حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران نیشنل عاملہ مجلس انصاراللہ کینیڈا کی ملاقات

مورخہ۱۹؍مئی ۲۰۲۴ءکو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کینیڈاسے تشریف لانے والے ممبران نیشنل مجلس عاملہ انصار الله کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی جنہوں نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےکینیڈاسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

السلام علیکم کہنے کے بعد حضور انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ ملاقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بعدازاں تمام اراکینِ مجلس عاملہ کو اپنا تعارف کروانے اور اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے حضور انور سےشرف گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔

سب سے پہلے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وینکوور(Vancouver) سے کون آیا ہے؟حضورانور نے وہاں لگنےوالی آگ کی بابت استفسار فرمایا کہ کیا کوئی احمدی اس سے متاثر ہوا ہے؟

بعدازاں حضور انور قائدعمومی کی جانب متوجہ ہوئے اور مجالس کی تعداد اور اُن کی رپورٹس کی صورتحال کے حوالے سے استفسار فرمایا۔ موصوف نے عرض کیا کہ مجالس کی کُل تعداد۱۱۶؍ ہے۔ نناوے فیصد کی جانب سے رپورٹس باقاعدگی سے موصول ہوتی ہیں اور کُل تجنید۶۷۲۱؍ انصار پر مشتمل ہے۔

حضور انور نے نائب قائد تربیت سے دریافت فرمایا کہ حقیقی تربیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا منصوبے بنائے گئے ہیں؟ اس پرموصوف نے عرض کیا کہ آپ سے ہونے والی گذشتہ ملاقات کے بعد سے نماز کی اہمیت پر خاص زور دیتے ہوئے مسلسل یاددہانیوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، سال کے آغاز میں گھر وں کے دَورہ جات کو پلان میں شامل کیا گیا تھا جس کے تحت کُل ۳۸۴۶؍ انصار سے ملاقات کرنا ممکن ہو سکا تاکہ ان کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کیا جا سکے۔ یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے انہیں خدا کے ساتھ بھی ذاتی تعلق قائم کرنے کی ہدایت کی یا نہیں؟

بایں ہمہ ممبرانِ انصار الله کو پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی اور اِس کی اہمیت کی جانب توجہ دلاتے ہوئےحضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کی مسجد میں فجر کی نماز پر کتنی حاضری ہوتی ہے ؟اس پر موصوف نے عرض کیا کہ weekdays میں آٹھ سے دس افراد ہوتے ہیں لیکنweekendsپر تقریباً اسّی سے سَو کے درمیان حاضری ہو جاتی ہے۔مزید نماز مغرب و عشاء کی حاضری کی بابت دریافت فرمانے پر حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مغرب اورعشاء پر تقریباً پندرہ سے بیس لوگ ہوتے ہیں۔

اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آجکل لمبے دن ہوتے ہیں، لوگ کام سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں، انصار میں سستی ہے تو باقی کیا حال ہو گا؟ انصار کی تربیت کریں گے تو ان کی اگلی نسلوں کی تربیت ہو گی، انصار کی تربیت نہیں ہو گی تو نسلوں کی تربیت بھی نہیں ہوگی، یہ بہت ضروری ہے۔

حضور انور نے قائد مال سے مخاطب ہوتے ہوئے بجٹ کے حوالے سے مختلف امور پر گفتگو فرمائی نیز تلقین فرمائی کہ جب انصار اپنا چندہ اور بجٹ لکھواتے ہیں تو انہیں کبھی بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔موصوف نے عرض کیا کہ انصارسے بجٹ توcollectکرتے ہیں اور بار بار یاددہانی بھی کروائی جاتی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہماری income یہی ہے۔اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ان سے کہیں یہ نہ کہو کہ تمہاری income یہ ہے ،یہ کہو کہ میں اتنا چندہ دے سکتا ہوں، کم از کم جھوٹ تو نہ ہو۔بجٹ لکھواتے ہوئے نہ جھوٹ بولیں، نہ چندہ دیتے ہوئے جھوٹ بولیں، غلط بیانی نہ کریں۔ پیسوں کی خاطر غلط بیانی کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ جو وہ کہتے ہیں ہم اتنا چندہ دے سکتے ہیں، ٹھیک ہے ، قبول کر لیں۔ ٹھیک ہے، تم اتنا دے سکتے ہو، تمہارے سے ہم اتنا ہی لے لیں گے لیکن یہ نہ کہو کہ ہماری آمد اتنی ہے۔

