متفرق مضامین

ویٹو پاور۔ امن عالم اور انصاف میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا (حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

انیسویں صدی کے معروف انگریز تاریخ دانLord Acton۔ ۱۸۳۴ – ۱۹۰۲ء کا جملہ قوموں کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ ایک دوست Bishop Mandell Creighton کو خط میں Lord Acton لکھتا ہے:

Power tends to corrupt; absolute power corrupts absolutely

طاقت کا رجحان ہمیشہ بگاڑ اور ظلم کی طرف ہے۔مطلق العنان طاقت مکمل تباہی کا موجب ہے۔باری تعالیٰ نے وسیع و عریض کائنات میں بے مثال توازن اور عدل قائم فرمایا ہے۔کائنات کا ذرہ ذرہ اور تمام مخلوقات ایسی خوبصورتی سے متوازن طور پر پیدا کی گئی ہے کہ انسان کے منہ بے اختیار فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ہی نکلتا ہے۔اس توازن سے اللہ تعالیٰ نےہمیں سمجھایا ہے کہ تخلیق کا حسن، ارتقا اور بقا، مخلوقات کے مابین توازن،عدل اورانصاف پر مبنی تعاون پر منحصر ہے۔اگر یہ توازن اور عدل برقرار نہ رہے تو انصاف اور بقائے باہمی کے اصول خون ہوجاتا۔

مالک کونین اور مسبّب الاسباب خدا کی یہی سنت دنیا کی مختلف قوموں میں جاری ہے۔متنوع رنگ،نسل اور لسانی پس منظر کی حامل مختلف اقوام صرف اسی صورت میں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کریں گی، اگر وہ عدل و انصاف کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کو مدنظر اپنے درمیان طاقت کا توازن برقرار رکھیں گی۔ اگر ایک فریق طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی بن جائے گا تو اس کا نتیجہ محض تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کے ناکام تجربہ نے بھی انسانیت کو حقیقی انصاف اور بقائے باہمی کے اصول پر کاربند نہ ہونے دیا۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے بین الاقوامی ادارے ’’اقوام متحدہ‘‘نے تعلیم، صحت اور انسانی حقوق کے متفرق میدانوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ تاہم سلامتی کونسل میں پانچ طاقتور ممالک کوVeto کی مطلق طاقت دے کر حقیقی انصاف کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ رکھ دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ’’absolute power corrupts absolutely‘‘کے سوا کچھ نہیں نکلا اور نہ ہی مستقبل میں نکلے گا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ویٹو کا استعمال ہمیشہ طاقتور حملہ آور ممالک کے مفادات کے تحفظ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو احتساب سے بچانے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔

ویٹو کسی بھی کارروائی کو یکطرفہ طور پر روکنے کی قانونی طاقت ہے۔اس کی عام صورت یہ ہے کہ کوئی صدر یا بادشاہ کسی بل کو قانون بننے سے روکنے کے لیے ویٹو کر دیتا ہے۔ بعض ممالک کے آئین میں ویٹو کے اختیارات موجود ہیں۔بعض جگہ ویٹو کے اختیار کو اکثریتی ووٹ سے ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔تاہم اقوام متحدہ میں ایسا نہیں ہے۔اقوام متحدہ کا آرٹیکل ۲۷ (۳) سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ) کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی قرارداد کو ویٹو کے ذریعہ ردّ کردیں، چاہے اس کا کچھ بھی نتیجہ ہو۔

ان تمام عالمی طاقتوں نے ہر موقع پر اپنے قومی، سیاسی، علاقائی مفادات اور اپنی خارجہ پالیسی کی برتری قرار رکھنے کے لیےبے دریغ ویٹو کا استعمال کیا ہے۔نتیجتاً انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی طویل فہرست مہذب انسانیت کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ سیکیورٹی کونسل کی ورکنگ رپورٹ کے مطابق مارچ ۲۰۲٤ء تک کے ڈیٹا کے مطابق۲۹۳؍مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال کیا گیا ہے۔

سوویٹ یونین کے خاتمے کے بعد واحد عالمی طاقت امریکہ نے تا دم تحریر ۸٥؍بار ویٹو کا اختیار استعمال کیا ہے۔امریکہ نے سب سے زیادہ (٤۲؍مرتبہ) اسرائیل کے حق میں، اسرائیلی فوج کے مظالم، غیر قانونی قبضوں، مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے قیام، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقیدی قراردادوں اور فلسطین کی رکنیت کے خلاف ویٹو کو استعمال کیا ہے۔امریکہ نے پہلی مرتبہ ۱۹۷۲ء میں اسرائیل عرب کی جنگ روکنے کی قرارداد کو ویٹو کیا۔۲۰۰۲ء کے بعد سے امریکہ نےفلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف تقریباً تمام قراردادوں اور اقدامات کو ویٹو کر دیا ہے۔ صرف گذشتہ سات ماہ کے اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں چونیتس ہزار سے زائد افراد بشمول بچے اور خواتین مارے جا چکے ہیں۔امریکہ کااپنے مفادات کے لیے ویٹو کے استعمال کی متعدد مثالیں اَور بھی ہیں۔ کیریبین جزیرے گریناڈا میں امریکی مداخلت کے خلاف قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کیا۔۷۰ اور ۸۰ کی دہائی میں ویت نام جنگ، جنوبی افریقہ، نمیبیا وغیرہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متعدد بار ویٹو کا سہار ا لیا۔

