اسلام میں شوریٰ کی اہمیت
اسلام نہایت خوبصورت اور نفیس مذہب ہے۔ اسلام جہاں انسان کو پاکیزگی،تقویٰ طہارت، علم و حکمت اور تہذیب وتمدن سیکھاتا ہے وہیں پر باہمی مشورے کی اہمیت بھی بیان کرتا ہے۔ مشورہ درحقیقت اسلامی نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ مشورے کی اہمیت و افادیت کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ قرآن مجید میں’’ شوریٰ‘‘نام کی ایک سورۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو اپنے صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ عربی میں شوریٰ کے معنی اشارہ کرنا، مشورہ کرنا، اظہار رائے کرنااور غور و غوض کرنا ہے۔امت مسلمہ کا اہم امور پر آزادانہ رائے زنی کے ذریعے فیصلہ کرنے کے عمل کو شوریٰ کہا جاتا ہے۔ لفظ شوریٰ قرآن مجید میں تین مقامات پر وارد ہوا ہے اور ان تینوں مقامات پر انسانی زندگی کے نہایت اہم مسائل پربحث کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف اس لفظ کے معنی اور مفہوم کا تعین ہوجاتا ہےبلکہ اسلام میں مشورے کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ (١)وَالَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ۔ (الشوریٰ:٣٩) ترجمہ: اور جو اپنے ربّ کی آواز کو قبول کر لیتے ہیں اور نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور ان کا طریق یہ ہے کہ اپنے ہر معاملہ کو باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (ترجمہ از تفسیر صغیر ) یہ مکی سورۃ ہے اور مکہ میں اسلامی ریاست ابھی وجود میں نہیں آئی تھی (٢) سورۃالبقرۃ میں ہے: فَاِنْ اَرَادَ فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا (البقرہ:٢٣٤) ترجمہ: اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورہ کے ساتھ دودھ چھڑانا چاہیں تو (اس میں ) ان پر کوئی گناہ نہیں۔ (ترجمہ از تفسیر صغیر) (٣): وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (آل عمران: ١٦٠) ترجمہ:اور حکومت( کے معاملات) میں ان سے مشورہ(لیا) کر۔پھر جب تو (کسی بات کا) پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر توکل کر۔ (ترجمہ از تفسیر صغیر ) اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺکو مشورہ کرنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ آپﷺکو ان کے مشورے کی ضرورت تھی بلکہ اس میں حکمت تھی کہ امت کو مشاورت کی شان کا پتا چل جائے اور اس طرح آپ کے غلاموں کی دلداری اور حوصلہ افزائی بھی ہو اور امت مسلمہ کے لیے ایک اسوہ اور سنت قائم کرنا بھی مقصود تھا۔ آنحضرتﷺ نے امور دنیا اور معاملاتِ حکومت میں اہل اسلام سے مشورہ لینے اور کثرت رائے کا احترام کرنے کا حکم دیا۔حدیث نبویﷺ ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (ترمذی کتاب الجہاد باب ماجاء فی المشورۃ۔از حدیقہ الصالحین حدیث ٦٢٢صفحہ ٥٨٣،ایڈیشن ٢٠٠٦ء ) غزوہ بدر وہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہؐ نے اپنے اصحابؓ سے جنگ بدر کے لیے مشورہ طلب فرمایا۔ جب آنحضرتؐ نے مدینہ میں رہ کر یا مدینہ سے باہر جا کر جنگ لڑنے کے بارے میں مشورہ کیا تومسلمانوں نے اللہ کے رسولؐ کے سامنے مسجد نبویؐ میں دشمن سے لڑنے اور فداکاری کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا۔ جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و تائید سے فتح کامل حاصل ہوئی اور قریش کے ستّر افراد قتل اور ستر ہی گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔ اسیران بدر کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں رسول کریمﷺ نے پھر صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا جس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فدیہ کے عوض انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا جسے آپؐ نے قبول فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے امراء وہ ہوں گے جو تم میں سب سے بہتر ہوں گے، تمہارے مال دار لوگ سخی اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوں گے تو پھر تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہو گی (یعنی زندگی موت سے بہتر ہو گی) (مشکوٰۃکتاب الرقاق)