حضور انور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ جتنا چندہ کوئی دے سکتا ہے، وہ دے، لیکن غلط بیانی نہ کرے۔یہ عادت ڈالیں، سچائی کی عادت ڈال دیں اور یہ تربیت کا کام ہے۔ جتنی کوشش آپ مال میں کرتے ہیں یا چندہ لینے کے لیے کرتے ہیں، اتنی کوشش تربیت والے اگر کریں تو باقی مسائل بھی حل ہو جائیں۔ آپ عشرہ مال تو مناتے ہیں ،عشرہ تربیت اتنا نہیں مناتے اور صرف پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ چندہ دو ۔ کبھی پیچھے نہیں پڑے کہ نماز پڑھو،قرآن پڑھو اور حدیث پڑھو نیز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب پڑھو۔

حضور انور کی خدمت میں قائد تعلیم نے مطالعہ کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے انصار میں پائی جانے والی سستی کا تذکرہ کرتے ہوئے راہنمائی طلب کی کہ کس طرح سے اس کو دُور کیا جا سکتاہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اگر پوری کتابیں نہیں پڑھ سکتے تو جن کو انگریزی پڑھنی آتی ہے ان کو Essence of Islam اور جن کوانگریزی نہیں پڑھنی آتی ان کو مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی تحریروں کی رُو سے پڑھنی چاہیے، وہ ان کو دیں، مختلفtopics میں سےجو دلچسپی کےtopic ہیں وہ پڑھیں۔ اسی سے کافی معلومات مل جائیں گی، پوری کتاب نہیں بھی پڑھ سکتے تو آسان اردو میں ملفوظات ہیں ، ان کو پڑھنے کی توجہ دلائیں۔

چشمۂ معرفت کا وہ حصہ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ میں تقریر کی تھی ،وہ حصہ خاص طور پرپڑھائیں، پھر جو اعتراض کے جواب میں پہلا حصہ ہے وہ بعد میں پڑھائیں۔ اس کے ستّر سے پچہتر صفحات ہیں۔ چشمۂ معرفت کی تقریر کا وہ حصہ پڑھائیں، اس میں بہت ساری باتوں کے جواب بھی مل جاتے ہیں، اس سے آج بھی بہت سارےcontemporary issues کے جواب مل جاتے ہیں ۔ آپ نے مربیان اتنے رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد لیں ۔

اسی طرح حضور انور نے موصوف سے دریافت فرما یا کہ آیا وہ مربی ہیں؟ موصوف کے نفی میں جواب پر حضور انور نے فرمایا کہ ہر ناصر مربی ہوتا ہے، پہلے گھر میں مربی بنیں ، پھر اپنے ماحول میں بنیں ، پھر علاقے میں بنیں اور ملک میں بنیں۔حضور انور نے مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تربیت اور تعلیم یہ دونوں شعبہ جات active ہو جائیں تو مال کے شعبہ جات ، تحریک جدید، وقف جدید اور جتنی قربانیاں کرنے والے ہیں ، یہ خود بخود active ہو جاتے ہیں ۔

بعد ازاں حضور انور نے ممبران مجلس عاملہ کوعمومی ہدایات سے بھی نوازا اور بحیثیت جماعتی عہدیدار ان کی ذمہ داریوں کی طرف انہیں توجہ دلائی۔

