متفرق مضامینمضامین

غیر مسلموں سے سلوک کے بارہ میں قُرآنی تعلیم (قسط ۲،آخری)

(سید میر محمود احمد ناصر)

۹وہ اقوام بھی ہیں جو اپنے لوگوں کے معاملات میں تو عدل و انصاف سے کام لیتی ہیں مگرجو ان سے دشمنی رکھتے ہوں یا جن کو وہ اپنے دشمن سمجھتے ہوں ان سے کبھی بھی انصاف سے کام نہیں لیتے۔

مگر قرآن فرماتا ہے:فَاِنْ جَآءُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا۔وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۔ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ( المائدۃ43:)کہ اگر مخالفین غیر مسلم تمہارے پاس فیصلہ کے لئے آئیں تو تمہیں اجازت ہے کہ ان کے معاملات میں فیصلہ کرو یا نہ کرو (اگر انکار کرو گے تو وہ تمہیں نقصان نہیں دے سکیں گے)لیکن اگر تم فیصلہ کرو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا کیونکہ اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

۹آج کل کی نام نہاد مہذب دنیا میں اس قوم کا نام تو لیجئے جو اپنے مخالفوں سے عدل و انصاف کا سلوک کرتی ہو۔ ہمیں ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو مخالفین کو فوری طور پر طاقت اور تلوار کے زور پر اپنے مذہب یا اپنے مسلک کے تابع بنانا چاہتے ہیں ورنہ ان کے قتل کے درپَے ہوتے ہیں۔

قرآن تو کہتا ہے:اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَ طَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّہُمْ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ (المائدۃ6:)کہ آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور ان لوگوں کا کھانا جن کو کتاب دی گئی تمہارے لئے جائز ہے۔ اور تمہارا کھانا ان کے لئے جائز ہے اور پاکدامن مومن عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تمہارے لئے جائز ہیں جب تم ان کے مہر ادا کر دو۔

۹اب ہمارا نہ ماننے والوں کو فوری طور پر تلوار سے ختم کرنے اور جہاد کے نام پر ان کو قتل کرنے کا عقیدہ رکھنے والوں سے سوال ہے کہ آپ اس قرآن کو نہیں مانتے جس میں یہ آیت ہے کہ غیر مسلم اہل کتاب کا کھانا بھی مومنوں کے لئے جائز ہے اور غیر مسلم پاک دامن اہل کتاب عورتوں سے شادی کرنا بھی جائز ہے۔ یا ایسے لوگ اپنے گھر میں ایسی عورتوں کو لاتے ہیں ان کو تہ تیغ کریں گے؟؟؟

ایسے لوگ جو اپنے مذہب اور مسلک سے مخالف لوگوں کے قتل پر عملا یا عقیدۃً آمادہ رہتے ہیں اس کوشش میں ر ہتےہیں کہ اپنے مخالفین کی مذہبی عمارتوں کو اور عبادت گھروں کو مسمار کریں اور آج کی دنیا میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات مختلف مسلک رکھنے والوں کی مساجد تک گرا دی جاتی ہیں۔ یا sealکرا دی جاتی ہیں۔

مگر اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا (الحج40:)اگر اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ شرارت سے باز نہ رکھتا تو عیسائیوں کے گرجے، یہودیوں کے عبادت گھر، راہبوں کے عبادت کے خلوت خانے، اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے برباد کر دی جاتیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ یہود کے گرجوں کی حفاظت کی بھی اور عیسائیوں کے گرجوں کی بھی اور راہبوں کے خلوت خانوں کی بھی اور مسلمانوں کی مساجد کی بھی حفاظت کا ذریعہ مقرر کرتا ہے۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن نے غیرمسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم نہیں دی اس کو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب میں اپنے مخالف مذہب رکھنے والوں کے انبیاء اور رسولوں اور بزرگوں کی عزت و احترام کے قیام او ران کی کتب مقدسہ کی عزت و احترام اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت کا ذکر ہے؟

۹غیر مسلموں سے اسلامی معاشرہ میں بد سلوکی کا ایک اعتراض یہ بھی بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ قرآن اسلام سے مرتدہونے والے کو قتل کی سزا دیتا ہے۔ ہم نے قرآن پڑھا اور بار بار پڑھا ہے اور ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ کسی ایک جگہ بھی مرتد کی سز اقتل نہیں قرار دی گئی۔

