الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

حضرت اُمّ عمّارہ رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کی سیرۃ و سوانح کا مختصر ذکر مکرمہ سیّدہ نیّر طاہر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت اُمّ عمّارہؓ کا اصل نام نسیَبہ بنت کعب بن عمر تھا۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے نجّار خاندان سے تعلق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بھی اسی خاندان سے تھیں اور اسی وجہ سے آنحضورؐ اور تمام مسلمان اس خاندان کی بڑی قدر کرتے تھے۔

حضرت اُمّ عمّارہ 584ء میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ یثرب کی وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں بیعتِ عقبیٰ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ کی پہلی شادی چچازاد حضرت زیدؓ بن عاصم سے ہوئی جن سے دو بیٹے حضرت عبداللہؓ اور حضرت حبیبؓ پیدا ہوئے۔ جنگ بدر میں حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کی شادی حضرت عربہ بن عمرؓ سے ہوئی جن سے دو بچے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔

حضرت اُمّ عمّارہؓ کو غزوۂ اُحد، غزوۂ خیبر، غزوۂ حنین اور جنگ یمامہ کے علاوہ صلح حدیبیہ، بیعتِ رضوان اور فتح مکّہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت کا شرف حاصل ہوا۔ غزوۂ اُحد سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو چند دیگر خواتین کے ہمراہ لشکر کے ہمراہ جاکر زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنے اور پانی پلانے کی اجازت عطا فرمائی۔ جب جنگ کے دوران مسلمانوں کے درّہ چھوڑ دینے کے نتیجہ میں کفّار کا بھرپور حملہ ہوا تو حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوگئے جن کا حُلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا۔ اس پر کفّار نے یہ خبر پھیلادی کہ رسول اکرمؐ مارے گئے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب آنحضورؐ کی حفاظت کے لئے صرف حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ باقی رہ گئے۔ ابنِ قمئہ نے موقع سے فائدہ اٹھاکر آنحضورؐ کو ایک پتھر مارا جس سے آنحضورؐکے خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئیں۔ ایسے میں حضرت اُمّ عمّارہؓ مشکیزہ اٹھائے زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھیں کہ اچانک آپؓ کی نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو سب کچھ وہیں چھوڑ کر آنحضورؐ کی طرف دوڑیں۔ اسی اثناء میں عبداللہ بن قمئہ نے آنحضورؐ پر تلوار سے وار کیا مگر حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ وار اپنے اوپر لیا جس سے کندھے پر بہت گہرا زخم آیا مگر اس کے باوجود آپؓ نے اُس پر جوابی حملہ کیا۔ وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے بچ گیا۔ اس دوران آپؓ کے دونوں بیٹے بھی وہاں پہنچ گئے اور ابن قمئہ بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ کے پاس تلوار تو تھی مگر کوئی ڈھال نہ تھی اس لئے آنحضورؐ پر ہونے والے ہر وار کو اپنی تلوار یا اپنے جسم پر لے لیتیں۔ آنحضورؐ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں آنحضورؐ نے ایک مسلمان کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اوبھاگنے والے! اپنی ڈھال تو اُن کو دیتے جاؤ جو لڑ رہے ہیں۔ اس پر وہ آدمی اپنی ڈھال وہیں پھینک کر بھاگ گیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے وہ ڈھال اٹھالی اور لڑنے لگیں۔ اسی دوران آپؓ کا بیٹا عبداللہ شدید زخمی ہوکر گرا اور اُس کا بہت سا خون بہہ نکلا۔ آپؓ نے اُس کی مرہم پٹی کی اور اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جب تک دَم میں دَم ہے تب تک دشمن سے لڑو۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں نے دوبارہ اکٹھا ہونا شروع کردیا اور خطرہ کچھ کم ہوا۔ تاہم اس خطرناک وقت میں حضرت اُمّ عمّارہؓ نے غیرمعمولی جرأت اور وفا کا نمونہ پیش کیا۔ اسی لئے جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اُمّ عمّارہ نے آج وہ کیا ہے جو اَور کسی نے نہیں‘‘۔ اس پر انہوں نے اس دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنّت میں بھی آپؐ کا قرب عطا فرمائے۔ آنحضورؐ نے اُسی وقت یہ دعا کی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے کہا کہ اب مجھے اس زندگی میں کوئی دُکھ باقی نہیں رہا۔

