا واقعہ بطور توطیہ و تمہید کے تھا۔ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ فر ما کر ربوبیت کے لفظ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ تسلّی فرمائی کہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی جبکہ آپؐ کے ربّ نے آپ کی خاطر اس قسم کی صیانت کی ہے کہ ایک بادشاہ کے زبردست لشکر کو ہلاک کر دیا۔ تو کیا وہ ربوبیت جبکہ آپ پیدا ہو چکے ہیں تو آپ سے الگ ہو سکتی ہے۔

اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ

٭ تَضْلِیْلٍ کے معنے تدبیر کے اَکارت ہونے کے ہیں۔ کَما قَالَ اللہُ تعالیٰ۔ اَضلَّ اَعْمَالَھُمْ (محمد2)سورۃ محمدؐ کی اس آیت اور آیت بالا دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔

وَاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔

٭ اَبَابِیْلَ کے معنے جُھنڈ کے جُھنڈ۔ یہ لفظ جمع ہے۔ واحد اس کا نہیں ہوتا۔

ابابیل کے معنے پَر ے باندھ کر قطار در قطار آنے والے جانوروں کے ہیں۔ عرب کہا کرتے ہیں جَائَ تِ الْخَیْلُ اَبَابِیْل مِنْ ھٰھُنا وَ مِنْ ھٰھُنَا یعنی گھوڑوں کا لشکر قطار باندھ کر اِس طرف سے اور اُس طرف سے آپہنچا۔

تَرْ مِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔

٭ سِجِّیْلٍ کے معنے سخت کنکری کے ہیں ۔

جس مقام پر یہ لشکر ہلاک ہوا۔ وہ مُزدلفہ اور منٰی کے درمیان کی جگہ ہے۔ اب بھی حاجی لوگ رَمْیِ جِمار کے لئے اسی میدان سے کنکریاں چُن کر ساتھ لے آتے ہیں اور ان سے رَمْیِ جِمار کرتے ہیں۔

٭ تَرْ مِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ شکاری جانوروں کی عادت ہے کہ وہ گوشت کو پتھر پر مار کر کھاتے ہیں۔

فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّأْ کُوْلٍ

٭ عَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ کے معنے ’خوید پس خوردہ‘ کے ہیں۔ چڑیاں ان کی لاشوں کو نوچ کر لے جاتیں اور پہاڑوں میں کھاتیں۔

عربی میں ایسے محاورات بکثرت ہیں اور انہی معنوں اور استعاروں میں پرندوں کے الفاظ وہاں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ النابغۃ الذبیانی کا شعر ہے ع

اِذَا مَاغَزَا بِجَیْشٍ حَلَّقَ فَوْقَھُمْ

عَصَائِبُ طَیْرٍ تَھْتَدِیْ بِعَصَائِبِ

جب وہ لشکر لے کر دشمنوں پر چڑھتا تو پرندوں کے غولوں کے غول دشمنوں کی لاشوں کے کھانے کو جمع ہو جاتے ہیں۔

اسی قسم کے اندازِ بیان میں قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اشارہ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمن ہلاک کئے جاویں گے۔ جیسے فرماتا ہےاَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ۔ مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلَّا اللہُ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (النحل 80) کیا وہ ان پرندوں کے حالات پر غور نہیں کرتے جنہیں ہم نے آسمان کی جوّ میں قابو کر رکھا ہے۔ ہم ہی نے تو انہیں تھام رکھا ہے ( اور ایک وقت آنے والا ہے کہ انہیں نبی کریمؐ کے دشمنوں کی لاشوں پر چھوڑ دیں گے) مومنوں کے لئے ان باتوں میں نشان ہیں۔

