حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

ز…… جہاں ہم نے مسجد کو عبادت کے لئے آباد کرنا ہے وہاں ہم نے خدمتِ خلق کے کام بھی کرنے ہیں۔…… یہ ایک بنیادی چیز ہے جسے ایک احمدی مسلمان ہروقت اپنے سامنے رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک میں ہم خدمتِ خلق کے بہت سے کام کر رہے ہیں۔ جہاں ہماری مساجد بن رہی ہیں وہاں ہمارے سکول بھی بن رہے ہیں ، ہمارے ہسپتال بھی بن رہے ہیں بلکہ ایسے غریب ملک اور اُن کے remote areas میں جہاں بجلی اور پانی نہیں ہے وہاں model village بنا کے ہم اُن علاقوں کو بجلی اور پانی مہیّا کر رہے ہیں جن کو پہلے اس کا تصوّر بھی نہیں تھا۔ ……ز……ایک خلافت دنیا میں بہت مشہور ہے جو داعش کہلاتی ہے۔ جس نے دنیا میں فساد پھیلا دیا ہے۔ جس نے دنیا میں ہر طرف دہشتگردی پھیلائی ہوئی ہے۔ نہ صرف مغرب میں بلکہ اپنے ممالک میں بھی۔ عراق میں، سیریا میں اور دوسرے اسلامی ممالک میں۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ بلا وجہ قتل کر دیئے ہیں۔ وہ خلافت نہیں ہے کیونکہ وہ صحیح اسلامی تعلیم پہ نہیں چل رہی۔ اور وہ خلافت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ وہ اُس طریقہ کے مطابق نہیں آئی جو بانیٔ اسلام ﷺ نے بیان فرمایا تھا اور جو پیشگوئی فرمائی تھی۔ …… ز…… یہ غلط لیڈرشپ ہی ہے جس نے مسلمانوں کو غلط رستوں پرڈال دیا ہے۔ اور اسلام کی صحیح لیڈرشپ وہی ہے جو بانیٔ اسلام کی پیشگوئی کے مطابق آئی اور اب جماعت احمدیہ اُس کو لے کر آگے چل رہی ہے۔
(Augsburg شہر میں مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی تقریب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب)

حضورانور کا میڈیا کے نمائندگان کو انٹرویو۔ مسجد المہدی (میونخ) میں حضور انور کا ورودمسعود اور والہانہ استقبال۔
مسجد بیت النصیر کی افتتاحی تقریب میں شامل بعض مہمانوں کے تأثرات۔ مساجد کے افتتاح کی ریڈیو، ٹی وی
اور اخبارات وغیرہ میڈیا میں کوریج۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ نماز جمعہ و خطبہ جمعہ۔ بعض مرحومین کی نماز جنازہ حاضر و غائب

11 اپریل2017ء بروز منگل

(حصہ دوم)

Augsburg شہر میں مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی تقریب میں حضور انور

ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد ، تعوّذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:

تمام معزز مہمان ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر ہمیشہ سلامتی نازل فرماتا رہے۔

جیسا کہ ایک معزز مقرر نے بھی ذکر کیا کہ جو تلاوت کی گئی تھی اس میں ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ نمازوں کے ساتھ ساتھ تمہیں نیک کام کرنے چاہئیں اور اصل نیکی یہی ہے کہ خدمتِ خلق کے کام بھی کرو ، غریبوں کا خیال رکھو، یتیموں کا خیال رکھو اور اس قسم کے دوسرے کام کرو۔ پس جب ہم ایک مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس امید اور توقع پر اور اس سوچ کے ساتھ تعمیر کرتے ہیں کہ ہم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ جہاں ہم نے مسجد کو عبادت کے لئے آباد کرنا ہے وہاں ہم نے خدمتِ خلق کے کام بھی کرنے ہیں۔

پس یہ ایک بنیادی چیز ہے جسے ایک احمدی مسلمان ہر وقت اپنے سامنے رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک میں ہم خدمتِ خلق کے بہت سے کام کر رہے ہیں۔ جہاں ہماری مساجد بن رہی ہیں وہاں ہمارے سکول بھی بن رہے ہیں ، ہمارے ہسپتال بھی بن رہے ہیں بلکہ ایسے غریب ملک اور اُن کے remote areas میں جہاں بجلی اور پانی نہیں ہے وہاں model village بنا کے ہم اُن علاقوں کو بجلی اور پانی مہیّا کر رہے ہیں جن کو پہلے اس کا تصوّر بھی نہیں تھا۔

مَیں ہمیشہ مثال دیا کرتا ہوں کہ اِن ترقی یافتہ ملکوں میں ہمیں پانی کی قدر نہیں ہے باوجود اِس کے کہ ہوٹلوں میں بھی اور باقی جگہوں پہ بھی لکھا جاتا ہے کہ پانی کی بچت کرو، پانی کا کم استعمال کرو، پانی کا صحیح استعمال کرو ۔ لیکن پانی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب ہم غریب افریقہ کےممالک میں وہاں کے دُور دراز کے علاقوں میں جائیں جہاں گاؤں کے بچے بجائے تعلیم حاصل کرنے کے، بجائے سکول جانے کے اپنی غربت کی وجہ سے اُس تعلیم سے بھی محروم ہیں اور نہ صرف تعلیم سے محروم ہیں بلکہ ایک بالٹی سر پہ اٹھاکے، ایک برتن سر پہ اٹھا کے ایک ایک دو دو تین تین کیلومیٹر تک دُور جا کے، جو گندےپانی کے تالاب ہیں وہاں سے پانی لے کے آتے ہیں اور پھر وہ گھر والے اس پانی کو کھانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور پینے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ تو ایسی جگہوں پر جب آپ صاف پینے کا پانی مہیّا کریں hand pump لگائیں یا water pump لگائیں اس وقت جو اُن لوگوں کی حالت ہوتی ہے وہ دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ یہاں مغرب میں، یورپ میں،انگلستان میں بھی لوگوں کی لاٹری نکلتی ہے ۔ کسی کی کئی ملین ڈالرز کی یا پاؤنڈ یا یورو کی لاٹری نکلے تو وہ بڑا خوش ہوتا ہے اور چھلانگیں لگا رہا ہوتا ہے۔لیکن اگر اُس احساس اور خوشی کو محسوس کریں جو اُن غریب بچوں کو اُن کے گھر کے دروازے کے سامنے صاف پانی مہیّا ہونے پہ ملتی ہے تو لگتا ہے اُن کی کئی ملین یورو کی لاٹری نکل آئی ہے۔

پس یہ وہ احساس ہے جو ہمارے دلوں میں ہے اور جس کے لئے ہم جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں وہاں خدمتِ خلق کے کام بھی کرتے ہیں اور یہی چیز ہے جس کے لئے بانی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق بھیجا۔ کیونکہ بانیٔ اسلام نے یہ فرمایا تھا کہ ایک وقت آئےگا جب دنیا میں جتنے مسلمان ہیں اُن کی اکثریت اسلام کی اصل تعلیم کو بھول جائے گی اور اُس وقت ایک شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا جو اسلام کی صحیح تعلیم کو reviveکرے گا، دوبارہ قائم کرے گا اور صحیح اسلامی تعلیم دنیا میں پھیلائےگا۔ اور یہی کچھ ہم نے بانی جماعت احمدیہ سے سیکھا۔ انہوں نے فرمایا کہ شدّت پسندی ، دہشتگردی ، جہاد ، جنگ یہ کوئی اسلام نہیں ہیں۔ اصل اسلام یہی ہے کہ تم بندے کو خدا سے ملاؤیا اپنے آپ کو خدا سے ملاؤاور اسی مقصد کے لئے انہوں نے کہا کہ مَیں آیا ہوں۔ دوسرا یہ بتایا کہ ایک دوسرے کے حق ادا کرو۔ اور یہ دو چیزیں ہیں جو جماعت احمدیہ کی تعلیم کی بنیاد ہیں اور یہی چیزیں ہیں جن کو آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت لے کے جارہی ہے۔

ایک خلافت دنیا میں بہت مشہور ہے جو داعش کہلاتی ہے۔ جس نے دنیا میں فساد پھیلا دیا ہے۔ جس نے دنیا میں ہر طرف دہشتگردی پھیلائی ہوئی ہے۔ نہ صرف مغرب میں بلکہ اپنے ممالک میں بھی۔ عراق میں، سیریا میں اور دوسرے اسلامی ممالک میں۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ بلا وجہ قتل کر دیئے ہیں۔ وہ خلافت نہیں ہے کیونکہ وہ صحیح اسلامی تعلیم پہ نہیں چل رہی۔ اور وہ خلافت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ وہ اُس طریقہ کے مطابق نہیں آئی جو بانیٔ اسلام ﷺ نے بیان فرمایا تھا اور جو پیشگوئی فرمائی تھی کیونکہ صحیح خلافت اُسی وقت آنی تھی جب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح موعودؑ اور مہدی موعودؑ نے آنا تھا اور اس کے بعد پھر اس کام کو اس نے جاری رکھنا تھا جس کام کے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا تھا اور وہ کام جیسا کہ میں نے بتایا اللہ تعالیٰ سے بندہ کو ملانا اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا ہے۔ پس یہ ہے بنیادی فرق حقیقی خلافت اور غیر حقیقی خلافت میں۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے ۔ اس لئے اسلام کی تعلیم سے کسی بھی غیر مسلم کو ڈرنے کی یا اس سے کسی قسم کا تحفّظ رکھنے کی ضرورت نہیں۔

