متفرق مضامین

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط ششم)

(آصف محمود باسط)

ایک اور واقعہ جو ذاتی مشاہدہ اور تجربہ میں آیا پیش کرتا ہوں۔

گزشتہ مضامین میں ذکر آچکا ہے کہ کس طرح حضورانور ایدہ اللہ تعالی کی خاص ہدایت اور رہنمائی و توجہ سے ایم ٹی اے کے پروگرام راہِ ہدی کے لئے بعض موضوعات پر تحقیق کرنے کا موقع میسرآیا۔ پادری پگٹ، پادری مارٹن کلارک اور کرنل ڈگلس وغیرہ سے متعلق برطانیہ میں مدفون آرکائیوز محض حضور کی دعا اور توجہ سے حاصل ہوئے۔ جب East London مسجد والوں نے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ یہ لندن میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی تو ایک بار پھر حضور کی اجازت اور رہنمائی سے تمام آرکائیوز کھنگالے گئے اور بہت سے دستاویزی ثبوت میسر آئے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی سے زیادہ تھے کہ مسجد فضل ہی لندن میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔(اس پر مضمون ریویوآف ریلیجنز میں شائع ہو چکا ہے اور ان کی ویب سائٹ پر بسہولت تلاش کیا جا سکتا ہے۔ عنوان تھا

London›s First Mosque: A study in history and mystery)۔

یہ کام راہِ ہدی پروگرام کے ساتھ وابستہ کوششوں کا حصہ تھے۔

ایک روز اسی طرح کی کسی تحقیق کا معاملہ حضور انور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور انور نے دریافت فرمایا یہ سارا مواد کہاں رکھتے ہو؟ ۔عرض کی گئی کہ بیت الفتوح میں اپنے دفتر ہی میں ایک الماری مخصوص کی ہوئی ہے، اسی میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔حضور کے چہرہ مبارک پر تسلی نظر آئی۔

ان تحقیقی مساعی میں بہت سی کتب لندن کی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں سے حاصل کرنا ہوتیں۔ یہ کتب خانے یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے لئے تو بلامعاوضہ کتب مستعار دیتے ہیں، مگر باہر کے آدمی کے لئے اوسط200پاؤنڈ سالانہ ممبرشپ فیس ہوتی ہے۔ مجھے متعدد لائبریریوں اور اداروں کی ممبر شپ حاصل کرنا پڑتی جس کے لئے حضور انور نے ہمیشہ بہت خوشی اور محبت سے اجازت بھی مرحمت فرمائی اور دیگر تمام ذرائع بھی۔بہت سی کتب خریدنا پڑتیں جو کبھی انٹرنیٹ سے خریدی جاتیں، کبھی کتب کی دکانوں سے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اس وقت بھی میرا دل اپنے آقا کے لئے تشکر کے جذبات سے پُر ہے کہ میرے آقا نے اپنے اس نالائق غلام کی کتب خریدنے کی ہر درخواست منظور فرمائی۔ اکثر تو کتب پر ہونے والے خرچ کے تخمینہ کے ذکرتک بھی پہنچنے نہیں دیا اور اجازت مرحمت فرما دی۔یہ کتب رکھنے کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو انگلستان میں رہتے ہیں انہیں تو معلوم ہی ہے مگر وہ جو نہیں رہتے انہیں بتانے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ذکر کر دیا جائے کہ یہاں جگہ کی بہت شدید قلّت ہے۔ 1984 ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہجرت فرمائی تو اس ہجرتی حالت میں مرکز کا کام یہاں لندن سے شروع ہو گیا۔ کہیں کوئی کمرہ کسی وکالت کا دفتر بن گیا، کہیں کوئی عارضی کیبن نشرواشاعت کا دفتر مقرر ہوا۔وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت کشادگی پیدا کی مگر جو جماعت مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہو، اس کے لئے جو لباس بھی بناؤ، بہت جلد چھوٹا اور تنگ ہو جاتا ہے۔ سو یہاں جگہ کا تقاضا کرنا ویسا ہی ہے جیسا غالب نے کہا کہ

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں شرم آ پڑی ہے کہ تکرار کیا کریں

تو ایک تو یہ شرم تھی جس کے باعث کتب کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی اسی چھوٹے سے کمرہ میں سمونا پڑا جو ہمیں بیت الفتوح میں دیا گیا تھا۔

