متفرق مضامینمضامین

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی اختتامی اجلاس میں بابرکت شمولیت اور نہایت اہم اور زرّیں ہدایات پر مشتمل خطاب

(فرخ راحیل۔مربی سلسلہ، الفضل انٹرنیشنل،لندن)

جماعت احمدیہ یوکے (UK) کے زیرِ اہتمام واقفین نَو کے نیشنل اجتماع کا کامیاب و بابرکت انعقاد متفرق معلوماتی سٹالز،مختلف موضوعات پر مشتمل دلچسپ presentationsاور مفید پروگرامز

اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعت احمدیہ یوکے کے زیراہتمام26؍فروری2017ء کو واقفین نَو کا نیشنل اجتماع بیت الفتوح لندن میں منعقد ہوا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس روز اختتامی اجلاس میں رونق افروز ہوئے۔ اختتامی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عزیزم عبدالمنان نے سورۃ آل عمران کی آیات33تا36 کی تلاوت کی۔ عزیزم خالد احمد نے اس کا اردو ترجمہ اور عزیزم رضا محمود نے انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں عزیزم مطرف احمد نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام ’’نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ میں سے چند اشعار خوش الحانی کے ساتھ پڑھے۔ اس کے بعد عزیزم احسان محمود نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

نظم کے بعد مکرم مسرور احمد صاحب سیکرٹری وقفِ نَو یوکے نے اجتماع کی مختصر رپورٹ پیش کی جس میں خصوصًا ذکر کیا کہ پہلی بار اس اجتماع کی تمام تر انتظامیہ واقفینِ نَو پر مشتمل ہے۔ نصابی امتحانات کے علاوہ کیریئر پلاننگ کے حوالہ سے خصوصی اسٹال لگائے گئے ۔ نیز متعدد دلچسپ موضوعات پر مشتمل presentationsدی گئیں۔ مثلاً:سوشل میڈیا، شادی، ویڈیو گیمز کھیلنے کے نقصانات ، جامعہ احمدیہ وغیرہ۔اس موقع پر مکرم لقمان احمد کشور صاحب انچارج دفتروقفِ نَو مرکزیہ نے بھی تقریر کی اور حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشادات کی روشنی میں 15سال سے زائد عمر کے واقفینِ نَو کو تجدید وقف کرنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی وقف کرنے اور نمازوں کی پابندی وغیرہ امور کی طرف توجہ دلائی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1406واقفین نَو نے امسال اس اجتماع میں شرکت کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کی نسبت امسال 185واقفینِ نَو کا اضافہ ہوا ہے۔ واقفین نَو کے علاوہ والدین اور مہمانوں کی حاضری 466 رہی۔اس طرح امسال کُل حاضری 1872 رہی۔ الحمدللہ۔

اجتماع کی رپورٹ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا ۔

تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایاکہ آج آپ سب یہاں نیشنل وقف نَو اجتماع کے لئے جمع ہوئے ہو ۔آپ مَیں سے بعض حیران ہو رہے ہوں گے کہ ہم کیوں ہر سال ایسی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ہم اس وجہ سے ایسی تقریبات منعقد کرتے ہیں تاکہ آپ سب ممبرانِ وقف نو کوآپ کی ذمہ داریوں کی اہمیت یاد دلائی جائے، آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کےلئے تربیت دی جائے اور آپ کی رہنمائی کی جائے۔

سب سے پہلے آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف آپ کا نام وقفِ نَو کی فہرست میں ہونا بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ آپ صرف اپنے طرزِ عمل کے ذریعہ سے ان حقیقی برکات کو حاصل کر سکتے ہیں جو اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آپ کو وقفِ نو کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ہر آن اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے مستعد رہنا چاہئے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی اخلاقی حالت ،روحانی حالت اور اپنی تعلیم کے معیار کو بلند کریں اور دوسروں کی رہنمائی کے لئے بہترین نمونہ بنیں۔ہر احمدی مرد ، عورت اور بچے سےہمیشہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے۔ اگر وقفِ نو کے ممبر صرف بنیادی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں تو وہ کسی امتیاز کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیا ں اپنے دین کی خاطر وقف کرنے کا عہد کیا ہے ۔