متفرق مضامین

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط ہشتم)

(آصف محمود باسط)

جامعہ کے ساتھ نشست کی بات چل رہی ہے تو ایک اور بات جو ہمیشہ میرے لئے بہت ہی ایمان افروز رہی ہے، آپ کے ساتھ بھی بانٹنا چاہتا ہوں، کہ یہ دولت بھی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔

یہ کلاسیں اکتوبر 2003 ءمیں شروع ہوئیں۔ ننّھے منّے بچے ان کلاسوں میں آنا شروع ہوئے۔ نہایت معصوم باتیں، معصوم سے لطیفے سناتے۔ حضور سنتے۔ خود بھی ان کی عمر کے لحاظ سے حضور انہیں لطائف سناتے۔ ان سے حروفِ تہجی کی باتیں کرتے۔ معصوم سی پہلیاں پوچھتے۔ ابھی خلافتِ خامسہ کا سورج طلوع ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے۔ جماعت احمدیہ کے وہ مخالفین جو خلافت رابعہ کے بعد جماعت کو معاذ اللہ بکھرتا ہوئے دیکھنے کے سپنے سجائے بیٹھے تھے، ابھی اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ خلافت ِ خامسہ کے قیام کے ذریعہ خلافتِ احمدیہ کے استحکام کا نظارہ دیکھ کر ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ مگر ان کی مایوسی انہیں کھسیانی بلی کی طرح کھمبے نوچنے کی طرف لے گئی تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات بابرکات کی گہرائی ابھی کسی پر بھی عیاں نہ تھی(سچ پوچھیں تو آج بھی اپنوں، غیروں بلکہ کسی پر بھی اس بلند و بالا، فلک بوس ہستی کے جوہر پوری طرح عیاں نہیں۔ یہ بات میں سب سے پہلے اپنے آپ کو شامل کر کے عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں)۔ تودشمن اپنے چھوٹے پَن کے اظہار میں حضور انور کی مختلف باتوں کو استہزاء کانشانہ بنایا کرتے۔ کبھی آپ کے طرز تکلم پر ہنستے، کبھی آپ کے خطبہ پر باتیں بناتے اور پھر کلاسیں شروع ہوئیں تو ان کلاسوں پر بھی پھبتیاں کسنے لگے کہ جناب! آپ یہی کام کیا کریں کہ بچوں کو الف ب پ سکھایا کریں، اُمّت مسلمہ کی رہنمائی آپ کیا کریں گے۔ (نعوذ باللہ)۔

حضرت صاحب تو ایک چٹان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت کچھ باتوں کا تو مجھ آپ کوعلم بھی نہ ہوگا، مگر جو میرا مشاہدہ ہے، اس کی بنیاد پر مجھے کہنے دیجیے کہ میں نے خود دیکھا کہ اس چٹان سے کئی منہ زور لہریں ٹکر ا ٹکرا کر اپنا سر پھوڑتی رہیں، مگر یہ چٹان خدا کی طرف سے اٹھائی گئی چٹان تھی۔ یہ ہر منہ زور لہر کو اپنے سینہ پر کھا کر نہ صرف قائم و دائم رہی، اَور ہے بلکہ اپنے پیچھے پھیلی آبادیوں کو بھی ان طوفانوں سے بچاتی رہی اور بچاتی ہے۔ مجھے حضور کے دل کا حال معلوم ہونے کا دعویٰ ہے، نہ یہ دعوی کسی کو زیبا ہے۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ؎

اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فرازؔ

رونے والوں کی طرح، جاگنے والوں جیسی

فرازؔ تو نہ جانے کس دنیوی محبوب کے لئے کس ادنیٰ محبت کے اظہار میں ایک بڑا شعر کہہ گیا۔ مگر مجھے یہ شعر ہمیشہ اپنے اور آپ کے اور ہم سب کے محبوب کے لئے موزوں نظر آیا۔ ہمیں تو کوئی تکلیف پہنچے، ہم فورًا اپنے اس محبوب کو لکھ بھیجتے ہیں یا زبانی کہہ دیتے ہیں۔ بچوں کی طرح جا کر کہہ دیا کہ فلاں شخص کی فلاں بات سے میرا دل بہت دکھا۔ فلاں مسئلہ درپیش ہے۔ فلاں بیمار ہے۔ فلاں پریشان ہے۔ مگر اس آدمی کے پاس تو کوئی دوسرا آدمی نہیں کہ جس کے پاس وہ اپنے درد و اَلم کی متاع گروی رکھوا کر سکون کی دولت لے آئے۔ یہ آدمی تو جاگتا ہے اور روتا اس رب کے حضور ہے جس نے اسے اپنی آخری جماعت کی امامت سپرد فرمائی ہے۔تو حضور کو صرف اسی دشنام طرازی کا سامنا نہیں جو ہمارے سامنے انٹرنیٹ وغیرہ پر آجاتی ہے۔ حسد کی آگ میں جلتے دشمن اور منافقین تو جانے گمنام خطوں میں بھی کیا کیا کچھ لکھ بھیجتے ہوں گے۔ مگر یہ تیز گام آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔

سو مخالفین ان کلاسوں پر پھبتیاں کستے رہے اور حضور اپنے عظیم الشان کاموں کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر ہفتے ان ننھے مُنّے بچوں کے ساتھ حروفِ تہجی اور ننھی منی پہیلیوں کی کھیلیں کھیلتے رہے۔

…………………………………

ایک گزشتہ مضمون میں خاکسار بڑی تفصیل سے عرض کر چکا ہے کہ ہم تو وہاں دیکھ ہی نہیں سکتے جہاں حضورانور کا دیدۂ بینا دیکھ رہا ہوتا ہے۔یہ بچے عمر کی منزلیں طے کرتے گئے۔ چھوٹے بچوں کی کلاس بستانِ وقفِ نو سے گلشنِ وقفِ نَو اطفال میں آگئے۔ پھر اور بڑے ہوئے تو گلشنِ وقفِ نو خدّام میں آکر اپنے آقا کے حضور بیٹھنے لگے۔ پھر انہی میں سے کچھ طلبا جامعہ کے ساتھ نشست میں اپنے آقا سے فیض پانے لگے۔یہی بچے جو اپنے آقا سے حروفِ تہجی سیکھا کرتے تھے اور اردو بمشکل بول پاتے تھے، اب ان نشستوں میں اپنے آقا کے ساتھ اردو میں ہمکلام ہوتے۔ انہی میں سے اکثراردو میں تقاریر کرتے۔ سبھی اپنے آقا سے اردو میں سوالات پوچھتے اور اردو میں ان کے جوابات کو سمجھ جاتے۔ ان کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ایک خاص روشنی نظر آتی۔یہ روشنی دیکھنے والے کی آنکھ تک پہنچتی تو اس روشنی میں حضورِ انور کی محبت اور توجہ کا رنگ سب رنگوں پر غالب نظر آتا۔

اسی روشنی کی ایک کرن نے ایک روز میرے دل کوبڑی شدت کے ساتھ چھو لیا۔ میں نے اجازت چاہی کہ ایم ٹی اے پر نوجوانوں کے لئے ایک ایسا پروگرام شروع کیا جائے جس میں طلبا جامعہ ان کے سوالوں کے جواب دیں۔ یوں نوجوان نوجوان سے بات کرے گا تو اچھا اثر ہوگا۔حضور نے فی الفور فرمایا’کرو! کس نے روکا ہے!‘

حضور کاایسا جملہ جس میں بھرپور اجازت ہو ہمیشہ چھوٹی سی کوشش کو بھی بھاگ لگا دیتا ہے۔ تجربہ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کسی تجویز پر حضور کی طرف سے پوری خوشی نظر نہ آئے اس تجویز کو دُور سے سلام کر کے چھوڑ دینا چاہیے۔یہاں تک کہ یہ جملہ کہ ’ٹھیک ہے!کر کے دیکھ لو‘ یا پھر یہ کہ’ اچھا!چلو کر لو‘ بھی سرخ بتّی سے کم نہیں ہوتے۔شروع شروع میں مَیں نے ایسے جملوں کو نارنگی بتّی خیال کر کے اس میں گزر کر دیکھا۔ یا حادثہ ہوجاتا ہے یا ہوتے ہوتے بچتا ہے۔ ہری بتّی صرف وہ شرح صدر ہے جو کسی خوش بخت تجویز پر، کسی خوش بخت لمحہ میں، اللہ کے خاص فضل کی جھڑی میں حضور کی چشمِ مبارک یا لہجہ مبارک سے محسوس ہو جائے۔

…………………………………..

پس حضور انور کی اس منظوری کے ساتھ ہی اس پروگرام کی تیاری پر کام شروع کر دیا گیا۔تیاری کے ساتھ ساتھ پروگرام کے نام کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا۔ جس جس کے ذہن میں جو نام آیا، ہم لکھتے گئے۔ فہرست تیار ہوجانے پر تمام نام دورانِ ملاقات میں نے رہنمائی کی غرض سے حضور کی خدمت میں پیش کئے۔ حضور انور نے Beacon of Truth کے نام کو منظور فرمایا ۔

…………………………………..

