سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس علیہ السلام کے سیالکوٹ میں عرصۂ ملازمت پر تحقیق

پنجاب یونیورسٹی میں مدرسی کی تجویزپر ناپسندیدگی کا اظہار

شمس العلماء سیدمیرحسن صاحب جوکہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت سید میر حامد شاہ صاحب ؓکے چچا ہیں اور علامہ موصوف سیالکوٹ کے معروف عالم دین مولوی اور مشہورشاعر علامہ اقبال کے استاد بھی تھے اور سیالکوٹ میں قیام کے زمانہ میں انہوں نے حضرت اقدسؑ کو قریب سے دیکھا تھا ان کی خدمت میں حضرت مسیح موعودؑ کے اولین سوانح نگاروں میں سے ایک حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ نے درخواست کی کہ تب کے حالات وواقعات کے متعلق کچھ بتایا جائے جس پرانہوں نے دومرتبہ تفصیلی خط لکھے۔[ایک خط توانہوں نے حضرت شیخ صاحبؓ کو لکھاجوانہوں نے حیات احمدؑجلداول صفحات91-97 میں درج فرمایا۔ پھربعد میں ایک بار حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحبؓ نے مولوی صاحب سے تحریری روایت لے کر اپنی تصنیف سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150 کے طورپر درج فرمائی اور کچھ مزیدجو مولوی صاحب نے 26 نومبر1922ء کو لکھا وہ اسی سیرت المہدی حصہ اول میں روایت نمبر280 کے تحت لکھا۔بہرحال اس خط میں انہوں نے حضرت اقدسؑ کی ملازمت کے متعلق ایک اَور موقع کا ذکر بھی کیا ہے۔]چنانچہ وہ لکھتے ہیں :’’ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی۔ جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نےان کی خدمت میں عرض کی(مولوی سید میرحسن صاحب نے) آپ درخواست بھیج دیں۔چونکہ آپ کی لیاقت عربی زبان دانی کی نہایت کامل ہے۔آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے۔فرمایا:میں مدرسی کو پسند نہیںکرتا کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا کرتے ہیں میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ۔ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 95-96وماخوذ از مجدداعظم جلداول صفحہ55)

سیالکوٹ میں ملازمت

مختصر یہ کہ،یہ کچھ مواقع تھے جب حضرت اقدسؑ کو ملازمت کی پیشکش ہوئی اورآپؑ نے قبول نہیں فرمائی یا بعض ایک دوجگہ پر آپؑ نے ارادے کو عملی شکل بھی دی لیکن سب سے تفصیلی اور معین عرصہ ٔ ملازمت یہی ہےجوسیالکوٹ میں آپؑ نے قیام فرماتے ہوئے گزارا۔

ملازمت کے سن کی تعیین، ایک تحقیق

یہاں ہمیں ذرا رک کریہ بھی دیکھناہوگا کہ آپؑ کس سن میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور کب واپس تشریف لائے۔ہرچندکہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کی کتب اور تاریخ احمدیت وغیرہ میں بالعموم حضرت اقدسؑ کے عرصۂ ملازمت کا ذکرکرتے ہوئے 1864ء سے 1868ء بیان کیاجاتاہےلیکن خاکسارکے نزدیک یہ تاریخ قابل تحقیق ہے۔اور خاکسارعرض کرے گا کہ یہ تاریخ 1864ء نہیں بلکہ 1860ء یا1861ء ہے جیساکہ آگے چل کرثابت ہوگا۔ سلسلہ کے لٹریچر میں اس زمانے کی بابت تاریخ کابیان جن کتب میں آیاہے ان میں سے کچھ کاذکردرج ذیل ہے۔

1: سلسلہ احمدیہ کے اولین مؤرخ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ نے سیالکوٹ میں ملازمت کی تفصیلات حیات احمدؑ جلداول صفحہ90-111پربیان کی ہیں۔سیدمیرحسن صاحب کاتفصیلی خط بھی وہاں درج کیاہے جس میں انہوں نے بیان کیاہے کہ حضرت مرزاصاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا……اورحیرت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے لیکچر سیالکوٹ کاایک اقتباس بھی درج فرمایاہے جوان تمام تاریخوں پرایک سوالیہ نشان لگاتے ہوئے خط تنسیخ کھینچ دیتاہے۔لیکن حضرت عرفانی صاحب ؓ شایدسیرت کے موضوع پراپنے ذہن کومرتکزکیے ہوئے ہوں گے اوراس وقت تاریخوں کی طرف توجہ نہیں دی۔

