حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ تقریب آمین۔ مسجد بیت العافیت کے افتتاح کے لئے شہر Waldshut-Tiengen میں حضورانور کا ورود مسعود اور والہانہ استقبال۔ مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی اور دعا۔ صوبائی ٹی وی SWR Freiburg کی جرنلسٹ کو انٹرویو۔ مسجد بیت العافیت کی تقریب افتتاح۔ لارڈ میئر کی نمائندہ اور قصبہ Lorrah کے میئر کے ایڈریسز۔


ز….. ہم اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام قوموں میں تمام مذاہب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آئے، وہ فرستادے اور نیک لوگ آئے جنہوں نے مذہب کو قائم کیا۔ پس جب سب مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ایک دوسرے سے جنگیں کرو، لڑائیاں کرو۔ ….. ز….. ایک حقیقی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی قسم کا فتنہ اور فساد اس کی طرف منسوب ہو سکتا ہے یا کسی قسم کے فتنہ اور فساد کرنے کا اسے خیال آسکتا ہے۔ ….. ز….. مذاہب فتنے پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے ۔ مذاہب کے بانی اور ہر نبی محبت اور پیار پھیلانے کے لئے آئے تھے۔ اس خدا کی طرف سے آئے تھے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے ۔ ….. ز….. اللہ تعالیٰ کی صفت عافیت ہم سے مطالبہ کرتی ہےکہ ہم احمدی جو اس علاقہ میں رہتے ہیں اس شہر کے ہر باسی اور خاص طور پر ہمسایوں کو اپنی طرف سے جس حد تک عافیت میں رکھ سکتے ہیں، حفاظت میں رکھ سکتے ہیں، ان کی حفاظت کریں اور کبھی بھی ہمارے سے ان کو کوئی شر نہ پہنچے ۔ ….. ز….. آج اگر دنیا کو ضرورت ہے تو پیار اور محبت اور بھائی چارہ کی ضرورت ہے۔ اُس نعرہ کی ضرورت ہے جو ہم لگاتے ہیں کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔


(مسجد بیت العافیت کی تقریبِ افتتاح میں حضورانور ایدہ اللہ کا بصیرت افروز خطاب)

ریڈیو چینل SWR4 کی جرنلسٹ کو انٹرویو۔


ز….. خلیفہ کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ ہے اور پیار جھلک رہا ہے۔ مجھے خلیفہ کے چہرے میں خدا نظر آتا ہے۔ ….. ز….. مَیں آج اسلام اور اس کی تعلیمات کی بالکل مختلف تصویر لے کر جارہا ہوں۔ ….. ز….. خلیفۃالمسیح کے چہرہ سے روحانیت ظاہر ہورہی ہے۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب ہم سب کے لئے بہت اہم ہے۔ ز….. ایک چھوٹی سی جماعت کی چھوٹی سی مسجد کے افتتاح کے لئے اتنا بڑا مقام رکھنے والا شخص شامل ہوا ہے۔ یہ بات آپ کے خلیفہ کے مقام کی شان کو بلند کرتی ہے اور ان کا اپنی جماعت سے پیار اور شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ….. ز….. جماعت احمدیہ کے ذریعہ مجھے حقیقی اسلام کا تعارف حاصل ہوا جو ٹی وی میں نفرت اور تشدد والے اسلام کے بالکل برعکس ہے اور یہاں سے مجھے اَمن اور محبت ملی ہے ۔
(مسجد بیت العافیت کی تقریبِ افتتاح میں شامل مہمانوں کے تأثرات)
Augsburg شہر میں مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی تقریب میں شہر کے میئر اور ممبران پارلیمنٹ کے ایڈریسز۔


جماعت احمدیہ کی امن پسندی اور رواداری پر خراج تحسین اور مسجد کی تعمیر پر نیک خواہشات کا اظہار۔

9 اپریل2017ء بروز اتوار

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر 45 منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز کی ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔ آج صبح کے اس سیشن میں 38 فیملیز کے 143احباب نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

یہ فیملیز جرمنی کی 35 مختلف جماعتوں سے ملاقات کے لئے پہنچی تھیں۔ ان میں سے بعض فیملیز بڑے لمبے سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت کے حصول کے لئے آئی تھیں۔

Waiblingin سے آنے والے دو صد تیس کلومیٹر، Recklinghausen سے آنے والے 240 کلومیٹر، Munster سے آنے والے 260 کلومیٹر اور Balingen سے آنے والے 280کلومیٹر، Hannover سے آنے والی فیملیز 340 کلومیٹر، Leipzig سے آنے والے احباب 380 کلومیٹر، Oldenburg اور Delmenhorst سے آنے والی فیملیز 430 کلومیٹر جبکہ Harburg سے آنے والے 470 کلومیٹر اور Berlin شہر سے آنے والے 550کلومیٹر کا لمبا فاصلہ طے کرکے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لئے پہنچے تھے۔ بیرونی ملک کروشیا (Croatia) سے آنے والی فیملی نے بھی ملاقات کی سعادت پائی۔
آج ملاقات کرنے والی فیملیز میں سے بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو پاکستان سے یہاں آئے اور اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیارے آقا سے مل رہے تھے۔ یہ سبھی خوشی و مسرّت سے معمور تھے کہ ان کی زندگیوں میں آج ایک ایسا دن آیا تھا کہ جو چند گھڑیاں انہوں نے اپنے آقا کے قرب میں گزاریں وہ ان کی ساری زندگی کا سرمایہ تھیں۔ ان میں سے ہر ایک برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ ان کی پریشانیاں اور تکالیف راحت و سکون اور اطمینان قلب میں بدل گئیں اور یہ بابرکت لمحات انہیں ہمیشہ کے لئے سیراب کرگئے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر تیس منٹ تک جاری رہا، بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی جائے رہائش پر تشریف لے آئے۔

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ فیملیز ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا جس میں 32 فیملیز کے 137 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ہر ایک فیملی نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائےا ور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

آج شام ملاقات کا شرف پانے والے افراد جرمنی کی درج ذیل 25 جماعتوں سے پہنچے تھے:
Eppelheim, Leipzig, Radolfzell, Ruedesheim, Herborn, Goeppeingen

Nauheim, Eich, Bielefeld, Mosbach, Giessen, Riedstadt, Herford, Hattersheim, Soltau, Gemuenden, Koeln, Montabauer, Heilbronn ، من ہائیم، ہائیڈل برگ، ویزبادن، لمبرگ، گراس گیراؤ اور بُرخسال۔

جرمنی کی مختلف جماعتوں سے آنے والی فیملیز کے علاوہ بیرونی ممالک کینیڈا اور پاکستان سے آنے والے احباب نے بھی شرف ملاقات پایا۔ ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجے تک جاری رہا۔

تقریب آمین

بعدازاں سوا آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 26 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی

شیراز عمران، ولید احمد سعید، عارفین اسلام، ابیر احمد، عبدالرحمٰن، چوہدری یاسین نواز، رانا ثاقب محمود، رمیز احمد، واصف سلام، سالک عتیق، فاتح احمد بٹ، عدیل احمد۔

صبیحہ خالد، رامین احمد، مسکان احمد، باسمہ عادل، لبینہ شاہد، حدیقہ احمد، نیشا احمد، عطیہ بھٹی، پارسا دیول، جاذبہ محمود، عائشہ نواز، مہرالنساء احمد، انیشہ احمد، علینہ نور کاہلوں۔

تقریب آمین کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے

10 اپریل2017ء بروز سوموار

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر 45 منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں ا ور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

مسجد بیت العافیت کے افتتاح کے لئے شہر Waldshut-Tiengen میں حضورانور کا ورود مسعود اور والہانہ استقبال

آج پروگرام کے مطابق Waldshut- Tiengen شہر میں ’’مسجد بیت العافیت‘‘ کے افتتاح کی تقریب تھی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دس بج کر 40 منٹ پر اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائےا ور اجتماعی دعا کروائی۔ بعدازاں قافلہ سفر پر روانہ ہوا۔

فرینکفرٹ سے Waldshut شہر کا فاصلہ 370 کلومیٹر ہے۔ قریباً چار گھنٹے 20 منٹ کےسفر کے بعد تین بجے ہوٹل Bercher میں تشریف آوری ہوئی۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق مسجد کے افتتاح کی تقریب کے حوالہ سے یہاں قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔

سوا چار بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہاں سے ’’مسجد بیت العافیت‘‘ کے لئے روانہ ہوئے اور پانچ منٹ کے سفر کے بعد چار بج کر بیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مسجد بیت العافیت میں ورودمسعود ہوا۔

