الفضل ڈائجسٹمضامین

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

آنحضرت ﷺ کی ہمدردیٔ مخلوق

آنحضورﷺ نے اپنی جامع اور خوبصورت تعلیم کے ذریعہ بنی نوع انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ ہرانسان کی جان،مال اور عزت کی حرمت قائم فرمادی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں آنحضور ﷺ کی بے لَوث ہمدردیٔ مخلوق کے بارہ میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس کے پہلے حصہ کی تلخیص گزشتہ شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنائی گئی تھی۔

آپؐ فرماتے تھے مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ اور سلامت رہیں۔

رسول کریمؐ کوامت کے کمزور طبقہ کا اتنا خیال تھا کہ قربانی کی عید پر دو موٹے تازے مینڈھے خریدتے۔ ایک اپنی امّت کے ہر اس فرد کی طرف سے ذبح کرتے جو توحید اوررسالت کی گواہی دیتا ہے، دوسرا مینڈھا اپنے اہل خاندان کی طرف سے ذبح فرماتے۔

ایک غریب شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! مَیں تو مارا گیا۔ ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کربیٹھا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ایک گردن آزادکردو۔ کہنے لگا،مجھے اس کی توفیق کہاں!۔ فرمایا: پھر مسلسل دو مہینے کے روزے رکھو۔ کہنے لگا مجھے اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادو۔ اس نے کہا یہ سب میری استطاعت سے باہر ہے۔ دریں اثناء کھجوروں کی ایک ٹوکری رسول اللہ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ آپؐ نے اس مفلوک الحال سائل کو بلوایا اور وہ ٹوکری اس کے حوالے کر کے فرمایا یہ صدقہ کردو۔ وہ بولا مدینہ کی بستی میں ہم سے غریب اَور کون ہے جس پر یہ صدقہ کروں۔ رسول کریمؐ اُس کے اِس جواب پر خوب مسکرائے اور فرمایا اچھا پھر یہ کھجوریں خود ہی لے لو۔

ایک بار رسول اللہ کی خدمت میں ایک غریب قوم (مضر قبیلہ) کے کچھ لوگ آئے جو ننگے پائوں اور ننگے بدن تھے۔ ان کی بھوک اور افلاس کی حالت دیکھ کر رسولؐ اللہ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔آپؐ گھر تشریف لے گئے۔ پھر باہر آکر بلالؓ سے کہا کہ ظہرکی اذان دو۔ آپؐ نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایااور اُن کے لئے صدقہ کی تحریک فرمائی۔ لوگوں نے دینار، درہم، کپڑے ، جَواورکھجور وغیرہ صدقہ کیایہاں تک کہ غلّے کے دو ڈھیر جمع ہوگئے۔ جنہیں دیکھ کر آپؐ کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا۔

نبی کریم ﷺغرباء کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہر کمزور اور ضعیف آدمی جنتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرماتے کہ وہ دعوت بہت بری ہے جس میں صرف امراء کو بلایا جائے اور غربا ء کو شامل نہ کیا جائے۔ ایک روز نماز کے لئے جاتے ہوئے آپؐ ایک غلام بچے کے پاس سے گزرے جو ایک بکری کی کھال اتاررہا تھا۔ آپؐ نے اسے فرمایا تم ایک طرف ہوجائو میں تمہیں کھال اُتارنے کا طریقہ بتاتا ہوں ۔تب آپؐ نے اپنا بازو جلد اور گوشت کے درمیان داخل کیا اور اس کو دبایا یہاں تک کہ بازو کندھے تک کھال کے اندر چلاگیا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے بچے! کھال اس طرح اتارتے ہیں۔ پھر آپؐ نے جاکر نماز پڑھائی جبکہ دوبارہ وضو نہیں فرمایا۔

