ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۷) (قسط ۷۵)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
کروٹیلس ہری ڈس
Crotalus horridus
(Rattle Snake)
بہار کے موسم میں وہ پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں جہاں کبھی سانپ نے کاٹا ہو اور وہ بیماریاں جو سانپوں کے زہر سے تعلق رکھتی ہیں سراٹھانے لگتی ہیں۔ بہار میں کئی قسم کی الرجیاں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے علاج کے لیے لیکیسس (Lachesis )جو سانپ کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا ہے فائدہ مند ہوتی ہے۔ یہ دو اہر ایک مریض میں یکساں طور پر کام نہیں کرتی بلکہ بعض اور دواؤں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ الیومینا اور سباڈیلا کے علاوہ کرو ٹیلس بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے لیکن لیکیسس اس اثر میں بہت نمایاں ہے۔(صفحہ۳۳۲،۳۳۱)
جب بھی کسی خاص مرض کا حملہ ہو تو جسم پر موجود زخموں سے کالے رنگ کا بد بودار خون بہنے لگتا ہے۔ خاص طور پر بہار کے موسم میں یہ کیفیت پیدا ہو تو کروٹیلس ہی دوا ہو گی۔ شوگر کی وجہ سے گردن اور کمر وغیرہ پر کار بنکل نکلتے ہیں۔ اگر وہ تیزی سے پھیل کر جڑوں والے پھوڑوں کی شکل اختیار کرلیں اور ارد گر دورم ہو جائے تو کرو ٹیلس مفید ہے۔ ایسے کاربنکل میں آرسینک اور انتھراسینم (Anthracinum)بھی مؤثر ہیں۔ (صفحہ۳۳۳)
ہونٹ متورم اور بےحس ہو جاتے ہیں۔چہرہ بھی زرد اور متورم ہوجاتا ہے۔(صفحہ۳۳٤)
جوڑوں میں درد بھی کر وٹیلس کی علامت ہے۔ غدود متورم ہو جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں سوج جاتے ہیں، پاؤں کی انگلیوں میں اینٹھن اور درد ہوتا ہے۔ کھلی ہوا میں سر اور معدے کی تکلیفیں آرام پاتی ہیں جبکہ کھانسی بڑھ جاتی ہے۔ تمام جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ جلد بہت حساس ہو جاتی ہے اور اس میں زردی نمایاں ہوتی ہے اور پھوڑے نکلنے کا رجحان ہوتا ہے۔ چہرہ بے رنگ زردی مائل ہوتا ہے۔ ایک خاص علامت یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کو حیض کا خون جاری نہ ہو اور منہ دانوں سے بھر جائے تو کر وٹیلس اس کی خاص دوا ہے۔ یہ حیض کو دوبارہ جاری کر کے چہرے کی طرف خون کے دباؤ کو کم کر دیتی ہے۔(صفحہ۳۳٤،۳۳٥)
کروٹن ٹگلیم
Croton tiglium
(Croton Oil Seed)
کروٹن کی جلدی علامات رسٹاکس سے ملتی جلتی ہیں۔ رطوبت سے بھرے ہوئے چھالے نکلتے ہیں، خارش کے ساتھ جلن ہوتی ہے۔ کروٹن اور رسٹاکس میں ایک فرق یہ ہے کہ رسٹاکس میں جب ایک جگہ سے ایگزیما ختم ہو جائے تو وہاں صحت مند جلد نکل آتی ہے۔ اگلی دفعہ ایگزیما ہونے پر دوبارہ وہاں چھالے نہیں بنتے۔ بعد ازاں کسی وقت ایگزیما کا نیا حملہ ہو تو سابقہ ماؤف جگہ پر بھی ہو سکتا ہے لیکن کروٹن میں اسی جگہ جہاں جلد صحت یاب ہو چکی ہو دوبارہ چھالے نکل آتے ہیں اور بہت ضدی اور چمٹ جانے والا ایگزیما بن جاتا ہے۔(صفحہ۳۳۷)
کروٹن میں جلد اور پیٹ کی علامتیں ایک دوسرے سے ادلتی بدلتی رہتی ہیں۔ بچوں کے ایگزیما خصوصا ًسر کے ایگزیما میں کروٹن کی سیپیا سے بہت مشابہت ہے۔ مگر کروٹن کی دیگر واضح علامتیں اسے سیپیا سے جدا کرتی ہیں۔ بعض دوائیں ایسی ہیں جن کا آلات تناسل کے ایگزیموں سے تعلق ہوتا ہے۔ کروٹن ان میں سرفہرست شمار ہونی چاہیے۔ رسٹاکس، اینا گیلس اور گریفائٹس بھی اس مرض کے علاج میں شہرت رکھتی ہیں۔ کروٹن کے چھالے رسٹاکس سے چھوٹے ہوتے ہیں اور پانی بھی رسٹاکس کے مقابلہ میں کم بہتا ہے۔ کروٹن اور رسٹاکس ایک دوسرے کے اثر کو زائل(Antidote)کرتی ہیں۔ رسٹاکس میں اسہال کی علامتیں نہیں ملتیں۔(صفحہ۳۳۸)