مقامی جماعت کے افراد مردوخواتین، جوان بوڑھے، بچے بچیاں آج صبح سے ہی اپنے پیارے آقا کی بابرکت آمد پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کے لئے آج کا مبارک دن انتہائی خوشی و مسرّت کا دن تھا۔ حضورانور کے مبارک قدم ان کے شہر کی سرزمین پر پہلی مرتبہ پڑرہے تھے۔ ہر کوئی بے حد خوش تھا اور اپنے پیارے آقا کی آمد اور دیدار کا منتظر تھا۔ آج اردگرد کی قریبی جماعتوں کے لوگ بھی یہاں جمع تھے۔

جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائےتو احباب جماعت نے والہانہ انداز میں اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا اور بچوں، بچیوں کے گروپس نے خیرمقدمی گیت پیش کئے۔ ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ بلند کرکے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ خواتین اپنے پیارے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔
اس موقعہ پر ایک طفل عزیزم مامون اختر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پھول پیش کئے۔

صدر جماعت عمران بشارت صاحب، ریجنل امیر نصیر برمی صاحب اور اس ریجن کے مبلغ شکیل احمد عمر صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی کی نقاب کشائی

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

اس کے بعد حضور انور مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے گئے اور نماز ظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ اس کے ساتھ ہی اس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے مسجد میں رونق افروز رہے اور اس دوران مقامی جماعت کے تمام احباب نے اپنے پیارے آقا سے شرف مصافحہ حاصل کیا۔

حضور انور کے استفسار پر صدر جماعت نے بتایا کہ یہاں اس جماعت کی تجنید 121 افراد پر مشتمل ہے۔ آج مسجد کے افتتاح کے موقع پر اردگرد کی جماعتوں سے بھی احباب آئے ہوئے ہیں۔ ملک سوئٹزرلینڈ کا بارڈر یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ سوئٹزرلینڈ سے بھی امیر صاحب اور بعض دوست اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر آئے ہوئے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بچیوں کے گروپس نے دعائیہ نظمیں پیش کیں اور خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے بیرونی حصہ میں تشریف لے آئےا ور ایک پودا لگایا۔

صوبائی ٹی وی SWR Freiburg کی جرنلسٹ کو انٹرویو

مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے صوبائی ٹی وی SWR Freiburg کی جرنلسٹ کوریج کے لئے آئی ہوئی تھی۔ موصوفہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویو لیاجرنلسٹ نے سوال کیا کہ یہ چھوٹا سا شہر ہے تو آپ کی یہاں مسجد بنانے کی کیا غرض ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ احمدیوں کو یہاں عبادت کرنے کے لئے اپنی جگہ کی ضرورت تھی۔ جس طرح یہودیوں کے Synagogue ہوتے ہیں، عیسائیوں کے چرچز ہوتے ہیں۔ ہر مذہب کی اپنی اپنی عبادتگاہیں ہوتی ہیں، ہمیں بھی عبادت کے لئے ایک مسجد چاہئے تھی تاکہ ہم اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں ا ور انسانیت کی خدمت کریں۔

جرنلسٹ نے دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا آپ یہاں پر باہمی امن کی گفتگو کریں گے اور امن کے قیام کو پھیلائیں گے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا تو پیغام ہی امن اور محبت کا ہے اور یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور دنیا کو بھی اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم دکھائیں۔ یہ کام ہمارے لئے بہت اہم ہے۔
اس کے بعد مقامی مجلس عاملہ اور جماعتی عہدیداران نے گروپس کی صورت میں حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل کی۔


مسجد بیت العافیت کی تقریب افتتاح


بعد ازاں پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس ہوٹل تشریف لے آئے۔
مسجد کے قریبی علاقہ میں ایک کھلی جگہ پر مارکیز لگاکر مسجد بیت العافیت کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔


سوا چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس تقریب میں شرکت کے لئے تشریف آوری ہوئی۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو لوکل جماعت کے صدر عمران بشارت صاحب نے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ ایک طفل نویدالحق بٹ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پھول پیش کئے اور عزیزہ فاتحہ رائے نے حضرت بیگم صاحبہ مدّظلہاالعالی کی خدمت میں پھول پیش کئے۔


بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے اور تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم شکیل احمد عمر صاحب مبلغ سلسلہ نے کی اور بعدازاں اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔


امیر صاحب جرمنی کا تعارفی ایڈریس

اس کے بعد مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
امیر صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد اس شہر کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہاں کی کاؤنٹی Waldshut-Tiengen کی آبادی 16,700 ہے اور اس Waldshut شہر کی آبادی 24 ہزار ہے۔ یہ شہر جرمنی کے قدیم شہروں میں سے ہے اور 1256ء میں اس کے آباد ہونے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ اس شہر کا ایک حصّہ جرمنی کے مشہور جنگل Schwarzwald یعنی Black Forest سے لگتا ہے اور شہر کا دوسرا حصہ ملک سوئٹزرلینڈ کی سرحد سے جا ملتا ہے۔ Waldshut شہر سطح سمندر سے 346 میٹر اونچائی پرواقع ہے۔


اس شہر میں 1985ء سے احمدی آباد ہونا شروع ہوئے اور سال 1986ء میں باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ جماعت یہاں خدمت کے کاموں میں پیش پیش ہے۔ ہر سال، نئے سال کے آغاز پر جماعت شہر کی صفائی کرتی ہے۔


مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے امیر صاحب جرمنی نے بتایا کہ شہر کی انتظامیہ نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ دوران تعمیر مقامی Protestant Church نے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعت کو اپنے ہاں نماز جمعہ اور نماز عیدین کے لئے جگہ دی۔


مسجد بیت العافیت جہاں تعمیر کی گئی ہے یہاں پہلے ایک مارکیٹ تھی۔ قطعہ زمین کا رقبہ 188 مربع میٹر ہے جو ایک لاکھ دس ہزار یورو میں خریدا گیا۔ 23 مارچ 2016ء کو مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور 10 اپریل 2017ء کو تعمیر مکمل ہوئی۔ مسجد کے دو ہال ہیں جن کا رقبہ 10,170 مربع میٹر ہے۔ مینار کی اونچائی سات میٹر ہے۔ عورتوں اور مردوں کے ہال کے علاوہ ایک دفتر بھی بنایا گیا ہے اور اس کے علاوہ ایک کچن کی سہولت بھی موجود ہے۔

لارڈ میئر کی نمائندہ کا ایڈریس


امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد لارڈ میئر کی نمائندہ Sylvia Dobele صاحبہ نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ سٹی کونسل کی ممبر ہیں اور سوشل پارٹی SPD کی بھی ممبر ہیں۔ موصوفہ نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:


عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں آغاز میں خلیفۃالمسیح کو خوش آمدید کہتی ہوں اور لارڈ میئر کی طرف سے معذرت خواہ ہوں کہ وہ ایک دوسرے پروگرام میں شرکت کی وجہ سے آج یہاں نہیں آسکے۔
مَیں نئی مسجد کی تعمیر پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ یہ مسجد بہت خوبصورت ہے اور ظاہری لحاظ سے سوچ بچار کے لئے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لئے بہت موزوں عمارت معلوم ہوتی ہے۔


مَیں شہر کے لوگوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارے لئے سہولت پیدا کی کہ ہم اس مسجد کو دیکھ سکیںا ور یہ جان سکیں کہ آپ کی روایات کیا ہیں۔ مَیں سمجھ سکتی ہوں کہ اس مسجد کی شکل میں آپ نے اس شہر کو ایک چھوٹا سا ہیرا دیا ہے۔ جنہوں نے مسجد بننے سے پہلے اس عمارت کی حالت دیکھی ہوئی تھی وہ اب یقیناً خوش ہوں گے کہ اس عمارت کو ایک خوبصورت مسجد کی شکل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

موصوفہ نے کہا کہ مَیں جماعت کا اس لئے بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اپنے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں اور ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم آپ کی تعلیم سے واقف ہوسکیں کیونکہ یہاں پر کئی مذاہب ہیںا ور ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو کھل کر اپنی تعلیم بتائی جاسکے اور ایک دوسرے کی تعلیم بھی سنی جاسکے۔ ہم اس بات کو بہت اہم سمجھتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن سے رہیں۔ مَیں خواہش رکھتی ہوں کہ جماعت احمدیہ ترقی کرے۔ جس طرح آپ نے تعاون کیا اور اچھا تعلق رکھا، آئندہ بھی ایسا تعاون اور تعلق رہے گا۔

مسجد پر لکھے ہوئے آپ کے کلمہ کے بارہ میں کچھ تحفّظات شہر کے لوگوں میں تھے۔ مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے خود آگے بڑھ کر ان کو دُور کیا اور آپ نے بتایا کہ اس دنیا کا ایک ہی خالق ہے اور تمام مذاہب کا ایک ہی خالق ہے اور ایک ہی اللہ ہے جو سب کا ہے۔ مَیں معذرت خواہ ہوں کہ ایسے تحفّظات پیدا ہوئے۔

