متفرق مضامین

مصالح العرب(قسط 434)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

مکرمہ آسیا کریکت صاحبہ (2)

قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرمہ آسیا کریکت صاحبہ کے سفر احمدیت کی داستان کا ایک حصہ پیش کیا تھا۔ اس قسط میں ان کے اس روحانی سفر کا باقی حصہ پیش کیا جائے گا۔اپنی بیعت کے بعد کے بعض حالات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بیان کرتی ہیں کہ:

عرب احمدی خواتین سے رابطہ

بیعت کے بعد شروع شروع میں تو میرافرانس کے عرب احمدیوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہ تھا۔ الجزائر کے ایک احمدی سے تعارف ہوا تو اس نے مجھے فرانس میںرہنے والی بعض عرب احمدی خواتین کے فون نمبرز ارسال کردیئے ۔ یوں میرااکثرعرب احمدی بہنوں کے ساتھ فون کے ذریعہ تو رابطہ ہو گیا لیکن دُور دور رہنے کی وجہ سے ہماری آپس میں ملاقات نہ ہوسکی۔

ہلاک ہونے سے بچ گئی

بیعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے بہت سے رؤیائے صالحہ کے ذریعہ ایمان ویقین کو میرے دل میں راسخ فرمادیا اور مجھے تسکین واطمینان کی نعمت سے مالامال فرمادیا ۔ ایک رؤیا میں مَیں نے دیکھاکہ مَیں اپنے ملک الجزائر گئی ہوں۔ گو جہاز کا ریٹرن ٹکٹ میرے پاس ہے لیکن الجزائر پہنچ کر اس فلائٹ سے واپس آنے کا ارادہ تبدیل کرلیتی ہوں۔ کچھ دیرکے بعددیکھتی ہوں کہ یہ فلائٹ آسمان کی فضاؤں میں محو پرواز ہے ۔میں اس کی طرف دیکھ کر کہتی ہوں کہ اگر میں ارادہ نہ بدلتی تو پروگرام کے مطابق اس وقت اس فلائٹ میں ہی سفر کر رہی ہوتی۔ابھی مَیں یہ سوچ ہی رہی ہوتی ہوںکہ جہاز بسرعت زمین کی طرف گرناشروع ہو جاتا ہے اور آن کی آن میں ایک دھماکہ کے ساتھ زمین پر گر کر تباہ ہوجاتا ہے اور اس میں سوار تمام مسافر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔اس وقت میںبیساختہ کہتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں اس جہاز میں سوار نہ تھی وگرنہ میرا بھی یہی انجام ہونا تھا۔اسی وقت خواب میں ہی میری خالہ کا فون آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں علم تھا کہ میںنے اسی فلائٹ سے سفر کرنا تھاجو گر کر تباہ ہو گئی ہے، چنانچہ وہ میری والدہ صاحبہ سے میرے بارہ میں پوچھتی ہیں تو والدہ صاحبہ جواب دیتی ہیں کہ آسیا اس جہاز میں نہیں گئی اس لئے موت سے محفوظ رہی۔

میں نے خواب سے بیدار ہوکراس کی یہی تعبیر کی کہ میں مروّجہ افکار کے حامل لوگوں کی ہمرکاب تھی اور ان کے ساتھ چلتے رہنے کے تمام سامان موجود تھے پھر بھی میں نے ان کے ساتھ رہنا گوارا نہ کیا،اور ان کے مرکب سے اتر کرحضرت امام مہدی علیہ السلام کے سفینۂ نجات میں سوار ہوگئی اورپھر وقت نے ثابت کردیا کہ میرا فیصلہ درست تھا کیونکہ اگر میں سابقہ عقائد کے حامل لوگوں کے ہمراہ بیٹھی رہتی تو ضرور ہلاک ہو جاتی۔

’’ پڑھو، لکھو ،اور دعا کرو‘‘

اس کے بعد میں نے ایک اور رؤیا دیکھا جس میں میری بعض اہم امور کی طرف راہنمائی تھی۔ میں نے دیکھا کہ مَیں گھر کی بالکونی میں بیٹھی ہوں او روہاں پر تین یا چار نہایت ہی خوبصورت رنگوں والے پرندے آجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک میرے گھر میں داخل ہوتا ہے اور پھر باہر آکر دیوار پر بیٹھ جاتا ہے ۔ کچھ دیر کے بعد یہ پرندہ ایک نوجوان کا روپ دھار لیتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ ’’ پڑھو، لکھو اور دعا کرو‘‘۔ پھر اسی اثناء میں ایک آواز سنی کہ ’روزے رکھو‘۔ اُس وقت تک مَیں نے جماعت کا لٹریچر مفصّل طور پرنہیں پڑھا تھا اور مجھے علم نہ تھا کہ جماعت کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے۔اور اس رؤیا میں میرے لئے پیغام تھا کہ سلسلہ کی کتب پڑھو اور ان کے ذریعہ تبلیغ کرو اور نتائج کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا مانگو۔یہی فتح کی کلید اور کامیابی کا راستہ ہے۔چنانچہ جب مَیں نے سوچا کہ جو نور اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی شکل میں مجھے عطا فرمایا ہے مجھے اس کی روشنی اپنے عزیز واقارب تک بھی پہنچانی چاہئے تو میں نے انہیں احمدیت کی تبلیغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے مَیں نے اپنے رؤیا پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور مختلف دلائل کے نوٹس لکھنے شروع کردیئے نیز دعاؤں سے اپنی کوششوں کے پودے کی آبیاری کرتی رہی۔