یہاں بھی پہلے ایک شریر قوم کا بیان کیا ہے جو بڑی نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی اور اسلام کو عیب لگاتی تھی۔ اور بہت سے اموال جمع کر کے فتح کے گھمنڈ میں مکّہ پر انہوں نے چڑھائی کی ۔ یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا۔ جس نے اسی سال مکّہ معظّمہ پر چڑھائی کی جبکہ حضرت رحمۃ للعالمین نبی کریمؐ پیدا ہوئے۔ جب یہ شخص وادیٔ محصّر میں پہنچا۔ اس نے عمائد مکّہ کو کہلا بھیجا کہ کسی معزّز آدمی کو بھیجو۔ تب اہلِ مکّہ نے عبدالمطلب نامی ایک شخص کو بھیجا جو ہمارے نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے دادا تھے۔ جب عبدالمطلب اس ابرھہ نام بادشاہ کے پاس پہنچے۔ وہ مدارات سے پیش آیا۔ جب عبدالمطلب چلنے لگے اس نے کہا کہ آپ کچھ مانگ لیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سو اونٹنیاں تمہارے آدمیوں نے پکڑی ہیں وہ واپس بھیج دو۔ تب اس بادشاہ نے حقارت کی نظر سے عبدالمطلب کو کہا کہ تمہیں اپنی اونٹنیوں کی فکر لگ رہی ہے اور ہم تمہارے اس مَعْبَد کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ عبدالمطلب نے کہا کیا ہمارا مولیٰ جو ذرّہ ذرّہ کا مالک ہے جب یہ معبد اُسی کے نام کا ہے اور اُسی کی طرف منسوب ہے، وہ اس کی حفاظت نہیں کرے گا؟ اگر وہ اپنے معبد کی خود حفاظت نہیں کرنا چاہتا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔آخر اس بادشاہ کے لشکر میںخطرناک وبا پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتا ہے ان پر حملہ آور ہوا اور اوپر سے بارش ہوئی۔ اور اس وادی میں سیلاب آیا۔ بہت سارے لشکری ہلاک ہو گئے اور جیسے عام قاعدہ ہے کہ جب کثرت سے مُردے ہو جاتے ہیں اور ان کو کوئی جلانے والا اور گاڑنے والا نہیں رہتا تو ان کو پرندے کھاتے ہیں۔ اُن موذیوں کو بھی اسی طرح جانوروں نے کھایا ۔ یہ کوئی پہیلی اور مُعَمَّا نہیں۔ تاریخی واقعہ ہے۔

(ماخوذ از حقائق الفرقان۔ زیر تفسیر سورۃ الفیل)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

٭ سورۃ الفیل مکّہ میں نازل ہوئی ۔

ربط سُوَر

اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے ایک تو اس لمبے تعلق کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہے ۔ یعنی قرآن کریم کی یہ آخری سورتیں سوائے چند آخری سورتوں کے باری باری اسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق اور اسلام کے آخری زمانہ کے متعلق آتی ہیں۔ ایک سورۃ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ کا خصوصیت سے ذکر ہوتاہے اور دوسری سورۃ میں اسلام کے آخری زمانہ کا خصوصیت سے ذکر ہوتا ہے۔ میری یہ مراد نہیں کہ جس سورۃ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ کا ذکر آتا ہے اس میں آخری زمانہ کا ذکر نہیں ہوتا اور نہ یہ کہ جس سورۃ میں اسلام کے آخری زمانہ کا ذکر آتا ہے اس میں ابتدائی زمانہ کا ذکر نہیں ہوتا۔ بالعموم دونوں ہی ذکر ہوتے ہیں۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ایک سورۃ میں مدّنظر اسلام کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے اور دوسری سورۃ میں خصوصیت کے ساتھ مدّنظر اسلام کا آخری زمانہ ہوتا ہے۔ پس یہ سورتیں خصوصیت کے لحاظ سے ابتدائی یا آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ نہیں کہ پہلے اور دوسرے زمانہ کا اکٹھا ذکر نہیں ہوتا۔ بسااوقات بڑے زور سے ہوتا ہے ۔ مگر وہ مقصودِ اوّل نہیں ہوتا۔ مقصودِ اوّل صرف ایک ذکر ہوتا ہے اور یہ دَور باری باری چلتا ہے۔ اس لحاظ سے سورۃ الفیل آخری زمانہ کے متعلق معلوم ہوتی ہے یعنی اس میں خصوصیت کے ساتھ آخری زمانہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ گو ذکر اس میں پہلے زمانہ کا ہے مگر مقصود آخری زمانہ کی طرف اشارہ کرنا ہے۔