جس روز پروگرام کی ریکارڈنگ کا وقت آیا، ہم نے تین سٹول رکھے، پیچھے ایک خو ش رنگ پردہ لٹکایا اور پروگرام ریکارڈ کر لیا۔ اس پروگرام کو منصور احمد کلارک صاحب (حال مربی سلسلہ لندن ریجن) نے پیش کیا۔ پروگرام کے شرکا میں ایاز محمود خان صاحب (حال مربی سلسلہ وکالتِ تصنیف لندن)، قاصد معین احمد صاحب (حال مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے) اور شہزاد احمد صاحب (حال مربی سلسلہ ریویو آف ریلیجنز) شامل تھے۔یہ سب اس وقت جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا تھے۔

پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہونے لگی اورمیں کنٹرول روم میں جا کر بیٹھا تو سکرین پر ان نوجوانوں کو دیکھ کر میری آنکھیں فرطِ جذبات سے ڈبڈبا گئیں۔مجھے منصور کلارک کے وہ دن یاد آگئے جب وہ ننھا سا بچہ تھا اور ہر کلاس کے لئے اپنی والدہ کے ساتھ برمنگھم سے سفر کر کے کلاس میں شامل ہونے کے لئے آیا کرتا تھا۔ اردو پڑھنی نہیں آتی تھی اور ہر کلاس سے پہلے انگریزی حروفِ تہجی میں لکھی اردو زبان کی عبارت میرے ساتھ دہرایا کرتا۔اس کی والدہ کلاس سے کچھ دن پہلے فون کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرتیں اورکہتیں کہ اس کی تیاری اچھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں بول بھی پائے گا یا نہیں، میں سوچ رہی ہوں اسے مسجد کے پاس کسی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دوں تاکہ وہاں رہ کر تیاری کرلے۔ قاصد معین کا بھی چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا جب وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں حضور کی کلاس میں بیٹھا تھا۔ ایک روز حضور نے ایک گروپ فوٹو میں سے بزرگان کی شناخت بچوں سے کروائی۔ ایک بزرگ کو کوئی نہ بوجھ سکا، مگرقاصد نے ہاتھ کھڑا کر کے بتایا کہ یہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہیں۔ حضور نے اس ننھے سے بچے کی بات سن کر فرمایا تھا’کمال کر دیا تم نے۔ تم نے کیسے پہچان لیا؟‘

آج یہ پودے جو حضور نے خود بوئے تھے، پھر انہی کلاسوں اور ملاقاتوں میں ان کی نشو ونما کی تھی،انہیں پالاپوسا تھا، آج اپنے دین کی خاطر اپنے سینہ پر ہر طرح کا وار سہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ کہاں گئے وہ ہنسی ٹھٹھا کرنے والے؟آج خدا کی قدرت نے ان شریروں کی منہ پر کیساطمانچہ مارا۔ یہی بچے تھے نا جنہیں ایک درویش الف ب پ پڑھایا کرتا تھا؟ یہی تھے نا جو ایک صوفی منش کی پوچھی ہوئی سادہ سی پہیلیاں بوجھا کرتے تھے؟یہی تو تھے جو اس کلاس کے بعد اس سادہ لوح، عظیم المرتبت ولی اللہ کی طرف سے دئیے گئے کھانے کے ڈبے اٹھا کر گھروں کو جایا کرتے تھے اور سارا گھرانہ اس کھانے کو تبرک سمجھ کر کھایا کرتا تھا؟ اس معصوم ادا پر بھی تو شریر طبع نادان استہزاء کیا کرتے تھے۔ مگر آج دیکھو کہ بقول شاعر ؎

اِن کو دعائیں خوب لگیں اپنے پِیر کی

اور تم اپنے زخم چاٹتے، کھمبا نوچتے ماضی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کہیں کھو گئے۔ تمہیں تو تاریخ بھی یاد رکھنے پر تیار نہیں اور یہاں ہر دن تاریخ سازہوتا ہے اور ہر رات میں ایک نہیں کئی Beacon of Truthروشن ہوتے ہیں۔

………………………………..