آخر پر موصوفہ Dobele صاحبہ نے عرض کیا کہ مَیں خواہش رکھتی ہوں کہ آپ کی مسجد ہمیشہ آباد رہے اور بہت لوگ یہاں آئیں۔

Waldshut-Tiengen کاؤنٹی کے قصبہ Lorrah کے میئر کا ایڈریس


بعدازاں ڈاکٹر Michael Wilke نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف Waldshut-Tiengen کاؤنٹی کے قصبہ Lorrah کے میئر ہیں۔ ڈاکٹر Wilke نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:


عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں آج آپ کا بہت مشکور ہوں کہ مجھے اِس مجلس میں مدعو کیا گیا۔ مَیں نے آپ کی دعوت کو بہت خوشی سے قبول کیا کیونکہ مَیں پہلے سے آپ کو جانتا تھا۔


موصوف نے کہا کہ یہاں اسلام سے ایک خوف، ایک ڈر موجود ہے کیونکہ قریباً ہر روز دنیا کے مختلف حصّوں جیسے برلن، سٹاک ہالم، لندن اور پیرس میں کچھ افراد اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلا رہے ہیں اور قتل و غارت کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ڈر پیدا ہوتا ہےا ور پھر اس کے نتیجہ میں لوگوں میں اسلام سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اجنبیت ختم کرکے آپس میں واقفیت اور تعلق پیدا کیا جائے۔ ایک دوسرے سے ملنا چاہئے تاکہ تعارف بڑھے۔

موصوف نے کہا کہ دو سال پہلے جماعت کے احباب میرے پاس آئے اور یہ پیشکش کی کہ جس طرح باقی جرمنی میں نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہماری کمیونٹی شہر کی صفائی کرتی ہے اسی طرح ہم بھی اپنے شہرکی صفائی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس شہر کے معاشرہ میں ہم اپنا حصہ ڈال سکیں۔ مَیں اس پر جماعت کا شکرگزار ہوں۔ لیکن ایک خوف بھرے ماحول کو ٹھیک کرنے کے لئے اَور بھی بہت کچھ کرنا ہے۔

مجھے اس بات کا فخر ہے کہ مَیں ایک ایسے شہر کا میئر ہوں جس میں 112 مختلف اقوام کے لوگ آباد ہیں اور ہم مل جُل کر رہتے ہیں۔ دس سال سے ہم رمضان کے دوران اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ افطاری کے فنکشن بھی کرتے ہیں جو ڈر ختم کرنے کے لئے بہت مثبت عمل ہے۔


ڈاکٹر Wilke نے کہا کہ مَیں آپ لوگوں کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ مختلف طریقوں سے ہماری مدد کریں کہ لوگ آپس میں مل کر بیٹھیں۔ آپس میں ملیں اور تعارف بڑھے تاکہ ہم بھی آپس میں مل کر اسلام کی امن کی تعلیم پھیلاسکیں۔ اب آپ کی نئی زندگی مسجد کے ساتھ شروع ہورہی ہے۔ مَیں آپ کے لئے نیک تمنّاؤں کا اظہار کرتا ہوں۔

پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری کا ایڈریس


اس کے بعد شہر Tiengen کے پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری Stockburger نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا


سب سے پہلے میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور دیگر مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
ہر مذہب کا اپنا انداز اور اپنی روایات اور اپنی تاریخ ہوتی ہے اور اپنے مقدس مقامات اور تہوار اور مقدس شخصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح تمام مذاہب میں مختلف روایات بھی پائی جاتی ہیں۔ لیکن ایک بات پر ہم سب کی رائے برابر ہے اور وہ یہ کہ خدا ایک ہے۔یہ رائے یورپ میں تو اکثریت کی ہے۔ لیکن اگر آپ ایک ہندو سے پوچھیں تو اس کو تو ایک خدا کا نظریہ رکھنے کی مشکل پیش آئے گی۔ اب حل اس کا صرف یہی ہے کہ سچا مذہب خودبخود واضح ہوتا چلا جائے گا اور کامیابی حاصل کرتا چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں۔ بس سچائی کو کامیابی حاصل ہوگی۔ سچائی کی کامیابی اور فتح کی بنیاد پیار اور محبت پر ہوگی۔ پیار اور محبت کوتو جنگ و جدال کے بغیر کامیابی ملتی ہے۔ اب اگر پیار اور محبت کو ہم نے پھیلانا ہے تو اس کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ رواداری دکھائی جائے۔ مختلف عقائد جو امن پر مبنی ہیں ان میں کوئی روک نہیں پیدا کرنی چاہئے۔


ہم سب کا اپنے عقائد پر ایمان رکھتے ہوئے اکٹھا رہنا ہر حال میں ممکن ہے اور ہمیں لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بے شک انجانی چیز سے ڈرتو بعض اوقات لگتا ہے۔ لیکن اگر ہم انسان ایک دوسرے سے بات چیت کریں گے تو وہ ڈر اور خوف ختم ہو جائے گا۔


موصوف نے آخر پر کہا کہ مَیں اس بات کو دوبارہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس بات کو مدِّنظررکھنا ہو گا کہ ہم سب ایک خدا کے ہی بچے ہیں اور ہم سب ایک ہی گھر میں بس رہے ہیں۔ اس گھر کا ایک آئین بھی موجود ہے۔ اس میں ہر انسان کو حقوق میسر ہیں کہ ہر انسان کو اس طرح کا عقیدہ رکھنے کی اجازت ہے جو وہ چاہتا ہے۔ یہ انسانی حقوق ہیں جو آئین میں انسان کو آزادی دیتے ہیں۔ اور اس طرح ہم لوگ جرمنی میں مختلف مذاہب کی صورت میں رہ سکتے ہیں۔ ہمارے لئے اکٹھے رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے اور خاص طور پر آپ کی جماعت کے جو مختلف پروگرامز ہیں وہ اس طرز کے ہیں جن میں ہم بطور عیسائی اچھی طرح شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کی مجھے نہایت خوشی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آگے چل کر ہمارا اکٹھا رہنا پیار اور محبت سے ہی مزید بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نے امیر صاحب کی تقریر سے سنا کہ آپ کی جماعت دوسرے ممالک میں عیسائیوں کو بھی عبادتگاہ مہیا کرتی ہے۔ یہ تو بہت ہی اچھا کام ہے۔ اس طرح سے اکٹھے رہنا بالکل ممکن ہے۔ پیار اور محبت سے ہی مل کر چلا جا سکتا ہے۔ شکریہ کہ مجھے آپ نے دعوت دی اور بطور پادری کے ادھر بات کرنے کی بھی اجازت دی۔ شکریہ۔


مسجد بیت العافیت کی تقریب افتتاح کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ کا خطاب

بعد ازاں سات بجکر سات منٹ پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
حضورِانور ایّدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد ، تعوّذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:
تمام معزز مہمانان۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ ابھی جوآیات تلاوت کی گئی ہیں اس کی بنیاد پہ اور پھر بعض مقررین کے کہنے پہ کچھ نوٹس بنائے تھے لیکن میں مسٹر Stockburger صاحب کا شکرگزار ہوں جو پریسٹ ہیں انہوں نے میرا کام بہت آسان کر دیا اور بہت ساری باتیں جو امن کی اور مذہب کے بارہ میں مَیں نے کہنی تھیں وہ انہوں نے میری طرف سے کہہ دیں۔ اس کے لئے ان کا شکریہ۔


بہر حال یہ بڑی اچھی بات ہے کہ مختلف مذاہب ہونے کے باوجوداگر مختلف مذاہب آپس میں مل جُل کر رہیں۔ اسی لئے قرآنِ کریم نے عیسائیوں کو بھی ، یہودیوں کو بھی اہلِ کتاب کو مسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام دیا، آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ پیغام دیا کہ آؤ ہم اُس بات پر مل کر کام کریں، اُس کلمہ پر ہم آکر اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ مشترک کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

ایک اختلاف ان سے مَیں یہاں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو ایک خدا کو نہیں مانتے۔ اصل میں ہندو بھی ultimately باوجود اپنے مختلف دیوتاؤں کے ایک خدا تک پہنچتے ہیں ۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے، مختلف قوموں کے لئے آئے مختلف زمانوں میں آئے اور اگر سب اللہ کی طرف سے آئےاور اُس خدا کی طرف سے آئے جو اس دنیا کو پیدا کرنے والا ہے، اس خدا کی طرف سے آئے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا تو پھر پیغام بھی ایک ہونا چاہئے تھا اور وہ پیغام ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ سے رہو۔