٭ قریبی ترتیب کے لحاظ سے اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں یہ بتایا گیا تھا کہ وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔ عیب چینیاں کرنے والے، دوسروں کو نقصان پہنچانے والے اور تکلیفیں دینے والے لوگ جو اپنے مال اور دولت پر گھمنڈ کرتے ہیں وہ تباہ اور برباد کئے جائیں گے۔ یہ حکم تو عام تھا کیونکہ فرماتا ہے وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔ ہر ایسے شخص پر عذاب آئے گا جو ہُمَزَۃٍ اور لُّمَزَۃٍ ہو گا لیکن مقصودِ اوّل اس میں رسول اللہ ﷺ کے مخالف تھے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کے دشمن مالدار تھے، دولتمند تھے، ان کی بڑی بڑی تجارتیں تھیں ،بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ تمام ملکی اقتدار ان کے قبضہ میں تھا اور وہ اپنے مال و دولت اور رتبہ کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ان طاقتوں اور قوتوں کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھی کسی صورت میں بھی ان پر غالب نہیں آسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے تمہارا یہ خیال کہ محمد رسول اللہ ﷺ تم پر غالب نہیں آسکتے قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ ضرور غالب آئیں گے اور تم لوگ جو بڑے کہلاتے ہو اور مال و دولت کے غلط استعمال کی وجہ سے غریبوں کو ستاتے اور دکھ دیتے ہو ناکام و نامراد رہو گے۔ غرض اس سورۃ میں یہ خبر دی گئی تھی کہ یہ لوگ بڑے دکھ میں مبتلا ہوں گے۔ ان کی تباہی کامل ہو گی اور ان کاا انجام نہایت دردناک ہو گا۔ یہاں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایسا کس طرح ہو گا؟ عقل میں تو یہ نہیں آسکتا کہ بڑے بڑے مالدار، بڑے بڑے عقلمند، بڑے بڑے مدبّر اور بڑی بڑی طاقتوں والے ہار جائیں اور کمزور جیت جائیں۔ جن کے پاس حکومت ہو وہ تو شکست کھا جائیں اور جو ہمسایوں کے مظالم کا شکار ہو رہا ہو وہ فتح حاصل کر لے۔ پس چونکہ یہ اعتراض پیدا ہوتا تھا کہ عقل اس بات کو نہیں مان سکتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ایک ایسا واقعہ پیش کیا ہے جسے کوئی عقل نہیں مان سکتی تھی۔ اس میں جو کچھ ہوا الٰہی تقدیر کے ماتحت ہوا اور عقل کے بالکل خلاف نتیجہ پیدا ہوا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ اس دنیا میں صرف وہی کچھ نہیں ہوتا جو عقل کے مطابق ہو بلکہ ایسے واقعات بھی رونما ہو جایا کرتے ہیں جو عقل کے خلاف ہوتے ہیں جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ ہے۔

ایک بادشاہ نے جس کی بہت بڑی اور منظّم حکومت تھی مکّہ پر حملہ کیا۔ مگر باوجود ساری طاقتوں اور قوتوں کے وہ ہار گیا اور مکہ کے لوگ جو بے سر و سامان تھے جیت گئے۔ یوں تو ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ ہر جگہ ہوتے ہیں مگر اس جگہ پہلے مخاطب مکّہ کے ھُمَزَۃ اور لُمَزَۃ ہی تھے اور اُنہیں کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ اَلَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ ۔وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم مال و دولت کے زور سے غالب آجائیں گے اور محمد رسول اللہ ﷺ ہمارے مقابلہ میں ہار جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان مکّہ والوں کو فرماتا ہے کہ تمہارے مکہ میں ایک مثال موجود ہے۔ تم جو محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا کہہ رہے ہو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم سے بھی بڑے بڑے لوگ دنیا میں موجود تھے۔ تم سے بھی بڑی بڑی حکومتیں دنیا میں موجود تھیں۔ چنانچہ انہیں حکومتوں اور طاقتوں میں سے ایک نے مکّہ پر حملہ کیا اور تم لوگوں نے بغیر مقابلہ کئے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ لیکن مکہ چونکہ خدا کے ایک پیارے کا صدر مقام بننے والا تھا اور چونکہ وہ خداتعالیٰ کی ایک پیاری جگہ اور اس کا مقدّس مقام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے اردوں کو باطل کر دیا اور اس کی تدبیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ چنانچہ آخر مکّہ ہی غالب رہا اور وہ بڑا طاقتور دشمن ناکام و نامراد رہا۔ یہ مثال تمہارے سامنے موجود ہے۔ عقل میں وہ بات بھی نہیں آتی تھی۔ مگر آخر ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا۔ کیا اس مثال کو دیکھتے ہوئے اب بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ جن کے پاس کوئی مال نہیں ،کوئی دولت نہیں، کوئی جتھہ نہیں، کوئی طاقت نہیں وہ کس طرح جیت جائیں گے اور مکہ والے جو طاقتور اور جتھہ والے ہیں ان کے مقابلہ میں کس طرح ہار جائیں گے۔ تم اصحاب الفیل کے واقعہ کو مدّنظر رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جس طرح وہاں ہوا اسی طرح اللہ تعالیٰ اس موقعہ پر بھی اپنی قدرت کا زبردست نشان دکھائے گا اور تمہیں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں مغلوب کر دے گا۔