دوسری بات جو ہمیشہ کسی تقاضا سے مانع رہی، وہ محترم سید طاہر شاہ صاحب (ناظر اشاعت برائے ایم ٹی اے) کے سنائے ہوئے بعض واقعات تھے جن کا تعلق اس دَور سے تھا جب انہیں حضور انور کے خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے قبل حضور کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ایک مرتبہ وہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بتاتا ہوں کہ بے جا تقاضا کبھی نہیں کرنا کیونکہ میں نے جس آدمی سے کام سیکھا ہے وہ کبھی تقاضا نہیں کرتا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت مرزا منصور احمد صاحب(ناظر اعلیٰ) نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسروراحمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ)کو ایک اہم کام سپرد کرکے لاہور بھیجا۔ اس کام کے لئے حضرت مرزا منصور احمد صاحب نے انہیں دفتر کی کار دے کر روانہ فرمایا۔ جب لاہور پہنچ کر کام ہو گیا اور حضور انور اور سید طاہر شاہ صاحب نے واپسی کا قصد کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اسے تو لاہور میں اَور بھی کام کرنے کو کہا گیا ہے اور فی الحال واپس نہیں جارہا۔ محترم شاہ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کہابھی کہ ربوہ فون کر کے کار منگوا لیں، مگر انہوں نے ایسا تقاضا کرنا مناسب خیال نہ کیا۔شاہ صاحب کہتے ہیں کہ دونوں نے وہاں سے سیدھا ریلوے سٹیشن کا رخ کیا اور ریل گاڑی پر سفر کر کے واپس روانہ ہوئے۔ چونکہ آخری لمحات میں گاڑی پر سوار ہوئے تھے، کوئی سیٹ بھی نہ تھی، بیشتر سفر ریل گاڑی کے پائیدان پر کیا گیا۔

محترم شاہ صاحب نے ایسے ہی اور بھی واقعات سنائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ بے جا مطالبے کرنا حضور کو پسند نہیں۔تو یہ سب مستحضر رہتا اور کبھی خیال نہ آتا کہ جگہ کا مطالبہ کیا جائے۔ کبھی لگتا کہ جائز ضرورت ہے، مگر پھر خیال آتا کہ ضرورت جائز سہی، جگہ آئے گی کہاں سے، لہٰذا یہ مطالبہ کرنا نہایت نا مناسب لگے گا۔

پس ان کتب کے لئے اپنے چھوٹے سے کمرہ میں دیواروں پر بہت اوپر سے لے کر نیچے تک شیلف لگوائے اور ان پر کتب کو رکھنا شروع کر دیا۔ ایک روز حضور انور نے کتب کے ذکر پر فرمایا کہ اس لائبریری کا نام ’راہِ ہدی لائبریری‘ رکھ لو۔ عرض کی گئی کہ حضور ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آنے جانے والے لوگ کتابوں کو عاریۃً لے جانے کا کہتے ہیں اور پھر کبھی واپس کرتے ہیں، کبھی نہ انہیں یاد رہتا ہے نہ مجھے۔ اس پر فرمایا کہ اس کا حل تو بڑا آسان ہے۔ لائبریری کا نام ’راہِ ہدیٰ ریفرنس لائبریری‘ رکھ لو۔ یوں لوگوں کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کتاب باہر نہیں لے جانی۔ زیادہ اصرار کریں تو بتا بھی دینا۔ حضور کے اس ارشاد کی برکت سے اوّل تو ایسے تقاضا کا سامنا بہت ہی کم کرنا پڑا ۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے کتاب لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں بتا دیا کہ بھئی کتاب دفتر سے باہر نہیں جاسکتی، کیونکہ حضور کا ارشاد ہے کہ کتاب مستعار نہ دی جائے۔ انہوں نے حضور کے ارشاد کا سن کر بظاہر برا تو نہیں منایا مگر ظاہر ہے کہ انہیں ضرورت تھی ۔ مجھے احساس ہؤا کہ میں حضور کے ارشاد کی آڑ لے کر ان کی ضرورت(جو کہ جماعتی نوعیت ہی کی تھی)کی راہ میں روک بن رہا ہوں۔پھر خیال آیا کہ حضور شاید یہ کبھی بھی پسند نہ فرمائیں کہ ان کتب سے استفادہ کرنے سے کسی کو روک دیا گیا ۔ پس ان سے پوچھ کر کہ انہیں کون سے حصہ کی ضرورت ہے، خاکسار نے انہیں وہ تمام حصہ فوٹو کاپی کر کے مہیا کر دیا۔ یوں یہ لائبریری حضور کی توجہ کے طفیل بڑی حفاظت سے پھلتی پھولتی رہی۔شیلف اتنے زیادہ بن گئے کہ وہ کتب جو بہت زیادہ لگتی تھیں کم لگنے لگیں اور یوں اور کتب کی گنجائش نکلتی چلی گئی۔ ایک روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ طاہر ہال میں جلسہ بنگلہ دیش 2010ء سے لائیو خطاب فرما کر ایم ٹی اے میں تشریف لائے۔ ہمارے کمرہ کی قسمت بھی جاگی اور حضور انور نے ہمارے دفتر میں بھی قدم رنجاں فرمایا۔ حضور نے دفتر میں آکرسب سے پہلے کتابوں کے شیلف کی طرف دیکھا اور کافی دیر تک نظرِ مبارک کتب پر ہی رہی۔ ساتھ کھڑے ہمارے ایم ٹی اے کے ایک عہدیدار نے عرض کی کہ انہوں نے اپنی لائبریری بہت اچھی بنا لی ہے۔ حضورانور نے فورًا فرمایامَیں نے بنوائی ہے تو بنا لی ہے، آپ لوگوں پر چھوڑا جاتا تو کبھی نہ بنتی ۔ ساتھ ہی فرمایا کہ لائبریریاں تو بہت ہونی چاہئیں۔ آپ بھی بنائیں۔

