الفضل ڈائجسٹمضامین

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

صحابہ رسول کی خدمت خلق کے نمونے

خدمت خلق، یعنی مخلوق کی بے لوث خدمت کرنا اور اس خدمت کے بدلہ کسی عنایت یا شکر کا منتظر نہ رہنا بلکہ محض لِلّٰہ مخلوق کے کام آنا رضائے باری تعالیٰ کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللہ۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی بے لَوث خدمت خلق کے بارہ میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

٭ خدمت خلق میں بھی رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ ہر پہلو سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلافت سے پہلے مدینہ کے ایک گھر میں بکریوں کا دودھ دوہ دیا کرتے تھے۔ آپؓ جب خلیفہ بنے تو اس گھر کی ایک کم سن لڑکی کہنے لگی اب ہماری بکریوں کو کون دوہے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا مَیں ہی تمہاری بکریاں دوہوں گا۔

٭ مدینہ کے اطراف میں ایک کمزور نابینا عورت رہتی تھی۔ حضرت عمرؓ اس کے گھر اس کی خدمت گزاری کے لئے جاتے۔ ایک بار انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص ان سے بھی پہلے یہ خدمت سرانجام دے دیتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ کون شخص ہے جو مجھ سے بھی پہلے کارِثواب سے بہرہ یاب ہوجاتا ہے۔ کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابوبکرؓ ہیں جو اس ضعیفہ و کمزور کی خدمت کرتے ہیں۔ بے اختیار کہنے لگے۔ یا خلیفۃ رسول اللہ! قسم ہے، روز آپ ہی سبقت لے جاتے ہیں۔

٭ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں میں جاتے۔ انہیں سودا سلف لادیتے۔ مقام جنگ سے قاصد آتا تو مجاہدین کے خطوط ان کے گھروں میں پہنچاتے۔ جس گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہ ہوتا خود ہی انہیں پڑھ کر سناتے، اُن کی طرف سے جواب لکھتے، رات کو عموماً آبادی کا حال معلوم کرنے کے لئے گشت کرتے۔

ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقامِ حرا پہنچے دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور پاس بچے بیٹھے رو رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس عورت نے کہا۔ بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ میں نے ان کو بہلانے کے لئے خالی ہنڈیا چولہے پر چڑھا رکھی ہے۔ حضرت عمرؓ اُسی وقت مدینہ آئے اور آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لے کر چلے۔ آپؓ کے غلام نے کہا: مَیں اٹھالیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا ’قیامت کے دن میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے‘۔ اور خود ہی سب سامان اُٹھاکر عورت کے پاس گئے۔ تو اُس نے کھانا پکاکر بچوں کو کھلایا۔

٭ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کو بازار میں ایک عورت نے روک کر کہا کہ اے امیرالمومنین! میرا خاوند فوت ہو گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ان کے پاس نہ کھیتی ہے، نہ زمین، نہ مویشی، نہ جانور اور وہ کچھ کمانے کے قابل بھی نہیں ہیں، مجھے ڈر ہے کہ وہ بھوک کے ہاتھوں ہلاک نہ ہو جائیں۔ اُس کی یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بیت المال گئے اور ایک اونٹ پر دو بورے اناج اور کچھ ضروری سامان بھی رکھا۔ پھر وہ اونٹ لے جاکر اُس عورت کو دے دیا اور فرمایا یہ اونٹ اور سامان لے لو اور ابھی یہ سامان ختم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اور بندوبست فرمادے گا۔

٭ حضرت عثمانؓ کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر کی فراوانی سے نواز رکھا تھا اور آپ نے ہمیشہ اس دولت سے رفاہ عامہ کے کام کروائے۔ آپؓ باقاعدگی کے ساتھ بیواؤں اور یتیموں کی خبرگیری کرتے۔ہجرت کے بعد مدینہ میں پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ تھا۔ تمام کنوؤں کا پانی کھاری تھا لیکن میٹھے پانی کا ایک کنواں کسی یہودی کی ملکیت تھا جس سے پانی لینا مسلمانوں کے لئے ایک مسئلہ تھا۔ آپؓ نے بیس ہزار درہم میں وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔ نیز مسجد نبوی کی توسیع کے لئے بھی اردگرد کی زمین خرید کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔

غزوۂ تبوک میں جب عسرت و تنگی نے مسلمانوں کو پریشان کر رکھا تھا تو آپؓ نے ہزاروں درہم صرف کرکے مجاہدین کے لئے سازوسامان اور اسلحہ وغیرہ مہیا کیا۔ اسی طرح ایک جہاد میں ناداری و مفلسی کے باعث مسلمان انتہائی پریشان تھے اور منافق اس حال میں طعنہ زن۔ تب آپؓ نے چودہ اونٹ مع سامان خورونوش رسول اللہ کی خدمت میں مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لئے پیش کئے۔