حضرت ربیعۃ الاسلمیؓ کہتے ہیں مَیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ایک روز آپؐ نے پوچھا کہ ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک تو مجھے بیوی کے نان و نفقہ کی توفیق نہیں اور دوسرے مَیں یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اورمصروفیت مجھے آپؐ کی خدمت سے محروم کردے۔ آپؐ خاموش ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر فرمایا ربیعہ! شادی کیوں نہیں کرلیتے۔ مَیں نے وہی پہلے والا جواب دیا مگر اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ آپؐ دنیا اور آخرت کے مصالح مجھ سے بہتر جانتے ہیں اس لئے اب اگرآئندہ مجھ سے شادی کے بارہ میں پوچھا تو میں کہہ دوں گا کہ حضور کا حکم سر آنکھوں پر۔ اگلی مرتبہ جب حضورؐ نے شادی کے بارہ میں تحریک فرمائی تو مَیں نے کہہ دیا کہ جیسے حضوؐر کا حکم ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم انصار کے فلاں قبیلہ کے پاس جائو اور انہیں کہو کہ رسول اللہ ؐنے مجھے آپؐ کے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فلاں لڑکی کی مجھ سے شادی کردیں۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ؐ اور آپؐ کے نمائندے کو خوش آمدید! … انہوں نے میری شادی کردی اور بڑی محبت سے پیش آئے۔ کوئی تصدیق وغیرہ طلب نہ کی کہ واقعی تمہیں رسول اللہؐ نے ہی بھیجا ہے۔ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں واپس لَوٹا تو غمزدہ سا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ربیعہ تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہؐ میں ایک معزز قوم کے پا س گیا۔ انہوں نے میری شادی کی۔ عزت افزائی اور محبت کا سلوک کیا اور مجھ سے کوئی ثبوت تک نہ مانگا۔ اِدھرمیرا حال یہ کہ میرے پاس تو مہر ادا کرنے کو بھی پیسے نہیں۔آنحضورؐ نے بُریدہؓ اسلمی کو حکم دیا کہ حق مہر کے لئے گٹھلی برابرسونا جمع کرو۔ انہوں نے تعمیلِ ارشاد کی۔ آنحضورؐ نے فرمایا اب ان لوگوں کے پاس جاؤاور یہ مہر ادا کردو۔ مَیں نے ایسا ہی کیا ۔ انہوں نے بہت خوشی سے اسے قبول کیا اور کہا کہ یہ رقم بہت کافی ہے۔ میں پھر رسولؐ اللہ کی خدمت میں پریشان ہوکرواپس لوٹا۔ آپؐ نے فرمایا ربیعہ اب کیوں پریشان ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس خاندان جیسے معزز لوگ میں نے نہیں دیکھے۔ میں نے انہیں جو مہر دیا انہوں نے خوشی سے قبول کیا اور مجھ سے احسان کا سلوک کیا مگر میرے پاس اب ولیمے کی توفیق نہیں۔ آپؐ نے پھر بریدہؓ سے فرمایا اس کے لئے بکری کا انتظام کرو۔انہوں نے میرے لئے ایک بڑے صحتمند مینڈھے کا انتظام کردیا۔ رسول اللہ نے فرمایا عائشہ کے پاس جائو اورانہیں کہو کہ غلے کا ایک ٹوکرا دے دیں۔میں نے حسبِ ارشاد جاکر عرض کر دیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ ٹوکرا ہے جس میں (نو صاع تقریباً 30کلو) جَو ہیں۔خدا کی قسم! ہمارے گھر میں فی الوقت اس کے علاوہ اور کوئی غلّہ نہیں، بس تم لے جائو۔ مَیں یہ لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عائشہؓ نے جو کہا تھا وہ بھی عرض کردیا۔ آپؐ نے فرمایا اب یہ غلّہ اپنے سسرال لے جائو اور انہیں کہو کہ کل اس سے روٹی وغیرہ بنائیں۔ میں غلہ اور مینڈھا لے کر گیا اور میرے ساتھ اسلم قبیلے کے کچھ لوگ بھی تھے۔ ہم نے انہیں کھانا تیار کرنے کے لئے کہا۔ وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کروا دیں گے، جانور آپ لوگ ذبح کرلیں۔ چنانچہ ہم نے گوشت تیار کر کے پکایا اور اگلی صبح مَیں نے گوشت روٹی سے ولیمہ کیا اور رسول اللہ کو بھی دعوت دی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضورﷺ نے مجھے کچھ زمین عطا فرمادی۔ کچھ زمین حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دے دی پھر تو فراخی ہوگئی۔