ہم لوگ مغربی اداروں کی طرف رشک سے دیکھتے رہتے ہیں کہ ہر ادارہ کی اپنی لائبریری ہے۔ کثرت سے کتب خانے موجود ہیں۔ مگر ہمارا دھیان ادھر کیوں نہیں جاتا کہ ہمارے امام کا منشاء تو اس سے بھی بڑھ کر ہے، یعنی یہ کہ ادارہ جات کے اندر بھی لائبریریاں ایک سے زیادہ ہوں۔ علم کی دولت عام ہو، خواہ شعبہ کوئی بھی ہو۔ ہر شعبہ میں علمی ترقی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ حضور انور کے وِژن کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ مذہب علم کی راہ میں روک ہے۔ حضور تو خود علم کا سمندر ہیں اور اس سمندر سے ہم جیسی بنجر زمینوں کو سیراب فرمانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

ذکر چل رہا تھا کہ تاریخی دستاویزات اور کتب جمع ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ ابھی تک یہ سب کسی نہ کسی طرح ایم ٹی اے کے پروگراموں سے متعلق تھا۔ مگر پھر حضور انور کی طرف سے تحقیق سے متعلق ایسے ارشادات موصول ہونے شروع ہوئے جو براہِ راست ایم ٹی اے سے متعلق نہ تھے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاول تحریر فرمایا کہ ایک انگریز دوست ایمان لائے ہیں ۔ مدراس پریذیڈنسی میں منصفی کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اپنا نام جان ویٹ بتاتے ہیں۔ آپ کے پاس کشمیر بھی حاضرہوں گے۔

حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ان کو تلاش کیا جائے کہ یہ کون تھے ۔ ارشاد موصول ہوتے ساتھ ان کی تلاش شروع کر دی گئی۔مکتوبِ مبارک میں ان کے شعبہ منصفی سے متعلق ہونے کا اشارہ تھا۔ سو اس قدر معلوم تھا کہ برطانوی ہندوستان کی جوڈیشل سروس میں تھے۔ بالکل خالی الذہن حالت میں اپنے امام کے ارشاد کو سر آنکھوں پر رکھے انڈیا آفس ریکارڈز کے سیکشن واقع برٹش لائبریری پہنچا۔ یہاں ایک مشکل اور اس کے حل ہونے کا ذکر ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں جو بھی نکلے، اللہ اس کی خاص مدد فرماتا ہے۔ ہم اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں۔ لیکن حضور انور کے ارشاد کی تعمیل کی نیت لے کر نکلیں تو اللہ تعالیٰ راستے کھولتا چلا جاتا ہے۔ مشکل یہ تھی کہ جان سے تو اندازہ ہو رہا تھا کہ انگریزی نام Johnاسی طرح لکھا جاتا ہے۔ مگر ویٹ جیسا نام تلاش کرنا مشکل بن گیا۔ اس تلفظ کے ساتھ انگریزی ناموں کی فہرستوں کو کھنگالا گیا تو کئی طرح کے نام سامنے آئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا اور یہ تلاش بے سود نظر آئی۔ مگر ساتھ ہی ذہن میں آیا کہ انڈیا آفس کے اس زمانہ کے ، اس علاقہ میں تعینات جوڈیشل سٹاف کی فہرستوں کو دیکھا جائے تو اس نام سے ملتا جلتا نام کوئی تو ہوگا۔ اس سے ضرور اشارہ ملے گا۔ ان ریکارڈز میں ان سالوں میں اس سے ملتا جلتا نام تلاش کیا گیا تو ایک صاحب Ernest John Somber Whiteنامی ملے جو منصفی کے عہدہ پر فائز تھے۔ ان کا نام متواتر کئی سال تک آتا رہا ۔ پھر جو سال ان کے قادیان جانے کاتھا، وہاں وہ چھٹی پر تھے۔ پھر مسیح پاک علیہ السلام کے مکتوب کے مطابق ان کا تبادلہ جہاں ہونے والا تھا، ان کا نام اس مقام کی فہرستوں میں نظر آنے لگا۔ یوں یہ امر طے ہو گیا کہ یہ وہی صاحب تھے جن کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مکتوبِ گرامی میں تحریر فرمایا تھا۔ یہ اور ایسے تمام معاملات تصدیق کی منزل تک اس وقت تک نہیں پہنچتے جب تک کہ خلیفۂ وقت ان پر مہرِ تصدیق ثبت نہ فرمادے۔ لہذا ایسے تمام معاملات حضور کی خدمت میں پیش کئے جاتے اور حضور بڑی تفصیل سے حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ فرماتے اور پھر فیصلہ صادرفرماتے۔

اس کے بعد برطانوی ہندوستان کے کسی پادری، کسی اعلیٰ اہلکار کو تلاش کرنے کے ارشادات موصول ہوتے گئے۔ تلاش کر کے تفصیل حضور انور کی خدمت میں پیش کی جاتی، اور حضور سن کر اسے محفوظ کر لینے کا ارشاد فرماتے۔ پھر یہ ہؤا کہ دنیا بھر سے کسی نے کوئی تاریخی دستاویز حضور انور کی خدمت میں ارسال کی تو اس ارشاد کے ساتھ خاکسار کو بھجوادی جاتی کہ سنبھال کر رکھ لیں یا یہ کہ محفوظ کر لیں۔ اب اس کام کے لئے ایک مضبوط الماری اسی کمرہ میں گنجائش نکال کر رکھ لی گئی اور اس میں ان چیزوں کو محفوظ کر کے رکھ لیا جاتا۔

………………………

اوپر ذکر گزرا ہے کہ ایسٹ لندن مسجد والوں نے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ ان کی مسجد لندن کی پہلی مسجد ہے۔ اس کے جواب میں ایک مفصّل تحقیقی مضمون لکھا گیا جس میں ثابت کیا گیا کہ مسجد فضل لندن ہی لندن کی پہلی مسجد ہے۔ اس دوران ایک پروفیسر صاحب سے ملنے کی ضرورت پیش آئی جو برطانیہ میں اسلام کی تاریخ پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا نام پروفیسر Ronald Geaves ہے ۔ وہ ان دنوں لِورپول میں مقیم تھے۔ ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اس بحث سے مطلق لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ جماعت احمدیہ بہت دیر سے برطانیہ میں ہے مگر پہلی مسجد کی اس بحث سے کوئی واقفیت نہیں۔

