مصالح العرب ( عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعودٔ کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ ) (قسط نمبر 440)
مکرمہ جمیلہ احمد جملول صاحبہ(2)
قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرمہ جمیلہ احمد صاحبہ آف یمن کے احمدیت کی طرف سفر کی ایمان افروز داستان کا ایک حصہ بیان کیا تھا۔ اس قسط میںان کے اس سفر کا کچھ مزیداحوال بیان کیا جائے گا۔وہ بیان کرتی ہیں کہ:
ہم چند ماہ سے ایک متروک گھر میں رہ رہے تھے جو میرے خاوند کے ایک دوست کا تھا ۔ اس گھر میں میرے خاوند کو عجیب وغریب تصاویر اور ہیولے نظرآتے تھے اور ان کے خیال میں یہ گھر آسیب زدہ تھا۔ لیکن خدا کے فضل سے میں ایم ٹی اے پر جنات وغیرہ کے بارہ میں پروگرام دیکھنے کے بعد اس یقین پر قائم تھی کہ یہ سب اوہام ہیں۔
اشرار کے آزار
میرے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش متوقع تھی، ان کی ولادت کے بعد ہم سے گھر چھوڑنے کا مطالبہ ہوا توہم قریبی علاقے میں کرائے کے ایک معمولی گھر میں شفٹ ہوگئے۔یہاں میرے خاوند کا تعار ف ایک دھوکہ باز اور فریب کارشخص سے ہوا جس نے کہا کہ وہ آثار قدیمہ کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہے۔اس نے نہ جانے میرے خاوند کو کس طرح شیشے میں اتارا اور اسے ستّر ہزار سعودی ریال کے عوض ایک گولڈ بار فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میرے خاوند نے جب اسے چیک کروایا تو وہ پیتل نکلا۔ اس کی وجہ سے میرے خاوند کی اس شخص سے لڑائی ہوگئی جس کے بعد پتہ چلا کہ وہ شخص اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک گروہ ہے جو آئے دن ایسی وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بات بڑھی تو انہوں نے میرے خاوند اور میرے بڑے بیٹے کو اغواکرلیا۔میں چھوٹے بچوں کے ساتھ اس دُوردراز کے علاقے میں اکیلی تھی جہاں نہ میرا کوئی جاننے والا تھا نہ کوئی مددگا ر۔میں خوفزدہ تھی ا ور ایسے میں خدائے ذوالجلال کے حضور میرے آنسو دعائیں بن بن کر بہتے چلے جاتے تھے۔ چند روز کے بعدخدا کا خاص فضل ہوا اور میرا خاوند اور بیٹا کسی طریقے سے ان شریروں کی قید سے آزاد ہوکر بخیر وعافیت گھر لوٹ آئے۔
حقیقت کا سفر
اب ہمارا وہاں رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا اس لئے ہم وہاں سے بہت دور ایک پہاڑی علاقے میں منتقل ہوگئے۔مالی حالت بھی دگر گوں تھی اس لئے کوئی مناسب گھر بھی کرائے پر نہ لے سکتے تھے ۔ وہاں کسی نے بتایا کہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک ہوٹل ہے جو ایک عرصہ سے خالی پڑا ہوا ہے اور اگر تم وہاں رہنا چاہوتو ہوٹل کے چوکیدار سے چابی لے کر اس میں بغیر کسی معاوضہ کے رہائش اختیار کرلو۔
ہم وہاں جانے لگے تو قریبی بستی کے لوگوں نے ہمیں ڈراتے ہوئے کہا کہ یہ ہوٹل ایک لمبے عرصہ سے خالی پڑا ہے اور اس میں جنّات کا بسیرا ہے۔میرے خاوند نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہاکہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ ایسے جنّات کا کوئی وجود نہیں جو انسانوں کے سر پر سوار ہوجاتے ہیں اورانہیں تکلیف دیتے اور تنگ کرتے ہیں، اس لئے مجھے تو اس میں رہائش پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں تو یہاں پر لازمی رہنا چاہئے تا میرے یقین اور آپ کے شک کی حقیقت بھی آشکار ہوجائے۔
