انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے
جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکرِ الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سےاُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے: مَن کا منکا صاف کر۔انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہو گی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۲۰،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتاہے پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیے تا وہ رُوحانی دودھ اُترے اور اُسے سیراب کرے۔
غرض پاک و صاف ہونے کے لئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح دردناک گریہ وزاری بھی ضروری ہے۔ اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے ہماری دُعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبتِ الٰہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اُس میں ایک ایسی قوتِ توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تاہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تووہ آگ کو بجھا دے گا۔ یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طریق سے اُن کے دل پاک و صاف ہوتے رہے ہیں یعنی بغیر اس کے جو زندہ خدا خود اپنی تجلّی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انسان گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا۔ اورمعقولی طور پر بھی یہی بات ظاہر و ثابت ہے کہ انسان فقط اُسی چیز کی قدر کرتا ہے اور اُسی کا رعب اپنے دل میں جماتا ہے جس کی عظمت اور طاقت بذریعہ معرفتِ تامّہ کے وہ معلوم کر لیتاہے۔
(نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۴،۳۳)