حضور انورکی اجازت سے موصوف کو لندن آنے کی دعوت دی گئی۔ انہیں مخزنِ تصاویر کی نمائش دکھائی گئی اور انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جماعت احمدیہ کی مساجد دنیا بھر کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی شام ان کی ملاقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے جماعت احمدیہ کے ابتدائی حالات کا کچھ علم تو تھا مگر یہ ہر گز معلوم نہ تھا کہ جماعت احمدیہ کس قدر پھیل چکی ہے۔ نیز یہ کہ اب تک کا کُل علم زیادہ تر لاہوری احمدیوں اور ووکنگ مسجد کے حوالہ سے تھا۔ مگر آج میں نے یہ مسجد دیکھی ہے، اس کے بارہ میں جو تحقیقی مواد جمع کیا گیا وہ بھی دیکھا ہے ، اور مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام کی کہانی کا ایک بہت اہم حصہ میری نظر سے پوشیدہ رہا ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا

Does that mean a new chapter in one of your books?

کہنے لگے

No Your Holiness, that means a whole new book

اس کے ساتھ ہی انہوں نے برطانیہ میں اسلام کی تاریخ میں جماعت احمدیہ کے عظیم الشان کردار پر تحقیق شروع کر دی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے ربوہ اور قادیان جا کر جماعتی آرکائیوز کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور اس خواہش کی تکمیل بہت جلد ہو گئی۔ حضور انور کے ارشاد پر محترم چوہدری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ نے ایک کمیٹی بنائی جو ربوہ میں انہیں ضروری مواد مہیا کرنے کی ذمہ دار تھی۔ وہاں وہ صبح سے شام تک مواد دیکھتے اور چونکہ بیشتر مواد انگریزی میں تھا، محترم مرزا عثمان احمد صاحب اور محترم اسفندیار منیب صاحب انہیں مواد تلاش کر کے دیتے رہے اور وہ مطلوبہ مواد جمع کر کے ساتھ لے آئے۔ قادیان میں بھی محترم محمد حمید کوثر صاحب نے اس سلسلہ میں ان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔

واپس آکر انہوں نے حضور انور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو وہ حضور کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ خاکسار پچھلی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنے سفر اورتحقیق کا احوال بیان کیا اور بعض امور میں حضور انور سے رہنمائی کی درخواست کی۔مثلاً 1914 ء میں لاہوری جماعت کے الگ ہو جانے کے پس منظر وغیرہ پر حضور سے معلومات حاصل کیں۔ آخر پر کہنے لگے کہ مَیں اپنی ایک پریشانی کا اظہار حضور کے سامنے براہ راست کرنا چاہتا تھا، اور وہ یہ کہ ربوہ میں آپ کے آرکائیوز کے انبار لگے ہیں۔ مگر پاکستان کے حالات میں وہ غیر محفوظ ہیں۔ انہیں محفوظ کرنے کے لئے کچھ کیا جانا چاہئے، اور یہ صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔

حضور انور نے ان کی بات کو سنا اور خاکسار کو فرمایا یہ نوٹ کر لو۔خاکسار اگلی ملاقات میں حاضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ وہ جو آرکائیوز والی بات کر رہے تھے، اس کا پورا پلان بنا کر لاؤ۔خاکسار نے ایک پلان تیار کیا اور اگلی ملاقات میں حضور انور کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ سارا پلان اس وقت کی صورتحال کے مطابق ہی تھا، یعنی جس طرح کام چل رہا تھا اسی طرز میں ان امور کا اضافہ کر دیا گیا کہ یہ مواد ربوہ اور قادیان سے کس طرح حاصل کیا جائے اور کس طرح اسے یہاں محفوظ کیا جائے۔ تب تک ایسے تمام کاموں کے لئے یاتو ایم ٹی اے کا بجٹ کافی ہوتا یا پھر اخراجات کے لئے رقوم ایڈیشنل وکالتِ مال لندن سے حاصل کی جاتیں۔ مگر جو پلان حضور انور کی خدمت میں پیش کیا گیا، اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اس میں بجٹ بھی شامل کیا جائے۔ بجٹ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ سب رکھو گے کہاں پر؟ پرنٹر کی ضرورت ہے، الماریوں کی ضرورت ہے اور دوسرا سامان ضروری ہے تو اس سب کے لئے تو تمہارا چھوٹا سا دفتر کافی نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی حضور نے اس خط پر تحریر فرمایا ’الگ شعبہ۔ الگ دفتر‘ اور خط الشرکۃ الاسلامیہ کے چیئر مین عبدالباقی ارشد صاحب کو مارک فرما دیاجن کے سپرد طاہر ہاؤس، ڈئیر پارک روڈ کی بلڈنگ کا انتظام و انصرام ہے۔