یہاں میئر صاحب نے ذکر کیا کہ اس علاقہ کی مسجد میں ہم نے ایک درخت لگایا ۔جہاں درخت اور پودے ظاہری طور پر خوبصورتی کے لئے لگائے جاتے ہیں ، جہاں پھلدار درخت پھل حاصل کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں، جہاں درخت اور سبزہ ماحول کو صاف کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے آجکل climate change کا بھی بڑا زور ہے، polution کا بڑا زور ہے اور اس کے لئے plantation بھی کی جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے درخت ان ظاہری درختوں کے ساتھ محبت کے درخت بھی ہیں ۔ ہم وہ درخت لگانا چاہتے ہیں جو ظاہری طور پر جہاں ماحول پر خوبصورتی ظاہر کریں، ماحول کو صاف کریں، پھلدار ہوں تو پھل دیں، وہاں محبت کے پھل بھی ان کو لگنے والے ہوں اور ہمارے ہمسائے ہمارے سے زیادہ سے زیادہ پیار اور محبت اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے پیغامات لینے والے ہوں ۔ پس درخت کی ایک ظاہری حیثیت ہے۔ اس ظاہری حیثیت کے ساتھ اس درخت کی ایک روحانی حیثیت بھی ہوتی ہے جو ہم اپنے ذہن میں رکھتے ہیں اور ہر احمدی کو یہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔

ہماری ایم پی محترمہ نے بھی صحیح بات کی ۔ ان کے جذبات کا بھی شکریہ ۔ انہوں نے کہا کہ افہام و تفہیم سے یہاں لوگ رہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ بھی رہتی ہے۔اور اس مسجد کے بننے کے بعد یہ افہام و تفہیم کی جو حالت ہے اُس میں مزید بہتری پیدا ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہم دنیا میں ہر جگہ اختلافات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ہم دنیا میں ہر جگہ دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور ہم یہی چاہتے ہیں کہ دنیا ایک دوسرے سے اختلافات کرنے کی بجائے محبت اور پیار سے رہے اور آپس میں مل جل کر رہے ۔

دنیا میں مختلف مذاہب ہیں ۔ بلکہ ہم مسلمانوں کے ایمان کے مطابق تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر قوم میں نبی اور اپنے فرستادے بھیجے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور ہر قوم میں آنے والا نبی اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کافرستادہ یہ پیغام لے کر آیا کہ تم خداتعالیٰ کی عبادت کرو اور نیکیوں کو پھیلاؤ۔ اور یہی وہ تعلیم ہے جو اسلام کی تعلیم ہے اور ہمارے خیال کے مطابق اس تعلیم میں مزید وسعت پیدا کر کے قرآنِ کریم میں بڑی تفصیل سے اس تعلیم کو بیان کیا گیا ہے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں جہاد کے متعلق کہا گیا ہے، دہشتگردی کے متعلق کہا گیا اس لئے یہ مسلمان دہشتگرد ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں امن اور پیار اور محبت کی تعلیم انتہائی زیادہ ہے اور اگر کہیں جہاد کی تعلیم ہے تو جہاد بعض شرائط کے ساتھ ہے ۔ اصل میں ایک یہ چیز سمجھنے والی ہے کہ جہاد کے اصل معنی کوشش کے ہیں اوربرائی کو ختم کرنے کی کوشش ہے اور یہی حقیقی جہاد ہے جو جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں پر حملے کئے جاتے تھے ۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آپؐ نے کسی پر زیادتی نہیں کی بلکہ آپؐ پر جب ظلم و زیادتی کی گئی تو تب آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب دینے کی اجازت ملی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ قرآنِ کریم میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جو ظالم لوگ ہیں یہ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں صرف اسلام کو نہیں ۔ قرآنِ کریم میں یہ بھی بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر تم نے ان کے ہاتھ نہ روکے تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹیمپل باقی رہے گا اور نہ کوئی مسجد باقی رہے گی جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے۔ تو اس تفصیل سے قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے۔ پس یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک حقیقی مسلمان، مسجد میں جانے والا، کبھی کسی دوسرے مذہب کے خلاف کوئی حرکت کرنے والا ہو۔ ہاں جب حملے ہوئے تو اس وقت جواب دیئے گئے اور جنگیں لڑی گئیں۔ اسی لئے ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے ایک جنگ سے واپس آتے ہوئے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے جو ہم پر مجبوراً ٹھونسا گیا تھا بڑے جہاد کی طرف آرہے ہیں جہاں ہم پیار اور محبت کی تعلیم پھیلائیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم پھیلائیں اور آپس میں پیار اور محبت سے رہیں۔ پس یہ ہے وہ حقیقی اسلام جس پہ جماعتِ احمدیہ عمل کرتی ہے اور یہ ہے وہ حقیقی اسلام جس کو ہر مسلمان کو اس زمانہ میں ماننے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کے بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا یہ پیغام بھی تھا کہ جب وہ شخص آئے گا جو اسلام کی صحیح تعلیم کو بیان کرے گا اور پھیلائے گا تو تم اس کو مان بھی لینا۔ پس جماعت احمدیہ کی اگر یہ تعلیم ہے کہ ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ تو یہ کوئی نئی تعلیم نہیں۔ بلکہ یہ وہ تعلیم ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور جو قرآنِ کریم میں بیان ہے اور جس کو مسلمان علماء اپنے ذاتی مقاصد اور مفادات حاصل کرنے کے لئے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اتنی توفیق نہیں کہ خود دیکھیں کہ حقیقی تعلیم کیا ہے۔ اور یہ غلط لیڈرشپ ہی ہے جس نے مسلمانوں کو غلط رستوں پرڈال دیا ہے۔ اور اسلام کی صحیح لیڈرشپ وہی ہے جو بانیٔ اسلام کی پیشگوئی کے مطابق آئی اور اب جماعت احمدیہ اُس کو لے کر آگے چل رہی ہے۔ پس یہ ہے اسلام کی حقیقی اور بنیادی تعلیم اور یہ ہے مسجدکی تعمیر کا مقصد ۔ اس لئے ہمارے ہمسائے بھی اگر اُن کے کوئی تحفظات تھے تو اُن کے تحفظات اب ختم ہو جانے چاہئیں کہ مساجد کا مقصد جہاں عبادت کرنا ہے وہاں لوگوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور ہمسایوں کے حقوق ادا کرنا ہے ۔ امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانا ہے ۔

اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ اور ہم اس یقین پر بھی قائم ہیں قطع نظر اس کے کہ کسی کا کیا مذہب ہے یا کسی کا مذہب نہیں ہے تب بھی ہم اس خدا پہ یقین رکھتے ہیں جو ربّ العالمین ہے یعنی تمام لوگوں کا رب ہے ۔ جو اُس کے قوانین ہیں اس کے تحت جہاں وہ مذہب کے ماننے والوں کوظاہری چیزیں مہیّا کرتا ہے مذہب کے نہ ماننے والے کو بھی ظاہری چیز مہیّا کرتا ہے۔

ہمارے ایمان کے مطابق انسان کا حساب مرنے کے بعد ہوگا۔ اس لئے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اِس دنیا میں کسی کے بارہ میں فیصلہ کریں کہ کون کیسا ہے ۔ ہاں صحیح پیغام پہنچانا، پیار اور محبت کا پیغام پہنچانا، اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کا پیغام پہنچانا، یہ ہمارا کام ہے جو ہم کرتے چلے جا رہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے چلے جائیں گے اور مجھے امید ہے کہ اِس مسجد کے بننے کے بعد یہاں کے رہنے والے احمدی پہلے سے بڑھ کر اس کام کو کریں گے ۔پہلے سے بڑھ کر جہاں مسجد میں آکر اپنی عبادتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے وہاں اپنے ہمسایوں کا، اپنے دوستوں کا، اپنے ساتھیوں کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے اور ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر پیار اور محبت کے پیغامات ہم سب کو اُن کی طرف سے ملیں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا کریں۔ شکریہ ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بجکر سترہ منٹ پر ختم ہوا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

میڈیا کے نمائندگان کو انٹرویو

اس کے بعد درج ذیل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے جرنلسٹس نے حضورانور کا انٹرویو لیا:

  1. Augsberg T.V.
  2. Augsberg Allgemeine Zeitung
  3. Digital Radio Augsberg
  4. Sonntag Press Augsberg


٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ حضورانور نے اپنے ایڈریس میں فرمایا ہے کہ ہمیں اسلام کی اصل تعلیم کی تصویر کو دیکھنا چاہئے جو یہ ہے کہ انسانی اقدار کو اپنایا جائے۔ ہم مزید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے کیا ضروری ہے؟