خیر ، پروگرام ریکارڈ ہوا۔ اس کی ریکارڈنگ حضورِانور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ و رہنمائی پیش کی گئی۔ حضور نے ازراہِ شفقت اس کی منظوری عطا فرمائی۔مگر ایک اور مزے کی بات یہ ہوئی کہ میں ایک کام کے سلسلہ میں کیمبرج یونیورسٹی میں تھا۔ وہاں برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب (استاد جامعہ احمدیہ یوکے) کا فون آیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کی ابھی کچھ دیر پہلے حضور انور سے ملاقات تھی۔ حضور انور نے انہیں بڑی محبت اور فخر سے ان نوجوانوں کی کاوش دکھائی۔ خود DVDلگائی۔ پھر یہاں وہاں سے چلا کر ان کی گفتگو دکھاتے رہے کہ یہ دیکھو ان بچوں نے کتنا اچھا کام کیا ہے۔ اسی سال ہماری ایم ٹی اے کا فورم ہوا تو اس میں بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے ایم ٹی اے کے بیرونِ ملک سٹوڈیوز کے نمائندگان سے خطاب فرماتے ہوئے اس پروگرام کا ذکر فرمایا اور بڑی محبت سے ان بچوں کے کام کو سراہا، کہ ایک نوجوان پریزینٹر بن گیا، باقی پینل میں بیٹھ گئے اور اشاعتِ دین کا کام شروع کر دیا۔ کیسی عجیب بات ہے۔ یہ تو حضور کا کرشمہ تھا۔حضور اپنی کرشمہ سازی پر بھی اپنے غلاموں کو سراہتے جاتے ہیں۔

پھر 2012 ءمیں جامعہ احمدیہ یوکے کی پہلی کلاس فارغ التحصیل ہوئی۔ ان کی تقریب تقسیم انعامات ہوئی۔ ان میں بہت سے چہرے وہی تھے جو کبھی بہت چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے اور حضور کی کلاسوں میں پروان چڑھے تھے ۔ حضور اپنے دستِ مبارک سے انہیں چاکلیٹ دیا کرتے تھے۔ کبھی لکھنے کے لئے قلم عنایت فرمایا کرتے تھے۔ کبھی ٹوپیاں ان کو دیتے ، انہیں پہننے کو کہتے، کبھی خود پہناتے اور کبھی یہ بھی فرماتے کہ یوں نہیں، یوں پہنتے ہیں۔ آج یہ بچے جن کی ٹوپیاں حضور سیدھی کروایا کرتے تھے، مربیان سلسلہ بن کر میدانِ عمل میں جانے کے لئے تیار تھے۔ آج حضور انہیں اپنے دستِ مبارک سے شاہد کی ڈگریاں عطا فرما رہے تھے۔

پھر اگلے سال2013ء میں دوسری کلاس فارغ التحصیل ہوئی۔ ان کی گریجویشن کی تقریب میں بھی حضور تشریف لے گئے۔ اس روزبھی فارغ التحصیل ہونے والی کلاس میں بہت سے چہرے وہ تھے جنہیں دشمنانِ احمدیت نے انہی کلاسوں میں دیکھا ہوگا جن کا وہ استہزاء کیا کرتے تھے۔عبدالقدوس عارف، مصوّر احمد شاہد، شہزاد احمد، عقیل احمد کنگ، قاصد معین احمد۔ ان سب کا خمیر انہی کلاسوں سے تو اٹھا تھا جہاں حروفِ تہجی اور ننھی منّی پہیلیاں اور دینی معلومات کے معصوم سے سوالات پوچھے جاتے تھے۔یہی بچے کلاسوں میں اپنی معصوم سی آوازوں میں کبھی ترانے اور کبھی نظمیں پڑھا کرتے تھے۔میں تو ان سارے نظاروں کا ایک خاموش تماشائی رہا تھا۔ خوشی کے جذبات اگر مجھ تماشائی پر غلبہ کررہے تھے تو اس سارے منظرنامہ کے سب سے اہم کردار کا دل اپنے رب کے حضور کس قدر شکر بجالایا ہوگا۔ حضور کا دل تو باغ باغ ہو گیا ہوگا۔ مگر دینِ اسلام کی اس مضبوط چٹان پر جذبات کا اظہار بھلاکس نے دیکھا ہے۔آج حضور انہیں میدانِ عمل کے اسرارورموز سمجھا رہے تھے۔ انہیں فرما رہے تھے کہ قرآن کریم پر غور اور تدبر کرنا اور آیات کی تفاسیر سوچنا۔ کوئی نکتہ سوجھے تو خلیفۂ وقت کو لکھنا اور توثیق ہو جانے پر اسے عام کرنا۔ حضور تو گاؤں گاؤں کو ایک رازی بخشنے جارہے تھے،انہی بچوں میں سے جن کی بچپن کی کلاسوں میں ہونے والی تربیت کو دشمن استہز اء کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔دشمن ہنستا تھا، اور تقدیر دشمن پر ہنستی تھی کہ تمہیں کیا معلوم کہ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کا کوئی کام بے سبب نہیں ہوتا اور کوئی کوشش نامراد نہیں رہتی۔