اوائل میں روس یا سابق سوویٹ یونین نے اقوام متحدہ میں مغرب کے حامی ممالک کی رکنیت روکنے کے لیے ویٹو کا حربہ بہت زیادہ استعمال کیا۔۱۹٥٦ء میں ہنگری پر سوویت یونین کے حملے کر نے کے بعد سوویٹ یونین نے اپنے خلاف قرارداد کو ویٹو کر دیا اور اقوام متحدہ کو خونریزی روکنےکی کارروائی سے روک دیا۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں افغانستان میں روسی مداخلت کو بھی ویٹو سے سہارا دیا۔۲۰۱۰ء کی دہائی میں روس نے شامی خانہ جنگی میں اپنے حامی صدر بشار الاسد کو بچانے کے لیے اورامریکہ اور مغربی ممالک کی براہ راست مداخلت روکنے کے لیے متعدد قراردادوں کو ویٹو کیا۔ خانہ جنگی کے دوران بشارالاسد حکومت نے سفاکانہ طور پر اپنے شہریوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا۔۲۰۱٤ءمیں کریمیا پر روسی حملے اور روس سے انضمام کے لیے ریفرینڈم کے خلاف قرارداد کو ویٹو کیا۔۲۰۲۲ء میں یوکرین پر حملےکے بعد سے جنگ بندی کی تمام قراردادوں کو روس ویٹو کرتا چلا جا رہاہے۔

چین نے تاحال ۱٦؍بار ویٹو کا حق استعمال کیا ہےجن کا مقصد اپنے سیاسی اور علاقائی مفادات کو ہر حال میں بالا دست رکھنا ہے۔ میانمار (برما) میں فوج کی طرف سے ملک میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں، روہنگیا اقلیت کے خلاف مظالم کے باوجود چین نے اپنے حلیف میانمار کی فوج کو جوابدہ ٹھہرانے اور انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کی تمام قراردادوں کو ویٹو کر رکھا ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے خلاف جرائم سے نمٹنے کی قراردادوں کو چین نے ویٹو کیا۔

برطانیہ نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اب تک ۳۲ مواقع پر ویٹو کے اختیار کا استعمال کیا ہے۔۱۹٥٦ءمیںسوئزکینال کی ملکیت کو لے کر برطانیہ،فرانس اور مصر کا تنازعہ ہوا۔مغربی طاقتوں کی شہ اور مدد سےاسرائیل نے مصر پر حملہ کیا۔اسرائیلی حملے کو روکنے کی قراداد کو برطانیہ اور فرانس کی طرف سے ویٹو کیا گیا۔ اسی طرح ۱۹۸۹ء میں پانامہ پر امریکی حملے پر مذمتی قرار داد کو بھی برطانیہ اور فرانس کی طرف سے ویٹو کیا گیا جس میں امریکی افواج کو ملک سے نکل جانے کا کہا گیا تھا۔Colonial period میں فرانس اور برطانیہ نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی۔ان ممالک میں اپنے مفادات کو بچانے کے لیے بھی دونوں ممالک نے ویٹو کی چھتری کا سہارا لیا۔ جنوبی افریقہ، نمیبیا،زمبابوے،زیمبیا طویل عرصہ تک برطانیہ کے زیر تسلط رہے ہیں۔ یہاں سفیدفام اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کرتے رہے ہیں۔ ان ممالک میں اپنے مقاصد کے لیے ویٹو کا استعمال کیا جاتا رہا۔ ۱۹٦۳ءسے۱۹۷۳ء تک نوب افریقی ملک روڈیشیا (حال زمبابوے) میں تحریک آزادی کے دوران سفید فام اقلیت کے تحفظ اور زمبابوے کی آزادی کی قراردادوں کو بار ہا ویٹو کیا۔اسی طرح جنوبی  افریقہ میں مقامی سیاہ فام لوگوں کی حق تلفی کرنے پر حکومت پر پابندی لگانےکی قرارداد کو ویٹو کیا گیا۔فرانس نے بھی اپنےنوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ویٹو کو استعمال کیا۔ ۱۹۷٦ء میں کوموروس کی آزادی کے وقت Mayotteجزیرے کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے فرانس نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔اگرچہ ۱۹۸۹ءسے فرانس اور برطانیہ نے ویٹو کا استعمال نہیں کیا ہے۔لیکن یورپ کا سیاسی اور اقتصادی رجحان چونکہ امریکہ کی طرف ہے اس لیے جس قرارداد کو روکنا مقصود ہو عموماً اب امریکہ کا ووٹ ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی خاموش حمایت اس کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔

عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے حلیف ممالک کے لیے بھی ویٹو پاور کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد کو تین بار ویٹو کیا گیا۔اسی طرح ویتنام جنگ کے دوران سوویت یونین اور امریکہ دونوں نے اپنے مخالفین کی قراردادوں کو ویٹو کیا۔۲۰۱٤ء سے شروع ہونے والی یمنی خانہ جنگی میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پابندیوں کی قرار دار کو روس کی طرف سے ویٹو کیا گیا تاکہ اس کے اتحادی گروپس پر زد نہ آئے۔اسی طرح ۱۹۹٥ء میںسربیا میں مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قراد دینے والی ۲۰۱٥ء کی قرارداد کو بھی روس نے ویٹو کر دیا۔

۲۰۰٥ء میں عالمی سربراہی کانفرنس میں دنیا کے امن کو درپیش خطرات اورچیلنجز سے نمٹنے کے لیے چند ممالک (S5)کی طرف سے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین سے جنگی جرائم، نسل کشی اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات میں ویٹو کا حق استعمال نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔۲۰۱۳ءمیں دوبارہ کچھ ممالک کے نمائندگان نے عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ خاص طور پر جنگی جرائم کے واقعات میں یہ رضاکارانہ طور پر ویٹو استعمال نہ کر یں اور اس ضمن میں مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر زور دیا۔جنوری ۲۰۲۰ء تک ۱۲۰ ممالک (جن میں ویٹو کے حامل دو ممالک یوکے اورفرانس شامل ہیں ) اس مہم میں تعاون کرنےکا اعلان کر چکے ہیں۔

قرآن کریم نے اقوام عالم کے مابین جھگڑوں اور فسادات کے ختم کرنے کے لیے ہماری اصولی راہنمائی فرمادی کہ انصاف اور صلح ہی دو بنیادی ستون ہیں جن پر ایک پُرامن معاشرے کی بنیا د ہے۔اگر ایک فریق صلح پر راضی نہ ہو تو ظالم کی حمایت نہیں کرنی بلکہ اجتماعی طور پراس کے خلاف کھڑے ہونا ہے جب تک وہ صلح پر کاربند نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (الحجرات: ۱۰-۱۱)ترجمہ: اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن تو بھائی بھائی ہی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اسی طرح لوگوں اور قوموں کے درمیان انصاف قائم کرنے کا اساسی حکم جاری کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ۔ (النساء:٥۹)ترجمہ:اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔

ویٹو پاور، آغاز سے ہی ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ ویٹو کا اختیار بین الاقوامی انصاف اور احتساب کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے، جس سے طاقتور قوموں کو انسانی حقوق اور انسانی جانوں پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا موقع ملتا ہے۔ زیادہ منصفانہ اور مساوی دنیا کی تشکیل کے لیے ویٹو کے اختیار کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ تمام ممالک کے حقوق برابر ہوں اور اجتماعی طور پر ہم ایک بہتر دنیا تشکیل دے سکیں۔

دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے،امن کے سفیر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک لمبے عرصے سے اس کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:قیام امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اُصول عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آجائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو۔ طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ۔ ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اس بدامنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دُنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بد قسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں۔اُن اقوام کو جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اس امر کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جارہا ہے؟ (عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ ۱٦)

مورخہ ۹؍مارچ ۲۰۲٤ء کو جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی جانب سے منعقد ہونے والی اٹھارہویں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارے بھی جنہیں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ ایک کمزور اور تقریباً بے اختیار ادارہ بن گیا ہے جہاں چند اثرورسوخ رکھنے والے ممالک تمام اختیارات پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور اکثریت کے خیالات کو آسانی سے مسترد کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ نمائندہ ممالک ہر مسئلے کو حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے اپنے اپنے اتحادیوں اور اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ بالآخر، اہم فیصلے اُن چنیدہ ممالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں ویٹو پاور ہے۔ جہاں بھی ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بجائے اس کے کہ امن اور انصاف کے قیام کے لیے مخلصانہ کوششوں کی حمایت کی جائے وہ اپنا ویٹو کا حق ترپ کے پتے کی طرح استعمال کرتے ہیں چاہے اس کی وجہ سے دوسری قوموں کا امن و امان پامال ہوتا ہو اور چاہے سینکڑوں بے گناہ ہلاک ہوتے ہوں۔ لہٰذا واضح رہے کہ جہاں ویٹو پاور موجود ہے وہاں انصاف کا ترازو کبھی متوازن نہیں ہو سکتا…جب تک ویٹوپاور موجود ہے دنیا میں حقیقی امن کا قیام ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ اپنی پیش رو تنظیم لیگ آف نیشنز کی طرح روز بروز غیرمؤثر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اگر بین الاقوامی قوانین کی عمارت چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو منہدم ہو گئی تو جو بدنظمی اور تباہی دیکھنے میں آئے گی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے… یوکرین،رشیا جنگ اور اسرائیل، فلسطین جنگ کے معاملات طے نہ پاسکنے کی ایک وجہ ویٹو پاور کا ہونا بھی ہے کیونکہ ویٹوپاور بالفاظ دیگر انصاف کی روح کے خلاف اور جمہوریت اور مساوات کے اصول کی سراسر نفی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍اپریل ۲۰۲٤ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button