اِسی لئے ہم جو حقیقی مسلمان ہیں وہ تمام انبیاء پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام قوموں میں تمام مذاہب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آئے، وہ فرستادے اور نیک لوگ آئے جنہوں نے مذہب کو قائم کیا۔ پس جب سب مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ایک دوسرے سے جنگیں کرو، لڑائیاں کرو۔ ایک دوسرے سے اختلافات کرو۔ بلکہ اگر قرآنِ کریم کو غور سے پڑھیں تووہاں جب جنگ کی اجازت آنحضرت ﷺ کو دی گئی تو وہ اجازت ایک لمبے عرصہ کی جو persecution مسلمانوں پر ہوئی جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے اس کی وجہ سے دی گئی اور جو آیت قرآنِ کریم میں اس اجازت کے بارہ میں ہے اس میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر تم نے ان ظالموں کے ہاتھوں کونہ روکا تو پھر یہ ظلم بڑھتے چلے جائیں گے اس لئے ان کو سزا دینا ضروری ہے اور قرآنِ کریم میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ان کو سزا دینا اس لئے ضروری ہے کہ اگر ان کو نہ روکا گیا تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی temple باقی رہے گا، نہ کوئی مسجد باقی رہے گی جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جہاں لوگ عبادت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔


پس ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ اپنی مسجد میں عبادت کرنے کے لئے آتا ہے اور جب وہ اپنی مسجد کی حفاظت کی خواہش رکھتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ چرچ کی بھی حفاظت کرے وہ یہودی synagogue کی بھی حفاظت کرے اور ان کے ساتھ بھی پیار اور محبت سے رہے اور یہی وہ تعلیم ہے جس پر اگر عمل ہو تو پھر محبت پیار اور بھائی چارہ پھیلتا ہے۔


ہمارے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت کی گئی جس میں خلاصہ یہی بیان کیا گیا کہ تم لوگوں کے حق ادا کرو۔ غریبوں کے حق ادا کرو۔ یتیموں کے حق ادا کرو ۔ مسافروں کے حق ادا کرو اور ان کی مدد کرو۔ خدمتِ خلق کے کام کرو اور پھر یہ بھی اس میں بیان ہوا کہ نمازیں پڑھو اور زکوٰۃ دو۔زکوٰۃ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے مالوں کو پاکیزہ کرو۔اور مال پاکیزہ کس طرح ہوتا ہے؟ مال پاکیزہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے رستہ میں خدمتِ خلق کے کام میں خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔ پس یہ حقیقی مسلمان تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور ہم احمدی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جہاں احمدی مسلمان پوری دنیا میں تبلیغ کرتے ہیں، اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں وہاں خدمتِ خلق کے کام بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سکول اور ہمارے کالج اور ہمارے ہسپتال جو دنیا کے مختلف غریب ملکوں میں، افریقہ کے ملکوں میں یا ایشیا کے غریب ملکوں میں قائم ہیں ۔ اس لئے کہ انسانیت کی خدمت کریں اور بغیر کسی امتیاز کے خدمت کرتے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں کے نوّے فیصد مریض عیسائیوں میں سے ہیں ۔ ہمارے سکولوں کے طلباء میں سے نوّے فیصد طالبِ علم عیسائیوں میں سے ہیں یا لامذہبوں میں سے ہیں یا دوسرے مذاہب میں سے ہیں۔ اور جو اُن میں سے ذہین ہیں اُن کو ہم بغیر کسی امتیاز کے وظیفے بھی دیتے ہیں ۔ صرف اس لئے کہ ایک انسان کا حق ہے کہ اگر بعض حالات کی وجہ سے وہ بعض چیزوں سے محروم کیا گیا ہے تو جس حد تک اس کی مدد ہو سکتی ہے اُس کی محرومیت کو ختم کیا جائے اور یہی انسانیت کی خدمت ہے ۔
یہاں مسجد کا ذکر ہو رہا ہے مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے لیکن قرآنِ کریم میں یہ بھی ذکر ہے کہ تمہاری یہ نمازیں تمہارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائیں گی۔ کیوں ہلاکت کا باعث بن جائیں گی ؟ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری عبادت کرو دوسری طرف کہتا ہے کہ تمہاری عبادت جو ہے، تمہاری نمازیں جو ہیں مَیں تمہارے منہ پر ماروں گا، یہ تم پر الٹا دی جائیں گی کیونکہ تم غریبوں کا خیال نہیں رکھتے۔ تم یتیموں کا خیال نہیں رکھتے۔ تم ملک میں فساد پیدا کرنے والے ہو اس لئے تمہاری نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔ پس ایک حقیقی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی قسم کا فتنہ اور فساد اس کی طرف منسوب ہو سکتا ہے یا کسی قسم کے فتنہ اور فساد کرنے کا اسے خیال آسکتا ہے۔


ابھی جب مسجد کے افتتاح کے لئے میں گیا تو آپ کے ایک نیشنل ٹی وی چینل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیوں اس چھوٹے سے شہر میں آپ مسجد بنانا چاہتے ہیں ۔ میں نے اس کو یہی جواب دیا تھا کہ یہاں احمدی رہتے ہیں یہاں عیسائی بھی رہتے ہیں یہاں یہودی بھی رہتے ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہوں گے ۔انہوں نے بتایا کہ یہاں 120قومیں رہتی ہیں ۔ تو ہر ایک نے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لئےاپنی اپنی عبادتگاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ پس احمدی مسلمانوں کو بھی ایک عبادتگاہ کی ضرورت تھی جو ہم نے بنائی تاکہ اللہ کی عبادت بھی کریں اور انسانیت کی خدمت کے کام مزید بہتر رنگ میں اور پلاننگ سے کر سکیں اور یہی ہمارا مقصد ہے اور اسی لئے ہم ہر جگہ دنیا میں مساجد بھی بناتے ہیں اور حقیقی اسلام کا پیغام بھی پہنچاتے ہیں ۔


یہ جگہ ایک زمانہ میں ایک مارکیٹ تھی ۔ آج اس کو مسجد میں convertکر دیا گیا ۔ اسی طرح جرمنی کے ایک اور شہر میں( میں نام بھول رہا ہوں) ایک جگہ پہلے ایک مارکیٹ تھی بعد میں اس کو مسجد میں بدل دیا گیا۔ وہاں بھی ان کو یہ کہا تھا کہ ایک مارکیٹ تھی جہاں لوگ آتے تھے اور مادی چیزیں خریدتے تھے اب یہ جگہ مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہے تاکہ یہاں وہ لوگ آئیں جو روحانی چیز خریدنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام سننے والے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے ہوں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد بن گئی تو مسلمان اکٹھے ہو کر پتا نہیں کیا منصوبہ بندی کریں گے۔ کس طرح شہر کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نقصان پہنچائیں گے ۔ یہ بڑا غلط تصوّر ہے۔ جماعت احمدیہ جہاں جاتی ہے مساجد بناتی ہے وہاں جو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا نعرہ ہے اس نعرہ کو پہلے سے بڑھ کر زور سے لگاتی ہے اور دنیا کو بتاتی ہے، ہمسایوں کو بتاتی ہے کہ اصل چیز یہ ہے جو ایک مذہب کے ماننے والے کا کام ہے ۔ مذاہب فتنے پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے ۔ مذاہب کے بانی اور ہر نبی محبت اور پیار پھیلانے کے لئے آئے تھے۔ اس خدا کی طرف سے آئے تھے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے ۔


