متفرق مضامین

حضرت مرزا ناصر احمدخلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ چند لمحے

(سید ساجد احمد۔ امریکہ)

بچپن میں میرے والد محترم سید سجاد حیدر صاحب مجھے سالانہ جلسہ پر ربوہ لے جاتے تو مرزا ناصر احمد صاحب کی علمی موضوع پر تقاریر میرے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہوتیں۔ کم عمری اور کم علمی کے باعث مضمون سمجھنے کے لئے توجہ سے سننے کی ضرورت ہوتی۔ میرا آپ سے تعارف آپ کی جلسہ سالانہ کی تقاریر سے ہؤا۔ یہ حضرت مصلحِ موعودؓ کا زمانہ تھا۔

1965 میں مَیں نے میٹرک کر لیا تو ابا جان مجھے تعلیم الاسلام کالج میں داخلے کے لیے ربوہ لے گئے۔ ان دنوں میں میاں ناصر احمد صاحب کالج کے پرنسپل تھے۔ ہم حافظ آباد سے چلے تو ربوہ پچھلے پہر پہنچے۔سڑک سے کالج کے احاطے میں داخل ہوئے تو کالج کے ایک افسر نظر آئے لیکن وہ جلدی میں تھے اور سُنی اَن سُنی کر گئے۔ ابّا جان کو بڑی مایوسی ہوئی۔ اسی مخمصے میں کالج کی طرف سے خوش قسمتی سے میاں صاحب آتے دکھائی دیئے۔ سلام دعا کے بعد اباجان نے آپ کو میرے بارے میں بتایا۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ صبح کالج میں داخلے کے لئے آجائیں۔ ابّا جان کی جان میں جان آئی کہ ان کا بیٹا ربوہ میں پڑھ سکے گا۔ اگلے روز دفتر گئے اور داخلہ لے لیا۔ کالج میں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے آکسن کا بطور پرنسپل بہت رعب تھا اور کالج میں اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط تھا۔ کلاسوں کے وقت کوئی طالب علم کلاس سے باہر نظر نہ آتا تھا۔ مَیں دارالرحمت شرقی میں رہتا تھا، بعدمیں فضل عمرہوسٹل چلا گیا۔ میں مغرب کی نماز کے لئے مسجد مبارک جاتا تھا۔ مولانا جلال الدین صاحبؓ شمس نماز پڑھاتے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ العصر پڑھتے اور دوسری میں سورۃ النصر۔ انہی نمازوں سے مَیں نے ان سورتوں کی تلاوت سیکھی۔

حضرت صاحبزادہ میاں ناصر قوی تھے۔ مسجد مبارک میں مَیں دیکھتا تھا کہ نماز میں جب قیام کے لئے اٹھتے تو انہیں زمین اورہاتھ کے سہارے کی ضرورت نہ ہوتی تھی بلکہ قیام کے لئے اپنے پیروں پر ہی سیدھے کھڑے ہو جاتے۔ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک بار انسان کے قوی و امین (النمل 40 القصص 27) ہونے کی ضرورت پر خطبہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔

میرے دادا سید محمد یوسف صاحب صدر انجمن کے دفترِ جائیداد میں مختارِ عام جائداد تھے۔ دعا گو اور تہجد گذار تھے۔ فرمایا کرتے تھے: میرے بعدمیاں ناصر کا خیال رکھنا۔ 1965ء میں وفات پا گئے۔ جلدی بعد میں حضرت مصلحِ موعودؓ بھی اسی سال اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میاں ناصر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا ناصر احمد، خلیفۃ المسیح الثالث کے بلند رتبہ پر فائز فرما دیا اور دادا جان کی بات کی سمجھ آئی۔ انہیں پہلے سے علم تھا کہ میاں ناصر صاحب خلیفہ ہوں گے مگر وہ ان کی خلافت کا زمانہ نہ دیکھ سکیں گے۔

مجھے مذہب کی سوجھ بوجھ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کے ایّام سے ہونا شروع ہوئی۔ یہ زمانہ فکر و دعا کا تھا اور سنجیدگی کے حالات تھے۔ آپ کی خلافت نے یکدم حالات بدل دیئے۔ آپ نے ایک خطبے میں حضرت رسولِ پاک کے ہر حال میں راضی بقضاء اور مسکراتے بشاش چہرے کا ذکر فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش رہنا چاہئے اور چہرے پر مسکراہٹیں آباد رکھنی چاہئیں اور خندہ پیشانی سے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا چاہئے۔

