ساغرِ حُسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہوہے وہ بے پردہ کوئی طالبِ دیدار بھی ہو وصل کا لُطف تبھی ہے کہ رہیں ہوش بجادل بھی قبضہ میں رہے پہلو میں دلدار بھی ہو رسمِ مخفی بھی رہے اُلفتِ ظاہر بھی رہےایک ہی وقت میں اِخفا بھی ہو اظہار بھی ہو عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاحجو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو اس کا دَر چھوڑ کے کیوں جاؤں کہاں جاؤں مَیںاور دُنیا میں کوئی اس کی سی سرکار بھی ہو ہمسری مجھ سے تجھے کِس طرح حاصل ہو عَدُوحال پر تیرے او ناداں نظرِ یار بھی ہو بات کیسے ہو مؤثر جو نہ ہو دل میں سوزروشنی کیسے ہو دل مہبطِ انوار بھی ہو یُونہی بے فائدہ سر مارتے ہیں وَید و طبیباُن کے ہاتھوں سے جو اچھا ہو وہ آزار بھی ہو دَرد کا میرے تو اے جان فقط تم ہو علاجچارۂ کار بھی ہو مَحْرمِ اَسرار بھی ہو دِل میں اک دَرد ہے پر کس سے کہوں مَیں جا کرکوئی دُنیا میں مِرا مُونس و غمخوار بھی ہو سالکِ راہ یہی ایک ہے منہاجِ وصُولعشقِ دِلدار بھی ہو صحبتِ ابرار بھی ہو (اخبار الفضل ۶؍جنوری۱۹۲۱ء) مزید پڑھیں: مسکراتے ہیں غم چھپانے کو