نبی کریمؐ کبھی کسی سائل کو ردّ نہ فرماتے اور حسبِ توفیق و موقع جو میّسرہوتاعطافرماتے۔ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐیں اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپؐ مجھے کچھ عطا فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’سردست تو میرے پاس کچھ نہیں البتہ کل ایک کشادہ منہ والی شیشی اور ایک درخت کی شاخ بھی لے آنا۔ اگلے روز وہ شخص یہ دونوں چیزیں لے کرآیا۔ نبی کریمؐ اپنے بازوئوں سے پسینہ جمع کر کے اس شیشی میں اکٹھا کرنے لگے یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ یہ لے جائو اور اپنی بیٹی سے کہنا کہ جب خوشبو لگانا چاہے تو یہ شاخ شیشی میں ڈال کر اس سے خوشبو استعمال کرلے۔ چنانچہ وہ گھرانہ جب یہ خوشبو استعمال کرتا تو اہل مدینہ اسے بہترین خوشبو قراردیتے۔ یہاں تک کہ اس گھرانے کا نام ہی ’’بہترین خوشبووالوں کا گھر‘‘ پڑگیا۔

رسول کریمؐ نے ایک دفعہ ایک حدیث قدسی بیان فرمائی جس سے خلقِ خدا سے ہمدردی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ فرمایا’’اللہ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم! مَیں بیمار تھا، تُو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا اے میرے ربّ! مَیںکیسے تیری عیادت کرتا تُوتو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ اللہ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمارتھا اور تُو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس موجود پاتے۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تُو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ کہے گا اے میرے ربّ میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا اورتُو تو ربّ العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تُو اُسے کھانا کھلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تُونے مجھے پانی نہ دیا۔ بندہ کہے گا میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تُو ربّ العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا تجھ سے میرے ایک بندے نے پانی مانگا تھا تُو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تُو اُسے پانی پلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا۔

رسول کریم ﷺ خدمت خلق کے کاموں میں اپنے اصحاب کا جائزہ لیتے رہتے تھے تاکہ اُن میں یہ جذبہ بڑھے۔ایک روز آپؐ نے پوچھا: آج تم میں سے کسی نے روزہ رکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اثبات میں جواب دیا۔آپؐ نے فرمایا: آج تم میں سے مریض کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا جی۔ پھر فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کے جنازہ میں کسی نے شرکت کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ مجھے توفیق ملی۔ رسول کریمؐ نے پوچھا آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا؟۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: انہیں یہ سعادت بھی ملی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا ’’یہ سب باتیں جس نے ایک دن میں جمع کرلیں وہ جنّت میں داخل ہوا‘‘۔

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺخود ایک یتیم تھے مگر لاوارث یتامیٰ و ایامیٰ کے والی اور محافظ بن کر آئے تھے۔ آپؐ نے قرآنی تعلیم کے ذریعہ ان کے حقوق نہ صرف قائم کئے بلکہ معاشرہ سے دلوا کر دکھائے۔ آپؐ نے فرمایاکہ ’’بیوگان اور مسکین کے لئے کوشش اور خدمت میں لگا رہنے والا اللہ کی راہ میں جہادکرنے والے اور اس عبادتگزار کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا‘‘۔ آپؐ نے اُحد میں زخمی ہوکر شہید ہونے والے ابوسلمہؓ کی بیوہ سے نکاح کر کے جہاں قومی ضرورت کے تقاضے پورے کئے وہاں اُن کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال بھی رکھا۔ آپؐ خود اُن کے یتیم بچے سلمہؓ کو دستر خوان پر اپنے پاس بٹھاکر کھانا کھلاتے ا ور اس کو آداب سکھاتے۔