غزوۂ اُحد میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کو تیرہ زخم آئے جن میں سب سے گہرا کندھے کا زخم تھا جو بڑی دیر تک مندمل نہ ہوسکا۔ جنگ کے اختتام پر آنحضورؐ اُس وقت تک گھر نہ تشریف لے گئے جب تک حضرت اُمّ عمّارہؓ کی مرہم پٹّی نہ ہوگئی۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جتنا حوصلہ اُمّ عمّارہ میں ہے وہ اَور کس میں ہوگا!‘‘۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذّاب نے لشکر لے کر مدینہ پر چڑھائی کی تو راستہ میں حضرت اُمّ عمّارہؓ کے بیٹے حضرت حبیبؓ اُس کو مل گئے۔ اُس نے اُن سے اپنی نبوّت تسلیم کرنے کو کہا مگر انہوں نے صاف انکار کیا اور اُس کے ہر سوال پر اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہ کہتے رہے۔ اس پر مسیلمہ نے انہیں بڑی بیدردی سے شہید کردیا۔ یہ اطلاع ملی تو حضرت اُمّ عمّارہؓ نے قسم کھائی کہ یا تو وہ مسیلمہ کو مار دیں گی یا خود شہید ہوجائیں گی۔ آخر جنگ یمامہ میں جب آپؓ نے مسیلمہ کو دیکھا تو دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اُس کی طرف بڑھیں۔ زخم پر زخم کھاتے ہوئے اُس کے قریب پہنچ کر جب برچھی سے وار کرنے لگیں تو مسیلمہ دو ٹکڑے ہوکر زمین پر گرگیا۔ حضرت اُمّ عمّارہؓ نے دیکھا تو اُن کے بیٹے حضرت عبداللہؓ اور وحشی (جس نے اُحد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا مگر اب مسلمان ہوچکا تھا) وہاں کھڑے تھے اور اُن دونوں نے ہی مسیلمہ کو واصلِ جہنّم کیا تھا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اُمّ عمّارہؓ سے بڑی محبت تھی اور کبھی کبھی آپؓ کا حال دریافت کرنے آپؓ کے گھر بھی جایا کرتے تھے۔ ایک دن آنحضورؐ جب آپؓ کے ہاں گئے تو آپؓ نے کھانا پیش کیا۔ آنحضورؐ نے فرمایا: تم بھی کھاؤ۔ عرض کیا: مَیں روزے سے ہوں۔ فرمایا: جب کوئی شخص کسی روزہ دار کے سامنے کھانا کھائے تو فرشتے اُس روزہ دار پر درود بھیجتے ہیں۔ پھر آنحضورؐ نے آپؓ کے سامنے بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔

ایک روز آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید میں مَردوں کا ذکر تو بہت ہوا ہے مگر عورتوں کا اتنا نہیں۔ اس موقع پر سورۃالاحزاب کی آیت 36 نازل ہوئی جس میں ایسے مردوں اور عورتوں کی تفصیل ہے جن کے لئے مغفرت اور اجرعظیم کا وعدہ ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت خالدؓ بن ولیدبھی حضرت اُمّ عمّارہؓ کا حال دریافت کرنے آپؓ کے ہاں جایا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ تو آپؓ کو ’خاتونِ اُحد‘ کہہ کر یاد کرتے تھے۔ اُس دَور میں ایک دفعہ مال غنیمت میں بہت قیمتی ریشمی کپڑا آیا تو صحابہؓ نے کہا کہ اسے اپنی بہو صفیہؓ کو دے دیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں، یہ مَیں اُس کو دوں گا جو اس کی حقدار ہے، مَیں یہ عمّارہ کو دوں گا۔ پھر فرمایا کہ مَیں نے اُحد کے دن رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مَیں نے جب بھی اپنے دائیں یا بائیں دیکھا تو ہر طرف اُمّ عمارہؓ کو اپنے سامنے لڑتے ہوئے پایا۔ چنانچہ وہ کپڑا اُن کو بھجوادیا۔