2: حضرت اقدسؑ کی سیرت وسوانح ’’ حیات طیبہ‘‘ کے مؤلف شیخ عبدالقادرصاحب سوداگرمل اپنی تصنیف کے صفحات 18-27پرسیالکوٹ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں لیکن وہ ان تمام تفصیلات کے لیے پہلے سے موجودکتب سیرت المہدی،حیات احمدوغیرہ پرہی انحصارکرتے ہیں۔

3: حضرت اقدسؑ کی سیرت وسوانح پرایک اورتفصیلی کتاب ’’مجدداعظم‘‘ مؤلفہ ڈاکٹربشارت احمدصاحب ہے۔ ہرچندکہ اپنی کتاب میں وہ جگہ جگہ دوسروں کی کتب سے اقتباس واستفادہ بھی کرتے ہیں لیکن ہرجگہ وہ اس کا حوالہ دیتے ہیں نہ ذکرکرتے ہیں البتہ کتاب کے دیباچہ میں تمہیدکے عنوان سے مستفاد کتب کاذکرکرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحب کی سیرت وسوانح کی کتب اور سیرت المہدی اور تذکرۃ المہدی وغیرہ کاذکرکیاہے۔اپنی کتاب کے صفحات 41سے صفحہ 55 پروہ سیالکوٹ میں ملازمت کاذکرکرتے ہیں اور غالباً وہ سلسلہ احمدیہ کی دیگرکتب سے ہی وہ من وعن درج فرمادیتے ہیں اور سن ملازمت 1864ء پروہ کوئی تبصرہ نہیں کرتے جبکہ انہیں صفحات میں جب صفحہ47 پر مولوی ظفرعلی خان صاحب کے والدمولوی سراج الدین صاحب نے اپنے اخبارزمیندار میں حضرت اقدسؑ کی وفات پرقیام سیالکوٹ کی بابت لکھاکہ ’’مرزاغلام احمدصاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محررتھے اس وقت آپ کی عمر22-24سال کی ہوگی……‘‘تواس جگہ مؤلف’’مجدداعظم ‘‘حاشیہ میں لکھتے ہیں ’’سَن کے متعلق مولوی سراج الدین احمدصاحب کی یادداشت نے غلطی کی ہے کیونکہ حضرت مرزاصاحب 1864ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔‘‘ اس سےیہ ظاہرہوتاہے کہ مؤلف کے نزدیک بھی ملازمت کاسن 1864ء ہی ہے۔ تاریخ احمدیت کی جلداول میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے سیالکوٹ میں قیام پرایک الگ باب مختص کیاگیاہے اس کے پہلے ایڈیشن میں قیام کایہ عرصہ 1864ء تا 1868ء ہی لکھا گیا ہے۔ جبکہ اس کانظرثانی شدہ ایڈیشن جوکہ کمپوزڈایڈیشن بھی ہے اس میں باب ششم سیالکوٹ میں قیام پر مشتمل ہے اس میں یہ سن تبدیل کرکے 1864ء تا 1867ء کردیاگیا ہے۔اورنہ پہلے ایڈیشن میں یہ ذکر ہے کہ ان سنین کاماخذکیاہے اور نہ ہی اب تبدیل شدہ سن کے متعلق واضح کیاگیاہے۔گوکہ جو تفصیل ان صفحات میں ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ چونکہ حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ کی وفات کے متعلق ایک روزنامچہ ملاہے جس میں تاریخ وفات 1867ء ہے اس لیےقرین قیاس یہی ہے کہ اسی وجہ سے 1868ء کاسن تبدیل کرکے 1867ء کردیاگیاہوگا۔بہرحال کوئی بھی کتاب ہوکسی بھی مصنف نے اس کاکوئی source اور ماخذ بیان نہیں کیا کہ وہ کون سے قرائن یاثبوت ہیں جن کی بناپرحضرت اقدسؑ کی مدت ملازمت 1864ء سے 1868ء تک بیان کی جارہی ہے۔

حضرت اقدسؑ کی اولین سوانح مرتب کرنے والے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ہیں۔ کتاب کانام ہے ’’حیات النبیؑ ‘‘جوبعدمیں ’’حیات احمدؑ ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔اور اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد سیرت المہدی شائع ہوئی اورسیرت وسوانح کی یہ اولین اورمہتم بالشان تصنیفات ہیں کہ بالعموم بعدکے سوانح نگاروں نے اکثروبیشترانہیں کتب میں مذکورواقعات اورتواریخ پرہی انحصارکیاہے۔حضرت اقدسؑ کی سیرت وسوانح پرخاکسار نے جتنی کتب بھی دیکھی ہیں چند ایک کے سوا اکثرمصنفین نے خصوصاًتواریخ کے بیان میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا اور جیساکہ عرض کیا ہے کہ زیربحث سیالکوٹ میں ملازمت کے سنین کی بات ہورہی ہے تو یہ توہرکوئی لکھتاہے اور بیان کرتاہے کہ سیالکوٹ میں یہ ملازمت 1864ء میں شروع ہوئی ہے۔لیکن اس سن اورتاریخ کا ماخذ کیاہے اس کا براہ راست کوئی ذکرنہیں کیاجاتا۔البتہ جب وہ سیالکوٹ کے اس قیام کاذکرکرتے ہیں تو سیدمیرحسن صاحب کے ایک تحریری بیان کودرج کیاجاتاہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مرزاصاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا۔ 1864ء نہیں بلکہ 1860ء !