آنحضرتﷺکی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو بطور خلیفہ منتخب فرمایا۔آپؓ نے بھی مجلس شوریٰ کی حیثیت قائم رکھی۔ آنحضورﷺ کی وفات کے معاً بعد منکرین زکوٰۃ نے جب زکوٰۃ نہ دینے کا فتنہ کھڑا کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا بعض صحابہ نے مصلحت وقت کے مطابق زکوٰۃ معاف کر دینے کا مشورہ دیا تو حضرت ابوبکرؓ کی بے مثال عظمت نے اس کے برعکس فیصلہ کیا۔ بعدازاں حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے پورے دور خلافت میں مشاورتی نظام کم و بیش اسی طرح چلتا رہا۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد تک جو تقریباً تیس سال پر محیط ہے اراکین شوریٰ قرآن و سنت سے مکمل واقفیت، تقویٰ، فہم و فراست، عقل و تدبر، راست بازی اور اخلاص کی بنا پر رائے دینے اور مشورہ کرنے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشورہ ہمیشہ ایسے شخص سے کرنا چاہیے جس کو متعلقہ معاملے میں مکمل بصیرت اور تجربہ حاصل ہو۔ دینی معاملات میں ماہر اور عالم دین سے مشورہ کرنا چاہیے۔ تجربہ کے بغیر صرف عقل کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی بیک وقت عقل اور تجربہ دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اپنی رائے کو محض ایک معمولی رائے سمجھنا چاہیے نہ کہ حتمی فیصلہ۔ مشورے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں اجتماعی مشورہ کی سب سے پہلی مثال ١٨٩١ء کے جلسہ سالانہ پر دیکھنے کو ملی۔ ١٨٩٢ء کے جلسہ سالانہ پریورپ اور امریکہ میں دعوت الی اللہ کے لیے حاضرین جلسہ سے مشورہ لیاگیا۔١٩٠٧ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت احمدیہ کا پہلا مالیاتی بجٹ زیر بحث آیا۔ جماعت احمدیہ کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدی‘‘ اور مدرسہ احمدیہ میں دینیات کی شاخ بھی مشورہ کےبعد قائم ہوئی۔ خلافت اولیٰ میں ١٩٠٨ء کے جلسہ سالانہ پر ٢٦؍دسمبر کو مدرسہ احمدیہ جاری رکھنے کے بارے میں مشورہ ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’افسوس ہے کہ بعض لوگ پہلے مشورہ نہیں لیتے۔ مشورہ ایک بڑی بابرکت چیز ہے۔ اس پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ خود اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشورہ کیا کرے تو پھر دوسروں کے لیے یہ حکم کس قدر زیادہ تاکیدی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد٥ صفحہ٥٣٢،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ’’میرا مذہب ہے: لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ۔خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوریٰ نہ ہو‘‘۔ (منصب خلافت، انوار العلوم جلد ٢ صفحہ٢٥ )
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں شوریٰ کا نظام، منظم ہوا اور مجلس شوریٰ کا باقاعدہ قیام ایک ادارہ اور ایک انسٹیٹیوشن کے طور پر ١٦،١٥؍اپریل ١٩٢٢ء کو قادیان میں ہوا۔ اس اجلاس کے افتتاحی خطاب میں حضور نے شوریٰ کا لائحہ عمل تفصیل سے بیان فرمایا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’(١) خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (٢) اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فوراً رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو۔ پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے۔جیسے معاملات ہوں ان کے مطابق وہ غورکریں،سکیم بنائیں پھر اس پر غور کیا جائے۔ کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے۔ وہ تجاویز مجلسِ عام میں پیش کی جائیں اور ان پر گفتگو ہو۔
جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہیے یا یہ کمی کرنی چاہیے یا اس کو یوں ہونا چاہیے۔ تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کردے۔ ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں۔پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی۔ اس پر بحث ہو مگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے۔ اس بحث کو بھی لکھتے جائیں۔
جب بحث ختم ہو چکے تو اس وقت یا بعد میںخلیفہ بیان کر دےکہ یہ بات یوں ہو۔‘‘ (خطابات شوریٰ جلد اوّل صفحہ۱۶)
حضرت مصلح موعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’خلیفہ کا طریق حکومت کیا ہو؟ خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے۔ تمہیں ضرورت نہیں کہ تم خلیفہ کے لئے قواعد اور شرائط تجویز کرو یا اس کے فرائض بتاؤ۔ اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں قرآن مجید میں اس کے کام کرنے کا طریق بھی بتادیا ہے: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّھِ۔ایک مجلس شوریٰ قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو۔ پھر دعا کرو جس پر اﷲ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ۔ خواہ وہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو۔ تو خدا تعالیٰ مدد کرے گا۔‘‘ (منصب خلافت۔ انوارالعلوم جلد ٢ صفحہ ٥٦) حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سوانح فضل عمر جلد دوم میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ابتداء میں مستورات کی آراء معلوم کرنے کا کوئی علیحدہ انتظام نہ تھا لیکن ١٩٣٠ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲعنہ نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حسب ذیل طریق پر اہم مسائل پر عورتوں کی آراء معلوم کرنے کا طریق معیّن فرمایا:’’عورتوں کے حقِ نمائندگی کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں جہاں لجنہ اماء اﷲ قائم ہیں وہ اپنی لجنہ رجسٹرڈ کرائیں یعنی میرے دفتر سے اپنی لجنہ کی منظوری حاصل کرلیں۔ ان کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائے گا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جائے وہ رائے لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں۔ میں جب ان امور پر فیصلہ کرنے لگوں گا تو ان آراء کو بھی مدِنظر رکھ لیا کروں گا۔ اس طرح عورتوں اور مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہو گا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورتیں مشورہ دینے میں کہاں تک مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سنا دی جائیں گی۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ١٩٣٠ ء صفحہ١٢٧)
مجلس مشاورت میں لجنہ اماء اللہ کی بالواسطہ نمائندگی کا یہ طریق کار ١٩٨٢ء تک جاری رہا۔اس سے جلسہ سالانہ کے بعد ٣٠؍دسمبر ١٩٨٢ء کوحضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تحریک جدید نے ممالک بیرون کی جو ایک روزہ مجلس شوریٰ منعقد کی اس میں حضور نے بیرونی ملکوں کی بعض احمدی خواتین کو شوریٰ کی نمائندہ مقرر فرمایا اور انہوں نے شوریٰ سے براہ راست خطاب بھی کیا۔اور پھر ١٩٨٣ء کی مجلس مشاورت میں حضور رحمہ اللہ نے لجنہ اماء اللہ کی بعض ممبرات کو نہ صرف شوریٰ کی نمائندگی کے لیے نامزد فرمایا بلکہ انہیں مجلس مشاورت کے دوران مشورہ پیش کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ حضور رحمہ اللہ نے اس موقع پر احمدی خواتین کو شوریٰ کی نمائندگی کا حق تفویض کرنے کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔آپؒ نے فرمایا میں جماعت کے علم میں ایک بات لانی چاہتا ہوں کہ امسال لجنہ اماء اللہ کی نمائندگی کا طریق کار تبدیل کیا گیا ہے۔اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مجلس شوریٰ میں لجنہ اماء اللہ کا ایک نمائندہ مردوں میں سے ان کی آواز یہاں تک پہنچاتا تھا اور یہ نمائندہ رابطہ رکھنے کے لئے اگرچہ دشواری محسوس کرتا تھا مگر مستورات کی طرف سے مختصر چٹس آجاتی تھیں اور وہ چٹس لے کر جو کچھ بھی سمجھ سکتا تھا ان سے وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ (خدیجہ رسالہ صدسالہ جوبلی صفحہ نمبر ٦١)
آج اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے مجلس شوریٰ کا نظام عالمگیر بن چکا ہے۔ پوری شان وشوکت سے جماعتی اور تنظیمی سطح پر مجلس شوریٰ منعقد ہوتی ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلسِ شوریٰ کا ادارہ نظامِ جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ لَاخِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ کہ بغیر مشورے کے خلافت نہیں ہے۔ اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرتﷺ کے اُسوہ کے عین مطابق ہے۔ آپﷺ صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جو اکثریت رائے کا مشورہ ہو اسے قبول بھی کرنا ہے اس لئے وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے مطابق یا اسے رد کرتے ہوئے، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو، کیونکہ بعض دفعہ حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہو تا اس لئے مشورہ ردّ بھی کرنا پڑتا ہے۔ تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہو جائے۔ پھر اﷲ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ٢٤؍مارچ ٢٠٠٦ء۔ الفضل انٹرنیشنل ١٤ تا ٢٠؍اپریل ٢٠٠٦ء)