اس سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا کہ مَیں خاص طور پر پریس والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ اسلام کی وہ غیرحقیقی تصویر دیکھتے ہیں جو داعش ظلم و ستم کرتے ہوئے پیش کرتا ہے تو آپ اس کو بڑی سرخیوں سے شائع کردیتے ہیں۔ مگر جب ہم اپنا پیغام پیش کرتے ہیںا ور لاکھوں افراد سالانہ جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو آپ اس بات کی خبر ہی نہیں دیتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے پریس والوں سے روابط صحیح نہیں یا کوئی اَور مسئلہ ہے یا پھر آپ وہ خبریں دیتے ہی نہیں جو سنسنی خیز نہ ہوں۔ اگر آپ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس پیغام کو پھیلائیں جو ہم پیش کرتے ہیں۔

٭ ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، کس طرح سے تمام مذاہب ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ آپ کا اپنا مذہب ہے اور میرا اپنا مذہب ہے اور مذہب میں کوئی جبر نہیں۔ اگر مَیں اچھائی کی خبر دیتا ہوں تو کچھ افراد اسے قبول کرلیتے ہیں اور ہر سال چار پانچ لاکھ سے زیادہ افراد قبول کرتے ہیں اور ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ اچھائی کی خبر ہی ہے۔ اسی لئے تو وہ جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔

ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں باوجود اس کے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں مثلاً عیسائی ہیں، یہودی ہیں، مسلمان ہیں، بدھ مت، ہندو اور سکھ ہیں مگر ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ خداتعالیٰ ہے۔ پس ہمیں خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے آپس میں مل جُل کر رہنا چاہئے۔ دوسری مشترکہ چیز انسانیت ہے اور انسانیت کے تحفّظ کے لئے ہمیں آپس میں مل جُل کر ہم آہنگی، امن پسندی اور محبت سے رہنا چاہئے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ایک د وسرے کے ساتھ رہنے سے مراد ایک دوسرے کو جاننا بھی ہے۔ آپ کا ایک اپنا نظریہ ہے اور میرا ایک اپنا نظریہ ہے۔ ایک فیملی میں بھی تو بہن بھائیوں کے مختلف نظریے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ اگر وہ آپ کے نظریہ سے متّفق نہ ہوں تو آپ ان کے بارہ میں بُرا بھلا کہیں بلکہ آپ ان کے ساتھ محبّت سے رہیں گے۔ پس ہمیں بھی باوجود مذہب کے بارہ میں مختلف عقائد رکھنے کے ایک فیملی کی طرح رہنا چاہئے۔

٭ ایک جرنلسٹ نے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک آج اس مسجد کے افتتاح کی ایسے وقت میں کیا اہمیّت ہے کہ جب دنیا میں دہشتگردی پھیلی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا اسی لئے تو مَیںنے آج یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی اسلام وہ ہے جو ہم پیش کررہے ہیں اور جس کی تبلیغ کر رہے ہیں یہی اصل اور حقیقی پیغام ہے اور ہمیں دنیا کے کناروں تک پہنچانا چاہئے اور ہم اپنی استطاعت کے مطابق بہترین کوشش کررہے ہیں کہ اس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں اور ہمارا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے۔ آج وہ جماعت جس کی ایک انسان نے بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنیاد رکھی تھی جبکہ وہاں پکّی سڑک تک نہیں تھی۔ وہ آج دنیا کے 209 ممالک میں پھیل چکی ہے اور احمدی دنیابھر میں بستے ہیں۔ پس ایسے وقت میں جب ایک طرف تو کچھ تشدّد پسند مسلمان اسلام کی غیرحقیقی تصویر پیش کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مزید جوش سے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں جو امن، محبت اور ہم آہنگی ہے۔

٭ ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا اسلام کے معنی ہی امن کے ہیں اور ہم امن پسند لوگ ہیں اور ہم اس شہر کا حصہ ہیں۔ اس صوبہ کا حصہ ہیں اور اِس ملک کا حصہ ہیں اس لئے آپ دیکھیں گے کہ احمدی ہر لحاظ سے معاشرہ میں Integrated ہیںا ور ہم ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ہم اپنی تمام کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کریں اور یہی کام ہم کب سے کر رہے ہیں اور اگر اس شہر کا ماٹو امن ہے تو یہی ہمارا پیغام ہے یعنی امن، محبت اور ہم آہنگی ، رواداری۔

بعدازاں اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔

کھانے کے بعد مختلف مہمان باری باری حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس آکر ملاقات کرتے رہے۔ حضور انور ازراہ شفقت اُن سے گفتگو فرماتے۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں خواتین نے شرف زیارت پایا۔

حضورانور ایدہ اللہ کی میونخ میں آمد اور احباب جماعت کا والہانہ استقبال

پروگرام کے مطابق اس افتتاحی تقریب کے بعد یہاں سے میونخ (Munich) کے لئے روانگی تھی۔

Augsburg سے میونخ کا فاصلہ 90 کلومیٹر ہے۔ آٹھ بج کر دس منٹ پر یہاں سے روانگی ہوئی اور قریباً ایک گھنٹہ پانچ منٹ کے سفر کے بعد سوا نو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ’’مسجد المہدی‘‘ میونخ تشریف آوری ہوئی۔

جونہی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گاڑی ’’مسجد المہدی‘‘ کے بیرونی احاطہ میں پہنچی۔ احباب جماعت مردو خواتین اور نوجوانوں، بوڑھوں نے اپنے پیارے آقا کا بڑا والہانہ استقبال کیا۔ بچوں اور بچیوں کے گروپس نے دعائیہ نظمیں پڑھیںا ور خیرمقدمی گیت پیش کئے۔ ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ بلند کرکے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ خواتین اپنے پیارے آقا کے دیدار اور شرفِ زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔

لوکل صدر جماعت مظفر گوندل صاحب، ریجنل امیر ظفر ناگی صاحب، مبلغ سلسلہ میونخ عثمان نوید صاحب اور قائد خدام الاحمدیہ میونخ راحیل احمد صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔
حضور انور نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے بیرونی حصہ میں تشریف لے آئے اور محراب کی طرف مسجد کی توسیع کے بارہ میں صدرصاحب مقامی جماعت کو ہدایات دیںا ور فرمایا کہ کوئی آرکیٹیکٹ اس حوالہ سے صحیح پلاننگ کرکے آپ کو بتائے گا۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔

یہاں میونخ میں رات کے قیام کا انتظام Freising کے علاقہ میں ہوٹل Marriott میں کیا گیا تھا۔

مسجد سے روانہ ہوکر قریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی جائے رہائش پر تشریف لے آئے۔

مسجد بیت النصیر کی افتتاحی تقریب میں شامل بعض مہمانوں کے تأثرات

آج ’’مسجد بیت النصیر‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے بعض مہمانوں نے اپنے تأثرات اور دلی جذبات کا اظہار کیا کہ خلیفۃالمسیح کے خطاب نے ان کے دلوں پر گہرا اثر کیا ہے۔ بعض مہمانوں کے تأثرات درج ذیل ہیں:

٭ ایک مہمان نے حضور انور کے خطاب کے بعد اپنے تأثرا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی حسین پیغام ہے جو پہنچایا جا رہاہے۔ میری یہ تمنّا ہے کہ آپ کا پیغام اسلامی ممالک کے اکثر لوگوں تک پہنچے۔ اس سے امن زیادہ قائم ہوگا۔ ایک احمدی ٹیکسی ڈرائیور کی دعوت پر مَیں اس پروگرام میں شامل ہوا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں آپ کی جماعت کے لئے کامیابی کا متمنّی ہوں۔ ہمیں آپ جیسے لوگوں کی زیادہ ضرورت ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت پُراثر تھا۔ بالخصوص جن اقدار کا ذکر کیا گیا وہ میرے لئے بہت اہم تھیں۔ میرا کوئی مذہب تو نہیں تاہم مَیں ان اقدار کی پیروی کرسکتا ہوں۔ افریقہ میں پانی مہیا کرنے کے کام نے بہت متاثر کیا ہے۔ آپ لوگ صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے پیغام سے متعارف ہوں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ خلیفہ کا امن پر مشتمل پیغام دلکش تھا۔ آپ کو چاہئے کہ اس پیغام کو ساری دنیا میں پھیلائیں۔

٭ ایک جرمن سکول ٹیچر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اپنے سکول کے بچوں کو اسلام کے حوالہ سے ان کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتی تھی کیونکہ میڈیا میں جو کچھ آتا تھا وہ اسلام کے شدید خلاف ہوتا تھا۔ آج اس پروگرام میں خلیفۃالمسیح کے خطاب سے مجھے اتنا زیادہ مواد مل گیا ہے کہ میں اپنے طلباء کو اب اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرسکتی ہوں۔ میں آپ کے خلیفہ کی بہت شکرگزار ہوں۔