٭ دوسرا تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ اس میں دلیل بالاولیٰ کے طور پر اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خانۂ کعبہ مقصود بالذات نہیں تھا بلکہ خانۂ کعبہ ایک علامت تھی آنے و الے کی۔ ایک عظیم الشان انسان نے دعائے ابراہیمی کے ماتحت دنیا کی ہدایت کے لئے آنا تھا اور اس کے لئے ایک مرکز کی ضرورت تھی۔ اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو مقدس قرار دیا اور اسے لوگوں کا مرجع بنا دیا۔ مگر بہرحال یہ مقصود نہیں تھا۔ مقصود وہی تھا جس نے دعائے ابراہیمی کے ماتحت ظاہر ہونا تھا اور جس کا کام یہ بتایا گیا تھا کہ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وہ خدا کی آیتیں انہیں پڑھ پڑھ کر سنائے گا۔ ان کے دلوں کو پاک کرے گا۔ انہیں احکامِ الٰہیہ کی حکمتیں سکھائے گا۔انہیں خداتعالیٰ کی شریعت کے اسرار سمجھائے گا۔ اور ان میں پاکیزگی اور طہارت پیدا کرے گا ۔یہ انسان اصل مقصود تھا۔مکان اصل مقصود نہیں تھا۔ مکان تو صرف ایک علامت تھی ۔ اصل اہمیت رکھنے والی وہ چیز تھی جو اِس کے پیچھے تھی۔

٭خانۂ کعبہ کو اگر عزت حاصل تھی تو اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی بنیادیں اٹھائیں تا موعودِ کُل اَدیان ظاہر ہو کر اس سے تعلق پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کے لئے ایک مقامِ اتحاد اور اقوامِ عالَم کے لئے مرجع بنا دیا۔ اسی نقطۂ نگاہ کے ماتحت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ تو دیکھو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ کیا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ یہ ہے کہ میَں وہ شخص ہوں جس کے ظہور کے لئے خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں کی تھیں۔ تم کہتے ہو کہ یہ غریب ہے کمزور ہے، ناطاقت ہے اور ہم بڑے دولتمند ہیں یہ ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ تمہیں سمجھنا چاہئے کہ خانۂ کعبہ کی قیمت زیادہ ہے یا محمد رسول اللہ ﷺ کی قیمت زیادہ ہے۔ خانۂ کعبہ کی تو بنیاد ہی اسی لئے رکھی گئی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ ظاہر ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت جو دعا کی اس میں کھلے طور پر یہ الفاظ آتے تھے کہ وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ (البقرة 130) پس خانہ کعبہ قائم ہی اسی لئے کیا گیا تھا کہ تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کرنے والا نبی اس جگہ پیدا ہو۔ اگر علامت کے لئے خدانے یہ نشان دکھایا تھا کہ اس نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو تباہ و برباد کر دیا تو تم سمجھ لو کہ اس مقصود کے لئے وہ کتنا بڑا نشان ظاہر کرے گا۔ جب ایک علامت کے لئے اس نے اصحاب الفیل کو تباہ کر دیا تو وہ چیز جو مقصود بالذات ہے اس کے لئے تو وہ جتنی بھی غیرت دکھائے کم ہے۔ حالانکہ اصحاب الفیل کو جو طاقت حاصل تھی وہ مکّہ والوں کو نہیں تھی۔ گویا مکّہ والوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ تم تو اصحاب الفیل کے مقابلہ میں بھی ذلیل تھے۔ جب تمہارے جیسے ذلیل انسانوں کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے حملہ سے مکّہ کو بچایا تو کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تمہارے حملہ سے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نہیں بچائے گا۔

٭ تیسرا قریبی تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ مکّہ کا بچانا بھی گو اصحاب الفیل کی تباہی کی ایک وجہ تھی۔ مگر اصل وجہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت تھی اور یہ مقصد اَور تمام مقاصد سے زیادہ مقدم اور اہم تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خانۂ کعبہ کو بچانا خود بھی ایک مقصود تھا مگر بعض دفعہ ایک سے زیادہ بھی مقصود ہو جاتے ہیں۔