مشیر کا کام صرف مشورہ دینا ہوتا ہے اصرار یا رائے تھوپنے کا مزاج درست نہیں۔ مشورہ طلب کرنے والا مشورے میں شریک تمام افراد کی رائے اور خیالات پرعمل نہیں کرسکتا۔اور شوریٰ میں شامل بعض افراد ایسے بھی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا نہیں کرتے۔ فقط شوریٰ کا ممبر ہونا ہی کافی نہیں ایسے ہی شوریٰ کے ممبران کو توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :شوریٰ کی نمائندگی ایک سال کے لیے ہے اور اس عرصہ میں انتظامیہ سے تعاون بھی کرنا ہے اور فیصلوں پر خود بھی عمل کرنا ہے اور کروانا بھی ہے۔ اس بات کے حصول کے لیے ہمیشہ یہ نگرانی کرتے رہیں کہ آپ کی جماعت میں اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں یا کس حد تک ہو رہا ہے اور اس کے مطابق عمل ہو رہا ہے جس طرح خلیفۂ وقت نے فیصلہ دیا تھا؟
پس اس طرح آپ نے خلیفۂ وقت کے مددگار بننا ہے۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جماعتوں میں جا کر فیصلے عہدیداروں کی سستیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو فیصلے ہوتے ہیں ان پر عمل نہیں ہو رہا ہوتا۔ پس ایسی صورت میں نمائندگان کا کام ہے کہ صرف افرادِ جماعت کو ہی توجہ نہیں دلانی بلکہ عہدیداروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانی ہے اور اگر پھر بھی توجہ پیدا نہیں ہو رہی اور اس تجویز پر اس طرح عمل نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہیے تو پھر مرکز کو لکھیں۔ اسی طرح بہت سے عہدیدار بھی شوریٰ کے ممبر ہوتے ہیں۔ ان کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ اپنے شعبہ کے کام کو دیکھ لیں بلکہ شوریٰ کی تجاویز اور ان پر خلیفۂ وقت کے فیصلے پر عدم تعمیل ہونے اور عملدرآمد نہ ہونے کو بھی انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اور چاہے ان کا اپنا شعبہ ہے یا کسی دوسرے کا، متعلقہ عہدیدار اور امیر کو توجہ دلانی چاہیے اور عاملہ میں بھی یہ معاملہ رکھنا چاہیے ورنہ پھر ایسے عہدیدار بھی اور ایسے نمائندے بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے۔ اس دنیا میں تو بعض بہانے بنا کر بچ جائیں گے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ امانتوں کے ادا کرنے کے بارے میں پوچھے گا۔ پس بہت فکر کا مقام ہے۔ اس بات پر ہمیں فخر نہیں کرنا چاہیے کہ ہم شوریٰ کے نمائندے ہیں یا عہدیدار ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کی ہر ایک کو فکر کرنی چاہیے۔ (خطبہ جمعہ ١٢؍ مئی ٢٠٢٣ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوئی اور آج اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جماعت اپنے پانچویں خلیفہ کے زیر سایہ دنیا میں دن بدن ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی جارہی ہے اور جماعت میں شوریٰ کا نظام بھی خدا کے فضل سے شب وروز مستحکم اور ترقی کی طرف گامزن ہوتا جارہا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول بڑی شان و شوکت کے ساتھ پورا ہورہا ہے کہ ’’…وہ دن آنے والا ہے جب احمدیت کے کاموں میں حصہ لینے والے بڑی بڑی عزتیں پائیں گے لیکن ان لوگوں کی اولادوں کوجو اس وقت جماعتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے دھتکار دیا جائے گا۔جب انگلستان اور امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتیں مشورہ کے لئے اپنے نمائندے بھیجیں گی اور وہ اسے اپنے لئے موجب عزت خیال کریں گے، اس وقت ان لوگوں کی اولاد کہے گی کہ ہمیں بھی مشورہ میں شریک کرو لیکن کہنے والا انہیں کہے گا کہ جاؤ، تمہارے باپ دادوں نے اس مشورہ کو اپنے وقت میں رد کردیا تھا اور جماعتی کاموں کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی اس لیے تمہیں بھی اب اس مشورہ میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔پس اس غفلت کو دور کرو اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ جو شخص سلسلہ کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے اس پر اس قدر انعام ہوتا ہے کہ امریکہ کی کونسل کی ممبری بھی اس کے سامنے ہیچ ہےاور اسے سو حرج کر کے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونا چاہیے اگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا لیکن وہ خود الٰہی انعامات سے محروم ہو جائے گا۔‘‘(خطابات شوریٰ جلدسوم صفحہ ٦٠۲۔٦٠۳ مجلس مشاورت ١٩٥٦ء) انسان نہ ہی عقل میں کامل ہے اور نہ ہی پوری بصیرت کا حامل ہے۔انسانوں میں انفرادی، اجتماعی معاملات میں کمی اور کوتاہی فطری عمل ہے۔ ان بنیادی کمزوریوں کودور کر نے اور انفرادی اجتماعی زندگی کو بہتر گزارنے کے لیے اسلام نے جو ہدایت اور احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرکے بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے اور صحیح سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے۔ آمین