چنانچہ ہم ہوٹل کی جانب بڑھنے لگے۔جب میں اس ہوٹل میں داخل ہوئی تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ ہر چیز گرد وغبار سے اَٹی پڑی تھی۔ہوٹل میں نہ پانی تھا، نہ بجلی اوربند کمرے نہایت خوفناک منظر پیش کررہے تھے۔ہم نے ایک کمرہ کھول کر صاف کیا ،ایک ٹینکر پانی منگوایا اور یہاںرہائش اختیار کرلی۔ ہم دن کے وقت تو اس میں آزادی سے چل پھر لیتے تھے لیکن مغرب کے بعد اپنے کمرہ میں بند ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور ڈر کے مارے کوئی بھی باہر جانے کی جرأت نہ کرتا تھا۔میں رات کے وقت خوف کے مارے اپنی نظریں اِدھر اُدھر دوڑا کر دیکھتی اور اپنی سماعت کو تیز کر کے کچھ سننے کی کوشش کرتی لیکن مجھے نہ تو کوئی ہیولہ نظر آیا اور نہ ہی میں نے کبھی چیخوں وغیرہ کی کوئی جنّاتی آواز سنی۔
دوسری طرف میر ے خاوند نے مجھے بتایا کہ گاؤں والے کہتے ہیں کہ یہاں پر ایک شخص کی وفات ہوگئی تھی جس کے بعد سے جنّ اس مقام پر قابض ہیں اورجو بھی اس جگہ جاتا ہے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔نیز اس ہوٹل کے گردونواح میںرات کے وقت اکثر ایک لحیم وشحیم اور طویل اور ڈراؤنا شخص نظر آتا ہے جس کا پورا جسم بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔
ایک روز میرے خاوند نے کہا کہ اب تو اہلِ بستی ہم سے بھی ڈرنے لگے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہم کوئی خاص مخلوق ہیں جو جنوں کی آماجگاہ میں بڑے سکون سے رہتے ہیں۔
میں یہ باتیں سن کر ڈرنے کی بجائے خود کو یقین دلاتی کہ ایسے جنوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن میں نے دل میں یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ اس کے باوجود اگر میں نے ایسے ہیولے یا تصویریں دیکھیں جن کا ذکر زبان زدِ عام ہے تو میں اس جگہ کو چھوڑ دوں گی۔ ہم نے اس ہوٹل میں دو ماہ قیام کیا۔ اس دوران ہمارے بچے اس مقام سے مانوس ہوگئے اور وہ ہوٹل میں کھیلتے پھرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہواکہ ہم نے اس عرصہ میں کوئی جن نہ دیکھا۔
اس کے بعد حالات ٹھیک ہوگئے اور ہم اپنے علاقے میں اپنے گھر میں واپس آگئے اور یوں یہ آٹھ ماہ کا سفر ختم ہوا جسے میں جنّوں کی حقیقت جاننے کے سفر کا نام دوںگی۔
باعثِ تسکین واطمینان
گھر واپس پہنچنے پرجس چیز کی مجھے سب سے زیادہ یاد آئی وہ ایم ٹی اے تھا۔ میں ایم ٹی اے دیکھنے کے لئے بے چین تھی لیکن بجلی نہ تھی اور گرمی عروج پر تھی۔میرے خاوند نے جنریٹر خریداتو میں نے خداکا شکر ادا کیا کہ اب میرے لئے ایم ٹی اے دیکھنا آسان ہوجائے گا۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھنے کے لئے بے چین تھی کیونکہ آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھنے اور آپ کا کلام سننے سے میری دلی تسکین ہوتی تھی۔ اسی طرح میںپروگرام الحوار المباشر دیکھنے کے لئے بھی بیتاب تھی کیونکہ اس پروگرام میں بیان ہونے والی عقل ومنطق سے ہم آہنگ تفاسیر وتوجیہات میرے دل کو لگتی تھیں اورایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ جنّوں کے بارہ میں احمدیوںکے بیان کردہ مؤقف کی صداقت کو تو ہم نے آٹھ ما ہ کے سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ میں نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں کئی سالوں سے متروک کسی گھر میںجاکر کئی ماہ تک قیام کروں گی، اور پھر صرف گھر ہی نہیں بلکہ بے شمار کمروں پر مشتمل ایک ایسے ہوٹل میں دوماہ تک رہائش اختیار کروں گی جس کے بارہ میں اردگرد کے تمام لوگوں کی عینی شہادت ہمیں ہر روز سنائی جائے گی کہ یہاں جنات کا سایہ ہے اور عجیب وغریب شکلوں والے ہیولے یہاں پر نظر آتے ہیں۔ اگر میں الحوار المباشرکے ایک پروگرام کو سن کر ا س یقین پر قائم نہ ہوتی کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں ہے جو انسانوں کے سروں پر سوار ہوکر ان سے طرح طرح کی حرکات سرزد کرواتے ہیںتوایسے دُورافتادہ اورایک عرصہ سے ویران پڑے ہوٹل میں رہنے کا خطرہ کبھی مول نہ لیتی۔
الحمد للہ کہ خدا نے مجھے دوبارہ ایم ٹی اے اور خصوصًا پروگرام الحوار المباشر دیکھنے کی توفیق بخشی۔اس وقت اس پر عصمت انبیاء کے بارہ میں پروگرام پیش کئے جارہے تھے۔مثلاً یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ نہیں بولے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام نے دشمنوں کے سامنے اپنی بچیاں پیش نہیں کی تھیں، حضرت ایوب علیہ السلام کو خطرناک بیماریاں لاحق نہیں ہوئی تھیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں گئے بلکہ وفات پا چکے ہیں۔ یہ سب ایسی تفسیرات تھیں جنہیں ہر عاقل او رسلیم الفطرت انسان قبول کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ میں ایک طرف تو بہت خوش تھی اور دوسری طرف ایسے مضامین سن کر حیران بھی تھی کہ اتنی عمر لاعلمی اورجہالت کو ہی حق کہتے کہتے گزر گئی۔
إنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا
میں نے ا پنے خاوند کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن بجائے قبول کرنے کے اس نے الٹا مجھے ہی جھڑکنا شروع کردیا اورایم ٹی اے دیکھنے سے منع کردیابلکہ غصے میں آکر اس نے ایم ٹی اے کو چینلز کی لسٹ سے حذف کرنے کے بعد کہا کہ اگر میں نے دوبار ہ اس گھر میں ایم ٹی اے چلتا ہوا دیکھا تو ٹی وی کو توڑ کرگھر سے باہر پھینک دوں گا۔
مجھے اس اعلان سے بہت تکلیف ہوئی کیونکہ میرے لئے اس چینل سے دوررہنا ناممکن تھا۔ میں اپنے بیس سالہ بیٹے سے بھی ان باتوں کا ذکر کرتی رہتی تھی اور میرا بیٹااپنے باپ کے برعکس ان تمام باتوں کو قبول کرتا تھا۔ اس نے میری مدد کی اور چینل دوبارہ تلاش کر کے لگا دیا او رمجھے دوبارہ اس کو لگانے کا طریقہ بھی بتادیا۔چنانچہ میں اپنے شوہر کی گھر میں عدم موجودگی کے وقت ایم ٹی اے دیکھتی اور جب وہ آتے تو ان کی بات کا احترام کرتے ہوئے چینل بدل دیتی۔ میرے خاوند نے جب میرے احمدیت کی طرف شدید میلان کو محسوس کیا تو میرے والد صاحب کو فون کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔ میرے والد صاحب فورًا مجھے سمجھانے کے لئے تشریف لائے اور میرے ساتھ بہت نرمی کے ساتھ بات کی۔ چونکہ میرے والد صاحب بات سنتے اور پھر سمجھنے کی کوشش کرتے تھے نیز اچھی بات کو قبول کرنے والے تھے اس لئے میں نے ان کے ساتھ کھل کر بات کی اور کئی امور کے بارہ میں ہماری بحث بھی ہوئی جس کے بعد وہ مجھے عمومی نصیحت کر کے لَوٹ گئے۔
ایم ٹی اے ساتھ ساتھ رہا