پس جماعت احمدیہ کا یہ پیغام ہے اور آپ لوگوں کو بھی مَیں یہ پیغام دیتا ہوں۔ ہمارے ہمسائے اب دیکھیں گے کہ یہاں اس عمارت کوجو مارکیٹ سے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے تو اس مسجد سے جہاں خود عبادت کرنے والے روحانی فائدہ اٹھائیں گے وہاں عبادت کرنے کے لئے آنے والے لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول میں محبت اور پیار بھی بانٹیں گے ۔ پہلی مارکیٹ میں آپ رقم دے کر چیزیں خریدتے تھے لیکن یہاں بغیر کچھ خرچ کئے آپ کو محبت اور پیار کے نمونے ملیں گے، محبت اور پیار کے تحفے ملیں گے۔ پہلے آپ اپنی جیب میں سے خرچ کر کے ایک مادی چیز خریدتے تھے اب یہاں وہ لوگ جو اس مسجد میں عبادت کرتے ہیں اپنی جیب سے خرچ کر کے اپنے ہمسایوں کے لئے محبت اور پیار بانٹیں گے اور یہی ایک اسلامی حقیقی تعلیم کا نمونہ ہے اور یہی احمدیوں کو یہاں دکھانا چاہئے ۔ اگر یہ نمونہ نہیں دکھائیں گے تو وہ احمدی مسلمان کہلانے کے قابل نہیں۔ اور اب اس مسجد کے بعد احمدی مسلمانوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری ہو گی کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھیں۔اُن کی تکلیفوں کا خیال رکھیں اور کسی بھی قسم کی نہ روحانی، نہ مادی تکلیف ان کو پہنچائیں۔ اور جب یہ ہوگا تو تب ہی اس مسجد کے اس نام’’عافیت‘‘ کا بھی پاس کرنے والے ہوں گے اور اس کا اظہار کرنے والے ہوں گے ۔عافیت اللہ تعالیٰ کا بھی ایک نام ہےایک صفت ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی عافیت میں انسان آتا ہے تو ہر شر سے محفوظ ہوتا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہ بھی فرمایا کہ میں اپنے بندوں کو یہ کہتا ہوں کہ جو میری صفات ہیں ان کو تم اپنی اپنی استعداد کے مطابق اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت عافیت ہم سے مطالبہ کرتی ہےکہ ہم احمدی جو اس علاقہ میں رہتے ہیں اس شہر کے ہر باسی اور خاص طور پر ہمسایوں کو اپنی طرف سے جس حد تک عافیت میں رکھ سکتے ہیں، حفاظت میں رکھ سکتے ہیں، ان کی حفاظت کریں اور کبھی بھی ہمارے سے ان کو کوئی شر نہ پہنچے ۔


مجھے امید ہے کہ اگر یہ کام کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دلوں میں کچھ تحفظات ہیں گو کہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے تعاون کیا ہمسایوں نے بھی تعاون کیا لیکن یہ بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ اس شہر کے جو جماعت احمدیہ کو اُس طرح نہیں جانتے جس طرح باقی شہروں میں تعارف ہے تو اس مسجد کے بننے سے یہ تعارف مزید بڑھے گا ۔


لارڈ مئیر کی جو قائم مقام محترمہ ہیں انہوں نے اظہار کیا کہ مسجد کی مثال ہیرے کی ہے اور یہ ہیرا یقیناً ہے لیکن اگر احمدی مسلمان اس ہیرے کی پہچان کروانے والے ہوں گے تب ہی ہیرا نظر آئے گا۔ اگر اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کریں گے اگر اپنے شہر میں فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے ہوں گے تو لوگ کہیں گے کہ جس کو ہم ہیرا سمجھے تھے یہ تو جعلی چیز نکلی۔ پس اس مسجد کے بننے سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ جہاں میں آپ مہمان لوگوں کو کہوں گا کہ آپ بے فکر رہیں۔ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ کسی قسم کی تکلیف احمدی مسلمانوں سے نہیں پہنچے گی بلکہ مسجد ایک امن اور سلامتی پیاراور محبت کاsymbol بن کے ابھرے گی۔ وہاں احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور ہمسایوں کے حقوق بہت وسیع ہیں ۔ اس حد تک وسیع ہیں کہ بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس حد تک ہمسایوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک وقت میں مَیں سمجھا تھا کہ وراثت میں بھی ہمسائے کا حق شامل کر لیا جائے گا۔ پس اسلام میں ہمسائے کی یہ اہمیت ہے ۔ جب یہ اہمیت ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم سے کسی کو تکلیف پہنچے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم ہمسایوں کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ مل جُل کر کام کرنے کے لئے ہیں اور ہماری طرف سے کوئی خوف اور کسی قسم کے شر کی امید نہیں رکھنی چاہئے کہ شاید یہ بھی باقی مسلمانوں کی طرح نہ ہوں کیونکہ مسلمان آجکل بدنام ہیں ۔


ایک مقرر نے بہت ساری مثالیں دیں ۔ بیلجیم کے ظلم کی، قتل کی مثال دی۔ سٹاک ہالم میں حملہ کی اور لندن میں حملہ کی مثال دی۔ لیکن یہی چیزیں بعض مسلمان اپنے ملکوں میں بھی کر رہے ہیں ۔ مسلمان مسلمان کو بھی قتل کررہے ہیں۔ تو یہ نہیں کہ مسلمان صرف غیر مسلموں کو قتل کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے جو بھی سامنے آتا ہے جو بھی ان سے اختلاف کرنے والا ہے اُ س کو قتل کرتے ہیں اس لئے بیشمار مسلمان، مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ پس آج اگر دنیا کو ضرورت ہے تو پیار اور محبت اور بھائی چارہ کی ضرورت ہے۔ اُس نعرہ کی ضرورت ہے جو ہم لگاتے ہیں کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ اور یہی وہ نعرہ ہے کہ اگر ہم اس کو سمجھ سکیں تو پھر مسلمان مسلمان کے بھی حق ادا کرے گا اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حق ادا کرے گا اور اصل بنیاد یہ ہے جو بانیٔ اسلام نے کہا کہ میرے آنے کے مقصد دو ہیں جس کی وجہ سے میں اپنی جماعت قائم کرتا ہوں ۔ ایک یہ کہ بندے کو یہ بتاؤں کہ ایک خدا ہے اور تم اس خدا کو مانو اور اس کی عبادت کا حق ادا کرو۔ جس طریقے سے بھی کر سکتے ہو اس کے قریب آؤ۔ دوسرے یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق پہچانے، قطع نظر اس کے کہ کوئی عیسائی ہے یہودی ہے ہندو ہے یا کسی اور مذہب کا ہے یا مسلمان ہے۔ ہرانسان کے حقوق ہیں اور ایک انسان کو قطع نظر اس کے مذہب کے اس کا حق ادا کرنا چاہئے اور جب بھی اسے خدمت کی ضرورت ہو اسے خدمت کرنی چاہئے ۔


اللہ کرے کہ ہم احمدی اس شہر میں بھی اس بات پر عمل کرنے والے ہوں اور آپ لوگوں کی صحیح خدمت کرنے والے ہوں اور یہاں کے لوگ جن کے دل میں ذرا سے بھی تحفظات ہیں ان کے تحفظات دور ہوں اور وہ سمجھیں کہ احمدی مسلمان حقیقت میں پیار، محبت اور بھائی چارہ کے symbolہیں ۔ شکریہ۔


حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بج کر 27 منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور نے دعا کروائی۔
اس کے بعد اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔
بعض مہمان باری باری آکر حضور انور سے ملاقات کرتے رہے، حضور انور مہمانوں سے گفتگو فرماتے۔


ریڈیو چینل SWR4 کی جرنلسٹ کو انٹرویو


ریڈیو چینل SWR4 کی جرنلسٹ نے حضور انور سے انٹرویو لیا۔
جرنلسٹ کے مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ جہاں پر بھی ہماری کمیونٹی ہے ہم مسجد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں بھی علاقہ کی کونسل، اتھارٹیز ہمیں اجازت دیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم مسجد بنائیں اور ہم مسجد کی تعمیر کے لئے مناسب اور موزوں جگہ بھی دیکھتے ہیں۔ ہم بہت امن پسند لوگ ہیں۔

جرنلسٹ نے سوال کیا کہ کیا آپ کا کام زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے یا زیادہ مشکل؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب لوگ ہمیں جانتے ہیں اور ہمارا تعارف ہو جاتا ہے تو پھر ہمارا کام آسان ہوجاتا ہے کیونکہ ہر شخص کو امن پسند ہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں تو وہ ہماری طرف آتے ہیں۔

جرنلسٹ نے عرض کیا کہ کیا آپ کل بھی کسی مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: انشاء اللہ العزیز۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے لجنہ کی مارکی میں تشریف لے گئے جہاں خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

اس پروگرام کی تکمیل کے بعد آٹھ بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس ہوٹل تشریف لے آئے۔

بعدازاں آٹھ بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت العافیت‘‘ میں تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور واپس اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔

مسجد بیت العافیت کی تقریبِ افتتاح میں شامل مہمانوں کے تأثرات

آج اس مسجد کی اس افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے بعض مہمانوں نے اپنے تأثرات اور دلی جذبات کا اظہار کیا کہ خلیفۃالمسیح کے خطاب نے اُن کے دلوں پر گہرا اثر کیا ہے۔ بعض مہمانوں کے تأثرات درج ذیل ہیں:

٭ پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری Stockburger جنہوں نے اپنا ایڈریس بھی پیش کیا تھا، حضور انور کے خطاب کے بعد اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا خلیفۃالمسیح نے جو روح آج ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، میری یہ خواہش ہے کہ جہاں کہیں بھی آپ جائیں اسی روح کو پھیلائیں جس کے ذریعہ بالآخر ساری دنیا میں امن پھیل جائے گا۔

