الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کا ذکر گزشتہ شمارہ کے اسی کالم کی زینت بنایا گیا تھا۔ ذیل میں دیگر تین صاحبزادیوں کی مختصر سیرت و سوانح پیش ہے جو کہ رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں مکرمہ مبارکہ شاہین صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تیس برس تھی جب حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی پیدائش (پہلے بیٹے قاسمؓ کے بعد) ہوئی۔ چھوٹی عمر میں ہی آپؓ کا نکاح اپنے خالہ زاد حضرت ابوالعاص ؓ بن ربیع کے ساتھ ہوگیا جو حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو آپؓ فوراً ایمان لے آئیں۔ اس پر کفّار نے آپؓ کے خاوند سے آپؓ کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اگرچہ وہ اُس وقت ایمان نہیں لائے تھے لیکن حضرت زینبؓ سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس عمل کی ہمیشہ تعریف فرمائی۔

غزوۂ بدر میں ابوالعاص نے کفّار کی طرف سے شرکت کی اور گرفتار ہوگئے۔ اُن کے فدیہ میں حضرت زینبؓ نے کچھ چیزیں بھیجیں جن میں ایک ہار بھی تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔ یہ ہار دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت خدیجہؓ کی یاد تازہ ہوگئی اور آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر تم پسند کرو تو زینبؓ کا مال اُسے واپس کردو۔ چنانچہ وہ مال واپس کردیا گیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکّہ جاکر حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوادیں گے۔

جب حضرت زینبؓ مدینہ کے لئے مکّہ سے نکلیں تو چند قریش نے آپؓ کو بزور واپس لے جانا چاہا۔ جب آپؓ نے انکار کیا تو ایک بدبخت ہباربن اَسود نے نہایت وحشیانہ طریق پر آپؓ پر نیزہ سے حملہ کیا جس کے ڈر اور صدمہ سے آپؓ کو اسقاط ہوگیا اور پھر آپؓ کی صحت کبھی بحال نہیں ہوسکی۔ ابوالعاص کے چھوٹے بھائی کنانہ اس سفر میں آپؓ کے ساتھ تھے۔ قریش کے حملہ کے وقت انہوں نے بھی تیر نکالے اور کہا کہ اگر کوئی آگے بڑھا تو اُس کا نشانہ لوں گا۔ اس پر ابوسفیان نے قریب آکر کہا کہ ہمیں زینبؓ کو روکنے کی ضرورت نہیں مگر محمدؐ کی دشمنی کی وجہ سے اگر وہ ہمارے سامنے اور دن کے وقت جائیں گی تو اس میں ہماری سُبکی ہے۔ اس پر کنانہ حضرت زینبؓ کو واپس لے آئے اور پھر چند روز بعد رات کے وقت روانہ ہوئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ بن حارثؓ کومدینہ سے پہلے ہی روانہ فرمادیا تھا جو زینبؓ کو لے کر مدینہ پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ بعد قریش کا ایک قافلہ شام کی طرف گیا جس میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت زید بن حارثؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے اس قافلہ پر حملہ کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ اس موقع پر حضرت زینبؓ نے اُن کو پناہ دی اور اُن کا مال و اسباب واپس کرنے کی سفارش کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفارش قبول فرمائی۔ ابوالعاص اس سے اتنا متأثر ہوئے کہ واپس مکّہ جاکر پہلے مکّہ والوں کا مال واپس کیا اور پھر واپس مدینہ آکر اسلام قبول کرلیا۔ باقی زندگی مدینہ میں گزاری اور حضرت زینبؓ سے نہایت شریفانہ سلوک کیا۔ تاہم آپؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور 8 ہجری میں وفات پاگئیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا اور خود قبر میں اُتارا۔

حضرت زینبؓ کے بطن سے ایک لڑکا علیؓ اور ایک لڑکی امامہؓ پیدا ہوئے۔ علیؓ تو بچپن میں فوت ہوگئے مگر

امامہؓ بڑی ہوئیں اور حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے اُن کی شادی ہوئی مگر اُن سے نسل آگے نہیں چلی۔

حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 33 سال تھی جب حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضرت رقیّہ پیدا ہوئیں۔ آپؓ نہایت جمیل تھیں۔ رواج کے مطابق بچپن میں ہی ابولہب کے بڑے بیٹے عتبہ سے نکاح ہوا۔ ابولہب کے دوسرے بیٹے کا نکاح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم سے ہوا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو ابولہب کے کہنے پر اُس کے دونوں بیٹوں نے آنحضورؐ کی دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دے دی۔ بعدازاں حضرت رقیّہؓ کی شادی 5نبوی میں حضرت عثمانؓ بن عفّان سے ہوئی۔