حضور انور نے فرمایا کہ سچائی پر قائم رہیں۔ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم پڑھیں، تلاوت کریں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں ، ان کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر پوری کتابیں نہیں بھی پڑھ سکتے تو کم از کم کتابوں کی شکل میں مختلف عناوین کے تحت اکٹھے کیے گئےمضامین کو ہی پڑھنا شروع کریں، وہی عادت ڈال لیں اور سچائی پر قائم رہیں، خدمتِ خلق کریں، گھروں میں تربیت کی طرف توجہ دیں اور اپنے نمونے قائم کریں۔ گھروں میں اپنے نمونے قائم کریں گے تو ماحول کو بھی بہتر کرنے والے ہوں گے۔ یہ چار، پانچ پوائنٹ ہیں جن پر آپ کو عمل کرنا چاہیے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ انصار الله کے اجتماع پر آپ لوگ یہاں آئے ہوئے تھے تو بڑے فخر سے آپ نے کہا تھاکہ ہمارے پینتیس فیصد انصار نمازیں پڑھتے ہیں۔ تو یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ پینتیس فیصد انصار نماز پڑھتے ہیں یا باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ جن کے گھرسینٹر سے دُور ہیں وہ کم از کم گھروں میں باجماعت نماز کا رواج ڈالیں، بیوی بچوں کو نماز پڑھا لیا کریں، اس سے ایک باجماعت نماز کا احساس تو پیدا ہو گا۔

بعدازاں ممبران مجلس عاملہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے اور اپنے شعبہ جات کے حوالے سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔

قائد ذہانت وصحت جسمانی نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ شعبہ تبلیغ کے ساتھ مل کر اپنے انصار کے eventsمیں غیر از جماعت دوستوں کو لے کر آئیں اور ان میں سپورٹس ایونٹس کروائیں، اس سلسلے میں حضور انور اگر کچھ مزید راہنمائی فرما دیں؟

حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ انصار صرف سپورٹس کے لیے نہ آئیں بلکہ آگے پھر ان کی جماعت سے attachmentبھی ہو، انصار کی عمر تو ایسی عمر ہے کہ اس میں تو اگلے جہان کی زیادہ فکر ہو جاتی ہے ، یہ احساس پیدا کریں ۔

حضور انور کے صفِ دوم کے انصار کی کُل تعداد اور ان میں سے ورزش کرنے والوں کی بابت دریافت فرمانے پر نائب صدر برائے صفِ دوم نے عرض کیا کہ صفِ دوم کے انصار کی کُل تعداد۳۴۰۰؍ہے اور ان میں سے ۱۴۰۰؍ انصار کے پاس سائیکل ہے اور سائیکلنگ کے پروگرام بنائے جاتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سائیکل گھر میں ،shelfمیں سجا کر رکھا ہوا ہے ، اس کا فائدہ کیا ہے؟ اس تبصرہ پر تمام شاملین مجلس بھی خوب محظوظ ہوئے۔ موصوف سے مخاطب ہوتے ہوئےحضور انور نے استفسار فرمایا کہ وہ کام پر کیسے جاتے ہیں نیز تلقین فرمائی کہ جہاں تک ممکن ہو سائیکل پر ہی جانا چاہیےاور وہ خود کوشش کریں کہ اپنا نمونہ دکھائیں۔

سائیکل سفر کی بابت دریافت فرمانے پر موصوف نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ پچھلے ہفتے ہم نے کینیڈا بھر کی سطح پرسائیکل سفر کا اہتمام کیا تھا، جس میں ماشاء الله ۵۰۰؍سے زائد انصار نے شرکت کی ۔حضور انور کے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ چونکہ بعض انصار شامل نہیں ہوتے، اس لیے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم پانچ سے پندرہ کلومیٹر کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔

اس پر حضور انور نے مجلس انصار اللہ یوکے کے ایک سائیکل گروپ کی مثال بیان فرمائی جنہوں نے حال ہی میں سپین جا کر سائیکل سفر کیا۔

حضور انور نےفرمایاکہ یہاں سے پچاس سائیکلسٹ گئے تھے اور وہاں کے دوسرے سائیکلسٹ جو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے، وہ بھی ان میں شامل ہو گئے اور اس طرح سپین میں تبلیغ کا ایک ذریعہ بھی بن گیا۔ وہ ۲۵۰ سے ۳۰۰؍ کلو میٹر سفر کر کے آئے ہیں۔ اس طرح کا ایک علیحدہ eventرکھا کریں۔

