از افاضاتِ خلفائے احمدیت

خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ۔ فرمودہ یکم اپریل 1984ء

خدا تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر خلافت کی ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اگر جماعت اس ذمہ داری کو ادا کرے تو تمام افراد کی یہ خلافت اجتماعی شکل میں ایک ذات میں مرتکز ہو کر ایک عظیم الشان طاقت بن جاتی ہے جس کا دنیا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

جماعت احمدیہ کا مجموعی تقویٰ، جماعت احمدیہ کی مجموعی ذمہ داری وہ قوت ہے جو خلیفۂ وقت کو حاصل ہوتی ہے
اور اس قوت کا پھر ساری دنیا میں دوبارہ انتشار ہوتا ہے ۔

من حیث الجماعت خلافت اس وقت تک ہے جب تک یہ خلافت مرتکز ہے ایک خلیفہ کے وجود میں
اور یہ وجود وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے تصرف کے تابع آپ کا نمائندہ بنا دیتا ہے یا اپنا نمائندہ بنا دیتا ہے۔

(آیت استخلاف (سورۂ نُور :56) کی پُرمعارف تفسیر۔ خلافت کی عظمت و اہمیت اور اس سے وابستگی کے تقاضوں کا رُوح پرور بیان)

یکم اپریل 1984ء کو مجلسِ شوریٰ مرکزیہ (ربوہ ) کے اختتامی اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا اس کا متن ہدیۂ قارئین ہے۔

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے آیت استخلاف کی تلاوت فرمائی:۔وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا۔ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔(النور56)

اور پھر فرمایا:

’’ سورۂ نور کی یہ آیت جو آیت استخلاف کے نام سے معروف ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کے سامنے بار بار پڑھی جاتی ہے۔ اس کا جماعت احمدیہ کی زندگی اور مستقبل کے ساتھ چونکہ ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اس لئے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے بار بار جماعت کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے۔

آج مَیں اس کے جس پہلو کے متعلق خصوصیت کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا ہوں اُس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی ایک موقع پر توجہ دلائی تھی اور وہ یہ ہے کہ اس آیت میں ساری جماعت ہی خلیفة اللہ بن جاتی ہے اور ہر وہ شخص جو خلافت پر ایمان رکھتا ہے اور عمل صالح کرتا ہے یہ آیت اس کو بتاتی ہے کہ تم اس دنیا میں اللہ کے خلیفہ ہو اور من حیث الجماعت یہ خلافت مرتکز ہو جاتی ہے ایک ذات میں جس کو ہم خلیفة المسیح کہتے ہیں۔

پس اس آیت میں انتشار بھی ہے اور ارتکاز بھی ہے۔ یعنی پہلے یہ مضمون ساری جماعت پر پھیل جاتا ہے اور ہر فرد جماعت جو ان شرائط کو پورا کرتاہے وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اس نقطۂ نگاہ سے کہ وہ خدا کے پروگرام کو جو وہ اس دنیا میں جاری کرنا چاہتا ہے اس کو جاری کرنے کے لئے ذمہ داری میں پوری طرح شریک ہے۔ اس لحاظ سے وہ خلیفہ ہے کیونکہ وہ دنیا کے سامنے خدا تعالیٰ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہو رہا ہے اور اس پر یہ بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو ایسا نمونہ دکھائے کہ جس کے نتیجہ میں دنیا یہ سمجھے کہ جس ذات نے اس کو خلیفہ بنایا ہے وہ ذات بہت بڑی خوبیوں کا مجموعہ ہوگی۔ یہ نمونہ جو ایک بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اگر اُس کی خوبیوں کا یہ حال ہے تو جس کا یہ نمائندہ ہے اس کے حسن کا تو کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

پس خدا تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر خلافت کی ایک ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اگر جماعت اس ذمہ داری کو ادا کرے تو تمام افراد کی یہ خلافت اجتماعی شکل میں ایک ذات میں مرتکز ہو کر ایک عظیم الشان طاقت بن جاتی ہے جس کا دنیا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ہر شخص اس آیت کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کا نمائندہ بننے کی اس دنیا میں کوشش کرے تو اس کے نتیجہ میں تقویٰ کا جو قطرہ قطرہ اکٹھا ہو کر اجتماعی شکل میں خلافت کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے گا وہ ایک عظیم الشان طاقت ہے اور اس کی طرف ہمیں خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے۔

لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ میں سارے صیغے جمع کے استعمال ہوئے ہیں اور جمع کے صیغہ میں یہی حکمت ہے کہ ایک خلیفہ ہو تب بھی وہ اکیلا خدا کا نمائندہ نہیں ہے۔ ساری قوم خدا کی نمائندہ ہے خواہ مرکزی حیثیت سے اس نمائندگی کو ادا کرنے کے لئے ایک ذات میں و ہ نمائندگی مجتمع ہو جائے۔

امر واقعہ یہی ہے کہ اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف اوقات میں مختلف خلفاء نے مختلف رنگ میں اس بات کو ظاہر کیا ۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا فقرہ تھا کہ تم سب کو خدا تعالیٰ نے نمائندہ بنایا اور پھر سب کو باندھ کر میرے ہاتھ میں اکٹھا کر دیا

(ماخوذ از ’حیات نور ‘۔ باب ہفتم صفحہ 526)

یہ وہی بات ہے اور آیت استخلاف کی ایک تفسیر ہے کہ تم سب کو خدا نے خلیفہ بنایا اور پھر اپنی قدرت کے زور سے باندھ کرمیرے ہاتھ پر تمہیں اکٹھا کر دیاہے اس لئے اب میں خدا کا نمائندہ ہوں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہی بات تفصیل سے بیان فرمائی اور حضرت خلیفة المسیح الثالث اس بات کو یوں بیان کیا کرتے تھے۔ جب بیرونی سفروں میں بعض لوگ سوال کیا کرتے تھے کہ جماعت میں خلیفہ کی کیا حیثیت ہے؟ تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ خلیفہ اور جماعت میں کوئی فرق نہیں۔ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔

(ماخوذ از خطبات ناصر جلد 7 صفحہ 388 خطبہ بیان فرمود ہ 25 اگست 1978ء)

یہی وہ بات ہے جو آیت استخلاف کی روح سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا مجموعی تقویٰ، جماعت احمدیہ کی مجموعی ذمہ داری وہ قوت ہے جو خلیفۂ وقت کو حاصل ہوتی ہے اور اس قوت کا پھر ساری دنیا میں دوبارہ انتشار ہوتا ہے ۔ اس لئے اس طرف بڑی توجہ کی ضرورت ہے اور انفرادی معیار تقویٰ کو اس احساس ذمہ داری کے ساتھ بڑھانے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو قرآن کریم کی یہ آیت خدا کا نمائندہ قرار دے رہی ہے اور جماعت کو من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ بنایا گیا ہے ۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس آیت میں اس کا جو نتیجہ ظاہر فرمایا گیا اگر یہ خلافت قائم ہو جائے اور جس طرح اللہ تعالیٰ اس خلافت کو قائم فرمانا چاہتا ہے اس روح کے ساتھ قائم ہو جائے تو اس کے کچھ طبعی نتیجے نکلیں گے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ پہلے یہ رکھا کہ دین کو تمکنت نصیب ہو گی۔ یعنی اگر تم اس دنیا میں واقعةً اللہ کے خلیفہ بن جاؤ گے تو تمہارے دین کو خدا تعالیٰ تمکنت عطا فرمائے گا۔

دین کو تمکنت عطا کرنے کے کیا معنے ہیں؟ عربی لغت کے لحاظ سے اقتدار کو تمکنت کہتے ہیں۔ غلبہ کو تمکنت کہتے ہیں۔ خوف کو دُورکرنے اور امن میں آجانے کو تمکنت کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے یہ جو محاورہ استعمال کیا ہے عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٌ خدا تعالیٰ کے عرش کے پاس یعنی خدا تعالیٰ کی شان کے قریب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ بے خوف مقام ہے۔ ایسا مقام ہے جس میں غلبہ بھی شامل ہو جاتا ہے، جس میں مقتدر ت شامل ہو جاتی ہے، جس میں بے خوفی شامل ہو جاتی ہے۔ پس اصل میں تمکنت کا تصور ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے پھر آگے مومنین کی جماعت کو نصیب ہوتا ہے۔

تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس مقام کے بعد پھر یہ کیوں فرمایا گیاکہ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًاجب تمکنت نصیب ہو جائے جو بظاہر خوف دُور ہونے کے بعد نصیب ہونی چاہئے ۔ خوف دور ہونے کا مقام انسانی عقل جب سوچتی ہے تو تمکنت سے پہلے رکھتی ہے۔ اس سے بھی معلوم یہ ہوتاہے اور قرآن کریم کا یہ خاص اسلوب ہے اور بھی بہت سی جگہ اس قسم کے اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے جس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ کسی بندے کا کلام نہیں۔ چنانچہ انسانی سوچ جو ترتیب مقرر کرتی ہے کلام الٰہی اس ترتیب کو بدل دیتا ہے۔ انسانی سوچ کا جو بہترین حصہ ہے وہ بھی جب کوئی ترتیب سوچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس ترتیب کو بدل کر ایک نئی ترتیب میں ڈھال دیتا ہے اور اس وقت غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ وہی ترتیب درست ہے جو کلام الٰہی میں پیش کی گئی ہے اور کسی بندہ کا یہ کلام نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی صورت میں بیان فرمایا جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے کی تھی۔ اس دعا میں یہ مانگا گیا تھا کہ اے خدا! وَابْعَثْ فِیْھمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَ یُزَکِّیْھِمْ۔ (البقرۃ :130)