ہم یہاں وہ چھ آیات لکھتے ہیں جن میں کسی شخص کے اسلام سے مرتد ہونے کا ذکر ہے اور اعتراض کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ بتائیے کہ کسی آیت میں اشارۃً بھی مرتد کوقتل کی سزا دینے کا ذکر ہے؟

پہلی آیت ہے:وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْاوَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ (البقرۃ218:) کہ مخالفین تم سے لڑتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ اگر ان کی طاقت ہو تو وہ تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں گے اور اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے اور پھر مر جائے تو اس کے اعمال ضائع ہوگئے۔

دیکھئے اس آیت میں مرتد ہونے والے کی طبعی موت کا ذکر ہے کوئی اشارہ بھی نہیں کہ مرتد ہونے والے کو قتل کردیا جائے۔

دوسری آیت ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الضَّآلُّوْنَ( آل عمران91:)کہ جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے (اور ایمان میں واپس لوٹنے کی بجائے)اور کفر میں بڑھتے گئے ان کا لوٹ کر آنا قبول نہیں کیا جائے گا اوریہ لوگ گمراہ ہیں۔

اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ کچھ لوگ ایمان لا کر پھر کفر اختیار کر لیتے ہیں ایسے لوگ پہلے سے بھی زیادہ کفر میں بڑھتے جاتے ہیں اور ان کو تو بہ نصیب نہیں ہوتی بلکہ وہ گمراہ ہی رہتے ہیں۔ اس آیت میں بھی مرتد ہونے والوں کے کفر میں بڑھنے کا ذکر ہے مگر ان کے قتل کئے جانے کا کوئی اشارہ نہیں۔

تیسری آیت ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اللہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَ لَا لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلًا (النسائ138:) کہ جو جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے (یعنی انہوں نے کفر و ایمان کو کھیل بنایا ہوا ہے)پھر وہ کفرمیں بڑھتے گئے وہ اللہ تعالی کی مغفرت اور اس کی طرف سے ہدایت سے بے نصیب ہیں۔

اس آیت میں بعض لوگوں کے ایمان لانے اور پھر کافر ہو جانے اور پھر ایمان لانے اور کافر ہو جانے اور پھر کفر میں بڑھتے چلے جانے کا ذکر ہے۔ یہ اشارہ بھی نہیں کہ ان کو مرتد ہونے پر قتل کر دیا جائے۔ بلکہ ان لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور پھر ایمان لائے (گویا قتل نہیں کئے گئے )اور پھر مرتد ہو گئے اور کفر میں بڑھتے چلے گئے۔

چوتھی آیت ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ(المائدۃ 55:)کہ اے مومنو تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے گا تو اللہ ایک ایسی قوم کولے آئے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔

اب یہاں مرتد کے لئے کسی سزا یا قتل کا ذکر نہیں بلکہ مومنوں کی تعداد اور محبت الٰہی میں ترقی کا ذکر ہے۔

پانچویں آیت ہے:مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ( النحل107:)کہ جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائے (سوائے ان لوگوں کے جن پر جبرکیا جائے اور ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو)بلکہ وہ جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

دیکھئے اس آیت میں بھی مرتد ہونے والے کے لئے جو سزا ہے وہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔انسان کو کوئی اجازت اس کے قتل کی نہیں دی۔

چھٹی آیت ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَہُمْ وَ اَمْلٰی لَہُمْ( محمد26:)کہ یقیناً وہ لوگ جو اپنی پیٹھوں کے بل مرتد ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے لئے ہدایت کھل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور ان کو امیدیں دلائی ہیں۔

اس آیت میں بھی مرتد کے لئے کوئی قتل یا سزا کا حکم نہیں صرف ان کے ارتداد کے محرکات کا ذکر ہے۔

اب انصاف سے کام لیتے ہوئے سارا قرآن پڑھ جائیے آپ کو کسی جگہ بھی ایمان قبول کر کے مرتد ہونے والوں کے لئے کسی سزا یا قتل کا ذکر نہیں ملے گا۔

ہاں بائبل کھو لئے ہر قسم کے ارتداد کی سزا قتل ہے اور قتل بھی بھیانک شکل میں۔ مثلاً لکھا ہے

’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ تُو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں میں سے جو اسرائیلیوں کے درمیان بودوباش کرتے ہیں جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک(بنی عمون کا خاص دیوتا)کی نذر کرے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔اہل ملک اسے سنگسار کریں

(احبار باب20 آیت1تا2)