یمن میں حالات کی خرابی کی وجہ سے چوری اور ڈاکہ کی کارروائیاں بڑھ گئیں۔ ایک روز کچھ مسلح اشخاص میرے خاوند کے پاس آئے اور زمین کے کاغذات ان کے حوالے کرکے گھر سے نکل جانے کا کہا۔جب میرے خاوند نے گھر کے اندر داخل ہو کر ان کی بات ماننے سے انکار کیا تو وہ حویلی کا دروازہ توڑ کر اندر آگئے اورفائرنگ شروع کردی۔ بچے ڈر کے مارے چیخ رہے تھے او رمیں بھی رونے کے ساتھ ساتھ شور مچارہی تھی۔ انہوں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کرکے آنسو گیس کے شیل پھینکنے شروع کردیئے۔میرا خاوند گھر کے اندر سے ان حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کررہا تھاجس کی وجہ سے حملہ آوروں کے دو آدمی زخمی ہوگئے۔ کئی گھنٹوں کے بعد پولیس آئی اورحملہ آوروںکا پیچھا کرنے کی بجائے میرے خاوند کوہی لے گئی اور جیل میں بند کردیا۔
ایسے حالات میں خطرہ تھا کہ کہیں یہ اشرار دوبارہ نہ آجائیں چنانچہ میں بچوں کو لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور دوماہ تک وہاں قیام کیا۔وہاں میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر ایم ٹی اے دیکھتی رہی۔ میرے والد صاحب میری بات کی تائید کرتے تھے اوراکثر جماعتی تفسیرات اور آراء کو قبول کرتے تھے لیکن جنّوں کے بارہ میں وہ اپنی رائے پر قائم رہے۔میں نے انہیں اپنے سفر اور ویران ہوٹل میں رہنے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے کہاکہ بعض جن مؤمن ہوتے ہیں اور بعض کافر۔ ہو سکتا ہے کہ جس ہوٹل میں تم رہی ہو وہاں پر مؤمن جن ہوں ، اس لئے انہوں نے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
میں نے عرض کیا کہ چلیں جنّ کے موضوع کو چھوڑ دیں اور دجال کی حقیقت اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اوران کے آسمان پر جانے کی نفی نیز ان کے چھوٹی عمر میں کلام کرنے کے موضوعات کے بارہ میں بتائیںکہ آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے ان موضوعات کے بارہ میں اپنی تسلی کااظہار کیا تو پاس بیٹھے میرے تایا جان کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے میرے ایک اور چچا سے مل کرمیرے والد صاحب سے کہا کہ کیااب تم اس عمر میں اپنا دین بدلوگے؟ اپنی بیٹی کی بات کو اہمیت نہ دو۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ جب سے اس نے اس نئے دین کی طرف توجہ کی ہے اس کے ساتھ کس طرح برا سلوک ہورہاہے اور اسے بار بار اپنے گھر سے بے گھر ہونا پڑ رہا ہے۔یہ سن کر میرے والد صاحب ان کی باتوں میں آگئے اور غصہ میں آکر ایم ٹی اے کو چینلز کی لسٹ سے حذف کردیا۔
دو ماہ کے بعد میرا خاوند جیل سے رِہا ہوگیااور ہم شریروں کے شر سے بچنے کے لئے دوسرے شہر چلے گئے جہاں میرے خاوند کی بہن رہتی تھی۔ میرے خاوند نے ہمیں وہاں چھوڑا او رخودہمارے لئے گھر کا بندوبست کرنے کے لئے دارالحکومت چلا گیاجبکہ ہم ایک ماہ تک اس کی بہن کی گھر میں رہے۔ اس کی بہن جاب کرتی تھی اور صبح سویرے ہی نکل جاتی تھی او رمیں ان کے ٹی وی پر ایم ٹی اے لگا کردیکھتی رہتی۔ کبھی کبھی میری اس نند کی بڑی بیٹی بھی میرے ساتھ بیٹھ جاتی۔ اسے امام مہدی کے ظہور کی باتیں پسند نہ آئیں او راس نے اپنی والدہ سے ذکر کردیا۔ میری نند نے مجھ سے کہاکہ یہ ایم ٹی اے والے شیعہ ہیں اور اپنے پروگراموں کے ذریعہ لوگوں کے دماغ خراب کررہے ہیں اوران کی تمام باتیں ہی ہمارے معروف عقائد کے خلاف ہیں۔اس لئے آئندہ یہاں پر یہ چینل دیکھنے کی کوشش نہ کرنا۔ بہر حال ایک ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایااور ہمیںاپنا گھر مل گیا اورہم اس میں منتقل ہوگئے۔ (باقی آئندہ)