رشتہ دار وں کو تبلیغ

اس دوران مَیں نے اپنے عزیز واقارب کو احمدیت کی تبلیغ کرنا شروع کردی۔ ان میں میری خالہ بھی ہیں جن کی عمر ساٹھ سال ہے۔گو وہ فرانس میں ہی رہتی ہیں لیکن میرے گھر سے تقریباً 500کلو میٹر دُور ۔ان سے ملاقات توبہت دیر کے بعد ہوتی ہے لیکن میں نے ان کے ساتھ فون کے ذریعہ ہی رابطہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے سے علوم آگاہ کیا اور پھر اس کے بعد تقریبًا روزانہ ہی مختلف موضوعات پر جماعت کی تعلیم بتاتی رہتی ہوں۔وہ اکثر میری بات سنتی اور اس پر غور کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق وہدایت کی طرف ان کی راہنمائی فرمائے ۔آمین۔

اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی دیورانی کو بھی تبلیغ کرنی شروع کی۔ عمومی عقائد کے بارہ میں بتانے کے علاوہ میں نے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ پڑھ کر سنائیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مَیں دل سے احمدی ہوں۔ لیکن بعض مخصوص حالات کی وجہ سے وہ اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتی اور انہی حالات کے باعث باضابطہ بیعت کرنے سے خائف ہے۔

لیکچربر موضوع: حقیقت ِدجّال

ایک روز مَیں اپنی اسی دیورانی کے ساتھ بچوں کے ایک پارک میں گئی جہاں ہمارا تعارف ایک مراکشی عورت سے ہوا۔ باتوں باتوں میںدنیا کے حالات اور دین اسلام اور مسلمانوں کی حالت بھی زیر بحث آئی اورپھر دجّالی فتنہ کی طرف بات کا رخ پھر گیا۔ پھر جب میں نے دجال کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرفرمودہ تشریح بیان کی تواس عورت کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اوراس نے مجھے کہاکہ ہم عرب مسلمان عورتیں ہر سوموار اورجمعرات کو اجلاس کرتی ہیں جس میں باری باری سب مختلف علمی وتربیتی موضوعات پر تقاریر کرتی ہیں اور یوں سب استفادہ کرتے ہیں۔چونکہ اگلا اجلاس میرے گھر میں ہورہا ہے اس لئے مَیں آپ کو اس اجلاس میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہوں۔ اس نے تمام عورتوں کو میرے بارہ میں کسی قدر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے بتایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب عورتیں آگئیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک عورت نے مجھے بتایا کہ وہ باوجود اطلاع کے پہلے کبھی ایسے اجلاسات میں حاضر نہیں ہوئی اور آج خصوصًا میرا لیکچر سننے کے لئے آئی ہے۔ میرا لیکچر دجال کے موضوع پر تھا۔میں نے اجلاس میں جانے سے قبل دجال کے موضوع پر جماعت کی طرف سے لکھی جانے والی کتاب پڑھ لی تھی اور اللہ تعالیٰ سے کامیابی کے لئے دعا کی تھی۔

میری دیورانی بھی میرے ساتھ تھی ۔اجلاس میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ عورتوں کی اکثر تعداد مراکش سے ہے جو سلفی طرز فکر کی حامل تھیں۔ میں نے دجّال کے موضوع پر لیکچر شروع کیا تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے چہروں کے رنگ بھی بدلنے لگے۔دجّال کی علامات کی تشریح کو جہاں بعض نے پسند کیا وہاں بعض نے کہاکہ دجال سے مراد ایک قوم ہونا دُور کی بات ہے اور یہ غلط استدلال ہے کیونکہ دجّال ایک شخص ہے جس کو خارق عادت قُویٰ دیئے جائیں گے۔

میرے لیکچر کے دوران اکثر عورتیں پوچھتی رہیں کہ تم یہ تشریح کہاں سے لائی ہو؟میں نے سوال کا جواب دیئے بغیر مضمون مکمل کیا اور پھر آخرپرجب یہ بتایاکہ یہ جماعت احمدیہ کی تشریح ہے تو سنتے ہی اکثر عورتوں کے تیور بدل گئے۔اور بعض نے بآواز بلند میرے ساتھ لفظی جنگ شروع کردی۔ایک نے کہا کہ دجال بہت بڑی قوت اور طاقت کا حامل ہوگا او روہ بہت سے عجیب کام دکھائے گاجنہیں لوگ معجزات سمجھ کر اس کی طرف مائل ہوجائیں گے۔

