شب برات یا لیلۃ القدر
شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے۔ یہ نام شعب سے مشتق ہے۔جس کے معنی ہیں متفرق ہونا ۔اس مہینے میں چونکہ قبائل عرب مختلف اغراض سے دور و نزدیک کے علاقوں میں منتشر ہو جاتے تھے۔ اس لئے اس مہینے کا نام شعبان رکھا گیا (عمدۃ القاری جزء 11صفحہ 82)ترمذیؒ اور ابن ماجہؒ وغیرہ نے بعض روایتیں نقل کی ہیں ۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جو پندرھویں شعبان کو روزہ رکھے گا اور آدھی رات کو چودہ رکعت نماز تہجد پڑھے گا اور پھر اگلے دن بھی روزہ دار ہو گا اور چودہ دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھے گا تو اس نے گویا بیس مقبول حج کئے۔اور بیس سال کے روزے رکھے۔یہ الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سند سے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ لیکن ایسی روایتیں نہ صرف جمہور ہی نے ردّ کی ہیں بلکہ خود ترمذی ؒ اور ابن ماجہؒ نے بھی کمزور قرار دی ہیں۔علاوہ ازیں یہ روایتیں مقطوع السند بھی ہیں۔اور امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی روایتیں موضوعات میں شمار کی ہیں ۔امام بخاری ؒ اور ابوزرعہؒ اور ابو حاتمؒ نے بالاتفاق ثابت کیا ہے کہ ان راویوں کی میل ملاقات اور ایک دوسرے سے ان کی سماعت قطعاً ثابت نہیں ۔نصف شعبان کی رات کو چراغاں کرنے کے بارے میں بھی بعض روایات ہیں جو عند التحقیق وضعی ثابت ہوئی ہیں۔اور معلوم ہوا کہ اس بدعت کا پس منظر ایران کے آتش پرست مجوسیوں کی رسم تھی جو وہ پندرھویں شعبان کو منایا کرتے تھے۔
بدعات کے بارے میں سیدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشادحضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی حمد کے بعد جانو کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور ہر ہدایت سے بہتر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایت ہے اور سب کاموں سے بُرے نئے کام (یعنی بدعات)ہیں اور ہر نیا کام (یعنی بدعت) گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعہ)
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: یقیناً سب سے سچی تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان ہوئی ہے اور سب سے بہتر ہدایت (طریق) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّت ہے اور سب سے بُرے امور (میری سنّت میں ) نئی چیزیں پیدا کرنا ہے ۔کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام بالآخر دوزخ ہے۔ (سنن نسائی)
برات ایرانی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنی ہیں قسمت ۔شب برات یعنی قسمت کی رات ۔ہندی زبان میں بھی برات کے معنے قسمت ہیں ۔پنجاب سے بنگال تک یہ لفظ قسمت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بدعت عراق میں یحییٰ بن خالد بر مکی کے زمانہ میں ایران سے داخل ہوئی جبکہ وہ آذربائیجان کے حاکم تھے اور پھر ہارون الرشید کے وزیر ہوئے ۔چنانچہ جب علامہ ابن دحیہ کو ا س کا علم ہوا تو وہ ملک کامل (1345ھ) سے ملے اور انہوں نے اس بدعت کا ذکر کیا ۔آخر اس نیک بادشاہ کے حکم سے مصر کے تما م صوبہ جات میں اس رسم کا قلع قمع کیا گیا ۔ (عمدۃ القاری جزء 11 صفحہ83-82)
شعبان کو قطعاً کوئی فضیلت نہیں ہے۔صرف بات یہ ہے کہ سفر میں جس رمضان کے روزے چھوٹ گئے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان میں رکھے ۔ (فتح الباری جزء 4صفحہ 273-272)
غیراحمدی مسلمانوں کے ہاں شب برات منائی جاتی ہے ۔اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس رات مذکورہ بالا طریق سے جو دعا کی جائے گی وہ قبول ہو گی اور اللہ تعالیٰ کہے گا مانگ تجھے دیا جائے گا اور تیرے سارے گناہ بخشے جائیں گے۔آدمی کے ہر بچے کی نیک و بد قسمت کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔
شب برات کے سلسلہ میں سورۃ دخان کی جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے: اِنَّاَ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّاکُنَّا مُنْذِرِیْنَ (دخان:4) یقیناً ہم نے اسے ایک بڑی مبارک رات میں اُتار ا ہے۔
یہ رات جس کا یہاں ذکر ہے دراصل رمضان المبارک کے مہینہ کی رات ہے۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُتارا گیا ہے۔ (البقرہ186:)
پس لیلۃ القدر سے مراد رمضان کی وہ رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور وہ رات مبارک تھی ۔اور اندازہ کی رات تھی۔یعنی آئندہ خیر و شر کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کیا۔
’شب برات‘ کا اسلام میں قطعاً کوئی وجود نہیں ہے۔ نہ قرآن میں اس کا ذکر ملتا ہے اور نہ سنّت میں کہیں اس کے وجود کا ذکر ہے۔ جو فضائل و برکات شب برات کے سلسلہ میں بیان کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ تمام برکات و فضائل لیلۃ القدر کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔جیسا کہ سورۃ القدر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے اور اے مخاطب تجھے کیا معلوم ہے کہ لیلۃ القدر کیا شے ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔اس میں ملائکہ اورر وح اپنے رب کے حکم سے ہر امرلے کر اُترتے ہیں(پھر فرشتوں کے اُترنے کے بعد تو)سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اور یہ حال صبح کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔‘‘ (سورۃالقدر)