٭ Basel شہر سے ایک ڈاکٹر مسجد کی افتتاح کی تقریب میں شامل ہوئے۔ موصوف کہنے لگے کہ میری ساری زندگی یہ جستجو رہی کہ مجھے امن پسند مسلمان کہیں مل جائیں۔ آج آپ لوگوں نے میری اس خواہش کو پورا کردیا ہے۔ مَیں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔ آج مجھے یہ لوگ مل گئے ہیں۔

٭ ایک خاتون جس کا تعلق کیتھولک چرچ سے ہے کہنے لگیں کہ خلیفہ کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ ہے اور پیار جھلک رہا ہے۔ مجھے خلیفہ کے چہرے میں خدا نظر آتا ہے۔

٭ اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی اپنے دوست کے ساتھ اس پروگرام میں شامل ہوئی۔ اس لڑکی نے بتایا کہ میرا دوست اس پروگرام میں شامل ہونے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ اسلام کے بارہ میں اس کے منفی جذبات تھے لیکن پروگرام میں شامل ہونے اور حضور انور کا خطاب سننے کے بعد اس کا اسلام کے بارہ میں نظریہ بالکل بدل گیا۔ یہاں تک کہ اس نے فوراً اپنے موبائیل سے اپنے کسی دوسرے مسلمان دوست کو میسیج کیا کہ آج مجھے پتہ لگا ہے کہ تمہارا مذہب کتنا خوبصورت ہے۔

٭ ایک البانین فیملی نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفۃالمسیح کے خطاب کا ایک ایک لفظ سچّا تھا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ ہمیں شامل ہوکر بڑی خوشی ہوئی۔

٭ ایک طالبعلم نے کہا کہ خلیفۃالمسیح کے خطاب نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔ میرے بہت سے دوست مسلمان ہیں مگر مَیں آج اسلام اور اس کی تعلیمات کی بالکل مختلف تصویر لے کر جارہا ہوں۔

٭ ایک مہمان کہنے لگے کہ مجھے حضور انور کی شخصیت اور خطاب نے بہت متأثر کیا ہے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ حضور انور نے دوسرے مقررین کے ایڈریس سے اُن کی باتیں لیں اور پھر اُن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ پوپ صاحب ایسا نہیں کرتے۔

٭ چرچ کی ایک نمائندہ خاتون حضور انور کے خطاب کے بعد بار بار حضور انور کی طرف اشارہ کرتیں اور کہتیں کہ خلیفۃالمسیح کے چہرہ سے روحانیت ظاہر ہورہی ہے۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب ہم سب کے لئے بہت اہم ہے۔

٭ بوزنیا سے تعلق رکھنے والی تین پڑھی لکھی خواتین آج کی اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ آج کا پروگرام موجودہ مشکل حالات میں امن کے قیام کے لئے ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیفہ کا خطاب پُرشوکت تھا جس میں آپ نے محبت اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی۔ ہمارے اپنے احمدی ہمسایوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ مقامی جماعت کی کم تعداد ہونے کے باوجود یہ پروگرام بہت ہی منظّم تھا۔

٭ ایک مہمان Toni صاحب کہنے لگے کہ خلیفہ کی طرزگفتگو پر میری نظر رہی۔ مَیں نے آپ کی آواز کو نرم محسوس کیا اور آپ کی ذات کو ڈائیلاگ کا متلاشی پایا۔

٭ پروٹسٹنٹ چرچ کی ایک خاتون کہنے لگیں کہ جب پادری صاحب نے ایڈریس کیا ور اچھی باتیں کیں لیکن اتنا لمبا کردیا کہ مرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اب یہ چپ ہوجائے۔ پھر اس کے بعد جب خلیفۃالمسیح آئے تو میں نے سوچا کہ خطاب زیادہ لمبا نہ کریں لیکن جب خلیفۃالمسیح نے بات شروع کی تو اتنا زیادہ لطف آیا اور دل پر اثر ہوا کہ دل چاہا کہ اب یہ اپنا خطاب ختم نہ کریں۔ خلیفہ نے بہت دھیمے انداز میں محبت کےساتھ پیغام دیا ہے۔

٭ ایک مہمان خاتون نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے آج کی اس تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ میرے بچوں کی احمدی بچوں سے دوستی ہے جب سے ان کی احمدی بچوں سے دوستی ہے مَیں نے ان میں ایک مثبت اور اچھی تبدیلی دیکھی ہے۔ اس وجہ سے مَیں جاننا چاہتی تھی کہ آپ کی تعلیم کیا ہے۔ آج یہاں آنے کے بعد مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ میرے بچے اچھے دوستوں کے ساتھ ہیں اور محفوظ ہیں۔

موصوفہ حضور انور سے ملیں اور کہنے لگیں کہ مجھے اس بات نے بہت متأثر کیا ہے کہ حضور انور مجھے اُٹھ کر ملے ہیں اور میری عزت افزائی کی ہے جبکہ حضور اوپر سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے اور مَیں نیچے تھی۔ تب بھی حضور میرے لئے جھک کر کھڑے ہوئے۔

٭ سکول کے ایک استاد Volker Mauch نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احمدی بچیاں میرے سکول میں پڑھتی ہیں۔ ان کی وجہ سے مَیں یہاں آیا ہوں۔ مجھ پر خلیفۃالمسیح کی تقریر نے جادو کرنے والا اثر کیا ہے۔ میرے دل پر گہرا اثر ہے۔ خلیفۃالمسیح کا خطاب بڑا پُرحکمت تھا۔ آپ نے پہلے مقررین کی باتوں کو غور سے سنا اور پھر ان کے تحفّظات کا بڑی خوبی سے جواب دیا۔اکثر لوگ اپنی تقریریں لکھ کر لاتے ہیں لیکن خلیفۃالمسیح مقررین کے ایڈریسز کے دوران نوٹس لیتے رہے اور پھر یہاں کے مسائل کا حل بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا۔ مَیں خوش نصیب ہوں کہ آج اس مجلس میں شامل ہوا ہوں۔

٭ پولیس کی سیکرٹ ایجنسی کے ایک ممبر اپنی اہلیہ کےساتھ آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ خلیفہ کا آج کا خطاب نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ آج کے ان حالات میں ایسے ہی خطاب کی ضرورت تھی۔

٭ ایک جرنلسٹ کہنے لگے کہ وہ اس بات پر حیران ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کی چھوٹی سی مسجد کے افتتاح کے لئے اتنا بڑا مقام رکھنے والا شخص شامل ہوا ہے۔ یہ بات آپ کے خلیفہ کے مقام کی شان کو بلند کرتی ہے اور ان کا اپنی جماعت سے پیار اور شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔

٭ ایک مہمان خاتون نے بتایا کہ مَیں نے خلیفہ میں عاجزی ہی دیکھی ہے۔ آپ کے خطاب میں روزمرّہ سے متعلق باتیں اچھی محسوس کیں۔ مَیں اس بات سے بھی بہت متأثر ہوئی ہوں کہ مجھے بطور عیسائی اسلام سے متعارف کروایا گیا اور وسیع معلومات بہم پہنچائی گئیں۔

٭ ایک مہمان Mr. Bernd نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضور انور نے مختلف پہلوؤں سے محبت کی تعلیم پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ کی شخصیت محبت سے لبریز معلوم ہوتی ہے اور ایسی جماعت پُرامن ہی ہوسکتی ہے۔ موصوف نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ حضورانور کو اپنی پُرامن تعلیم کی وجہ سے مخالفین کا ڈر نہیں جو آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

٭ ایک خاتون جو Religion Teacher تھیں اُن کا اور اُن کے خاوند کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے خلیفہ کا خطاب سنا ہے۔ انہوں نے حقیقی خلافت کی محبت محسوس کی ہے۔

٭ تقریباً آٹھ افراد جن کا تعلق Kindergarden سے تھا اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ سبھی نے اس بات پر بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا رتبہ رکھنے والی ہستی ایک چھوٹی سی جماعت کے پروگرام میں شامل ہوئی ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اسلام پر شدّت پسندی کا جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اس سے اتفاق نہیں رکھتیں کیونکہ بائبل میں اس سے کئی گنا زیادہ شدّت پائی جاتی ہے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح کی بڑائی آپ کی عاجزی میں نظر آتی ہے۔ آپ کے بیانات بھی بہت خوب تھے اور آپ نے اسلام کی امن پسندی کی جوتصویر پیش کی اس کے ذریعہ سے مجھ پر اسلام کے نئے معنے کھلے۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ میرا تأثر مثبت ہے اور عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے جو یہ فرمایا کہ پیار محبت اور اخوت کی بہت ضرورت ہے یہ بات مجھے بہت پسند آئی اور تحفظات ختم کرنے کے لئے آپ نے بہت اچھے نکات بیان فرمائے ہیں۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃالمسیح نے جو یہ فرمایا کہ ہم ایک ہی پیدا کرنے والے خدا کی تخلیق ہیں یہ بالکل درست بات ہے اور مجھے بہت پسند آئی۔ اس سے امن قائم ہو سکتا ہے۔