1969۔1967 کے سالوں میں کسی دنوں کالج کے خدام نے مجھے زعیم چن لیا۔میں نے حضورؒ کی خدمت میں لکھا کہ طلبا دُور دُور سے خلافت کے قرب کی تمنّا میں بھیجے جاتے ہیں، خطبہ تو سن لیتے ہیں لیکن کلاسوں کی وجہ سے ملاقات میں کمی رہتی ہے کیونکہ حضور سے ملاقات کے دن طلبا کی تعلیم کے اوقات سے متصادم ہیں۔ قربان جاؤں آپ کے کہ باوجود اپنی بے انتہا مصروفیات کے ا ٓپ ہوسٹل تشریف لائے اور طلبا کے ساتھ ٹینس کھیلا اور مجھے ملنے کے لئے بلایا۔ میں اپنے ساتھ نائب زعیم اور معتمد کو بھی لے گیا اور ہم تینوں حضور سے آپ کی رہائش پر ملنے گئے۔ ساتھ کے کمرے میں کوئی عزیز بیمار تھیں۔ باتوں کے دوران چند لمحوں کے لئے انہیں بھی دیکھ آتے۔ گھر میں بیماری کی وجہ سے ملاقات کے وقت کو اِدھر اُدھر نہیں فرمایا۔

آپ نے ہمیں تین حکمت کی باتیں بڑی تفصیل سے سمجھائیں اور فرمایا کہ ہمیشہ کے لئے انہیں اپنی اور اپنے حلقۂ عمل میں آنے والی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ ان میں سے دو ابھی تک یاد ہیں۔

ان میں سے ایک بات حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے بارے میں نصیحت تھی۔ مسیحِ محمدی نے ان مسائل کو حل فرمایا جن مسائل نے اُمّتِ محمدیہ کو صدیوں پریشان کئے رکھا۔ آپ کی تحریریں فصیح اور بلیغ ہیں۔ کوئی لفظ کم یا زیادہ یا بے محل نہیں۔ آپ نے بڑے بڑے علوم کے دریا چند لفظوں میں بہا دئے ہیں۔ آپ نے کتاب چشمۂ معرفت اٹھائی اور ایک فقرہ پڑھ کے سنایا جو مستشرقین کے سینکڑوں اعتراضوں کو یک قلم رد کرتا تھا کہ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کام اور ذمہ داریاں نبوت اور حاکمِ مدینہ میں منقسم اور معین تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ مسیحِ وقت کے پیغام کو کماحقّہٗ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپ کی تحریروں کو بغور پڑھیں، سمجھیں اور دلنشیں کریں۔ آپ کے تجربے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں روز ایک تسلسل میں کم از کم بیس منٹ پڑھا جائے۔ اس لئے ہم جہاں کہیں بھی رہیں اور جہاں کہیں بھی جائیں اور جن سے بھی ملیں، انہیں ہر روز کم از کم بیس منٹ مسیحِ پاک کی کتب پڑھنے کی تحریک کریں۔

ایک اور اہم بات جو آپ نے ہمیں اس دن سمجھائی وہ یہ تھی کہ جماعت کے تحفّظ، کامیابی اور مسلسل ترقی کے لئے یہ امر از حد ضروری ہے کہ ہر احمدی کسی بھی مجلس میں کی گئی باتوں میں اس پر جماعت کی طرف سے کئے گئے اعتبار کا محافظ ہے۔ چاہے وہ اعتبار اس پر رکن کے طور پر کیا گیا ہو یا عہدیدار کے طور پر۔

کئی بار حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ مغرب کے بعد احباب کے درمیان رونق افروز رہتے اور مجلس عرفان ہوتی۔ آپ نے مجلسِ صحت کا قیام فرمایا تھا اور صبح سیر کی بات ہو رہی تھی۔ ایک معمرّ دوست اپنے بڑھاپے کا ذکر کرنے لگے تو فرمایا کہ انسان اتنا ہی معمر ّہوتا ہے جتنا کہ وہ سوچے اور جتنا معمر ّوہ اپنے آپ کو سمجھے۔