آغاز میں تو دشمن اس بات پر بھی ہنسا کئے کہ زراعت کی تعلیم حاصل کرنے والے کو خلیفہ بنا لیا۔وہ ہنستے رہے مگر اس بات کی رمز بھی ہمیں حضرت مسیح پاک علیہ السلام سمجھا گئے تھے۔ خدا نے اس دنیا کے لئے جسمانی اور روحانی دو نظام جاری فرما رکھے ہیں۔مادی اور روحانی دونوں دھارے متوازی چلتے چلتے ہیں۔ جہاں جسمانی ضرورت کا سامان ہے، وہاں روحانی ضروریات کا بھی رب العالمین نے انتظام فرما رکھا ہے۔ جسم کی بھوک مادی اجناس سے مٹتی ہے تو روحانی بھوک اور پیاس کے لئے عبادت ایک غذا کے طور پر مہیا فرما دی ہے۔سو زراعت کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بیج بونے، اس کے اگنے، پھر کونپلیں نکلنے اور پھر پھل اور فصل کے تیار ہوجانے کا علم سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ سو اس کا متوازی نظام عالم روحانی میں کس طرح چل رہا ہے، یہ ہمارے پیارے حضور کی کلاسوں نے ہمیں سمجھا دیا۔ ایک کلاس کے دوران جامعہ احمدیہ میں متعلم گیمبیا سے آئے ہوئے عبداللہ ڈِبا (مربی سلسلہ) نے حضور سے پوچھ بھی لیا کہ حضور آپ اب بھی زراعت سے شغف رکھتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ اب میری زرعی زمینیں اور میری فصلیں تم لوگ ہو۔

ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے دیکھ لیا کہ روحانی علوم کے حصول کے لئے حضور نے بیج بوئے، پھر انہیں خوب سینچا، کلاسوں کے علاوہ ملاقاتوں میں ان کی نگہداشت فرماتے رہے، انہیں چھاؤں بھی دی اور دھوپ کی تمازت سہنے کے لئے تیار بھی کیا۔ پھر ایک روز یہ کھیتی تیار ہو گئی اور اب اس کھیتی سے لاکھوں کروڑوں لوگوں تک حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلیفہ (ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ الحمدللہ رب العالمین۔پھر زراعت کی تعلیم تو شاید اللہ تعالی نے یہی نکتہ سمجھانے کے لئے حضور کو دلائی۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں، ہم سب دیکھتے ہیں، ہم سب کا مشاہدہ ہے، ہم سب کا تجربہ ہے اور ہم سب قسم کھا کر یہ اقرار کرنے کو تیار ہیں کہ حضور انور کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں دنیا بھر کے علوم کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو کوئی سا ایک خطبہ سن لے، کوئی سی کلاس اٹھا کر دیکھ لے، دنیا کے سیاست دانوں اور دانشوروں سے گفتگو سماعت کر لے، پریس کو دئیے گئے انٹرویو بھی اب تو سب Youtubeپر آگئے ہیں۔بس دیکھ لیں، ثبوت خود مل جائے گا۔

………………………………..

بات چل رہی ہے کلاسوں کی تو کلاسوں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ یہ وہ ملاقاتیں ہیں جن میں مختلف علوم میں ریسرچ کرنے والے طلبا و طالبات حضور انور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ اب یہ کلاسیں بھی حضور انور کے دورہ جات کے شیڈول کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلی جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے محققین حضور کے سامنے اپنی تحقیق پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

ان ملاقاتوں کا بھی عجیب حال ہے۔ جب یہ سارے پروگرام حضور کے دورہ کے اختتام پر خاکسار کے پاس آتے ہیں تو مجھے سب سے زیادہ دلچسپی انہی ملاقاتوں میں ہوتی ہے۔ یہ میرے لئے ایک بے انتہا دلچسپ اور ایمان افروز ملاقات ہوتی ہے۔کوئی شہد پر تحقیق کررہا ہے، کوئی stem cell کی دنیا کے سربستہ راز دریافت کرنے نکلا ہوا ہے، کوئی آرکیالوجی کے ذریعہ زمین کے خزانے اگلنے کی پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھ رہا ہے، کوئی کینسر کے موذی مرض کے علاج کی تحقیق میں کسی انتہا کی طرف جا نکلا ہے، کوئی الزائمرز کی جانگسل بیماری سے دنیا کو نجات دلانے کی دُھن میں ہے۔ سب ریسرچ کی اعلیٰ ڈگریاں لینے کے لئے ایم ایس سی، ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کی سطح پر تحقیق کررہے ہیں۔حضور بڑی دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے بھی جاتے ہیں، ان سے سوالات بھی پوچھتے جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہیں بہت سی باتیں سمجھاتے بھی جاتے ہیں۔مگر حضور کی گفتگو کا عالم یہ ہوتا ہے کہ گویا حضور ان تمام علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔حضور انہیں ایسی بھی باتیں بعض اوقات بتاتے ہیں جس پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس گوشے تک رسائی نہیں۔یا یہ کہ معلوم ہی نہیں تھاکہ یہ گوشہ بھی ہے اورہنوز تشنۂ تحقیق ہے۔