میں نے کہا کہ افسوس کہ معجزات کی جو صورت تمہارے ذہنوںمیں سمائی ہوئی ہے وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ میں آپ سے کہتی ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی ہے او راس امّت سے آنے والا مسیح آچکا ہے۔ میں نے اس کی بیعت کی ہے اور میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ اور میری آپ کو بھی دعوت ہے کہ آؤ اور اس امام کی بیعت کرلو۔

یہ سن کر انہوں نے مختلف حدیثوں او رتفسیر ابن عباس وغیرہ کے حوالے سے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔جبکہ مَیں آیات قرآنیہ سے ان کا جواب دے رہی تھی۔اور جب میں وہاں سے نکلی تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے میں کسی میراتھن سے واپس لوٹی ہوں۔باوجودناگواری کے اظہار کے انہوں نے کسی قدر احترام سے ہی میرے ساتھ بات کی۔ میرے دلائل اتنے مضبوط تھے کہ اس کا کوئی معقول جواب تووہ نہ دے پائیں تاہم انہوں نے مختلف پیرائے میں مجھ پر بہت سے حملے کئے اور اللہ نے مجھے ان سب کاجواب دینے کی توفیق عطا فرمائی۔

دلائل کی قوت کی تصدیق

لیکچر کے اگلے روز مجھے اس عورت کا فون آیا جس نے مجھے لیکچر کے لئے اپنے گھر میں بلایا تھا۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک جہاز بڑی شدت کے ساتھ بمبارمنٹ کررہا ہے اورمیں ڈرتے ہوئے دوڑتی جاتی ہوں۔ پھر کیا دیکھتی ہوں کہ جہاز سے ایک بم میرے گھر کے دروازے پر آگرتا ہے اور اسے توڑ دیتا ہے۔میں نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ بموں سے مراد وہ دلائل ہیں جو میں نے تمہارے گھر میں پیش کئے ہیں او ران دلائل کی وجہ سے تمہارے گھر میں ہونے والی مجلس کی ہر عورت پر اثر ہوا ہے گویاروکیں توڑ کر ان تک پیغام پہنچانے کی ایک راہ نکل آئی ہے۔اس نے کہا کہ تم نے ہمیں ایک راہ دکھائی ہے اور ہم اس بارہ میں مزیدتحقیق کریں گے۔

مقابلہ

اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا اور مجھے رؤیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

میں نے انٹرنیٹ پر باقاعدہ تبلیغ اور احمدیت پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کا کام شروع نہیں کیا تھا اور نہ ہی ذہن میں ایسا کوئی پروگرام تھا، ایسے میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک گھر میں ہوں جہاں احمدی احباب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک دوسری ٹیم کے ساتھ کسی مقابلہ میں شریک ہوں۔جب دوسری ٹیم کی جانب سے ایک پتھرہمارے گول کی طرف پھینکا جاتا ہے تو میں اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ان کے گول کی طرف پھینک دیتی ہوں اور وہ ان کے گول میں داخل ہوجاتا ہے۔

بعد میں جب میں نے سوشل میڈیا پر بعض معترضین کے مزاعم کا ردّ شروع کیا تومیرے ساتھ احمدیوں کا ایک گروہ شامل ہوگیا۔ اس وقت مجھے یہ رؤیا یاد آگیا۔ یقینا ہر اعتراض کسی پھینکے ہوئے پتھر سے کم نہیں ہے لیکن اس کا مدلّل جواب یقینا گول کردینے کے برابر ہے۔

رضائے الٰہی کی تمنا

آخر میں ایک ایسا رؤیا پیش ہے جو میں نے بیس سال کی عمر میں دیکھا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ میں لوگوں کے گروہ کے ساتھ ہوںجو کسی کے ساتھ استہزاء کا سلوک کررہے ہیں۔ پھر ایسے لگتا ہے جیسے وہ قریش کے لوگ ہیں۔ پھر اچانک ایک چورس تصویر ظاہر ہوتی ہے جس سے ایسا نور نکلتا ہے جیسے وہ سورج ہو۔اس تصویر پر کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں ہوسکتاکہ وہ قرآن کریم کی کوئی آیت ہے یا حدیث ہے۔یہ کلام ایک مہیب آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ میں ان لوگوں کی مجلس سے نکل کر اس تصویر کے عقب میں چلی جاتی ہوں۔ گویا ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے ان لوگوں کا ایک شخص سے استہزاء کرنا پسند نہیں آتا اورمیںاس بناء پر ان سے علیحدہ ہوجاتی ہوں۔ایسی حالت میں جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز سنتی ہوںکہ : ’’مَیں تم سے راضی ہوں۔‘‘

میں اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر کہتی ہوں کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے سیدھا راستہ ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ اس مبارک جماعت میں شمولیت میرے خدا تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کرنے اور اس کی رضا کو پانے کے سفر کی ابتدا ہے۔

اسی طرح مَیں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کو پھیلانا اور اس کی تبلیغ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس فرض کی کما حقہٗ ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button