حضرت عبداللہ ؓبن مسعود کی بیوی حضرت زینب ؓ نے پوچھوایا کہ کیا مَیں اپنے مرحوم شوہر کے زیرپرورش بچوں پر صدقہ کرسکتی ہوں ؟رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں تو اس کادوہرا اجر ہوگا۔ ایک قرابت دار یتیم بچوں سے حسن سلوک کا اور دوسرے صدقہ کرنے کا ۔

حضرت بشیرؓ بن عقربہ جہنی کے والد اُحد میں شہید ہوگئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲؐ سے اپنے والد کے بارہ میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایاوہ شہید ہوگئے ہیں، …۔ مَیں یہ سن کر رونے لگا۔ اس پر آپؐ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، مجھے اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا اور فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ میں تمہاراباپ ہوں گا اور عائشہ تمہاری ماں۔

غزوہ اُحد کے ایک شہید حضرت سعد بنؓربیع نے دو بچیاں چھوڑیں۔ وہ صاحبِ جائیداد تھے۔ ابھی ورثہ کے احکام نہیں اترے تھے اس لئے پرانے رواج کے مطابق بچیوں کے چچا نے بھائی کی جائیداد سنبھال لی۔ تب میراث کی آیات اتریں تو رسول کریم ﷺ نے ان یتیم بچیوں کے چچا کو بلوا کر ان احکام سے آگاہ کیا اور حضرت سعدؓ کی دونوں بیٹیوں کو تیسرا تیسرا حصہ اور اُن کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کی ہدایت فرمائی۔

امّ المومنین حضرت زینبؓکے بھائی حضرت عبداللہؓ بن جحش نے میدانِ احد میں شہادت کی دعا کی تھی جو قبول ہوئی اور وہ جوانی میں شہید ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نسبتی بھائی کے مال و اولاد کی نگرانی خودسنبھال لی اور ان کے یتیم بیٹے محمد کے لئے خیبر میں زرعی اراضی خریدنے کا اہتمام فرمایا ۔

حضرت حمزہؓ کی بیٹی فاطمہ مکّہ میں رہ گئی تھی۔ فتح مکّہ کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بھائی بھائی کہتے ہوئے حاضر خدمت ہوئی۔ چونکہ یتیم بچی کی شادی نہ ہونے تک اس کی کفالت کی ذمہ داری ادا کرنی لازم ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت جعفرؓ کی خواہش تھی کہ اپنی اس چچا زاد بہن کی کفالت کا حق وہ ادا کریں۔ جبکہ حضرت زیدؓ نے بھی (جن کی مؤاخات حضرت حمزہؓسے ہوئی تھی) بیٹی کی کفالت کی پُرزور پیشکش کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ کو حضرت جعفرؓ کے سپرد کیا کیونکہ بوجہ خالو ہونے کے اُن کا دوہرا رشتہ تھا ۔

اُحد کے ایک شہید حضرت عبداﷲؓ نے اپنے پیچھے بیٹے حضرت جابرؓ کے علاوہ نو (9)بیٹیاں چھوڑیں اور وہی اُن کے واحد کفیل تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس خاندان کے ساتھ ہمیشہ شفقت بھراسلوک روا رکھا۔ ایک روز حضرت جابرؓ کو مغموم دیکھ کر سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲؐ! والد کی شہادت کے بعد بہنوں کی ذمہ داری کے علاوہ قرض بھی ہے۔ رسولؐ اللہ نے ان کو دلاسا دیا اور خود موقع پر جا کر یہودی ساہو کاروں کا سارا قرض ادا کرنے کا انتظام کروایا۔ پھر حیلوں بہانوں سے جابرؓ کو اس طرح عطا فرماتے رہے کہ اُن کی عزت نفس میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔ مثلاً ایک سفرمیں اُن سے ایک اونٹ خریدا اور پھروہ اونٹ مع قیمت اُن کو واپس کرکے اُن کی امدادکے سامان کئے اور اُن سے مزیدوعدہ فرمایا کہ جب بحرین کا مال آئے گا تو مَیں اِس اِس طرح تمہیں دوں گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے میں جب وہ مال آیا تو انہوں نے آنحضورؐ کا وعدہ پورا کر دکھایا اور یوں وفات کے بعد بھی آپؐ کی جابرؓ سے عنایات کا سلسلہ جاری رہا۔