اسہال کے مقابل پر کروٹن کی خارش کا تریاق رسٹاکس ہے۔(صفحہ۳۳۹)
ہتھیلیوں کی خارش میں اینا گیلس (Anagallis)کو بہت شہرت حاصل ہے۔رسٹاکس کی خارش اور ایگزیما عموماً ہاتھ کی پشت پر ہوتے ہیں۔ اینا گیلس ہتھیلیوں کی دوا ہے۔ جلن کے اعتبار سے اینا گیلس میں جلن کم اور رسٹاکس میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اینا گیلس کا ایگزیما ماؤف جگہ پر دوبارہ ابھر آنے کے اعتبار سے کروٹن کے مشابہ ہوتا ہے۔(صفحہ۳۳۹)
کیوپرم میٹیلیکم
Cuprum metallicum
سر میں خالی پن کا احساس ہوتا ہے، دماغ میں درد ہوتا ہے، سر پر سرخی مائل نیلاہٹ اور سوزش پائی جاتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سر پر گرم پانی ڈالا جارہا ہو۔ بہت چکر آتے ہیں اور سر آگے کی طرف گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پیشانی، کنپٹیوں اور گدی میں شدید درد ہوتا ہے جس میں دبانے سے اضافہ ہو جاتا ہے۔ مریض کے چہرہ پر نیلگوں پیلاہٹ آ جاتی ہے اور وہ کسی گہری فکر اور سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ ہونٹوں پر نیلاہٹ ہوتی ہے اور بے ہوشی طاری ہونے پر مریض کے جبڑے سختی سے بند ہو جاتے ہیں اور منہ سے جھاگ نکلتی ہے۔ (صفحہ۳٤۳)
سائیکلیمن یوروپیم
Cyclamen europaeum
سائیکلیمن میں خارش کو کھجلانے سے سکون ملتا ہے۔ عورتوں میں حیض کا خون جاری ہونے پر خارش کو آرام آجاتاہے۔(صفحہ۳٤۷)
ڈیجی ٹیلس
Digitalis
ڈیجی ٹیلس میں چہرہ پر نیلاہٹ آ جاتی ہے۔ یہ خون کی گردش میں خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں کی انگلیاں بھی نیلی ہو جاتی ہیں جبکہ گرائینڈ یلیا میں یہ علامتیں نہیں ملتیں ہاں کیو پرم میں یہ نیلاہٹ کی علامتیں پائی جاتی ہیں مگر دل کی تکلیف کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے عوارض کے باعث۔ (صفحہ۳٥۱)
ڈیجی ٹیلس میں خارش بھی ملتی ہے۔ کمر پر سرخ دانے نکلتے ہیں۔(صفحہ۳٥۳)
ڈائسکوریا ولوسا
Dioscorea villosa
(Wild Yam)
ہاتھوں کے ناخن جلد ٹوٹتے ہیں اور بہت خستہ ہو جاتے ہیں۔(صفحہ۳٥٦)
ڈروسرا روڈنڈیفولیا
Drosera rotundifolia
(Sundew)
بائیں طرف آدھے چہرے پر شدید سردی کے ساتھ ڈنک دار دردوں کا احساس اور داہنے آدھے چہرے پر خشکی اور گرمی کا احساس بھی ڈروسرا کی امتیازی علامت ہے۔ (صفحہ۳٦۰)
ڈلکامارا
Dulcamara
(Bitter Sweet)
ڈلکا مارا اندرونی جھلیوں اور بیرونی جلد میں ناسور پیدا ہونے کا بھی علاج ہے۔ چہرے کی جلد پر ایگزیمے کی قسم کے زخم بن جاتے ہیں جو تیزی سے پھیل جاتے ہیں اور زرد رنگ کے کھرنڈ بنتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے چھالے گچھوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو بہت جلد پھیلتے ہیں۔ یہ علامت آرسنک میں بھی بہت نمایاں ہے لیکن دونوں کے مریض بالکل الگ مزاج رکھتے ہیں۔ آرسینک میں گینگرین پیدا کرنے کا رجحان ہے جبکہ ڈلکا مارا میں زخم گینگرین میں تبدیل نہیں ہوتے۔ ڈلکا مارا وہاں زخم پیدا کرتی ہے جہاں جلد کی تہ ہڈی پر بہت پتلی ہو۔ آرسینک اور ڈلکا مارا میں زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے ایک فرق یہ ہے کہ آرسینک میں طاعون کی قسم کی گلٹیاں بنتی ہیں۔ بغلوں کے غدود سوج جاتے ہیں اور ان میں پیپ بنتی ہے۔ ڈلکا مارا میں غدودوں میں پیپ نہیں بنتی صرف سختی پیدا ہو جاتی ہے۔ڈلکا مارا میں سر پر کھرنڈ بن جاتے ہیں جن سے رطوبت بہتی ہے۔ یہ علامت میزیریم (Mezereum)میں بھی پائی جاتی ہے لیکن میز یریم میں ایگزیما کے اوپر جھلی سی بن جاتی ہے جس میں پیپ اور شدید بو پائی جاتی ہے۔ ڈلکا مارا میں یہ علامات زیادہ شدید نہیں ہوتیں۔ ڈلکا مارا کے ایگزیما سے ملتی جلتی علامتیں رکھنے والی دوائیں سیپیا، آرسینک،گریفائیٹس، پٹرولیم، سلفر، کلکیریا کے نمکیات اور رسٹاکس ہیں۔ ان سب کو اپنی اپنی علامتوں کے لحاظ سے یاد رکھنا چاہیے۔ کروٹن، اینا گیلس اور اینا کارڈیم بھی بہت مفید دوائیں ہیں۔اینا گیلس، کروٹن اور رسٹاکس کا ایگزیما بدن کے نچلے حصہ پر اور رانوں کے اردگرد ہوتا ہے۔ایناکارڈیم میں ایگزیما سارے بدن پر پھیلتا ہے۔(صفحہ۳٦٤،۳٦٥)