آپؓ نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔

حضرت اُمّ سُلیم رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت اُمّ سلیمؓ کے اوصاف کا تذکرہ مکرمہ عائشہ منصور چودھری صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت اُمّ سلیمؓ کا نام غمیصاء، رملہ اور سہلہ بیان ہوا ہے ۔ آپؓ کا تعلق انصار کے مشہور قبیلے خزرج کی شاخ بنوعدی بن نجار سے تھا اور آپؓ ملحان بن خالد اور ملیکا بنت مالک کی بیٹی تھیں۔ آپؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ بھی تھیں۔ مدینہ میں اسلام کا پیغام پہنچا تو آپؓ نے بلاجھجک قبول کرلیا۔ آپؓ کے خاوند مالک بن نضر بھی خزرج قبیلہ سے تھے مگر اسلام کے مخالف تھے۔ جب وہ اپنے خاندان کو اسلام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکے تو دل برداشتہ ہوکر مدینہ سے شام چلے گئے جہاں بعد میں کسی نے اُنہیں قتل کرڈالا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت اُمّ سلیمؓ اپنے دس سالہ بیٹے انسؓ کی انگلی پکڑ کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور بچے کو اپنے خادموں میں شامل کرلینے کی درخواست کی۔ آپؐ نے یہ درخواست قبول فرمائی اور بچے کے سر پر دست شفقت پھیر کر دعائے خیر کی۔آپؓ انس بن مالک سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے تھے اور انہیں یَابُنَیَّ (اے میرے بیٹے) کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی تھے۔

حضرت اُمّ سلیمؓ بیوہ ہوگئیں تو کچھ عرصے بعد ان کے قبیلہ کے ہی زید بن سہل نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے مگر بُت پرست تھے۔ چنانچہ آپؓ نے اُنہیں بلاکر کہا کہ مَیں تو ایک اللہ کو ماننے والی اور رسول اللہؐ کی پیروکار ہوں جبکہ تم بُت کو پوجتے ہو جسے تم نے خود ہی بنایا ہے تو مَیں کس طرح تمہیں اپنے خاوند کے طور پر قبول کرسکتی ہوں۔ آپؓ کی استقامت دیکھ کر زید نے بھی اسلام قبول کرلیا اور اس کے بعد حضرت اُمّ سلیمؓ نے اُن کا پیغام قبول کرتے ہوئے اُن کے اسلام لانے کو ہی اپنا حق مہر قرار دیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج تک کوئی عورت اُمّ سلیم سے بہتر حق مہر مقرر نہیں کرسکی۔ بعد میں یہی زید بن سہل، حضرت ابوطلحہؓ کے نام سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی ثابت ہوئے۔

حضرت اُمّ سلیم اور حضرت ابوطلحہؓ کے گھر پر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کا بھائی چارہ قائم کرایا۔ جنگ اُحد اور جنگ حنین میں بھی دونوں میاں بیوی آنحضورؐ کے ہمراہ رہے۔ یہ تاریخی واقعہ بھی اسی جوڑے کا ہے جب سخت تنگی کے زمانہ میں ایک مفلوک الحال نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کچھ کھانے کے لئے سوال دراز کیا۔ آپؐ کے پچھوانے پر سب بیویوں کی طرف سے یہی جواب آیا کہ پانی کے سوا گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ کوئی ہے جو آج رات اس شخص کی مہمان نوازی کرے اور خداتعالیٰ کی رحمت سے حصّہ پائے۔ ایثار پیشہ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنی خدمات پیش کیں اور اُس شخص کو گھر لے آئے۔ پھر اپنی بیوی سے کہا کہ یہ خدا کا مہمان ہے اس کی خدمت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ بیوی نے کہا کہ آج تو صرف بچوں کے لئے کچھ کھانا ہے اور کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو بہلاپھسلاکر سُلادیتے ہیں۔ ان کے خاوند نے ہدایت کی کہ جب مہمان کے آگے کھانا رکھنا تو چراغ بجھا دینا تاکہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا ساتھ دینے کے لئے ہم خالی مُنہ چلاتے رہیں گے۔ چنانچہ کھانا رکھ کر حضرت اُمّ سلیمؓ چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے اُٹھیں اور اُسے بجھادیا۔ پھر دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ خالی منہ ہلاکر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ ایثار اور قربانی کا یہ نمونہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوا کہ بذریعہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ صبح آپؐ نے حضرت ابوطلحہؓ سے فرمایا کہ آج رات عرش کا خدا تم سے بہت خوش ہوا اور اس کے لئے سورۃالحشر کی آیت 10 اُتاری کہ ’اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انسؓ بن مالک کے گھر سوگئے تو حضرت اُمّ سلیمؓ ایک شیشی لے کر آنحضورؐ کا پسینہ اُس میں جمع کرنے لگیں۔ آنحضورؐ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ ہم یہ پسینہ اپنی خوشبو میں ملادیں گے تو وہ بہترین خوشبو بن جائے گی۔