٭ ایک جرمن خاتون نے کہا کہ خلیفۃالمسیح کی باتیں سن کر میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ اسلام کی تعلیم اتنی حسین اور خوبصورت ہے۔ خلیفۃالمسیح کی باتیں سن کر میرے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ اتنی حسین تعلیم کے باوجود اسلام اتنا بدنام کیوں ہوگیا ہے؟ مَیں دعا کرتی ہوں کہ آپ کا اسلام پھیلے اور سب لوگوں تک پہنچے۔

٭ ایک خاتون جو دہریہ ہے، کہنے لگیں کہ آپ کے خلیفہ نے آج جو باتیں کی ہیں اس وقت دنیا کو ان باتوں کی بہت ضرورت ہے۔ اس شہر میں بہت سے جرمن ایسے ہیں جو اسلام سے ڈرتے ہیں۔ میرے حلقۂ احباب میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مجھے اس پروگرام میں آنے سے روکا۔ میرا مشورہ ہے آپ خلیفہ کی باتوں کو اخبارات میں شائع کریں، ریڈیو پر نشر کریں اور اس کے پمفلٹس شائع کرکے شہر کے لوگوں میں تقسیم کریں تاکہ ان کے دلوں سے خوف دُور ہوں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ میرے لئے حضور انور کے خطاب میں بیان شدہ سب نکات نئے تھے۔

٭ ایک مہمان Marianne Weib صاحبہ (جو گرین پارٹی کی لوکل تنظیم کی چیئرپرسن ہیں) اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ خلیفۃالمسیح کی یہ وضاحت بہت پسند آئی کہ خلافت احمدیہ کا یا جماعت احمدیہ کا ISIS کی نام نہاد خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ آج مجھے اسلام کی اصل حقیقی تعلیمات کا پتہ چلا۔ احمدیت کا امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام اصل اسلامی تعلیمات ہیں۔

٭ حضور انور کی شخصیت کو دیکھ کر ایک جرمن نوجوان نے کہا کہ آپ میرے جذبات شاید نہ سمجھ سکیں۔ میرے دادا کچھ عرصہ قبل وفات پاگئے تھے اور جو میرے لئے سب سے اچھے دوست تھے اور مجھے نصائح کیا کرتے تھے۔ آج جب مَیں نے حضورانور کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ خداتعالیٰ نے مجھے میرا دادا عطا کردیا ہے۔

٭ ایک جرمن مہمان Mr. Sven نے اپنے تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں بچپن میں اپنے والدین کےساتھ پوپ سے ملنے روم گیا تھا۔ مجھے وہاں پر روحانیت محسوس ہوئی تھی۔ مَیں سمجھتا تھا کہ عیسائیت سچّی ہے لیکن آج یہاں پر آکر خلیفۃالمسیح کو دیکھ کر اور آپ کا خطاب سن کر مجھے خاص قسم کی روحانیت محسوس ہوئی ہے جس کا مجھ پر گہرا اثر ہے۔ میرے دل کے جتنے بھی تحفظات تھے وہ دُور ہوگئے ہیں۔

٭ Augsburg یونیورسٹی کے ایک پروفیسر Dr. Klaus Wolf نے کہا کہ جو بھی خلیفہ نے آج فرمایا ہے اگر وہ واقعی آپ کا پیغام ہے تو آپ کو بہت کامیابی حاصل ہوگی۔

پروفیسر صاحب اتنے متأثر ہوئے کہ انہوں نے یونیورسٹی میں نمائش لگانے کی پیشکش کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت پبلک میں زیادہ نمایاں ہو اور آپ کا پیغام ہر ایک کو پہنچے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب کے ذریعہ ہمیں آپ کے عقائد، اسلام کی حقیقی تعلیم اور جماعتی خدمت کے کاموں سے آگاہی ہوئی۔ اسلام کی حقیقی تعلیم تو انتہاپسند مسلمانوں کے بارہ میں جو تأثر ہے اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمیں آج صحیح حقیقت کا پتہ چلا ہے۔

٭ ایک خاتون Mrs. Stock نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے پُرامن لوگ ہمارے شہر کا حصہ ہیں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ مَیں آج کی تقریب میں شامل ہونے پر آپ کا بہت مشکور ہوں۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب بہت مؤثر اور حوصلہ افزا تھا۔ یہاں لوگوں کا ایک میز پر اکٹھے بیٹھنا یکجہتی، خلوص و احترام کی حوصلہ افزا علامات ہیں۔

٭ ایک مسلمان مہمان نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ کے خلیفہ اپنے اتنے بڑے منصب کو صرف اور صرف امن اور محبت کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں ا ور آپ کی ذات میں دنیاداری نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی مقاصد ہیں۔

٭ ایک جرمن خاتون نے حضور انور کا خطاب سننے کے بعد کہا کہ کاش سب مسلمان ایسے ہی ہوتے۔ خلیفہ وقت کے چہرے سے بہت نُور، صبر اور سکون عیاں ہوتا ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ خلیفۃالمسیح نے آج ہمیں وہ مضامین بتائے ہیں جن کی آج ہم سب کو ضرورت ہے۔ خلیفہ نے نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی نقطۂ نگاہ سے بھی مسائل کے حل بیان کئے ہیں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ آج ہمیں اصل اسلام کا پتہ چلا کیونکہ جس طرح آپ اسلام کا علم رکھتے ہیں ا ور جس طرح اسلامی تعلیمات کا بیان اور اظہار کرتے ہیں وہ دوسرے مسلمانوں میں نہیں ہے۔

٭ ایک مہمان نے حضور انور کا خطاب سن کر کہا کہ آپ کے خلیفہ کو دنیا کا لیڈر ہونا چاہئے تھا۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کا خطاب بہت پُراثر اور مدلّل تھا۔ خلیفہ کے پیغام کی بہت اہمیت ہے اور اس پیغام کو آگے پھیلانے کی ضرورت ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ آپ کی جماعت کی کامیابی کا اندازہ اسی چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترک لوگ 1960 ء سے یہاں ہیں لیکن آج تک مسجد نہیں بناسکے۔ مگر جماعت احمدیہ نے اتنی رکاوٹوں کے باوجود مسجد بنالی ہے۔ آپ کی جماعت ہر معاملے میں Active معلوم ہوتی ہے۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ خلیفۃالمسیح کے پُرسکون چہرہ مبارک نے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا۔ آپ کی شخصیت پُرتاثیر ہے۔ خاص طور پر آپ کا فی البدیہہ خطاب فرمانا اور دوسرے مقررین کی باتوں پر اظہار خیال فرمانا بہت پسند آیا۔

٭ Augsburg کے ٹی وی نمائندہ نے کہا کہ ایسا پروگرام میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک مذہبی سربراہ اور لوگوں کے متأثر چہرے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔

٭ ایک نوجوان نے کہا کہ وہ ہے تو دہریہ لیکن اگر اس نے کسی مذہب میں دلچسپی لی ہے تو وہ احمدیوں کا مذہب ہے۔

٭ ایک جرمن نوجوان کہنے لگا کہ وہ یہ سن کر حیران رہ گیا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت ہوتی ہے مگر احمدی پھر بھی وہاں انسانی بہبود کے کام کرتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی بات سنی نہیں جاتی کیونکہ میڈیا صرف بُری خبریں دیتا ہے۔

