متفرق مضامینمضامین

قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں ماہ رمضان کی عظمت اور فضیلت کا بیان

(فرخ راحیل۔مربی سلسلہ، الفضل انٹرنیشنل،لندن)

للہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔

(البقرۃ184:)

ترجمہ :اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ

(البقرۃ186:)

ترجمہ:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو ہر سال روحانی اور اخلاقی بلندی کےحصول کے لئے کئی مواقع فراہم کرتا ہے۔ان مواقع میں سے ایک عظیم الشان موقع رمضان المبارک کی صورت میں آتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’جو شخص رمضان کے مہینے میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص سے عبادت کرتاہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتاہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا‘‘۔ (نسائی ، کتاب الصوم)

اسلام کی تعلیمات میں رمضان المبارک کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس مہینہ کی عظمت اور فضیلت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی مرتبہ بیان فرمائی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:

’’شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ سے رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیۂ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امّارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلّیٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ پس اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ میں یہی اشارہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے …‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 561تا 562۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ماہ رمضان کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ رمضان کا مہینہ اُن مقدّس ایّام کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ وہ مبارک دن۔ وہ دنیا کی سعادت کی ابتدا کے دن۔وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناؤنی شکل اُس کے بد صورت چہرے اور اس کے اذیّت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غارِ حرا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کریں گے جسے ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ انہی تنہائی کی گھڑیوں میں انہی جدائی کے اوقات میں اور انہی غور و فکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا۔اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو وہ جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اُسے اُس کے پیدا کرنے والے، اُس کی تربیت کرنے والے، اُس کو تعلیم دینے والے اور اُس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔…پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رمضان ہی میں یہ آواز آئی اور رمضان ہی میں آپ نے غارِ حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سُنانی شروع کی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 391،392)

رمضان کے معنی

رمضان کے معانی کیا ہیں اور اس مہینہ کو رمضان کیوں کہا جاتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔رَمَضان میں چونکہ انسان اَکل و شُرب اور تمام جسمانی لذّتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مِل کر رَمَضان ہوا۔ اہلِ لُغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا، میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے۔ رَمض اُس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتّھر گرم ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 136۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

روزہ کی حقیقت کیا ہے؟

بعض لوگ باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں لیکن وہ اس بات سے نا آشنا ہیں کہ روزہ کا مقصد اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام روزہ کی حقیقت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:

’’تیسری بات جو اسلام کا رُکن ہے، وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں… روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 102 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )

رمضان میں انسان کا خدا تعالیٰ سے بُعد مِٹ جاتا ہے

رمضان المبارک کی عظمتوں اور فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اور خدا تعالیٰ سے بُعد مِٹ جاتا ہے۔ اس بارہ میںحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گزر جائیں۔ کتنے ہی سال ہمیں اور ان کو آپس میں جُدا کرتے چلے جائیں۔ کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیا ہے اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔ وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتا ہے وہ یُوں سمٹ جاتا ہے وہ یوں مِٹ جاتا ہے وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کِرنوں سے رات کا اندھیرا۔ یہی وہ حالت ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ مَیں انہیں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہہ دے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہوا۔ اور اُس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے جو خدا کا وہ رسّہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رسّہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 393۔394

اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ کی تفسیر

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہوسکتاہے تو کہہ دے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِنِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ۔ یعنی مَیں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتاہوں۔ چاہئے کہ پہلے وہ ان احکاموں پر عمل کریں جن کا مَیں نے حکم دیاہے اور ایمان حاصل کریں تا کہ وہ مراد کوپہنچ سکیں اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی‘‘۔(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 308)

ایک اور جگہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب الٰہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیاہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِنِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔یہ ماہِ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیاہے اور اِس سے اِس ماہ کی عظمت اور سرِّ الٰہی کا پتہ لگتاہے کہ اگر وہ اِس ماہ میں دعائیں مانگیں تو مَیںقبول کروں گا لیکن ان کو چاہئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں۔ انسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قوی ہوتاہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتاہے۔ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَسے معلوم ہوتاہے کہ اِس ماہ کو رُشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کاذریعہ خدا پر ایمان ، اُس کے احکام کی اتباع اور دعا کو قرار دیا ہے ۔ اَور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الٰہی حاصل ہوتاہے ۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 308)

قرب الٰہی کے لئے کوشش کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رمضان کے بابرکت مہینہ میں قُربِ الٰہی کے حصول کے لئے اپنی اپنی کوششوں کو بڑھانے کے بارہ میں فرماتے ہیں:

’’اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان … حدیث نمبر1899)

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس مہینہ میں عبادتوں، تزکیۂ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعہ جنت کے ان دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ یا جنت کے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں جو پھر ہمیشہ کھلے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے جھکیں اور اُن خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جن کی توبہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کو اس رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں جو گمشدہ بچہ کے ماں کو مل جانے سے زیادہ ہے۔ لیکن … اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی پہنچانے کے لئے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، ان کے معیاروں کو بلند کرنا ہوگا۔ اپنے روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جولائی 2013ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button