ایک بار ایک بچہ نے آکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ مَیں ایک یتیم ہوں، میری ایک یتیم بہن بھی ہے اور ہماری بیوہ ماں ہم یتیموں کی پرورش کرتی ہے۔ آپ ؐ اﷲ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اس کھانے میں سے جو آپ کے پاس ہے ہمیں اتنا عطا فرما دیں کہ ہم راضی ہوجائیں۔ رسول اﷲؐ نے فرمایا: اے بچے! تم نے کیا خوب کہا۔ ہمارے گھر والوں کے پاس جاؤ اور جو کھانے کی چیز اُن سے ملے وہ لے آؤ۔بچہ آپ ؐ کے پاس اکیس کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کھجوریں اپنی ہتھیلی پر رکھیںاور ہتھیلیاں اپنے منہ کی طرف اُٹھائیں جیسے آپؐ اﷲ تعالیٰ سے برکت کی دعا کر رہے ہوں۔ پھر فرمایا: بچے! سات کھجوریں تمہارے لئے، سات تمہاری ماں کے لئے اور سات تمہاری بہن کے لئے ہیں۔ ایک کھجور صبح اور ایک شام کو۔ جب وہ بچہ جانے لگا تو حضرت معاذ بن جبل ؓ نے اپنا ہاتھ اس بچے کے سر پر رکھا اور کہنے لگے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری یتیمی کا مداوا کرے اور تمہارے باپ کا اچھا جانشین تم کو عطا کرے۔ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا اے معاذ! آپ نے اس بچے کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ مَیں نے دیکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس بچے سے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر میں نے ایسا کیا۔ آپ ؐ نے فرمایا:’ ’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ،مسلمانوں میں سے کوئی شخص یتیم کا والی نہیں بنتا مگر اﷲ تعالیٰ اس شخص کو یتیم کے ہربال کے عوض ایک درجہ بڑھاتا ہے اور ہر بال کے عوض ایک اور نیکی عطا کرتا اور ہر بال کے برابر ایک گناہ معاف فرماتا ہے‘‘۔

جنگ موتہ میں آپؐ کے چچا زاد حضرت جعفرؓ طیار شہید ہوگئے تو رسول کریم ؐ بنفس نفیس اُن کے گھر ان کی شہادت کی خبر دینے تشریف لے گئے۔ اُن کی بیوہ حضرت اسماءؓ بنت عمیس کا بیان ہے کہ اُس وقت مَیں گھر کے کام کاج آٹا وغیرہ گوندھنے کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کر فارغ ہوئی ہی تھی۔ آپ ؐنے فرمایا کہ جعفر کے بچوں کو میرے پاس لائو۔ مَیں انہیں رسولؐ اللہ کے پاس لے آئی۔ آپؐ نے ان کو گلے لگایا اور پیار کیا، آپؐ کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ مَیں نے گھبرا کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ کس وجہ سے روتے ہیں؟ کیا جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں کوئی خبر آئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں وہ آج شہید ہوگئے۔ مَیں اس اچانک خبر کو سن کر چیخنے لگی۔ دیگر عورتیںبھی افسوس کے لئے اکٹھی ہوگئیں۔ رسول کریمؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ہدایت فرمائی کہ جعفر کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا وغیرہ بناکر بھجوانا کیونکہ اس صدمہ کی وجہ سے انہیں مصروفیت ہوگئی ہے۔ پھر آپؐ دوبارہ اُن کے ہاں تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اوربچوں کے لئے دعا کی۔ تیسرے روز آپؐ پھر حضرت جعفرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ’’بس اب آج کے بعد میرے بھائی پر مزیدنہیں رونا‘‘۔ آپؐ نے ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام اپنے ذمہ لے لیا۔

حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ آپؐ نے حجام کو بلوایا ہمارے بال وغیرہ کٹوائے اور ہمیں تیار کروایا۔ بہت محبت وپیار کا سلوک کیا اور فرمایا ’’جعفرطیار کا بیٹا محمد تو ہمارے چچا ابو طالب سے خوب مشابہ ہے اور دوسر ا بیٹا اپنے باپ کی طرح شکل اور رنگ ڈھنگ میں مجھ سے مشابہ ہے۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور درد دل سے یہ دعا کی:اے اللہ! جعفر کے اہل و عیال کا خود حافظ و ناصر ہو۔ اور میری تجارت میں برکت کے لئے بھی دعا کی۔

پھر ایک مرتبہ جب اسماءؓ نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں اپنے بچوں کی یتیمی کا ذکر کیا تو آپ ؐنے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کبھی ان بچوں کے فقروفاقہ کا خوف مت کرنا میں نہ صرف اس دنیا میں ان کا ذمہ دار ہوں بلکہ اگلے جہاں میں بھی ان کا دوست اور ولی ہوں گا۔

ایک دفعہ ایک یتیم بچے کا حضرت ابو لبابہؓ سے کھجور کے ایک درخت پر تنازعہ ہوگیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ابولبابہؓ کے حق میں فیصلہ فرمایا تو یتیم بچہ رونے لگا۔ اس پر آپؐ نے ابولبابہ کو تحریک فرمائی کہ بیشک درخت آپ کا ہے مگر یہ اس یتیم بچے کو دیدیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے عوض جنّت میں درخت عطا فرمائے گا ۔ابو لبابہؓ نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔ حضرت ثابتؓ بن دحداح کو پتہ چلا تو انہوں نے ابولبابہؓ سے اپنے باغ کے عوض وہ درخت خرید لیا اور پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر مَیں وہ درخت لے کرپیش کردوں توکیا مجھے بھی اس کے عوض جنت میں درخت ملے گا؟۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں ۔ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ جب شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابودحداح کے لئے جنت میں کتنے ہی پھلدار درخت جھکے ہوں گے۔

ایک غزوہ سے واپسی پرجب اسلامی لشکر کے پاس پانی ختم ہو گیاتو صحابہ پانی کی تلاش میں نکلے۔ ایک عورت اونٹ پر پانی لاتی ہوئی ملی۔ معلوم ہوا کہ بیوہ عورت ہے جس کے یتیم بچے ہیں۔ رسول کریمؐ نے اس کے مشکیزہ پر برکت کے لئے دعا کی۔ پھر اس کے پانی سے تمام لشکر نے پانی لیا مگر پھر بھی پانی کم نہ ہوا۔ پھر رسول اﷲ ؐ نے اس بیوہ عورت سے حسن سلوک کی خاطر صحابہ کے پاس موجود زادراہ جمع کروالی اور اس بیوہ عورت کو کھجوریں اور روٹیاں عطا کرتے ہوئے فرمایا ہم نے تمہارا پانی ذرا بھی کم نہیں کیا اوریہ زادراہ تمہارے یتیم بچوں کے لئے تحفہ ہے۔ اس عورت نے اپنے قبیلہ میں جا کرکہا کہ مَیں ایک بڑے جادو گر کے پا س سے ہو کر آ ئی ہوں یا پھر وہ نبی ہے۔یوں اس عورت کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے اس قبیلہ کو ہدایت دی اور وہ مسلمان ہو گئے۔