اس میں تزکیہ کو سب سے آخر پر رکھا تھا۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام جیسا صاحبِ علم و رشد نبی بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ آپ کو نبوت میں بہت عظیم مقام حاصل ہے۔ دعا کرتے وقت جو ترتیب انسانی ذہن نے بلکہ اس انسانی ذہن نے قائم کی جو وحی سے صیقل کیا گیا تھا اور بہت اعلیٰ درجے پر پہنچ چکا تھا اس انسانی ذہن نے جو ترتیب سوچی وہ خدا کے نزدیک صحیح نہیں تھی۔ چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اس کے مقام کو ظاہر کرنے کے لئے خدا نے یہ ترتیب بدل دی۔ فرمایا:ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّییْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ۔ (سورة الجمعہ3) یہ علم و حکمت کے بعد تزکیہ نہیں کرتا اس کا مقام اس سے بلند تر ہے جو مانگا گیا تھا۔ اس میں ایسی عظیم قوت قدسیہ ہے کہ یہ اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ علم و حکمت سکھائے تب جا کر تزکیہ کرے۔ یہ اپنی ذات سے اور اپنے نمونے سے پہلے تزکیہ کر دیتا ہے۔ اور تزکیہ کرنے کے بعد علم و حکمت سکھاتاہے۔ اس میں اور بھی بڑے لطیف معنی ہیں جو پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی بیان ہوتے رہیں گے۔

اس وقت مَیں صرف یہ مثال دے رہاہوں کہ انسانی سوچ جو ترتیب ذہن میں لاتی ہے اور انسان جس طرح سوچتاہے اور انسانوں میں سے جو بہترین سوچنے والے ہیں ان کی ترتیب میں بھی کوئی نہ کوئی کمزوری رہ جاتی ہے اور کلام الٰہی اس کو درست کرتا ہے۔ چنانچہ آیت استخلاف میں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر انسان کا کلام ہوتا تو یہ کہتا کہ پہلے وہ تمہارے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ ایک خلافت کے بعد خوف کا مقام ہوتا ہے اور یہی لگتا ہے کہ یہاں پہلے یہ ذکر ہونا چاہئے کہ خوف کو امن میں بدل دے گا اور تمکنت میں تو خوف ہے ہی نہیں کیونکہ تمکنت نام ہے اس مقام کا جو بے خوفی پیدا کرتی ہے تو بعد میں کس خوف کا ذکر ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ دوبارہ اس آیت کو ذہن نشین کر کے جو مَیں مضمون بیان کرتا ہوں اس کے ساتھ چلیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ اس میں کیا حکمت ہے۔ خلافت کے نتیجہ میں لا متناہی ترقیات نصیب ہوتی ہیں، ترقی کی کوئی ایک منزل نصیب نہیں ہوتی۔ اور ترقی کی ہر منزل کے حصول کے نتیجہ میں خوف پیدا ہوتے ہیں جو دشمن کی تکلیف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے حسد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ وہ خوف ہے جو تمکنت سے پہلے پیدا نہیں ہوا کرتا۔ یہ ہر تمکنت کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ وہ جماعت جو ترقی نہیں کر رہی اور جو نشو و نما نہیں پا رہی اس کے اندر بھی ایک بے خوفی پید اہو جاتی ہے اور بے خوفی کے نتیجہ میں پھر اس کو کوئی خوف نہیں آتا وہ اپنی ذات میں سکڑی رہتی ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں کو اس سے بہت زیادہ اختلافات ہیں جو ہمارے بعض عقائد سے وہ رکھتے ہیں لیکن ان سے خوف کوئی نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کو جو امن نصیب ہے وہ نشوونما نہ پانے کا امن ہے۔ وہ زندگی کے فقدان کا امن ہے۔ وہ چار دیواری میں قلعہ بند ہونے کا امن ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ اس جماعت سے یہ توقع نہیں رکھتا جو خلافت سے وابستہ ہو یا جس کو خلیفہ بنایا گیا ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم ایسے کام کرو جس کے نتیجہ میں تمہیں تمکنت نصیب ہو یعنی یہاں حوالہ ہو جائے گا شروع کی طرف جہاں یہ شرط لگائی گئی تھی۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ۔ ۔وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ۔ یہ اس آیت کی مکمل شکل بن جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے جو عمل صالح کے ذریعہ مسلسل ترقی کے لئے کوشاں ہیں اور ہر آن ان کا قدم نیک اعمال کے نتیجہ میں آگے کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کے دین کو ضرور تمکنت نصیب فرمائے گا اور ہر تمکنت کے بعد ایک ایسا مقام ان کو عطا ہو گا کہ دنیا ان سے خوف محسوس کرے گی اور ان سے خوف محسوس کرنے کے نتیجہ میں جو ردّ عمل پیدا ہوتا ہے اس سے ان کے لئے ایک خوف پیدا ہو جائے گا۔ ان کیلئے بظاہر خطر ناک حالات پیدا ہوں گے ۔ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم تمکنت کے حصول کے لئے نیک اعمال کے ذریعہ کوشش کرتے چلے جاؤ ہم تمہیں تمکنت دیتے چلے جائیں گے اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس وجہ سے جو خوف تمہارے لئے پیدا ہوں گے ان کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہر خوف جو تمہاری ترقی کے نتیجہ میں تمہارے لئے پیدا ہو گا خدا اس کا ضامن ہے جس طرح کہتے ہیں ؂