پس اس وجہ سے آپ کو لازماً اسلامی تعلیمات اور اس کی اقدار کے بلند ترین معیار اپنےاندر قائم کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔اِن تعلیمات اور اقدار میں سب سے اوّل جیساکہ میں اکثر کہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حقوق اس کی عبادت کے ذریعہ ادا کئے جائیں ۔ چنانچہ آپ کو لازماً کوشش کرنی چاہئے کہ مسلسل اپنے عبادت کے معیاروں کو بڑھائیں اور اللہ تعالیٰ سے ایک حقیقی لازوال تعلق قائم کرنے کی کوشش کریں۔اگر آپ اپنی عبادتیں اخلاص کے ساتھ بجا لا رہے ہیں تو آپ اُن سے حظّ اُٹھائیں گے اور عبادت کرنا آپ کو مشکل نہیں لگے گا۔اور یہ وہ معیار ہے جسے ایک وقفِ نَو کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر آپ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ نہ صرف اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنے والے ہوں گے بلکہ آپ دوسروں کو بھی راغب کر رہے ہوں گے کہ وہ آپ کے نقش قدم پرچلیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اور سب سے بلند ترین مقام رکھنے والی عبادت روزانہ پنجوقتہ فرض نمازیں ہیں جنہیں روزنہ ادا کرنا لازمی ہے۔ پس آپ کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے کہ آپ کی کوئی بھی نماز چھوٹ نہ جائے۔ نیز آپ کو جب بھی ممکن ہو اپنی نمازیں باجماعت ادا کرنی چاہئیں۔ اور سکول ،کالج کے اوقات کے علاوہ آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنی مقامی مسجد یا صلوٰۃ سینٹرز میں نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ ہم سب اپنا تعارف احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے کرواتے ہیں۔ اور ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے امامِ وقت حضرت مسیح موعود و مہدیٔ معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہےجنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث کیا گیا۔ لیکن یہ فخر اور اطمینان جو آپ کو اپنے ایمان میں ہے صرف اُس وقت قابلِ تعریف خیال کیا جائے گا ، اور صرف اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول کیا جائے گا جب آپ حقیقی معنوں میں اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے ہوں گے۔ محض چند الفاظ اپنے دین کے بارہ میں بول دینا ہر گز کافی نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بجا آوری میں آپ کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ روزانہ اپنی پنجوقتہ نمازوں کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں۔ افسوس کہ طلباء اپنے سکول اور یونیورسٹی کی پڑھائی کو اکثر بہانہ بنا لیتے ہیں اور اپنی نمازیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں یا بالکل ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نماز ایک ڈھال ہے جو انسان کو مزید غلطیاں کرنے سے محفوظ رکھتی ہے۔پس عبادت کے حقوق ادا نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے گناہوں میں مبتلا کر رہے ہوں گے اور اسلام سے دُور ہٹ رہے ہوں گے۔ آپ کو اس معاملہ میں ہر قسم کی سستی اورکمزوری سے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قیام نمازکے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ہمیں دوسرے ذرائع بھی بتائے ہیں جن کے ذریعہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقوق ادا کرسکتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس آیا اور کہا کہ اُس سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور اُس میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے رہنمائی طلب کی کہ کس طرح وہ اپنی کوتاہیوں کو دور کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ نماز اور استغفار ایسی کمزوریوں کے لئے بہترین علاج ہیں۔ ہر انسان کو دوسروں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا علم ہوتا ہے۔