حضرت اُمّ سُلیمؓ کے ایک چھوٹے بیٹے اُس وقت وفات پاگئے جب حضرت ابوطلحہؓ گھر پر موجود نہ تھے۔ آپؓ نے خود ہی بیٹے کے غسل و کفن کا انتظام کیا اور خاندان کے باقی افراد کو منع کردیا کہ وہ اس بارہ میں ابوطلحہؓ سے کوئی ذکر نہ کریں۔ جب رات کو حضرت ابوطلحہؓ گھر آئے تو آپؓ نے اُنہیں کھانا پیش کیا۔ جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو آپؓ نے اُن سے پوچھا کہ ’اگر آپ کو کوئی چیز امانت کے طور پر دی جائے اور پھر اُسے واپس لے لیا جائے تو کیا آپ کو بُرا لگے گا؟‘ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ اس پر آپؓ نے کہا کہ آپ کا بیٹا ابوعمیر بھی اللہ کی ایک امانت تھا اور اللہ نے اُسے واپس لے لیا ہے، آپ صبر کیجئے۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور پوچھا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ آپؓ کہنے لگیں کہ مَیں نے فوراً اس لئے آپ کو نہیں بتایا تاکہ آپ آرام سے اپنا کھانا کھالیں۔ اگلے دن حضرت ابوطلحہؓ نے یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آنحضورؐ نے ان کے اور اُن کی بیوی کے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی تعریف کی اور اس کے نعم البدل کی دعا کی۔ اس دعا کے نتیجہ میں ایک بیٹے عبداللہ پیدا ہوئے۔
حضرت اُمّ سُلیمؓ نہایت رحمدل اور عقلمند خاتون تھیں۔ آپؓ سے بہت سی احادیث بھی منسوب ہیں۔ لوگ فقہی معاملات میں بھی آپؓ سے مشورہ لیتے تھے۔ آپؓ کی وفات حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔


حضرت اُمّ حرام رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں بحری جنگ میں شہید ہونے والی پہلی صحابیہ حضرت اُمّ حرامؓ کا مختصر ذکر شامل اشاعت ہے۔

حضرت اُمّ سُلیم کی سگی بہن حضرت اُمّ حرامؓ کی شادی حضرت عبادہؓ بن صامت سے ہوئی جو مدینہ منورہ سے دومیل کے فاصلہ پر قباء کی بستی میں رہائش پذیر تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور بہت خیال رکھتے تھے۔ آپؓ کے ایک بھائی کی دردناک شہادت کے بعد آنحضورؐ دلجوئی کے پیش نظر کبھی کبھی حضرت اُمّ حرامؓ کے گھر بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار تشریف لائے تو گھر میں حضرت اُمّ حرامؓ کے ساتھ اُن کی بہن حضرت اُمّ سلیمؓ بھی اپنے بیٹے انسؓ کے ساتھ موجود تھیں۔ آنحضورؐ نے ان سب کو اکٹھا کرکے نماز پڑھائی جبکہ فرض نماز کا وقت نہیں تھا۔

ایک روز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت حضرت اُمّ حرامؓ کے ہاں آرام فرما رہے تھے تو کشفی طور پر آپؐ کو اسلامی بحری بیڑہ دکھایا گیا۔ آپؐ نے اس کشف کو بیان فرمایا تو اُمّ حرام نے عرض کی کہ دعا کریں کہ مَیں بھی اس میں شامل ہوجاؤں۔ آنحضورؐ نے دعا کی۔ آخر اس خواب کی تعبیر حضرت عثمانؓ کے دَور میں یوں پوری ہوئی کہ شام کے حاکم امیر معاویہؓ نے امیرالمومنین کی اجازت سے جزیرہ قبرص کی فتح کے لئے ایک بحری بیڑہ روانہ کیا۔ چونکہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تھی کہ جو اسلامی لشکر پہلی بحری جنگ میں حصّہ لے گا وہ جنّتی ہوگا اس لئے بہت سے جلیل القدر صحابہؓ بھی اس لشکر میں شامل ہوئے۔ حضرت اُمّ حرامؓ بھی اپنے شوہر حضرت عبادہؓ بن صامت کے ہمراہ اس لشکر میں شامل ہوکر قبرص گئیں۔ قبرص کی فتح کے بعد جب مجاہدین واپس آنے لگے تو حضرت اُمّ حرام سواری پر بیٹھتے ہوئے گھوڑے سے گر کر شدید زخمی ہوگئیں اور انہی زخموں کی تاب نہ لاکر شہادت پائی۔ جزیرۂ قبرص میں ہی آپؓ مدفون ہیں۔ یہ 28ہجری کا واقعہ ہے۔

حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت اُمّ ہانیؓ کی مختصر سیرۃ و سوانح مکرمہ زوباریہ احمد صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت اُمّ ہانیؓ کا اصل نام ’فاختہ‘ یا ’ہند‘ تھا۔ آپ حضرت ابوطالبؓ کی بیٹی اور حضرت علیؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ آپؓ کا نکاح ہبیرہ بن مخزم سے ہوا تھا جو قریش کے مشہور شاعر تھے لیکن اسلام کی نعمت سے محروم رہے۔ فتح مکّہ کے وقت نجران کی طرف بھاگ گئے۔ ان کے ہاں چار بیٹے حضرت عمروؓ، حضرت جادہؓ، حضرت ہانیؓ اور حضرت یوسفؓ پیدا ہوئے۔ چاروں نے اسلام کے لئے عظیم خدمات سرانجام دیں۔

بعض روایات کے مطابق حضرت اُمّ ہانیؓ نے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپؓ فرمایا کرتی تھیں کہ ہم رات کو کعبہ کے پاس رسول اللہ کی تلاوت سُنا کرتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ آپؓ نے فتح مکّہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ بہرحال آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت عقیدت تھی اور توکّل باللہ مثالی تھا۔ آپؓ کے شوہر نے اپنی نظموں میں آپؓ کو متنبّہ کیا تھا کہ اسلام لانے کی صورت میں آپؓ کو کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن آپؓ ثابت قدم رہیں اور اپنے چاروں بچوں کی تنہا پرورش کی ذمہ داری بہت بہادری سے اور بہترین رنگ میں کی۔

فتح مکّہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کے گھر تشریف لے گئے اور شکرانے کے آٹھ نفل اداکئے۔ یہ چاشت کا وقت تھا۔ یہیں آنحضورؐ نے کھانا کھایا۔ یہ کھانا روٹی کے سوکھے ٹکڑے تھے جو پانی میں بھگوکر کھائے اور سالن کی جگہ سرکہ ٹکڑوں پر چھڑک لیا۔آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اے اُمّ ہانی! سرکہ بہترین سالن ہے، وہ گھر فقیر نہیں ہوتا جس میں سرکہ ہو‘‘۔

اُس رات بھی آپؓ ہی کے ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمارہے تھے جب معراج کا کشف ہوا۔ حضرت اُمّ ہانیؓ بیان فرماتی ہیں کہ اُس روز عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آپؐ ہمارے گھر سو گئے تھے۔ ہم نے فجر کی نماز ادا کی۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے اُمّ ہانی! مَیں بیت المقدس گیا ، وہاں نماز پڑھی اور پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ ادا کی۔ مَیں نے عرض کیا کہ یہ بات لوگوں کو نہ بتائیں آپؐ کو لوگ جھوٹا کہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مَیں لوگوں کو یہ ضرور بتاؤں گا۔

حضرت اُمّ ہانیؓ کو غزوۂ خیبر میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور آپؓ کا یہ شرف بھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے بالائی جانب پڑاؤ کیا تو آپؓ کے سسرالی رشتہ دار بنومخزوم کے دو آدمی دوڑ کر آپؓ کے ہاں آئے اور اُن کے پیچھے حضرت علیؓ بھی آئے تاکہ اُن کو قتل کرسکیں۔آپؓ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے کہا کہ مَیں نے اُن کو پناہ دی۔ پھر آپؓ آنحضورؐ کے پاس آئیں۔ آنحضورؐ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! خوش آمدید، کیسے آنا ہوا؟ آپؓ نے سارا واقعہ عرض کیا تو آنحضورؐ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! جس کو تُو نے اَمان دی اُسے ہم نے اَمان دی، علی ان دونوں کو قتل نہیں کرے گا۔