ایک ملاقات میں مَیں نے اپنی حیرت کا اظہار کر ہی دیا۔ مگر سکون اور شانتی کے اس سمندر کے چہرے پر صرف اس خوشگوار مسکراہٹ کوپایا جوہم سب کے دلوں کو زندگی بخشتی ہے۔فرمایاانہی کی باتوں کو سن کر کچھ ذہن میں آجاتا ہے تو بتا دیتا ہوں۔ یا پوچھ لیتا ہوں۔ میں نے کون سا یہ سارے مضمون پڑھ رکھے ہیں۔تھوڑابہت ہی پتہ ہوتا ہے، اکثر وہی تھوڑا بہت بتا دیتا ہوں یا پوچھ لیتا ہوں۔

میں نے خاموشی سے یہ بات سن تو لی مگر ذہن میں سوال جُوں کا تُوں کھڑا تھا۔ پھر بات یوں سمجھ آئی کہ جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بچوں کی ایک معصوم بحث سن کر تربیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میاں نہ علم اچھا، نہ دولت اچھی۔ اللہ کا فضل اچھا۔ تو حضرت مسیح موعودؑ کی عاجزانہ راہوں کی طرح خدا کو یہ بات بھی ایسی پسند آگئی کہ اس نے حضرت مسیح موعود کی خلافت کی مسند پر بٹھانے کے لئے جسے بھی چنا، اسے ذہین و فطین ہونے اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کردینے والے وعدہ سے تبرکا وافر حصہ عطا فرمایا۔ اگر خلافت واقعی خدا کی قدرت کا اظہار ہے، اور یقیناً ہے، تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ربِ کائنات کی قدرت اپنی جھلک ان کے ہر قول وعمل میں نہ دکھائے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

………………………………..

جب حضور نے خاکسار کو ازراہِ شفقت ایم ٹی اے کے پروگراموں کی ذمہ داری عطا فرمائی، تو ایک روز فرمایا کہ اپنے ساتھ ایک ٹیم تیار کرو۔حضور نے پرسیکیوشن پروگرام شروع کروایا، پھر اسے راہ ہُدیٰ میں تبدیل فرما دیا۔ پھر بِیکن آف ٹروتھ شروع کروایا۔ پھر تاریخی حقائق بھی حضور انور نے ہی شروع کروایا اور پھر فقہی مسائل۔ یوں ایم ٹی اے کی سکرین پر ناظرین نے پروگراموں میں تدریجًاجو تنوع محسوس کیا، اس کا مختصر تذکرہ یہاں کئے دیتا ہوں، تفصیل آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں(یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ایم ٹی اے کے کسی بھی پروگرام میں جہاں خیر کا پہلو ہے، وہ حضور کی عنایت سے ہے۔ کوتاہیاں سب ہماری ہیں)۔ غرض، حضور پروگراموں کے پودے لگاتے رہے اور ان کی تعداد بڑھتی گئی ۔ٹیم بنانے کا ارشاد اسی پس منظر میں ہوا۔

تب تک جامعہ احمدیہ یوکے کو شروع ہوئے چار برس کا عرصہ ہو چکا تھا۔ سب سے بڑی کلاس درجہ ثالثہ میں پہنچ چکی تھی۔ حضور سے اجازت چاہی کہ طلبا جامعہ سے مدد لے لی جائے؟ توحضور نے بڑی محبت سے یہ اجازت عنایت فرمائی۔ انصر بلال انور صاحب (حال مربی سلسلہ جرمنی)، مصور احمد شاہد صاحب (حال مربی سلسلہ فن لینڈ)، عبدالقدوس عارف صاحب (حال مدرس جامعہ احمدیہ یوکے)، ایاز محمود خان صاحب (حال مربی سلسلہ وکالتِ تصنیف لندن)، جری اللہ خان صاحب (حال مربی سلسلہ جرمنی)، قاصد معین احمد صاحب (حال مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے)، محمد انس احمد صاحب (حال مربی سلسلہ سپین)، صباح الظفر صاحب (حال مربی سلسلہ جاپان)، مدبر دین صاحب (حال مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے)، مستنصر قمر صاحب (حال مربی سلسلہ نیوزی لینڈ)، رضا احمد صاحب (حال مربی سلسلہ لندن ریجن)، ظافر محمود ملک (مربی سلسلہ، ریویو آف ریلیجنز) وغیرہ رفتہ رفتہ اس ٹیم کا حصہ بنتے رہے۔ یہ سب اس وقت جامعہ کی مختلف کلاسوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