تُو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالَم میری گردن پر

(دیوان غالب صفحہ 52 مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور 1969ء)

اسی قسم کا مفہوم یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ تم آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ تمہارے لئے کوئی آخری منزل نہیں ہے ۔ تمہارا ہر قدم جو آگے بڑھے گا اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتاہے کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں ایک تمکنت نصیب فرمائے گا۔ تم ہر تمکنت کی جو منزل حاصل کرو گے اس کے نتیجہ میں مخالفت کی ایک آگ لگ جائے گی۔ اور تم گرجتے ہوئے بے انتہا خطر ناک بادل دیکھو گے جو تمہیں ڈرائیں گے اور دھمکائیں گے کہ اچھا تم ترقی کرنے کی جرأت کررہے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کی بالکل پروا نہ کرو۔ ان کا جواب دینا ہمارا کام ہے۔ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یہ وعدہ بڑی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ وعدے کی شدت کے جو ذرائع عرب اختیار کرتے ہیں یا عربی زبان میں اختیار کئے جاتے ہیں وہ سارے یہاں اکٹھے کر دیئے گئے ہیں۔ لام جو شروع میں آیا ہے یہ شدّت پیدا کرنے کے لئے ہے۔ نون خفیفہ بھی شدت کے لئے آتا ہے اور نون خفیفہ سے زائد کر کے اسے نون ثقیلہ میں تبدیل کر دیا جائے تو شدت میں انتہا پیدا ہو جاتی ہے۔ پس خدا تعالیٰ اس شدت کے ساتھ آپ کو مطمئن فرما رہا ہے کہ ہر تمکنت کے نتیجہ میں جس کا تمہارے اعمال صالح سے تعلق ہو گا خدا تعالیٰ ان کو قبول فرما کر تمہیں تمکنت نصیب فرمائے گا۔ جو بھی خوف پیدا ہوں گے ان سے تم نے ہر گز نہیں ڈرنا اور نہ خوف کھانا ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو تم مشرک بن جاؤ گے۔

یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ہم تمہیں ایسی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس میں شرک کا ادنیٰ پہلو بھی نہ ہو۔ تم اعمال صالحہ کے ذریعہ ترقی پر ترقی کرتے چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ ان اعمال صالح کو قبول فرمائے اور اتنے زیادہ نتیجے پیدا فرمائے کہ اعمال صالحہ کے ساتھ بظاہر ان نتائج کو کوئی نسبت نہ رہے اور یوں محسوس ہونے لگے کہ تمکنت خالصةً اللہ ہی کی طرف سے آئی تھی ہمارے اعمال صالح کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں ہے۔ یہ مکمل نقشہ بن جاتا ہے ۔ تم اعمال کرو گے لیکن اعمال صالحہ کو براہ راست تمکنت کا پھل نہیں لگے گا بلکہ اعمال صالحہ کو قبول فرما کر اللہ تعالیٰ تم پر اتنے فضل نازل فرمائے گا کہ پھر تمہیں جو تمکنت عطا ہو گی وہ خدا کی طرف سے آئے گی اور تمکنت جب خدا بھیجے گا تو دنیا میں حسد کی ایک آگ لگ جائے گی۔ تمہاری ترقیات لوگوں کو ہضم نہیں ہوں گی۔ وہ بےقرار اور بے چین ہو جائیں گے۔ وہ تم سے خطرہ محسوس کرنے لگیں گے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہاری مخالفت کریں گے اور تمہارے لئے خطرات پیدا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان خطرات سے نکالنا یہ ہمارا ذمہ ہے ہم اتنا وعدہ کرتے ہیں جتنا شدت اور روز مرہ کے لحاظ سے ممکن ہے۔ تم ہمارے وعدہ پر یقین رکھو۔ یہ مختلف قسم کے خوف تمہاری تمکنت کی حالت کو کسی قیمت پر بدل نہیں سکیں گے۔ خدا کی طرف سے لازماً ہر خوف کی حالت کو ناکام بنا دیا جائے گا اور اسی خوف سے ایک نیا امن تمہیں نصیب ہوگا۔ یعنی تمکنت کا مضمون لفظ امن کے ساتھ دوبارہ داخل کر دیا ہے۔ یعنی خوف کے نتیجہ میں بھی ترقی ہی نصیب ہو گی۔ مخالفانہ کوششوں کے نتیجہ میں بھی تمکنت ہی نصیب ہوگی کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمکنت کا عربی لغت میں ایک معنی امن کی حالت کا بھی ہے۔ پس اللہ کی طرف سے ایک امن کی حالت تمہیں نصیب ہو گی جسے لوگ بدلنے کی کوشش کریں گے۔ اور اگر تم نہیں ڈرو گے اور خدا پر توکّل رکھو گے اور تمہاری آگے بڑھنے کی رفتار میں خوف کی وجہ سے کمی نہیں آئے گی (یہ ساری باتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں) تو پھر اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ اس خوف میں سے بھی خدا تعالیٰ امن کے حالات پیدا کر دے گا اور تمہارے لئے نئی تمکنت کے حالات پیدا کر دے گا۔ مگر یادرکھو اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے۔یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ تم نے میرے سوا ہرگز کسی کی عبادت نہیں کرنی ۔ کسی بندہ پر انحصار نہیں کرنا۔ کسی اور کو اپنا رب نہیں بنانا اور خالصةً میرے لئے ہو رہنا ہے۔ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ۔اور غیرکے خوف کو دل سے کلیةً نکال ڈالنا ہے ورنہ تم خدا کے نزدیک مشرک شمار کئے جاؤ گے۔ جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس تقدیر الٰہی کو دیکھنے کے باوجود یعنی باوجود اس کے کہ ہزارہا ایسے واقعات رونما ہو چکے ہوں گے جو الٰہی سلسلہ کی تاریخ سے وابستہ ہوں گے وہ سلسلہ جو من حیث الجماعت خلیفہ ہے اور جس کا ارتکاز ہو گیا ہے ایک خلیفہ کی شکل میں اور اس کی بیعت کر کے وہ مرتکز ہو گئے ہیں طاقت کے لحاظ سے ایک مقام پر، ان لوگوں کے اوپر بارہا دنیا دیکھ چکی ہے کہ ایسے حالات آئے لیکن ہر دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا۔ ہر دفعہ تمکنت کو بڑھایا۔ ہر دفعہ خوف کو بدلا اور خوف میں سے تمکنت کے سامان پیدا فرمائے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اگر پھر بھی تم نے انکا رکیا تو یہ تو پھر بڑی نا شکری کے مترادف ہو گا۔

مَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ الٰہی فضلوں کے بعد بھی تم میں کسی نے اگر انکار کیا اور محروم رہ گیا ۔ دوسرے معنے ہیں اگر تم نے ان فضلوں کی ناشکری کی اور خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ تسبیح و تحمید میں مصروف نہ ہوئے اور اس کی حمد کے گیت نہ گائے تو پھر یہ خدا کے نزدیک فِسق ہے۔ اس لئے جماعت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ کسی شکل میں بھی نا شکری نہ کریں۔ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھیں تو اس کے شکر اور حمد کے گیت گاتے ہوئے اس کثرت کے ساتھ اس کے حضور سربسجود ہوں کہ اس کے نتیجہ میں آپ کے لئے پھر تمکنت کا ایک نیا دَور شروع ہو جائے۔