اسلام آباد یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں ربوہ کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد، مری اور ایبٹ آباد میں بھی حضور کو دیکھنے اور آپ کی باتیں سننے کا موقع ملتا رہا۔ ایک دفعہ حضور راولپنڈی کی مسجد میں خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے۔ گرمی کے دن تھے۔ پنکھے کا رخ سیدھا حضور کی طرف تھا۔ آپ نے پنکھے کا رخ بدلنے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ جسم کے ایک حصے کے دوسرے حصے سے زیادہ ٹھنڈا ہو جانے سے فالج کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

سال 1974ء میں افریقہ آنے سے پہلے ملاقات میں خدا سے بے وفائی نہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔ یہ چھوٹی سی نصیحت انتہائی پُرمغز ہے اور اپنے اندر بہت معانی رکھتی ہے۔

سال 1976ء میں حضور امریکہ تشریف لائے۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک خلیفہ نے برِّ عظیم امریکہ کی وسیع و عریض زمین پر اپنے با برکت قدم رکھے۔ حضور کی اجازت سے میں بھی افریقہ سے اپنی شادی کے لئے آیا۔ مَیں بروکلن کے مشن میں مبلغ مسعود جہلمی صاحب کے ساتھ ٹھہرا۔ حضور والڈورف ایسٹوریا میں ٹھہرائے گئے۔ اتفاق سے اسی مہینے ریڈرز ڈائجسٹ میں اس ہوٹل کے بارے میں لمبا معلوماتی مضمون چھپا جس میں ہوٹل کی تاریخ، اس میں کون کون سے معروف لوگ ٹھہر ے، ان کے دلچسپ واقعات اور ہوٹل کے معمول کے بارے میں تفاصیل درج تھیں۔ میں نے اسے جہلمی صاحب کو دیا کہ حضور کی خدمت میں پیش کریں۔ جہلمی صاحب نے مجھے بتایا کہ حضور نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور اس مضمون کو پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے۔

جلسہ سالانہ 1976ء ڈرُو یونیورسٹی میڈسن نیو جرسی میں منعقد ہؤا۔ یہ امریکہ کا پہلا تاریخی سالانہ جلسہ تھا جس میں خلیفۂ وقت نے شرکت فرمائی۔ سالانہ جلسے پر محترمہ سیدہ بشری سلطانہ بنت محترم سید شریف احمد صاحب سے میرا نکاح ہوا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق امریکہ میں حضور نکاح نہ پڑھا سکتے تھے۔ حضور سٹیج پر درمیان میں تشریف رکھتے تھے۔ حضور کے دائیں طرف سٹیج پر کھڑے ہو کر ہمارے نہایت ہی عزیز دوست برادر محمد صادق صاحب نے ہمارے نکاح کا اعلان کیا۔ جماعت کے دیگر عمائد سٹیج پر حضور کے دائیں بائیں تشریف فرما تھے۔ اعلانِ نکاح کے آخر میں اس سال کے سب موجود حاضرینِ جلسہ سالانہ حضور کے ساتھ دعا میں شامل ہوئے۔ برادر صادق اور ہمارے نہایت ہی عزیز دوست برادر عابد حنیف صاحب نے میرے نکاح فارم پر بطورگواہ دستخط فرمائے۔

ایک دفعہ مغربی ا فریقہ کے دورے پر جانے سے پہلے حضور نے افرادِ جماعت کو دعا کی تحریک فرمائی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک حادثے میں حضورکو کچھ تکلیف پہنچی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل نے حضور کو محفوظ رکھا۔

سال 1980ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ سان فرانسسکو تشریف لائے تو ائر پورٹ پر استقبال کرنے والوں میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔ حضور کے کپڑے دھونے کے لئے مجھے دیئے گئے۔ میری اہلیہ سیدہ بشری سلطانہ نے کپڑے دھوئے۔ پگڑی پر کلف لگانے کا موقع آیا تو معلوم ہوا کہ بازار سے کلف کا سپرے (starch spray) مل جاتا ہے۔ اس سے کام بہت آسان ہوگیا۔

حضور سان فرانسسکو کے جنوب میں ایمفَیک (Amfac) ہوٹل میں ٹھہرے۔ حفاظتی عملے نے رات کو حضور کے دروازے کے باہر حفاظتی ڈیوٹی کا ارشاد کیا۔ مختلف خدام کی چار چار گھنٹے کے لئے ڈیوٹی لگائی۔ شاید سب سارے دن کے کاموں کی وجہ سے بہت تھکے ہوئے تھے، رات کوئی بھی نہ آیا اور ساری رات مجھے حضور کے دروازے کے باہر کھڑا ہو کر حفاظتی پہرہ دینے کی توفیق عطا ہوئی۔ فالحمد للہ۔