جب مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت ملی تو پہلے قافلہ میں حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیّہ بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد اہلِ مکّہ کے قبولِ اسلام کی افواہ سُن کر یہ خاندان واپس مکّہ آیا لیکن یہاں کے حالات تو پہلے سے بھی بدتر تھے چنانچہ دونوں نے دوبارہ ہجرت فرمالی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیمؑ اور لوطؑ کے بعد عثمانؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ پھر جب حضرت رقیّہ کو علم ہوا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو دونوں پھر مکّہ آگئے اور کچھ عرصہ بعد مدینہ ہجرت فرمالی۔

غزوۂ بدر سے قبل حضرت رقیّہؓ چیچک نکل آنے سے بیمار ہوگئیں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو آپؓ کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں ہی ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا۔ اسی دوران 2 ہجری میں آپؓ کی وفات ہوگئی۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے واپس تشریف لائے تو یہ خبر سُن کر بہت مغموم ہوئے اور آپؓ کی قبر پر تشریف لے جاکر دعا کی۔ اسی موقعہ پر آپؐ نے فرمایا تھا کہ رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ و بَین شیطانی حرکات ہیں، ان سے قطعاً بچنا چاہئے۔حضرت فاطمہؓ بھی بہن کی قبر پر بیٹھ کر روتی جاتی تھیں اور آپؐ اُن کے آنسو کپڑے سے پونچھتے جاتے تھے۔

حضرت رقیّہؓ کے ایک بیٹے عبداللہ ہوئے جو حبشہ میں قیام کے دوران چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

حضرت عثمانؓ کو غزوۂ بدر میں حصّہ نہ لے سکنے کا بہت افسوس رہا لیکن آنحضورؐ نے اُنہیں بدری اصحابؓ کے اجر میں شامل ہونے کی خوشخبری سنائی۔

حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 34 سال تھی جب حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضرت اُمّ کلثومؓ پیدا ہوئیں۔ بچپن میں ہی ابولہب کے دوسرے بیٹے عتبہ سے آپؓ کا نکاح ہوا جو ابولہب کے کہنے پر طلاق پر منتج ہوا۔ شعب ابی طالب میں آپؓ بھی تکلیف برداشت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ مدینہ ہجرت کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ بن حارث اور حضرت ابورافع ؓ کو مکّہ بھجوایا تاکہ وہاں سے اپنے اہل خانہ اور آنحضورؐ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خاندانوں کو مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ یہ لوگ بخیروعافیت پہنچ گئے۔ ان میں حضرت اُمّ کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ بھی شامل تھیں۔

حضرت رقیّہ کی وفات کے بعد حضرت عثمانؓ بہت غمگین رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے تسلّی دینے کی کوشش کی تو حضرت عثمانؓ کہنے لگے کہ مَیں اپنی محرومیٔ قسمت پر جتنا غم کروں کم ہے، رقیّہ جیسی بیوی مجھ سے بچھڑ گئی اور خاندان رسالت سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا۔

بعدازاں 3ہجری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے حضرت جبریل ؑ کے ذریعہ مجھے حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی امّ کلثومؓ کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں۔ چنانچہ یہ شادی ہوگئی اور اس طرح حضرت عثمانؓ ’ذوالنّورین‘ یعنی دو نوروں والے کہلائے۔

حضرت اُمّ کلثوم اس نکاح کے بعد چھ سال تک زندہ رہیں اور شعبان 9 ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے کفن کے لئے اپنی چادر دی اور نماز جنازہ پڑھائی۔ آنحضورؐ کی آنکھوں سے اُس وقت غم سے آنسو رواں تھے۔

حضرت سُمیّہ رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت سُمیّہؓ بنت خباط کے مختصر حالات اور قربانیوں کا بیان مکرمہ نرگس ظفر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت سُمیّہؓ بنت خباط مکّہ کے قبیلہ بنومخزوم کے رئیس ابوحذیفہ بن المغیرہ کی کنیز تھیں۔ آپؓ کی شادی حضرت یاسرؓ بن عامر سے ہوئے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پانچ سال قبل یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے ایک گمشدہ بھائی کی تلاش میں مکّہ آئے تھے لیکن بھائی نہ ملا۔ بعدازاں یاسر کے دونوں بھائی واپس چلے گئے اور یاسر نے یہیں قیام کرلیا۔ یہاں اُن کی دوستی ابوحذیفہ سے ہوگئی جنہوں نے اپنی کنیز سُمیّہ کی شادی یاسر سے کردی۔ اس طرح ان کے ہاں تین بیٹے عمّار، عبداللہ اور حریث پیدا ہوئے۔ حریث کو قبل از اسلام ہی قتل کردیا گیا جبکہ دیگر دو بیٹوں نے اپنے والدین کے ہمراہ اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔ ایک روایت کے مطابق عمّار کی پیدائش ہوئی تو ابوحذیفہ نے سُمیّہ کو آزاد کردیا۔