یہ وہ لا متناہی ترقی کا سلسلہ ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں خلافت کہا جاتاہے ۔ ا س سے زیادہ حسین اور کامل نظام سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ ایک جاری سلسلہ ہے جس میں ایک کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا نمائندہ آپ کو عطا ہوتا ہے اور اس کی ذات کے ارد گرد اکٹھے رہنے کے نتیجہ میں آپ خلیفہ ہیں ۔ اگر اس کی ذات سے الگ ہوتے ہیں تو آپ خلیفہ نہیں رہتے۔ یہ ایک اور پہلو ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ رہنا چاہئے کہ من حیث الجماعت خلافت اس وقت تک ہے جب تک یہ خلافت مرتکز ہے ایک خلیفہ کے وجود میں اور یہ وجود وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے تصرّف کے تابع آپ کا نمائندہ بنا دیتا ہے یا اپنا نمائندہ بنا دیتا ہے۔ دونوں صورتیں ہیں۔ لیکن جو شخص اس سے الگ ہو جاتا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ جو اس سلسلۂ خلافت سے پھر الگ ہوتاہے وہ گویا اس کا انکار کرتاہے جس نے اس کو خلیفہ بنایا ہوتا ہے۔

فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ مختلف علماء کی طرف سے فِسق کے مختلف معنے کئے گئے ہیں۔ فِسق کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہو گیا یعنی خدا کے نزدیک اس نے انکار کردیا۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہ رہا۔ اس کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ تو مراد یہ ہے کہ اگر تم خلافت کا کفر کرو گے تو وہ فسق پر منتج ہوجائے گا اور تمہارا اسلام سے کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا۔

فسق کا ایک اور معنی یہ بھی ہے کہ تمہارا امن اٹھ جائے گا کیونکہ جب عرب کسی کھجور کے متعلق محاورةً کہتے ہیں کہ فلا ں کھجور فاسق ہو گئی۔ (تاج العروس زیر مادہ فسق)۔ تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا گودا اپنے خول کو توڑ کر اس کا کچھ حصہ کیڑوں اور دوسری چیزوں کا شکار ہونے کے لئے باہر آ گیا ۔ وہ حفاظت جو خول کے اندر اس کو ملی ہوئی تھی اس حفاظت سے اس کا کچھ حصہ باہر آ گیا۔

پس یہاں فِسق کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر تم نے خلافت کی ناشکری کی تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نظام خلافت کے اندر جو امن تمہیں نصیب ہے وہ اٹھ جائے گا اور تم جُنَّہْ کے پیچھے نہیں لڑرہے ہوگے۔ بلکہ تمہارے بعض اعضاء اور بعض حصے اس حفاظت کی ڈھال سے آگے نکل کر دشمن کی زد میں آجائیں گے۔ پس یہ مضمون بھی چونکہ consistent چل رہا ہے اس لئے اس کا مطلب یہی ہے کہ تم اپنا امن کھودوگے۔ تم خلافت کی جس حد تک بھی ناشکری کرو گے، جس حد تک اس کے دائرہ سے باہر نکلو گے اس حد تک تم دنیا کے عذابوں کے شکار ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کررہے ہو گے۔ اس لئے خلافت کے ساتھ چمٹے رہنا ہے۔ کسی طرح اور کسی حالت میں بھی اس سے باہر نہیں نکلنا۔ یہ ہے ایک پہلو اور ایک مضمون آیت استخلاف کا جس کی طرف آج میں نے احباب کو توجہ دلانا ضروری سمجھا۔

اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں۔ کچھ ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ دین کے لئے تمکنت کی جو کوشش ہے جس کے نتیجہ میں دشمن کو تکلیف پہنچی ہے وہ کوشش آپ نے کرنی ہے اور وہ تکلیف اب لوگوں کو ہو رہی ہے۔ مثلاً دعوت الیٰ اللہ کا پروگرام ہے اس کے نتیجہ میں اس وقت دنیا میں بہت شدید ردّ عمل ہوا ہے۔ بعض کمزور لوگ شاید خوف محسوس کر رہے ہوں اور وہ سمجھیں کہ ہم دعوت الیٰ اللہ کے پروگرام میں بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اس کے نتیجہ میں کہیں یہ نہ ہو جائے اور کہیں وہ نہ ہو جائے۔ دشمن بیزار ہو رہا ہے۔ دشمن کی توجہ ہماری طرف ہو رہی ہے۔ وہ نئے نئے منصوبے بنا رہا ہے۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس آیت کے مضمون میں یہ بات اچھی طرح کھول دی گئی ہے کہ اگر اس کوشش کے نتیجہ میں جو اعمال صالحہ کے ذریعہ کی جاتی ہے تم آگے بڑھنے لگو۔ نئے نئے لوگ تمہارے اندر داخل ہونے شروع ہوجائیں۔ نئی نئی قومیں تمہارے اندر داخل ہو نے لگیں یعنی تمہیں غلبہ نصیب ہونا شروع ہو جائے۔ کیونکہ اس آیت میں ایک معنی غلبہ کا ہے۔ چنانچہ اب دشمن بڑی شدت کے ساتھ مشتعل ہو چکا ہے اور وہ ہمارے مٹانے کے منصوبے بنا رہا ہے اس لئے اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں ذرا دھیما ہو جانا چاہئے۔ ہمیں اپنی کوششوں کو کچھ سست کر دینا چاہئے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر تم نے یہ بات سوچی تو تم مشرک ہو جاؤ گے۔ تمہارا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ تم وہ اُمّت واحدہ نہیں رہوگے جو توحید کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے ۔