پس یوں حضور انور کے ارشاد کے مطابق یہ شعبہ قائم ہوا جس کا نام ’احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سنٹر‘ رکھا گیا اور اس کا دفتر حضور کی خاص شفقت سے طاہر ہاؤس لندن کے ایک نئے بلاک میں بنایا گیا اور اللہ کے فضل سے اکتوبر 2014 ء سے یہ شعبہ حضور انور کی نگرانی میں کام کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی نظر جماعت کے تمام امور پر ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت سے زیادہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کسی بات کی زیادہ فکر یا کسی ضرورت کی زیادہ تفہیم حاصل ہو گئی ہے۔ بعض اوقات لوگ حضور انور کی خدمت میں تجویز پیش کر دیتے ہیں اور پھر اس بات پر پریشان نظر آتے ہیں کہ عرض تو کر دی تھی، معلوم نہیں حضور کو ملی بھی ہے یا نہیں۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ شاید حضور بھول گئے ہوں۔ اوپر تو صرف دو واقعات بیان ہوئے۔ مگربے شمار واقعات سے میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ حضور کبھی کوئی بھی بات نہیں بھولتے۔ ہر بات یاد ہوتی ہے، مگر اس کو عملی جامہ پہنانے یا نہ پہنانے کا فیصلہ حضور اس وقت کرتے ہیں جب اس کے لئے سب سے مناسب وقت ہوتا ہے۔ اکثر معاملات میں دیکھا ہے کہ حضور عجلت سے کام لینا پسند نہیں فرماتے۔ قانون قدرت ہی کی طرح حضور بھی پسند فرماتے ہیں کہ خیالات، تدابیر، فیصلے سب ارتقاء سے گزریں اور پھر کوئی حتمی شکل اختیار کریں۔ پھر اس حتمیت پر پہنچ کر حضور فرمانِ الٰہی کے مطابق عزم فرماتے اور توکل علی اللہ پر بنیاد رکھ کر فیصلہ فرماتے ہیں۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے پہلے فورم منعقدہ بہار 2011 ء میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایم ٹی اے کے انتظامی ڈھانچہ میں کچھ تبدیلی کرنا چاہتا ہوں تا کہ کام زیادہ فعال اور منظم طور پر ہو سکے۔ ہم سب کارکنان اس تبدیلی کا انتظار کرنے لگے۔ حضور کے اس ارشاد میں جو وثوق تھا وہ عام آدمی کو حاصل ہوجاتا تو شاید تبدیلی چند روز میں ہو جاتی۔ ہم کارکنان جو عام لوگ ہی تھے، چند روز میں اس تبدیلی کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ مگر دن گزر گئے۔ ہفتے گزر گئے کئی ماہ گزرے اور پھر دو سال کا عرصہ بیت گیا۔ یہ تبدیلی کہیں بہار 2013ء میں جا کر ہوئی جس میں حضور انور نے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے انتظامی ڈھانچہ میں تبدیلیاں فرمائیں۔ پھر ہم کیسے یہ نہ مان لیں کہ ہماری سوچ کی لہریں اور خلیفۂ وقت کی سوچ اور شعور کی لہریں الگ دنیاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہم عجلت کا شکار لوگ ہیں، اور حضور اس خدا کے مقرب ترین آدمی ہیں جو تعجیل سے کام نہیں لیتا۔ جس نے انسان کو ارتقا سے گزارا۔ انسانی ذہن اور شعور کے ارتقاء کی اس منزل کا انتظار کیا جہاں وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لائق ہو سکے۔ اس عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امّت بگڑی تو 14صدیوں تک خدا نے انتظار کیا کہ اس موعود مسیح کو بھیجا جائے جس سے اُمّت کی اصلاح مقدر ہے۔ پس ہم اپنی دنیا میں اس دنیا کا اِدراک کیسے حاصل کر سکتے ہیں جہاں فیصلے عالَمِ روحانی میں اس خدا کے اِذن سے ہوتے ہیں جس کے بارہ میں مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا کہ

’وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے‘

………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button