ارتداد کی سزا تو بائبل میں قتل ہے مگر ایسا شخص جو سبت کے دن اپنی ضرورت کے لئے لکڑیاں جمع کرتا ہے وہ بھی واجب القتل ہے۔

لکھا ہے: ’’اور جب بنی اسرائیل بیابا ن میں رہتے تھے تو ان دنوں ایک آدمی سبت کے دن ان کو لکڑیاں اکٹھی کرتاہوا ملا اور جن کو وہ لکڑیاں اکٹھی کرتا ہوا ملا وہ اسے موسیٰ اور ہارون اور ساری جماعت کے پاس لے گئے انہوں نے اسے حوالات میں رکھا کیونکہ ان کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ شخص ضرور جان سے مارا جا ئے ساری جماعت لشکر گاہ کے باہر اسے سنگسار کرے۔ چنانچہ جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا اس کے مطابق ساری جماعت نے اسے لشکر گاہ سے باہر لے جا کر سنگسار کیا اور وہ مر گیا۔‘‘ (گنتی باب 15 آیات32تا36)

ارتداد کی ہر صورت میں قتل اور تباہ و برباد کرنے کی سزا کا حکم موجودہ بائبل میں بڑے زور سے دیا گیا ہے۔لکھا ہے:

’’اگر تیرے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تجھ کو کسی نشان یا عجیب بات کی خبر دے ۔اور وہ نشان یا عجیب بات جس کی اس نے تجھ کو خبر دی وقوع میں آئے اور وہ تجھ سے کہے کہ آ ہم اور معبودوں کی جن سے تو واقف نہیں پیروی کر کے ان کی پوجا کریں ۔ تُو تو ہر گز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات کو نہ سننا کیونکہ خداوند تمہارا خدا تم کو آزمائے گا تاکہ جان لے کہ تم خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے محبت رکھتے ہو یا نہیں ۔تم خداوند اپنے خدا کی پیروی کرنا اور اس کا خوف ماننا اور اس کے حکموں پر چلنا اور اس کی بات سننا ۔ تم اسی کی بندگی کرنا اور اسی سے لپٹے رہنا۔ وہ نبی یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے کیونکہ اس نے تم کو خداوند تمہارے خدا سے (جس نے تم کو ملک مصر سے نکالا اور تجھ کو غلامی کے گھر سے رہائی بخشی)بغاوت کرنے کی ترغیب دی تاکہ تجھ کو اس راہ سے جس پر خداوند تیرے خدا نے تجھ کو چلنے کا حکم دیا ہے بہکائے ۔ یوں تو اپنے بیچ میں سے ایسی بدی کو دور کر دینا ۔

اگر تیرا بھائی یا تیری ماں کا بیٹا یا تیرا بیٹا یا بیٹی یا تیری ہم آغوش بیوی یا تیرا دوست جس کو تو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہے تجھ کو چپکے چپکے پھسلا کر کہے کہ چلو ہم اور دیوتاؤں کی پوجا کریں جن سے تُو اور تیرے باپ دادا واقف بھی نہیں ۔ یعنی ان لوگوں کے دیوتا جو تمہارے گرداگرد تیرے نزدیک رہتے ہیں یا تجھ سے دور زمین کے اِس سرے سے اُس سِرے تک بسے ہوئے ہیں ۔ تو تُو اِس پر اس کے ساتھ رضا مند نہ ہونا اور نہ اس کی بات سننا ۔ تو اس پر ترس بھی نہ کھانا اور نہ اس کی رعایت کرنا اور نہ اسے چھپانا۔ بلکہ تو اس کو ضرور قتل کرنا اور اس کو قتل کرتے وقت پہلے تیرا ہاتھ اس پر پڑے ۔ اس کے بعد سب قوم کا ہاتھ ۔ اور تو اسے سنگسار کرنا تاکہ وہ مر جائے کیونکہ اس نے تجھ کو خداوند تیرے خدا سے جو تجھ کو ملکِ مصر یعنی غلامی کے گھر سے نکال لایا برگشتہ کرنا چاہا ۔ تب سب اسرائیل سن کر ڈریں گے اور تیرے درمیان پھر ایسی شرارت نہیں کریں گے ۔ اور جو شہر خداوند تیرے خدا نے تجھ کو رہنے کو دیئے ہیں اگر ان میں سے کسی کے بارے میں تو یہ افواہ سنے کہ چند خبیث آدمیوں نے تیرے ہی بیچ میں سے نکل کر اپنے شہر کے لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کر دیا ہے کہ چلو !ہم اور معبودوں کی جن سے تم واقف نہیں پوجا کریں ۔ تو تُو دریافت اور خوب تفتیش کر کے پتا لگانا اور دیکھ اگر یہ سچ ہو اور قطعی یہی بات نکلے کہ ایسا مکروہ کام تیرے درمیان کِیا گیا۔ تو تُو اس شہر کے باشندوں کو تلوار سے ضرور قتل کر ڈالنا اور وہاں کا سب کچھ اور چوپائے وغیرہ تلوار ہی سے نیست و نابود کر دینا ۔