حضرت اُمّ ہانیؓ سادہ طبیعت کی خوش مزاج خاتون تھیں۔ مہمان نوازی اور سلیقہ شعاری اپنی والدہ سے پائی تھی۔ فصاحت و بلاغت اپنے والد سے ملی تھی۔ قرآن کریم پر تدبّر کرتی رہتی تھیں۔ کثرت سے ذکرالٰہی کرتیں۔ فقہ سے خاص دلچسپی تھی۔ بعض فقہی مسائل اور بعض قرآنی آیات کے مفہوم براہ راست آنحضورؐ سے دریافت کئے ہوئے تھے۔ آپؓ سے 46 احادیث مروی ہیں۔

حضرت اُمّ ہانیؓ نے لمبی عمر پائی اور چاروں خلفائے راشدین سے فیضیاب ہوئیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں 50ہجری میں وفات پائی۔

چند دلچسپ روایات

جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ جنوری 2011ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب (استاذالجامعۃالاحمدیہ کینیڈا) کے قلم سے چند دلچسپ روایات شامل اشاعت ہیں۔

٭ ایک بار قادیان کے مضافات میں احمدیوں اور سُنّیوں کے درمیان حیات و ممات مسیح علیہ السلام کے موضوع پر ایک سہ روزہ مناظرہ ہوا۔ فریقین نے جلسہ کا حَکَم ایک معزز سکھ سردار کو تسلیم کیا۔ سُنّیوں نے دیکھا کہ دوسرے دن سردار جی نے واضح طور پر احمدیوں کے دلائل پر پسندیدگی کا اظہار کیا تو انہوں نے رات کو سردار صاحب کو پیغام بھیجا کہ مرزائی تو اپنے گھر چلے جائیں گے اور ہمارے اور آپ کے درمیان مفت کا سرپھٹول ہوگا، ذرا عقل سے کام لے کر فیصلہ دینا۔ یہ خبر احمدی مناظر کو بھی کسی طرح مل گئی۔ تیسرے روز احمدی مناظر نے کہا کہ اب تک تو مَیں نے قرآن و حدیث سے وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق کہا ہے، اب ایک ولی اللہ کا کلام سناتا ہوں جو شہادت دیتا ہے کہ جو پیدا ہوا وہ موت سے باہر نہیں۔ یہ ولی اللہ حضرت بابا نانکؒ تھے۔ پھر چند ایک شبد پڑھے۔ سکھ سردار عجیب مصیبت میں پڑ گئے کہ ہمسایہ زمیندار سُنّیوں کے خلاف فیصلہ دوں تو وہ کسی نہ کسی بہانے لڑائی مُول لیں گے اور احمدیوں کے خلاف منہ کھولوں تو گویا بابا نانکؒ صاحب اور گرنتھ صاحب کو جھٹلاؤں۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ یوں سنایا کہ دوستو! مسیح ابن مریم اگر زندہ بھی تھا تو اِن تین دنوں کی کھینچاتانی میں اس کا کام تمام ہوگیا ہے۔

٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک شخص میاں دین محمد ہوتا تھا جسے اُس کے غیرمعمولی سفید رنگ کی وجہ سے لوگ میاں بگّا کہتے تھے۔ یہ بالکل جاہل اور اَن پڑھ تھا۔ بلکہ نیم مخبوط الحواس تھا۔ مَیں نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ کیا تم نے بھی کبھی کسی کو تبلیغ کی ہے؟ کہنے لگا ہاں ایک دفعہ ایک غیراحمدی مولوی کے ساتھ میری بحث ہوئی تھی۔ مولوی نے میاں بگّا کے اِس سوال کے جواب میں کہ حضرت عیسیٰ کس طرح آسمان پر چلے گئے؟ ایک پتھر اٹھاکر آسمان کی طرف پھینک کر کہا کہ اِس طرح۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پتھر زمین پر آگرا تو میاں بگّا اُس طرف اشارہ کرکے فوراً بولا: فیر او پیا اے۔ (پھر وہ پڑا ہے)۔

٭ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھا کرتا تھا۔ وہ اتفاق سے ایک کام کے لئے مسجد مبارک گیا تو مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک مراثی کا گھوڑا چھوٹ کر مسجد میں گھس گیا اور لوگوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ مراثی تیرے گھوڑے نے مسجد کی بے ادبی کی۔ مراثی نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا، اُس نے مسجد کی بے ادبی کی، مجھے بھی دیکھا کہ کبھی مَیں نے بھی مسجد کی

بے ادبی کی ہو۔ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آئی۔ اس پر وہ شخص ایسا شرمندہ ہوا کہ اُسی روز سے نماز پڑھنے لگا۔

٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ریل میں ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ جناب کا دولت خانہ کہاں ہے؟

مَیں نے عرض کیا کہ جناب! آجکل یہ دستور ہورہا ہے کہ پوچھنے والا پوچھتا ہے کہ آپ کا دولت خانہ کہاں ہے اور بتلانے والا بتلاتا ہے کہ میرا غریب خانہ وہاں ہے۔ ممکن ہے جواب دینے والے صاحب کا خانہ اصلی معنوں میں ہی غریب خانہ ہو اور ممکن ہے کہ بسبب انکسار اُن کے واسطے ایسا ہی جواب میں کہنا مناسب ہو۔ لیکن میرا معاملہ خاص ہے۔ میرے قبضہ میں ایک غریب خانہ بھیرہ میں ہے جہاں مَیں پیدا ہوا تھا اور میرے آباء و اجداد کا بنایا ہوا غریب خانہ جھونپڑا اب تک وہاں موجود ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایک دولت خانہ تک رسائی بخشی ہے جہاں سے مجھے ظاہری اور باطنی دولت ملتی ہے اور وہ دولت خانہ قادیان میں ہے۔

٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کا نام اَسْتَغْفِرُاللّٰہ رکھا ہے۔ فرمایا: اچھا ہے، جتنی دفعہ اس کو بلائے گا خداتعالیٰ سے استغفار کرتا رہے گا۔

٭ محترم محمد اسماعیل صاحب پانی پتی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حسب معمول حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ درس دے رہے تھے کہ یکایک شہر کے چار پانچ مولوی تین چار بہت موٹی موٹی کتابیں بغل میں دبائے آگئے۔ حضرت میر صاحبؓ درس سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں اور تفسیریں اپنے ساتھ لائے ہیں۔ حضرت میر صاحبؓ نے مسکراکر میری طرف دیکھا تو مَیں مطلب سمجھ گیا اور آپؓ کی لائبریری سے جتنی موٹی موٹی کتابیں تھیں، خواہ کسی مضمون کی اور کسی زبان کی، وہ لا لا کر حضرت میر صاحبؓ کے سامنے ڈھیر لگادیا۔ اس پر انہوں نے آپس میں سرگوشی کی اور کہنے لگے کہ اس وقت تو ہم جاتے ہیں، کل آئیں گے۔مگر وہ کل کبھی نہیں آئی۔

٭ حضرت سیّد شاہ عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کتب لکھنے کی کیفیت یوں تھی کہ عصر کے بعد حضورؑ ٹہل ٹہل کر لکھتے جاتے تھے۔ تین دوات مٹی کی اور کانے کی قلمیں۔ مجھے کئی دفعہ فرمایا کہ اِن دواتوں میں پانی ڈال دو، ایک دفعہ مَیں نے ایک دوات میں پانی ڈال کر بھر دیا تاکہ جلد ختم نہ ہوجاوے۔ حضورؑ بہت ہنسے اور ہنستے ہنستے فرمانے لگے کہ آخر سیّد کے بیٹے ہیں، فراخ دِلی سے کام لیا

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ نومبرودسمبر 2011ء میں مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک غزل شائع ہوئی ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

پکاروں تجھے یہ اجازت نہیں ہے

کوئی اس سے بڑھ کے تو ذلّت نہیں ہے

مرے قصۂ دل سے واقف نہیں تم؟

مجھے سب سے کہنے کی عادت نہیں ہے

سجاتی تو ہوں مسکراہٹ لبوں پر

مگر غم چھپانے کی طاقت نہیں ہے

دلِ ناتواں! طنز کچھ ہنس کے سہہ لے

کہ اتنی بھی کیا تجھ میں وسعت نہیں ہے؟

مدینے کی گلیوں کو جانا ہے اب تو

مجھے گھر کو جانے کی فرصت نہیں ہے

نہیں دنیا والوں نے عظمتؔ کو جانا

یہ نادان ہو ، بے مروّت نہیں ہے

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ مئی و جون 2011ء میں مکرمہ خانم رفیعہ مجید صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:


جاتی ہوئی خزاں کے اشاروں سے پوچھ لو

معصوم کونپلوں کے نظاروں سے پوچھ لو

ہم خاکِ پائے آلِ محمدؐ کے ہیں سفیر

شمس و قمر سے پوچھو ستاروں سے پوچھ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button