حضرت سُمیّہ ساتویں نمبر پر مسلمان ہوئیں۔ حضرت یاسرؓ اور حضرت سُمیّہؓ دونوں ہی ضعیف اور کمزور تھے مگر اسلام پر مضبوطی سے قائم تھے کہ مشرکین کا کوئی ظلم بھی اُن کو اسلام سے برگشتہ نہ کرسکا۔ یہی حال ان کے بیٹوں حضرت عمّارؓ اور حضرت عبداللہؓ کا تھا جنہیں لوہے کی زرہیں پہناکر مکّہ کی تپتی ریت پر لٹانا، ان کی پیٹھ پر گرم کوئلے رکھنا اور پانی میں غوطے دینا کفّار کا روزانہ کا معمول تھا۔

ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سُمیّہ اور ان کے خاندان کے پاس سے گزرے جن کو سخت اذیّتیں دی جارہی تھیں تو آپؐ نے فرمایا: اے آلِ یاسر! تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارا ٹھکانا جنت ہوگا…۔

بوڑھے یاسرؓ یہ ظلم سہتے سہتے شہید ہوگئے لیکن مشرکین نے اُن کے بیوی بچوں پر ظلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت سُمیّہؓ نے ایک رومی غلام ازرق سے نکاح کرلیا تھا جو حارث بن کلدہ ثقفی کا غلام تھا۔ اُس سے ایک بچہ سلمہ پیدا ہوا۔

ایک دن ابوجہل کو حضرت سُمیّہؓ پر اتنا غصّہ آیا کہ پہلے انہیں گالیاں دیں پھر برچھی کا وار کرکے شہید کردیا۔ پھر تیر مار کر ان کے بیٹے عبداللہؓ کو بھی شہید کردیا۔ ایک روایت ہے کہ ابوجہل نے نیزے کی اَنی حضرت سُمیّہ کی شرمگاہ میں چبھودی تھی جس سے وہ شہید ہوگئیں۔ وہ شہید ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔

حضرت عمّارؓ کو اپنی والدہ کی اس بے کسی پر سخت افسوس تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ اب حد ہوگئی ہے۔ آپؐ نے صبر کی تاکید فرمائی اور آلِ یاسرؓ کو جہنّم سے بچانے کی دعا کی۔ غزوۂ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا تو آپؐ نے عمّارؓ سے فرمایا: دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کردیا۔

محترم عبدالباسط ملک صاحب

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں مکرمہ راشدہ کرن صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم عبدالباسط ملک صاحب کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم عبدالباسط ملک صاحب 1946ء میں سیالکوٹ میں حضرت منشی اللہ رکھا صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ بچپن اور جوانی کراچی اور سندھ میں گزاری۔ قریباً دس سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ مالی حالات ناسازگار ہونے کے باوجود آپ نے انگریزی میں ماسٹر کیا۔ پھر ہسٹری میں بھی ماسٹر کرلیا اور پھر کافی عرصہ ٹھٹھہ اور نیشنل کالج کراچی میں لیکچرار رہے۔ کراچی کے کالج میں شائع ہونے والے رسالہ کے مدیر بھی رہے۔ 1983ء میں آپ یمن چلے آئے جہاں 8 سال تک دو مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہے۔ وہاں پاکستانی سفارتخانہ کے رُکن بھی تھے۔

1991ء میں احمدیت کی مخالفت کے نتیجہ میں ایک خواب کی بِنا پر جرمنی آگئے جہاں جماعتی ذمہ داریوں کے حوالہ سے مصروف وقت گزارا۔ تین مختلف مقامات پر مقیم رہے اور تینوں جگہ مقامی جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کی سعادت پائی۔ نیشنل شعبہ رشتہ ناطہ اور امور عامہ میں بھی خدمت کرتے رہے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ آپ نہایت شستہ گفتگو کرتے اور نوجوانوں کو بھی صاحب کہہ کر بلاتے۔ نصیحت کرنے اور سمجھانے کا انداز بہت احسن تھا۔

30؍اکتوبر 2010ء کو ایک کار حادثہ کے نتیجہ میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور 30؍نومبر کو انہی زخموں کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے مرحوم کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ جولائی 2011ء میں مکرم محمد ہادی مونس صاحب کا حمدیہ کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
کہیں بھی فضا ایسی پائی نہیں ہے

جہاں تیری قدرت نمائی نہیں ہے

تُو اطرافِ عالم میں پھیلا ہوا ہے

جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے

تُو خالقِ اشیائے ادنیٰ و اعلیٰ

کوئی چیز کم تر بنائی نہیں ہے

تُو زندہ تھا ، زندہ ہے ، زندہ رہے گا

تیری زندگی انتہائی نہیں ہے

اُسے کیا خبر ہو کہ تُو بولتا ہے

کہ جس نے یہ بات آزمائی نہیں ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button