٭ ایک مہمان مرد نے کہا کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہاں کیا ہونے والا ہے مگر مجھے سب بہت پسند آیا ہے ۔ اور میں اس بات سے بہت متاثر ہوا ہوں کہ عزّت مآب خلیفۃالمسیح نے کس خاص روح کے ساتھ آج بات کی ہے اور صرف یہی نہیں کہ بات کی بلکہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ انسان جو کہہ رہا ہے اُس کی زندہ جاگتی مثال بھی ہے اور یہ روح جو آپ کے اندر ہے اتنی طاقتور ہے کہ یہ آپ کے گرد و نواح کے لوگوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ میں نے آج خلیفۃ المسیح کی موجودگی سےبہت استفادہ کیا ہے۔

٭ ایک مہمان مرد نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح کا نہایت اچھا اور انسانی محبت سے پر تاثر مجھ پر ہوا بلکہ یہاں آپ کی محفل سے مجھے بھی کچھ برکتوں کو سمیٹنے کا موقع ملااوریہاں آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اگر میں آج یہاں نہ آتا تو یقیناً بہت بڑی چیز سے محروم رہ جاتا۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مجھے حقیقی اسلام کا تعارف حاصل ہوا جو ٹی وی میں نفرت اور تشدد والے اسلام کے بالکل برعکس ہے اور یہاں سے مجھے اَمن اور محبت ملی ہے اور صرف یہ نہیں کہ لفظاً اَمن اور محبت ملی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہاں ایسے انسان ملے ہیں جو نفرت نہیں چاہتے ۔

٭ ایک مہمان مر د نے کہا کہ آج تک میں سوچتا تھا کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں مگر مختلف مذاہب نے مختلف راستے دکھائے۔ مگر آج یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ مذاہب نے تو بڑے مشترکہ راستے بتائے ہیں نہ کہ اتنے مختلف ۔ اور عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے بڑے واضح طور پر باقی تشدد پسند مسلمان اور داعش وغیرہ سے دوری کا اظہار کیا اور ہمیں بتایا کہ اُن کا اسلامی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جو افسوسناک اعمال دنیا میں ہو رہے ہیں اس میں آپ لوگوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ اُن کا جو اس تعلیم کو غلط بیان کرتے ہیں اور جیسا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح نے فرمایا ہم سب کا کام ہے کہ محبت اور اخوت سے اس فتنہ کے خلاف کھڑے ہوں۔

٭ ایک مہمان خاتون نے کہا کہ آج اس پروگرام کی بہت منظّم طور پر تیاری تھی اور جو روحانی اور جسمانی طعام یہاں ملا وہ بہت لذیذ تھا۔

٭ ایک مہمان نے کہا کہ عزّت مآب خلیفۃ المسیح کا یہ پیغام حصولِ امن کے حوالہ سے بالکل درست ہے کہ کسی انسان کا خدا پر ایمان نہیں ہو سکتا اگر وہ قتل و غارت بھی کرے کیونکہ ایک لحاظ سے کسی معصوم کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے خدا پر ایمان کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔

11 اپریل2017ء بروز منگل

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے مسجد بیت العافیت Waldshut میں تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنے رہائشی اپارٹمنٹ میں تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطوط، رپورٹس اور دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی ا ور ہدایات سے نوازا۔

Augsburg شہر میں مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی تقریب

آج پروگرام کے مطابق Augsburg شہر میں مسجد بیت النصیر کے افتتاح کی تقریب تھی۔

پروگرام کے مطابق صبح دس بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل سے باہر تشریف لائے تو ہوٹل سے ملحقہ عمارت Old Pepoles’ Home میں مقیم ایک عمررسیدہ خاتون باہر کھڑی حضور انور کی آمد کی منتظر تھی۔ اس نے حضور انور کو ہوٹل میں آمد پر اور پھر مختلف پروگراموں کے لئے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کہنے لگی کہ مَیں نے حضور انور سے ملنا ہے۔ چنانچہ یہ حضور انور سے ملی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت اس سے گفتگو فرمائی۔ حضورانور سے ملاقات کے بعد کہنے لگی کہ حضورانور کو دیکھ کر مَیںنے ساری دنیا دیکھ لی ہے۔ آج مجھے برکت مل گئی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ اس کے بعد قافلہ Waldshut شہر سے Augsburg کے لئے روانہ ہوا۔ Waldshut شہر سے Augsburg کا فاصلہ 335 کلومیٹر ہے۔

قریباً چار گھنٹے دس منٹ کے سفر کے بعد ہوٹل Dorint میں تشریف آوری ہوئی۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق مسجد کے افتتاح کی تقریب کے حوالہ سے یہاں محدود وقت کے لئے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔

چار بجے یہاں سے ’’مسجد بیت النصیر‘‘ کے لئے روانگی ہوئی۔ پولیس کی گاڑی اور موٹرسائیکلز نے قافلہ کو Escort کیا۔

قریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد چار بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مسجد بیت النصیر میں ورودمسعود ہوا۔

مقامی جماعت کے افراد صبح سے ہی اپنے پیارے آقا کی بابرکت آمد پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر کوئی بیحد خوش تھا اور اپنے آقا کی آمد کا منتظر تھا ان کے لئے آج کا دن غیرمعمولی برکتیں لئے ہوئے آیا تھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم ان کے اس شہر کی سرزمین پر پہلی دفعہ پڑ رہے تھے۔

جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے بڑے پُرجوش اور والہانہ انداز میں اپنے آقا کا استقبال کیا۔ بچوں اور بچیوں نے گروپس کی صورت میں خیرمقدمی گیت اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ بلند کرکے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ خواتین اپنے پیارے آقا کے دیدار اور زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لوگ اس موقع پر موجود تھے جو کوریج دے رہے تھے۔

لوکل صدر جماعت مکرم ساجد محمود صاحب، ریجنل امیر مکرم ظفر ناگی صاحب اور ریجنل مبلغ سلسلہ مکرم عثمان نوید صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

یادگاری تختی کی نقاب کشائی

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے اندرونی حصہ میں تشریف لے گئے اور نماز ظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ جس کے ساتھ اس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت مقامی جماعت کے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ مقامی جماعت کے افراد میں سے ایک بڑی تعداد ایسی تھی جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں وقارعمل کے ذریعہ حصّہ لیا تھا اور بعض ہنرمند افراد نے مختلف کام سرانجام دیئے تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

اس کے بعد مقامی مجلس عاملہ، جماعتی عہدیداران اور وقارعمل میں حصّہ لینے والوں نے مختلف گروپس کی صورت میں اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے بیرونی احاطہ میں تشریف لے آئے اور آڑو کا ایک پودا لگایا۔ اس کے بعد شہر Augsburg کے میئر نے بھی ایک پودا لگایا۔

بعدازاں حضور انور نے جماعتی کچن کا معائنہ فرمایا اور پھر پروگرام کے مطابق چار بجکر 55 منٹ پر یہاں سے ہوٹل Dorint کے لئے روانگی ہوئی۔ واپسی پر بھی پولیس نے قافلہ کو Escort کیا۔

پانچ بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہوٹل میں تشریف آوری ہوئی۔

’’مسجد بیت النصیر‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سےا یک تقریب

ہوٹل سے ملحقہ کانگرس ہال میں ’’مسجد بیت النصیر‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سےا یک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

پروگرام کے مطابق چھ بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کانگرس ہال میں تشریف آوری ہوئی۔ مقامی صدر جماعت ساجد محمود صاحب ، ریجنل امیر مکرم ظفر ناگی صاحب اور مبلغ سلسلہ نوید عثمان صاحب نے حضورانور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

اس موقع پر علاقہ کے میئر Stefan Kiefer، ممبر پارلیمنٹ Christine Kamm، ممبر پارلیمنٹ Harald Guller، ممبر پارلیمنٹ Johann Hauslerنے بھی حضورانور کا استقبال کیا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

بعدازاں حضور انور ہال کے اندر تشریف لے آئے جہاں تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو ملک عثمان نوید صاحب مبلغ سلسلہ نے کی اور اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی کا تعارفی ایڈریس

اس کے بعد مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

امیر صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد اس شہر کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ شہر Augsburg جنوبی جرمنی کے وسط میں واقع ہے اور صوبہ Bayern کا قدیم ترین اور جرمنی بھر کا دوسرا قدیم ترین شہر ہے۔ اس شہر کی آبادی کا آغاز 15 قبل مسیح میں ہوا۔ اس شہر کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار ہے اور یہاں بعض قدیم اور تاریخی عمارات موجود ہیں۔