خاکسار نے ان کتب میں جہاں تک دیکھاہے چونکہ کسی بھی مصنف نے اس سن کے ماخذ کا کوئی ذکرنہیں کیا اس لیے قیاس کیاجاسکتاہے کہ صرف ایک سیدمیرحسن صاحب کاہی وہ تفصیلی بیان ہے جوخط کی صورت میں شائع شدہ ہے اور جوہمارے سلسلہ کے لٹریچرمیں ایک ماخذ کی صورت کے طورپر بیان ہوتاچلاآرہاہے۔ لیکن جب تحقیق وتجسس کی نگاہ دوڑاتے ہوئے مزیدتفصیلات میں جائیں تو اس عرصۂ ملازمت کی تواریخ ضروری نہیں کہ یہی ہوں۔البتہ یہ توواضح ہے کہ جب تک معین کاغذات اور عدالتی ریکارڈ کے ثبوت ہمارے سامنے نہ ہوں کسی بھی سن اورتاریخ کو حتمی نہیں کہاجاسکتاالبتہ کئی ایسے شواہدہمارے سامنے آچکے ہیں کہ ایک تحقیق کرنے والے کی نظرمیں 1864ءسے 1868ء کاسن نظرثانی کا محتاج ہوسکتاہے۔اورانہیں بعض قرائن اور شواہدکےپیش نظر خاکسار کی رائے میں اس ملازمت کا آغاز 1861ء یا1860ء میں ہواہوگا اور اختتام 1867ء میں ہواہوگا۔ اس کے لیے درج ذیل شواہدپیش خدمت ہیں۔

1: جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ اول تویہ بھی ایک سوال ہے کہ 1864ء اور 1868ء کے سن کہاں سے لیے گئے آخران کا کوئی حوالہ توہو۔خاکسار کوابھی تک کوئی ایسی دستاویزی شہادت نہیں مل سکی جس کی بنا پر یہ سن متعین کیے گئے ہوں یاجس نے بھی اس کاذکرکیاہے اس نے کسی ماخذ کا ذکر کیا ہوکہ فلاں کتاب یاروایت کی روسے یہ لکھاجارہاہے۔اوراس سن کاماخذکیاہوسکتاہے وہ بھی معلوم نہیں۔ جب کوئی ایساحوالہ مذکورہی نہیں تو 1864ء ہی کیوں وہ سال ٹھہرا؟

2: البتہ ایک خط ہےجوسیدمیرحسن صاحب کاہے۔جس میں وہ ذکرکرتے ہیں کہ ’’حضرت مرزاصاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا (حیات احمدجلد 1صفحہ 92،سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 150،تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ95) محترم سیدمیرحسن کی یہ ایک تفصیلی اورطویل بیانیہ تحریر ہے۔اوریہ بھی قابل غورامرہے کہ اسی تفصیلی روایت میں جس کاپہلافقرہ درج کیاگیاہے اس کی آخری سطر میں وہ بیان کرتے ہیں کہ’’اس زمانہ میں مرزاصاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمیناً24سے کم اور 28سے زیادہ نہ تھی غرضیکہ 1864ء میں آپ کی عمر28سے متجاوزنہ تھی۔راقم میرحسن‘‘

اب جبکہ حضرت اقدسؑ کی تاریخ پیدائش جوبیان کی جاتی ہے وہ 1835ءہے۔ اس میں 24شامل کریں تو1859ء بنے گا اور اگر28شامل کریں تو 1863ء بنے گا۔گویامیرحسن صاحب کے اندازے کوبھی مدنظررکھاجائے تو سیالکوٹ میں جب حضرت اقدسؑ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے محترم میرحسن صاحب کی قیاساً عمرکے حساب سے سیالکوٹ میں ملازمت کایہ سن 1859ء کے بعد اور بہرحال 1863ء سے آگے نہیں جاسکتا۔کیونکہ تب آپؑ کی عمر 24 سے کم اور 28سے زیادہ نہ تھی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button