٭ غلاموں کو آزاد کروانا بھی صحابہؓ کا معمول تھا۔ حضرت ابوبکرؓ مکہ میں خاص طور پر بوڑھوں اور عورتوں کو اسلام لانے پر خرید کر آزاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ کے والد نے کہا کہ اگر قوی مردوں کو خرید کر آزاد کیا کرو تو وہ تمہاری مددکریں گے، تمہیں فائدہ پہنچائیں گے اور تمہارے دشمنوں کو تم سے دور رکھیں گے۔ آپؓ نے فرمایا: مَیں تو اس خدمت سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہوں۔

٭ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے غلاموں کے نگران سے پوچھا: کیا غلاموں کو کھانا کھلادیا ہے؟ اُس نے کہا: ابھی نہیں۔ فرمانے لگے: جاؤ انہیں کھانا کھلاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے گنہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اُن سے اُن کی خوراک روک لے جن پر وہ اختیار رکھتا ہے۔

٭ صحابہؓ بعض دفعہ غلاموں کے بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خود بھی کام میں اُن کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت سلمان فارسیؓ کو آٹا گوندھتے دیکھا تو تعجب سے پوچھا غلام کہاں ہے؟ فرمایا میں نے اسے ایک کام کے لئے بھیجا اور یہ پسند نہیں کیا کہ اس سے اَور کام لوں اور اس لئے آٹا خود گوندھ رہا ہوں۔

٭ حضرت زینبؓ متعدد یتیموں کی پرورش کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پوچھوایا کہ اپنے شوہر اور یتیموں پر صدقہ کروں تو جائز ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: اس کا دوہرا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت کا دوسرا صدقہ کا۔

٭ ایک یتیم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ کھانا کھایا کرتا تھا۔ ایک دن آپ نے کھانا منگوایا تو وہ موجود نہ تھا۔ آپ کھانا کھا چکے تو وہ آیا۔ آپ نے گھر پیغام بھجوایا تو کھانا موجود نہ تھا۔ آپ اس کے لئے ستّو اور شہد لے کر آئے اور کہا لو کھاؤ تم کسی نقصان میں نہیں رہے۔

٭ اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کئی یتیم بچوں کی پرورش فرماتی تھیں۔ آپؓ اُن یتیم بچوں کے اموال تجارت میں لگا دیتیں تا اُن کو فائدہ پہنچے۔

٭ حضرت طلحہؓ کو ایک دفعہ اُداس دیکھ کر ان کی اہلیہ نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے: میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہو گئی ہے اور مَیں اس فکر میں ہوں کہ اسے کیا کروں۔ اہلیہ نے کہا: اسے تقسیم کروا دیجئے۔ آپؓ نے اسی وقت چار لاکھ کی رقم اپنی قوم کے مستحقین میں تقسیم کرادی۔

حضرت طلحہ بنوتمیم کے تنگ دست خاندانوں کی کفالت کیا کرتے تھے، لڑکیوں اور بیوگان کی شادیوں میں ان کی مدد کرتے، مقروضوں کے قرض ادا کرتے۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے کسی کو یہ شعر پڑھتے سنا کہ میرا ممدوح ایسا شخص تھا کہ جب بھی اسے فراخی نصیب ہوتی تو دولت اُسے اپنے دوست کے اَور قریب کر دیتی تھی اور فقر اُسے اپنے دوستوں سے دُور رکھتا یعنی کبھی تنگی میں بھی وہ کسی سے سوال نہ کرتا۔ حضرت علیؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا ’’خدا کی قسم! یہ صفت حضرت طلحہؓ میں خوب پائی جاتی تھی‘‘۔

٭ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں مدینہ میں قحط پڑ گیا۔ حضرت عثمانؓ کا تجارتی قافلہ سب سے پہلے مدینہ پہنچا۔ اونٹوں کی قطاروں کی قطاریں غلّہ سے لدی ہوئی تھیں۔ مدینہ کے کئی تاجر ڈیڑھ گُنا سے زیادہ قیمت ادا کرکے بھی وہ مال خریدنے کے خواہشمند تھے۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ نفع ملتا ہے کیونکہ میرا خدا مجھے ایک درہم کے مقابلہ پر دس درہم کی نوید سناتا ہے۔ پھر آپؓ نے ان تمام اونٹوں پر لدا ہوا مال مدینہ کے غرباء کے لئے وقف کردیا۔

٭ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ فلاں شخص کا ایک کھجور کا درخت ہے اور میں اپنی دیوار کی ٹیک اس سے لگانا چاہتا ہوں۔ آپ اس سے کہہ دیں کہ وہ مجھے کھجور کا وہ درخت دیدے تا میں اپنی دیوار کو ٹیک لگا سکوں۔ آپؐ نے اُس آدمی سے کہا کہ جنت کے کھجور کے درخت کے عوض اِسے یہ درخت دیدو۔ اُس نے انکار کر دیا۔ جب حضرت ابو دحداحؓ تک یہ بات پہنچی تو آپ اُس شخص کے پاس گئے اور اُس کا کھجور کا درخت اپنے ایک باغ کے عوض حاصل کرلیا اور پھر وہ درخت آپؐ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر آنحضور ﷺ نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا کہ ابودحداح کے لئے کھجور کے کتنے بڑے اور بھاری خوشے ہیں۔

