مجھے مشکل میں جینا آ گیا ہے اب الفت کا قرینہ آ گیا ہے کٹھن رستہ بھی آخر کٹ گیا ہے ارے دیکھو مدینہ آ گیا ہے لٹاتا پھر رہا ہے وہ خزائن کہ باہر ہر دفینہ آ گیا ہے کسی طوفاں سے اب کاہے کو ڈرنا مسیحا کا سفینہ آ گیا ہے خطابت میں سمندر بانٹنے کو وہ عرفاں کا خزینہ آ گیا ہے میں تیری یاد میں رویا ہوں جیسے محرّم کا مہینہ آ گیا ہے ضرورت جب پڑی میرے وطن کو تو آگے میرا سینہ آ گیا ہے رسن پر ہے کوئی ہے زیرِ آتش مقابل جو کمینہ آ گیا ہے حریفوں سے جونہی مانگے دلائل اُنہیں دانتوں پسینہ آ گیا ہے کرو تم زخمی زخمی میرا سینہ ہمیں زخموں کو سینا آ گیا ہے خلافت فضلِ باری کی نشانی وہ دیکھو وہ نگینہ آ گیا ہے چلو کہ اس کے در پر سب چلیں اب اُٹھو وقتِ شبینہ آ گیا ہے حلیمؔ ان کی ملی ہے ہم کو چوکھٹ عقیدت ہی کا زینہ آ گیا ہے