جان لو کہ دعا وہ نیزہ ہے جواس زمانے کی فتح کے لئے مجھے آسمان سے عطا کیا گیاہے۔اے دوستو!اس حربے کے بغیرتم ہرگزغالب نہیں ہوسکتے۔ اورتمام انبیاء نے اوّل تا آخر اسی حربے کی خبر دی ہے اور ان سب نے یہی کہاکہ مسیح موعود دعا اوراللہ کے حضورتضرّع کے ذریعہ فتح حاصل کرے گا نہ کہ جنگ وجدال اوراُمّت کا خون بہا کر۔ مَیںزمینی فوجوں کے ذریعہ سے نہیں بلکہ بزرگ وبرتر خدا کے فرشتوں کے ذریعہ غالب ہوںگا۔ ’’یہ وقت دعا کا وقت ہے نہ کہ جنگ کرنے اور دشمنوں کوقتل کرنے کا وقت۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے،جان لوکہ معاملہ اس سے بڑھ چکا ہے کہ قوم جہاد کے لئے تیاری کرے اوراس کے لئے اہل استعداد کوبلائے اور شہری اوردیہاتی لوگوں کوغزوہ کے لئے حاضر کرے اوروہ فوج کی مدد حاصل کرنے اور لوگوں کوجمع کرنے اورشیروں کومیدان میں لانے کے لئے کامیاب ہو جائے۔کیونکہ ہم مسلمانوں کودیکھتے ہیں کہ ہمارے اس ملک میں اورعرب،روم اور شام میں بھی وہ سب سے کمزورقوم ہیں۔ان میں نہ جنگ کرنے کی طاقت باقی رہی اور نہ ہی وہ نیزہ زنی سے واقف ہیں اورنہ شمشیرزنی سے جبکہ کفار فنونِ حرب میں بہت طاق ہیں اورانہوں نے مسلمانوں کی بیخ کنی کے لئے ہر طرح کی تیاری کر رکھی ہے اور ہمیں نظرآرہاہے کہ دشمن ہربلندی کو پھلانگتے چلے آرہے ہیں اورجب کبھی دو لشکروں میں مُٹھ بھیڑہوتی ہے تووہی غالب آتے ہیں۔ اس مشاہدہ سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ وقت دعا اورخدائے بزرگ و برترکے حضور عاجزی سے گڑگڑانے کا وقت ہے نہ کہ جنگوں اور دشمنوں کوقتل کرنے کا وقت۔اورجو وقت کی نزاکت کونہیں سمجھے گا وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے گا اور ہر طرح کی نکبت اورذلّت دیکھے گا۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کی جنگوں کے پرچم سرنگوں کردئیے گئے ہیں۔ کہاں ہیں نیزہ اور شمشیر اور ہاتھوں کو چلانے والے۔ تلواریں میانوں میں رکھ دی گئیں اور نیزے توڑدئیے گئے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا۔پس تُو انہیں ہرمیدان میں پیٹھ پھیرکربھاگتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جنگ نے ان کی زندگیاں چھین لی ہیں اور ان کے زروجواہر اورجائیدادوں کو تباہ کردیاہے۔ان جنگوں کے ذریعہ دین کا کوئی معاملہ اب تک سُلجھ نہ سکا بلکہ فتنے موج درموج اُٹھے اوربڑھتے چلے گئے اور فسادکی بادِ صرصرنے ملّت کو تباہ وبرباد کردیا۔ تم دیکھ رہے ہوکہ قصراسلام کے کِنگرے گر گئے اوراس کی عظمتیں پیوندخاک ہوگئیں۔ پھر تلوار اور نیزے لٹکانے کاکیا فائدہ ہوا اور اب تک کون سی تمنا برآئی،سوائے اس کے کہ خون بہائے گئے اوراموال تباہ کردئیے گئے، اوقات ضائع ہوئے اورحسرتیں بڑھ گئیں اور لشکرنے تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا البتہ جب جنگ بھڑک اُٹھی تو تم روند دئیے گئے۔ پس تم جان لو کہ دعا وہ نیزہ ہے جواس زمانے کی فتح کے لئے مجھے آسمان سے عطا کیا گیاہے۔اے دوستو!اس حربے کے بغیرتم ہرگزغالب نہیں ہو سکتے۔اورتمام انبیاء نے اوّل تا آخر اسی حربے کی خبر دی ہے اور ان سب نے یہی کہاکہ مسیح موعود دعا اوراللہ کے حضورتضرع کے ذریعہ فتح حاصل کرے گانہ کہ جنگ وجدال اورامت کا خون بہا کر۔ اوردعا کی حقیقت یہ ہے کہ تکلیف کودورکرنے کے لئے پوری ہمت،صدق اورصبر کے ساتھ اللہ کی طرف جھکنا۔اولیاء اللہ جب کسی ضرر رساں چیز کودُور کرنے کے لئے تضرّع اورابتہال کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں توعادت اللہ اسی طرح سے جاری ہے کہ وہ ان کی دعا کوضرور سنتا ہے خواہ کچھ مدّت کے بعد یافی الفور اور ان کے کامل اقبال علی اللہ کے بعدخدائے صمد کی عنایت ان پر نازل ہونے والی آزمائش اورتکلیف کودُورکرنے کے لئے توجہ فرماتی ہے۔