اس لئے آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نصیحت کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ اپنے دین میں غفلت کو دُور کرنے کا بہترین علاج فرض نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگناہے۔ آپ چونکہ مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور آپ ایک دنیادار معاشرہ میں پروان چڑھے ہیں اس لئے استغفار کی ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔کیونکہ استغفار انسان کو شیطان اور معاشرے میں جو بد اخلاقیاں عام پائی جاتی ہیں اُن سے بچنے کا ایک شاندار ذریعہ ہے ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیساکہ مَیں نے کہا واقفِ نَو کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے۔ اس لئے آپ کو لازمًا زیادہ سے زیادہ استغفار کرتے رہنا چاہئےتاکہ آپ کے روحانی اور اخلاقی معیار مسلسل بڑھیں اور ترقی کرتے رہیں ۔ مزید برآں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ انسان کو اِن الفاظ میں دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ! تو مجھ میں اور میرے گناہوں میں بہت دُوری پیدا کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر قسم کی غلط کاریوں اور گناہوں سے محفوظ رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جب ایک انسان اخلاص کے ساتھ باقاعدگی سے اس دعا کا وِرد کرتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ دعا ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ پس وقفِ نَو کا ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کو بار بار یہ دعا کرنی چاہئے تاکہ آپ کی رہنمائی سیدھے رستہ پر ہو اور آپ اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ اپنے نفس سے جہاد کرنا بھی ایک قسم کی عبادت ہے۔ یعنی ایسے نفس سے جہاد کرنا جو گناہوں کی طرف انگیخت کرتا ہو ۔ مثلاً اگر ایک انسان رات کو سو تا اور صبح فجر کے لئے اُٹھتا ہے اورباوجود انتہائی تھکاوٹ کے مسجد جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا ہو گا۔ایک طرف تو اُسے بَر وقت باجماعت نماز کی ادائیگی کا ثواب ملے گا اور دوسری طرف اُسے اپنے نفس کو شکست دینے کاثواب ملے گا کیونکہ اُس نے سستی کو دُور کیا اور اپنے دین کو مقدّم رکھا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک اَور بہت بڑی ذمہ داری جو آپ پر عائد ہوتی ہے وہ اسلام کا دفاع ہے اور غلط ،بے بنیاد الزامات کا جواب دینا ہےجو ہر روز اسلام کی تعلیمات پر لگائے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی پیدائش سے قبل آپ کی زندگیاں آپ کے والدین نے اس امید اور خواہش سے وقف کی تھیں کہ اُن کا بچہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مشن کی خدمت کرے گا ۔بلوغت اور سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ کر آپ نے خود اس عہد کی تجدید کی ہے اور آپ نے خود وقفِ نَو کا ممبر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے نتیجہ میں آپ پر اپنے دین کی خاطر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس بارہ میں آپ پر بہت بڑا اعتماد کیا جاتاہے۔آجکل کی دنیا میں لوگ اسلام پر ہر جہت سے وار کر رہے ہیں۔اس لئے وقفِ نَو کی حیثیت سے ہمیں اپنے دین کے دفاع کے لئے صف اوّل میں کھڑا ہونا چاہئے ۔لیکن یہ زمانہ جہاد بالسیف کا زمانہ نہیں ہے۔بلکہ ہم ایک ایسے زمانہ میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ لٹریچر کے ذریعہ سے،میڈیا کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ کے ذریعہ سے اور اسی سے ملتے جلتے ذریعوں سے اسلام پر حملہ آور ہیں۔ اس لئے آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اُن الزامات کا ردّ اسی طرز سے کریں جس طرز سے وہ الزامات اسلام کے خلاف اٹھائے گئے ہیں ۔مثلاً بعض دہریوں نے اسلام کی تعلیمات کو بلا سیاق و سباق لے لیا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کر سکیں۔ اس لئے آپ کو اپنے دین کا علم ہونا چاہئے تاکہ آپ اُن کے غلط دعووں کا جواب دے سکیں۔ اسی طرح دوسرے ادیان کے لوگ یا بعض سیاستدان اور بعض صحافیوں نے اسلام کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔اور اُسے ایک تشددپسند مذہب قرار دیا ہے۔اس حوالہ سے المناک صورتحال یہ ہے کہ اُن کی شکایتیں اور اُن کے خوف کسی حد تک سمجھے جا سکتے ہیں اور کسی حد تک جائز ہیں۔نعوذ باللہ میراہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے خلاف اُن کے دعووں میں کوئی بھی حقیقت ہے۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ مسلمان دنیا کی عمومی حالت مایوس کُن اور قابل رحم ہو چکی ہے۔ اکثر مسلمان اپنے دین کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بہت سی جنگوں اور تنازعات کا مرکز مسلمان دنیا بنی ہوئی ہے۔ بعض نام کے مسلمان ایسی ایسی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں جنہیں ایک ایسا انسان جس میں انسانیت کی کوئی بھی رمق باقی ہے ہر گز سمجھ نہیں سکتا۔ دہشتگرد اور تشددپسند گروہ انتہائی ہولناک اور گھناؤنے مظالم ڈھا رہے ہیں۔ اُن کی گھناؤنی کارروائیاں ہر لحاظ سے اسلام کی غلط تصویر پیش کر رہی ہیں۔ وہ مسلسل بہیمانہ قتل و غارتگری، عصمت دری، لُوٹ مار وغیرہ میں ملوّث ہیں جنہیں بیان کرنا ناممکن ہے۔ اُن کی بُرائیوں کی کوئی حد نہیں ہے۔اور یہ ایک بہت بڑا سانحہ اور انتہائی افسوسناک حالت ہے کہ وہ ایسی بُری کارروائیوں کو اسلام کے نام پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانی جان کی سب سے زیادہ عظمت اور حُرمت قائم کی ہے۔ ایک طرف تو انتہاپسند نہتے اور معصوم غیر مسلموں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنے مسلمان ساتھیوں کا بھی خون بہا رہے ہیں۔ بےشک ایسے لوگوں کا مقدر جہنم ہےکیونکہ قرآن کریم میں قطعی طور پر لکھا ہے کہ اگر ایک مسلمان اپنے ساتھی مسلمان کو قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ ایک بے قصور انسان کا قتل تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ جس راہ سے بھی تصور کیا جائے ہر راہ سے مسلمان اسلام کے پاکیزہ نام کو بدنام کر رہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس وقفِ نَو ہونے کی حیثیت سے آپ کو لازمًا اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے جو آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ اسلام کا دفاع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور وقفِ نَو کا ممبر ہوتے ہوئے آپ کو لازمًا اس کوشش میں سب سے آگے ہونا چاہئے۔یہ ہر احمدی مسلمان کا کام ہے لیکن خاص طور پر یہ اُن کا کام ہے جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہےکہ وہ کھڑے ہوں اور دنیا پر ثابت کریں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور اس کا ہر گز اُس غیر منصفانہ تصویر سے کوئی تعلق نہیں جو ہم روزانہ میڈیا میں دیکھتے ہیں۔یہ آپ پرمنحصر ہے کہ آپ لوگوں کا خوف اور اُن کی غلط فہمیوں کو دُور کریں۔ اور انہیں قرآن کریم کی کامل تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اُسوۂ حسنہ سمجھائیں۔یہ جہاد جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے کا جہاد ہے آسان کام نہیں ہے اس لئے آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی اور بہت سی قربانیوں کے لئے تیارہونا ہوگا۔ اسلام کا دفاع کرنے کی بجائے مسلم دنیا کے نام نہاد علماء نے بار بار اسلام کا نام بدنام کیا ہے۔ انہوں نےطویل عرصہ سے مضحکہ خیز اور بلا سوچے سمجھے فتوے جاری کئے ہیں یا انہوں نے انتہائی فضول تفاسیر کی ہیں جن کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام کا مذاق اڑانے کا موقع مل رہا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے عربوں نے احمدیت قبول کی ہے۔لیکن جب وہ اپنے ملکوں میں علماء کے ہولناک واقعات سناتے ہیں تو انسان کو دھچکا لگتا ہے۔ وہ علماء اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے حکمت اورسچائی سے دوسروں کی رہنمائی کرنے کی بجائے اپنے اختیارات کا اور لوگوں کے اعتبارکابدترین طریق پر ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک انسان کسی ذہنی بیماری یا ہسٹیریا کی کسی صورت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اُس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنے کی بجائے یا کسی اَور علاج کی بجائے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ کسی جِنّ نے اُسے آ لیا ہے۔ اور جنّ کو نکالنے کے لئے وہ اُسے بیدردی سے مارتے پیٹتے ہیں یا کوئی اَور وحشیانہ طریق اختیار کرتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں اس بات پر بھی بڑی شدت سے ایمان رکھا جاتا تھا جسے آج بھی بعض دور دراز علاقوں میں مانا جاتا ہے کہ غیر مسلموں کے مال و دولت کو ناجائز طریق پر ہتھیانا یا لُوٹنا جائز ہے۔پھر اس سے بڑھ کر وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ایک غیر مسلم کی بیوی کو اغوا کرنا جائز ہے یا زبردستی ایک غیر مسلم عورت کو نکاح کے بغیر اپنے گھر لے جانا بھی جائز ہے۔ بعض مسلمانوں کی جہالت کے اس معیار پر بات کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کاایک ذاتی واقعہ بیان فرمایا جو ہندوستان کے شہر امرتسر میں آپ کو پیش آیا۔ امرتسر آمد پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان کو چار آنےکا سکہ دیا جو آج 25پینس کے برابر ہے۔آپؓ نے اُس مسلمان کو کہا کہ جاؤ اورمٹھائی لاؤ۔ جب وہ مسلمان واپس آیا تو اُس کے پاس مٹھائی بھی تھی اور پیسے بھی تھے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اسے پوچھا کہ یہ پیسے ابھی تک اُس کے پاس کیوں ہیں؟ اُس مسلمان نے جواب دیا کہ یہ تو مالِ غنیمت ہے یعنی جنگ کی لوٹ مار کا حصّہ ہے۔ یہ کیا ہی فضول بات ہے۔ پھر اُس مسلمان نے مزید بتایا کہ مٹھائی خریدنے کے بعد اُس نے دُکاندار کی توجہ کسی اَور طرف پھیر دی اور دکاندار سے کہا کہ وہ دُکان کی دوسری طرف سے فلاں چیز لائے۔چنانچہ جب وہ دکان کی دوسری طرف گیا تو اُس نے کاؤنٹر سے پیسے واپس لے لئے۔یہ سُن کر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بہت پریشان ہوئے اور فرمایا کہ یہ تو چوری ہے۔ اِس پر اُس مسلمان نے پُر سکون انداز میں کہا کہ یہ چوری میں شمار نہیں ہوتا کیونکہ دُکاندار ایک ہندو تھا۔ غیر مسلم کا مال و متاع لے لینا سراسر جائز ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ تو جہالت کی انتہا ہے اور اسلامی تعلیمات کی کلیۃً خلاف ورزی ہے۔ مزید بر آں بعض علماء یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ زمینوں کے حصول کے لئے اور لوگوں پر قبضہ کرنے کے لئے جارحانہ اور متشددانہ جہاد جائز ہے۔ یقیناً ایسے لوگوں کی وجہ سے بہت سی تشددپسند تنظیمیں دہشتگرد کارروائیوں مثلاً سر قلم کرنا یا اَور بہیمانہ اور سفّاکانہ کارروائیوں کو جائز ٹھہراتی ہیں۔ اگر یہ دشمنی اور ناانصافی سے پُرتعلیمات اسلام کا حصہ ہوتیں تو کون اپنے ذہنی توازن کو قائم رکھتے ہوئےانہیں قبول کرتا؟ جیساکہ مَیں نے کہا یہ فقط ماضی کے قصے اور کہانیاں نہیں ہیں بلکہ آجکل بھی بعض مسلمان ایسی بہیمانہ اور ظالمانہ کارروائیوں میں ملوّث ہیں۔پس یہ بعض جاہلانہ رویّوں اور عقائد کی مثالیں ہیں جو مسلمان دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ کون ایسی غیر منصفانہ تعلیمات کو مان سکتا تھا؟ کون ایسی مسخ شدہ اسلامی تعلیمات کو قبول کر سکتا تھا؟یقیناً کوئی مہذب انسان اسے ہر گز قبول نہیں کرے گا۔ البتہ ہم احمدیوں کو سچائی اور صداقت کا علم ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ دہشتگرد یا نام نہاد علماء جو اسلام کی تصویر ظاہر کر رہے ہیں اس کا اسلام کی حقیقی اور اصل اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے اور ہمیشہ یہی حقیقت رہے گی کہ اسلام اُن شاندار اور عظیم الشان تعلیمات پر مشتمل ہے جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عمل کیا ، خلفائے راشدین نے عمل کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ نے عمل کیا۔اسلام کے اُس اوائل زمانہ پر نظر ڈال کر بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سے مسلمان مسلسل اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور اسلام کی اصل تعلیمات کی تبلیغ جاری رکھے ہوئے تھے لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں گناہ اور بُرے اعمال راہ پانے لگے۔ یہ بُرائیاں جاری رہیں اور ترقی کرتی رہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی اکثریت اسلام کی حقیقی تعلیمات بھلا بیٹھی اور یہی وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے مبعوث کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی رہنمائی سے احمدی مسلمان نہایت خوش نصیب ہیں کہ انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات دکھائی گئیں۔ لیکن آپ کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ صرف زبانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کریں۔ البتہ آپ کا طرز عمل خاص طور پر وقفِ نَو ہونے کی حیثیت سے لازماً ہر آن نمونہ ہونا چاہئے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے گزاریں ۔ یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے اور لوگوں کو ان تعلیمات سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہو گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام ہر گز ایسا نہیں ہے جیساکہ میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جو قتل کرنے کی یا دوسروں کو معذور بنانے کی اجازت دیتا ہو ۔ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جو ایمان و عقائد میں کسی قسم کے جبر کی اجازت دیتا ہو۔اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جس میں عورتوں سے زیادتی کرنا،اُن کی عصمت دری کرنایا اُن کو اغوا کرنا جائز قرار دیا گیا ہو۔اسلام کوئی دہشتگردی یا تشدد پسند مذہب نہیں ہے۔ اسلام دشمنی اور انتقام والا مذہب نہیں ہے۔ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جو کسی قسم کے فریب ، دغابازی یا دھوکہ بازی کو جائز قرار دیتا ہو۔اسلام بداخلاقی یا گناہوں والا مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام ایسا مذہب ہے جو امن اور رواداری کو معاشرے کی ہر سطح پر فروغ دیتا ہے۔اسلام ایسا مذہب ہے جو ہمیں اپنے ایمان اور عقیدہ کے اختیار کرنے میں آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور مختلف اقوام ،مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اور اُن کے عقائد اور ایمانوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے ۔یہ وہ پیغام ہے جسے آپ کو ہمیشہ اپنے قول اور فعل سے دنیا کے ہر کونے میں پھیلانا چاہئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس وقت ماشاء اللہ15سال سے زائد عمر رکھنے والے واقفینِ نَو کی تعداد یہاں یوکے میں 1086ہے ۔ اگر آپ میں سے ہر ایک اپنے دین کی ذمہ داریوں کو سمجھے اور انہیں اپنا فرض بنا لے تو اس کے عظیم الشان نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے عہد کے تقاضے کو پورا کرنے والے ہوں تو آپ اُس نسل میں شمار کئے جا سکتے ہیں جو اس معاشرے میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے والی ہے۔ اس زمانہ میں صرف ہماری جماعت ہی ہے جو اسلام اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کر سکتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بے شک یہ تمام احمدیوں کا کام ہےلیکن سب سے بڑی ذمہ داری آپ جیسے لوگوں پر ہےجنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں۔ اس کام کو سر انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دین کو سمجھیں اور اس کی تعلیمات سے آگاہ ہوں۔ اس لئے آپ کو روزانہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہئےتاکہ آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جان سکیں اور ان پر عمل کر سکیں۔ اسی طرح آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنی چاہئیں جن کا ترجمہ انگریزی میں ہو چکا ہے۔ اور آپ میں سے وہ جنہیں اردو پڑھنی آتی ہے انہیں دوسری کتب بھی پڑھنی چاہئیں۔آپ کو ایم ٹی اے سے جُڑنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کم از کم ایک گھنٹہ خواہ کوئی بھی پروگرام ہو دیکھنا چاہئے۔ اور خاص طور پرمیرے خطبہ جمعہ کو سنا کریں۔ اس طرح آپ کا تعلق خلافتِ احمدیہ سے بھی قائم ہو گا۔ قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مطالعہ سے یا اَور ذرائع سے آپ کو جو علم حاصل ہو گا وہ آپ کے لئے عقل اور دانش کے ہتھیاروں کی مانند ہو گا اور روحانی اسلحہ کا کام دے گا تاکہ آپ اُن لوگوں کے الزامات کا جواب دیں اور اُن کے الزامات کا ردّ کریں جو اسلام کے خلاف بات کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مَیں بعض خصوصی ہدایات پیش کرنا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے پیروکاروں کو دی ہیں جن پر عمل کرنا ہر احمدی کا کام ہے۔ لیکن اِن ہدایات پر خاص طور پر اُن لوگوں کو عمل کرنا چاہئے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ انسان کے اخلاق و عادات کو ہر آن خدا تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہونا چاہئے۔اور اس حد تک ہونا چاہئے کہ دوسرے لوگ اُن کے اخلاق کی تصدیق کریں اور اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔

آپ ؑ نے مزید فرمایا کہ اگر ایک احمدی اس طرح عمل نہیں کرتا تو وہ احمدی مرد اور عورت بُرا نمونہ دکھانے کی وجہ سے قصوروار ہےجو دوسروں کے ایمان کو کمزور کر سکتا ہے۔ اور ایسے احمدی اسلام کو اُسی طرح بدنام کر رہے ہوں گے جس طرح دوسروں نے کیا ہے اور وہ اس کے مجرم ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ صرف وہ لوگ جو شرائط بیعت کے مطابق دین کو دنیا کے ہر معاملہ پر مقدم رکھنے والے ہوں گے وہی لوگ آپ کی جماعت کے حقیقی افراد سمجھے جائیں گے۔آپ میں سے اکثریت سمجھ بوجھ اور بلوغت کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ اس لئے آپ کو سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا آپ شرائط بیعت کو پورا کرنے والے ہیں؟

مزید برآں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ آپ کے ماننے والوں کو فُضول اور غیر اخلاقی قول و فعل سے دُور رہنا چاہئے ۔اس زمانہ میں غیر اخلاقی اور نامناسب ٹی وی پروگرامز یا فلمیں دیکھنا یا سوشل میڈیا پر یا مختلف چَیٹ گروپس پر چَیٹنگ کر کے وقت ضائع کرنا فضول اور غیر اخلاقی کاموں میں شامل ہے۔ایسے کام نقصان دہ ہیں اور بداخلاقیوں اور دوسرے گناہوں کا پیش خیمہ ہیں۔ اس لئے اگر آپ اِن بُرے کاموں میں پَڑ جائیں گے تو آپ اپنے عہد کو جو آپ نے وقفِ نَو کا کیا ہے پورا کرنے والے نہیں ہوں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بار بار تلقین کی ہے۔ پس ہمارے واقفین نَو کو بے نفس ہونا چاہئے اور کبھی بھی خود غرض نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کو اپنی ضرورتوں اور اپنے نام و نمود کی فکر کی بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آپ دوسروں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں اور اُن کے حقوق کس طرح ادا کر سکتے ہیں۔ ایک واقفِ نَو کو کبھی بھی دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہونا چاہئے اس کے بر عکس انہیں ہمیشہ ہمدرد ، شفیق اور دوسروں کا خیال کرنے والا ہونا چاہئے۔ اس وجہ سے کسی بھی جگہ آپ اگر کسی کی مدد اور کسی کی معاونت کر سکتے ہیں تو آپ کو کبھی بھی اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتا ہیوں کی معافی مانگتے ہوئے سنجیدگی سے توبہ کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے۔ آپ شاید اپنے اعمال کو دوسروں سے چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں ۔اس وجہ سے کبھی بھی ایسے کام نہ کریں جو اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید فرمایا ہے کہ اگر آپ کے ماننے والے اپنے اندر عملی تبدیلی پیدا نہیں کریں گےاور مسلسل روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اپنا معیار نہیں بڑھائیں گے تو اُن کا بیعت کرنا اور آپ کی جماعت میں داخل ہونا اُن کے لئے بے فائدہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اُن لوگوں کا رویہ جو اپنے عملی نمونہ میں ترقی نہیں کرتے ظاہر کرتا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنے کی ضرورت پر ایمان ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر ہر احمدی کو غور کرنا چاہئے اور اس پر سوچ و بچار کرنا چاہئے اور خاص طور پر وقفِ نَو کے ممبر کوضرور سوچنا چاہئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ میں سے اکثریت کی اب شادی ہو چکی ہے یا آپ میں سے اکثریت شادی کی عمر کو پہنچ رہے ہیں۔ اس لئے آپ کو میں یہ یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کو احمدی لڑکیوں سے شادی کرنی چاہئے۔ اپنی اہلیہ اور فیملی کی ذمہ داریوں کو حتی الوسع ادا کرناچاہئے۔ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ بخوشی شادی کے بندھن کو قائم رکھیں گے اور آپ کو اس کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ اپنے گھروں میں آپ کو بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اپنی فیملی سے پیار، شفقت اور عزت کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مزید بر آں وقفِ نَو ہونے کی حیثیت سے آپ کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت کے ساتھ آپ کا ایک گہرا تعلق رہے اور آپ جماعت کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ آپ میں سے وہ جنہیں ابھی تک کُل وقت جماعت کی خدمت کے لئے بلایا نہیں گیا انہیں چاہئے کہ اس کے باوجود وہ مسلسل اور باقاعدہ ایک وقت جماعت کی ڈیوٹیوں کے لئے مقرر کریں۔ اگر جماعت کی خدمت کے لئے روزانہ وقت دینا ممکن نہیں تو پھر کم از کم آپ کو ایک دن ہفتہ میں مقرر کرنا چاہئے۔ بعض واقفین نو ایسے ہیں جو نہ پڑھائی کر رہے ہیں اور نہ ہی کام کر رہے ہیں۔ اس لئے جب تک وہ کام کی تلاش میں ہیں انہیں وقف نَو کی انتظامیہ کو اپنے حالات سے مطلع کرنا چاہئے اور اس دوران جماعت کی خدمت کرنی چاہئے جب تک انہیں کوئی مناسب کام نہیں مِل جاتا۔ گھر پر وقت ضائع کرنا بالکل غلط اور نقصان دہ ہے اس لئے آپ کو فارغ وقت میں جماعت کی مفید خدمت کر نی چاہئے۔اسی طرح اگر آپ کسی کمپنی میں کام کرتے ہیں یا کہیں اَور تو آپ کو اپنے دین کے حوالہ سے ذمہ داریوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئےاور دوسروں کے لئے بہترین عملی نمونہ ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ آپ سے سیکھ سکیں۔ اس طرح آپ اپنے طرز عمل سے تبلیغ کر رہے ہوں گےاور ہمہ وقت وقف کرنے سے پہلے ہی آپ اسلام کے پیغام کو پھیلا رہے ہوں گے ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آخر پر مَیں کم عمر کے واقفینِ نَوکو اُن کی ذمہ داریوں کی یاد دلانا چاہتا ہوں جو اطفال الاحمدیہ کے ممبر ہیں ۔ آپ میں سے ہر ایک کو سکول میں اپنی تعلیم پر خاص توجہ دینی چاہئے۔ اسی طرح آپ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر یا دوسری الیکٹرانک گیمز کھیل کر اپنے اوقات ضائع نہیں کرنے چاہئیں بلکہ جب آپ کو فارغ وقت ملے تو آپ کو باہر جانا چاہئے، باہر گیمز یا ورزش کرنی چاہئے اور تازہ ہوا سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ یہ لمبے عرصہ کے لئے آپ کی صحت کے لئے مفید ہو گا ۔

اس کے علاوہ آپ کو اچھا برتاؤ کرنا چاہئے اور اپنے ماں باپ کا کہنا ماننا چاہئے۔سب سے بڑھ کر آپ کو لازماً روزانہ پنجوقتہ نماز ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور ہر معاملہ میں سچ بولنا چاہئے۔ ہر دن آپ کو آگے بڑھنا چاہئے اور سکول کی تعلیم کے علاوہ آپ کو اپنا دینی علم بھی بڑھانا چاہئے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو میری باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آپ سب اپنے وقف کے تقاضے کو بہترین رنگ میں پورا کرنے والے ہوں۔ مَیں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ آج جماعت احمدیہ گیمبیا بھی اپنا وقفِ نَو اجتماع منعقد کر رہی ہے۔ اس لئے وہ بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمارے اجتماع کا حصہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل فرمائے۔ اب دعا میں شامل ہو جائیں۔

آخر پر حضور انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button