اِدھر ایم ٹی اے کے پروگراموں میں حضور کی توجہ اور نگرانی سے وسعت پیدا ہو رہی تھی، ادھر جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا ان کاموں کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور سنبھالنے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ اور یہ حضور کو معلوم تھا کہ کب کس پودے کی قلم کہاں سے نکال کر کہاں لگانی ہے۔ کب کہاں کی زرخیز مٹی، کس زمین پر بچھانی ہے تا کہ اور زمینیں بھی زرخیز ہوں۔ کون سے دریا سے نہر کدھر کو نکالنی ہے اور وہ کہاں کہاں سے گزر کر کن کن اراضی کو سیراب کرتی جائے گی۔ سو یہی طلبا جو حضور کی کلاسوں اور نشستوں اور ملاقاتوں سے فیض حاصل کرتے رہے، اب اس فیض کو عام کرنے لگے اور اللہ کے فضل سے جہاں جہاں ہیں، اسی فیض کو ہی عام کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

یہ سطور لکھتے ہوئے بہت سے ننھے چہرے نظروں کے آگے گھوم رہے ہیں جو بہت چھوٹے ہوتے سے حضور کی کلاسوں میں حاضر ہو کر معصوم باتیں کرتے کرتے یوں پروان چڑھے کہ آج نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ سفیر الدین قمر (کیمرہ مین ایم ٹی اے)، توقیر مرزا (ایڈیٹر ، ایم ٹی اے)، فائز احمد (آرکیٹیکٹ)، فاتح احمد (سول انجنئیر)، اظہار اشرف اور تصویر احمد (متعلم میڈیسن)، دانش احمد اور نہ جانے کون کون سے چہرے ہیں جن کو بہت چھوٹے ہوتے ہوئے ان مجالس میں حضور سے فیض پاتے دیکھا، اور پھر آج انہیں اس فیض کو عام کرتے ہوئے دیکھنے کی توفیق بھی مل رہی ہے۔

………………………………………

ان کلاسوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے چودہ برس کا عرصہ بیت گیا۔ کئی اسرار آج تک سمجھ نہیں آئے۔ پوچھنے کی مجال نہیں۔ حضور کی روزانہ کی ڈاک میں ہزاروں خطوط ہوتے ہیں۔ اچھے وقتوں میں وہ اضطراب کہ ابھی حضور کو خط لکھا جائے اگرچہ بہت خوش قسمت لوگوں کو میسر ہوجاتا ہے، مگر یہ اضطراب زیادہ تر پریشانی کے عالم میں انگڑائی لے کر اٹھتا ہے۔سو حضور کی روزانہ کی ڈاک میں ذاتی مسائل مثلاً دادی امّاں کا گر کر ہڈی تڑوا بیٹھنا، نانا ابو کو دمہ کا شدید دورہ، امتحانوں میں فیل ہوجانا، نوکری سے نکال دیا جانا، شوہر کے ظلم و ستم، بیوی کا سخت نافرمان اور منہ پھٹ ہونا، کسی کے لاعلاج مرض پر ڈاکٹروں کا صاف جواب ، ناہنجار اولاد کی بدتمیزی اور بے اعتنائی، غرض ہر طرح کے عجیب و غریب مسائل ہوتے ہیں۔ جماعت کی انتظامی ڈاک ہے تو اس میں کہیں مسجد بنتے بنتے اچانک حکومت کی طرف سے روک آگئی ہے، کہیں مسجد کے لئے زمین خریدتے خریدتے مقامی لوگوں نے طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا ہے اور اب کام روکنا پڑا ہے، کہیں معصوم احمدیوں کو ناحق پولیس اٹھا کر لے گئی ہے اور انہیں فردِ جرم عائد کئے بغیر(یا بے بنیاد فردِ جرم عائد کرکے)قیدوبند میں ڈال دیا ہے، اور یہ بھی کہ کہیں حضور کی پیاری جماعت کے ایک پیارے معصوم فرد کو صرف اس پاداش میں بیدردی سے شہید کردیا گیا ہے کہ وہ اس زمانہ کے امام کو مانتا تھا۔