آفات کے نزول کے وقت یقینا قبولیت دعاسب سے بڑی کرامت ہے۔ پھر اسی طرح آخری زمانے،یعنی خدائے رحمان کے فرستادہ مسیح موعودکے زمانے کے لئے یہی مقدر کیاگیاہے کہ رزمگاہ کی صف لپیٹ دی جائے گی اور کلام کے ذریعہ دلوں کوکھول دیاجائے گا اورہدایت کے ذریعہ سینے کشادہ کر دئیے جائیں گے۔یاطاعون یاکسی دوسری شدید آفت کے ذریعہ لوگوں کوقبروں کی طرف منتقل کردیا جائے گا۔اوراللہ نے اسی طرح فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ ہزیمت کوکفر کا مقدّر بنا دے اُس دین کوجوآسمان میں سربلندہے اُسے زمین میں بھی سرفرازی بخشے۔ بلاشبہ میرایہ پائوں منکرین کی قتل گاہوں پرہے۔ مجھے میرے پروردگارکی جناب سے ضرور نصرت حاصل ہوگی اور امرِالٰہی نافذ ہوگا اور پروردگار کی بات پوری ہوگی اوریہی میرے آسمان سے نازل ہونے کی حقیقت ہے۔ مَیںزمینی فوجوں کے ذریعہ سے نہیںبلکہ بزرگ وبرتر خدا کے فرشتوںکے ذریعہ غالب ہوںگا۔ کہا جاتاہے کہ نہ ردّہو نے والی تقدیر اور نہ ٹلنے والی قضاء و قدر کے بعد دعا کے کیامعنیٰ؟سو یاد رہے کہ یہ راز ایک ایسی راہ ہے جس میں عقلیں بھٹک جاتیں اور غول بیابانی ہلاک ہوجاتا ہے۔ اس (راز) کو صرف توبہ کرنے والا ہی پاتاہے۔ توبہ سے وہ پگھل جاتاہے۔اس لئے اے کمینو!تم جھگڑے کو طول مت دو اورجومیں کہتا ہوں اسے ذہن نشین کر لو،کیونکہ مَیں اہل علم اورنابغۂ روزگارہوں اور تمہاری اسلام سے وابستگی محض علامتی،نمائشی اور رسمی ہے اس لئے جوشخص میرے ان حقائق کوگوشِ ہوش سے سنے گا اورایک ذوق و شوق رکھنے والے مضطر شخص کی طرح ہماری جانب بسرعت دوڑتاہوا آئے گا تومیں اس کو ایسی امان دوں گا جو اُس کے تمام شکوک و شبہات دور کردے گی اوراس کی زنبیل (خانۂ دل)کوبھردے گی۔ اور وہ راز یہ ہے کہ اللہ نے قدیم سے بعض اشیاء کو بعض سے وابستہ کیاہوا ہے اسی طرح اُس نے قضاء و قدر کوبھی ایک دردمنداورمضطرانسان کی دعا کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔پھر جو شخص ایستادہ ہوکر بہتے آنسوئوں اورچشم اشکبار اورایسے دل کے ساتھ ربّ العزۃ کی طرف بھاگتاہوا آتا ہے جو اس طرح بے چین ہوگویا اسے انگیٹھی پر رکھ دیاگیا ہو تواللہ کی جناب سے بھی اس کے لئے قبولیت دعا کی موج حرکت میں آتی ہے اور وہ شخص جاں گسل کرب سے نجات دیا جاتاہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ مقام صرف اسی کو حاصل ہوسکتاہے جو اللہ کی ذات میں فنا ہو،اپنے حبیب علّام خدا کی ذات کومقدم کرے، بتوں سے مشابہ ہر چیز کوترک کردے اور قرآن کی آواز پرلبیک کہے اوراپنے سلطان کے آستانہ پرحاضر ہوجائے اوراپنے مولیٰ کی ایسی اطاعت کرے کہ بس اُسی میں محو ہوجائے اورہر طرح کی نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو بچائے رکھے اور لوگوں کے اونگھنے کے زمانے میں خود کوبیدار رکھے اور وسوسہ ڈالنے والے کودوررکھے اوراپنے رب اور اس کی قضاء وقدرسے راضی ہوجائے۔ اوردیارِ حبیب میں داخل کئے جانے کے بعد وہ اپنی عریانیوں اورگناہ کی ان تمام آلودگیوں کوجو ترغیبات نفس کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں انہیں پاک دل،مضبوط عزم اور صدق جلی کے ساتھ اس کے حضورپیش کردے۔یہی لوگ ہیں جن کی دعائیں اکارت نہیں جاتیں اورنہ ہی ان کی باتیں ردّ کی جاتی ہیں۔اورجس نے اپنے پروردگارکی خاطر موت کو ترجیح دی تواُس کوزندگی دی جائے گی اورجواس کی خاطر گھاٹے پر راضی ہوا تو اس کی طرف برکات لوٹائی جائیں گی۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 1 تا 6)