حضور انور نے مزید توجہ دلائی کہ جن کوencourageکرنا ہے ان کو علیحدہ رکھیں اور جو اچھے سائیکلسٹ ہیں ، ان کا علیحدہ گروپ بنائیں۔ اس کو تبلیغ کا ذریعہ بھی بنائیں۔ یوکے کے گروپ نے وہاں جا کےپھر لٹریچر بھی تقسیم کیا ، تبلیغ بھی کی، دوسرے لوگ بھی شامل ہوئے۔جاپان ، ادھر ادھر سے لوگ باہر کے سیّاح آئے ہوئے تھے ۔ جو وہاں کی سائیکلنگ ایسوسی ایشن تھی ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان کے ساتھ مزید پچاس، ساٹھ اور لوگ ملا دیے ۔ اس کے بعد انہوں نے پیدرو آبادسے قرطبہ تک کا سفر اختیار کیا، اس کے علاوہ بھی سفر کیا، اس سے تبلیغ کا رستہ بھی کھل گیا۔ تو مقصد ایک یہ بھی تھا کہ جہاں آپ کی صحت اچھی ہو ،وہاں تبلیغ کے راستے بھی کھلیں۔

اپنے کام کے نظریے کوذرا وسیع کریں ۔ صرف محدود چھوٹا سا نہ رکھیں کہ بس ہم نے پانچ کلومیٹر سائیکل چلا لیا ہے تو بہت تیر مار لیا یا میں نے ایک گھنٹہ سائیکل چلا لیا تو بہت کچھ ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے کتنےقائدین سائیکل چلاتے ہیں؟ ان کی صحت بھی اچھی ہو اور پھر ان کو دیکھ کے باقیوں کوبھی encouragement ہو۔

حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ انصار میں پہنچ کر یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے، ہماری personality تب بنتی ہے، جتنا ہمارا پیٹ بڑا ہو۔ اس پر تمام شاملینِ مجلس نے بھی خوب حظ اٹھایا۔ حضور انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ اس تصور کو ختم کریں کہ میں بزرگ اور بوڑھا نظر آؤں ، بوڑھا نظر نہیں آنا چاہیے، جوان نظر آنا چاہیے۔ آپ تو جوانوں کے جوان ہیں، انصار اللہ اس لیے بنائی گئی تھی ۔

تجنید کے متعلق راہنمائی طلب کی گئی کہ کچھ لوگ اپنے گھر کے پتے کی بجائے اپنے کام یا کاروبار کا پتہ درج کرتے ہیں، جس سے الجھن پیدا ہوتی ہے اور ان سے رابطہ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

حضور انور نے اس کی بابت وضاحت فرمائی کہ گھر کا پتہ تجنید میں درج ہونا چاہیے، چاہے وہ کہیں بھی کام کرتا ہو، جہاں کوئی شخص رہائش پذیر ہو، وہاں کی تجنید میں شامل ہونا چاہیے۔

قائد ایثار جو فلاحی کاموں کی نگرانی کرتے ہیں، انہوں نے اپنے شعبےکی مساعی کی بابت تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امسال شعبہ کی توجہ زیادہ سے زیادہ انصار سے رابطہ برقرار رکھنے اور مضبوط تعلق اُستوار کرنے پر مرکوز رہی اور اس کا کافی حوصلہ افزا اَور مثبت فیڈ بیک بھی ملا۔ نیز عرض کیا کہ شعبہ کس طرح دوسرے انصار بھائیوں سے رابطہ قائم کر کے انہیں تحائف بھجواتا اور ان کا حال احوال بھی معلوم کرتا ہے ۔

اس پر حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ قائد ایثار کا کام یہ تحریک کرنا ہے کہ تم لوگ چیریٹی میں دو، یہ نہ کہو کہ ہمیں دو۔ لوگ تمہارے سے زیادہ غربت کی حالت میں ہیں، ان کے لیےصدقہ بھیجو اور چیریٹی میں دو۔ مختلف تنظیمیں ہیں، ہیومینٹی فرسٹ کو دے سکتے ہیں، لوکل چیریٹیز کو دے سکتے ہیں، انٹرنیشنل چیریٹیز کو دے سکتے ہیں۔