٭اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ تم کہتے ہو محمد رسول اللہ ﷺ کس طرح جیت جائیں گے۔ محمد رسول اللہ ﷺ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خاطر اصحاب الفیل کو تباہ کر دیا۔ اب کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے پہلے تو اس نے آپؐ کے لئے ایسا عظیم الشان نشان دکھا دیا تھا مگر پیدا ہونے کے بعد وہ آپ کو چھوڑ دے گا ۔جس انسان کی حیثیت اتنی عظیم الشان تھی کہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے نشانات کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کو اس کا کتنا بڑا احترام ملحوظ ہو گا اور اس کی عظمت کے اظہار کے لئے وہ کیا کچھ نہ کرے گا۔ پس تمہیں اپنا فکر کر لینا چاہئے ایسا نہ ہو کہ تم اس کی مخالفت میں اپنی عاقبت تباہ کر لو۔

٭ چوتھا قریبی تعلق اس سورۃ اور پہلی سورۃ کا یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں دشمن کے مال و دولت کے مالک ہونے کا دعویٰ بیان کیا گیا تھا۔ دشمن کا دعویٰ تھا کہ میں بڑا مالدار ہوں اور اس کی وجہ سے میں ہمیشہ ہمیش قائم رہوں گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصحاب الفیل بھی بڑے دولتمند تھے اور ان کی دولت سے تمہاری دولت زیادہ نہیں ۔مگر باوجود اس کے کہ وہ بڑے دولتمند تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا۔

٭ پانچواں قریبی تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ بعض لوگ یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اگلے جہان کے عذاب سے لوگوں کو ڈرانے کا فائدہ کیا ہے؟ پہلی سورۃ میں فرمایا گیا تھا کہكَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ۔ نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ۔ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ۔ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ (الهمزة 5-10)مَیں بتا چکا ہوں کہ ان آیات میں خصوصیت سے اس دنیا کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اس کے ظاہری معنے چونکہ یہی نظر آتے ہیں کہ اگلے جہان میں کفار پر اس رنگ میں عذاب نازل ہو گا۔ اس قسم کی آیات پر کفّار شور مچا دیا کرتے ہیں کہ اگلا جہان تو کسی نے دیکھا نہیں۔ پس تم اگلے جہان کے عذابوں کا ذکر کر کے درحقیقت لوگوں کو دھوکا دیتے ہو۔ اور ایک ایسی بات پیش کرتے ہو جس کی تصدیق اِس دنیا میں نہیں ہو سکتی۔ جیسے اب تک بھی یورپین مصنف یہی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے اگلے جہان کے عذابوں سے ڈرا ڈرا کر لوگوں کو مسلمان کر لیا۔ یہی عرب لوگ کہتے تھے کہ قرآن کریم ایسے عذابوں کی خبر دیتا ہے جو اس جہان سے تعلق نہیں رکھتے وہ صرف ایسے عذابوں کا ذکر کرتا ہے جو اگلے جہان سے تعلق رکھتے ہیں اور اگلا جہان ہم نہیں مانتے ۔پھر ہم ان باتوں کو کس طرح درست تسلیم کر لیں۔ اس کے جواب کے لئے قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ جہاں وہ کسی اُخروی عذاب یا انعام کا ذکر کرتا ہے وہاں کسی نہ کسی دنیوی عذاب یا انعام کا ضرور ذکر کرتا ہے، یہ بتانے کے لئے کہ تم اُخروی عذاب یا انعام یا نتیجہ کے متعلق تو کہہ سکتے ہو کہ ہم ان باتوں کو کس طرح مان لیں یہ تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر تم دنیوی امور کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتے اس لئے ہم اُخروی عذابوں یا انعاموں کے ذکر کے ساتھ ہی بعض دنیوی امور سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو موجودہ حالات میں بالکل ناممکن نظر آتی ہیں۔ اگر یہ ناممکن نظر آنے والی باتیں ممکن ہو جائیں اور تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ باتیں پوری ہو جائیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جس خد انے ان غیرممکنات کو ممکنات کی صورت دے دی ہے وہ اُخروی عذابوں کو بھی اسی رنگ میں پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم کا یہ ایک عام قانون ہے کہ وہ اُخروی اور دنیوی عذابوں اور انعاموں کو آپس میں ملا کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ دنیوی عذاب اور انعام اُخروی عذابوں اور انعاموں کی صداقت پر گواہ ہوں اور کفّار ان کے انکار کی جرأت نہ کر سکیں۔

……………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button