جب حضرت ابودحداحؓ نے اپنی بیوی کو یہ ساری بات بتائی تو بیوی نے بھی کہا کہ بڑا نفع مند سودا ہے۔

٭ ایک دن حضرت حسنؓ طواف کررہے تھے۔ اسی حالت میں ایک شخص نے آپؓ کو اپنی کسی ضرورت کے لئے ساتھ لے جانا چاہا۔ آپؓ طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ ہوگئے اور جب اس کی ضرورت پوری کرکے واپس آئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ آپ طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ کیوں چلے گئے؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو جانے والے کو ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ اگر پوری نہ بھی ہو تو بھی ایک عمرہ کا ثواب مل جاتا ہے۔ اس لئے میں نے طواف کے بجائے پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب حاصل کیا ہے اور پھر واپس آکر طواف بھی پورا کرلیا ہے۔

٭ حضرت ابوقتادہؓ سے ایک شخص نے قرض لیا۔ آپؓ مقررہ میعاد کے بعد جب بھی اس سے رقم لینے آتے وہ چھپ جاتا۔ ایک دن آپؓ نے اُسے جالیا اور چھپنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا کہ سخت تنگدست ہوں، میرے پاس کچھ نہیں کہ قرض ادا کرسکوں۔ یہ سن کر حضرت ابوقتادہؓ آبدیدہ ہوگئے اور یہ کہتے ہوئے اُسے مزید مہلت دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنے قرضدار کو مہلت دیتا ہے یا اس کا قرض معاف کر دیتا ہے وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں ہوگا۔

اسی طرح حضرت ابوالیسرؓ نے ایک شخص سے قرض لینا تھا لیکن وہ ملنے سے پہلو تہی کرتا۔ آپؓ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ تنگدستی کی وجہ سے شرم دامنگیر تھی۔ آپ نے اُس کا قرض معاف کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے تنگدست کو مہلت دی یا قرض معاف کیا تو وہ قیامت کے دن خدا کے سایہ میں ہوگا۔

صحابہ کرامؓ جہاں قرضداروں کا قرض معاف کرکے یا انہیں مہلت دے کر ان کی خدمت کرتے تھے اسی طرح مقروض کی طرف سے قرضہ ادا کرکے بھی خدمت بجالاتے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے باغ خریدا۔ سوء قسمت! ایسی آفت آئی کہ تمام پھل ضائع ہو گیا۔ اب قیمت کیونکر ادا ہو۔ جب صحابہؓ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ان کی معاونت و اعانت کی اور اس طرح قیمت ادا ہوگئی۔

ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فلاں قبیلہ کا کوئی شخص ہے؟ ایک صحابیؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تمہارا بھائی قرض میں ماخوذ ہے۔ اس صحابیؓ نے اس کا کل قرض ادا کردیا۔

ایک دفعہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی گئی کہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپؐ نے فرمایا آپ لوگ جنازہ پڑھ لیں۔ چونکہ یہ مقروض ہے اس لئے مَیں نہیں پڑھوں گا۔ اس پر حضرت ابوقتادہؓ نے عرض کیا حضور! میں اس قرض کی ادائیگی کا ذمہ لیتا ہوں۔ حضور نے فرمایا یہ ذمہ داری وفا کے ساتھ پوری کروگے؟ انہوں نے کہا جی حضور!۔ تب آپؐ نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائی۔

٭ اشعری قبیلہ کے لوگ مدینہ میں ہجرت کرکے آگئے تھے۔ ان لوگوں میں باہم تعاون اور مدد کی روح تھی جبکہ غزوات کے دوران یا مدینہ میں رہتے ہوئے ان کا زاد راہ ختم ہو جاتا یا کھانے پینے کا سامان کم ہو جاتا تو ہر شخص کے گھر میں جو کچھ ہوتا وہ سب لا کر ایک جگہ اکٹھا کرتے اور پھر سب میں برابر تقسیم کرلیتے۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں۔

٭ صحابہ کرمؓ ہمیشہ ایک دوسرے کی اعانت و مدد کرتے تھے۔ حضرت اسماءؓ (بنت ابوبکرؓ) گھر کے سب کام نمٹا لیتی تھیں بلکہ جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال بھی کرلیتی تھیں مگر انہیں روٹی پکانا نہیں آتی تھی۔ اس سلسلہ میں ان کے ہمسائے ان کی مدد کرتے تھے اور روٹی پکا دیتے تھے۔

٭ حضرت جعفرؓ اصحاب صُفّہ کا خاص خیال رکھتے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں جب مجھے بھوک ستاتی تو میں لوگوں سے ان آیات کا مطلب پوچھتا جن میں مساکین اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے۔ جب بھی حضرت جعفرؓ سے پوچھنے کا اتفاق ہوتا وہ پہلے اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلاتے پھر کوئی اور بات کرتے ۔ آنحضورؐ نے اُن کا نام ہی ابوالمساکین رکھا ہوا تھا۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس قدر مسکین نواز تھے کہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کسی مسکین کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک نہ کرلیں۔

اس ایمان افروز مضمون کا بقیہ حصہ آئندہ کسی شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں پیش کیا جائے گا۔ انشاء اللہ

…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button