ان کو کہیں کہ ہم اپنے لیے نہیں مانگ رہے ،جماعت کے لیے نہیں مانگ رہے بلکہ ان غریبوں کے لیے مانگ رہے ہیں جو افریقہ میں بیٹھے ہیں، ان کے لیے مانگ رہے ہیں جو کسی اور غریب ملک میں بیٹھے ہیں۔ ان کو پانی مہیا کرنا ہے ،ان کو خوراک مہیا کرنی ہے یا فلسطینیوں کوaidدینی ہے اور جو جو بھی ایڈ ایجنسیاںفلسطینیوں میں خوراک ، کپڑا اور پانی مہیا کر رہی ہیں، ان کے لیےدینا ہے، تو تم لوگ ان کے لیے دو۔ اور یہ عمر ایسی ہے جہاں تم لوگ خیرات و صدقہ کی طرف توجہ کرو گے تواللہ تعالیٰ بھی تمہارے سے نیک سلوک کرے گا، اس کے بعد تو پھر اگلا جہان ہی ہے، تو اس طرف ان کو توجہ دلائیں۔ صرف تحفے دے کے ان کو خوش کر لینا تو کافی نہیں ہے، ہم نے دوسروں کی خدمت کرنی ہے، ایثار کا کام اپنوں کی خدمت کرنا نہیں ہے۔

قائد تبلیغ نے اپنے شعبہ کی کارگذاری کی تفصیل پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ انفرادی تبلیغی سیشنز بھی منعقد کروائے جا رہے ہیں۔

حضور انور نے تبلیغ کے ٹارگٹ کے حوالے سے استفسار فرمایا تو موصوف نے عرض کیا کہ امسال سو بیعتوں کا ٹارگٹ ہے اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے بتیس بیعتیں ہو چکی ہیں۔اس تناظر میں کینیڈا کی کُل آبادی کی بابت دریافت فرمانے پر حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کُل آبادی تقریباً بیالیس ملین ہے۔اس پر حضور انور نے استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ سو ۱۰۰آدمی کے حساب سے پھر آپ کوکتنے سو سال لگیں گے؟حضور انورکے استفسارپر قائد تبلیغ نےعرض کیا کہ تقریباً ۲۵؍ہزار (leaflets) تقسیم ہوئے ہیں۔

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟جب میں نے آپ کو سکیم دی تھی، اس وقت سے اب تک ملک کی دس فیصد آبادی کو اگرلیف لیٹس دیتے تو بیالیس ملین میں سے چار اعشاریہ دو ملین تک پیغام چلا جانا تھا۔

تعارف تو ہوتا کوئی نہیں، آپ دو تین سیاستدانوں سے مل کے، وزیراعظم کے آگے پیچھے پھر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا۔ لوگوں تک پہنچنا بھی ضروری ہے۔ صرف بڑے بڑے طبقوں اور حلقوں تک نہ جائیں۔

اس دفعہ بھی انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ سیاستدانوں کو جلسہ پر بلائیں یا نہ بلائیں۔میں نے کہا تھا کہ جلسہ جماعت کی تربیت کے لیےایک eventہوتا ہے۔ اپنے پروگراموں کو تربیت اور تبلیغ پر فوکس کریں اور لوگوں میں اس طرح ایک جذبہ پیدا کریں کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے، کیونکہ زیادہ توجہ پھر اسی طرف ہوتی ہے۔ نہ عورتیں توجہ دے رہی ہوتی ہیں، نہ مرد توجہ دے رہے ہوتے ہیں، صرف یہ ہوتا ہے کہ واہ واہ! آج ہمارے پاس فلاں منسٹر آ گیا ہے۔فلاں سیاستدان آ گیا۔فلاں وزیراعظم آ گیا۔ اس نے یہ تقریر کر دی اور اخبار میں ہماری کوریج ہوگئی۔ کوریج تو کمال نہیں ہے۔ کمال تو وہ ہے کہ ہم نے اپنی تربیت کتنی کی ہے، اپنوں کو کتنا سنبھالا ہے، یہ چیز ہے۔ یہ شعبہ تربیت، شعبہ تبلیغ اور مربیان سب کے مل کر کرنے کا کام ہے۔