اور وہاں کی ساری لوٹ کو چوک کے بیچ جمع کر کے اس شہر کو اور وہاں کی لوٹ کو تنکا تِنکا خداوند اپنے خدا کے حضور آگ سے جلا دینا اور وہ ہمیشہ کو ایک ڈھیر سا پڑا رہے اور پھر کبھی بنایا نہ جائے ۔ اور ان مخصوص کی ہوئی چیزوں میں سے کچھ بھی تیرے ہاتھ میں نہ رہے۔‘‘

(استثناء باب 13 آیات1تا17)

۹غیر مسلموں سے بدسلوکی کرنے کے اعتراضات کے ضمن میں ایک اعتراض اہل مغرب کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ قرآن شریف میں غیر مسلموں سے محبت کرنے کا کو ئی حکم نہیں۔ اصل محبت کا حکم تو مومنوں کو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا ہے اور پھر اس کے رسول ﷺ سے۔ مگر اہل مغرب کی طرف سے یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کا ایک محکم جواب حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے دیا ہے جو اپنی پُرزور صداقت رکھتا ہے۔ جس کو ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں

’’محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے۔ سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔ محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہوجانا ہے۔ چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ۔ اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہوگیا۔ تو کہتے ہیں شِرِبَتِ الْاِبِلُ حَتَّی تَحَبَّبَتْ۔ اور حَبَّ جو دانہ کو کہتے ہیں۔ وہ بھی اسی سے نکلا ہے۔ جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بنا پر اِحْبَاب سونے کو بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حِس اس کو باقی نہیں رہے گی۔ پھر جبکہ محبت کی یہ حقیقت ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو دوسرے لفظوں میں اس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جاؤ۔ خوب تعلیم ہے!۔ ایسی تعلیم کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے۔ خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچاوے۔‘‘

(نور القرآن نمبر2 روحانی خزائن جلد 9صفحہ431تا432)

(یہ عبارت پادری فتح مسیح کے جواب میں لکھی گئی ہے جس نے اعتراضات کے ساتھ ہمارے نبیﷺ پر سراسر افترا سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے)

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا حرام ہے تو کس قسم کا خُلق ان سے برتنا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ ان پر کمال درجہ کی شفقت چاہئے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی جذامیوں اور اندھوں اور لُولوں اور لنگڑوں وغیرہ دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے۔ اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محب اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظر استحسان دیکھتا ہے اور رغبت رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہوجائیں۔ مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظر خوف و عبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شائد وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے۔ اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقع کے مناسب حال کارروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے …اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے۔ اگر تم ایک دن ایک بڑے شفاخانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہریک قسم کے مریض آتے ہوں بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنے تمہاری سمجھ میں آجائیں گے۔

سو تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبہ128:)یعنی اے کافرو یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ۔ پھر فرماتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعرائ4:) یعنے کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے۔ اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد18:) یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو۔ اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ (البقرہ166:) اور فرماتا ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ (المائدۃ52:) اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ (آل عمران119:) یعنی یہود اور نصاری سے محبت مت کرو۔ اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو۔ ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ ہریک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجا لانا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے۔ نہایت سخت جاہل وہ شخص ہوگا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو۔ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خُلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں۔ اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہرگز ممکن نہیں۔ ہاں مومن کافر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجا لائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملّت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو۔ بھوکوں کو کھلاؤ۔ غلاموں کو آزاد کرو۔ قرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو۔ اور فرماتا ہے اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُربٰی (النحل91:)یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو۔ جیسے بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے لَایَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَ تُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ9:)یعنی نصاری وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے۔ نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگرچہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو۔ ان سے ہمدردی کرو۔ انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَ ظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْراجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الممتحنہ10:) یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا۔ سو ان کی دوستی حرام ہے۔ کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں۔‘‘

(نور القران نمبر2 روحانی خزائن جلد9صفحہ432تا435)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button