پس مَیں جماعت کو اچھی طرح متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات گزری ہو کہ تبلیغ کے نتیجہ میں خطرات پیدا ہو رہے ہیں اس لئے ہمیں تبلیغ میں کمی پید اکر دینی چاہئے تویہ مشرکانہ خیال ہے اس کو دل سے نکال دیں ورنہ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا۔ وہ شجر توحید سے کاٹا جائے گا جو یہ خوف اپنے دل میں پیدا کرتا ہے۔ یاد رکھیں صرف اللہ پر ہمارا توکّل ہے اور وہ ہمارے لئے کافی ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے لئے کافی رہا ہے اور کبھی بھی اس نے ہمیں خوف کی حالت میں اکیلے نہیں چھوڑا ۔ وہ سب وفاؤں سے بڑھ کر وفا دار خدا ہے۔ ہم نے اس سے بے وفائی نہیں کرنی۔ ایک ایک بچے کے لئے بھی اگر کاٹے جانے کا خوف ہمارے سامنے ظاہر ہو جائے اور ہر طرف سے بھیانک شکلیں ہمیں ڈرانے کے لئے ابھر آئیں اور بظاہر ہر طرف اندھیرے پھیل جائیں تب بھی ہم نے ثبات قدم دکھانا ہے۔ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹنا ۔ ایک قدم رکنا نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہر میدان میں آگے بڑھنا ہے۔

یہ عہد کر کے آج آپ نے واپس جانا ہے اور اس روح کو جماعتوں میں پھیلانا ہے اور اس روح کے مبلغ بن جانا ہے کیونکہ خلافت کا یہ خلاصہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔

دوسرا پہلو ہے چندوں میں اضافہ۔ یہ بھی تکلیف کا موجب بن رہا ہے یعنی اَنْفُسُ میں خدا کی طرف سے جو تمکین نصیب ہو رہی ہے اور برکت مل رہی ہے اس کے نتیجہ میں بھی حسد کی ایک آگ لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں یہ کیوں بڑھ رہے ہیں اور آپ کیوں زیادہ مالی قربانی کر رہے ہیں۔ مالی قربانی میں اضافہ کے نتیجہ میں بھی حسد کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ بھئی چندہ ہم دیتے ہیں ۔ ہم اپنی جائز کمائی میں سے خدا کے حضور ادا کرتے ہیں۔ اس میں آپ کو تکلیف کیاہے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جماعت چندے اکٹھے کر رہی ہے تو یہ تو ایک کھلی دوڑ ہے ۔ قرآن کریم نے جو دوڑ بتائی ہے وہ تو نیکیوں کی دوڑ ہے تم بھی اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ تمہیں ہمارے چندے سے کیا تکلیف ہے۔ عقلی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کو تو خوش ہونا چاہئے بڑے بیوقوف لوگ ہیں اپنے اموال محنت سے کماتے ہیں لیکن ان کے نزدیک جو غلط مقصد ہے اس میں ضائع کر رہے ہیں۔ اگر وہ واقعةًیہ سمجھتے ہیں کہ اموال ضائع ہو رہے ہیں تو ان کو تواس پر بڑی خوشی ہونی چاہئے کہ لو جی اور زیادہ بیوقوف ہو گئے۔ اب پہلے سے بھی زیادہ بڑھ کر بیوقوف ہو گئے۔ پہلے تھوڑا چندہ دیا کرتے تھے اب زیادہ چندہ جھونک رہے ہیں اس مقصد کیلئے جسے وہ احمقانہ مقصد سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا دل کچھ اور گواہی دے رہا ہے۔ ان کا دل بتا رہا ہے کہ یہ ایک بامقصد جماعت ہے۔ ان کا ہر روپیہ ایک اعلیٰ مقصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے جو ان کے لئے مزید تمکنت کے سامان پیدا کر رہا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو نتیجہ نکالا وہ کتنا درست ہے۔ اور اسی طرح اس آیت کی ترتیب ہونی چاہئے کہ تمہارے اعمال صالح کو خدا قبول فرمائے گا اور تمہاری جانوں میں بھی برکت دے گا اور تمہارے اموال میں بھی برکت دے گا اور ہربرکت کے نتیجہ میں تمہیں خوف کے حالات پیدا ہوتے دکھائی دیں گے۔ لیکن خدا فرماتا ہے کہ اس وقت ہم تمہیں یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم نے شرک بالکل نہیں کرنا۔ ہم پر توکّل رکھنا ہے۔ صرف ہماری عبادت کرنی ہے۔ پھر دیکھنا کہ خدا کس طرح تمہارے ہر خوف کو امن میں تبدیل کرتا چلا جائے گا۔ پس چندوں کے نظام میں بھی خدا تعالیٰ نے جو برکت عطا فرمائی ہے اس میں بھی آپ نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے اور آگے بڑھنے کے لئے جو ذرائع آپ کے سامنے آج یا کل یا پرسوں رکھے گئے ان کو واپس جانے کے بعد عمل کی دنیا میں ڈھالیں اور کوشش کریں کہ مجوزہ طریقوں پر عمل کر کے بجٹ کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دیں۔