اس شہر میں احمدی احباب چالیس پچاس سال قبل آکر آباد ہوئے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں یہاں کی مقامی جماعت کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا استقبال کرنے کی سعادت عطا ہوئی تھی۔

یہاں کی مقامی جماعت گزشتہ کئی سالوں سے Blood Donations، چیریٹی واک، فنڈ ریزنگ، شجرکاری اور بے گھر لوگوں کو کھانا مہیا کرنے کے ذریعہ اِس شہر کی خدمت کر رہی ہے۔

مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے امیر صاحب نے بتایا کہ ستمبر 2009ء میں مسجد کی تعمیر کی اجازت شہر کی انتظامیہ کی طرف سے موصول ہوئی۔ قطعہ زمین کا رقبہ 1055 مربع میٹر ہے۔ یہ پلاٹ اکتوبر 2008ء میں دو لاکھ 95ہزار یورو کی لاگت سے خریدا گیا۔ مسجد کی تعمیر کا کام مارچ 2016ء میں شروع ہوا۔

مسجد میں مردوں اور عورتوں کے لئے دو علیحدہ علیحدہ ہال ہیں۔ ہر ہال کا رقبہ 55.97 مربع میٹر ہے۔ مینارہ کی اونچائی 6.50میٹر ہے جبکہ گنبد کا قطر 6میٹر ہے۔ مجموعی طور پر کُل Covered ایریا 225 مربع میٹر ہے۔ ایک دفتر اور لائبریری بھی موجود ہے اور کچن کی سہولت بھی حاصل ہے۔ سات گاڑیوں کی پارکنگ بھی ہے۔

یہ مسجد سڑک کے اوپر واقع ہے اور ہر گزرنے والا اس کو دیکھتا ہے۔

ڈاکٹر Stefan Kiefer میئر Augsburg کا ایڈریس

امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد ڈاکٹر Stefan Kiefer میئر Augsburg نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں شہر کی انتظامیہ کی طرف سے خلیفۃالمسیح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج کا دن جماعت احمدیہ جرمنی اور جماعت احمدیہ Augsberg کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آج آپ کی ایک مسجد کا افتتاح ہورہا ہے۔

آج کے اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ خلیفۃالمسیح جو جماعت احمدیہ عالمگیر کے سربراہ ہیں بنفس نفیس اس مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیں۔

خلیفۃالمسیح پوری دنیا میں امن کا پیغام دیتے ہیں۔ آپ امن کے سفیر ہیں اور امن کے خطابات فرماتے ہیں۔ ہم خلیفۃالمسیح کی امن، بھائی چارہ اور رواداری کے قیام کی کوششوں کے لئے مشکور ہیں۔

موصوف نے کہا کہ آج کے اس دور میں جب کہ ہم مادی طور پر ایک سختی کے دور سے گزر رہے ہیں یہ خطرہ رہتا ہے کہ آپس میں نفرتیں پیدا ہوجائیں۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ یہ بتایا جائے کہ مذہب کس طرح آپس میں پیار اور محبت پیدا کرسکتا ہے جس سے لوگوں کو تحفظ ملتا ہے اور آج کا دن اس کی مثال ہے۔

مجھے امید ہے کہ جماعت احمدیہ ہر ایک کے لئے امن اور رواداری کی ایک طاقت ثابت ہوتے رہیں گے۔ جماعت احمدیہ یہاں ظاہری طور پر مقبول ہوچکی ہے۔

میئر صاحب نے آخر پر کہا کہ مَیں جماعت احمدیہ کی ترقی اور کامیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔

صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mrs. Christine Kamm کا ایڈریس

میئر کے ایڈریس کے بعد صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mrs. Christine Kamm نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں آپ کو یہاں خوش آمدید کہتی ہوں۔ آج کا دن شہر Augsberg کے لئے بہت خوشی کا دن ہے۔ ہم سب کے لئے بہت اچھا دن ہے کیونکہ اس مسجد کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے اور ہم سب نے یہ خوبصورت مسجد دیکھ لی ہے۔ یہ مسجد ہمارے شہر کے لئے ترقی کا باعث ہے اور خاص طور پر اس سلوگن کے ساتھ جو اس پر نمایاں طور پر درج ہے کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔

موصوفہ نے کہا کہ شروع میں یہاں مشکلات پیش آئی تھیں۔ لیکن اب وہ مشکلات یاد بھی نہیں ہیں کیونکہ اتنی خوبصورت مسجد اس جگہ تعمیر ہوچکی ہے۔

مَیں اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ جو پیغام ساتھ لائے ہیں وہ امن، رواداری اور پیار اور محبت کا پیغام ہے۔

مَیں اس بات پر بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ دنیا میں امن، عدل و انصاف اور انسانی حقوق قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور مذہب کے نام پر جنگ و جدال اور دہشتگردی کے خلاف ہیں۔ آپ کا پیغام اور آپ کا کام یہ دکھا رہا ہے کہ آپ لوگ اس شہر کے لئے مفید وجود ہیں۔

آخر پر موصوفہ نے کہا کہ مَیں اس مسجد کی تعمیر پر آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو آپ نے اس شہر کو تحفۃً تعمیر کرکے دی ہے۔

صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mr. Harald Guller کا ایڈریس

اس کے بعد صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mr. Harald Gullerنے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ بہت خوبصورت مسجد بنی ہے۔ یہ مَیں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میری پیدائش اس علاقہ میں ہوئی تھی بلکہ حقیقت میں یہ بہت خوبصورت مسجد بنی ہے۔

مَیں اس موقع پر جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے سارے وقت کے دوران یعنی مسجد کی پلاننگ، تعمیراتی کام اور افتتاح تک ہمیشہ ایک مثالی کردار اور نمونہ دکھایا ہے۔ آپ نے ہر موقع پر تعاون کیا، ہر چیز کھل کر بتائی اور کبھی بھی اخفاء سے کام نہیں لیا۔ پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بعض لوگوں نے کیوں مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ بننا چاہا۔

موصوف نے کہا کہ مسجد کی دیوار پر اگر کسی نے شرارت سے کچھ لکھا تو مسجد کی عمارت کو خراب کرنا یا توڑنا بالکل غلط فعل ہے اور اس کی ہمارے معاشرے میں گنجائش نہیں۔

موصوف نے کہا کہ مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ مختلف مواقع پر پروگراموں میں شامل ہوتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ آپ کی جماعت ملکی قوانین کی پابندی کرتی ہے اور انتہاپسندی اور تشدّد کے خلاف ہے۔ آپ کی جماعت اسلام کی امن والی تصویر پیش کرکے لوگوں کے خوف دُور کرتی ہے۔

موصوف نے آخر پر مسجد کے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے اپنی نیک تمنّاؤں کا اظہار کیا اور آپس میں امن اور محبت سے رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mr. Johann Hausler کا ایڈریس

بعدازاں صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mr. Johann Hausler نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں سب سے پہلے اس دعوت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے ایسے اہم موقع پر شامل ہونے کا موقع میسّر آیا جو انسان کو ہمیشہ کے لئے یاد رہتے ہیں۔

جماعت احمدیہ Augsburg کے ممبران کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی خوبصورت مسجد تعمیر کی ہے۔ مسجد میں انسان روحانی مقاصد کے لئے آتا ہے لیکن ساتھ یہ اکٹھے بیٹھنے کی جگہ بھی ہے۔ Augsburg کی چھوٹی سی جماعت نے مسجد تعمیر کرکے ایسا کام کر دکھایا جو دُوردراز تک اس کے مفید پہلو دکھائے گا۔

موصوف نے کہا کہ حضور انور کا یہاں تشریف لانا شہر Augsburg کے لئے ایک اعزاز ہے بلکہ پورا Bayern صوبہ خوش نصیب ہے کہ خلیفۃالمسیح یہاں آئے ہیں۔

جماعت احمدیہ عالمگیر کے خلیفہ امن کے ایک پیامبر ہیں اور دنیا کے سامنے اسلام کی اصل اور حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ آپ ایک ایسے وقت میں امن پھیلا رہے ہیں جب کہ فساد اور خطرے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ آپ انسانوں کے حقوق اور وقار کو قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

موصوف نے کہا کہ آج کا دن اس بات کا ثبوت ہے کہ آپس میں امن اور پیار و محبت سے رہنا بالکل ممکن ہے۔ اور جماعت احمدیہ نے ہمارے شہر میں یہ کر دکھایا ہے کہ کس طرح امن کے ساتھ رہا جاتا ہے۔

موصوف نے آخر پر اپنی پارلیمنٹ کی طرف سے اور اپنی طرف سے بھی مبارکباد پیش کی اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

بعدازاں سات بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button