رسول کریم ﷺاپنے بیمار صحابہ کی عیادت فرماتے اور ان کے لئے دعا کے علاوہ بسااوقات مناسب دوا بھی تجویز فرماتے۔ آپ ؐ فرماتے کہ ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے۔ آپؐ بعض بیماریوں کا علاج روحانی دعا وغیرہ سے فرماتے۔ ایک دفعہ حضورؐ نے ابوہریرہؓ کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ عرض کیا جی ہاں۔فرمایا نماز پڑھو، اس میں شفاء ہے۔

٭ اسی طرح رسول کریمؐ دم اور دعا سے بھی علاج فرماتے تھے۔اپنی بیماری کے دنوںمیں قرآن کی آخری دو سورتیں (معوّذتین) پڑھتے تھے۔اسی طرح فاتحہ کی دعا سے بھی بسااوقات علاج فرمایا کرتے۔

خدمت خلق کے عالمی ادارے اور شخصیات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں خدمت خلق کے چند عالمی اداروں اور شخصیات کا مختصر تعارف بھی شامل اشاعت ہے۔

مدرٹریسا

مشہور سماجی کارکن خاتون مدرٹریسا کا اصل نام Agnes Gonxha Bojaxhiu ہے۔ وہ 27؍اگست 1910ء کو سربیا (یوگوسلاویہ) میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک البانی پرچون کی دکان والے کی بیٹی تھیں۔ 12 برس کی عمر سے وہ رفاہی کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ پہلے ڈبلن میں ایک مشنری ادارے سے وابستہ ہوئیں اور پھر نن (Nun) بن گئیں۔

آپ نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور 1929ء میں انگریزی کی استانی کے طور پر ہندوستان تشریف لائیں اور کلکتہ میں ایک کانونٹ درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ ستمبر 1946ء میں غریبوں اور افلاس زدہ لوگوں کے لئے رفاہی کاموں کا آغاز کیا۔ا بتداء میں کچھ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگست 1948ء میں انہوں نے ویٹکن (روم) کی باقاعدہ اجازت سے ایک خیراتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کی ہندوستان بھر میں اس وقت متعدد شاخیں ہیں بلکہ برطانیہ، آسٹریلیا، اٹلی، وینزویلا، تنزانیہ، اردن، یمن اور سری لنکا میں بھی اس ادارے کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں جہاں بوڑھوں، معذور، قریب المرگ، افلاس زدہ اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

اس خیراتی ادارہ نے آسنول شہر کے قریب ’’شانتی نگر‘‘ نام کی ایک بستی بھی بنائی ہے جس میں جذامی اور کوڑھی افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔

مدرٹریسا نے بھارتی شہریت اختیار کرلی تھی اور وہ نن کا روایتی لباس پہننے کی بجائے ساڑھی پہنتی تھیں۔ 1963ء میں بھارتی حکومت نے انہیں پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ 1971ء میں پوپ جان xxiii کی یاد میں قائم کئے جانے والے امن انعام کی وہ پہلی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ اس کے علاوہ انہیں جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 1979ء میں انہیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ نوبیل انعام کی رقم جو تقریباً ایک لاکھ پاؤنڈ کے مساوی تھی، انہوں نے خیراتی کاموں کے لئے وقف کردی۔

بیڈن پاول

’’بوائے سکاؤٹ تحریک‘‘ کا بانی برطانوی سپاہی بیڈن پاول تھا جو BP کے نام سے معروف تھا۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران اُس نے جاسوسی اور سکاؤٹنگ پر ایک کتاب لکھی۔ جنگ بوئر (1899ء) میں اُس نے کرنل کمانڈر کی حیثیت سے نمایاں کام انجام دیا۔ بعدازاں میجر جنرل ہوا اور 1907ء میں لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے سبکدوش ہوا۔ 24 جنوری 1908ء کو اُس نے پہلا سکائوٹ گروپ منظم کیا اور ’’گرل گائیڈ‘‘ کی تحریک (1910ء میں) منظم کی۔ جلد ہی یہ تحریکات برطانوی مقبوضات کے علاوہ جنوبی امریکہ اور یورپ میں عام ہوگئیں۔ 1920ء میں ایک عالمی تقریب میں اُسے ’’چیف سکاؤٹ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