اب ہم دعا کے بعد رخصت ہوں گے۔ دعا کے سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمدکرنے اور درود پڑھنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائیں اور اس کی باقاعدہ ایک مہم چلائی جائے خصوصیت کے ساتھ جن تاریخوں میں جماعت کو الٹی میٹم دیا گیا ہے ان تاریخوں سے پہلے غیر معمولی پروگرام بنایا جائے تہجد کی نمازوں کا بھی اور سارے سارے دن دعائیں کرنے کا بھی۔ دعا کا طریقہ یہ ہو گا کہ سب سے پہلے حمد باری تعالیٰ یعنی تسبیح و تحمید کی جائے اور دل کو خوب خدا کی یاد میں غرق کر کے اس کے پیار، اس کے حسن اور اس کی اعلیٰ ذات و صفات کا تصور باندھ کر دعا کی جائے تب حمد باری دل سے جاری ہوگی۔ اس کے بعد بڑے درد اور گہرے جذبۂ عشق اور محبت کے ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجے جائیں۔ اور پھر بڑے درد مند دل کے ساتھ یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ! ہماری تو ساری کائنات اور سارا وجود تو ہے یا تیرا محبوب رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ ہمیں اس سے کاٹنے کی کوشش کی جار ہی ہے ہم نہیں کٹ سکتے ۔ ہم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے اے خدا! اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ یہ جو کاٹنے والے ہیں یہ ہمارے اندر شامل ہو کر اس لذت کو پا جائیں جو حقیقی وصال کی لذت ہے۔ وہ ہمیں کاٹنے میں کلیةً ناکام رہیں اور خود جماعت میں داخل ہو ہو کر اس زندہ خدا سے تعلق جوڑ لیں جس کو ہم نے دیکھاہے ایک محسن خدا کے طور پراور اس زندہ رسول سے تعلق جوڑ لیں جس کو ہم نے ایک زندہ رسول کے طو ر پر دیکھا ہے ۔ اور جو بنی نوع انسان میں ہمارے لئے محبوب ترین وجود ہے اور جس کے لئے ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ یہ دعا کریں۔

اور پھر وہ مسنون دعا بھی کریں اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِ ھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔(سنن ابی داؤد۔ ابواب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قوماً حدیث 1537)

دیہاتی جماعتوں کو بھی یہ دعا اور اس کا ترجمہ سکھائیں اور باقاعدہ کثرت سے یہ دعائیں کرتے رہیں۔ یہ وہ دعائیں ہیں جنہوں نے اس سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ان کے پاؤں تلے سے زمینیں نکال دی تھیں۔ بڑی بڑی طاقتوں کو اس طرح مٹا دیا کہ ان کا کوئی وجود باقی نہ چھوڑا اور جماعت کو ایک نئی سے نئی تمکنت عطا ہوتی رہی۔ اس لئے ان آزمودہ دعاؤں پر بہت زور دیں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح فضل فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کو خیر و عافیت کے ساتھ خوشی کے ساتھ اور اپنی حفاظت میں واپس لے کر جائے اور آپ واپس جا کر جماعت میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑانے کا موجب بنیں اور اس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے نئے سے نئے فضلوں کو ہمیشہ اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ۔ آئیے اب دعا کر لیتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد حضور انورؒ نے نہایت ہی تضرع اور ابتہال میں ڈوبی ہوئی پُر سوز اجتماعی دعا کروائی اور اسی پر اس سال کی بابرکت مجلسِ شوریٰ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔

(رپورٹ مجلسِ شوریٰ 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button