حضرت مصلح موعود ؓ

قربانیوں کی عید (رقم فرمودہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) (قسط اوّل)

(کافی عرصہ ہوا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک نہایت لطیف مضمون عید الاضحی کے متعلق مؤقر رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ کے عید نمبر میں شائع ہوا۔ جو مکرم عبدالحمید صاحب آصف کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے۔ جو عید الاضحی کی تقریب پر احباب کے استفادہ کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ ایڈیٹر)

جسے لوگ عام طور پر عید الضُحیٰ کہتے ہیں اس کا اصل نام عید الاضحی یا عید الاضاحی ہے یعنی قربانیوں کی عید۔ جس طرح اس عید کا غلط نام لوگوں میں مشہور ہے۔ اسی طرح اس عید کا مقصد بھی لوگ بالکل غلط سمجھتے ہیں۔

اس عید کے متعلق حکم ہے کہ عید الفطر کی نسبت جلدی پڑھی جائے۔ یعنی ابھی سورج نیزہ بھر اونچا ہوا ہو۔

تو اس کی نماز شروع ہوجانی چاہئے۔ احمد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ نے بریدہ سے روایت کی ہے۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عید کے دن نماز اور خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد ناشتہ تناول فرماتے تھے۔ اور امام احمد کی روایت میں یہ امر زائد ہے کہ کھاتے بھی قربانی کے گوشت سے۔

یہ عید حج کے دوسرے دن ہوتی ہے۔ اوربہت سے مسلمان آج کل اس کی حقیقت صرف اس قدرسمجھتے ہیں کہ قربانیاں کیں۔ اور خوب گوشت کھایا۔ حالانکہ یہ عید اپنے اندر ایک بہت بڑا سبق رکھتی ہے۔ اور ایک اہم تاریخی واقعہ کی یادگار ہے۔ جسے میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔

ہزارہا سال گذرے بلکہ نہیں کہہ سکتے کہ تاریخی زمانہ سے بھی پہلے کسی وقت ایک بے برگ و گیاہ جنگل میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں اسی کے حکم سے ایک معبد بنایا گیا تھا۔ اس کے بنانے والے کے متعلق یقین سے نہیں (کہہ) سکتے۔ کہ وہ کون تھا۔ لیکن

یہ امر یقینی ہے کہ وہ معبد قومی اور ملّی ہونے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے پہلا معبد تھا۔

کچھ عرصہ تک لوگ اس معبد میں خدا تعالیٰ کا نام لیتے رہے۔ لیکن نہ معلوم کہ کیا تغیرات ہوئے کہ وہ جگہ ویران ہوگئی اور عبادت کرنے والے لوگ پراگندہ ہوگئے مگر اللہ تعالیٰ کویہ جگہ پیاری تھی۔ پس اس نے ارادہ کیا کہ اسے پھر سے آباد کرے اور ہمیشہ کے لئے دنیا کی ہدایت کا مرکز بنائے۔

اللہ تعالیٰ کے علم سے کون سی چیز مخفی ہوسکتی ہے۔ اس نے اس جگہ کی آبادی کے لئے ایک ایسا مصفٰے انسان چنا۔ جس کی اولاد نے اپنی نورانی شعاعوں سے آج تک دنیا کو روشن کر رکھا ہے۔ یہ شخص ایک بت پرست بلکہ بت ساز گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اور عراق کے شہر اُورکسدیم کا رہنے والا تھا۔ اس کے خاندان کے لوگوں کا گزارہ ہی بتوں کے چڑھاووں اور بت فروشی پر تھا۔

والد بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ اور چچا کی آغوش میں پلا تھا۔ جس نے اس کے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ اسے بھی بت فروشی کے کام پر لگا دیا۔

حقیقت سے ناآشنا چچا کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس دل کو خالق کون و مکان چُن چکا ہے اس میں بتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔

پہلے ہی دن ایک امیر گاہگ جو اپنی عمر کی انتہائی منزلیں طے کر رہا تھا اور تھا بھی مالدار بت خریدنے کے لئے آیا۔ بت فروش چچا کے بیٹے خوش ہوئے کہ آج اچھی قیمت پر سودا ہوگا۔ بوڑھے امیر نے ایک اچھا سا بت چنا۔ اور قیمت دینے ہی لگا تھا۔ کہ اس بچہ کی توجہ اس گاہگ کی طرف ہوئی اور اس سے سوال کیا۔ کہ میاں بوڑھے تم قبر میں پاؤں لٹکانے بیٹھے ہو۔ تم اس چیز کو کیا کرو گے۔ اس نے جواب دیا کہ گھر لے جاؤں گا۔ اور ایک صاف اورمطہر جگہ میں رکھ کر اس کی عبادت کروں گا۔ یہ سعید بچہ اس خیال پر اپنے جذبات کو نہ روک سکا۔ اور پوچھا تمہاری عمر کیا ہوگی۔ اس نے اپنی عمر بتائی۔ اور اس بچہ نے نہایت حقارت آمیز ہنسی ہنس کر کہا کہ تم اتنے بڑے ہو۔ اور یہ بُت تو ابھی چند دن ہوئے میرے چچا نے بنوایا ہے۔ کیا تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے شرم نہ آئے گی ؟ نہ معلوم اس بوڑھے کے دل پر توحید کی کوئی چنگاری گری یا نہ گری۔ لیکن اس وقت اس بُت کا خریدنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔ اور وہ بُت وہیں پھینک کر واپس چلا گیا۔ اس طرح ایک اچھے گاہک کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بھائی سخت ناراض ہوئے۔ اور اپنے باپ کو اطلاع دی۔ جس نے اس بچہ کی خوب خبر لی۔ یہ پہلی تکلیف تھی۔ جو اس پاک باز ہستی نےتوحید کے لئے اٹھائی۔ مگر باوجود چھوٹی عمراور کم سنی کے زمانہ کے یہ سزا جوش توحید کو سرد کرنے کی بجائے اسے اور بھی بھڑکانے کا موجب ہوئی۔ سزا نے فکر کا دروازہ کھولا۔ اورفکر نے عرفان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ یہاں تک کہ بچپن کی طبعی سعادت جوانی کا پختہ عقیدہ بن گئی اور آخر

اللہ تعالیٰ کا نور ذہنی نور پر گر کر الہام کی روشنی پیدا کرنے کا موجب ہوگیا۔ اس نوجوان کا نام ابرام تھا۔ جو بعد میں ابراہام یا ابراہیم بن گیا۔

جب خاندان کے لوگ اس کی توحید کی تعلیمات سے تنگ آگئے۔ تو انہوں نے اسے مشرک حکومت کے سامنے پیش کیا اور حکومت اور امراء نے طرح طرح کے ظلم اس پر توڑے۔ یہاں تک اسے

اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے پیارے وطن کو خیر باد کہہ کر کنعان کی سرزمین میں جو اس وقت فلسطین کا حصہ ہے آکر آباد ہونا پڑا۔

یہاں بھی تبلیغ توحید کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن ابھی تک یہ مقصد ظاہر نہ ہوا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ کیوں اور کس غرض سے اس دُوردراز ملک میں لایا ہے۔