٭ ایک جرمن نوجوان نے اپنے تأثرات کا اظہار اس طرح کیا کہ میرا یہ مشورہ ہوگا کہ جب ایسا پروگرام کریں تو ہمارے لوکل سیاستدانوں کی بجائے سارا وقت خلیفۃالمسیح کو دیں تاکہ ہم خلیفۃالمسیح کی زیادہ سے زیادہ باتیں سن سکیں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت اسلامی دنیامیں اُن لوگوں میں سے ہیں جو ایک امن پسند اسلام کی تعلیم دیتے ہیں اور میں اس لئے یہاں آیا تاکہ ان کے عزّت مآب خلیفۃ المسیح کا براہِ راست خطاب سُن سکوں۔ آج کی یہ نشست بہت خوبصورت تھی۔ میں اس بات سے متأثر ہوا ہوں کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح کسی بھی لمحہ اس امر سے نہیں جھجکتے کہ اسلام کی حقیقی اور امن پسند تصویر پیش کریں۔ جماعت احمدیہ ایک ایسا ماحول create کرتی ہے جس میں رہنا بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اور ایسے لوگ پھر معاشرہ میں بھی بہت مقبول ہوتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمارے شہر میں جماعت احمدیہ کی مسجد کا افتتاح ہوا ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح کے خطاب میں خاکسار کے دل پر یہ بات گہرا اثر کر گئی ہے کہ اسلام رواداری پر کتنا زور دیتا ہے۔ میرا یہ جماعت سے پہلا رابطہ تھا اور بہت اچھی اور سکون دہ نشست تھی لہٰذا اب دلچسپی بڑھ گئی ہے اور اب کوشش کروں گا کہ آپ کی مسجد کا بھی چکر لگاؤں اور internet میں آپ کے بارہ میں مزید تعارف حاصل کروں۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ میں اس بات سے متأثر ہوں کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے رواداری اور ہم آہنگی سے رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ آج عزّت مآب خلیفۃ المسیح سے دوسری مرتبہ ملا ہوں۔ وہ نہایت ہی پُر حکمت انسان معلوم ہوتے ہیں اور اُن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃالمسیح سے سکون کی شعاعیں نکلتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز اور محترم انسان ہیں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اگر ہم کھل کر اور مل جل کر محبت اور رواداری سے رہیں گے تو تحفظات ختم ہو جائیں گے۔ عزّت مآب خلیفۃ المسیح ایک پُر حکمت شخصیت ہیں اور مجھے محسوس ہوا ہے کہ آپ اپنی جماعت کے افراد سے بہت پیار کرتے ہیں۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ آج کے اس امن پسند ماحول سے میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ عزّت مآب خلیفۃالمسیح ایک بہت پُرسکون اور بہت امن پسند ہیں۔ میں بہت متاثر ہوا ہوں کہ جہاں دنیا بھر میں اسلام کے بارہ میں یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ نفرت کی تعلیم دیتا ہے یہاں پر مسلمان اس کے برعکس امن کے بارہ میں بات چیت کررہے ہیں۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ آج کے اس ہم آہنگی اور رواداری کے ماحول سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں اور مجھے ذاتی طور پر اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ یہاں پر جرمن بہت آئے ہیں۔ عزّت مآب خلیفۃ المسیح بہت پرسکون انسان ہیں اور بات بڑی واضح کرتے ہیں اور سکون کی شعائیں ان سے نکلتی ہیں۔ میں عزّت مآب خلیفۃالمسیح سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔

مساجد کے افتتاح کی میڈیا میں کوریج

مسجد ’’بیت العافیت‘‘ Waldshut اور مسجد ’’بیت النصیر‘‘ Augsberg کے افتتاح کے موقع پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے کوریج دی ہے۔

مسجد بیت العافیت Waldshut کے افتتاح کے موقع پر درج ذیل T.V. اور اخبارات کے جرنلسٹس آئے ہوئے تھے:

  1. SWR TV Channel
  2. اخبار2. Badische-Zeitung.De
  3. اخبار 3. Sudkurier


٭ اخبار Badische Zeitung نے اپنی آن لائن website پرمسجد عافیت کے افتتاح کی خبر دیتے ہوئے لکھا:

احمدیہ جماعت کی تقریب۔ مسجد عافیت کا افتتاح

مسجد عافیت Waldshut-Tiegenکے افتتاح کے موقع پر جماعت احمدیہ عالمگیر کے خلیفہ مرزا مسرور احمد صاحب بذاتِ خود حاضر ہوئے ۔

خلیفۃ المسیح نے سب سے پہلے افتتاح کے موقع پر تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور ساتھ دعا کروائی۔

اس کے بعد خلیفۃ المسیح نےمحبت اور امن کے اظہار کے طور پر مسجد عافیت کے سامنے ایک پودالگایا۔

خلیفۃ المسیح کے خطاب کا جرمن ترجمہ کیا گیا۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ ہم اسلام کا حقیقی پیغام پھیلا رہے ہیں۔ نیز خلیفہ صاحب نے کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت امن اورپیار و محبت اور ہم آہنگی پھیلانا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر مہمانوں کا ذکر کیاہے جنہوں نے اپنا اظہارِ خیال افتتاح کے موقع پر کیا تھا۔

٭ ایک دوسرے اخبار Südkurier نے اپنی آن لائن website پر تین تصاویر دی ہیں۔ ایک تصویر میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور دیگر مہمان تشریف فرما ہیں اور دوسری سٹیج کی تصویر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مہمانوں سے خطاب فرمارہے ہیں۔ تیسری تصویر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پودا لگا رہے ہیں۔

خبر کی سرخی میں یہ لکھا ہے کہ ’’احمدیہ جماعت کی مسجد عافیت کا Waldshut-Tiengen میں افتتاح ہوا‘‘۔

مسجد عافیت Waldshut-Tiengenکے افتتاح کے موقع پر جماعت احمدیہ عالمگیر کے خلیفہ مرزا مسرور احمد صاحب بذاتِ خود حاضر ہوئے۔ یہ پروگرام دنیابھر میں نشر ہو رہا تھا۔

اس تقریب میں بہت سے ہمسائے اور دیگر معزز مہمان شامل ہوئے تھے۔ خلیفہ صاحب نے کہا کہ ہم اسلام کا اصل پیغام پھیلا رہے ہیں۔ نیز یہ فرمایا کہ جماعت احمدیہ امن اور ہم آہنگی سے پیش آتی ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی مسجد اور اپنے ہمسایوں کی اور گرجوں اور یہودی عبادتگاہوں کی حفاظت کرے۔

اس کے علاوہ دیگر مہمانوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنا اظہارِ خیال افتتاح کے موقع پر کیا تھا۔

٭ اسی طرح ایک ٹی وی چینل اور دو اخبارات کے ذریعہ مسجد بیت العافیت کے افتتاح کی خبریں 22 لاکھ 73،ہزار789 افراد تک پہنچیں۔

٭ مسجد بیت النصیر Augsburg کے افتتاحی تقریب کو درج ذیل الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے کوریج دی:

ٹی وی چینل

نمبر نام تعداد سامعین و ناظرین

1 Bayerischer Rundfunk
1766462
2 BR Mediathek Video
1766462
3 Sat1
ریڈیو
4 Antenne Bayern 448141
5 Radio Bamberg 23113
6 Radio Plassenburg 375
7 Radio EINS
اخبارات
8 Aichacher Zeitung 6268
9 Arcor 1274500
10 Augsburger Allgemeine
862519
11 Bayerische Staatszeitung
5216
12 Bild.de 9132186
13 Die Welt 6357477
14 Focus online 3956478
15 Frankenpost 111096
16 Heimatszeitung.de 32299
17 Idowa Mediendienste
100129
18 Mittelbayerische.de 359942
19 Neue Presse Coburg
43396
20 Onetz 97990
21 Passauer Neue Presse
452414
22 Schattenblick 54692
23 Schwäbische.de 440220
24 Stadtzeitung 8263
25 Süddeutsche zeitung
3722674
کل تعداد 31022312


تین کروڑ دس لاکھ بائیس ہزار تین صد بارہ۔

٭ اخبار Augsburger Allgemeine نےاپنی انٹرنیٹ کی اشاعت میں اِس سرخی کے ساتھ خبر نشر کی کہ

احمدیہ جماعت Augsburg میں صوبہ Bavaria کی تیسری مسجد کا افتتاح

دوسری سرخی یہ لگائی کہ ’’مسجد کے افتتاح کےلئے خلیفہ خود لندن سے Augsburg تشریف لائے۔ جماعت اپنے آپ کو امن پسند اسلام کا سفیر مانتی ہے۔‘‘

جماعت کے تاریخی تعارف کے علاوہ صحافی نے لکھا ہے کہ 67 سالہ خلیفہ جماعت احمدیہ عالمگیرکے روحانی سربراہ ہیں۔ Augsburgخلیفہ کی جرمنی میں واحد منزل نہیں ہے بلکہ ایک نہایت مصروف دورہ ہے۔ ان سے قبل جو خلیفہ تھے انہوں نے جرمنی جماعت کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر سو مساجد کی سکیم عطا فرمائی تھی جس کے تحت Augsburg کی مسجد بیت النصیر 51 ویں نمبر پر ہے۔مسجد کے کل اخراجات چھ لاکھ یورو ہیں جو جماعت کے افراد کی قربانیوں سے ادا ہوئے ہیں۔

٭ اسی اخبار Augburger Allgemeine نے اپنے دوسرے شمارہ میں اِس سرخی کے ساتھ مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی خبر دی کہ احمدیہ جماعت نے اپنی مسجد کا افتتاح کیسے کیا ۔

دوسری سرخی میں لکھا ہے کہ’’ایک تقریب اس مسلمان جماعت نے اپنی عبادتگاہ کی Oberhausen میں منائی۔ خلیفہ نے Islamic State کی مذمت کی۔مرد و خواتین نے علیحدہ علیحدہ اس دن کو منایا۔ ‘‘

اخبار نے ایک تصویر بھی شائع کی جس میں مئیر Augsburg حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کھڑے ہیں۔

جماعت کے تعارف میں مخالفت کے ذکر اور مسجد کے ذکر کے علاوہ لکھا ہے کہ ایک تقریب میں جماعت احمدیہ Augsburg نے مسجد بیت النصیر کا افتتاح کیا۔ تقریباً 180مہمان مختلف طبقات سے تشریف لائے تھے مثلاً city counsil، صوبہ کے ایم پی اور ملک بھر کے ایم پی۔جیسا کہ احمدیہ مسلم جماعت کا طریق ہے خلیفۃ المسیح اپنی اہلیہ،private secretaryاورباقی عملہ کے ساتھ آئے۔ خلیفہ نے مسجد کے مردانہ ہال میں نماز پڑھائی اور مسجد کی زیارت کی۔ خاص طور پر جو 80مقامی احمدی تھے ان کی کوشش تھی خلیفہ کے قریب سے قریب ہوسکیں۔