حضور انور نے لازمی چندہ جات کے ساتھ ساتھ تنظیمی چندہ جات کی اہمیت پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے زور دیا کہ چندہ عام، چندہ وصیت، اور چندہ جلسہ سالانہ جیسے چندہ جات لازمی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ذیلی تنظیموں جیسے کہ مجلس انصار اللہ کے مقرر کردہ چندہ جات بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، ان کو تنظیمی چندہ جات کہا جاتا ہے، جو مجلسِ شوریٰ میں منتخب نمائندگان کے ذریعہ مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ نمائندے اپنی تنظیموں کی طرف سے مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں، نتیجۃً متعلقہ ذیلی تنظیموں کے اراکین بھی ان چندوں کی ادائیگی کے پابند ہوتے ہیں۔

آخر پر معاون صدر نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم باقاعدگی سے دنیا کے حالات بہتر ہونے کےلیے یا جنگ نہ ہونے کےلیے دعا کرتے ہیں۔ کیا غلبۂ اسلام کسی بڑی جنگ یا عالمی جنگ کے ساتھ مشروط ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مشروط تو کہیں نہیں ہے۔ کہاں لکھا ہوا ہے کہ مشروط ہے! اگر یہی حالات رہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اگر لوگوں نے اپنی حالت کو نہ بدلا تودنیا میں تباہیاں آئیں گی۔یہ تقدیر ایسی ہے جو ہماری دعاؤں سے بدلی جا سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ قدرت رکھتا ہے کہ بغیر بڑی بڑی آفات کے بھی اگر دنیا حالت بدل لے، جو عموما ًتاریخ یہ ثابت کرتی ہے اور دنیا کے حالات بھی یہ بتا رہے ہیں کہ مشکل ہی لگتا ہے کہ حالت بدلے۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ کوئی تباہی آئے یا جنگ ہو۔ اس کے بعد لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع پیدا ہو۔ اس لیے میں کہتا ہوں پہلے اپنا تعارف کروائیں۔ ابھی تک تو آپ نے بیالیس ملین کی آبادی میں صرف پچیس ہزار لٹریچر تقسیم کیا ہے تو اس سے آپ نے دنیا کو کیا بتانا ہے؟

دنیا کو بتائیں کہ یہ تباہی آ سکتی ہے، تم لوگ خدا کی طرف رجوع کرو اور یہی بچنے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ بعد میں اگر وہ احمدی نہیں بھی ہوتے تو ان کو یہ احساس پیدا ہو کہ ہاں! کچھ لوگ ایسے تھے جو ہمیں اس طرف بلایا کرتے تھے۔جب تباہیاں آئیں، اس کے بعد جولوگ بچ جائیں، ان کا رجوع پیدا ہو اور وہ پھر آپ کی طرف آئیں ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا کام اپنا تعارف کروانا اور لوگوں کو پیغام دینا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی تباہی سے بچنے کی دعا کی ہوئی ہے بلکہ طاعون کے دنوں میں بھی آپؑ نے دعائیں کی ہوئی ہیں، بہت دعائیں کی ہیں، گڑ گڑا کے دعائیں کی ہیں۔ تو اصل تو یہی ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ تباہی کے ساتھ ہی یہ چیزیں مشروط ہو جاتی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ تباہی نہ آئے اور اس کے بغیر حالات بدل جائیں۔ اس لیے ہمارا کام یہ ہے، جو کوشش ہے، اس کے ذریعہ سے پیغام پہنچائیں اور ساتھ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تباہی سے دنیا کو بچا بھی لے۔لیکن پھر بھی اگر لوگ نہیں مانتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جو غالب آنی ہے ، وہ تو آنی ہے۔

ملاقات کے اختتام پر مجلس عاملہ کے ممبران کو حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف حاصل ہوااور یوںیہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button