حضرت ابراہیمؑ اور ان کی بیوی سارہؓ بھی جو اس وقت سری کہلاتی تھی۔ جس طرح ان کے خاوند اس وقت تک ا برام کہلاتے تھے۔ عرصہ تک اس ملک میں رہے۔ لیکن ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی نہ بیٹا نہ بیٹی۔ آخر ’’سری‘‘نے ابراہیمؑ سے کہا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں۔ میں چاہتی ہوں۔ کہ اس لونڈی کو جو مصر کے بادشاہ نے ہماری خدمت کے لئے دی ہے تو اپنی بیوی بنا۔ شائد اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں اولاد عطا کرے۔ یہ نیک اور پاکباز عورت جسے ’’سری‘‘نے لونڈی کہا۔ درحقیقت شاہ مصر کے خاندان کی ایک لڑکی تھی۔ اور اس نے ابراہیمؑ کی معجزانہ طاقتوں کو دیکھ کر ان کی دعاؤں کے حصول کی غرض سے ان کی خدمت کے لئے اسے ساتھ کر دیا تھا۔ اور اس کا نام ہاجرہؓ تھا۔ ابرام نے اپنی بیوی کی اس بات کو قبول کر کے ہاجرہؓ کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔ اور خدا تعالیٰ نے بڑھاپے میں ابرام کو ایک لڑکا دیا۔ جس کانام اس نے اسمٰعیلؑ رکھا۔ یعنی خدا نے ہماری دعا سن لی۔اس بیٹے کی پیدائش پر خدا تعالیٰ نے ابرام کا نام براہام کر دیا۔ کیونکہ اسے نسل کی فراوانی اور آسمانی برکت کا وعدہ دیا گیا تھا۔ ابراہام کا تلفظ عربی زبان میں ابراہیمؑ ہے۔ اس وجہ سے عبرانی لوگ انہیں ابراہامؑ اورعرب ابراہیمؑ کہتے ہیں۔ ’’سری‘‘جس نے خوشی سے ابراہیمؑ کو ہاجرہؓ کی بیوی بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ ہاجرہؓ کے بچہ جننے پر کچھ دلگیر ہوئی اور اس نے ہاجرہؓ اور اس کے بچہ کو تکلیفیں دینی شروع کیں۔ابراہیمؑ کے دل پر قدرتًا اس کا تکلیف دہ اثر ہوا۔ لیکن بیوی کی سابقہ خدمات اور اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ بلکہ کہا تو یہی کہ ہاجرہؓ تمہاری لونڈی ہے۔ تم جس طرح چاہو اس سے سلوک کرو۔آہ! ابراہیمؑ کو کیا معلوم تھا کہ یہ سب سامان کسی اور ہی غرض کے لئے ہیں۔ اور یہ سب واقعات ابراہیمؑ کے ترک وطن کے سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

ان ہی ایام میں جب اسمٰعیل ؑکچھ بڑے ہوگئے تھے۔ اور اپنے والد کے ساتھ دوڑ دوڑ کر چلا کرتے تھے۔

ابراہیمؑ نے ایک خواب دیکھا جو یہ تھا۔ کہ وہ اسمٰعیلؑ کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر رہے ہیں۔

اس زمانہ میں انسانوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ اور اسے خدا تعالیٰ کے فضل کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ابراہیم نے بھی خیال کیا۔ کہ اللہ تعالیٰ میرے اخلاص کا امتحان لیتا ہے اور جھٹ اپنے بڑھاپے کی اولاد کو قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔ اور بچہ سے محبت کے ساتھ پوچھا کہ تیری مرضی کیا ہے۔ بچہ گو چھوٹا تھا۔ مگر نور نبوت اُس کی پیشانی سے چمک رہا تھا۔ نیک باپ کی تربیت کی وجہ سے گو ابھی مذہب کی باریکیاں نہ سمجھ سکتا ہو لیکن اس قدر جانتا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ کےحکم کو نہیں ٹالنا چاہئے۔ جھٹ پٹ بولا۔ جس طرح چاہو۔ اللہ کے حکم کو پورا کرو۔ باپ نے آنکھوں پر پٹی باندھی۔ اور بیٹے کو ذبح کرنے لگا۔ مگر خواب کا مطلب درحقیقت کچھ اور تھا۔ اور اس کی تعبیرکسی اور طرح ظاہر ہونے والی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر الہام کیا کہ بس اب جانے دے۔

ہم تو اس بچہ کی نسل کے ذریعہ سے انسانوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔

تو اسے مارتا ہے۔ تیرا اخلاص ثابت ہوگیا۔ اب اس وقت اس کے بدلہ میں صرف ایک بکرا ذبح کر دے۔

کچھ دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’سری‘‘کو بھی ایک بیٹا دیا۔ اور اس کانام اسحٰقؑ رکھا گیا۔ جس کے معنی ہیں کہ خدا نے اس کے ذریعہ سے ابراہیمؑ کے خاندان کو ہنسایا۔ اسحٰقؑ کی پیدائش پر ’’سری ‘‘کا نام ‘‘سرہ’’ رکھا گیا۔ جسے عربی تلفظ میں سارہؓ کہتے ہیں۔ اور ’’ہا‘‘اس لئے بڑھائی گئی کہ عبرانی میں یہ ترقی اور برکت کی علامت ہے۔(باقی آئندہ جمعرات انشاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button