حفاظتی انتظامات کے ساتھ 280 خاص مہمانان کانگریس کے ہال میں جمع ہوئے اور خواتین کے لئے علیحدہ ہال میں انتظام کیا گیا تھا۔ ایک مقامی نو مبائع خاتون نے کہا کہ انہیں gender segeration سے بالکل بھی کوئی مسئلہ نہیں اور مستقبل میں بھی اپنے گھر کے مزید دروازے کھولیں گے۔

٭ اسی طرح ایک دوسری online اخبار Stadt Zeitung نے اس سرخی کے ساتھ خبر شائع کی کہ ’’شہر Augsburg کی پہلی مسجد بیت النصیر کا افتتاح‘‘۔

دوسری سرخی میں لکھا ہے کہ ’’جماعت احمدیہ Augsburg کے لئے یہ بڑا اہم موقع تھا۔ مسجد کے افتتاح کے لئے عزّت مآب خلیفۃ المسیح لندن سے تشریف لائے۔ مسجد شہر Augsburgکی پہلی مسجد ہے۔‘‘

جماعت کے تعارف اور جماعت کی سو مساجد سکیم کے تعارف کے علاوہ جرنلسٹ نے لکھا کہ دوپہر کی دھوپ میں بچوں کے نغموں کے ساتھ جماعت احمدیہ عالمگیرکے خلیفہ کا استقبال کیا گیا۔ آج کے دن صرف مسجد کا افتتاح ہی نہیں بلکہ ان کے مذہب کے سب سے بڑی روحانی شخصیت تشریف لا رہی ہے۔ انہیں پوپ جیسی شخصیت مانا جاتا ہے۔

اس موقع کی خاصیت کا لوگوں کے چہروں سے پتا چلتا ہے۔ بڑی بیتابی سے اُن کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ پولیس بھی تیار کھڑی ہے۔ مسجد کے افتتاح کے بعد روایات کے مطابق دعا ہوئی ۔ ایک صاحب کے دعاؤں کے وقت آنسو رواں ہیں مگر وہ کیمرہ اور flashlight کے باوجود بعد میں آنسو پونچھتے ہیں۔ دعا کا سکوت گاہے بگاہے لوگوں کی رقّت سے بھر جاتاہے۔

خلیفہ نے صرف Augsburg ہی نہیں رہنا بلکہ اپنے تین ہفتہ کے دورہ میں آپ کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔

اسی طرح تین ٹی وی چینل، چار ریڈیو اور 25 اخبارات کے ذریعہ مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی خبریں 3کروڑ10لاکھ 22،ہزار312 افراد تک پہنچیں۔

12 اپریل2017ء بروز بدھ

نماز فجر کی ادائیگی کے لئے ہوٹل Marriott میں ایک ہال حاصل کیا گیا تھا۔ مقامی جماعت کے احباب مردوخواتین نماز کی ادائیگی کے لئے پروگرام کے مطابق ہوٹل پہنچے تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی اپارٹمنٹ میں تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے دس بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے باہر تشریف لائے اور ’’مسجد المہدی‘‘ کے لئے روانگی ہوئی۔

قریباً گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد المہدی تشریف آوری ہوئی۔ مقامی احباب جماعت نے ایک دفعہ پھر حضور انور کا بھرپور استقبال کیا۔ بچوں اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور مسجد کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

آج کے اس سیشن میں 41 فیملیز کے 162 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کا شرف پانے والی یہ فیملیز میونخ کے علاوہ اس کے اردگرد کی درج ذیل جماعتوں سے آئی تھیں
Augsberg, Goeppingen, Aalen, Weingarten, Neufahrn, Kempten, Ulm-Donau,

Nuernberg, Sambach Am Inn, Regensburg, Boeblingen اور Waiblingen۔

ان سبھی فیملیز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام سوا ایک بجے تک جاری رہا۔

بعد ازاں مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دفتری ملاقات کی۔

اس کے بعد مقامی جماعت کی عاملہ اور دیگر جماعتی عہدیداران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل کی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس ہوٹل تشریف لے گئے۔

مسجد المہدی میونخ کا تعارف

٭ مسجد المہدی میونخ سے ملحقہ علاقہ Neufahrn میں واقع ہے۔ 9جون 2014ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران اس مسجد کا افتتاح فرمایا تھا۔ مسجد کا یہ پلاٹ ایک ہزار مربع میٹر ہے۔ یہ پلاٹ 11 جون 1986ء کو خریدا گیا تھا اور اس پر پہلے سے ہی ایک عمارت موجود تھی۔ یہ جگہ بطور سینٹر استعمال ہوتی رہی۔

سال 2013ء میں اس عمارت کو مسجد کی شکل میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوا۔ عمارت میں مزید توسیع کی گئی۔ لجنہ کے لئے ایک علیحدہ ہال بنایا گیا۔ ایک 8.50 میٹر بلند مینار بنایا گیا۔ یہاں جماعتی دفاتر بھی موجود ہیں اور ایک رہائشی اپارٹمنٹ بھی موجود ہے اور ایک بڑا مرکزی کچن بھی ہے۔

میونخ شہر اور اس علاقہ کو یہ ایک خصوصیت حاصل ہے کہ میونخ شہر کے ایک محلّہ Passing میں آباد ایک جرمن خاتون Carola Mann صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں خط لکھا تھا۔ موصوفہ کا یہ خط اخبار ’’البدر‘‘ نے اپنے 14 مارچ 1907ء کے شمارہ میں ’’جرمنی سے ایک اخلاص بھرا خط‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔

موصوفہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا :(خط کا ایک حصہ پیش ہے)

’’میں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تاکہ آپ کو خط لکھوں اور آخرکار اب مجھے ایک شخص ملا ہے جس نے مجھے آپ کا ایڈریس دیا ہے۔ مَیں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ مَیں آپ کو خط لکھتی ہوں۔ لیکن بیان کیا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح موعود کی قوّت میں ہوکر آئے ہیں اور مَیں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں۔ آپ یقین رکھیں کہ پیارے مرزا مَیں آپ کی مخلصہ دوست ہوں۔‘‘

اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میونخ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں کئی جماعتیں بن چکی ہیں اور جماعت احمدیہ کی مسجد المہدی بن چکی ہے اور جماعت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔

میونخ سے فرینکفرٹ کے لئے روانگی

اب پروگرام کے مطابق یہاں سے واپس فرینکفرٹ ’’بیت السبوح‘‘ کے لئے روانگی تھی۔ مقامی جماعت کے احباب مردو خواتین اور بچے بچیاں حضور انور کو الوداع کہنے کے لئے ہوٹل کے بیرونی احاطہ میں موجود تھے۔ بچوں کے گروپس الوداعی دعائیہ نظمیں پڑھ رہے تھے۔

تین بج کر پچاس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے باہر تشریف لائے۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور اجتماعی دعا کروائی اور یہاں سے فرینکفرٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ قریباً پونے چار گھنٹے کے سفر کے بعد سات بج کر 35منٹ پر ’بیت السبوح‘ (فرینکفرٹ) تشریف آوری ہوئی۔ احباب جماعت مردو خواتین اپنے پیارے آقا کی آمد کے منتظر تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کرکے السلام علیکم کہا اور کچھ دیر کے لئے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

بعدازاں ساڑھے آٹھ بجے حضور انور نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی قیامگاہ پر تشریف لے گئے۔
13 ؍اپریل2017ء

بروز جمعرات

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر تیس منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک اور دنیا بھر کے مختلف ممالک سے موصول ہونے والی رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے۔ جب سے حضور انور جرمنی میں مقیم ہیں دنیا کے مختلف ممالک کی جماعتوں سے روزانہ فیکسز اور ای میل کے ذریعہ خطوط اور رپورٹس موصول ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہاں جرمنی کی مختلف جماعتوں کے افراد کی طرف سے بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں خطوط موصول ہوتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز روزانہ ساتھ کے ساتھ یہ ساری ڈاک ملاحظہ فرماتے ہیں ا ور اپنے دست مبارک سے ہدایات رقم فرماتے ہیں۔

ڈاک کے علاوہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

پروگرام کے مطابق چھ بجکر بیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائےا ور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

آج شام کے اس سیشن میں 37فیملیز کے 130افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

آج ملاقات کا شرف پانے والوں میں فرینکفرٹ کے مختلف حلقوں کے علاوہ Eppelhei, Boeblingen, Weingarten, Reutlingen, Neuss, Mainz, Wetzlar, Raunheim, Hanau, Paderborn, Delmenhorst, Gummersbach, Darmstadt, Eppertshausen, Riedstadt, Stuttgart, Friedberg, Wuerzburg، ہمبرگ، مہدی آباد، آفن باغ، کاسل، میونسٹر، ویزبادن، گراس گیراؤ اور کوبلنزسے آنے والی فیملیز اور احباب شامل تھے۔

اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ، ماریشس اور لتھوانیا (Lithuania) سے آنے والے افراد نے بھی ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

جرمنی سے آنے والی بعض فیملیز اور احباب بڑے لمبے سفر طے کرکے پہنچے تھے۔ کاسل (Kassel) سے آنے والے دو صد کلومیٹر، Stuttgart سے 210 کلومیٹر، Boeblingen سے آنے والے 230 کلومیٹر، Reutlingen اور Neuss سے آنے والے اڑہائی صد کلومیٹر، میونسٹر اور Paderborn سے 260 کلومیٹر، Weingarten سے آنے والے احباب 410 کلومیٹر اور ہمبرگ سے آنے والے پانچصد اور مہدی آباد سے سفر کرکے آنے والی فیملیز پانچصد بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچی تھیں اور جو چند گھڑیاں انہوں نے اپنے آقا کے قرب میں گزاریں وہ ان کی ساری زندگی کا سرمایہ اور ان کے لئے اور ان کے بچوں کے لئے یادگار لمحات تھے۔ ہر ایک ان میں سے برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ پریشانیوںا ور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دُور ہونے کے لئے دعا کی درخواستیں کیں۔ بیماروں نے اپنی شفایابی کے لئے دعائیں حاصل کیں اور ہر ایک تسکین قلب پاکر مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ باہر آیا۔ طلباء اور طالبات نے اپنے امتحانات میں کامیابی کے لئے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے پیارے آقا کی دعاؤں سے حصہ پایا اور یہ بابرکت لمحات انہیں ہمیشہ کے لئے سیراب کرگئے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر دس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں مکرم عابد وحید خانصاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس نے حضورانور کے ساتھ دفتری ملاقات کا شرف پایا۔

ساڑھے آٹھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دن بڑے ہی مبارک اور بابرکت دن ہیںا ور جماعت جرمنی کے مرکزی سینٹر ’’بیت السبوح‘‘ میں ایک عید کا سماں ہے۔ حضور انور کا قیام اسی سینٹر میں ہے۔ صبح سے شام تک پروانوں کی طرح احباب جماعت مردو خواتین نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور بچیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خصوصاً نمازوں کے اوقات میں پاؤں رکھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ مردانہ ہال، لجنہ کے دونوں ہال، سپورٹس ہال سب بھرے ہوتے ہیں۔ کنٹین اور ڈائننگ ہال میں بھی صفیں بچھادی جاتی ہیں۔ دیگر جو بھی راستے ، کوریڈورز اور خالی جگہیں ہیں وہ بھی بھر جاتی ہیں۔ عمارت سے باہر کھلی جگہ پر بھی صفیں بچھائی ہوتی ہیں۔ اس کثرت سے نمازوں پر لوگ آرہے ہیں کہ بیت السبوح کے بیرونی احاطہ میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ خصوصاً فجر کی نماز میں تو تہجّد کے وقت ہی ہال بھرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ بعض احباب اور فیملیز بڑے دُور کے فاصلوں سے نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔

ہر شخص اپنے پیارے آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب ہے اور برکتوں کے حصول کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اللہ یہ سعادتیں، یہ برکتیں ہم سب کے لئے مبارک کرے اور اللہ کرے کہ جہاں ہم ان برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے والے ہوں وہاں ان کی حفاظت کرنے والے بھی ہوں۔ (آمین)

14 ؍اپریل2017ء

بروز جمعۃالمبارک

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر تیس منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضورانور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

نماز جمعہ کی ادائیگی

آج جمعۃالمبارک کا دن تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کاانتظام بیت السبوح سے 34کلومیٹر کے فاصلہ پر Raunheim کے علاقہ میں وسیع و عریض مارکیز لگاکر کیا گیا تھا۔

Raunheim میں جماعت نے اپنی مسجد کی تعمیر کے لئے 2750مربع میٹر کا قطعہ زمین خریدا ہوا ہے۔ اس قطعۂ زمین پر اور اس کے اردگرد کھلے علاقہ میں تین مارکیز لگاکر چھ ہزار افراد جماعت کے لئے نماز جمعہ کی ادائیگی کا انتظام کیا گیا تھا اور اندازہ یہی تھا کہ اس تعداد کے لگ بھگ لوگ شامل ہوں گے۔ لیکن اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جرمنی بھر کی جماعتوں سے اور دُور دراز کے علاقوں سے چودہ سے پندرہ ہزار کے درمیان احباب جماعت مردو خواتین یہاں پہنچے۔ اس جگہ تک پہنچنے والے مختلف راستوں اور سڑکوں پر تاحدّنظر احمدی احباب کا ایک ہجوم تھا۔ تینوں مارکیز کے علاوہ باہر کھلے میدان میں، پارکنگ ایریا میں، مختلف راستوں اور سڑکوں پر گیارہ سے بارہ ہزار کے لگ بھگ افراد نے اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کی سعادت پائی اور تین ہزار کے لگ بھگ ایسے افراد تھے جن کو کہیں بھی کوئی جگہ نہ مل سکی، کہیں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ یہ احباب نماز جمعہ میں شامل نہ ہوسکے۔ ان میں سے بعض ناصر باغ سینٹر میں جمعہ کے لئےپہنچے اور بعض احباب ’’بیت السبوح‘‘ آئے۔

بڑے دُور دراز علاقوں سے طویل سفر طے کرکے احباب جماعت جمعہ کے لئے پہنچے تھے۔ ہمبرگ اور برلن کے علاقوں سے آنے والے پانچصد اور ساڑھے پانچصد کلومیٹر سے زائد سفر پانچ سے چھ گھنٹوں میں طے کرکے پہنچے تھے۔

حضور انور کا خطبہ جمعہ MTAانٹرنیشنل کے ذریعہ براہ راست دنیابھر میں Live نشر ہورہا تھا اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی حسب طریق Liveنشر ہو رہے تھے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ڈیڑھ بجے بیت السبوح سے روانہ ہوئے اور نصف گھنٹہ کے سفر کے بعد دو بجے یہاں پہنچے اور مردانہ مارکی میں تشریف لاکر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

خطبہ جمعہ

تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

سب سے پہلے تو مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ جمعہ کے لئے جماعت نے یہاں آج جو جگہ لی ہے اور اگلے جمعہ کے لئے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں جمعہ ہوگا، یہاں ائیرپورٹ نزدیک ہونے کی وجہ سے اور جہازوں کی آمدو رفت کی وجہ سے جہازوں کا شور ہو سکتا ہے شاید بعض وقت بہت زیادہ ہو جائے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ میری آواز شور کے باوجود پہنچتی رہے اور الفاظ بھی آپ کو سمجھ آتے رہیں۔ اگر تو اس حد تک شور ہے جیسا اب ہے تو یہ تو قابل برداشت ہے۔ یہ ہوا کے رخ پر بھی منحصر ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہوا کا رخ اس طرف ہو تو آواز زیادہ آئے گی اگر الٹی طرف ہو تو پھر کچھ کم آئے گی۔ بہرحال جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیت السبوح میں جمعہ ہو نہیں سکتا تھا اور مناسب قیمت پر کوئی اور جگہ یا ہال جماعت کو، یہ کہتے ہیں ہمیں مل نہیں سکا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میرا ویسے خیال ہے کہ اگر وقت پر کوشش کرتے تو یہ مل بھی سکتا تھا۔ لیکن ہمارے لوگوں کی عادت ہے کہ عین موقع پر کام شروع کرتے ہیںا ور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ اللہ کا فضل ہے بعض کام ہنگامی طور پر ہو بھی جاتے ہیں جس طرح جماعت احمدیہ کے کام ہوتے ہیں اور شاید کسی اَور کے نہ ہو سکیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے planning نہ کی جائے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہی خوش فہمی اور عدم توجہ اور اہمیت کا احساس نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے نئی خریدی ہوئی عمارت جو بیت السبوح کے ساتھ بیت العافیت ہے وہاں ابھی تک جمعہ یا کسی قسم کے پروگرام کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ گزشتہ سال جب مَیں جلسے پر آیا تھا تو بیت السبوح میں جمعہ پڑھایا گیا تھا اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے عورتوں اور ارد گرد کی جماعتوں کو بھی روکا گیا تھا کہ جمعہ پر نہ آئیں۔ اُس وقت میں نے جماعت کی انتظامیہ کو کہا تھا کہ بیت العافیت کے استعمال کی اجازت جلدی لیں تا کہ اس قسم کی دقّتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے خیال میں یا کم از کم ان کی رپورٹوں کے مطابق سنجیدگی سے اب یہ اس وقت سے کوشش کر رہے ہیں لیکن کونسل بعض چھوٹے چھوٹے اعتراض لگاتی چلی جا رہی ہے۔ تو یہ باتیں ان کو پہلے مدّنظر رکھنی چاہئے تھیں کہ کونسل کوئی ان کے زیر انتظام نہیں ہے کہ جائیں گے اور کلیئرنس لے لیں گے۔ جب عمارت خریدی گئی تھی اس وقت سے سنجیدگی سے اور فوری طور پر اس کے استعمال کی اجازت اور جو بھی تبدیلیاں کرنی تھیں اس پر کام شروع ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ کام شروع ہوتا تو آج اتنی دقّت نہ ہوتی۔ ان کے خیال میں یہ آج کی بڑی جگہ تھی لیکن ایسٹر کی چھٹیوں کی وجہ سے لوگوں کے زیادہ آنے کے باعث یہ جگہ بھی کم رہی ہے اور یہ تنگی بیت العافیت میں بھی ہو سکتی تھی لیکن عمومی جمعے وہاں ادا کئے جا سکتے تھے۔ دو تین سال ہوگئے ہیں عمارت خریدے ہوئے اور ابھی تک اس کے استعمال میں بعض روکیں ہیں۔