یوفریزیا
Euphrasia
(Eyebright)
یوفریز یا کو جرمن خسرہ (German Measles)کے علاج میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ عام خسرہ میں تو اکثر پلسٹیلا استعمال ہوتی ہے لیکن جرمن میزلز میں یو فریز یا ایک لازمی دوا ہے۔ اس میں بیماری کا آغاز آنکھوں پر بیماری کے حملہ سے ہوتا ہے اور آنکھیں بہت سرخ ہو جاتی ہیں۔ یہ بیماری ویسے تو خطرناک نہیں لیکن حاملہ عورتوں اور ہونے والے بچوں کے لیے بعض دفعہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر پہلے تین مہینوں میں اس بیماری کا حملہ ہو جائے تو جنین کے اعضاء کی نشو و نما جہاں تک پہنچی ہو اسی مقام پر رک جاتی ہے اور بچہ بڑھتا نہیں ہے۔ اس بیماری کی وبا کے دنوں میں حاملہ عورتوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔ ابتدائی تین مہینوں میں اگر یہ بیماری ہو تو یا تو بچوں کی آنکھیں ہی نہیں بنتیں یا دل کے بعض حصے خام رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح شنوائی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے اور بعض دفعہ بالکل اندھے اور بالکل بہرے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے بچے چند مہینے کے اندر ہی مر جاتے ہیں اور اسے رحمت شمار کرنا چاہیے ورنہ جو بچے بچ جائیں وہ ماں باپ کے لیے عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔ مزید احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر حاملہ عورت کو ابتدائی تین مہینوں میں خسرہ ہو جائے تو اسے ضرور اچھے کلینک میں داخل کروا کر یہ تسلی کر لینی چاہیے کہ کہیں یہ جرمن میزلز (German Measles )تو نہیں تھی جس کا اثر جنین پر پڑا ہو۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر مشورہ دیں گے کہ زچہ اور بچہ دونوں کا مفاد تقاضا کرتا ہے کہ ایسا حمل ضرور گرا دیا جائے۔ یوفریز یا میں روشنی سے زود حسی پائی جاتی ہے۔ خسرے میں بھی یہ اس کی خاص پہچان بن جاتی ہے۔ یوفریزیا کی تکلیفیں شام کے وقت اور گرمی سے اور روشنی سے بڑھ جاتی ہیں۔(صفحہ۳۷٦،۳۷۷)
فیرم میٹیلیکم
Ferrum metallicum
(لوہا)
ہو میو پیتھ معالجین نے یہ تجربہ کیا ہے کہ اگر کسی کو زیادہ مقدار میں فولاد (آئرن ) دیا جائے تو مریض کا رنگ پیلا یا سبزی مائل ہو جاتا ہے اور اس پر ایسی چکناہٹ نظر آتی ہے جیسے اس پر موم رگڑ دی گئی ہو۔ سارے جسم پر یہی کیفیت ہوتی ہے۔ (صفحہ۳۷۹)
باوجود اس کے کہ مریض میں خون کی نمایاں کمی پائی جاتی ہے مگر چہرے پر معمولی جذباتی ہیجان سے بھی خون کی چمک دکھائی دیتی ہے جس کو ہومیو پیتھ فالس پلیتھو را (False Plethora) یعنی خون کا جعلی عکس کہتے ہیں۔ مریض کے دونوں کلے تمتمانے لگتے ہیں اور عورتوں میں خصوصاً یہ تمتماہٹ اچانک شرما جانے سے پیدا ہونے والی تمتماہٹ سے ملتی ہے۔ (صفحہ۳۸۰)
فیرم میٹ کی چائنا سے اس پہلو سے مشابہت ہے کہ یہ سرخ ذرات کو کم کرتی ہے۔ جو دوابھی خون کے سرخ ذرات کو کم کرے اس کی چائنا سے مشابہت ضرور ہوگی۔چہرہ بغیر خون کے دباؤ کے تمتما جاتا ہے اور چہرہ پر باری باری سرخی اور زردی آتی ہے۔اسی طرح بخار چڑھتے ہوئے سردی کا احساس بھی نمایاں طور پرپایا جاتا ہے۔ (صفحہ۳۸۰)