نماز کا وقت آیا تو ہال میں چادروں سے صفیں بنائی گئیں مگر حضور کے لئے کوئی جائے نماز نہ تھی۔ میں اپنی کار میں سفر میں نماز کی ادائیگی کے لئے جائے نماز رکھتا تھا۔ میں بھاگتا باہر گیا اور اپنی جائے نماز لے آیا اور حضور نے اس جائے نماز پر امامت کرائی۔ یہ جائے نماز چھوٹی میرے میانہ پیمانے کی تھی اور آپ کا قد ما شاء اللہ بڑا تھا۔ آپ اس پر مشکل سے سمائے ہوں گے لیکن آپ نے شکایت نہیں فرمائی۔

آج کل تو cell فون سے بھی آواز اور وڈیو ریکارڈ کی جا سکتی ہیں مگر ان دنوں تو بس ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے۔ حضور نے والنٹ کریک میں خطبہ ارشاد فرمایا تو میں نے ریکارڈ کر لیا۔ خطبے کے بعد حضور بہت دیر تک اپنے افریقہ کے دورے کا ذکر فرماتے رہے؛ اس کا بھی کافی حصہ ریکارڈ ہو گیا۔ حضور خطبے میں پہلے اردو میں مضمون بیان فرماتے پھر اسی مضمون کو انگریزی میں دہراتے۔جمعہ پر بہت لوگ آئے۔ ہمارے مبلغ کی رہائشگاہ بھر گئی۔ ہم نے اپنی بیٹی سیدہ عامرہ سلطانہ کا عقیقہ کیا جو سب مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا اور ہمارے برتنوں میں حضور نے کھانا تناول فرمایا۔

انگریزی زبان ایسی ہے کہ اس کے بہت سارے لفظ اسی طرح نہیں بولے جاتے جس طرح وہ انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ سیکھے سکھائے بغیر انگریزی نہ بولنے والا انہیں صحیح طرح ادا نہیں کر سکتا۔ یہی صورتِ حال کیلیفورنیا کے بہت مشہور پارک کی ہے جسے یوس مائٹ کی طرح لکھا جاتا ہے مگر یاسے می ٹی بولا جاتا ہے۔ حضور کے عملے نے حضور کو یوس مائٹ پارک دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا جس کی مقامی لوگوں کو سمجھ نہ آئی کہ کون سا پارک ہے۔ حضور کے واپس تشریف لے جانے کے بعد سمجھ آئی کہ وہ یاسے می ٹی (Yosemite) پارک کا نام لے رہے تھے۔ مگر قافلہ ریڈ وُوڈ (Redwood) پارک دیکھنے گیا اور حضور خوب محظوظ ہوئے۔

گھانا میں قیام کے دوران میں مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضور نے مجھے ایک کرنسی کا نوٹ دیا ہے۔ یہ خواب حقیقی رنگ میں اس طرح پوری ہوئی کہ 1980ء میں حضور کی دورے سے واپسی پر سان فرانسسکو ائر پورٹ پر میں نے حضور کی خدمت میں کچھ نذرانہ دعا کی درخواست کے ساتھ پیش کیا۔ حضور نے اسے میرے ہاتھ میں واپس دے کر فرمایا کہ مَیں اسے صدقے میں دے دوں۔

سال 1982ء میں بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان گیا تو جلسہ سالانہ پر حضور کی تقریر کے دوران قریب سے حضور کی تصویریں لینے کا موقع ملا اور وڈیو بھی بنائی۔ از راہِ شفقت حضور نے ملاقات کا موقع بخشا۔ ملاقات میں حضور نے ہماری بچی سیدہ عائشہ مریم کو اٹھایا، جو اس وقت صرف چند ہفتوں کی تھی، اور کندھے سے لگایا تو اس کے منہ سے دودھ اُگل آیا۔ حضور ہنس دیئے اور فرمایا کہ یہ صحتمندی کی نشانی ہے۔ اندر جا کر جلدی سے اچکن بدل کر واپس تشریف لے آئے اور نہایت خوشگواری سے ملاقات جاری رکھی۔

یہ ہماری اور اس دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے اس دنیا میں ایسے پیارے لوگ پیدا فرمائے جو اپنے نیک نمونوں اور نیک باتوں سے اس دنیا کو روشن کرتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button