قرآن کریم میں لیل کا لفظ جس کے معنے رات کے ہیں کل 74(چوہتر بار) آیا ہے اور لیلۃ کا لفظ جس کے معنے بھی رات کے ہیں کل 8(آٹھ) بار آیا ہے۔کہیں بھی لیل یا لیلۃ کا لفظ شب برات کے لئے استعمال نہیں ہوا۔
عربی میں ’’قدر‘‘ کے معنے عزت ،اندازہ اور طاقت کے بھی ہیں۔ لیلۃ القدرسے مراد عزت والی رات۔اندازہ والی رات۔
لیلۃ القدرعزت والی رات اس لحاظ سے بھی ہے کہ قرآن عظیم جیسی شان والی کتاب کا نزول اس رات میں ہوا۔ اور اس اعتبار سے قرآن کریم میں اسے لیلۃٌ مبارکۃٌ بھی کہا گیا ہے۔یعنی ہم نے قرآن کو برکتوں والی رات میں اتارا ہے۔ (دخان:4)
اندازہ والی رات کے معنوں کے لحاظ سے یہ مطلب ہو گا کہ اس رات لوگوں کے اعمال اور ان کی قسمت کا اندازہ کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اس با برکت رات میں ہر محکم امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور فرمایا کہ یہ رات تیرے رب کی طرف سے رحمت ہےجو سُننے والا اورجاننے والا ہے ۔گویا اس رات خدا کی رحمت ِ بے پایاں اپنے عروج پر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ بطور خاص اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں بھی اس کی تشریح آتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جذبۂ ایمانی سے رضاءِ الٰہی کی غرض سے ماہ رمضان میں روزے رکھے تو اس کے جو گناہ پہلے ہو چکے ہوں ان کی مغفرت کی جائے گی اور جو لیلۃ القدر میں جوشِ ایمان میں رضاءِ الٰہی کی غرض سے رات کو اُٹھے تو اس کے جو گناہ پہلے ہو چکے ہوں گے ان کی مغفرت کی جائے گی
(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر)
اس حدیث میں صرف لیلۃ القدر کا ذکر ہے۔ شب برات کا قطعاً ذکر نہیں۔
ایک اور فضیلت جو شب برات کے سلسلہ میں بیان کی جاتی ہے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہر رات کے بارے میں بیان فرمائی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ہمارا مالک بلند مرتبہ والا اور برکت والا ہر رات نزدیک والے آسمان پر اس وقت اُترتا ہےجب رات کا آخری حصہ رہ جاتا ہے ۔اور یوں ارشاد فرماتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا؟ کہ میں اس کی دعا قبول کروں ۔ہے کوئی مانگنے والا؟ کہ میں اُسے عطا کروں ۔ہے کوئی (اپنے گناہوں کی ) بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشش دوں۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید)
اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ: اللہ تعالیٰ یوں اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا؟جس کی دعا قبول کی جائے۔ اور ہے کوئی مانگنے والا؟ کہ اُسے دیا جائے۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ کہ اس کی توبہ قبول ہو۔(صحیح مسلم)
غرض قرآن کریم اور احادیث ِ مبارکہ سے کہیں بھی شب برات کا وجود ثابت نہیں۔ جو بھی احادیث اورقر آنی آیات بیان کی جاتی ہیں وہ یا تو لیلۃ القدر کے بارے میں ہیں یا ہر رات کے بارے میں ہیں۔
تاریخی طور پر بھی یہ ثابت شدہ بات ہے کہ شب برات ایک بدعت ہے جو ایران کے آتش پرست مجوسیوں نے شروع کی تھی۔
اس زمانے کے امام، حَکَم و عدل حضرت مسیح و مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نصف شعبان کی نسبت فتویٰ ارشاد فرمایا کہ:
’’یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 297)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ اس بارہ میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’شب برات کا جو بھی رواج ہے اس کی سنّت میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ صحابہ کرام نے نہ شب برات منائی، نہ آپ کی بعد کی نسلوں نے، نہ آپ کے بعد کی نسلوں نے۔ پس اگر اتنا ہی اہم ایک دن تھا تو کیا اس دن کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ ہوا (دن بمعنی چوبیس گھنٹوں کے بات کر رہا ہوں یعنی رات ہی کہہ لیں اس کو ) اتنی اہم رات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی ایسا ذکر نہیں فرمایا کہ اس کو اس طرح مناؤ ۔ مختلف علماء نے اس پر روشنی ڈالی ہے اور قطعی طور پر اُن حدیثوں کو جن حدیثوں میں شب برات کا ذکر ملتا ہے یا کمزور یا جھوٹی یا مصنوعی قرار دیا ہے اور ساتھ یہ استنباط فرمایا ہے کہ اگر ان حدیثوں کو سچا بھی سمجھو جو علماء کے نزدیک درست نہیں ہیں، بعد کی بنائی ہوئی باتیں ہیں، تو پھر بھی جس رنگ میں آج کل شب برات منائی جاتی ہے اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔ بلکہ یہ صریح گمراہی ہے۔‘‘
(پروگرام MTAاردو ملاقات 6 مئی 1994ء)
پس شب برات ایک بدعت اور رسم ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