اُس وقت جب یہ عمارت خریدی گئی تھی دنیا کے حالات بھی کچھ بہتر تھے۔ اور اس وجہ سے جلدی اجازت مل سکتی تھی اگر اُس وقت کام شروع ہوتا۔ لیکن آج مسلمانوں کے بارے میں جو اُن کے تحفظات ہیں وہ بڑھ گئے ہیں اس کی وجہ سے دقّتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ شاید امیر صاحب اور انتظامیہ یہ کہے کہ یہ وجہ نہیں ہے یہ اس طرح ہونا ہی تھا۔ لیکن بہرحال یہ ان لوگوں کی سستی ہے اور ہر کام کو لٹکانے کی عادت بھی ہے جس کی وجہ سے آج ہمیں دقّتیں پیش آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انتظامیہ کو عقل اور سمجھ بھی دے اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے سے ان کو بچائے اور حقائق سمجھتے ہوئے یہ کام کرنے والے ہوں۔

حضور نے فرمایا: آپ لوگوں نے اپنے عہدیدار منتخب کئے ہیں تو آپ کا فرض بھی بنتا ہے کہ ان کے کاموں میں اَٹکل پیدا کرنے کے لئے اور عقل پیدا کرنے کے لئے ان کے لئے باقاعدہ دعا بھی کرتے رہا کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بہرحال چند منٹ میں ہی ہم نے تین چار جہاز گزرتے آوازیں سن لیں۔ یہ تو برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری صورت یہی ہو سکتی تھی کہ محدود تعداد میں لوگوں کو جمعہ پر آنے کے لئے کہا جاتا اور عورتوں پر بھی پابندی لگا دی جاتی۔ پاکستان میں یا ان ملکوں میں جہاں جماعت کی مخالفت ہے اور حالات کی وجہ سے عورتوں کو جمعہ پر آنے سے روکا جاتا ہے اور جمعے بھی مختلف جگہوں پر پڑھے جاتے ہیں ایک مرکزی جگہ پر نہیں پڑھے جاتے۔ الجزائر میں تو مکمل پابندی ہے کہ کسی سینٹر میں بلکہ گھروں میں بھی جمعہ نہیں ہو سکتا۔ تو وہاں تو ظالمانہ قانون اور دشمن کے خوف کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے اور یہاں جہاں مذہبی آزادی ہے وہاں یہ روکیں لگانا ہماری سستی اور معاملات کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہو گا اور ہو رہا ہے۔ بہرحال دعا کریں کہ آئندہ جمعہ تو نہیں لیکن آئندہ جب بھی یہاں آنے کا پروگرام بنے گا انشاء اللہ تو اس وقت بیت العافیت کے استعمال کی اجازت مل جائے یا کم از کم ان کو ایسی جگہ میسر آجائے جہاں سب آرام سے سموئے جائیں، سمٹے جائیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ تنگی وہاں بھی بیت العافیت میں بھی کچھ وقت کے لئے تو دور ہو سکتی ہے۔ جماعت تو انشاء اللہ بڑھنی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے اس لئے جو بھی جگہیں ہم لیں گے چھوٹی ہوتی جائیں گی لیکن ایک جگہ لے کر پھر اپنی سستی کی وجہ سے کئی سال استعمال نہ کر کے یہ کہہ دیں کہ یہ جگہ بھی تنگ ہو گئی تو یہ کوئی جواب نہیں، نہ عقلمندی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بہرحال آج کے خطبہ کے لئے پہلے تو میں نے کچھ اور مضمون لیا تھا لیکن پھر بعض مرحومین کا جنازہ پڑھانا تھا اس لئے ان کی کچھ باتیں سامنے آ گئیں اس لئے آج میں نے سوچا ہے کہ انہی کا ذکر کروں گا جن میں سے ایک شہید ہے، ایک مربی سلسلہ ہے اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں۔ ان لوگوں کے بعض اوصاف ایسے ہیں جو جماعت کے ہر طبقے کے لئے نیک مثال ہیں۔ اور یہی ایسی باتیں ہیں جو ہم میں سے بہتوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہیں۔ بہت سوں کے لئے ان میں سبق ہیں۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ بجائے ان مرحومین کے مختصر ذکر کے کچھ کھول کر ان کے بارے میں بیان کروں۔ ہر ایک کی سیرت کے پہلو جو میرے سامنے لائے گئے ہیں یا جو مجھے علم تھے وہ ایسے ہیں جو مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ کے مصداق ان لوگوں کو بناتے ہیں ۔ جو اپنے عَہدوں اور اپنی نیّتوں اور ارادوں کو پورے کرنے والے لوگ تھے۔ جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کیں اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا:

مکرم ڈاکٹر پروفیسر اشفاق احمد صاحب شہید۔ ان کی شہادت گزشتہ جمعہ 7؍اپریل کو ہوئی۔ ان کی عمر 68 سال تھی۔ گزشتہ جمعہ یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنی کار میں بیت التوحید جا رہے تھے کہ راستے میں ایک موٹرسائیکل سوار معاند احمدیت نے فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔

مکرم ایچ ناصر الدین صاحب مرحوم مبلغ انچارج ایسٹ گوداوری انڈیا۔ مرحوم 7؍اپریل 2017ء کو دریائے گوداوری میں ڈوب جانے سے 42 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

محترمہ صاحبزادی امۃ الوحید بیگم صاحبہ۔ مرحومہ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 10؍اپریل 2017ء کو رات دس بجے تقریباً 82 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے ۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوتی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی نواسی تھیں۔ تدفین آپ کی بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ہے۔

(حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے اسی شمارہ میں شامل اشاعت ہے۔)

حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ تین بجکر دس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ و نماز عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے تینوں مرحومین کا نماز جنازہ غائب پڑھایا۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہاں سے روانہ ہوکر چار بجے واپس بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق ساڑھے چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں 38فیملیز کے 152افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ہر ایک فیملی نے اپنے آقا کےساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

آج ملاقات کرنے والی فیملیز اور احباب جرمنی کی 34 مختلف جماعتوں اور علاقوں سے لمبے سفر طے کرکے آئے تھے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجکر بیس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز مغرب و عشا ء کی ادائیگی کے لئے تشریف لے آئے۔

نماز جنازہ حاضر و غائب

نمازوں کی ادائیگی سے قبل حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم محمد اشرف شاہد صاحب رندھاوا آف Augsberg جرمنی کی نماز جنازہ حاضر اور مکرم محمد مومن شہزاد صاحب آف Stade جرمنی اور محترمہ بشریٰ عفّت صاحبہ آف گرین ٹاؤن لاہور کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

مکرم محمد اشرف شاہد صاحب نے مؤرخہ 11 اپریل بروز منگل جرمنی کے شہر Augsburg میں 45 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم گزشتہ دس ماہ سے اس جماعت میں مقیم تھے اور یہاں مسجد کی تعمیر کے دوران باقاعدہ وقارعمل کے لئے آتے رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

مکرم محمد مومن شہزاد صاحب نے مؤرخہ 22مارچ 2017ء کو لمبی علالت کے بعد بقضائے الٰہی وفات پائی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم گزشتہ پانچ سال سے جرمنی میں مقیم تھے۔ آپ کا گھر مسجد سے تقریباً پانچ کلومیٹر دُور تھا۔ اس کے باوجود آپ سردیوں میں بھی نماز فجر ادا کرنے کے لئے سائیکل پر مسجد آتے تھے۔ چندہ جات میں باقاعدہ تھے۔ اپنی وفات سے چند دن پہلے مرحوم نے اپنا چندہ وصیت ادا کردیا تھا۔

مکرمہ بشریٰ عفّت صاحبہ نے مؤرخہ 8؍اپریل 2017ء کو گرین ٹاؤن لاہور میں 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحومہ کے بیٹے شاہد محمود پڈھار صاحب نائب قائد عمومی مجلس انصاراللہ جرمنی ہیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ مرحومہ کے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد میں تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button