بیڈن پاول کا انتقال کینیا میں ہوا۔

گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لئےماؤں کی تحریک

ارجنٹینا کا فوجی آمر جو رجی رافیل و ڈیلاریڈ ونڈو 24؍ مارچ 1976ء کو صدرایزابیل پیرون کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوا اور اپنے پانچ سالہ بدترین دورِ حکومت میں اپنے سیاسی مخالفین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ مخالفین کو قتل کرانا، انہیں ایذائیںدینا، عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کا اغوا اُس کی حکومت کا چلن تھا۔ حکومت سے دستبردار ہونے کے بعد اس آمر کے کارندوں نے 9 ہزار افراد کے اغواء کا اقرار کیا، لیکن دیگر ذرائع کے مطابق گمشدہ افراد کی تعداد قریباً تیس ہزار ہے جو آج تک لاپتا ہیں۔ رافیل نے اپنے عقوبت خانوں میں قید حاملہ عورتوں سے پیدا ہونے والے بچے تک چھین لئے جن کے بارہ میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے زندہ بھی ہیں یا مرکھپ گئے۔ ان گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لئے ان کی مظلوم ماؤں نے 30؍اپریل 1977ء کو بیونس آئرس کے مشہور چوراہے ’’پلازاڈی مایو‘‘ (یعنی مئی چوک) پر جمع ہو کر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ’’مدرز آف دی پلازا ڈی مایو‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم سے وابستہ مائیں اپنے سر پر سفید اسکارف باندھتی ہیں، جن پر ان کے گمشدہ بچوں کا نام کندہ ہوتا ہے۔ ان ماؤں نے اپنے ہاتھ میں ایک خالی کمبل تھاما ہوتا ہے اور اس طرح بتایا جاتا ہے کہ بچے کے گم ہوجانے کے بعد سے یہ کمبل خالی پڑا ہے۔ تنظیم سے وابستہ مائیں ہر منگل کی دوپہر باقاعدگی کے ساتھ ’’پلازا ڈی مایو‘‘ پر جمع ہوکر نصف گھنٹہ تک پیدل مارچ کرتی ہیں۔ یہ عورتیں اس اُمید پر اب تک زندہ ہیں کہ ایک نہ ایک دن اُن کے گمشدہ بچے دوبارہ اِن سے آن ملیں گے۔

خدمت خلق کے حوالہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں محترم ثاقب زیروی صاحب کا نعتیہ کلام شامل اشاعت ہے۔ اس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔

وہ بے کسوں کے غموں کا مرہم ہے ذکر جن کا دلوں کی شبنم
وہی تو ہیں ہادیٔ دو عالم، ہیں جن کی باتیں خدا کی باتیں
وہ خوبصورت، وہ خوب سیرت، وہ پیکرِ حلم اور مروّت
ہیں بدتریں دشمنوں کے لب پر بھی ان کے مہر و وفا کی باتیں
قدم قدم ان کی رہنمائی، جہاں جہاں ان کی روشنائی
فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اب تک سکوتِ غارِ حرا کی باتیں

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ مئی و جون 2011ء میں مکرم عبدالسلام جمیل صاحب کی اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں کہی گئی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

کیا کیا مَیں لکھوں کیا کیا تھی میری ماں
توحید کا پَرتَو تھی یکتا تھی میری ماں
مجھے احساس ہوا نہ کوئی تشنہ لبی کا
ساحل تھی میری پیاس تو دریا تھی میری ماں
آیا نہ کبھی لب پہ کوئی حرفِ شکایت
ہر حال میں راضی بہ رضا تھی میری ماں
سیلِ حوادث میں اِک گوہِ گراں تھی
پیار کے گلشن میں صبا تھی میری ماں
جتنا بھی کروں شکرِ خدا اتنا ہی کم ہے
اس کی مجھے سب سے حسیں عطا تھی میری ماں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button