اب یہ اور ایسے کتنے ہی مسائل ہیں جو حضور کو صبح و شام گھیرے رہتے ہیں۔یہی مسائل سنتے پڑھتے حضور کلاس پر تشریف لے آتے ہیں مگر چہرۂ مبارک پر ایک نورانی مسکراہٹ کھل کھیل رہی ہوتی ہے۔دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ اتنی طمانیت تو تبھی ہو سکتی ہے اگرحضور کی آج کے دن کی کُل مصروفیت صرف یہی ہو کہ اس کلاس کو رونق بخشنی ہے، پانچ نمازیں پڑھانی ہیں اور بس۔ مگر دنیا کو کیا معلوم کہ یہ ہستی اس وقت دنیا کی مظلوم ترین ہستی ہے۔ اس ہستی کی محبت میں مبتلا لوگوں نے اپنے سب دکھ درد اسی ہستی کی جھولی میں لا گرائے ہیں۔ قضا اور امور عامہ کی کارروائیوں میں الجھا ہواانصاف بلکہ احسان مانگ رہا ہے، کوئی دعا کی درخواست کررہا ہے، کوئی خلافِ تعلیمِ نظامِ سلسلہ کام کرکے اب اس پر معافی کا طلبگار ہے۔کسی کی غلطی پر حضور اس سے ناخوش ہوئے ہیں تو وہ معافی کا خواستگار ہے۔ دوسری پارٹی کہتی ہے کہ اسے کبھی معاف نہ کیا جائے ورنہ عدل پامال ہوجائے گا۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کے انتظامی مسائل بھی آپ ہی حل کررہے ہیں۔ آخری منظوری کا کام اللہ نے آپ ہی کے سپرد کردیا ہے۔ہر فیصلہ کی ذمہ داری بھی خدا کے حضور خود ہی لینی ہے۔

آپ مسائل و مصائب کے اس چکر سے کچھ وقفہ لے کر باہر کلاس میں آئے ہیں۔ نماز پڑھانی ہے، اور پھر واپس اسی دنیا میں لوٹ جانا ہے۔مگر جونہی کلاس کے لئے محمود ہال میں تشریف لائے، آپ کی مسکراہٹ نے ماحول کو روشن کردیا۔ بیٹھ کر بچوں کی باتیں سن رہے ہیں، سوالات سن کر جواب عطا فرما رہے ہیں، کسی کو اس کے ابّا کے آپریشن کا پوچھ رہے ہیں کہ خیریت سے ہوگیا۔ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں کہ امتحان ہونے والا تھا، کیسا ہوا؟ سردیاں ہیں تو کسی کا ملبوس دیکھ کر ازراہِ مزاح یہ بھی فرما رہے ہیں کہ سب ٹھٹھر رہے ہیں، تمہیں گرمی لگ رہی ہے؟۔اس سب میں کلاس کے بچے اور ہم سب بھی محظوظ ہو رہے ہیں۔کاش ہمیں ان خوشگوار لمحات میں یہ دعا ہمیشہ یاد رہ جایا کرے کہ

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُس۔

اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرلیں کیونکہ اللہ ہی ہے جو حضور کے دکھوں اور غموں کو ہلکا کر سکتا ہے۔اور اللہ پر بھروسہ ہی ہے جو حضور کو یہ طاقت دیتا ہے کہ سمومِ غم اور مصروفیات کے ہجوم میں بھی ہماری دلداری، ہماری تعلیم و تربیت اور ہماری اصلاح کے لئے سامان پیدا فرماتے ہیں۔خدا کرے کہ ہم آئندہ جب بھی حضور انور کو بالمشافہ دیکھیں یا ٹی وی پر دیدار کا شرف حاصل ہو، تو ان اشعار کا مضمون ذہن میں رکھ لیا کریں

دعا کرو کہ سروں پہ رہے وہ ابر کرم

دلوں میں نور کی جو کھیتیاں اگاتا ہے

دعا کرو وہ شجر عمر بھر رہے قائم

وہ جس کے سائے میں ہر شخص چَین پاتا ہے

دعا کرو کہ نہ آنچ آئے اس کے سر پہ کبھی

جو سب کو پیار سے اپنے گلے لگاتا ہے

دعا کرو وہ خزانہ کبھی نہ ہو خالی

جو غم نصیب غریبوں کے کام آتا ہے

دعا کرو کہ نہ گہنائے تا ابد وہ چاند

جو ظلمتوں میں دئیے پیار کے جلاتا ہے

دعا کرو کہ وہ پرچم سدا بلند رہے

خدا کے دیں کی طرف جو ہمیں بلاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button